ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کاعید غدیر کے موقع پرعوام کے مختلف طبقات سے خطاب

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

سب سے پہلے میں تمام حاضرین ، اپنے ملک کے مؤمن عوام اور اسلامی دنیا کی خدمت میں عید غدیر کی تبریک و تہنیّت پیش کرتا ہوں ، عید غدیر شیعیان اہلیبیت علیہم السّلام کی ایک اہم پہچان ہے ،اہل تشیّع نے صدیوں سے اس دن کی یاد اور اس واقعے سے اپنی شناخت بنا رکّھی ہے ؛آپ تمام خواتین و حضرات ، بالخصوص دور دراز شہروں سے طولانی مسافت طے کر کے اس محفل میں شریک ہونے والوں ،اور شہداء کے خاندانوں کو بھی عید غدیر کی مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔

غدیر کا مسئلہ ان مسائل میں سے ہے جس پر غور و فکر کرنے سے عصر حاضر میں ،ہمارے ملک وقوم اور امّت مسلمہ کی صحیح راستے کی رہنمائی میں خاطر خواہ مدد مل سکتی ہے ۔میں غدیر کے سلسلے میں دو تین نکتے آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں ۔

ایک نکتہ خود غدیر خم کا واقعہ ہے ۔ایک ایسے دور میں جب عالم اسلام کی سرحدیں نسبتا کافی پھیل چکی تھیں ،سب لوگوں نے ایک بہت ہی اہم واقعہ کو رو نما ہوتے ہوئے دیکھا ، اور وہ واقعہ ، امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السّلام کی خلافت اور جانشینی کے اعلان کا واقعہ تھا ۔ غدیر خم کے واقعے کو صرف شیعہ حضرات نے ہی نہیں نقل کیا ہے بلکہ برادران اہلسنّت کے بہت سے محدّثوں اور بزرگوں نے بھی اس واقعہ کو نقل کیاہے ، البتّہ اس مسئلے کے بارے میں ان کی سوچ ،ان کا ادراک تھوڑا مختلف ہے ، لیکن اصل واقعہ ،سبھی مسلمانوں کے نزدیک مسلّم ہے اور اس سے کسی کو انکار نہیں،خلافت اور جانشینی کے اعلان کے واقعے سے جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی زندگی کے آخری ایّام میں ( آپ کی رحلت سے تقریبا ستّر دن پہلے) پیش آیا، اسلام کے نقطہ نظر سے حکومت و سیاست ، اور امت اسلامیّہ کی زمام داری کے مسئلے کی اہمیّت بخوبی واضح ہو جاتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ امام امّت رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اور ان کے پیشرو فقہاء ، دین و سیاست کے اتّحاد ، دین میں حکومت کے مسئلے پر اس قدر زور دیا کرتے تھے ، ان کی اس تاکید کی بنیاد ، اسلامی تعلیمات اور غدیر خم کا یہ عظیم درس تھا ، جس سے اس موضوع کی اہمیّت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ہم شیعیان اہلبیت (ع) اور بہت سے غیر شیعہ حضرات کو جو غدیر خم کے واقعے سے حکومت اور زمام داری کے معنا اور مفہوم کو اخذ کرتے ہیں ، انہیں تاریخ اسلام کے ہر دور میں ، حکومت و حاکمیّت کے مسئلے کو ایک بنیادی ، اہم اور اسلام کی سب سے پہلی ترجیح کے طور پر دیکھنا چاہئیے ؛حکومت اور حاکمیّت کے مسئلے کو ہر گز نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔تجربات بتاتے ہیں کہ عوام کی گمراہی اور ہدایت میں حکومتوں کا کردار انتہائی اہم ہے ،اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام میں ، خواہ وہ اس کا بنیادی آئین ہو یا دیگر اصول و معارف ہوں ، اسلامی ملک کے نظم و نسق اور اس کی انتظامیّہ پر اس قدر تاکید کی بنیادی وجہ ، وہ خصوصی توجّہ ہے جو اس سلسلے میں ، اسلام میں پائی جاتی ہے ، اس نکتے کو بھی نظر انداز نہیں ہونا چا ہئیے ۔

اس مسئلے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرا نکتہ یہ ہے کہ واقعہ غدیر میں ، پیغمبر اسلام (ص) نے امیر المؤمنین حضرت علی (ع) کو اپنے جانشین کے طور پر متعارف کرایا ، لیکن یہاں سب سے اہم بات یہ ہے کہ آخر وہ کون سی خصوصیّات تھیں ، جو امیرالمؤمنین میں اس دور میں ، اور اس کے بعد کے دور زندگی میں نمایاں تھیں ؟وہ خصوصیّات ہمارے لئیے معیار ہیں ، امیرالمؤمنین علی (ع) کی سب سے نمایاں اور پہلی خصوصیّت یہ تھی ، کہ ہمیشہ خوشنودی پروردگار کے تابع تھے ، صراط مستقیم پر گامزن تھے ، اور اس راہ میں بڑی سے بڑی مشکل اور دشوار ی کو خندہ پیشانی سے برداشت کرتے تھے اور کسی بھی کوشش اور قربانی سے ہر گز دریغ نہیں فرماتے تھے ؛ یہ امیر المؤمنین کی سب سے نمایاں خصوصیّت تھی ۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السّلام وہ شخصیّت ہیں ، جن کی زندگی کا ہر لمحہ عہد طفولیّت سے لے جام شہادت نوش کرنے تک، خدا اور راہ خدا کے لئیے وقف تھا ، اس دوران آپ نے ایک لمحے کے لئیے کسی ایک واقعے میں بھی اس راستے سے پسپائی اختیار نہیں کی اور نہ ہی کسی شک و شبہ کا شکار ہوئے بلکہ اپنے تمام وجود کو راہ خدا میں قربان کرنے کے لئیے پیش کر دیا ، جہاں تبلیغ کی ضرورت ہوتی وہاں تبلیغ فرماتے ؛ جب میدان کارزار میں تلوار چلانے کا موقع آتا تو پیغمبر اسلام (ص) کی رکاب میں شجاعت کے جوہر دکھاتے ؛ کبھی بھی موت سے ہراساں نہیں ہوئے ، جہاں صبر و بردباری دکھانا ضروری ہوتا وہاں صبر کا مظاہرہ کرتے ، جب سیاسی ذمّہ داریوں کو سنبھالے کا وقت آیا تو میدان سیاست میں پرچم وجھنڈا گاڑ دیا ، اس پورے عرصے میں آپ نے قربانی اور ایثار کے سبھی تقاضوں کو پورا کیا ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ و سلّم نے ان خصوصیّات کی حامل شخصیّت کو اسلامی معاشرے کا حاکم بنایا ، یہ بھی ایک درس ہے ، یہ امت اسلامیہ کے لئیے ایک عظیم درس ہے ۔

یہ واقعہ، محض ایک تاریخی واقعہ نہیں ہے ،گذشتہ صدیوں کا کوئی قصّہ پارینہ نہیں ؛ بلکہ اس سے امّت اسلامیہ اور اسلامی سماج کو چلانے کے حقیقی معیار معلوم ہوتے ہیں ، راہ خدا میں جہاد ، جان و مال کی قربانی ، ہر مشکل کا سامنا کرنا،دنیا سے روگردانی یہ وہ معیار ہیں جو حکومت چلانے کے لئیے ضروری ہیں ، ان خصوصیّات کی بلندی کا نام علی بن ابی طالب (ع)ہے ؛ معیار ، امیر المؤمنین کا وجود مبارک ہے ، یہ غدیر خم کا ایک عظیم درس ہے ۔

آپ عالم اسلام اور اسلامی حکومتوں ،اور دیگر عالمی سیاسی نظاموں کا بغور جائزہ لیجئیے ، اور اس بات کا مشاہدہ کیجئیے کہ اسلام نے انسانیّت کی فلاح و بہبود کے لئیے جو نظام پیش کیا ہے اس میں اور موجودہ نظام میں کتنا واضح فرق ہے ؟آج انسانیّت کو جو نقصان پہنچ رہا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے ۔ اسلام، بنی نوع بشریّت کی سعادت کے لئیے حضرت علی (ع) جیسے لایق اور مدبّر شخصیّت کی مدیریّت کو ضروری سمجھتا ہے ، البتّہ اس میدان میں امیر المؤمنین (ع) ، پیغمبر اسلام (ص)کے شاگرد اور پیرو ہیں ۔ خود امیر المؤمنین (ع) کے سامنے جب آپ کے زہد و تقویٰ کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا ''میرا زہد و تقویٰ کہاں اور پیغمبر (ص)کا زہد وتقویٰ کہاں!صبر و بردباری اور دیگر مراتب میں حضرت علی علیہ السّلام پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ کے ممتاز اور برجستہ شاگرد شمار ہوتے ہیں ، یقینا ایسا شخص اس بات کا سزاوار ہے کہ ہم سب اس کو اپنا نمونہ عمل ، اور اسوہ قرار دیں ، بلکہ ہمارا دعوی ٰ ہے کہ ایسا شخص تمام عالم انسانیّت کے لئیے آئیڈیل بن سکتا ہے ۔

ایک ایسا عظیم انسان ہی انسانیّت کو نجات دلا سکتا ہے ، جو دنیا کے زرق وبرق سے مرعوب نہ ہو اور حق و حقیقت کی راہ میں ہر قربانی دینے کو آمادہ ہو، خواہشات نفسانی ، حقیر و پست مصلحتیں ، زندگی کے بڑے بڑے حوادث جس کے ثبات قدم میں لغزش نہ پیدا کر سکیں ، ہم نے جو بارہا تاکید کی ہے کہ اسلام اور اسلامی جمہوریہ ، دنیا کے لئیے ایک نیا پیغام لائے ہیں اس کا مطلب یہی ہوتا ہے اور یہ اس پیغام کا نمایاں نمونہ ہے ۔

آج، آپ عوامی سطح پر ملاحظہ کیجئیے ، سربراہان مملکت اور اقوام عالم کے سیاسی امور کا نظم و نسق چلانے والوں کا مشاہدہ کیجئیے ؛ ان میں سے کون حاضر ہے جو اپنے ذاتی مفادات سے چشم پوشی کرے اور ان سے در گذر کرے؟کون ہے جو مفادات کو اپنے سے قریب پا کر ، اپنے سامنے دیکھ کر ان سے دست بردار ہو جائے اور ملک و قوم کے لئیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرے ؟ کون ہے جو خوش آمد اور پاس و لحاظ سے اجتناب کرتا ہو؟ آج انسانیّت کی سب سے بڑی محرومی یہ ہے کہ اس کے یہاں ، ان جیسے لوگوں کا قحط ہے جو اسلام نے انسانیّت کے اعلیٰ نمونے کے طور پر پیش کیے ہیں ، البتّہ یہ واضح ہے کہ اس بلندی تک عام لوگ نہیں پہنچ سکتے ،کوئی بھی شخص امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السّلام جیسی زندگی نہیں بسر کر سکتا، ان کا کردار نہیں پیش کر سکتا، یہ ایک ایسی آرزو ہے جو پوری نہیں ہو سکتی ، لیکن یہ بلندی ہمار ے ہدف اور سمت و سو کا تعیّن کرتی ہے ، ہمیں اسی بلندی کی سمت میں آگے بڑھنا چاہئیے ، اس سے مما ثلت اور قربت بڑھانا چاہئیے، یہ ایسے افراد کا فقدان ، انسانیّت کی ایک بہت بڑی محرومی ہے ؛یہ نکتہ بھی غدیر کے واقعے میں نمایاں ہے ، یہ بھی ایک مسئلہ ہے جس پر خصوصی توجّہ دینے کی ضرورت ہے ، دنیا کے لئیے غدیر کا پیغام ، مثالی حکومت کی تشکیل کا پیغام ہے ۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السّلام وہ شخصیّت ہیں جو راہ خدا میں ، دشمنوں اور خودغرضوں کے ساتھ نہایت سخت برتاؤ کیا کرتے تھے لیکن مظلوموں اور کمزور طبقے کے افراد کے سامنے اس قدر منکسر المزاج تھے کہ کسی کو یقین نہیں آتا تھا کہ آپ ہی خلیفہ وقت ہیں ، جب آپ کوفہ میں ساکن ہوئےتو ابتدائی ایّام میں کوئی آپ کو نہیں پہچانتا تھا ، آپ کا رہن سہن ، آپ کا لباس ، آپ کا طور طریقہ اتنا سادہ تھا کہ جب آپ کوچہ و بازار میں نکلتے تو کسی کو گمان تک نہیں ہوتا تھا کہ امیرالمؤمنین (ع) جیسی عظیم شخصیّت یہی ہے جو عام انسانوں کی طرح راستہ چل رہی ہے ؛ وہی شخص جو کمزور اور عام لوگوں کے سامنے تواضع و انکساری کا مرقّع بنا رہتا تھا ، ستم پیشہ اور مغرور افراد کے سامنے پہاڑ کی طرح ڈٹ جاتا تھا ، اسے کہتے ہیں مثالی کردار۔

غدیر کے بارے میں ایک اور نکتہ بھی عرض کرتا چلوں ، غدیر خم کا مسئلہ ، ہم شیعیان اہلبیت(علیہم السّلام )کے عقیدے کی بنیاد ہے ؛ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ امیرا لمؤمنین حضرت علی علیہ السّلام ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ذات والا صفات کے حقیقی جانشین اور ان کے بعد امت اسلامیہ کے امام برحق تھے ؛یہ اعتقاد ، شیعہ عقیدے کی بنیاد اور اس کااصلی ستون ہے ، ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے برادران اہل سنّت اس عقیدے کو نہیں مانتے ، ان کی فکر و نظر ہم سے مختلف ہے ؛یہ فرق اپنی جگہ لیکن یہی غدیر خم کا واقعہ ایک اعتبار سے امّت اسلامیہ کے اتّحاد اور یگانگت کا باعث ہے اور وہ مرکز اتّحاد ،امیرالمؤمنین (ع) کی ذات گرامی ہے ،اس ذات والا صفات کے بارے میں مسلمانوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے، امیر المؤمنین کو سبھی ، علم و دانش، زہد و تقویٰ، شجاعت و بہادری کے اعتبار سے اس بلند و بالا مرتبے پر فائز سمجھتے ہیں جو آپ کے شایان شان ہے ،پوری امّت اسلامیہ کے عقیدے کا مشترک محور ، امیر المؤمنین علی (ع) کی ذات گرامی ہے ۔

آج جس مسئلہ پر خصوصی توجّہ دینے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ عداوتوں اور دشمنیوں کے باوجود، شیعوں نے ہمیشہ ہی اپنی جان کی طرح اس عقیدے کی حفاظت کی ہے ، ان دشمنیوں کو کم و بیش سبھی جانتے ہیں ،کس قدر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے ، کتنا دباؤ ڈالا گیا، کس قدر خوف وگھٹن کی فضا پیدا کی گئی، لیکن شیعوں نے جان و دل سے اس عقیدے کی حفاظت کی اور شیعہ عقائد و علوم کو پھیلانے میں کو ئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا، شیعہ فقہ، شیعہ کلام ، شیعہ فلسفہ ،اور مختلف شیعہ علوم ، شیعہ ثقافت ، شیعہ فکر ، شیعوں کے علماء اور برجستہ شخصیّات ، تاریخ اسلام کا درخشاں اور سنہرا باب ہیں ۔لہٰذا یہ وہ عقیدہ ہے کہ اہل تشیّع نے آج تک اس کی حفاظت کی ہے اور آئندہ بھی کرتے رہیں گے ، لیکن محتاط اور ہوشیار رہئیے کہ کہیں یہ عقیدہ ، نزاع اور جھگڑے کا باعث نہ بنے ، ہم سالہاسال سے اس بات کو دہرا رہیں ہیں اور ایک بار پھر اس کا اعادہ کر ر ہے ہیں ؛ ہم دشمن کے ناپاک عزائم کو دیکھ رہے ہیں ، دشمن مختلف عناوین کے ذریعہ ، امّت اسلامیہ میں اختلاف و نفرت کا بیج بونا چاہتا ہے ، جن میں سے ایک عنوان ، شیعہ اور سنّی کا مسئلہ ہے ، اور دشمن بھی کیسا دشمن ؟!ایک ایسا دشمن جو اسلام کا دشمن ہے ،جو قرآن کا دشمن ہے ، ہمارے مشترکات کا دشمن ہے ، توحید و یکتا پرستی کا دشمن ہے ، یہ دشمن ، اسلام کے کسی ایک حصّے یا جزو کا دشمن نہیں ہے پورے اسلام کا دشمن ہے ، دشمن کی کوشش یہ ہے کہ امّت اسلامیہ میں دشمنی اور عداوت پھیلائے ،وہ اچھّی طرح واقف ہے کہ دنیاے اسلام کا اتّحاد اس کے لئیے کس قدر نقصان دہ ہے ، دشمن نے دیکھا کہ جب اسلامی انقلاب کامیاب ہواتو کس طرح اس انقلاب کی عظمت اور اس کی شعاؤں نے اسلامی دنیا اور اسلامی ممالک کو اپنی طرف کھینچا، ایسے افراد کو بھی اپنا گرویدہ بنایا جو شیعہ نہیں تھے ، اور دیکھتے ہی دیکھتے ، عرب ، افریقہ اور ایشیا کے لاکھوں برادران اہل سنّت اس انقلاب کے گرویدہ ہو گئے ، دشمن کو اس سے گہرا صدمہ پہنچا ، وہ اس کشش اور رجحان کو ختم کرنا چاہتاہے ، کیسے ؟ شیعوں اور سنّیوں کے درمیان دشمنی اور عداوت ڈال کر ۔

دوسری عداوتوں کے علاوہ ،عصر حاضر میں ، اس خطّے میں امریکہ کی ایک اہم پالیسی یہ ہے کہ بعض عرب ممالک کے سربراہوں کو اپنا ہمنوا بنائے اور انہیں ایرانی قوم کے مد مقابل لا کھڑا کر ے ؛ایٹمی توانائی اور دیگر مسائل میں سر جوڑ کر بیٹھتے ہیں ، مختلف میٹینگیں کرتے ہیں ، سودا بازی کرتے ہیں ، سازشیں رچتے ہیں ۔امریکہ بعض اسلامی ممالک سے اس بات کا تقاضا کر رہا ہے کہ آپ ،اسلامی جمہوریہ ایران کا مقابلہ کرنے میں کیا کردار ادا کر سکتے ہیں ؟امریکہ کی کوشش ہے کہ وہ کسی طریقے سے اسلامی ممالک کے درمیان ، دشمنی اور عداوت کا بیج بو سکے ،دشمن سیاسی اعتبار سے صرف اتنا کر سکتا ہے کہ ان حکومتوں کے سربراہوں کو اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ورغلائے ؛ اس سے زیادہ کچھ نہیں کر سکتا ،دشمن ، دنیاے اسلام ، عرب ممالک اور فلسطین و عراق کے عوام کے دلوں کو اسلامی جمہوریہ ایران سے منحرف نہیں کر سکتا، اس قلبی لگاؤ کو نہیں مٹا سکتا ، ہاں ! زیادہ سے زیادہ یہ کر سکتا ہے کہ ان حکومتوں کو ایران کے خلاف بہکائے، البتّہ ان حکومتوں کے بھی کچھ اپنے تحفّظات اورمفادات ہیں ، اور ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ اپنے آپ کو مکمّل طور پر امریکہ اور صیہونیوں کے سپرد کر دیں ؛ ہمار ا دشمن عوام کے دل پر اثر انداز نہیں ہو سکتا ، عوام کے دل پر کیا چیز اثر انداز ہوتی ہے ؟ وہ کون سی چیز ہے جو اسلامی دنیا کے دلوں کو ایران سے جدا کر سکتی ہے ؟ یقینا وہ چیز یہی بے جا مذہبی تعصّبات اور اختلافات ہیں ، یہ دلوں میں جدائی ڈال سکتے ہیں ، ہمیں اس سے ڈرنا چاہئیے ؛سبھی کی ذمّہ داری ہے کہ وہ محتاط رہیں ، یا د رکھئیے کہ شیعہ دنیا میں اہلسنّت کے خلاف اور اہلسنّت کے ہاں شیعوں کے خلاف ، کتا بیں لکھنے ، ایک دوسرے پر الزام تراشی، ایک دوسرے کی بدگوئی سے نہ تو کوئی سنّی ،شیعہ ہو گا اور نہ کوئی شیعہ سنّی ۔وہ لوگ جو پوری دنیا کو محبّت اہلبیت (علیہم السّلام )اور ان کی ولایت کا گرویدہ بنانا چاہتے ہیں ، جان لیں!کہ نزاع اور جھگڑے ، توہین اور دشمنی کے ذریعہ کسی کو شیعہ نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی انہیں ولایت اہلبیت کا شیفتہ بنایا جا سکتا ہے ، لڑائی جھگڑا ، صرف بغض و عداوت اور نفرت پھیلا سکتا ہے اور یہ دشمنی اور نفرت، امریکیوں کی دلی خواہش ہے ،جس کے لئیے وہ بہت کوشاں ہیں ۔ آپ نےمشاہدہ کیا کہ ایک ایسے غیر اسلامی یورپی ملک کے ٹیلیویژن پر شیعہ سنّی مناظرے کا اہتمام کیا جاتا ہے جو مسلمانوں اور اسلام کاتاریخی اور دیرینہ دشمن ہے ،شیعہ اور اہل سنّت ، دونوں طرف کے افراد کو دعوت دی جاتی ہے کہ آئیے اور مناظرہ کیجئیے ، اس سے ان کا مقصد کیا ہے ؟ ایک عیسائی ملک، ایک سامراجی ملک ، ایک ایسا ملک جس کی تاریخ سیاہ کا رناموں سے پر ہے ، آخر وہ کس مقصد سے شیعہ سنّی مناظرے کا اہتمام کر رہا ہے ؟ کیا وہ حقیقت جاننا چاہتا ہے ؟ کیا اس کا مقصد یہ کہ اس مناظرے کے ذریعہ ، سامعین اور مخاطبین ، حق و حقیقت سے واقف ہو سکیں ؟یا وہ یہ چاہتا ہے کہ اس مناظرے میں شریک بعض افراد کے منہ سے نکلنے والی باتوں سے ناجائز فائدہ اٹھائےاور ان کے ذریعہ اختلاف و نفرت کی آگ بھڑکائے ، جلتی آگ پر تیل چھڑکنے کا کام کرے؟ ہمیں محتاط رہنا چاہئیے ، شیعوں کے پاس مدلّل بیان ہے ، شیعہ عقائد کے بارے میں ، شیعہ متکلّمین کے پاس ٹھوس اور مضبوط دلیلیں ہیں ، لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ عالم تشیّع میں کچھ افراد اپنے مخالفین کی بد گوئی کریں ، دشمنی کو ہوا دیں ، ان پر الزام تراشی کریں اور پھر مد مقابل بھی اسی طرح کی اشتعال انگیزی کا مرتکب ہو۔مجھے ماضی اور حال دونوں کے بارے میں علم ہے کہ اس سلسلے میں کافی پیسہ بہایا جا رہا ہے تاکہ دونوں فریق ایک دوسرے کے خلاف ، بد گوئی ، الزام تراشی اور توہین پر مشتمل کتابیں تحریر کریں ، دونوں کو ایک ہی مرکز سے پیسے مل رہے ہیں ، دونوں فریقوں کی کتابوں کی نشر و اشاعت کا خرچ ایک ہی جیب سے نکل رہا ہے ، کیا یہ صورت حال ہمار ی آنکھیں کھولنے کے لئیے کافی نہیں ہے ، ہمیں اس مسئلے پر خصوصی توجّہ دینا چاہئیے

میں نے آج ولایت امیر المومنین (ع)، اس عظیم ہستی کے اسم مبارک اور آپ کی روح مقدسہ کو وسیلہ قرار دیکر یہ باتیں عرض کی ہیں تاکہ ایک بار پھر اس نکتے پر تاکید ہو جائے جو امام خمینی (رضوان اللہ علیہ ) برسوں دہراتے رہے اور ہم نے بھی متعدّد بار اس کا اعادہ کیا ہے کہ دنیا کے کسی کونے میں بیٹھا کوئی شخص اس غلط فہمی کا شکار نہ ہو کہ وہ شیعیت کا دفاع کر رہاہے اور وہ یہ سوچے بیٹھا ہو کہ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ شیعوں اور غیر شیعوں کے درمیان دشمنی اور نفرت کی آگ بھڑکائی جائے ، یہ شیعیت کا دفاع نہیں ہے ، یہ ولایت کا دفاع نہیں ہے ، اگر آپ اس کی حقیقت پر غور و فکر کریں گے تو آپ کو معلوم ہو گا ، کہ یہ در حقیقت امریکہ کا دفاع ہے ، صیہونیوں کا دفاع ہے ؛ منطقی استدلال میں کوئی حر ج و قباحت نہیں ، کتابیں لکھئیے ، استدلال کیجئیے ، ہمارے علماء نے ماضی میں بھی ایسی کتابیں تحریر کی ہیں اور آج بھی لکھ رہے ہیں ، اور انہیں لکھنا بھی چاہئیے ، اصول و فروع اور بہت سے دیگر مسائل میں ہم مستقل شیعہ نظریّا ت کے حامل ہیں ، ان نظریّات و عقائد پر دلیل قائم کیجئیے ، انہیں بیان کیجئیے ، اور مخالف نظریّات و عقائد کو دلیل کے ساتھ باطل کیجئیے، اس میں کوئی قباحت نہیں ، لیکن توہین ، الزام تراشی ،بدگوئی اور دشمنی اور نفرت کی آگ بڑھکانے سے سختی سے اجتناب کیجئیے ، اس مسئلے پر بھی خصوصی توجّہ دیجئیے ۔

پروردگارا!محمد و آل محمّد کے صدقے میں ہمارے دلوں کو بیدار فرما! ہمارے ہاتھ سے امیرالمؤمنین علی (ع) کا دامن نہ چھوٹنے پائے !امّت اسلامیہ اور ہماری قوم کو وہی جذبہ صبر و جہاد اور اخلاص عنایت فرما جو امیر المؤمنین (ع) میں کارفرما تھا !پروردگارا!ہمیں امیر المؤمنین کی ولایت پر زندہ رکھ اور اسی پر دنیا سے اٹھا ،حضرت ولی عصر (عج) کے قلب مقدّس کو ہم سے راضی اور خوشنود فرما۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ