ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبرمعظم کا دامغان میں ایک عوامی اجتماع سے خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

والحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سیدنا ونبینا ابی القاسم المصطفی محمدوعلی آلہ الاطیبین الاطھرین المنتخبین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین۔

آپ دامغانی بہن بھائیوں کے درمیان آکر مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے اپنے آشنا اوردل کی گہرائیوں سے چاہنے والوں کے بیچ آگیا ہوں اس پر میں خدا کا شکرادا کرتا ہوں۔ آپکا قدیم اورخوبصورت شہر صوبہ کا واقعی ایک مایہ نازشہرہے اس شہرکاماضی میں ادیبوں، شاعروں، دانشوروں اور ممتاز شخصیتوں کی تربیت گاہ رہنا تو کتابوں میں درج اور تاریخ میں محفوظ ہے، اسے سبھی جانتے ہیں ہم نے اپنے دور میں دامغان کو مومن، مخلص، محبتی، قناعت پسند، صابراورانقلابی میدان میں سرگرم عوام کا گڑھ پایا، یہاں کے لوگ مقدس دفاع کے دوران اور اس سے قبل بھی فعال وسرگرم رہے ہیں میں نے کل بھی شہدا کے محترم پسماندگان سے عرض کیا تھا کہ جنگ اور مقدس دفاع کے دوران جنگ میں تعاون کرنے والا اسٹاف نیزجہادسازندگی ادارے سے وابستہ انجینئرنگ اسٹاف دونوں ہی صوبہ بھر میں نہایت فعال تھے اوردیگر صوبوں میں بھی ان کی مثال کم ہی ملتی تھی دونوں کی کمان سرگرم، مجاہد اور جانباز دامغانیوں کے ہاتھ میں تھی اسلامی جمہوریہ ایران کے ایک معروف شہید، شہید شاہچراغی یہاں کی عزیز عوام کے پرچم کی حیثیت رکھتے ہیں آپ صرف دامغان والوں کے نہیں بلکہ پوری ایرانی قوم سے متعلق ہیں دیگرعظیم شہدا جن کی مقدس قبروں کی ابھی ہم مزارشہدامیں زیارت کر کے آئے ہیں سبھی نے اس شہر کی قدیم اور تاریخی فضا میں روحانیت اورعظمت کے ہزاروں چراغ جلائے ہیں یہ سب آپ مومن ومخلص خواتین و خضرات کی عزت، شجاعت، غیرت اورایمان کی علامتیں ہیں۔

میں عرض کروں کہ جب غنڈہ رضا خان نے علماء اوراہل دین کا قلع قمع کردیا تھا تب حوزہ علمیہ دامغان ملک کے مشرقی حصہ کا ایک فعال حوزہ علمیہ تھا جس میں اس وقت کے محترم امام جمعہ کے چچا ترابی صاحب مر حوم(رضوان اللہ تعالی علیہ) علم ومعرفت کی بساط بچھائے ہوئے تھے مختلف شہروں اورمازندران وسمنان کے مختلف علاقوں سے متلاشیان عشق وعلم اورطالبان حقیقت، دامغان آتے اوریہاں کے تین مدارس میں تعلیم حاصل کیا کرتے تھے اس دور میں یہاں کے علمی مدارس سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبہ آج صوبہ اور صوبہ کے باہرمعروف اورممتازشخصیات شمار ہوتے ہیں کسی جگہ حوزہ علمیہ کا پروان چڑھنا اور ثمربخش واقع ہونا وہاں کے عوام پرحاکم دینی وروحانی ماحول کا غماز ہے ایک با برکت حوزہ علمیہ کا وجود علاقائی عوام کے اصیل وعمیق دینی وایمانی وجود کا نام ہے۔

ہمارے جوانی کے دور میں مرحوم آیۃ اللہ دامغانی مشہد کے معروف استاد اور ممتازشخصیت تھے عابداورعارف وسالک مرحوم معلم صاحب(رضوان اللہ تعالی علیہ) بھی حال میں اسی شہر میں مقیم تھے جب بھی وہ تہران ہم سے ملنے آتے تھے تو مجھے ان کی زیارت کرکے دامغان کی روحانی خوبصورتیاں یاد آجاتی تھیں۔

آج میں خوش ہوں کہ میں ایسے مہربان، مؤمن اورمخلص لوگوں کے درمیان ہوں جن سے متعلق میرے ذہن میں اس قسم کے حسین اور حوصلہ افزا تصورات رہے ہیں اور آج بھی ہیں۔

اس شہر کی تعمیروترقی ایک مسئلہ ہے ہم اپنے ان دوروں کے دوران جو اہم چیزیں مشاہدہ کرتے اسے برسرخدمت حکومت کے گوش گذار کر دیتے ہیں آپ کا شہرقدرتی و عوامی وسائل کا شہرہے یہاں کچھ مشکلات بھی ہیں جن سے عوام دوچار ہیں ہمارے ساتھیوں نے دورے سے قبل یہاں کے لوگوں سے جو سوالات کیے ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ پانی، بے روزگاری، روزگار کی فراہمی، صحت وطبی مراکزکی کمی اورکچھ دیگر مسائل سےیہاں کے لوگ نبردآزما ہیں۔ میں یہی عرض کر سکتا ہوں کہ قابل احترام حکومت اورصدرمحترم اپنی پوری توانائی سے ملک کی گنجائش بھر مشکلات رفع کرنے میں لگے ہیں یقینی طورسے حکومت اپنے قلیل اورکثیرالمیعاد منصوبوں میں ان مشکلات کی طرف بھی توجہ مبذول کرے گی یہ مشکلات ومسائل تدریجاً حل ہوجانے چاہیے خود آپ لوگ ہمت کیجیئے اپنا تعاون پیش کیجئیے جوان آگے آئیں خاص طور سے اس صوبہ اورشہر میں طلبہ کی کافی تعداد ہے یہ لوگ اپنا علم اور اسپیشلائزیشن کام میں لاتے ہوئے گوناگوں مشکلات ومسائل کے حل میں تعاون دیں اوراپنا کردارادا کریں۔

تیس سال قبل میں نےجو دامغان دیکھا تھا اس میں اور آج کے دامغان میں زمین آسمان کا فرق ہے شاہرود کا بھی یہی عالم ہے، سمنان کی بھی یہی کیفیت ہے دیگر شہروں اور دیہاتوں کا بھی یہی حال ہے۔

ایک دور ایسا بھی تھا جب تہران میں مقیم اعلی سطحی حکام کا سب سے بڑا ہم و غم اپنی تجوریاں بھرنا اورامریکیوں وصہیونیوں جیسے غیرملکی آقاؤں کی خوشنودیاں حاصل کرنا تھا ملک وقوم کی مشکلات کا حل وہ اپنی ذمہ داری ہی نہیں سمجھتے تھے جس شہر کا کوئی آدمی حکومتی مشنری میں ہوتا تھا وہ اپنے رسوخ بھر البتہ اکثر ذاتی مفاد کی خاطر اپنے شہرکے لئے حکومتی سہولیات لے لیتا تھا لیکن کسی شہرکا اگر پالیسی ساز ادارے میں کوئی سفارشی نہیں ہوتا تھا تووہ ایسے ہی پسماندہ رہ جاتا تھا طاغوتی دور میں ہمارے عوام اور شہروں کی اکثریت اس غلط اورطاغوتی نظام کے امتیازی سلوک کا شکار رہی ہے اسلامی جمہوری دور میں حکام عوام کی خدمت کو ہی اپنا فرض سمجھتے ہیں میں بارہا وضاحت سے کہہ چکا ہوں کہ ہمارے حکام عوام کے خادم بلکہ صاف کہا جائے کہ نوکر ہیں عوام نے ملک کا عظیم اقتدار انہیں سونپا ہے تاکہ وہ ان کی آزادی اور عزت کی بھی حفاظت کریں اور بین الاقوامی سطح پران کی سائنسی، ثقافتی اور سیاسی پوزیشن کا بھی دفاع کریں نیز ملکی وسائل کا استعمال ان کے نفع میں کریں ہمارا ملک قدرتی وسائل سے مالامال ہے آپکے پڑوس کا یہی صحرابرکتوں کا سرچشمہ ہے حکومت کو یقیناً ایک کام جو کرنا چاہیے( شروعات تو ہو گئی ہے لیکن کام دھیرے چل رہا ہے اس میں تیزی لانے کی ضرورت ہے) وہ یہ ہے کہ اس صحرامیں کھوج کرکے اس کے فوائد وبرکات کا پتہ لگایا جائے دوسرے لفظوں میں یہ کہ یہ ایک بچھا بچھایا دسترخوان ہے جس کی نعمتوں سے مستفید ہوکریہاں کی عوام کی فلاح وبہبود کے ساتھ اطراف کے صوبوں کی بھی تعمیرو ترقی کی جا سکتی ہے۔

موجودہ حکومت حوصلہ مند، سرگرم، فعال، ہمدرد، عوامی مطالبات ومفادات کی پابند اورحاضر خدمت ہے جتنا بھی ان کے امکان میں ہوگا یہ کام کریں گے۔

اس سفر میں ہم(سفرکے قبل وبعد کی رپورٹوں اور دوران سفر حکام سے ہونی والی گفتگو سے سامنے آنے والی باتوں کے مطابق) بنیادی، حساس اور ضروری اقدامات کا پتہ لگائیں گے تاکہ انشا اللہ خدا کی مدد سے منصوبہ مند طرز پر اقدامات اٹھائے جائیں اورآپ محترم، مؤمن اورپرجوش عوام کی زندگی روزبروز بہتربنائی جائے اور آپ کی فلاح وبہبود کے لیے کام کیا جائے۔

حکام یقیناً اس قوم کے لیے جو بھی کر دیں کم ہے آدمی حیران رہ جاتا ہے میں نے ابھی تین شہیدوں کی ماں کی زیارت کی ہے جس نے تین جوان راہ خدا میں دے دیے ہیں ایک بیٹا جنگی معذور ہے خود بوڑھی ہوگئی ہے لیکن اس سب کے باوجود پہاڑ کے مانند مضبوط ہے ایسے لوگوں کے ہاتھ چومنے چاہیے اسی کو کمال حقیقی کہتے ہیں جس قوم کے پاس ایسی ایسی عظیم ہستیاں ہوں اسے اطمئنان رکھنا چاہیے کہ وہ کسی بھی بڑے کام کا اگرآغاز کرے گی تواسے انجام تک پہونچا دے گی۔

ایرانی قوم نے جو اہداف مد نظر رکھے ہیں بہت بلند ہیں لیکن ان تک پہنچا جا سکتا ہے اسلامی عدل وانصاف کا علم اٹھانا، اس کا دفاع کرنا اور اسی کی راہ میں قدم بڑھانا توخالی اوربے نتیجہ کوشش نہیں ہے جیسا کہ بعض لوگ یہی تلقین کررہے ہیں جی نہیں یہ قابل عمل ہے۔

یہ صحیح ہے کہ اس وقت انسانی دنیا میں سماجی انصاف مظلوم واقع ہورہا ہے، یہ صحیح ہے کہ اس وقت انسانی حقوق کے دعوے دار ہی سب سے زیادہ بے رحمی سے انسانی حقوق کی دھجیاں اڑاتے ہیں آپ ملاحظہ کیجیے کہ فلسطین میں کیا ہو رہا ہے ہر دن فلسطینیوں کا قتل عام ہورہا ہے صہیونی پچاس سال میں حاصل کردہ اپنی فوجی دہشت لبنان کے ساتھ تینتیس روزہ جنگ میں کھو چکے ہیں یہ دکھانے کے لیے کہ اسرائیل کو شکست نہیں دی جا سکتی وہ پچاس سال سے کوشش کرتے آرہے تھے لیکن یہ پچاس سال کی ہیبت تینتیس دن میں ہواہو چکی ہے پیشرفتہ فضائی ہتھیاروں سے محروم ایک مؤمن ومجاہد گروہ نے اس مغروروسرکش فوج کی ناک زمین پررگڑ دی ہے، اسے ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اب دنیا اس پر ہنس رہی ہے لہذا ایسا لگ رہا ہے کہ یہ اس شکست وذلت کا انتقام بے جو وہ مظلوم فلسطینیوں سے لینا چاہتے ہیں اس وقت کئی دن یا کئی ہفتوں سے غزہ پرمستقل صہیونیوں کے حملے ہو رہے ہیں جس غزہ کو انہوں نے ظاہرمیں ایک معاہدہ کے تحت فلسطینیون کے حوالہ کیا تھا اس کے ساتھ ایسا سلوک اوراس پرایسے بے رحمانہ حملے بتا رہےہیں کہ غاصب اسرائیل اور صہیونیوں کے ساتھ مذکرات کا انجام کیا ہوتا ہے کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ ہمیں مذاکرات کے ذریعہ صہیونیوں کے ساتھ اپنے مسائل کا تصفیہ کر لینا چاہیے تو ملاحظہ فرما لیں کہ یہ ہےمذکرات کا انجام! اس وقت اتنا بڑا ظلم ہو رہا ہے کہ انسانی حقوق کے حامی اورانسانی حقوق کے دعویدارحضرات جو ذراسی بات پردنیا کی ہر اس حکومت پر انسانی حقوق کی پامالی کا الزام لگا دیتے ہیں جو ان کی تابع نہیں ہے مغرب اور یورپ میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہیں اور فارغ البالی اور بے فکری سے آئے دن ہورہے اس قتل عام کا تماشا دیکھ رہے ہیں لیکن اگر یورپ کی کسی سڑک پر کوئی بھیڑ ذبح کردے گا تو وہ اتنے خاموش نہ رہیں گے ان دسیوں ، سیکڑوں بچوں اور مردوں عورتوں کا خون جو اپنا دفاع نہیں کر سکتے، کسی مسلح کاروائی میں شریک نہیں رہے ہیں لیکن آنکھ بند کرکے تہ تیغ کئے جارہے ہیں ان کے خون کی قدرو قیمت ایک بھیڑ کے خون کے برابر بھی نہیں ہے اس وقت دنیا میں انصاف کا یہ عالم ہے۔

کچھ لوگ یہ صورتحال دیکھ کے کہتے ہیں کہ آپ لوگ سماجی انصاف کی باتیں کر رہے ہیں ایسا ممکن ہے کیا ؟ ملک کے اندر بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو ذاتی مفاد کے لیے ہزاروں لاکھوں افراد کے مفادات کچل سکتے ہیں جو آپ سن ہی رہے ہیں استحصالی عناصر اور مالی بد عنوانوں کے لیے بیت المال اور غیر بیت المال میں کوئی فرق نہیں ہے جہاں ممکن ہو ہاتھ ڈال دیتے ہیں کسی کا حق جاتا ہے تو جائے کچھ لوگ یہ سب دیکھ کر کہتے ہیں کہ کیا ملک میں سماجی عدل وانصاف کا قیام ممکن ہے؟ میری عرض ہے کہ جی ہاں سماجی عدل وانساف سمیت اس قوم اورانقلاب کا ہر ہدف پہاڑ کی مثل ثابت قدم غیرت مند اور مؤمن عوام کی پشتپناہی سے حاصل کیا جا سکتا ہے بیس سال قبل جب ہم اپنے وطن کے دفاع میں مشغول تھے تو دنیا کی طاقتیں معمولی سے ہتھیار بھی ہمارے ہاتھ بیچنے کے لیے تیار نہیں تھیں دوگنی قیمت پر بھی تیار نہیں تھیں درحالیکہ امریکہ، یورپ اور سابق سوویت یونین کی جانب سے عراق اور ستمگرصدام کی طرف ماڈرن ہتھیاروں کا سیلاب جاری تھا اس وقت اگر ہمیں نہایت معمولی ہتھیاروں کی ضرورت ہوتی تھی تو ہزار مشکلات کے بعد کبھی مل پاتے تھے اور کبھی نہیں اس وقت اگر کوئی کہتا کہ ایک دن یہ قوم یہ جوان یہ انقلابی ومومن حوصلے خلیج فارس اور دوسرے مقامات پرایسے ایسے میزائل آزمائش کریں گے تو کسے یقین آتا؟ لیکن ہماری قوم نے یہ کر دکھایا۔

اس وقت ہماری طرف امپریالزم مخالف طاقتوں کی جانب سے دھمکیوں کا ریلا آرہا تھا دس پانچ آٹھ سال قبل ہماری دوست حکومتوں کے بعض اراکین خصوصی خبر کے بطور ہمیں بتاتے تھے کہ انہیں خبر ملی ہے کہ فلاں مہینہ اور فلاں دن آپ پر حملہ ہونے والا ہے جس کا ہدف آپ کو ڈرا دھمکا کے اسلامی جمہوری حکومت کو اپنے موقف سے دست بردارکرنا ہے شاید اس وقت کئی ایسے تھے جو یہ یقین نہیں کر سکتے تھے کہ ایک دن عالمی استکبار جس میں سر فہرست امریکہ ہے اسلامی جمہوریہ مخالف اپنی پالیسیوں میں اس طرح سے شکست کھا جائے گا عراق میں اس کی پالیسی فیل ہوجائے گی فلسطین میں اس کی پالیسی شکست کھا جائے گی لبنان میں اس کی پالیسی ذلت آمیز طریقہ سے ناکام ہو جائے گی افغانستان میں بھی اس کی سیاست کامیاب نہ رہے گی اوردنیا بھرمیں اس کی دھمکیاں ہیچ مانی جائیں گی لیکن یہ ہوا ہے۔

ایرانی قوم کے خلاف ان کی ہر سازش انہیں کے نقصان میں رہی موجودہ امریکی حکمرانوں وزیر خارجہ، وزیر دفاع یا خود بش نے ملت ایران کے خلاف جب بھی کوئی دھکی آمیزکڑوی بات کہی کہ شاید اس سے یہ ڈر جائیں گے تو دیکھا کہ نتیجہ اس کے بر عکس نکلا صدارتی انتخابات کے موقع پر بش نے ہماری قوم کو پیغام دیا کہ الیکشن میں شمولیت نہ کریں لیکن لوگوں نے ضد کی اور ان پچیس چھبیس سالوں میں سب سے زیادہ الیکشن میں شرکت کی عراق کے مسائل، عراق میں امریکہ کی ناکام پالیسیوں اور امریکہ کے حالیہ انتخابات سے پتہ چلتا ہے کہ یہ پالیسیاں خود واشنگٹن میں بھی ناکام ہو گئی ہیں یہ جنگ طلب پالیسیاں خود امریکی عوام اور وہاں کےسیاستدانوں کے بیچ ناکام ہو چکی ہیں پارلیمانی انتخابات میں موجودہ صدر سے وابستہ پارٹی کی شکست صرف امریکہ کا اندرونی معاملہ نہیں ہے بلکہ یہ موجودہ صدر کی جنگ طلب اورمعاندانہ پالیسیوں کی ناکامی کی دلیل ہے ایسی پالیسیاں دنیا بھر میں ناکام ہو گئی ہیں امریکیوں کی نظر میں ان پالیسیوں کا اصلی ہدف اسلامی جمہوریہ ایران تھا اس کا مطلب یہ ہوا کہ ملت ایران اس سیاسی معرکہ میں عالمی سطح پر صاف طورسے کامیاب ہوئی ہے اب خود بش بھی سمجھ گیا ہے کہ ناکام ہو گیا ہے شاید امریکہ کا وہ آخری سیاستدان جو سمجھ گیا ہے کہ ناکام ہو گیا ہے خود بش ہے وہ بھی آج اعتراف کر رہا ہے کہ وہ اپنی جنگ طلب پالیسیوں میں ناکام ہو گیا ہے۔

میں ملت ایران سے عرض کردوں کہ اے ایران کی عزيز قوم!آپ انسانی لیاقت، استعداد، ہمت اورایمان سے مسلح ہیں یہی چیزیں آپ جیسی با ہمت، مومن اور با استعداد قوم کا اصل سرمایہ ہیں ایرانی جوانوں کی صلاحیتیں اوسطاً دنیا بھر کے جوانوں سے زیادہ ہیں ہمارے ایکسپرٹ اور ماہرین مجھ سے کہا کرتے ہیں کہ ہم نے جس کسی سائنسی یا ٹیکنیکل پروجیکٹ کا آغاز کیا اس پر جان لگائی اور اس پر لگ گئے اسے خوش اسلوبی سے انجام تک پہنچا دیا خدا کی توفیق وامداد سے ٹیکنیکل کام ہو ں یا انسانی، سماجی اور سیاسی امور سب میں یہی پوزیشن ہے اور اس سب میں سہارایہی آپ کا ایمان، اتحاد،یکجہتی اور حکام کے ساتھ آپ کے مخلصانہ تعلقات ہیں اسے ہاتھ سے جانے نہ دیجیئے گا آپ کے کام ومحنت وحوصلہ اورپرجوش ایمان نے آپ کو پہاڑ کی مانند مضبوط بنادیا ہے یہ حوصلہ باقی رہنا چاہیے انشا اللہ سبھی انقلابی اہداف ومقاصد حاصل ہوجائیں جائیں گے اور سب سے اہم ہدف یہ ہے کہ ملک بھر سے انفرادی، ضلعی، صوبائی اور علاقائی بنیادوں پرامتیازی سلوک کا خاتمہ کرنا، صلاحیتیں کام میں لانا اورایرانی قوم کے مختلف حصوں منجملہ آپ کو حاصل قدرتی وسائل کا استعمال ہے آپ کے یہاں معدنیات ہیں زراعت ہے لیکن یہاں پانی کی قلت ہے پانی کی فراہمی کوئی محال کام نہیں ہے ایسے انتظامات ممکن ہیں جن کے ذریعہ انشا اللہ یہ مشکل دور کی جا سکے یہاں صحرا بھی ہے، زرخیز زمینیں بھی ہیں اورعوام میں موجود بہتریں صلاحیت بھی!

امید ہے کہ خدا وند متعال مدد کرے گا اور حکام کو یہ توفیق حاصل ہوگی کہ وہ روز بروز آپ عوام کی زندگی میں بہتری لاسکیں گے اورآپ کی مشکلات برطرف ہو جائیں گی انشا اللہ حضرت بقیۃ اللہ(ارواحنا فداہ) کی دعا ہمارے عزیزشہدا کی ارواح طیبہ کے طفیل آپ اورپوری ایرانی قوم کے شامل حال ہو۔

پروردگارا! محمدوآل محمد (ص)کے صدقہ اپنا فضل وکرم اوررحمتیں وبرکتیں ان لوگوں پر نازل کر! پالنے والے! اس عظیم قوم کی توفیقات میں روز بروز اضافہ فرما! پالنے والے! حکام میں قوم کی خدمت کے شوق اور جذبہ میں اضافہ فرما! ہم نے جو کہا اورسنا ہے اس میں ہماری نیت کوخالص اوراپنی مرضی کے مطابق قراردے!

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ