ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظّم کا مشرقی آذربائیجان کے ایک عوامی اجتماع سے خطاب

بسم‏اللّہ‏الرّحمن‏الرّحيم

میں آپ بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں اور خداوند متعال کا انتہائی شکرگذار ہوں جس نے مجھے اس حسینیّہ میں صوبہ آذربائیجان اور تبریز کے شہیدوں کے پاک دل اور معنوٰیّت سے لبریز خاندانوں ، آپ عزیز جوانوں اور تبریز کے زندہ دل عوام میں حا ضر ہونے کی توفیق عنایت فرمائی اور ہمارے دلوں کو سرکار سیّد الشّہداء حضرت امام حسین علیہ الصلاۃ و السّلام کی یاد سے منوّر کیا، اور یہاں کی فضا کو محبّت اہلبیت علیہم السّلام کے عطر سے معطّر کیاجسے ہم نے آپ اہل تبریزمیں ہمیشہ ہی موجزن پایا ہے ۔

دو مناسبتوں کا ملاپ، نہایت معنیٰ خیز امر ہے ۔ آج شہداء کربلا کا چہلم ہے اور تبریز کا ۲۹ بہمن کا واقعہ بھی ایک چہلم کی یاد دلاتا ہے ۔ شہداء کربلا کا چہلم ایک نئی تحریک کا آغاز تھا ۔ واقعہ کربلا کے رونما ہونے کے بعد، اس عظیم المیے کے واقع ہونے کے بعد ، اس محدود فضا میں حضرت امام حسین علیہ السّلام اور آپ کے خاندان اور اصحاب باوفا کی اس بے مثال قربانی کے بعد ،اہل حرم کی اسارت کے واقعہ کو کربلا کے پیغام کو فروغ دینا چاہئیے تھا اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا اور امام سجّاد علیہ السّلام کے خطبوں اور اظہار حقائق کو ایک طاقتور نشر یاتی ادارے کی طرح کربلاء کے پیغام، اس کے طرز فکر اور ہدف کو وسیع پیمانے پر پھیلانا چاہئیے تھا ؛ اور یہ کام انہوں نے بخوبی انجام دیا ، گھٹن اور اختناق کی فضا کی خاصیّت یہ ہے کہ لوگوں میں یہ ہمّت و جسارت پیدا نہیں ہوتی ، انہیں یہ موقع نہیں مل پاتا کہ حقائق کو سمجھنے کے بعد مناسب رد عمل ظاہر کرسکیں ، چونکہ پہلے مرحلے میں ،ظالم اور جابر حکومتی مشینری عوام کو حقائق سے آشنا نہیں ہونے دیتی اور اگر یہاں بات نہ بن پڑے اور عوام کسی طریقے سے حقایق سے آشنا ہو جائیں تو وہ عوام کو ردّعمل کا موقع نہیں دیتی ۔کوفہ و شام اور سفر کے دوران ، حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی زبان اور اسیروں کی حالت زار سے بہت سے لوگ حقائق کو سمجھ چکے تھے لیکن اس ظالم و جابر حکومت کے سامنے ، اس گھٹن اور خوفناک فضا میں کس میں یہ ہمّت تھی کہ اس پر ردّ عمل ظاہر کر ے ؟مؤمنین کی آواز ان کے سینوں میں دبی ہوئی تھی ،چہلم کے دن اس دبی ہوئی آواز کو باہر نکلنے کا موقع ملا اور اس دن پہلا ردّعمل سامنے آیا ۔

مرحوم سیّد ابن طاوؤس اور بعض دیگر علماء نے تحریر کیا ہے کہ جب حضرت زینب سلام اللہ علیہا اور دیگر اسیر، زندان شام سے رہا ہو کو سرزمین کربلا میں وارد ہوئے تو وہاں صرف جابر بن عبداللہ انصاری اور عطیہ عوفی ہی نہیں تھے بلکہ "'رجا ل من بنی ھاشم'' قبیلہ بنی ہاشم کے بعض افراد بھی موجود تھے ، جو وہاں امام حسین علیہ السّلام کی قبر مطہّر کی زیارت اور حضرت زینب سلام اللہ علیہا کے استقبال کی غرض سے جمع ہوئے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ حضرت زینب سلام اللہ نے مدینہ واپسی کے لئیے کربلا کے راستے کا انتخاب کیا ، تا کہ وہاں ایک چھوٹا ہی سہی لیکن معنیٰ خیز اجتماع وجود میں آئے ۔ البتّہ بعض مورّخین نے چہلم کے دن اسیروں کی کربلا آمد پر شک و شبہ ظاہر کیا ہے اور اسے ناممکن بتایا ہے ، مرحوم آیۃ اللہ قاضی نے چہلم کے سلسلے میں ایک مفصّل کتاب تحریر کی ہے اور اس میں ثابت کیا ہے کہ یہ واقعہ عین ممکن ہے ۔ بہر حال بزرگوں اور قدیم علماء کی تحریروں میں یہ بات موجود ہے کہ جب حضرت زینب سلام اللہ علیہا اور دیگر اسیر، چہلم کے دن سرزمین کربلا میں وارد ہوئے تو وہاں جناب جابر بن عبداللہ انصاری، عطیہ عوفی اور قبیلہ بنی ہاشم کے بعض افراد موجود تھے ، اور ان کی موجودگی ،اس مقصد کی تکمیل کی علامت تھی جو شہادتوں کے ذریعہ حاصل ہونا چاہئیے تھا ، یعنی اس طرز فکر کا فروغ اور لوگوں میں ہمّت و جسارت کے جذبے کو بیدار کرنا ۔یہیں سے توّابین (جو لوگ واقعہ کربلا کے بعد اپنے کئیے پرنادم ہوئے اور قاتلان امام حسین علیہ السّلام سے انتقام کی غرض سے قیام کیا )کی تحریک شروع ہوئی ، اگرچہ اس قیام کو سرکوب کر دیا گیا لیکن اس کے تھوڑے عرصے بعد جناب مختار اور کوفے کے دلیر و شجاع افرادنے امام حسین علیہ السّلام کی خونخواہی کے لئیے قیام کیا جس نے بنی امیّہ کی پلید اور خبیث حکومت کے خاتمہ کا راستہ ہموار کر دیا البتّہ اس کے بعد مروانیوں کی حکومت کا سلسلہ شروع ہوالیکن ان کے خلاف بھی جدّو جہد جاری رہی ۔ یہ حضرت امام حسین (ع)کے چہلم کی تاثیر ہے ۔سرکار سیّد الشّہداء کے چہلم میں اظہار حقیقت بھی ہے ،عمل بھی ہے ، اور اظہار حقیقت کے اہداف و مقاصد بھی اس میں نمایاں ہیں ۔

بالکل یہی خصوصیّت ، تبریز کے چہلم میں بھی نمایاں ہے ، میں نے ماضی میں بھی تبریز کے عوام سے عرض کیا ہے ؛ کہ اگر تبریز میں ۲۹ بہمن کا واقعہ رونما نہ ہوا ہوتا یعنی اہل تبریز نے اپنی قربانی کے ذریعہ قم کے شہیدوں کی یاد زندہ نہ کی ہوتی ؛تو عین ممکن ہے کہ ہماری انقلابی جدّ و جہد اپنے ڈگر پر باقی نہ رہتی ، اور یہ احتمال پایا جاتا ہے کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کا یہ عظیم واقعہ جس انداز سے رونما ہوا ہے اس سے ہٹ کر رونما ہوتا ۔۲۹ بہمن کے دن اہل تبریز کے قیام کا واقعہ ایک فیصلہ کن کردار کا حامل ہے ، قم کے شہیدوں اور ان کی جدّوجہد کو اہل تبریز نے زندہ رکھّا،یقینا اس سلسلے میں اہل تبریز کو بڑی قیمت چکانا پڑی ، اپنی جانوں کو نثار کیا ، اپنے آرام و آسائش کو خیر باد کہا، آپ کو ان قربانیوں کاعظیم صلہ ملا اور آپ کے اس اقدام نے پورے ملک میں ایک عوامی تحریک کو جنم دیا ، یہی وجہ ہے کہ قم کےشہیدوں کے لئیے ایک چہلم منایا گیا لیکن تبریز کے شہیدوں کے لئیے متعدّد چہلم منائے گئے ، جس سے اس تحریک کی وسعت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ، ایک صحیح تحریک اور اقدام کی خاصیّت بھی یہی ہوتی ہے ۔

یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے لیکن تاریخ کا حصّہ بن چکی ہے ، ماضی سے متعلّق ہے ، آج ،۲۹ بہمن ۱۳۵۶ ھ۔ ش کے واقعے کو رونما ہوئے ۳۱ سال کا عرصہ بیت چکا ہے ، ۳۱سال کا زمانہ ایک طویل عرصہ ہے ، اس اجتماع میں موجود بہت سے افراد نے یا تو اس دور میں ابھی دنیا میں قدم ہی نہیں رکھّا تھا یا اس قدر کم سن تھے کہ انہوں نے اس واقعہ کو محسوس نہیں کیا ۔سوال یہ ہے کہ ہم لوگ اس دور میں اس واقعے سے کیا سبق سیکھ سکتے ہیں ؟ہر اس واقعے میں کوئی نہ کوئی درس ضرور ہوتا ہے جو خلوص نیّت اور صحیح طرز فکر کا نتیجہ ہو ۔اس سے درس لینے کی ضرورت ہے ۔ ۲۹ بہمن کے واقعے میں تین درس نمایاں ہیں ۱:بیداری اور ہوشیاری کی تاثیر ۲:مشکلات و مصائب کی پرواہ کئیے بغیر میدان عمل میں کود پڑنا ۳:مستقبل کے بارے میں پر امّید ہونا ۔ سب سے پہلی خصوصیّت یہ ہے کہ حالات کی نزاکت کو سمجھا جائے ، بہت سے دیگر افراد نے حالات کی نزاکت کو نہیں سمجھا لیکن اہل تبریز نے اس حسّاس اور اہم موقع کو محسوس کیا اور اس پر ردّ عمل ظاہر کیا ۔ حسّاسیّت اور نزاکت کو محسوس کرنا یہ خود ایک بڑی چیز ہے ۔ دوسری اہم خصوصیّت یہ ہے کہ حالات کی نزاکت اور حسّاسیّت کو محسوس کرنے کے بعد ، ہمّت وشجاعت کا مظاہرہ کیا جائے اور تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ یہ ردّعمل اور اقدام ، امّید ، خداپر بھروسے ، اور حسن ظن پر مبنی ہونا چاہئیے ، ۲۹ بہمن کے واقعے سے حاصل ہونے والے بعض درس یہی ہیں جو ہم نے ذکر کئیے۔

اگر ان لوگوں پر ایمان کی طاقت حکم فرما نہ ہوتی ، اور ان کے دلوں میں ایمان موجزن نہ ہوتا ، تو ان کی بیداری و ہوشیاری بھی ان کے کام نہ آتی اور اس سے کچھ حاصل نہ ہوتااور یہ جدّوجہد اس ردّعمل پر ختم نہ ہوتی ، عوام کے ایمان و بیداری اور بر وقت اقدام نے مل جل کر اپنا کردار ادا کیا ۔ اور یہی ہمارے لئیے درس ہے ، آج بھی ایسا ہی ہے ، کل بھی یہی ہو گا ، ہمیں تمام حوادث و واقعات کا پوری ہوشیاری و بیداری سے تعاقب کرنا چاہئیے ۔

بہت سی قوموں نے حسّاس مواقع پر حالات کی نزاکت کومحسوس نہیں کیا ،یہی وجہ ہے کہ وہ خواب غفلت کا شکار ہوئیں اور حالات ان پر سوار ہوگئے اور انہیں روندھ ڈالا ۔ جب علماء نے رضا خان کی من مانیوں کے خلاف قیام کیا اگر اس دور میں سب نے علماء کی تحریک کا ساتھ دیا ہوتا اور ملکی حالات کی نزاکت کو محسوس کیا ہوتا تو یقینا آج ہمارا ملک پچّاس ساٹھ سال آگے ہوتا اور اسے طاغوتی اور وابستہ حکومت کا پچّاس سالہ ضرر و زیاں برداشت نہ کرنا پڑتا ۔غفلت اس بات کا باعث بنتی ہے کہ انسان اس نقصان کو برداشت کرے ،غفلت کو دور کیجئیے ۔ ۱۳۳۲ھ، ش میں جب امریکہ و برطانیہ نے مل کر اس ملک میں حکومت کا تختہ الٹا، اگر حالات کی نزاکت کو صحیح ڈھنگ سے سمجھا گیا ہوتا اور اس پر مناسب ردّعمل دکھایا گیا ہوتا تو یقینا ہمارے ملک کو سالہاسال نا قابل تلافی نقصان برداشت نہ کرنا پڑتا ، لہٰذا حالات کی نزاکت کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے ۔

آج ایرانی قوم اپنے سامنے ایک وسیع محاذ کو دیکھ رہی ہے جس نے اپنی پوری توانائی اس بات میں صرف کر دی ہے کے اسلامی انقلاب کو اس کے مفاہیم اور'' استعمار ستیزی '' و سامراجی طاقتوں سے ٹکر لینےکی خاصیّت سے عاری کیا جائے ، انقلاب کی کامیابی کے آغاز سے اس محاذ نے اپنی تمام تر کوششیں اس بات پر مرکوز کر رکھّی تھیں کہ اس انقلاب سے وجود میں آنے والے ''اسلامی جمہوری نظام حکومت کا خاتمہ کیا جائے ، اس کی جڑوں کو کمزور کیا جائے ، البتّہ اسے اس مقصد میں کامیابی نہیں ملی ، اس نے سیاسی اقدامات کئیے ، اس نے اقتصادی محاصرہ کیا ، آٹھ سال تک اس قوم پر جنگ تھونپی ، اس قوم کے دشمنوں کو طرح طرح کے اسلحے سے لیس کیا ، اندرونی ،ضمیر فروش عناصر کو بھی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام حکومت کے خلاف صف آراکیا لیکن اسے کامیابی نہیں ملی ۔ اب یہ محاذ اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ اس نظام حکومت کو گرایا نہیں جا سکتا ۔ چونکہ اسے مؤمن اور پر عزم عوام کی پشت پناہی حاصل ہے اور وہی اس کا دفاع کر رہے ہیں ۔ لاکھوں مؤمن افراد نے آج تک فدا کاری سے اس نظام کی پاسداری کی ہے ، یہ صرف مسؤولین اور حکّام اور حکومت کا معاملہ نہیں ہے ۔ اگر کوئی نظام حکومت چند گنے چنے افراد پر مشتمل ہو اور صرف ایسے افراد پر منحصر ہو جن کی روزی روٹی اس حکومت سے وابستہ ہو تو ایسا نظام حکومت سامراج کے لئیے خطرہ نہیں ہوتا ۔ لیکن جس نظام حکومت کی بنیاد لوگوں کے ایمان اور دلوں کی پشت پناہی پر رکھّی گئی ہو ایسے نظام حکومت کو ہلانا ممکن نہیں ، سامراج نے اس بات کو اچھّی طرح سمجھ لیا ہے ۔ اس سال کے ۲۲ بہمن کی عظیم ریلیاں آپ کی عظمت و اقتدار کا منہ بولتا ثبوت ہیں ، سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقّی ، مختلف میدانوں میں جوانوں کی موجودگی ، اسلامی انقلاب کے اصول اور نعروں میں مزید دلچسپی سے صاف ظاہر ہے کہ اس نظام حکومت کو ہلانا ممکن نہیں ہے ۔آج مسؤولین میں سے کوئی بھی شخص اسلامی انقلاب کے اصول اور بنیادی نعروں پر نادم نہیں ہے بلکہ استقلال ، آزادی اور اسلام کے نعروں اور اس کے معتبر اساسی قانون پر فخر کرتا نظر آتا ہے ۔ آج ہمارے دشمن اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ جس قدر ممکن ہو اسلامی انقلاب کو اس کے اصلی مفاہیم سے دور کیا جائے ، ہم نے چند برس پہلے ثقافتی یلغار کا تذکرہ کیااس دور میں اس کے آثار مختلف شعبوں میں نمایاں تھے اور آج بھی اس کے آثار دکھائی دیتے ہیں ، اس ثقافتی یلغار کا اصل مقصد یہی ہے ، یہ یلغار اسی مقصد کے تحت انجام پا رہی ہے ۔وہ انقلاب کو اس کی دینی اور انقلابی روح سے تہی کرنا چاہتے ہیں ۔ یہ مسئلہ ان اہم چیزوں میں سے ہے جن میں عوام کی فہم و فراست لازم ہے ، یہ بھی ۲۹ بہمن کے واقعے کی طرح ہے ۔ بہت سے دیگر افراد نے ۲۹ بہمن کی اہمیّت کو نہیں سمجھا لیکن آپ نے اسے محسوس کیا اور اس پر رد ّ عمل ظاہر کیا ، ہر دور میں یہی کیفیّت ہے ۔ ہماری قوم کو حوادث کی اہمیّت کو محسوس کرنا چاہئیے ، خوش قسمتی سے ہماری قوم حالات کی نزاکت کو بخوبی سمجھتی ہے ۔ ہماری قوم بیدار و ہوشیار ہے ، یہ نعمت بھی اسے اسلامی انقلاب اور اس کے نظام حکومت کے بدولت حاصل ہوئی ہے ، عوام میں بیداری پائی جاتی ہے ، اور ان میں تجزیہ و تحلیل کی صلاحیّت پیدا ہو چکی ہے ۔

سب جان لیں !کہ آج اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمن اس مضبوط بنیاد کو گرانے سے مایوس ہو چکے ہیں ۔ ان کی تمام تر کوشش یہ ہے کہ کسی نہ کسی طریقے سے ان افراد کو اپنی طرف راغب کر یں جو انقلابی تحریک میں شامل رہے ہیں اور آج بھی سرگرم ہیں ، ان کے ذریعہ انقلاب کے مفاہیم کو کم رنگ کریں ، اسلامی جمہوریہ کا نام تو اپنی جگہ باقی رہے ؛ اس نظام حکومت کا انقلابی پہلو بھی بظاہر باقی رہے ، لیکن وہ اسلام وانقلاب کی روح سے عاری ہو ۔ نام کی کیا قدرو قیمت ہے ؟ مفہوم و مضمون لازم و ضروری ہے ۔ میری اور آپ کی ذمّہ داری ہے کہ انقلاب کی روح اور اس کے قیمتی اصول کا دفاع کریں اور انہیں کسی قیمت پر نظر انداز نہ ہونے دیں؛یہ ہم سب کا فریضہ ہے ۔

ہم جان لیں کہ خداوندمتعال ان لوگوں کا مددگار ہے جو اس پر ایمان رکھتے ہیں اور اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہیں ،جو اپنی انسانی طاقت و توانائی کو الٰہی اہداف و مقاصد کے حصول کی راہ میں استعمال کرتے ہیں ۔ خداوند متعال یقینا ان لوگوں کی مدد کرتا ہے جو اس کی راہ پر چلتے ہیں۔ ہمیں جہاں کہیں بھی شکست ہوئی ہے اور خداوند متعال نے وہاں ہماری نصرت نہیں کی، اس شکست کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے اس کام کوصحیح ڈھنگ سے انجام نہیں دیا؛اپنے فریضے کی ادائیگی میں کوتاہی سے کام لیا۔ اگر ہم اپنا فریضہ ادا کریں تو خدا بھی ہماری مدد کرے گا ، ارشاد رب العزّت ہے :اوفوا بعہدی اوف بعہدکم ''(۱)تم اپنے عہد و پیمان پر عمل کرو میں اپنے عہد و پیمان پر عمل کروں گا ' یہ دو طرفہ معاملہ ہے ؛اس خدا نے جو ہماری جان اور تمام نعمتوں کا مالک ہے ، اس نے ہم سے دو طرفہ معاہدہ کیا ہے ۔ تم عمل کرو میں بھی عمل کروں گا؛ خداوند متعال نے ہم سے یہ وعدہ کیا ہے ۔ اگر ہم اپنے فریضے کو بجا نہ لائیں تو ہمیں خداوند متعال کی نصرت کا منتظر نہیں رہنا چاہئیے ۔

الحمد للہ ہماری قوم ایک باعمل اور باکردار قوم ہے اور اس نے ہمیشہ ہی اس کا مظاہرہ کیا ہے ، اس تیس سال کے عرصے میں ہمارے دشمن یہ امّید لگائے بیٹھے تھے کہ شاید انقلاب کے اصول ، اس کے اہداف و مقاصد فراموشی کا شکار ہوجائیں لیکن آج ،جب ہم انقلاب کی تیس سالہ تاریخ کا جائزہ لیتے ہیں اور عوامی اجتماعات ، ان کے اظہار نظر ، اور نعروں پر نگاہ ڈالتے ہیں تو ہمیں وہی انقلاب کے اوائل کے نعرے سننے کو ملتے ہیں ؛یہ صراط مستقیم اب تک محفوظ ہے ،یہ بہت اہم چیز ہے ۔

ہمیں تاریخ کے دیگر انقلابوں میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔یہ خداوند متعال پر ایمان اور اسلام کی برکت سے ہے ۔ انقلاب کے اصول کی پاسداری ضروری ہے ؛ہمارے جوانوں کو اس موقع کو غنیمت سمجھنا چاہئیے اور اس کی قدر کرنا چاہئیے ۔ خوش قسمتی سے ہماری آج کی جوان نسل ، اس دور کی جوان نسل سے کہیں زادہ عمدہ اور تجربہ کار نسل ہے ، اگر اس دور میں جوانوں پر جذبات و احساسات کا غلبہ تھا تو آج مختلف میدانوں میں جوانوں کی موجودگی ، عقل و شعور کی وجہ سے ہے؛ اگر چہ جذبات بھی ہیں اور ان کا ہونا بھی ضروری ہے ، لیکن عقل و شعور ،صحیح طرز فکر اور میدان میں موجودگی ان کا طرّہ امتیاز ہے ۔ خداوند متعال ہمارے شہیدوں کو پیغمبر اسلام صلّی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے ساتھ محشور فرمائے ؛ ہمارے عزیز امام رضوان اللہ تعالیٰ علیہ کو ان کے اولیاء کے ساتھ محشور فرمائے ؛ہم کو انشاء اللہ اس راہ کا سپاہی اور اس مقدّس ہدف کی راہ میں قربان ہونے والوں میں قرار دے ؛اور آپ بھائیوں اور بہنوں کی توفیقات میں انشاء اللہ دن بدن اضافہ فرمائے ۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

(1)  بقرہ، آیۃ 40