ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظّم کانئے سال کے آغاز پر امام رضا (ع) کے روضہ اقدس کے زائر ین اور مجاورین سے خطاب

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

الحمد للہ ربّ العالمین والصلاۃ والسّلام علیٰ سیّد ناونبیّنا ابی القاسم مصطفیٰ محمّد وعلیٰ آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیّما بقیّۃ اللہ فی العالمین

میں تہ دل سے خداوندمتعال کا شکر گزار ہوں جس نے ایک بار پھر مجھے اس روضہ اقدس کی زیارت کی سعادت نصیب کی اوریہ موقع فراہم کیا ، اورمشہد کے عظیم عوام اور اس عظیم المرتبت بارگاہ کے زائرین کے دیدار سے شرفیاب کیا ، میں خداوند متعال سے دعا گو ہوں کہ وہ اس عید سعید اور اس سال کو ایرانی قوم کے لیے خیر و برکت کاسال قرار دے ۔

یہ سال، انقلاب کی چوتھی دہائی کا پہلا سال ہے جسے ترقّی اور انصاف کی دہائی سے موسوم کیا گیا ہے ۔میں اس مناسبت سے بعض اہم ملکی اور بین الاقوامی مسائل پر روشنی ڈالوں گا ۔ہم نے اس دہائی کو انصاف اور ترقّی کی دہائی سے موسوم کیا ہے ؛ حالانکہ انقلاب کے آغاز سےاور اسلامی نظام حکومت کے قیام اور ثبات کے ساتھ ہی ہماری قوم نے اس راہ میں چلنا شروع کر دیا تھا ، لیکن آنے والے دس برس میں آخر وہ کون سی خصوصیّت ہے جس کی وجہ سے ہم نے اسے ترقّی اور انصاف کی دہائی قرار دیا ہے ؟ میری نگاہ میں ، گذشتہ تین دہائیوں پر موجودہ دہائی کی فوقیّت کا سبب وہ وسیع اور عظیم آمادگی اور تیّاری ہے جو ترقّی اور عدالت کے سلسلے میں ہمارے عزیز ملک میں پائی جاتی ہے ، یہ تیّاریاں ہماری عزیز اور پر عزم قوم کو عدالت اور ترقّی کی راہ میں ایک چھلانگ لگانے اور بڑا قدم اٹھانے کا موقع فراہم کرتی ہیں ۔ ہماری قوم ، برق رفتاری سے عدالت اور ترقّی کی طرف آگے بڑھنے کو تیّار ہے ؛ گزشتہ دہائیوں میں ہماری قوم میں اس بڑے پیمانے پر آمادگی اور استعداد نہیں پائی جاتی تھی ۔

اگر ہم اس آمادگی کے اصلی عناصر و عوامل کا تعیّن کرنا چاہیں ، تو میں عرض کر دوں کہ چند عامل اس آمادگی میں بہت زیادہ مؤثر ہیں :ان میں سے ایک اہم عامل ،ہمارے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی موجودگی ہے ،آج لاکھوں ، زندہ دل اور تعلیم یافتہ جوان ، علم و تحقیق ، سماجی اور سیاسی میدانوں میں مصروف عمل ہیں ۔ ہمارے ملک میں ، تعلیم یافتہ ، آمادہ اور بااستعداد جوانوں کی اتنی بڑی تعداد اپنے آپ میں ایک حیرت انگیز اور قابل توجّہ امر ہے ۔

اس آمادگی کا ایک دوسرا عنصر" تجربہ "ہے ۔ ہمارے ملک کی ممتاز شخصیّات اور اعلیٰ عہدیداروں نے گزشتہ برسوں میں ، مشکلات کا سامنا کرتے وقت گرانبہاتجربے حاصل کیئے ہیں ، جنہیں ملک و قوم کی خدمت کے لیےبروے کار لایا جارہا ہے ۔

اگر ہم ان تجربات کا نمونہ اور مثال پیش کرنا چاہیں تو اس سلسلے میں ملک کے بنیادی آئین کی دفعہ چوالیس کی پالیسیوں کے اجراکو ان تجربات کے آثار کے طور پر گنوایا جاسکتا ہے ۔ گزشتہ دسیوں سال کے تجربے نے حکومت کے اہلکاروں کو اس نتیجہ تک پہنچایا ہے کہ وہ ان پالیسیوں کے اجراء پر اپنی توجّہ مرکوز کریں ۔

اس تجربے کی ایک دوسری مثال ، حکومت کے مالی تعاون اور سبسڈی کو بامقصد بنانے کا مسئلہ ہے ۔ یہ ملک کے ممتاز اور اعلیٰ عہدیداروں کے طولانی تجربے کا نتیجہ ہے جو سالہاسال کے تجربے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس مالی تعاون اور سبسڈی کو جو عام طور پر سرکاری خزانے اور عوام کی جیب سے نکلتا ہے اور عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہوتا ہے اس کا رخ ان طبقات کی طرف موڑا جائے جو اس کے زیادہ محتاج و مستحق ہیں ؛ یعنی ملک کے سرمایہ دار ، مالدار اور امیر طبقات (جنہیں اس مالی تعاون کی چنداں ضرورت نہیں ہے )کے مقابلے میں ، معاشرے کے غریب ونادار ، اور متوسّط طبقےسے نچلے طبقات، سرکاری خزانے اور بیت المال سے زیادہ مستفید ہوں ، اس حقیقت تک رسائی اور اس کے نفاذ کا مصمّم ارادہ ، اس طولانی تجربے کا نتیجہ ہے جو گزشتہ چند سالوں میں حاصل ہوا ہے اور عمل کے مرحلے میں داخل ہوا ہے ۔

اس آمادگی کا ایک دوسرا عنصرملک کا "بنیادی ڈھانچہ " ہے ۔ آج ہمارا ملک ، انقلاب کے پہلے اور دوسرے عشرے کی طرح ، ملک کے لیئے ضروری علمی ڈھانچے سے محروم نہیں ہے ۔ آج ہمارے جوان ، ہمارے ماہرین ، ہمارے سائنسدان جس علمی میدان میں بھی داخل ہوتے ہیں وہاں عظیم کارنامے انجام دے سکتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے ملک میں الحمدللہ مواصلاتی ، (communications) ارتباطی اور علمی تحقیقات کے میدان میں وسیع پیمانے پر ترقّی اور پیشرفت کا بنیادی ڈھانچہ تیّار ہے ۔ اہم بین الاقوامی راستوں ، ہوائی اڈّوں کی تعمیر ، ٹیلی مواصلاتی نظام ، اور ڈیم بنانے میں ہم دوسروں کے محتاج نہیں ہیں ۔ ایک دور وہ بھی تھا جب کسی کے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں سماتی تھی کہ ہمارے ماہرین کسی دن ، ڈیم ، شاہراہوں ، ہوائی اڈّوں اور فولاد کے کارخانوں کی تعمیر پر قادر ہو سکیں گے ؛ ان چیزوں میں ہم اغیار کے محتاج تھے ، جب اس ملک سے غیروں کا تسلّط ختم ہوا تو ہم اس سلسلے میں فقیر و نادار تھے ؛ لیکن آج ہم نے اس سلسلے میں نمایاں ترقّی کی ہے ۔ آج ہمارے جوان ، پیچیدہ کارخانے بنا رہے ہیں ، سائنس و ٹیکنالوجی کی پیچیدہ گتّھیاں سلجھا رہے ہیں ، ملکی ضروریات کو پورا کر رہے ہیں ، سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ، تجارتی اور مشاورتی اعتبار سے دوسرے ممالک کا تعاون بھی کر رہے ہیں ۔اس اعتبار سے آج ہمارے ملک نے ایک ممتاز مقام حاصل کر لیا ہے ؛ یہ کوئی معمولی ترقّی نہیں ہے ۔ ایک دور میں ہمارے جوان R.P.G چلانا نہیں جانتے تھے ، لیکن آج وہی جوان ، مصنوعی سیّاروں کو فضا میں لے جانے والے میزائیل بنا رہے ہیں ، جس سےپوری دنیا کے ماہرین دنگ رہ گئے ہیں ، ایک زمانے میں ہمیں اپنے بجلی گھروں اور تیل صاف کرنے کےکارخانوں کو چلانے کے لئیے غیر ملکی ماہرین کا تعاون درکار تھا ؛ لیکن آج اس صنعت میں ہم نے اس قدر پیشرفت کی ہے کہ ہمارے جوان ، تیل صاف کرنے والے کارخانوں اور بجلی گھروں کی تعمیر اور ان میں استعمال ہونے والا ساز و سامان خود تیّار کر رہے ہیں ۔ایک دور میں ہم علم حیات (Biology) کے سلسلے میں فقر مطلق کا شکار تھے ؛ لیکن آج ہمارے ماہرین ، بنیادی خلیوں کی تولید میں کامیاب ہو چکے ہیں جوعصر حاضر کا ایک انتہائی اہم کارنامہ ہے ۔ آج ہمارے ملک میں یہ سہولتیں ) Facilities) موجود ہیں ، یہ چیزیں ملک کا بنیادی ڈھانچہ شمار ہوتی ہیں جن کی بنیاد پر مستقبل کی ترقّی و پیشرفت کی راہیں ہموار ہوتی ہیں ۔ اس کے علاوہ (جیسا کہ میں نے عرض کیا ) ملکی انتظامیہ کا وسیع و عمیق ، تجربہ بھی ہے ، آج ہمارا ملک،نظم و نسق چلانے والے اعلیٰ عہدیداروں کے سامنے ایک صاف میدان کی طرح ہےجس کے پیش نظر وہ اس کی تعمیر و ترقّی کی منصوبہ بندی کر سکتے ہیں ۔ اعلی حکام کے اس ملک کے دور افتادہ ،پسماندہ مقامات کے دورے ، مختلف صوبوں اور ان کے مختلف شہروں کاسفر ، عوام سے قریبی رشتے ، اپنی آنکھوں سے ان کی مشکلات کامشاہدہ ، وہ عظیم اور گرانقدر تجربہ ہے جو ہمارے ملک کے مسؤولین نے حاصل کیا ہے ؛ جو ، مساوات اور ترقّی کی راہ میں آگے بڑھنے کے لئیے ایک بہترین پلیٹ فارم ہے ؛ جو اس بات کا متقاضی ہے کہ آنے والا عشرہ (جو آج سے شروع ہو رہا ہے )ہمارے ملک اور اسلامی جمہوری نظام کے لئیے "انصاف و ترقّی " کا عشرہ قرار پائے ؛ سبھی کو اس سلسلے میں جانفشانی اور عملی ثبوت فراہم کرنا ہو گا ۔

میں یہاں پر ترقّی اور عدالت کے مفہوم کی مختصر وضاحت کرنا چاہتا ہوں ؛ اس اجمال کی تفصیل ، حکام ، مقرّرین اور ان افراد کا فریضہ ہے جو عمومی افکار و آراء پر اثر انداز ہوتے ہیں ؛ وہ تحقیق کریں اور عوام کو اس کے معنا و مفہوم سے آگاہ کریں۔ پیشرفت و ترقّی سے ہمار ی مراد کیا ہے ؟کسی خاص شعبے میں ترقّی منظور نظر نہیں ہے ، بلکہ ہمہ گیر ترقّی و پیشرفت ، مقصود ہے ؛ یہ قوم تمام شعبوں میں ترقّی کی مستحق ہے : قومی سرمایے کی پیداوار میں ترقّی ، سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی ، قومی اقتدار اور بین الاقوامی عزّت میں اضافہ ، معنویّت اور اخلاق میں فروغ ، سماجی اور اخلاقی سلامتی میں پیشرفت ،بارآوری میں ارتقاء ، بارآوری میں ارتقاء کا مطلب یہ ہے کہ ہم موجودہ سرمایے سے بہترین استفادہ کریں ، تیل ، گیس ، کارخانوں ، اورراستوں اور دیگر وسائل سے بہترین استفادہ کریں ۔اسی طرح ، ترقی و پیشرفت کے لئیے قوانین کااحترام ، اور سماجی ڈسپلن اور نظم ونسق بھی ضروری ہے اگر کوئی قوم لاقانونیّت کا شکار ہو ، اور قانون شکنی اس کی فکر و نظر پر حکم فرما ہو تو ایسا ملک اور ایسی قوم ، معقول اور صحیح ترقی نہیں کرسکتی۔قومی اتحاد و انسجام کو فروغ دینا بھی ضروری ہے ، انقلاب کے دشمن شروع سے ہی اس اتحاد میں رخنہ ڈالنے کے درپے رہےہیں ، لیکن خوش نصیبی سے ہماری قوم نے ان تمام شعبوں میں عملی اتّحاد کا مظاہرہ کیا ہے جنہیں تفرقے اور اختلاف کے لیئے استعمال کیا جاسکتا تھا ؛ ہمیں قومی اتحاد و یکجہتی کو ہر ممکن فروغ و ارتقاء دینا چاہیے ۔رفاہ عام میں ترقی بھی لازمی چیز ہے ، تمام طبقات، فلاح و بہبود اور رفاہ عام اور خوش حالی سے مالامال ہوں ۔ ہماری قوم کا سیاسی درک و شعور ، اس کی سیاسی تجزیہ و تحلیل کی صلاحیّت ،بدخواہوں اور دشمنوں کے مقابلے میں ایک مضبوط قلعے کا کردارادا کرتی ہے ۔ لہٰذاہمیں اپنے سیاسی شعور کو ارتقاء دینا چاہیے ۔ آج ہماری قوم، سیاسی شعور کے اعتبار سے دنیا کی بہت سی دیگر قوموں سے بہت آگے ہے ؛ لیکن ابھی بھی اس میں مزید پیشرفت کی گنجائش ہے۔ ان تمام شعبوں میں جوابدہی اور قومی عزم و ارادے کو فروغ دینے کی ضرورت ہے ۔ البتہ صرف باتوں سے یہ کام نہیں ہو سکتا؛ محض لفاظی سے کوئی کام نہیں ہوسکتا ؛ ان چیزوں کو کاغذ پر لکھنے سے بھی کچھ حاصل نہیں ہو سکتا ؛اس کے لئیے فعّالیت اور منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ، جس کی طرف بعد میں اشارہ کروں گا ۔

عدل و مساوات کے بارے میں عرض کر دوں کہ وہ ترقی اور پیشرفت جس میں عدل و مساوات کا لحاظ نہ رکھاگیا ہووہ اسلام کی نگاہ میں مطلوب نہیں ہے ۔اگر ہم قومی سرمایے کی پیداوار اور حکومت کی آمدنی میں بڑا نشانہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں لیکن ملک میں تفریق اور امتیاز ی سلوک پایا جاتا ہو، کچھ لوگ ہر طرح کے آرام و آسائش سے مستفید ہوں اور بعض لوگ فقر و ناداری کا شکار ہوں ، یہ وہ چیز ہے جو اسلام کے نقطہ نگاہ سے مطلوب نہیں ہے ؛ یہ ترقی نہیں ہے جو اسلام کے مد نظر ہو ۔مساوات کا قیام ضروری ہے ؛ عدالت وہ عمیق اور وسیع لفظ ہے جس کی حدود اور اصلی خطوط کا تعیّن ضروری ہے ۔ میری نگاہ میں مساوات اور عدالت کا مطلب ، طبقاتی اورجغرافیائی فاصلوں کا خاتمہ ہے ۔ایسا نہ ہو کہ وہ صوبہ ، وہ شہر ،وہ دیہات جو مرکز سے دور ہوپسماندگی کا شکار ہو؛ اور وہ مقام جو مرکز سے نزدیک ہو وہ ہر طرح کی سہولت سے مستفید ہو ؛ یہ عدالت اور مساوات نہیں ہے ۔ طبقاتی اور جغرافیائی فاصلوں کا خاتمہ ہونا

چاہئیے ، ملک کے عوام کو ترقی و پیشرفت کے یکساں مواقع حاصل ہوناچاہییں ؛ تا کہ ہر وہ شخص جس میں استعدادو صلاحیّت پائی جاتی ہو وہ اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھا سکے۔ ایسا نہ ہو کہ ، بعض دغابازاور دھوکے بازافراد میدان مار لیں ؛ ہمیں اپنی رفتار و کردار سے ایسا مظاہرہ کرنا چاہیے جس سے ملک کے مختلف افراد ، ملک کے وسائل سے یکساں طور پر استفادہ کر سکیں ۔البتہ یہ ایک بہت بڑی آرزو ہے لیکن قابل حصول ہے ؛ غیر ممکن نہیں ہے ، اگر ہم محنت و جد جہد کا مظاہرہ کریں تو اس آرزو کو حاصل کر سکتے ہیں ، یہ کام مشکل ضرورہے لیکن ممکن ہے ۔

مساوات اور عدالت کا ایک مصداق ، مالی اور اقتصادی بد عنوانیوں کا مقابلہ ہے جس پر سنجیدگی سے عمل کرنے کی ضرورت ہے ۔ میں نے کئی برس پہلے یہ بات کہی تھی اور بارہا اس پر تاکید کرتا رہا ہوں ، اس سلسلے میں ماضی میں کئی مناسب قدم اٹھائے گئے ہیں اور حال حاضر میں بھی اس پر توجّہ دی جارہی ہے ؛ لیکن بدعنوانی اور مالی فساد کامقابلہ ایک مشکل کام ہے ؛ ایک ایسا پر خطر کام ہے جس میں طرح طرح کی مخالفتوں اور عداوتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، دشمن افواہیں پھیلاتے ہیں ،جھوٹ بولتے ہیں ، اور ان افراد کو خاص کر اپنا نشانہ بناتے ہیں جو اس کام میں بڑھ چڑھ کر حصّہ لیتے ہیں؛ یہ پیکار بھی ضروری ہے اور اسے انجام پانا چاہیے ۔ یہ پیکار اچھی چیز ہے لیکن وہ افراد جو عدالت اور ترقی کے میدان میں ان عظیم کاموں کو انجام دینا چاہتے ہیں انہیں ایسا منتظم و مدبّر ہونا چاہیے جو حقیقی معنا میں عدالت و مساوات کے قیام اور بدعنوانیوں سے مقابلے پر ایمان رکھتے ہوں ؛ اس کام کے لیے ایسے مؤمن ومعتقد ، مدیروں کی ضرورت ہے جن پر شجاعت اور خلوص نیّت غالب ہو ، جن پر تدبیر اور عزم راسخ حکم فرما ہو ؛ ایسے افراد یقینا ، بلند و بالا الٰہی اہداف و مقاصد کو عملی جامہ پہنا سکتے ہیں، یہ مساوات کے حوالے سے پہلا نکتہ ہے جس کی وضاحت ضروری تھی ۔

ترقی اور عدالت کے سلسلے میں ایک بنیادی اقدام وہ مسئلہ ہے جس کی طرف میں نے ایرانی قوم کے نام اپنے نوروزکے پیغام میں اشارہ کیا تھا ؛ اور وہ اسراف اور فضول خرچی سے مقابلے ؛ مصرف اور خرچ کے طور طریقے کی اصلاح ؛ اور بیت المال کے بے تحاشا استعمال کا معاملہ ہے ؛ یہ ایک بہت اہم مسئلہ ہے ، البتّہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب میں نے اس مسئلے کی طرف توجّہ دلائی ہو ، میں نے ہر نئے سال کے موقع پر ، اس جگہ سے ایرانی قوم کو خطاب کرتے ہوئے متعدّد مرتبہ ، اسراف ، مال کی بربادی ،اور فضول خرچی سے اجتناب پر زور دیا ہے ، اور کفایت شعاری کی تاکید کی ہے ؛ لیکن یہ مسئلہ ختم نہیں ہوا؛یہ مقصد اپنی مطلوبہ شکل و صورت میں حاصل نہیں ہوا ؛ اس لئیے ضروری ہے کہ ہم مختلف سطح پر کفایت شعاری کے مسئلے کو اپنی بنیادی پالیسی اور منصوبہ بندی کا حصّہ قرار دیں ۔ ہمارے عزیز عوام اس مطلب کو بھی مدّ نظر رکھیں کہ کفایت شعاری کا مطلب کسی چیز کا استعمال ترک کرنا نہیں ہے بلکہ کفایت شعاری کا مطلب یہ ہے کہ ہر

چیز کا صحیح اور بجا استعمال کیا جائے ؛ مال کو ضایع و برباد ہونے سے بچایا جائے ، اور اسے نتیجہ خیزاور پر ثمر بنایا جائے ، مال اور اقتصاد کے اسراف کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے مال کو اس طریقے سے خرچ کرے جس سے کوئی نتیجہ برآمد نہ ہو ؛ مال کو بلاوجہ اور بیہودہ مصرف کرنا ، مال کو برباد اور ضایع کرنے کے مترادف ہے ، ہمارے معاشرے کو ایک دائمی شعار کے طور پر اسےاپنے مدّ نظر رکھنا چاہیے ، مصرف اور خرچ کے اعتبار سے ہمارے معاشرے کی حالت چنداں مطلوب نہیں ہے ۔ میں اسے عرض کر رہا ہوں کہ ہمیں اپنی اس خامی کا اعتراف کرنا چاہئیے ۔ ہماری غلط عادتوں ، غلط رسم و رواج اور اس طور و طریقے نے جو ہم نے ادھر ادھر سے سیکھا ہے ہمیں اسراف و فضول خرچی کی لت ڈالی ہے ، پیداوار اور خرچ میں تناسب ہونا چاہیے ، پیداوار کا پلڑا بھاری ہونا چاہیے ؛ یعنی معاشرے کی پیداوار ، اس کے خرچ سے زیادہ ہونی چاہیے ، تاکہ معاشرہ ملکی پیداوار سے استفادہ کر سکے اور اضافی پیداوار کو ملک کی تعمیر و ترقّی میں استعمال کیا جاسکے ، لیکن آج ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے ؛ ہمارا خرچ ، ہماری پیداوار سے کہیں زیادہ ہے ، یہ چیز ملک کی پسماندگی کا باعث بنتی ہے ؛ یہ ہمارے ملک کو ناقابل تلافی اقتصادی نقصان پہنچاتی ہے ، اس کی وجہ سے معاشرہ اقتصادی بحران کا شکار ہو سکتا ہے ، اسی وجہ سے قرآن مجید کی متعدّد آیات میں اقتصادی اسراف اور فضول خرچی سے اجتناب کرنے پر زور دیا گیا ہے ؛ اسراف و فضول خرچی ، اقتصادی اعتبار سے بھی نقصان دہ ہے اور ثقافتی لحاظ سے بھی مضر ہے ، جب کوئی معاشرہ ، اس بیماری کا شکارہو تو ثقافتی اعتبار سے بھی اس پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کفایت شعاری اور اسراف کا مسئلہ محض ایک اقتصادی مسئلہ نہیں ہے بلکہ اقتصادی مسئلہ ہونے کے ساتھ ساتھ یہ ایک سماجی اور ثقافتی مسئلہ بھی ہے ، اسراف ، ملک کے مستقبل کے لئیے ایک خطرہ ہے ۔

میں یہاں پر روزمرّہ استعمال ہونے والی اشیاء میں اسراف کے دو ،ایک لرزہ بر اندام نمونے آپ کے سامنے پیش کرنا چاہتا ہوں؛ ان میں سے ایک نمونہ روٹی کا اسراف ہے۔ تہران اور بعض دیگر صوبوں کے مراکز سے جمع شدہ اعداد و شمار کے مطابق تینتیس فیصد روٹی یوں ہی ضایع ہوتی ہے ۔ مختلف شہروں میں تیّار کی جانے والی روٹی کا ایک تہائی حصّہ اسراف کی نذر ہو جاتا ہے ۔ ایک تہائی حصّے کی بربادی کا تصوّر تو کیجئیے !دوسری طرف اس بات کو بھی مدّ نظر رکھئیے کہ ہمارے کسان کس جانفشانی اور محنت سے گندم اگاتے ہیں ، اور اگر کسی سال بارش کم ہو (جیسا کہ اس سال ہوا ہے )تو حکومت ، ملکی خزانے اور عام بجٹ سے گندم درآمد کرتی اور خریدتی ہے ؛ یہ گندم آٹے میں تبدیل ہوتی ہے ؛ آٹے کو خمیر بنایا جاتا ہے ؛ تب کہیں جاکر روٹی تیّار ہوتی ہے ، پھر کتنے افسوس کی بات ہے کہ اس نعمت الٰہی کا ایک تہائی حصّہ یوں ہی برباد ہو جائے!لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے جس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔

پانی کے سلسلے میں جو تحقیق انجام پائی ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ گھریلو استعمال میں بائیس فیصد پانی برباد ہوتا ہے ، ہمار املک آبی وسائل کے اعتبار سے کوئی غنی ملک نہیں ہے ۔ ایرانی عوام کو پانی کے مصرف میں انتہائی کفایت شعاری اور قناعت کا مظاہر ہ کرنا چاہئیے ۔ایسی صورت میں جب کہ اس پانی کو ہزار محنت و مشقت سے دور دراز علاقوں سے شہروں اور دیہاتوں تک پہنچایاجاتا ہے ، اور ڈیموں کی تعمیر پر ایک خطیر رقم صرف کی جاتی ہے ، اس قدر سائنس و ٹیکنالوجی ، محنت و مشقت اور تجربات کو بروئے کار لانے کے بعد جو پانی ہمارے گھروں تک پہنچتا ہے اس کا ۲۲فیصد یوں ہی ضایع ہو جائے یہ نہایت افسوس کی بات ہے !یہ تو صرف گھریلو مصارف کی بات ہے ورنہ کھیتی باڑی اور صنعتی مصارف میں اسراف کی نوعیّت کچھ اور ہی ہے ۔ تحقیق سے جو بات سامنے آئی ہے اور جس کے اعداد و شمار ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہم دنیا کے متوسّط درجے سے دوگنا زیادہ ،توانائی کے وسائل (بجلی ، گیس ، تیل ، پٹرول ۔۔۔)کو استعمال کرتے ہیں ، کیا یہ اسراف نہیں ہے ؟

توانائی کے مصرف اور استعمال کا پیمانہ اور معیار موجود ہے ؛ یعنی کارخانوں میں جو چیز تیّار ہوتی ہے اس کا موازنہ اس توانائی سے کیا جاتا ہے جو خرچ ہوئی ہے ؛ توانائی کا خرچ جس قدر کم ہو اتنا ہی ملک کے لئیے مفید ہو گا ۔ بعض پیشرفتہ ممالک کے مقابلے میں ہمارے ملک میں توانائی کا استعمال آٹھ گنا زیادہ ہے !یہ وہ اسراف اور فضول خرچیاں ہیں جو ہمارے سماج کے دامن گیر ہیں ۔

ذاتی اور گھریلو استعمال کی چیزوں میں فردی اسراف کا دور دورہ ہے ۔ ٹھاٹ باٹ، نازونعم ، دیکھا دیکھی ، گھر کے تمام افراد ، مردوخواتین ، پیر وجوان کی خواہشات نفسانی کی اندھی تقلید، غیر ضروری چیزوں کی خرید یہ چیزیں اسراف کے زمرے میں آتی ہیں ، گھر کا فرنیچر ، اندرون خانہ کی تزئین اور سجاوٹ کاسامان ، آرائش کاسامان ، یہ وہ چیزیں ہیں جن پرہم پیسہ بہاتے ہیں ۔ حالانکہ یہی پیسہ ملکی پیداوار بڑھانے میں خرچ ہو سکتا ہے ، اسے سرمایہ کاری میں لگایا جا سکتا ہے ، ملک کو آگے بڑھایا سکتا ہے ، فقیروں اور ناداروں کی دستگیری کر سکتا ہے ، قومی سرمایے میں اضافہ کر سکتا ہے ، لیکن ہم اسے ایسی چیزوں میں خرچ کرتے ہیں جو خواہشات نفسانی ، دیکھا دیکھی اور خیالی عزّت و آبرو کی حفاظت کی وجہ سے ہیں ۔ کچھ لوگ سفر پر جاتے ہیں اور وہاں سے واپسی پر ان کے استقبالیہ اور خیر مقدم کے طور پر دعوت کا انتظام کیا جاتا ہے ، کبھی کبھی ان دعوتوں کے اخراجات ، حج و عمرے کے سفر سے بھی زیادہ ہوتے ہیں ، شادی اور غم کے موقع پر خطیر رقم خرچ کی جاتی ہے ، قسم قسم کی غذاؤں کا بند وبست کیا جاتا ہے !آخر ایسا کیوں ؟ہوش میں آئیے،ابھی ہمارے ملک میں ایسے بھی افراد ہیں جو زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں۔ ہمیں ملک کی ترقّی اور پیشرفت میں مدد کرنی چاہیے ، میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ آپ لازمی طور پر اپنے پیسے کو راہ خدامیں بخش دیں اگر چہ یہ بہترین عمل ہے ، اگر آپ خیرات نہیں بھی کرنا چاہتے تو بھی اس پیسے کو ان تجمّلات اور آرائشوں میں خرچ کرنے کے بجائے اپنے فائدے کے لئیے کسی پیداواری کام میں لگائیں ، کارخانوں میں حصّہ دار بنیں اور ان کی پیداوار کو بڑھائیں ، یہ کام بھی ملک کے لئیے مفید ہے ۔ لیکن ہم اس کے بجائے اپنے پیسے کو شادی اور غم کی دعوتوں ، روز بروز نئے سامان اور فرنیچر کی خریداری میں صرف کرتے ہیں ، آخر ایسا کیوں ہے ؟ اس کی کیا ضرورت ہے ؟صرف دین کی بات نہیں ہے دنیا کا کوئی بھی عقلمند ایسا برتاؤ نہیں کرتا ، اس سلسلے میں قرآن مجید کا ارشاد ہے "و کلوا واشربواولاتسرفواانّہ لایحبّ المسرفین "کھاؤ ، پیو لیکن اسراف نہ کرو، ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے " کلوا من ثمرہ اذا اثمر واتواحقّہ یوم حصادہ ولا تسرفواانہ لا یحبّ المسرفین "۔ خداوند متعال اسراف کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ۔ ہم سب خداکے بندے ہیں ، خدا اور دین کا فرمان آپ کے سامنے ہے ، اس سلسلے میں متعدّد روایات بھی پائی جاتی ہیں ، ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے آدھا پھل کھا کر آدھا زمین پر پھینک دیا تو امام علیہ السّلام نے اسے ڈانٹا کہ تم نے اسراف کیوں کیا ، آدھا پھل زمین پر کیوں پھینکا ؟ ہماری روایات میں کھجور کی گٹھلی اور روٹی کے ٹکڑوں سے استفاد ہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے ! اور ہمارا عالم یہ ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ بڑے بڑے ہوٹلوں میں دعوت کا انتظام کرتے ہیں اور جو کھانا بچ جاتا ہے اسے اس بہانے سے کوڑے دان کی نذر کر دیا جاتا ہے کہ یہ کھانا حفظان صحّت کے اصولوں کے منافی ہے !کیا یہ اسلامی معاشرے کے مناسب ہے ؟ کیا اس طریقے سے مساوات اور عدالت کے ہدف کو حاصل کیا جاسکتا ہے ؟

ہمیں سب سے پہلے اپنی اصلاح کرنی چاہیے ، ملک اور سماج کے خرچ اور استعمال کے طریقے کی اصلاح ہونی چاہیے ۔ خرچ اور استعمال میں ہمارا طور طریقہ غلط ہے ۔ کیسے کھائیں ؟ کیا کھائیں ؟ کیا پہنیں ؟ ہم نے موبائل کو جیب کی زینت بنا رکھا ہے ، اور جیسے ہی بازار میں نیاماڈل آتا ہے ہم پرانے ماڈل کو بالکل نظر انداز کر دیتے ہیں اور نئے ماڈل کی خریداری کا نشہ ہمارے اوپر سوار ہو جاتا ہے ، آخر ایسا کیوں ہے ؟ یہ کون سی خواہش نفسانی ہے کہ ہم جس میں مبتلا ہیں ۔

ملک کے مسؤولین پر بھی اس کی ذمّہ داری عائد ہوتی ہے ۔ اسراف، صرف انفرادی میدان میں نہیں پایا جا تا؛بلکہ قومی پیمانے پر بھی اسراف اور فضول خرچی موجود ہے ، بجلی اور توانائی کے شعبے میں جو اسراف ہوتا ہے اس کا بہت بڑا حصّہ عوام کے دائرہ اختیار سے باہر ہے ؛ حکام کے اختیار میں ہے ۔اگر پاور سپلائی کا نظام فرسودہ ہو، بجلی کی تاریں فرسودہ ہوں تو بجلی برباد ہوتی ہے ۔ یہ کہاں کی عقلمندی ہے کہ ہم بجلی کی پیداوار پر اس قدر سرمایہ اور وقت صرف کریں اور اس فرسودہ نیٹ ورک کے ذریعہ برباد ہونے دیں ، یقینا بجلی کا بہت بڑاحصّہ پاور سپلائی کے نظام کی فرسودگی کی وجہ سے ضایع ہو جاتا ہے ۔ اسی طرح اگرواٹر سپلائی کا سسٹم فرسودہ ہو تو پانی برباد ہوتا ہے ، یہ قومی پیمانے کا اسراف ہے ،اور اس کی ذمّہ داری ، ملک کے مسؤولین پر عائد ہوتی ہے ۔ملک کے مختلف اداروں کی سطح پر بھی اسراف پایا جاتا ہے ، اداروں کے اعلی ٰسطح کے مسؤولین، ذاتی اسراف کا ارتکاب نہیں کرتے لیکن ان کےاداروں میں ، سجاوٹ اور تزئین ، دفتر کی آرائش ، بے جا اسراف ، طرح طرح کے فرنیچر پر بے تحاشا اسراف ہوتا ہے ، ان چیزوں پر کڑی نگرانی رکھتے ہوئے ان پر کنٹرول کرنا چاہیے ، حکومت ، عوام اور اداروں کی سطح پر ، اسراف کو بری نگاہ سے دیکھا جانا چاہیے ۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا، یہ کام خالی زبانی جمع خرچ سے نہیں ہوسکتا ، اس کے لئیے منصوبہ بندی کی ضرورت ہے ، عدلیہ اورحکومت پر اس کے تعاقب کی ذمّہ داری عائد ہوتی ہے ۔منصوبہ بندی کریں ، قانون سازی کریں ، اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اسے نافذ کریں ۔ انشاءاللہ آئندہ دس برس میں ہم جو ترقی کریں گے اس کا زیادہ تر حصّہ اسی قضیہ سے مربوط ہے ۔

پیداوار سے خرچ تک ، خرچ سے دوبارہ استفادہ کرنے تک ہر مرحلے میں قناعت اور کفایت شعاری لازم ہے : ہمارے لئیے ضروری ہے کہ ہم پانی کے استعمال میں کفایت شعاری سے کام لیں ؛ اپنے ڈیموں کی حفاظت کریں، واٹر سپلائی کے نظام کی اصلاح کریں ، کسانوں کو کھیتوں کی سینچائی کے جدید طریقوں سے آگاہ کریں ۔ خوش قسمتی سے گذشتہ چند برسوں سے اس سلسلے میں کافی پیشرفت ہوئی ہے ، لیکن یہ کافی نہیں ہے ؛ اسے مزید فروغ ملنا چاہیے ۔ گھریلو مصارف میں پانی کی بچت کے مواقع فراہم کریں ، وہ لوگ حق بجانب ہیں جو یہ کہتے ہیں کہ پانی کے استعمال میں زیادہ روی کرنے والوں سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جائے اور انہیں کم سبسڈی دی جائے ۔ اور کم خرچ کرنے والوں کو زیادہ مراعات دی جائیں ، بعض لوگ ایسے بھی ہیں جواس قدر کم، پانی خرچ کرتے ہیں کہ اگر حکومت ان سے پانی کا پیسہ نہ بھی لے تو اس میں کوئی حرج نہیں ، لیکن بعض افراد ، ان کے دس گنا، بیس گنا زیادہ پانی خرچ کرتے ہیں ، انہیں بہر حال اس کی قیمت چکانی چاہیے ۔

روٹی کے بارے میں عرض کردوں کہ اچھی گندم کی پیداوار، اچھے آٹے کی تولید، صحیح ڈھنگ سے اس کی حفاظت ، اچھی روٹی پکانا اور اس کا صحیح مصرف یہ سبھی چیزیں لازم و ضروری ہیں ، اسراف و فضول خرچی کے مسئلے میں میرے لئیے ان باتوں کی یاد دہانی ضروری تھی ۔

ملک کے داخلی مسائل کے سلسلے میں ایک دوسرا موضوع ، مستقبل قریب میں منعقد ہونے والے صدارتی انتخابات کا مسئلہ ہے ؛ میں ان کی طرف بھی اشارہ کرنا چاہتا ہوں ۔ البتہ ابھی ان کے انعقاد میں کچھ وقت باقی ہے اگر زندگی نے اجازت دی اور میں نے ضروری سمجھاتو اپنے عزیزعوام کے سامنے کچھ عرائض رکھوں گا ، لیکن یہاں چند نکات کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں : سب سے پہلی بات یہ ہے کہ ہمارے ملک کے انتخابات ، کوئی نمائشی اقدام نہیں ہیں ؛ بلکہ یہ انتخابات ہمارے نظام حکومت کی بنیاد شمار ہوتے ہیں ۔ اس نظام حکومت کے ستونوں میں سے ایک ستون ، الیکشن ہے ۔ اسلامی جمہوریّت محض زبان سے ممکن نہیں ہے ؛ بلکہ اس کے لئیے عوام کی شراکت ، ان کے ارادے اور تعاون کی ضرورت ہے اور ملک میں ہونے والی تبدیلیوں سے عوام کا جذباتی و فکری رابطہ ضروری ہے ؛ اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ملک میں وسیع البنیاد انتخابات منعقد ہوں اور عوام بھر پور انداز میں ان میں شریک ہوں ۔ یہ جمہوریت ، ایرانی قوم کی پائداری کا باعث ہے ، یہ اسلامی جمہوریت ہی ہے جس نے گزشتہ تیس برسوں میں آپ کو دشمنوں کی دھمکیوں سے خائف نہیں ہونے دیا ، اسی جمہوریت کی وجہ سے دھمکیوں کے علاوہ ، دشمن آپ پر کوئی کاری ضرب نہیں لگا سکا ، اسی جمہوریت کی بنا پر ، ملک کے جوان مختلف میدانوں میں شجاعت اور خلوص کا مظاہرہ کر رہے ہیں ؛ ہمیں اس موقع کو غنیمت سمجھنا چاہئیے ۔ انتخابات ، ایرانی قوم کا عظیم سرمایہ ہیں ، بالکل ویسے ، جیسے آپ کسی بینک میں کوئی عظیم سرمایہ رکھتے ہیں ؛ بینک اس رقم کو اقتصادی سرگرمیوں میں لگاتا ہے اوراس کا نفع آپ کو پہنچتا ہے ، آپ کا ہر ووٹ اسی سرمایہ کاری کی طرح ہے ۔ آپ جو بھی ووٹ ، صندوق میں ڈالتے ہیں اس کی مثال اس سرمایے کی سی ہے جو آپ بینک میں جمع کرواتے ہیں ، ایک ووٹ کی بھی بہت اہمیّت ہوتی ہے ، انتخابات جس قدر پر جوش انداز میں منعقد ہوں گے ، اسی قدر دشمن کی آنکھوں کا کانٹا بنیں گے ، ہمارے دشمنوں اور مخالفوں کو ایرانی قوم کی عظمت کا احساس ہو گا ، دنیا میں آپ کے چاہنے والے مسرور ہوں گے ، انتخابات میں وسیع شرکت سے ایرانی قوم کی عظمت کا اظہار ہوتا ہے ؛ انتخابات کی بہت اہمیّت ہے ۔ میری ہمیشہ سی ہی یہ کوشش رہی ہے کہ ایرانی عوام سے عرض کروں ، کہ انتخابات میں آپ کی شرکت بہت اہم ہے ۔ انتخابات میں آپ کی شرکت ، اس نظام حکومت کے استحکام کا باعث ہے اور اس پر مہر تائیداور تصدیق ہے ۔ انتخابات کا مسئلہ ، محض ایک سیاسی ، فردی یا اخلاقی مسئلہ نہیں ہے بلکہ ایک جامع مسئلہ ہے ۔ انتخابات کا سروکار ، عوام کی سرنوشت و تقدیر ہے ؛ خاص کر صدارتی الیکشن کی اہمیّت اس اعتبار سے اور بھی زیادہ ہے کہ اس کے توسّط سے ملک کے اجرائی امور کو چند سال کے لئیے ایک فرد کو سونپا جاتاہے ؛ جس سے اس الیکشن کی افادیّت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔

ایک بات نامزد صدارتی امّیدواروں سے بھی کہنا چاہتا ہوں،وہ لوگ جو صدارتی امید وار ہیں ، انہیں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینا چاہئیے کہ انتخابات ، ملک کی طاقت اور توانائی کوبڑھانے کا ذریعہ ہیں ، انتخابات ، قوم کی عزّت و آبرو کی ضمانت ہیں ، انتخابات ، محض اقتدار کے حصول کا ذریعہ نہیں ہیں ، اگر یہ طے ہے کہ یہ انتخابات ، ایرانی قوم کے اقتدار کے لئیے منعقد ہو رہےہیں تو صدارتی امیدواروں کو اسے خاطر خواہ اہمیّت دینی چاہیے ، اور اپنی الکشن مہم اور اظہار خیال میں اس کا لحاظ رکھنا چاہیے ، ایسا نہ ہو کے انتخابی سرگرمیوں کے دوران کسی صدارتی امیدوار سے کوئی ایسی نازیبا حرکت سر زدہو جائے جس سے دشمن کے دل میں بے جا امید پیدا ہو ، رقابت کو منصفانہ بنائیں ، انصاف کی راہ سے خارج نہ ہوں ۔ یہ بجا ہے لیکن یہ بھی فطری بات ہے کہ ہر امیدوار کا اپنا مخصوص منشور ہوتا ہے ، اس کے اپنے مخصوص نظریّات ہوتے ہیں اور وہ مدمقابل کے نظرّیات کو رد کرتا ہے ؛ بذات خود اس میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ اس میں ناانصافی نہ ہو، حقیقت کا کتمان نہ ہو۔ میدان ، سبھی کے لئیے کھلا ہوا ہے ، آئیں اور اپنی بات عوام کے سامنے رکھیں ، پھر عوام کی مرضی ہے ؛ وہ جیسا مناسب سمجھیں ، جیسی تشخیص دیں ، انشاء اللہ اسی کے مطابق عمل کریں گے ۔

خداوند متعال کے لطف و کرم اور اس کی مدد سے یہ انتخابات بھی بالکل غیر جانبدارانہ ہوں گے ، میں دیکھ رہا ہوں کہ کچھ افراد نے ابھی سے ان انتخابات پر انگلی اٹھانا شروع کر دی ہے حالانکہ ابھی ان کے انعقاد میں دو، تین ماہ باقی ہیں ۔یہ کون سی منطق ہے ؟ یہ کون سی فکر ہے ؟ یہ کہاں کا انصاف ہے ؟ گذشتہ تیس برسوں میں تقریبا تیس الیکشن ہوئے ہیں اور ہر الیکشن میں اس وقت کے اعلی حکام نے ، رسمی طور پر ان کے صاف و شفّاف ہونے کی ضمانت فراہم کی ہے ، اور یہ سبھی الیکشن صاف و شفّاف تھے ان میں کسی طرح کی کوئی دھاندلی نہیں ہوئی ۔ بلا وجہ ان انتخابات پر کیوں انگلی اٹھا رہے ہیں ؟ لوگوں کو تذبذب اور شکوک و شبہات کا شکار کیا جا رہا ہے ؟ البتہ ہمار ے عوام کے ذہن ، ان باتوں سے تذبذب کا شکار نہیں ہوں گے ۔

میں انتخابات کا انتظام و انصرام کرنے والے حکام پر زور دینا چاہتا ہوں کہ وہ انتخابات میں جوش و خروش کو یقینی بنائیں ؛ تمام امیدواروں کو بلا روک ٹوک اپنی بات کہنے دیں ؛ عوام کو آزادانہ انتخاب کا موقع دیں ؛ انتخابات کے لئیے سازگار ماحول فراہم کریں اور پوری امانتداری سے اس عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں ؛ انشاء اللہ ایسا ہی ہو گا ۔

انتخابات کے سلسلے میں ،آپ عزیزوں اور پوری قوم سے ایک بات عرض کر دوں کہ انتخابات کے تئیں ، رہبریّت کے مؤقف کے بارے میں مختلف قیاس آرائیاں کی جاتی رہی ہیں ، طرح طرح کی افواہوں کا بازار گرم رہا ہے ، ہمیشہ ہی یہ صورت حال رہی ہے اور آئندہ بھی رہے گی ۔ کسی بھی دوسرے شخص کی طرح ، میرا بھی ایک ووٹ ہے ، میں اسے نہایت خاموشی سے بیلٹ بکس میں ڈالوں گا ،اور ان امیدواروں میں سے کسی ایک کو ووٹ دوں گا ؛ کسی بھی شخص سے نہیں کہوں گا کہ کسے ووٹ دے اور کسے ووٹ نہ دے ؛ یہ لوگوں کا ذاتی معاملہ ہے ۔ میں جب بھی کسی حکومت کی حمایت کرتا ہوں ، اس کا دفاع کرتا ہوں تو بعض لوگ اس کا غلط مطلب نکالنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ کسی خاص حکومت کو میری حمایت حاصل رہی ہو، بلکہ میں تو سبھی حکومتوں کا دفاع کرتا رہا ہوں ، البتہ اگر کسی حکومت پر تابڑتوڑ حملے ہو رہے ہوں اورمجھے احساس ہو کہ یہ الزامات ، غیر منصفانہ ہیں تو میں اس کا زیادہ دفاع کرتا ہوں ۔ میں انصاف و عدالت کا حامی ہوں ؛ ہمیں منصفانہ رویّے کا مظاہرہ کرنا چاہیے ، اپنی رفتار و گفتار پر نظر رکھنی چاہیے؛ اس کا انتخابات کے مسئلے سے کو ئی ربط نہیں ؛ انصاف و ناانصافی کی بات ہے ۔ ملک و قوم کے خادمین کا دفاع ، میرااور آپ سبھی کا فریضہ ہے ؛اس سے کسی خاص امیدوار کی حمایت مطلوب نہیں ہے ۔ میں ہر مستحسن عمل ، ہر پسندیدہ اقدام ، ترقی پر مبنی اقدام ، پسماندہ طبقات کی ہر دل جوئی ، ظلم و استکبار کے سامنے ہر پائمردی کا خیر مقدم کرتا ہوں اور جو بھی شخص یہ کام انجام دے اس کا شکرگزار ہوں ؛ خواہ وہ کوئی بھی حکومت ہو ، کوئی بھی شخص ہو ؛ یہ میرا فریضہ ہے ۔

میں اپنے ملک کے بین الاقوامی مسائل میں سے صرف ایک مسئلے کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں اور وہ ہمارے اور امریکہ کے روابط کا مسئلہ ہے۔ یہ انقلاب کے آغاز سے ہی اس مسئلہ کا بہت اہم امتحان رہا ہے ۔ جب سے اسلامی انقلاب ،کامیابی سے ہمکنار ہوا ہےامریکہ سے ایران کے تعلقات کے بارے میں ایرانی قوم کے سامنے امتحان کا ایک وسیع وعظیم میدان کھلا ہوا ہے ۔ گزشتہ تیس برسوں میں ہر لمحہ یہ امتحان موجود رہا ہے۔ روز اوّل سے امریکی حکومت نے ، ترش روئی ، چڑچڑاہٹ اور مخالفت سے اس انقلاب کا استقبال کیا ، وہ اس رویّے میں حق بجانب بھی تھے ۔ چونکہ انقلاب کی کامیابی سے پہلے ایران ،امریکہ کی مٹھّی میں تھا ؛ اس کے حیاتی وسائل ،امریکہ کے دائرہ اختیار میں تھے؛اس کے سیاسی فیصلوں کے مراکز پر امریکہ کا کنٹرول تھا ، اس کے حسّاس مراکز کا عزل و نصب امریکہ کے قبضہ قدرت میں تھا ؛ایران ، امریکیوں ، امریکی فوجیوں اور دوسری سامراجی طاقتوں کی چراگاہ بنا ہوا تھا ۔ ایک ایسا ملک ان سے چھن گیا ، اس پر ان کا رد عمل فطری تھا وہ اظہار عداوت پر مجبور نہیں تھے ، لیکن انقلاب کے آغاز سے امریکی حکومت نے اسلامی نظام حکومت سے برا سلوک کیا ہے خواہ وہ ریپبلکن پارٹی کی حکومتیں ہوں یا ڈیموکریٹک پارٹی کی ۔ یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جو کسی سے پوشیدہ ہو ۔ اس سلسلے میں امریکیوں کی طرف سے پہلا اقدام یہ کیا گیا کہ انہوں نے انقلاب کے مخالفوں ،علیٰحدگی پسند اور دہشت گرد عناصر کو اس انقلاب کی مخالفت پر اکسایا ؛یہاں سے اپنی دشمنی کا آغاز کیا ۔ ملک کے جس حصّے میں بھی علیٰحدگی پسندی کے اثرات دکھائی دیتے تھے اس کی پشت پر ہم نے امریکیوں کا ہاتھ مشاہدہ کیا؛ کبھی ان کے پیسے کو دیکھا ، بعض مواقع پر ہم نے براہ راست ، خود امریکی عناصر کو اس میں ملوّث پایا ؛ اس سے ہماری قوم کو بہت نقصان پہنچا ہے ۔افسوس کہ یہ کام آج بھی جاری ہے ۔ ایران و پاکستان کی سرحد پر سرگرم ، شر پسند عناصر ، امریکی عناصر سے وابستہ ہیں ، ہمارے پاس وائرلیس سیٹ کے ذریعہ ان کےمابین ہونے والی گفتگو محفوظ ہے، جس میں وہ اپنے امریکی آقاؤں سے حکم حاصل کر رہے ہیں ، ایک ہمسایہ ملک میں ان شرپسند ، انسان دشمن ، امریکہ نواز عناصر کی موجودگی کس قدر خطر ناک ہے !افسوس کہ یہ کام آج بھی جاری ہے ۔ امریکہ نے یہاں سے اپنی عداوت کاآغاز کیا ، اس کے بعد امریکہ نے ایرانی سرمایے کو منجمد کیا گیا ، ایران کی گزشتہ حکومت نے امریکہ کو بے حساب دولت دے رکھی تھی تا کہ اس کے ذریعہ ، ہوائی جہاز، ہیلی کاپٹر ، اسلحہ خریدے ، اس میں سے کچھ سامان ، ایران کے حوالے کئیے جانے کے لئیے تیّار تھا ، لیکن جب انقلاب کامیاب ہوا انہوں نے اس سامان کو دینے سے انکار کر دیا ، ایران کے اربوں ڈالر ہڑپ کر لئیے ،اور اس سے بھی بڑھ کوتعجّب کا مقام یہ ہے کہ انہوں نے اس سامان کو گوداموں میں بھر دیا اور کچھ مدّت کے بعد ہم سے کرایے کا مطالبہ کرنا شروع کردیا اور الجزائر قراردادکے کھاتے سے یہ رقم وصول کر لی !کتنے تعجّب کی بات ہے کہ کسی قوم کا سرمایہ ہڑپ کر لیا جائے ، اس کے سامان کو گوداموں میں بھردیا جائے ، اسے اس قوم کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا جائے اور پھر ان سے کرایے کا مطالبہ بھی کیا جائے یہ کتنی بے شرمی کی بات ہے !امریکہ نے اس روز سے آج تک ایرانی قوم سے یہ رویّہ روا رکھا ہوا ہے ۔ آج بھی ایرانی قوم کا سرمایہ ان کے پاس ہے ، بعض یورپی ممالک کے پاس بھی ہمارا سامان موجود ہے، ہم نے بارہا اس کا مطالبہ کیا ہے ، ان کو یاد دلایا ہے کہ ہم اس کا پیسہ ادا کر چکے ہیں ، لہٰذا سامان ہمارے حوالے کیا جائے ، وہ لوگ اس بہانے سےاس سامان کو ہمارے حوالے کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں کہ یہ سامان امریکی لائسنس کے تحت تیّار ہوا ہے اور امریکی ہمیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ ہم اسے آپ کے حوالے کریں ۔ آج بھی ایرانی قوم کا سرمایہ ان کے پاس ہے ۔

امریکیوں نے ، سرپھرے صدّام کو ہری جھنڈی دکھائی، یہ امریکہ کا ایران پر حملے کا ایک دوسرا اقدام تھا ۔ ورنہ بعید تھا کہ صدّام ہماری سرحدوں پر حملہ آور ہوتا۔امریکہ نے آٹھ سالہ جنگ کو ہم پر مسلّط کیا ؛جس میں ہمارے تقریبا تین لاکھ بے گناہ جوانوں اور دیگر افراد نے جام شہادت نوش کیا ۔ ان آٹھ برسوں کے دوران، خاص کر جنگ کے آخری سالوں میں امریکی ہمیشہ صدّام کی پشت پر تھے ، صدّام کو امریکہ کا مالی تعاون ، جنگی ساز و سامان اور سیاسی حمایت حاصل تھی ،سیٹلائٹ کے ذریعہ محاذ جنگ پر ہمار ی فوجی نقل و حرکت کی تصاویر لی جاتی تھیں اور اسی رات انہیں صدّامی فوج کو فراہم کیا جاتا تھا تاکہ وہ انہیں ہمارے جوانوں ، ہماری فوجوں کے خلاف استعمال کر سکے۔ امریکیوں نے صدّام کے جرائم سےسراسر چشم پوشی کی جس کا نتیجہ حلبچہ کے سانحے کی صورت میں ظاہر ہوا ، ہمارے ملک کے متعدّد شہروں پر میزائلوں کے حملے ہوئے ، بے شمار لوگ بے گھر ہوئے ، ہمارے خلاف محاذ جنگ پر کیمیاوی اسلحے کا استعمال ہوا لیکن امریکہ نے چپ سادھ رکھی ۔ اور صدام کے خلاف بالکل آواز نہیں اٹھائی بلکہ صدّام کی مدد جاری رکھّی ؛ یہ وہ رویّہ ہے جو اس ملک کی حکومت نے اس عرصے میں ہمارے ملک اور عوام کے ساتھ روا رکھاہے ۔ جنگ کے اواخر میں ، خلیج فارس پر پرواز کرنے والے ہمارے ایک مسافر بردار طیّارے کو امریکی جنگی بیڑے نے اپنے میزائیل کا نشانہ بنایا جس میں تقریبا تین سو مسافر اور عملے کے افراد شہید ہوئے ، امریکی حکومت نے اس افسر کا مؤاخذہ کرنے کے بجائے اسے انعام اور میڈل سے نوازا ۔ کیا ہماری قوم اسے بھول جائے ؟ہماری قوم اسے کیسے بھلا سکتی ہے ؟امریکیوں نے ایسے دہشت گردوں کی حمایت کی اور انہیں اپنے ملک میں فعّالیت کی اجازت دی ، جن کے ہاتھ اس قوم کے مرد وزن ، پیر وجواں ، بزرگ علماء اور معصوم بچّوں کے خون سے رنگے ہو ئے ہیں ؛ امریکہ ہر لمحہ ہمارے خلاف مخاصمانہ پروپیگنڈے میں مصروف ہے ۔ امریکہ کے صدور ( خاص کر ماضی قریب میں سبکدوش ہونے والے صدر کے آٹھ سالہ دور صدارت میں )کو جب بھی موقع ملا انہوں نے ایرانی قوم کے خلاف ، ہمارے ملک اور مسؤولین کے خلاف ، اسلامی جمہوریہ کے خلاف زہر افشانی کی اور بیہودہ اور فضول باتوں کودہرایا، ایرانی قوم کی توہین کی ، اس پورے عرصے میں انہوں نے ہمارے ساتھ یہ نازیبا سلوک روا رکھا ہے ۔ اسلامی جمہوریہ ایران کا مقابلہ کرنے کے نام پر ، اس خطّے ، خلیج فارس ، عراق ،افغانستان کی سلامتی کو شدید خطرے سے دوچار کر دیا ہے ؛ البتہ ان کا اصلی ہدف ، اپنی اسلحہ ساز کمپنیوں کی جیبیں بھرنا ہے ، انہوں نے اس خطے کے ممالک کو اسلحے کے انبار میں تبدیل کر دیا ہے ؛ اسرائیل کی غاصب حکومت کی بے دریغ حمایت کر رہے ہیں ، ایک ایسی ظالم و سفاک حکومت کی حمایت کر رہے ہیں جس کی بربریّت اور سفّاکیت کا ایک نمونہ، دو تین ماہ قبل آپ نے غزہ جنگ میں مشاہدہ کیا ، کہ انہوں نے کس بربریّت کا مظاہر کیا ، کتنے معصوم بچّوں کا قتل عام کیا ، کتنے بے گناہ مردو زن بربریّت کا شکار ہوئے ، اس بائیس روزہ یلغار میں صہیونی حکومت نے غزہ میں ہوائی بمباری ، میزائیلوں اور گولیوں کے ذریعہ پانچ ہزار بے گناہ بچوں ، عورتوں اور مردوں کا قتل عام کیا ، اس کے باوجود امریکی حکومت نے آخری لمحے تک اس غاصب حکومت کی حمایت جاری رکھی ، جب بھی سلامتی کونسل نے اسرائیل کے خلاف کوئی قرارداد منظور کرنے کی کوشش کی ، امریکہ سینہ سپر ہو گیا اور اس کوشش کو ناکام بنا دیا ، امریکیوں نے ہر موقع و محل پر ایرانی قوم کو دھمکایا ، ہمیشہ حملے کی دھمکی دیتے رہے ، ہمیشہ یہی کہتے رہے کہ فوجی راہ حل ہماری میز پر ہے ؛ ہم ایسا کریں گے ویسا کریں گے ، جب بھی موقع ملا ، ہماری قوم کو ڈرایا دھمکایا، البتّہ ہماری قوم پر ان کاکوئی اثر نہیں ہوا، لیکن انہوں نے عداوت کے راستے کو جاری رکھا ، انہوں نے بارہا ، ایرانی قوم، حکومت اور صدر جمہوریہ کی توہین کی ہے ؛ ایک امریکی نے چند برس قبل یہ بات کہی کہ ہمیں ایرانی قوم کی بیخ کنی کرنا چاہیے ! گزشتہ چند برس کی بات ہے جب ایک امریکی اہلکار نے یہ بات کہی کہ اچھا اور میانہ رو ایرانی وہ ہے جو مر چکا ہو !ہماری اس عظیم اور باشرف قوم کے حق میں اس طرح کی اہانتیں روا رکھی گئی ہیں جس کاگناہ صرف و صرف یہ ہے کہ وہ اپنی شناخت اور استقلال کا دفاع کر رہی ہے ۔تیس سال سے ہمارے ملک پر اقتصادی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں ؛ البتہ یہ پابندیاں ہمارے حق میں مفید ثابت ہوئی ہیں ، ہمیں اس سلسلے میں امریکہ کا شکرگزار ہونا چاہیے ۔ اگر وہ ہمارے اوپر پابندیاں نہ لگاتے تو آج ہم سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں اس قدر ترقّی نہ کر پاتے ۔ پابندیوں نے ہمیں اپنی صلاحیتوں پر بھروسہ کرنے پر مجبور کیا ہے ، البتہ ان کا ارادہ یہ نہیں تھا وہ تو دشمنی کے در پے تھے ۔ تیس سال تک امریکہ نے ہم سے یہ رویّہ روا رکھا ، اب نئی امریکی حکومت یہ کہہ رہی ہے کہ ہم ایران سے مذاکرات کر نا چاہتے ہیں ، آئیے ماضی کو بھول جائیں ۔ وہ یہ کہتے سنائی دے رہے ہیں کہ ہم نے ایران کی طرف دوستی کا ہاتھا بڑھا رکھا ہے ، اچھا ، یہ کیسا ہاتھ ہے ؟ اگر ایک ایسا ہاتھ آپ کی طرف بڑھا ہوا ہو جس پر مخملی دستانہ چڑھا ہولیکن اس کے نیچے لوہے کا ہاتھ ہو ؛ ایسا ہاتھ بد شگونی کی علامت ہے ۔ ہماری قوم کو عید کی مبارکباد تو پیش کرتے ہیں لیکن اسی تبریک میں اس پر دہشت گردی کی حمایت ، ایٹمی اسلحے کے حصول کی کوشش اور ان جیسے دیگر الزام عائد کرتے ہیں !

میں نہیں جانتا کہ امریکہ میں فیصلے کون کرتا ہے ؛ صدر کرتا ہے ؟یا کانگریس ؟یا دیگر پس پردہ عناصر ؟لیکن میں یہ واضح کرنا چاہتاہوں کہ ہم اہل منطق و استدلال ہیں ، اور ہم نے اسی منطق و استدلال کی روشنی میں پیش قدمی کی ہے ، ہم اپنے اہم مسائل کے بارے میں جذباتی نہیں ہیں ؛ ہم جذبات کی روشنی میں فیصلے نہیں کرتے ؛ بلکہ حساب و کتاب کی بنیاد پر فیصلے کرتے ہیں ۔ وہ ہمیں مذاکرات اور روابط کو بحال کرنے کی دعوت دیتے ہیں ۔ تبدیلی کا محض نعرہ لگاتے ہیں ؛ اچھا، یہ تبدیلی کہاں ہے ؟ کیا بدلا ہے ؟ اسے ہم پر واضح کریں کہ آخر کیا تبدیلی رونما ہوئی ہے ؟ آیا ایرانی قوم سے آپ کی دشمنی میں کوئی تبدیلی آئی ہے ؟ اس کی علامت کہاں ہے ؟ کیا آپ نے اس قوم کے منجمد اثاثے لوٹا دیے ہیں ؟ غیر منصفانہ پابندیاں ختم کر دی ہیں ؟ کیا آپ اس قوم اور اس کے ہر دل عزیز عوامی رہنماوں پر کیچڑ اچھالنے ، ان پر الزام تراشیوں اور ان کے بارے میں جھوٹے پروپیگنڈوں سےدست بردار ہو چکے ہیں ؟ کیا آپ نے صہیونی حکومت کا بے دریغ دفاع چھوڑ دیا ہے ؟ اگر نہیں ، تو پھر کیا بدلا ہے؟ تبدیلی کا نعرہ لگا رہےہیں ، لیکن میدان عمل میں ہمیں ان کے رویّے میں کوئی تبدیلی نظر نہیں آتی ، یہانتک کہ ان کی زبان بھی نہیں بدلی ۔ امریکہ کے نئے صدر نے جب سے رسمی طور پر عہدہ سنبھالا ہے اپنی پہلی ہی تقریر میں ایران اور اس کی حکومت کی اہانت کی ؛ آخر کیوں ؟ اگر آپ سچ بول رہے ہیں تو وہ تبدیلی کہاں ہے ؟ آپ کی رفتار و گفتار میں اس تبدیلی کے آثار کیوں دکھائی نہیں دیتے ؟ میں اس بات کو سبھی سے کہہ رہا ہوں ، امریکی اہلکار بھی کان کھول کر سن لیں کہ ایرانی قوم کو نہ تو دھوکا دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسے ڈرایا ، دھمکایا جاسکتا ہے ۔

سب سے پہلے یہ سمجھ لیجئیے کہ خالی لفظی تبدیلی کافی نہیں ہے (حالانکہ ہمیں لفظی تبدیلی بھی نہیں دکھائی دیتی )آپ کے رویّے میں حقیقی تبدیلی آنی چاہیے ۔ میں امریکی اہلکاروں پر واضح کرنا چاہتا ہوں کہ آپ جس چیز کو تبدیلی بتا رہے ہیں ، یہ تبدیلی نہیں ہے بلکہ آپ کی مجبوری ہے؛ یہ تبدیلی آپ کے لئیے ناگزیر ہے ؛ اگر آپ نہیں بدلیں گے تو الٰہی سنّت آپ کو بدل دے گی ؛ دنیا آپ کو بدل دے گی ؛ آپ کو بہر حال بدلنا ہو گا ؛ لیکن یہ تبدیلی لفاظی تک محدود نہیں ہونی چاہیے ، اسے بد نیتی پر مبنی نہیں ہونا چاہیے ؛ اگر وہ یہ نعرہ لگائیں کہ ہم اپنی پالیسیوں کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں ، لیکن ان کے پیش نظر ان پالیسیوں کی تبدیلی نہ ہو بلکہ وہ صرف وقتی انداز کو بدلنا چاہتے ہوں ، یہ تبدیلی ، تبدیلی نہیں ہے بلکہ فریب ہے ۔ جب تبدیلی ،حقیقی تبدیلی ہو توعمل میں اس کے آثار نظر آناچاہییں ؛ میں امریکی اہلکاروں اور وہاں کے پالیسی ساز افراد (خواہ وہ وہاں کا صدر ہو، کانگریس ہو یا کوئی دوسری طاقت )کو یہ نصیحت کرتاہوں کہ امریکہ کی جو پوزیشن گزشتہ دور حکومت میں تھی وہ امریکی قوم اور وہاں کی حکومت کے لئیے نقصان دہ ہے ۔ آج ، آپ کو دنیا میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ؛ اگرآپ نہیں جانتے تو جان لیں کہ آج اقوام عالم آپ کے پرچم کو نذر آتش کر رہی ہیں ۔ مسلمان قومیں ، دنیا کے ہر کونے میں ، امریکہ مردہ باد کا نعرہ لگا رہی ہیں ۔ اس نفرت کی وجہ کیا ہے ؟ کیا آپ نے اس پر کبھی غور کیا ہے ؟ اس کا تجزیہ کیا ہے ؟ اس سے سبق سیکھا ہے ؟ اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ آپ اپنے آپ کو پوری دنیا کا مالک سمجھتے ہیں ، متکبّرانہ انداز سے پیش آتے ہیں ، اپنے ارادے کو پوری دنیا پر تھوپنا چاہتے ہیں ؛ دیگر ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہیں ، دنیا میں دوہرے معیار اپنا تے ہیں ؛ ایک طرف تو اپنی پروپیگنڈہ مشینری کے تیروں کا رخ اس فلسطینی جوان کی طرف موڑ دیتے ہیں جو ظلم سے تنگ آکر ، ایک شھادت طلب کاروائی میں اپنی جان کی قربانی پیش کرتا ہے ، اور دوسری طرف ، اسرائیل کی غاصب حکومت کے ان مظالم سے چشم پوشی کرتے ہیں جو اس نے بائیس روزہ جنگ میں فلسطین کے مظلوم عوام پر ڈھائے ، اس جوان کو دہشت گرد قرار دیا جاتا ہے اور اس ظالم وغاصب حکومت کی سلامتی کی ضمانت دی جاتی ہے ، یہی وہ چیزیں ہیں جن کی بنا پر آپ کو دنیا میں نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔میں آپ کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ اپنی بھلائی کی خاطر ، اپنے ملک کے مستقبل کی خاطر ، اس تکبّر آمیز اندازگفتگو، اس متکبّرانہ طرزعمل اور قیم مآبانہ حرکتوں سےباز آجائیے ؛ دوسری قوموں کے معاملات میں مداخلت نہ کیجئیے ؛ اپنے حصّے پر قانع رہیے ؛ پوری دنیا کے لئیے اپنے مفادات معیّن نہ کیجئیے ؛ اگر آپ اس پر عمل پیرا ہوں گے تو رفتہ رفتہ امریکہ کا یہ نفرت انگیز چہرہ ، دوسری شکل اختیار کر لے گا ۔ امریکی صدر اور دیگر امریکی اہلکاروں کو میری یہ نصیحت ہے، ان باتوں پر غور کیجئیے ۔ میرےخطاب کا ترجمہ کروائیے ، البتّہ ترجمے کے لئیے صہیونیوں کو نہ دیجیئے ، اچھے انسانوں سے مشورہ کیجئیے ، ان سے رائے لیجئیے ۔ جب تک امریکہ اپنے گزشتہ تیس سالہ رویّے ، عمل اور پالیسیوں میں حقیقی تبدیلی نہیں لاتا تو ہم بھی وہی تیس سال پرانے لوگ ہیں ، وہی تیس سال پہلے کی قوم ہیں ۔ ہمار ی قوم کے مزاج کے لئیے یہ بات بار گراں ہے کہ آپ پھر وہی "مذاکرات اور دباؤ " کا نعرہ لگائیں ، ہم ایران سے گفتگو کرنا چاہتے ہیں ،اس کے ساتھ ساتھ دباؤ بھی برقرار رکھنا چاہتے ہیں ، ہماری قوم "دھمکی اور لالچ " کی سیاست سے اکتا چکی ہے ، اس پالیسی کے تحت ہماری قوم سے گفتگو نہیں کی جا سکتی ۔ ہمارے پاس ، امریکہ کی نئی حکومت اور نئے صدر کا کوئی پرانا ریکارڈ نہیں ہے ؛ ہم آپ پر نگاہ رکھے ہوئے ہیں ، اس کے مدنظر فیصلہ کریں گے ، اگر آپ کا رویّہ بدلا تو ہمارا بھی بدلے گا ۔ اگر آپ کا رویّہ نہ بدلا تو یہ جا ن لیجئیے کہ ہماری قوم آج ، گزشتہ تیس برس کے مقابلے میں کہیں زیادہ تجربہ کار ، مضبوط اور طاقتور ہے ۔

آخر میں کچھ دعائیں کرنا چاہتا ہوں :بار الٰہا!محمد وآل محمّد (ص)کا واسطہ ، اس قوم کو اپنے لطف و کرم کے سایے سے محروم نہ فرما ۔ میں یہاں اپنی عزیز قوم سے عرض کردوں ، صد افسوس کہ ہمیں یہ خبر ملی ہے کہ امام رضوان اللہ تعالی ٰ علیہ کی زوجہ مکرّمہ اس دار فانی سے رحلت فرما گئیں ۔ یہ خاتون ، ہماری قوم کے لئیے ایک عظیم سرمایہ تھیں ، آپ نے دسیوں سال امام امت(رہ) کے ہمراہ ، تمام صبر آزما اور مشکل حالات میں استقامت و بردباری کا مظاہرہ کیا ، ہمیشہ امام (رہ)کے ساتھ ساتھ رہیں ، یہ خاتون بذات خود بھی ایک ممتازو برجستہ شخصیّت کی حامل تھیں ۔ میں پوری قوم کی خدمت میں ان کی رحلت کی تسلیّت پیش کرتا ہوں ، ان کے پسماندگان کی خدمت میں بھی تعزیت پیش کرتا ہوں ، اور خداوند متعال کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ وہ مرحومہ کو اپنی رحمت و مغفرت کی آغوش میں جگہ عنایت فرمائے ، بارالٰہا!مرحومہ کو ان کے اولیاء کے ساتھ محشور فرما ، بارالٰہا!ہمارے عزیز امام (رہ)، ان کے بیٹوں اور زوجہ مکرّمہ کو اپنے اولیاء کے جوار میں جگہ عنایت فرما ۔ ہمیں ، ہمیشہ امام عزیز کا قدردان قرار دے ۔ پروردگارا!ہماری قوم بالخصوص ہمارےجوانوں کو اپنے لطف و کرم اور ہدایت کا سایہ نصیب فرما ۔بارالٰہا!اس ملک ، اس کی پیاسی زمینوں اور کھیتوں ، اور ہمارے عوام پر اپنی رحمت کی بارش نازل فرما ۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ