ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم نے تہران یونیورسٹی میں نماز جمعہ کے خطبے پیش کئے

پہلا خطبہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

" والحمد للہ رب العالمین نحمدہ ونستعینھ ونتوجھ الیھ ونستغفرہ ونصلی ونسلم علیٰ حبیبھ ونجیبھ وخیرتھ فی خلقھ حافظ سرہ ومبلغ رسالاتھ بشیررحمتھ ونذیرنقمتھ سیدنا ونبینا وحبیب قلوبنا ابی القاسم المصطفی محمد وعلیٰ آلھ الاطیبین الاطھرین المعصومین وصحبھ المنتخبین۔ اللھم صل علیٰ ولیک وحجتک صاحب الزمان ومظھرالایمان ومعلن احکام القرآن وصل علیٰ ائمۃ المسلمین وحماۃ المستضعفین وھداۃ المؤمنین"۔

رمضان المبارک کی انیس تاریخ یوم قدر اورمولائے متقیان امیرالمؤمنین حضرت علی(علیھ الصلوٰۃ والسلام) کا یوم ضربت ہے۔ سب سے پہلے میں آپ تمام برادران وخواہران نیز اپنے آپ کو خداکے ذکر، اس کی یاد اور تقویٰ وپرہیز گاری اختیارکرنےکی نصیحت کرتا ہوں۔ ماہ مبارک رمضان کے روزے، نماز، تلاوت نیزاعمال شب قدرکا اہم ترین مقصد یہ ہے کہ ہمارے اندر تقوی وپرہیز گاری پیدا ہو جائے۔

پہلے خطبہ میں کچھ دعا سے متعلق عرض کرنا ہے اس لئے کہ رمضان کا مہینہ تو دعاؤں کا ہی مہینہ ہے یہ قدرکی راتیں اوردن دعا کے لئے مخصوص ہیں اس مناسبت سے پہلے چند جملے دعا سے متعلق اس کے بعد چند جملے امیرالمؤمنین علی (ع) سے متعلق عرض کرنا ہیں۔

دعا سے متعلق ہماری معروضات کا خلاصہ یہ ہے کہ دعا خدا کے سامنے بندگی کا مظہراورانسان کے اندراحساس بندگی اجاگرکرنے کا ذریعہ ہے۔ تمام انبیائے الہی کی محنتیں اور مشقتیں اسی لئے تھیں کہ انسانوں کے اندرعبودیت کا احساس پیدا ہوجائے۔ انسان کےہرانفرادی واجتماعی صالح عمل اورہرفضیلت وکمال کی بنیاد اس کے اندرخدا کے عبد ہونے کا احساس ہے۔ اس کی ضد ہے انانیت، غرور، تکبر، خود پرستی، انانیت ہی اخلاقی برائیوں اوران سے پیدا ہونے والی صورتحال کی بنیاد ہے۔ جنگیں، قتل عام، مظالم یا دیگر المیے، ماضی میں ہوئے ہوں (جن کے متعلق آپ نے تاریخ میں پڑھا ہوگا) یا آج ہورہے ہیں (جو آپ خود دیکھ رہے ہیں) ان سب کی بنیاد چند انسانوں کی انانیت اورخودغرضی ہے، انہیں کا وجود اس سارے فتنہ وفساد کی جڑ ہے۔ اس کے مقابلہ میں ہے عبودیت، خدا کے مقابلہ میں اگر انسان میں انانیت اورانا پرستی آجائے یعنی انسان خود کوخدا کے مقابلہ میں سمجھنے لگے تونتیجہ طغیانی وسرکشی ہے۔ طاغوت صرف بادشاہ نہیں ہیں ہوسکتا ہے ہم میں سے ہر ایک (خدانخواستہ) اپنے اندر ایک بت اورطاغوت پال رہا ہو! خدا کےسامنے انانیت دکھانے کا نتیجہ انسان کا اپنے لئے طاغوت بن جانا ہے اوراگر دوسرے انسانوں کے سامنے انانیت دکھائی جائے تو اس کا نتیجہ دوسروں کے حقوق سے غفلت ہی نہیں بلکہ ان کے حقوق پر شب خون مارنا ہے اوراگرانانیت قدرت کے مقابلہ میں ہو تونتیجہ قدرتی ماحول کی آلودگی ہوگا اسی لئے دنیا میں قدرتی ماحول کے تحفظ کے لئےاتنا اہتمام کیا جا رہا ہے ۔ توقدرتی ماحول کی آلودگی بھی قدرت کے مقابلہ میں انانیت اختیار کرنے کا نتیجہ ہے۔

دعا اس سب کی کاٹ ہے، ہم دعا کے ذریعہ اپنے اندر خشوع لاتے اورانانیت کا قلع قمع کرتے ہیں نتیجہ میں نہ انسان کے اندرطاغوت پیدا ہوگا، نہ دوسروں کے حقوق پامال ہوں گے اورنہ قدرتی ماحول برباد ہوگا اسی لئے ارشاد ہوا" الدعاء من العبادۃ" [1]ہرعبادت کی روح کا نام دعا ہے عبادت اس لئے رکھی گئی ہے کہ انسان خدا کے سامنے خاشع ہوکرسرتسلیم خم کردے خداکے سامنے خشوع اوراس کی اطاعت انسانوں کے آپسی تواضع سے الگ ہے اس خشوع کا مطلب خیرمطلق، جمال مطلق، حسن مطلق اورفضل مطلق کے سمانے خاشع ہونا ہے۔

لہذا دعا بھی ایک نعمت ہے اور دعا کا موقع ملنا بھی ایک نعمت ہے۔امیرالمؤمنین علی علیھ السلام ، امام حسن علیھ السلام سے وصیت کرتے ہوئے یہی فرماتے ہیں" اعلم أن الذی بیدہ خزائن ملکوت الدنیا والآخرۃ قد اذن لدعائک وتکفل لاجابتک" ([2]) وہ خدا ، جس کے قبضہ قدرت میں آسمان وزمین ہے اس نے تمہیں دعا اوراپنے سے گفتگوکی اجازت دی ہے "وأمرک أن تسئلھ لیعطیک"([3] ) اوراس نے تمہیں حکم دیا ہے کہ تم اس سے مانگو تاکہ وہ تمہیں عطا کرے۔ خدا سے اس طرح رابطہ رکھنےسے کہ اس سے مانگا جائے اور وہ عطاکرےانسان کے اندرعبودیت و بندگی کااحساس مضبوط ہوتا ہے "وھورحیم کریم لم یجعل بینک وبینھ من یحجبک عنھ" ([4]) اس رحیم وکریم نے اپنے اورتمہارے درمیان کوئی حجاب یا واسطہ نہیں رکھا ہے جب بھی اس سے مناجات کروگے وہ تمہاری عرض اورآواز سنے گا خدا سے ہمیشہ گفتگو کی جاسکتی ہے، ہمیشہ اس سے مانوس رہا جا سکتا ہے، ہمیشہ اس سے مانگا جا سکتا ہے انسان کے لئے یہ بہت بڑا موقع اور بہت بڑی نعمت ہے۔

دعا کی اہم ترین خصوصیت جس کا قدرے میں نے تذکرہ کیا ہے خدا سے رابطہ اوراس کے سامنےعبد ہونے کا احساس ہے۔ دعا کی سب سے بڑی خاصیت یہی ہے, خدا سے ہم مانگیں گے تو وہ بھی ہماری دعا کو قبول کرے گا قبولیت دعا میں خدا کی جانب سے کوئی شرط نہیں ہے ہم اپنی بد اعمالیوں کے باعث قبولیت دعا میں رکاوٹ بن جاتے ہیں، ہم باعث بنتے ہیں کہ ہماری دعا قابل اعتنا قرارنہ پائے یہ بات بھی ہمیں خود دعا سکھاتی ہے دعا کی یہ بھی ایک خاصیت ہے۔

آئمہ طاہرین سے منقولہ ادعیہ کی ایک برکت یہ ہے کہ یہ تعلیمات الہی سے بھری ہیں۔ صحیفہ سجادیہ، مناجات شعبانیہ، دعائے ابوحمزہ ثمالی اوردیگر منقولہ دعائیں تعلیمات الہی سےمملو ہیں جو انہیں پڑھے اور سمجھے بھی اسے ذات اقدس الہی سے دلی رابطہ کے ساتھ ساتھ تعلیمات الہی کا ایک عظیم ذخیرہ بھی ہاتھ آجائے گا۔

جوانوں کو میری طرف سےنصیحت ہے کہ ان دعاؤں کے ترجمہ پر غور کریں دعائے عرفہ، دعائے ابو حمزہ ثمالی تعلیمات سے پر ہیں۔ دعائے کمیل میں ہم پڑھتے ہیں " اللھم اغفر لی الذنوب التی تحبس الدعا، اللھم اغفر لی الذنوب التی تنزل البلاء" یا " تنزل النقم" یہ سب خدا کی تعلیمات ہیں یعنی ہم انسانوں کے گناہ اور خطائیں اجابت وقبولیت دعا کی راہ میں رکاوٹ بن جاتی ہیں، ہم سےبعض گناہ ایسے سرزد ہوجاتے ہیں جن کی وجہ سے بلائیں نازل ہوتی ہیں۔ بعض دفعہ عمومی اور قومی سطح پہ بعض گناہوں کے باعث بلائیں نازل ہوتی ہیں لیکن یہ اعلان نہیں ہوتا کہ یہ بلا کس گناہ کا نتیجہ ہےلیکن صاحبان تدبر سمجھ جاتے ہیں کہ یہ بلا کس گناہ کی وجہ سے اس قوم پرنازل ہوئی ہے۔ کبھی ہمارے اعمال کے اثرات فوری ظاہر ہوجاتے ہیں اور کبھی دیر سے، یہ بھی ہمیں دعائیں بتاتی ہیں۔ دعائے ابو حمزہ ثمالی میں ہم پڑھتے ہیں" معرفتی یا مولای دلیلی علیک وحبی لک شفیعی الیک" میراتجھے پہچاننا ہی تیری جانب میری رہنمائی کرتا ہے، میرا تجھے چاہنا ہی تیرے پاس میری شفاعت کرے گا " وانا واثق من دلیل بدلالتک وساکن من شفیعی الاشفاعتک " میں جب اس رہنما پر غور کرتا ہوں، جب تیرے سلسلہ میں اپنی معرفت پر(جو تیری جانب رہنمائی کرتی ہے) غور کرتا ہوں، جب اپنے دل میں تیری محبت پر غور کرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ یہ معرفت ومحبت بھی تیری ہی دی ہوئی ہے یہ تو ہی ہے جو میری مدد کررہا ہے دیکھا آپ نے؟ ان تعلیمات سے انسان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں، دل میں معرفت پیدا ہوتی ہے یہ خدا کی تعلیمات ہیں، اس کی مددہے، اس کی توفیق ہے، اس کی عنایت ہے یہ سب دعاؤں میں ملتا ہے دعا کی قدر پہچانئے!

دعا کے معنی خدا کو پکارنا ہے، فارسی یا کسی اور زبان میں بھی پکار سکتے ہیں جتنا جی چاہے خدا سے باتیں کیجئے دعا کا مطلب ہی یہی ہے اس سے جو بھی بات کرنا ہے کر لیجئے بعض دفعہ انسان کچھ مانگتا نہیں ہے بس اس سے انس پیدا کرنا چاہتا ہے حاجتیں بھی کئی طرح کی ہوتی ہیں کبھی انسان اس سے اس کی رضا اور مغفرت کی دعا کرتا ہے یہ بھی ایک حاجت ہےاورکبھی کوئی مادی حاجت اس کے سامنے رکھتا ہے کوئی حرج کی بات نہیں اس سے کچھ بھی کسی بھی زبان میں مانگا جا ئے اچھا ہے ہرقسم کی دعا میں یہ خاصیت یعنی خدا سے رابطہ اوراحساس بندگی پایا جاتا ہے البتہ آئمہ طاہرین( علیھم السلام) سے منقول ادعیہ میں بہترین مفاہیم نہایت خوبصورت الفاظ میں بیان ہوئے ہیں ان میں تعلیمات الہی کا سمندرموجزن ہے ان دعاؤں کی قدر پہچانئے اورانہیں کے ذریعہ خدا سے ہمکلام ہوا کیجئے۔

امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام سے متعلق چند جملے عرض کرنا ہیں آپ کی حیات ایک کامل مسلمان اوربلند درجہ انسان کی زندگی کا نمونہ ہے، آپ نمونہ عمل ہیں آپ کا بچپن ولڑکپن آغوش رسالتمآب اورآپ کی تربیت میں گذراآپ کی پرورش ہی آغوش پیغمبراکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)اورآنحضور (ص)کی تربیت میں ہوئی بعثت اوراس کےساتھ پیش آئے دیگرسخت واقعات کے وقت امیرالمومنین(علیہ الصلاۃ والسلام) کا لڑکپن تھا آپ مستقل پیغمبراکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اور ہرواقعہ میں شریک رہے آغاز بعثت سے اعلان بعثت تک، جب بعثت کا اعلان ہواتوسختیاں اورحملے شروع ہوگئے امیرالمومنین(علیہ السلام) فرماتے ہیں "لقد کنت اتبعھ اتباع الفصیل اثرامھ" میں سرکار دوعالم کے ساتھ اس طرح چلتا تھا جس طرح بکری کا بچہ اپنی ماں کے ساتھ چلتا ہے میں ہمیشہ سرکار رسالتمآب کے ساتھ تھا " یرفع لی فی کل یوم من اخلاقھ علماً ویأمرنی بالاقتداء" آپ اپنے اخلاق کے ذریعہ ہر دن مجھے ایک نیا درس اورعلم عطا کرتے اورمجھے اسے اپنانے کے لئے کہتے تھے سرکار دوعالم(ص) اس بلند مرتبہ ملکوتی شخصیت کی تربیت کررہے تھے "ولقد کان یجاورفی کل سنۃ بحراء" سال کا ایک حصہ آپ غارحرا میں گزارتے تھے" فأراہ ولایراہ غیری" میں آپ کو دیکھنے جایا کرتا تھا میرے سوا کوئی بھی آپ کو دیکھنے نہیں جاتا تھا "ولم یجمع بیت واحد یومئذ فی الاسلام غیررسول اللہ(صلی اللہ علیھ وآلھ) وخدیجۃ وأنا ثالثھما" صرف ہمارا ہی گھر مسلمان تھا جس میں پیغمبراکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)تھے، خدیجہ تھیں اورمیں تھا "أری نورالوحی والرسالۃ واشم ریح النبوۃ" میں نوررسالت(ص) دیکھتا اورخوشبوئے نبوت استشمام کرتا تھا۔ اس طرح آپ کی تربیت ہوئی۔

اعلان بعثت کے بعد سختیوں کا سلسلہ شروع ہو گیا، سرکار دوعالم کو شہربدرکردیا گیا، آپ شعب ابی طالب(ایک پہاڑکے درمیان کا شگاف، اس کے مالک ابوطالب تھے) جیسی بے آب وگیاہ جگہ میں پناہ لینے پرمجبور ہوگئے اس وقت امیرالمومنین(علیہ الصلاۃ والسلام) کی عمرسترہ سال تھی سترہ سال کی عمر میں آپ شعب ابی طالب میں وارد ہوئے اور بیس سال کی عمر میں معجزاتی طورسے باہرآگئے۔ جب سرکاردوعالم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبلیغ کے لئے طائف تشریف لے گئے آپ ان کے ہمراہ تھے وہاں سرداران قبائل کو جب آپ کی آمد کا پتہ چلا تو انہوں نے غلاموں اورعام لوگوں کوآپ پر پتھر پھینکنے پر لگا دیا وہاں امیرالمومنین(علیہ الصلاۃ والسلام) نےآپ کا بچاؤ کیا، جس رات پہلی بارمدینہ کے کچھ معززین مخفیانہ طور سے آپ کی بیعت کے لئے عبدالمطلب کے گھرآئے توکفار قریش کو پتہ چل گیا انہوں نے گھر کا محاصرہ کرلیا اورآپ پر حملہ کرنا چاہتے تھے وہاں بھی جناب حمزہ اورامیرالمومنین(علیہ الصلاۃ والسلام) نے ہی آگے بڑھ کے سرکار دوعالم کا دفاع کیا۔ آپ نورانی، مومن، سرچشمہ وحی سے منسلک، پرہیزگار، مومن حقیقی اورپاک وپاکیزہ جوان تھے۔ ہجرت کے وقت بھی مشکل ترین کام امیرالمومنین(علیہ الصلاۃ والسلام) کے سپرد کیا گیا یعنی پیغمبراکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کی امانتوں کی ادائیگی، خواتین(فواطم) کومنتقل کرنا اورپھرخودکو قوااورمدینہ پہنچانا، پھرمدینہ میں صف اول کے سردار، صف اول کے مومن، پیغمبراکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کے صف اول کے شاگرد اورمسلمانوں میں سب سے زیادہ عبادت گذار امیرالمومنین(علیہ الصلاۃ والسلام) ہی تھے جنگ میں سب کی نگاہیں آپ پر رہتی تھیں مسجد میں یا عبادت کے وقت آپ کی قلبی نورانیت باقی سب کی نورانیت سے زیادہ ہوتی تھی، زیرمنبررسول بیٹھنے والے شاگردوں میں آپ ہی سب سے زیادہ جاننے والے، بات سمجھنے والے اورپوچھنے والے ہوا کرتے تھے۔

روایت میں آیا ہے کہ ایک بار آپ سے کسی نے کہا آپ پیغمبراکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)سے بہت زیادہ حدیثیں نقل کرتے ہیں! آپ نے فرمایا: میں آپ (ص) سے پوچھتا رہتا تھا اور جب میں سوال نہیں کرتا تھا تو آپ خود ہی مجھے بتاتے تھے لہذا آپ صف اول کے شاگرد تھے۔ پیغمبراکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)کا دس سالہ دوراپنی تمام عظمتوں اورتلخیوں اورشیرینیوں کے ساتھ گذرگیا۔

آنحضور کی رحلت اوروصال کے بعد خلافت اورسقیفہ کے واقعات پیش آئے، آپ کا حق عیاں تھا آپ جانتے تھے خلافت آپ ہی کا حق ہے لیکن اس کے با وجود تنازع میں نہیں پڑے جب بیعت کا عمل ختم ہوا توآپ نے اکثریت کے مقابلہ میں آکے فتنہ وفساد کھڑاکرنے سے پرہیز کیا، بیعت پرمجبورکئے گئے اوراس کے بعد شروع سے ہی خانہ نشین ہوگئے تاکہ حکومتی کاموں میں خلل واقع نہ ہو کچھ عرصہ بعد آپ نے محسوس کیا کہ مسلمانوں کوآپ کی ضرورت ہے "حتی رأیت راجعۃ الناس قدرجعت ترید محو دین محمد(صلی اللہ علیہ واٰ لھ وسلم)" توآپ میدان عمل میں اترآئے اسلامی معاشرہ کی قیادت سنبھالنے والوں کے ساتھ تعاون شروع کردیا، جہاں غلطی ولغزش کرتے تھے وہاں ان کی ہدایت اورنصرت فرماتے تھے، علمی مسئلہ ہویا سیاسی ہرجگہ ان کی مدد فرماتے تھے یہ صرف ہم شیعہ نہیں کہتے بلکہ شیعہ سنی کتب تاریخ اورروایات امیرلمومنین (ع) کی نصرتوں سے بھری ہیں۔ باربار"لولاعلی لھلک عمر" کا جملہ اہلسنت نے نقل کیا ہے یہ ہماری بات نہیں ہے۔ لشکرکشی، اقامہ حدود اورسیاسی معاملات میں امیرالمومنین(علیہ الصلاۃ والسلام) اسلامی معاشرہ کے اندرمرشد کامل اورسرچشمہ نورتھے۔ یہ پچیس سال کیسے گذرے آپ سبھی جانتے ہیں مشہورباتیں ہیں بہرحال گذرگئے۔

خلیفہ ہوئے تو آپ نے تاریخ کی بے مثال حکومت اورانتظامیہ دنیا کے سامنےپیش کی چارسال اورنودس ماہ کی آپ کی حکومت معجزہ ہے اس کی مثال دنیا نہ لا سکی، مکمل عدل، مکمل شجاعت اوراسی کے ساتھ پوری طرح مظلوم حکومت اب حالات پیغمبراکرم(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حالات سے مختلف تھے سرکار دوعالم کے زمانہ میں نقوش واضح تھے دوریاں معلوم تھیں لیکن امیرالمومنین(علیہ الصلاۃ والسلام) کے دور کی مشکلات زیادہ سخت تھیں اورساتھ ہی عالم اسلام بھی دور تک پھیل چکا تھا سرکارکے دور میں بس مدینہ، مکہ اورچند ایک شہر تھے لیکن امیرالمومنین(علیہ الصلاۃ والسلام) کے دورمیں وسیع وعریض اسلامی مملکت، نومسلم لوگ، انکے بکھرے عقائد اوربے شمار دیگرمسائل تھے ایسے ماحول میں آپ نے ایسی حکومت قائم کی کہ دنیا کی ہر انصاف پسند حکومت اپنے کو تھوڑا بہت اس حکومت سے مشابہ کرلینے پر فخرکرے لیکن ایسا ہونہیں پاتا اب تک کوئی یہ نہیں کرپایا۔ عدل، تقدس، انصاف، رحم وکرم، تدبر، شجاعت، انسانی حقوق کی رعایت اورعبودیت خداکے پیکرکا نام ہے امیرالمومنین، یہ ہے آپ کی زندگی کا مختصرخلاصہ۔

گذشتہ شب کا ایک ذکرتھا"اللھم العن قتلۃ امیرالمومنین(علیہ الصلاۃ والسلام)" خدایا! قاتلین امیرالمومنین(علیہ الصلاۃ والسلام) پر لعنت کر! انہیں اپنی رحمت سے دورکر! مسجد کوفہ میں آپ کے سرپر ضربت لگانے والا ایک ہی شخص تھا لیکن آپ کہتے ہیں "قاتلین پر لعنت کر!" یہ درس بھی دعا سے مل رہا ہے کسی شخص کی طرف کوئی عمل منسوب ہونے کے لئے عمل میں براہ راست شرکت ضروری نہیں۔ صفین میں حکمیت کا شورمچا، ایک ظاہرپرست گروہ نیزوں پر قرآن دیکھ کر دھوکہ کھا گیا، فریب خوری کی حد ہوگئی، وہ گروہ اپنے کو اس قدر حق بجانب سمجھنے لگا کہ حضرت علی(علیھ السلام) جیسی ذات گرامی کو حکمیت کے لئے مجبورکردیا۔ اس کام میں جو لوگ شامل تھے وہ قاتلین امیرالمومنین(علیہ الصلاۃ والسلام) کی فہرست میں بھی شامل ہیں اس فہرست کے بقیہ لوگ آپ کی ناقدری کرنے والے، قتل میں تعاون کرنے والے اورشہوت پرستی یا دیگرذاتی مقاصد کے لئے تاریخ کی اس عظیم ہستی کوشہید کرنے والے ہیں۔ ان سب پر خدا کی لعنت ہو!

آج امیرالمومنین(علیہ الصلاۃ والسلام) کی مصیبت کا دن ہے، آج صبح مسجد کوفہ میں جو ہوا اس کی صدائے بازگشت لمبے عرصہ تک بلکہ یوں کہا جائے کہ صدیوں تک آتی رہی اسی لئے جبرئیل امین یا کسی آسمانی منادی نے زمین وآسمان کے درمیان آواز بلند کی "تھدمت واللہ ارکان الھدیٰ" ہدایت کے ستون منہدم ہوگئے ہیں " قتل علی المرتضیٰ" علی مرتضی محراب عبادت میں قتل ہو گئے ہیں بعد میں سب نے گواہی دی " قتل فی محراب عبادتہ لشدۃ عدلھ" آپ کا جرم "عدل" تھا عدل کی وجہ سے آپ شہادت کے عظیم مرتبہ پر فائز ہوئے آپ کے لئے شہادت بھی ایک مقام تھا۔ جب خون آلود حالت میں آپ کو مسجد سے باہر لایا جا رہا تھا توبہت سے لوگ رو رہے تھے سب پریشان تھے غم سے کلیجے پھٹے جارہے تھے آپ نے فرمایا" ھذاماوعدنا اللہ ورسولھ وصدق اللہ ورسولھ" خدا اوراس کے رسول کا یہی وعدہ تھا سچ کہا اللہ اوراس کے رسول نے، روایت کہتی ہے آپ نے امام حسن(علیھ السلام) سے فرمایا" بیٹا! کیوں رو رہے ہو؟ " ھذا جدک رسول اللہ وھذہ خدیجۃ وھذہ امک فاطمۃ" یہ سب میرا انتظارکررہے ہیں۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ قل ھواللہ احد۔ اللہ الصمد۔ لم یلدولم یولدولم یکن لھ کفواً احد"

پالنے والے! تمہیں تجھ سے امیرالمومنین(علیہ الصلاۃ والسلام) کے تقرب کی قسم ہمیں عمل، اخلاق اوررفتاروگفتارمیں امیرالمومنین(علیہ الصلاۃ والسلام) کاپیروکاربنادے!

پالنے والے! ہم جوکچھ کہہ اورسن رہے ہیں کہنے اورسننے والے دونوں پر اس کا اثرفرما۔

ہمیں حقیقی مسلمان بنا دے۔

ان ایام ولیالی میں ، مومن اورخداپرست لوگوں کی دعاؤں کو مستجاب کر۔

پالنے والے! عزیزشہداء اورامام بزرگوار(رہ)کی ارواح طیبہ کواپنے اولیاء کے ساتھ محشورفرما۔

پالنے والے! ہم سب پر اپنی رحمت ومغفرت نازل فرما۔

ہمیں بخش دے۔

ہم پراپنی رحمت سایہ فگن کر۔

ہماری نصرت ومددکر۔

دوسراخطبہ

بسم اللہ الرحمن الرحیم

الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سیدنا ونبینا ابی القاسم المصطفیٰ محمد وعلیٰ آلھ الاطیبین الاطھرین المنتجبین سیما علی امیرالمومنین والصدیقۃ الطاھرۃ والحسن والحسین سیدی شباب اھل الجنۃ وعلی ابن الحسین وزین العابدین ومحمد ابن علی الباقروجعفرابن محمد الصادق وموسیٰ ابن الجعفر الکاظم وعلی ابن موسیٰ الرضا ومحمد ابن علی الجوادوعلی ابن محمد الھادی والحسن ابن علی الزکی العسکری والحجۃ القائم المھدی صلوات اللہ علیھم اجمعین وصل علی ائمۃ المسلمین وحماۃ المستضعفین وھداۃ المومنین واستغفراللہ لی ولکم۔

تمام برادران وخواہران سے دوبارہ گذارش ہے تقویٰ الہی فراموش نہ ہو تقویٰ اختیارکرنا ہم سب کا فرض ہے ہمیں اپنے نفس اوراپنے دینی بھائیوں کو ہمیشہ تقویٰ وپرہیزگاری کی نصیحت کرتے رہنا چاہئے۔

اس خطبہ میں کچھ علاقائی مسائل سے متعلق عرض کرنا ہےاوراس کے بعد عرب بھائیوں سے چند باتیں کہنا ہیں لبنان کی جنگ معمولی نہ تھی یہ تینتیس روزہ جنگ تاریخی جنگ تھی، علاقہ بھرمیں اس کی کوئی ماضی کی مثال ہمارے ذہن میں نہیں ہے اسلامی بیداری اورمسلم اقوام کے دشمنوں کو ہرگز ایسی امید نہ تھی لیکن یہ ہوا۔

اس تینتیس روزہ جنگ میں ایک ہارا اورایک جیتا ہے واضح سی بات ہے کہ حزب اللہ، لبنانی مزاحمت اورلبنانی قوم اورحقیقت میں امت مسلمہ جیتی ہے سبھی لوگ خوش ہوئے آپ نے سنا ہوگا اورواقعیت یہی ہے کہ اس وقت حزب اللہ اوراس کے قائد کا نام عالم اسلام، عرب ممالک اوردیگراقوام کے درمیان سب سے پیارا نام ہے حزب اللہ کے اراکین انہیں سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ ہمارے اپنے ملک ایران کے علاوہ ترکی، مصر، شمالی افریقہ اوردیگرمسلم ممالک کی یہی صورتحال ہے ہرجگہ یہی کیفیت ہے یہ اس بات کی علامت ہے کہ پورا عالم اسلام خود کواس کامیابی میں شریک سمجھتا ہے یعنی یہ امت مسلمہ کی کامیابی ہے اورشکست یقیناً صہیونیوں اورجعلی اسرائیلی حکومت کی ہوئی ہے اس کے ساتھ دنیا کا کوئی شخص ایسا نہیں جو امریکہ کو بھی اس شکست میں شریک نہ سمجھتا ہو یوروپیوں نے توصاف صاف کہدیا دوسروں نے بھی کہا اورخود امریکی بھی ڈھکے چھپے الفاظ میں اعتراف کرتے رہے ہیں امریکہ کی بھی ہارہوئی اور ان کے علاقائی ہمنواؤں کی بھی۔ تو جیسا کہ ہم نے عرض کیا اس سلسلہ کی کامیابی غیرمعمولی ہے اورشکست بھی! اس جنگ میں درس بھی ہیں اب دشمن چاہیں یا نہ چاہیں اقوام عالم یہ درس ضرورحاصل کریں گی کہنے کا مطلب یہ کہ فلسطین، عراق، ایران اوردوسرے ممالک کے عوام اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں کہ مزاحمت اوراستقامت ہی کامیابی کا واحد راستہ ہے دوسرا کوئی راستہ ہے ہی نہیں مزاحمت کار چاہے چھوٹا سا گروہ ہو اورمقابلہ میں دنیا کی اول درجہ کی فوج ہو جس کی امریکہ بھی پشتپناہی کررہا ہو کچھ بھی ہو لیکن خدائی راز اوراس کی سنت ہے کہ میدان میں ڈٹے رہنے والوں کو کامیابی نصیب ہو گی۔

استقامت ہی کامیابی کا راز ہے لیکن مزاحمت کرنے والوں کو یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ انہیں اس راہ میں پیش آنے والے خطرات سے بے خوف رہنا ہوگا وگرنہ ان کی مزاحمت میں خلل پڑ جائے گا اورکامیابی ہاتھ نہ آئے گی اکثرگروہوں اورلوگوں کی پریشانی یہی ہے کہ وہ وسط راہ میں پہنچ کر ڈرنے لگتے ہیں جب مزاحمت کرنے والے لذتوں، زندگی اورآرام وآسائش کی پرواہ نہ کرتے ہوئے آگے بڑھتے رہیں گے تو بے شک کامیابی انہیں مل کر رہے گی۔ مزاحمت کے ساتھ ایمان بھی ضروری ہے مزاحمت کے ساتھ جب ایمان بھی ہوتومزاحمت کا سلسلہ جاری رہے گا اسی لئےہم ہمیشہ کہتے ہیں کہ جب ایمان ومزاحمت ایک ساتھ ہوں تب کامیابی قدم چومتی ہے۔ ایمان سے مراد دینی ایمان نہیں بلکہ کسی قاعدہ قانون پر ایمان ہونا چاہئے البتہ اگر دین پر ایمان ہو تو خدا نے وعدہ کیا ہے تمام قوانین طبیعت اس مزاحمت کا ساتھ دیں گے " من کان یرید العاجلۃ عجلنا لھ فیھا ونشاء لمن نرید" یہ ان لوگوں کی بات ہے جو دنیا چاہتے ہیں دنیا چاہنے والوں کے پاس بھی اگر مضبوط ارادے ہوں اورواقعاً کچھ کرنا چاہیں تو خدا انہیں بھی کامیابی دیتا ہے جس کا ارادہ دینی ہو اسے بھی کامیابی ملتی ہے " کلما نمد ،ھؤلاء وھؤلاء" یہ سنت الہی ہے۔

لبنان کی جنگ نےہر مسلمان کو درس دیا ہے آپ حضرات یہ جان لیجئے کہ اب علاقہ میں حالات کا رخ بدل گیا ہے شاید اسکے آثار جلد نمایاں نہ ہوں لیکن آہستہ آہستہ سب سمجھ جائیں گے اسلامی انقلاب کے تجربہ کے بعد ایک بار پھرمسلم اقوام نے اپنی آنکھوں سے دیکھا جارحیت پسندوں، ستمگروں اورعالمی غنڈوں کے مقابلہ میں مزاحمت ہی کامیابی کا واحد راستہ ہے۔

اب میں عرض کرنا چاہوں گا کہ جن کی شکست ہوئی ہے وہ ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھے ہیں اورنہ بیٹھیں گے بات ختم نہیں ہو گئی ہے وہ اس شکست کے نتائج بھگتنے سے بچنے کے لئے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں اس لئے کہ انہیں سخت چوٹ آئی ہے۔ اس جعلی اسرائیلی حکومت کو چوٹ پہنچی ہے جسے پچاس سال سے پورا مغرب (امریکہ یورپ اوردیگر ممالک) بچاتے آئے ہیں۔ اس حکومت کی ریڑھ کی ہڈی اس کی فوج ہے فوج پر لوگوں کو بھروسہ ہونا چاہئے۔ انہیں ذلت یوں اٹھانا پڑی ہے کہ پوری اسرائیلی انتظامیہ اورعوام کے حوصلے فوج سے وابستہ تھے اوراس فوج نے ایک ایسے گروہ سے شکست کھائی ہے جو غیر فوجی گروہ ہے اور جس کے پاس معمولی قسم کے ہتھیار ہیں لہذا پورا اسرائیل لرز گیاہے اوراب امریکہ، عالمی صہیونی لابی اوران کے دیگرحامی سب مل کراس ناکامی کا جبران کرنا چاہتے ہیں ہمیں نہایت محتاط اورہوشیاررہ کر پتہ لگانا ہوگا کہ انہوں نے مجموعی طور پر پوری امت مسلمہ یا کسی خاص مسلم ملک کے لئے کیا سازش رچی ہے ہمیں ہوشیاروبیداررہنا ہوگا۔ ان کاسب سے پہلا پلان تو لبنان کے اندر حزب اللہ کو کمزور کرنا ہے اب تک ایسا کرنہیں پائے لیکن دسبرداربھی نہیں ہوئے ہیں سیاسی لحاظ سے حتی الامکان حزب اللہ کو کمزور کرنا چاہتے ہیں اسے مزید مضبوط ہونے سے روکنا چاہتے ہیں اس پر سیاسی دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں، اقوام متحدہ کی مختلف ممالک سے آئی" یونیفیل" نامی افواج بیرونی جارحیت کے مقابلہ میں لبنانی عوام کا ساتھ دینے وہاں گئی ہیں یہ لوگ ان کی ڈیوٹی بدل کے انہیں لبنان کی طاقت حزب اللہ کے مقابلہ کے لئے ابھارنا چاہتے ہیں البتہ جن ممالک سے ان افواج کا تعلق ہے وہ جانتے ہیں کہ انہیں لبنانی عوام یا حزب اللہ کے مقابلہ میں نہیں آنا ہے لیکن امریکی پالیسیاں یہی ہیں۔

لبنانی عوام حزب اللہ کو چاہتے ہیں اکثر سیاستداں سنی، شیعہ، عیسائی سبھی حزب اللہ کو چاہتے اوراس کے وجود پر فخرکرتے ہیں لیکن دشمن بھی اپنی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں۔

ان کا دوسرا کام فلسطین کی کاروائیاں ہیں فلسطین میں ہورہی ان کی کاروائیاں ایک حد تک لبنان میں ہوئی ذلت مٹانے کی غرض سے ہیں۔ آئے دن فلسطینیوں کا قتل عام، مشرقی کنارے، غزہ اوردیگر علاقوں پر حملے زیادہ تر لبنان ہی کی رسوائی مٹانے کی کوشش ہے یہ لوگ حماس کی حکومت گرانا چاہتے ہیں۔ اس مقام پر میں فلسطینی بھائیوں کی توجہ اس بات کی طرف مبذول کرنا چاہتا ہوں (عربی گفتگومیں بھی عرض کروں گا) بلکہ سبھی مسلم اقوام کی توجہ کا طالب ہوں کہ وہ عوام بنام دشمن کی حقیقت کوعوام بنام عوام سے نہ بدلیں دشمن کی یہی کوشش ہے وہ فلسطینیوں کو خود فلسطینیوں سے اورعراقیوں کو خود عراقیوں سے لڑانا چاہتا ہے اس بات پر سبھی کو توجہ دہنی چاہئے ۔ اس وقت فلسطینی عوام کی سب سے بڑی ضرورت اتحاد ہے۔ دیگرممالک کی ضرورت بھی یہی ہے۔

عراق بھی دشمنوں کا ٹارگیٹ ہے لبنان کے واقعہ سے قبل بھی عراق ان کا نشانہ تھا اوراب اس عمل میں مزید شدت آگئی ہے لبنان وعراق کے پیش آمدات ایک ہی امریکی پالیسی کی بکھری کڑیاں ہیں وہ ایک مقصد کے پیچھے تھے جس کے حصو ل کی کوشش انہوں نے عراق سے شروع کی لیکن ناکامی ہاتھ لگی اس کے بعد لبنان کا رخ کیا لیکن وہاں بھی منہ کی کھانا پڑی اب وقفہ آگیا ہے لیکن امریکہ اور اس کے حلیف ان پالیسیوں کو جاری رکھنے کی نہایت کوشش کر رہے ہیں۔

یہاں بھی عراقیوں کو عراقیوں سے لڑانا چاہتے ہیں۔ حقیقیت یہ ہے کہ عراق پر قابض طاقتیں عراق کےحکومتی، پارلیمانی، صدارتی، مالی غرض جملہ امور میں بے جا مداخلت کر رہی ہیں اورسب سے بڑھ کے یہ کہ بہت ساری مثالیں گواہ ہیں کہ یہ لوگ وہاں دہشت گردی کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں کہنے کا مطلب یہ کہ شیعہ اورسنی عوام کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں۔ انہیں ان کے خون کا پیاسا بناتے ہیں پھر انہیں انتقام پر ابھارتے ہیں شیعوں کو سنیوں سے بدگمان کررہے ہیں سنیوں کو شیعوں سے بدگمان کررہے ہیں یہ ہے امریکہ کی عراقی پالیسی.

اس وقت ہمارے عراقی بھائیوں کو اتحاد کی اشد ضرورت ہے ایسا اتحاد جس کی بنیاد یہ ہو کہ دشمن کی تمام پالیسیوں کو ناکام بنادیا جائے جو وہ خطے نافذ کرنا چاہتا ہے دشمن عراق میں عوام کو عوام سے لڑانا چاہتا ہے اور ان کی توجہ قابض فوجوں کی نسبت ہٹانا چاہتا ہے یہ لوگ پورے علاقہ میں یہی کھیل کھیلنا چاہتے ہیں مسلکی اختلافات پھیلانے کی پرانی پالیسی پھراپنا لی گئی ہے اس کے ماہر تو برطانوی ہیں لیکن اب انہوں نے امریکیوں کو بھی سکھا دیا ہے ہرممکنہ طریقہ سے شیعہ سنی کو لڑانا چاہتے ہیں۔ سب کو محتاط رہنا چاہئے۔

عراق میں شیعہ سنی صدیوں سے ساتھ ساتھ رہ رہے ہیں کتنے شیعہ سنی خاندانوں کی آپس میں رشتہ داریاں ہیں گذشتہ چند صدیوں سے اس قسم کے اختلاف کا کہیں پتہ نہ تھا عثمانی عہد میں حکومت شیعوں کے ساتھ من مانی سے پیش آتی اورانہیں پریشان کرتی تھی صدام کے زمانہ میں بھی کم وبیش صورتحال یہی تھی لیکن عوام کا آپس میں کوئی اختلاف نہیں تھا۔ اب یہ لوگ لوگوں کو ہی ایک دوسرے کے خون کا پیسا بنانا چاہتے ہیں۔

عالم اسلام سے بھی ان کے ہم نواؤں کی جانب سے آواز اٹھتی ہے کہ "شیعہ قوس" بن رہی ہے " سنیو! کہاں ہو شیعہ مسلط ہوتے جا رہے ہیں" سنیوں کو ڈرانے کے لئے کہتے ہیں ایران سے لے کر عراق تک، عراق سے بحرین تک بحرین سے لبنان تک ایک شیعہ قوس بن گئی ہے دوسری جانب اسلامی جمہوریہ کوپڑوسیوں سے الگ تھلگ کرنے کے لئے بھی بے سروپا باتیں بناتے ہیں کبھی جزیروں کا مسئلہ تو کبھی کچھ ، تاکہ ایران کو بھی پڑوسیوں سے خطرہ محسوس ہونے لگے ایک طرف سے سنیوں کو ابھارتے ہیں دوسری طرف سے شیعوں کو! یہ ان کی پالیسی ہے! ہم اگر علاقہ میں استکباری سیاستوں کے خلاف ملنے والی حالیہ کامیابیوں کو انجام تک پہنچانا چاہتے ہیں توہمیں ہوشیاروبیداررہنا ہوگا۔

ہمیں ملک کے اندر تعمیروترقی کی انتہائی کوششوں کے ساتھ ساتھ ملک سے باہر بھی اپنے موافق سیاسی ذہنیت تیار کرنا ہوگی پوری کوشش کرکے اس طرف سے بھی دشمن کی دراندازی ناکام بنانا ہوگی۔

یوم قدس کی آمد آمد ہے۔ یوم قدس دشمنان امت مسلمہ کے پچاس سالہ ظلم وجبرکے خلاف آواز اٹھانے کا دن ہے پوری امت مسلمہ اورتمام مسلم ممالک کو یہ دن منانا چاہئے۔ خدا کی توفیق سے ایران کے عزیزعوام انشا اللہ ہرسال کی طرح امسال بھی یوم قدس منائیں گے۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم

والعصر۔ ان الانسان لفی خسر۔ الاالذین آمنو وعملواالصالحات وتواصوا بالحق وتواصوابالصبر۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

.............................................................

 

 

[1] وسائل الشیعہ جلد ۷ صفحہ ۲۷

[2] بحارالانوار جلد ۷۴ صفحہ ۲۰۵

[3] بحارالانوار جلد ۷۴ صفحہ ۲۰۵

[4] بحارالانوارجلد ۷۴ صفحہ ۲۰۵