ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا صوبہ کردستان کے شیعہ ،سنّی علماء اور طلاب سے خطاب

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

الحمد للہ ربّ العالمین والصلاۃ السّلام علی ٰ سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی ٰ محمّد و علیٰ آلہ الطیّبین الطّاہرین و صحبہ المنتجبین۔

یہ جلسہ استثنائی اور منفرد خصوصیّتوں کا حامل ہے ؛ اس اجتماع میں شیعہ اور سنّی علماء اعلام ، آئمہ جمعہ و جماعات ، خطباء اور طلاب کرام تشریف فرما ہیں ، ان کے علاوہ دینی طالبات بھی جلسہ میں شریک ہیں ، اور جیسا کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ اس جلسے میں صوبہ کردستان کے شہید علماء کے معظم گھرانے بھی موجود ہیں ۔ اس نورانی اجتماع میں ، معنویّت ،علم ، روحانیّت ، شہادت اور وحدت جلوہ نما ہے۔ اس اجتماع کی ایک نرالی شان ہے ۔ میں اس اجتماع کی قدر و قیمت کو سمجھتا ہوں ، آپ بھی اس کی قدر پہچانیے ؛ہم سب کو اس یکجہتی ، خلوص دل ، اور ہمراہی کو غنیمت سمجھنا چاہیے ؛ چونکہ ہما رے دوش پر سنگین ذمہ داریاں رکھّی گئی ہیں ۔اگر چہ عصر حاضر میں قوم کی فرد فرد پر اہم ذمّہ داری عائد ہوتی ہے لیکن خاص کر ان افراد پر یہ ذمّہ داری ، دوسروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے جو علم و آگاہی کی نعمت سے مزیّن ہیں ، جو دین و شریعت سے زیادہ واقف ہیں ۔

اس نورانی اور معنوی اجتماع میں سب سے پہلے جس بات کو میں آپ کے سامنے رکھنے جا رہاہوں وہ یہی ،ذمہ داری کی سنگینی کا مسئلہ ہے ۔دین اسلام میں ، علماء کرام ، قوم و ملت کی پیشرفت اور ترقّی کے پیشگام شمار ہوتے ہیں ۔ یہ ذمّہ داری علماء کے شانوں پر رکھی گئی ہے ، جیسا کہ امیرالمؤمنین نہج البلاغہ میں ارشاد فرماتے ہیں " ۔۔۔وما اخذ اللہ علی العلماء الا یقارواعلیٰ کظۃ ظالم ولا سغب مظلوم "(اور اللہ کا اہل علم سے یہ عہد نہ ہوتا کہ خبردار !ظالم کی شکم پری اورمظلوم کی گرسنگی پر چین سے نہ بیٹھنا ۔۔۔) اس کا مطلب یہ ہے کہ عالم دین ، ظلم و ناانصافی ، انسانوں کے ایک دوسرے پر تجاوز کے مقابلے میں خاموش تماشائی اور غیر جانبدار نہیں رہ سکتا ۔ یہاں غیر جانبداری بے معنی ٰ ہے ۔بات صرف اتنی نہیں ہے کہ ہم لوگوں کے لیے چند شرعی مسئلے اور احکام بیان کر یں بلکہ علماء پر وہی ذمہ داری عائد ہوتی ہے جو انبیاء کرام (ع)پر عائد ہوتی تھی " ان العلماء ورثۃ الانبیاء" علماء ، انبیاء کرام کے وارث ہیں۔انبیاء کی ذمّہ داری ، شرعی مسائل کے بیان تک محدود نہیں تھی ۔ اگر انبیاء کرام صرف شرعی مسائل اور حلال و حرام کے بیان پر اکتفاء کر لیتے تو انہیں کوئی مشکل پیش نہ آتی ، کوئی بھی ان کے مقابلے پر نہ آتا ۔ قاری محترم نے اپنی خوبصورت آواز اور فن تجوید و قرائت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس اجتماع میں جن آیات کریمہ کی تلاوت کا شرف حاصل کیا " الذین یبلغون رسالات اللہ ویخشونہ و لایخشون احدا الا اللہ"آخر یہ کون سی تبلیغ ہے جس میں لوگوں کا ڈر پایا جاتا ہے ، جس کے لئیے حکم دیا جارہا ہے کہ تبلیغ دین میں لوگوں سے ہراساں اور خائف نہیں ہونا چاہئیے ؛ اگر بات صرف چند شرعی مسائل و احکام کے بیان کی ہوتی تو اس میں کون سا خوف و ڈر ہے کہ پروردگار عالم ،خائف و ہراساں نہ ہونے والوں کی مدح و ثنا کرے اور یہ اعلان کرے کہ یہ مبلّغ، خدا کے علاوہ کسی سے بھی نہیں ڈرتے ہیں ۔ انبیاء کرام نے اپنی زندگی میں بے پناہ مصائب و آلام کیوں برداشت کئیے ؟آخر ان سے کون سی خطا سرزد ہوئی تھی جس کی وجہ سے ان پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے ؟"وکأ یّن من نبیّ قاتل معہ ربیّون کثیر فما وھنوا لما اصابھم فی سبیل اللہ وما ضعفوا و ما استکانوا " (بہت سے نبی ایسے گزر چکے ہیں جن کے ساتھ بہت سے اللہ والوں نے اس شان سے جہاد کیا ہے کہ راہ خدا میں پڑنے والی مصیبتوں سے نہ کمزور ہوئے اور نہ بزدلی کا مظاہرہ کیا اور نہ دشمن کے سامنے ذلت کا مظاہرہ کیا )یہ کون سی رسالت تھی جس کے لئیے جنگ و پیکار ضروری تھا ؟ جس کے لئیے لشکر خدا کو جنگ کے لئیے تیّار کرنا ضروری تھا ؟ کیا صرف چند شرعی مسائل اور حلال و حرام کے بیان کا مسئلہ تھا ؟ نہیں ایسا ہرگز نہیں تھا ، بلکہ انبیاء کرام نے حق اورعدل و انصاف قائم کرنے کے لئیے ، اور ظلم و بدعنوانیوں کے خلاف پیکار کرنے کے لئیے قیام کیا ۔ انہوں نے شیطانی طاقتوں کا مقابلہ کرنے کے لئیے قیام کیا ، طاغوت سے مراد وہ بت نہیں ہیں جو اس دور میں خانہ کعبہ میں آویزاں تھے ، ان کی کیا حیثیت تھی کہ سرکشی اور طغیان کرتے ، بلکہ طاغوت سے مراد وہ سرکش اور باغی انسان ہیں جو ان بتوں کے بہانے سے اپنے وجود کے بت کو لوگوں پر مسلط کر رہے تھے ۔ فرعون ، طاغوت تھا " ان فرعون علا فی الارض و جعل اھلہ شیعا یستضعف طائفۃ منھم " (فرعون نے روئے زمین پر بلندی اختیار کی اور اس نے اہل زمین کو مختلف حصّوں میں تقسیم کر دیا کہ ایک گروہ نے دوسرے کو بالکل کمزور بنا دیا ) یہ طاغوت ہے، انبیاء کرام نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر ان کا مقابلہ کیا ، ان سے لڑائی لڑی ، انبیاء کرام نے ظلم کے سامنے سکوت نہیں اختیار کیا ، منہ زور طاقتوں کے سامنے خاموشی نہیں اختیار کی ، لوگوں کی گمراہی پر خاموش تماشائی نہیں بنے بیٹھے رہے ۔ انبیاء اس رفتار و کردار کے مالک ہیں ۔ " العلماء ورثۃ الانبیاء " اگر ہم نے علمائے دین کا لباس زیب تن کر رکھا ہے تو ہم اپنے ساتھ ایک بہت بڑا دعویٰ لے کر چل رہے ہیں ؛ " نحن ورثۃ الانبیاء "ہم انبیاء کرام کی وراثت کے دعویدار ہیں ؛ انبیاء کی وراثت کیا ہے ؟ انبیاء کی وراثت ، ان سب چیزوں سے پیکار ہے جن کا مظہر طاغوت ہے ؛ شرک وکفر ، الحاد و فساد اور فتنے سے پیکار کر نا ہمارا فریضہ ہے ۔ ہم چند شرعی مسائل بیان کر کے یہ سوچ کر چین سے نہیں بیٹھ سکتے کہ ہم نے اپنا فریضہ ادا کر دیا ہے ۔ یہ ہماری پہلی ذمّہ داری ہے ۔

ہر دور کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں ۔ ایک دور میں ہم اسلام کی قرآنی شناخت کا دفاع کرنے کے لئیے کتابیں لکھا کرتے تھے ، استدلال کیا کرتے تھے ، مختلف دینی مسائل پر گفتگو کیا کرتے تھے ہمارے کچھ مرید اور ان مسائل سے دلچسپی رکھنے والےافراد انہیں سنا کرتے تھے ، اس دور میں ہماری ذمّہ داری اسی حد تک محدود تھی ۔ بہرحال اس دور میں ایک طاغوتی حکومت بر سر اقتدار تھی اور اس سے زیادہ تحرّک کی اجازت بھی نہیں تھی ۔ ہم لوگوں میں سے جو زیادہ چالاک اور ہوشیار ہوا کرتے تھے وہ اس سے بڑھ کر کچھ وسیع سرگرمیاں انجام دیتے تھے ، لیکن ہم میں سے بعض افراد ، حداقل (کم سے کم ) پر اکتفا کیا کرتے تھے ۔ لیکن عصر حاضر کا تقاضا کیا ہے ؟ آج کے دور میں دو ایسی خصوصیّتیں پائی جاتی ہیں جو ہماری ذمّہ داری میں مزید اضافہ کر رہی ہیں ۔ ایک خصوصیّت ، فکر و نظر کے انتقال کےطریقوں کی پیشرفت ہے ۔آپ ملاحظہ کیجئیے ، ریڈیو ، ٹیلیویژن ، الیکٹرانیک میڈیا ، انٹر نیٹ ، اور اطّلاع رسانی کے دیگر وسائل کو آج دنیا میں کن مقاصد کے لئیے استعمال کیا جارہا ہے ؟آج استکبار صر ف شمشیر دکھانے پر اکتفا نہیں کر رہا ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دسیوں دیگر حربے بھی بروئے کار لا رہا ہے ، تاکہ اس کے ذریعہ وہ اپنی غلط فکر ، غلط راستے اور ظالمانہ طور و طریقے کو اقوام عالم پر مسلّط کر سکے ، ہمارے پاس موثق اور قطعی اطلاعات ہیں کہ امریکہ کی فیلمی صنعت ہالیوڈ ، قدم بہ قدم امریکی حکومت کی سامراجی پالیسیوں کی ہمنوا ہے ، فیلم سازی اور سینما کا یہ عظیم ادارہ ، جس میں ، دسیوں کمپنیاں ، ہزاروں اداکار ، ہدایت کار اور پروڈیوسر ، فیلم نویس اور سرمایہ دار شامل ہیں ، یہ ادارہ ایک خاص مقصد کے لئیے استعمال ہو رہا ہے اور وہ ہدف ہے ، امریکہ کی استکباری سیاست کے اہداف و مقاصد کا حصول ، جن مقاصد کے حصول کےلئیے امریکی حکومت نے ایڑی چوٹی کا زور لگا رکھا ہے ۔ یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے ۔ آج آپ کو دین اسلام ، حق و حقیقت ، اور صراط مستقیم کو متعارف کرانے اور لوگوں کو اس راستے پر چلانے میں بہت سی مشکلات کا سامنا ہے ، ہمیں اپنے آپ کو زمانے پر منطبق کرنا ہوگا ۔آج کے مذہبی شبہات ، سو ، دو سو سال پہلے والے شبہات نہیں ہیں ۔ وہ شبہات جو آپ کے جوانوں ، طلباء اور یہانتک کہ ابتدائی اسکولوں کے طلباء کے ذہنوں میں ڈالے جا رہے ہیں وہ اس دور کے شبہات ہیں ۔ ان کا مقابلہ کون کرے گا ؟ علمائے دین ، عقیدے کی سرحدوں کی پاسداری کرنے والوں کے سوا ان زہر آلود تیروں کا مقابلہ کون کرے گا ؟ (یہ میری تقریر کا دوسرا نکتہ تھا )

ایک دوسری خصوصیت اور طرّہ امتیاز جو اس دور میں پایا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ اس دور میں ایک اسلامی حکومت کا قیام عمل میں آیا ہے ۔ آج ایک اسلامی حکومت قائم ہے ۔ ماضی میں ایسی حکومت نہیں تھی لیکن آج ہے ، اسلامی تاریخ میں ، صدر اسلام سے آج تک ، جب سے خلافت ، ملوکیت اور تخت و تاج میں تبدیل ہوئی ہے کسی بھی حکومت کی مثال نہیں ملتی جو مذہب اور شریعت کی بنیاد پر قائم ہوئی ہو ، یہانتک کہ خلافت عثمانیہ کے دور میں بھی ایسا نہیں تھا جو نام کے اعتبار سے خلافت تھی ، جس کا فریب کھا کر بہت سے مسلمان اس کے شیدائی بنے ہوئے تھے ، در حقیقت وہ ایک شاہانہ اور سلطنتی نظام حکومت تھا ، اس ملک کی حاکمیت دین پر استوار نہیں تھی ، شریعت پر قائم نہیں تھی ، ماضی میں دینی حکومت نہیں تھی لیکن آج ہے ۔

میں ہر گز اس بات کا دعوی ٰ نہیں کرتا کہ یہ مذہبی حکومت ، ایک مکمّل قرآنی حکومت ہے ؛ اس حکومت کے ناقدین میں سے پہلا شخص میں خود ہوں ۔ ہم اسلامی شریعت کے نفاذکے سلسلے میں حد اقل (اسلام کے سب سے کم درجے ) پر اکتفا کئیے ہوئے ہیں ، البتہ ہمارا راستہ اور سمت صحیح ہے ؛ لیکن ہمیں اسلام کے اعلیٰ اور ارفع درجے کی طرف آگے بڑ ھنا چاہیے ۔ یہ حکومت قانونی اور رسمی اعتبار سے ایک مذہبی حکومت ہے ؛ قانون اساسی کے مطابق ، ہر وہ اقدام یا قانون جو شریعت اسلامیہ کا مخالف ہو وہ منسوخ ہے ؛ یہ حکومت دین کی بنیاد پر استوار ہے۔ یہ ایک غیر معمولی واقعہ ہے کہ ملک کی سیاسی مشینری ، علمائے دین کو اس بات کی اجازت دیتی ہے بلکہ ان سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ شریعت کی ترویج و فروغ کے راستے پر چلیں ۔ اس ملک کے حکام اگر دینی معیاروں کی کسوٹی پر کھرے نہ اتریں تو خود بخود اپنے عہدے سے معزول ہو جائیں گے ، یہ ایک انوکھی اور نئی چیز ہے ۔ یہ ایک نئی چیز ہے ؛ ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی ۔ہمیں اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہئیے ، یہ موجودہ دور کی دوسری خصوصیّت ہے ۔ اس خصوصیت سے اس دور کی مادیت میں گرفتار دنیا میں ، اسلامی حقائق اور معارف اور شریعت اسلامیہ کی نشر و اشاعت اور فروغ کے لئیے نہایت استفادہ کیا جاسکتا ہے ۔

میں نے تیس ، چالیس برس پہلے مرحوم سیّد قطب کی تحریروں میں ایک تحریرپڑھی جو آج تک میرے ذہن میں گونج رہی ہے ۔ مرحوم کی بات کی تفصیلات و جزئیات میرے ذہن میں نہیں ہیں چونکہ اسے پڑھے ہوئے ایک طولانی عرصہ بیت چکا ہے ، بہر حال اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر اسلام کے دعویدار اور طرفدار ، اس قدر کتابوں کی تالیف ، تقاریر ، تبلیغات ، اور مساجد کو چلانے کے بجائے ایک کام انجام دیں تو اس کی تاثیر ان سب کاموں سے کہیں زیادہ ہے اور وہ کام یہ ہے کہ دنیا کے کسی کونے (جہاں تک مجھے یاد ہے موصوف نے دنیا کے کسی دورافتادہ جزیرے کی تعبیر استعمال کی ہے )میں ایک اسلامی حکومت تشکیل دیں ؛ دین اسلام کی ترویج و نشر و اشاعت میں اس حکومت کی تاثیر ، ہزاروں کتابوں ، تقاریر اور ہزاروں مفید مطالب سے کہیں زیادہ ہے ۔ ہم نے اسے آزما کر دیکھا ، جب اس ملک میں اسلامی نظام قائم ہوا، اور اس عظیم ، شجاع اور بے مثال شخصیت کے منہ سے اسلام کی آواز نکلی تو اچانک تمام عالم اسلام کے دل اسلام کی طرف متوجّہ ہو گئے ، ہماری تاریخ کےکسی بھی اسلامی مصلح کا موازنہ امام امّت رضوان اللہ تعالیٰ علیہ سے نہیں کیا جا سکتا ، میں نے سیّد جمال الدّین اور ان جیسی دیگر شخصیات کے حالات زندگی کا مطالعہ کیا ہے ان میں سے کوئی بھی امام رضوان اللہ تعالیٰ علیہ سے قابل مقایسہ و موازنہ نہیں ہے ، پروردگار عالم نے ہمیں اس بات کی توفیق عنایت فرمائی کہ ہم اس عظیم شخصیت کو نزدیک سے دیکھ سکیں ۔ امام امت نے جس ، شجاعت ، صراحت ،عزّت اور اقتدار سے اسلام کا نعرہ بلند کیا وہ بے مثال ہے ۔ آج آپ اسلامی ممالک کی یونیورسٹیوں میں سے کہیں بھی چلے جائیے ، وہاں کے طلباء اور تعلیم یافتہ طبقے میں اسلام کا رجحان اور اس سے والہانہ عشق کے مناظر دیکھنے کو ملیں گے ۔ یہ وہی افراد ہیں جنہیں کمیونسٹ آسانی سے اپنی طرف مائل کر لیتے تھے ، جو نہایت آسانی سے الحادی اور بے دینی کے رجحانات کے جھانسے میں آجاتے تھے ۔لیکن آج یہ مکاتب فکر دم توڑ رہے ہیں ۔ آج سب کی نگاہیں اسلام پر ٹکی ہوئی ہیں ، آ پ ، آج اس خطّے کی رجعت پسند ، اغیار سے وابستہ ، ذلیل و رسوا حکومتوں کی طرف سے اسلامی انقلاب کے خلاف سازشوں کی یلغار کو جو ملاحظہ کر رہے ہیں ان کی وجہ یہی ہے ؛ انقلاب کے دشمن بے حد خوف زدہ ہیں ؛ وہ اس رجحان کو دیکھ رہے ہیں ، جب وہ اپنے جوانوں ، اپنی قوموں کی انقلاب اوراس نظام اور اسلام کے سربلند پرچم سے اس والہانہ عشق و محبت کو دیکھتے ہیں تو وحشت زدہ ہو جاتے ہیں اور اس کے خلاف سازشوں میں مشغول ہو جاتے ہیں ، البتہ ان سرگرمیوں اور سازشوں کی نوعیّت مختلف ہے ۔ اگر ہم اسلامی ممالک پر مسلط ظالم حکام اور سلاطین کی اسلامی انقلاب کے خلاف سرگرمیوں کی نوعیت اور کیفیت پر روشنی ڈالنے لگیں تو ایک طویل فہرست مرتب ہو جائے گی ، یقینا آپ بھی ان میں سے بہت سی سرگرمیوں سے واقف ہیں ۔ ایسا اس لئیے ہے کہ یہ انقلاب دوسری قوموں پر اثر انداز ہو رہا ہے ۔ اگر اسلامی انقلاب میں یہ عجیب ، عمیق اور پائیدار تاثیر نہ ہوتی تو یقینا وہ اس قدر انقلاب کی مخالفت نہ کرتے ؛خاص کر وہ لوگ جو کم از کم نام سے مسلمان ہیں ۔

میرے عزیزو! اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ایک دور میں سنی ،شیعہ اختلافات میں پہلے کے مقابلے میں جو شدّت محسوس کی جارہی تھی وہ اسی کا نتیجہ ہے ، ہم نے دیکھا کہ یکایک شیعہ و سنی کا مسئلہ ، ایران ، عراق اور دیگر ممالک میں پہلے کے مقابلے میں زیادہ شعلہ ور ہوا۔ آج کل بعض اسلامی ممالک میں کچھ افراد کو مذہب شیعہ کی ترویج کے الزام میں پکڑا جا رہا ہے، یہ سراسر جھوٹ ، غلط اور بے بنیاد بات ہے ، اور وہ بھی ایسے ممالک میں جہاں کے لوگ اہلیبیت علیہم السّلام کے دوستدار اور محب ہیں ، اہل سنت ضرور ہیں، لیکن ایسے سنیّ ہیں جو عاشق اہلبیت بھی ہیں ۔ ہم آج بھی اسے دیکھ رہے ہیں اور ماضی میں بھی دیکھتے آئے ہیں ۔

نوبت یہاں تک پہنچی کہ انقلاب کے اوائل میں بہت سے عربوں نے ایرانی ریڈیو سے دلی لگاؤ کی وجہ سے فارسی زبان سیکھ لی ۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد بہت سے افراد مجھ سے ملنے کے لئیے آتے تھے ، ان میں سے بہت سوں نے اس بات کا اظہار کیا ہم نے اسلامی انقلاب کے عشق اور قلبی لگاؤ کی وجہ سے فارسی سیکھی ہے ، ہم ہمیشہ ہی ایرانی ریڈیو کی نشریات سنا کرتے تھے ، شروع میں ہمیں کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا لیکن رفتہ رفتہ ہمیں فارسی سمجھ میں آنے لگی ۔ یہ لوگ فارسی زبان میں گفتگو کرتے تھے ، اس زبان سے آشنا ہو چکے تھے ۔ انقلاب کی تاثیر اور نفوذیہ ہے ۔ سیّد قطب کی بات بجا تھی کہ اسلامی نظام کی تاثیر ہزاروں کتابوں سے زیادہ ہے ۔

اگر خدا نخواستہ ابتدائی برسوں میں اس انقلاب کو دفن کرنے میں کامیاب ہو جاتے تو اسلام کو ناقابل تلافی نقصان پہنچتا ۔ یہ لوگ یہ پروپیگنڈہ کرتے کہ جناب ! آپ نے دیکھ لیا کہ اسلام حکومت نہیں کر سکتا ۔ اسلام، انقلاب تو لے آیا اور حکومت بھی قائم ہوئی لیکن دو سال سے زیادہ نہیں چلی ، یا پانچ سال سے زیادہ قائم نہ رہ سکی ۔ اسی طر ح اگر اسلامی حکومت باقی رہتی لیکن وہ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں قابل ذکر پیشرفت اور ترقی نہ کر پاتی تو اس سے بھی اسلام کو نقصان پہنچتا ، انقلاب کے دشمن یہ ڈھونگ رچاتے کہ جی ہاں ! ایک اسلامی حکومت ، قائم تو ہوئی ہے لیکن اپنے عوام کو ماقبل تاریخ کے دور میں لے گئی ہے ؛ اس میں کوئی علمی پیشرفت ، سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقّی دکھائی نہیں دیتی۔ لیکن اسلامی انقلاب کو پائداری نصیب ہوئی ، اس کی جڑیں مضبوط ہوئیں ، علمی اور سائنسی اعتبار سے بھی اس نے محیّر العقول کارنامے انجام دئیے ۔ ممتازاور برجستہ جوان نسل کی تربیت بھی کی ، یہ جو آپ سنتے رہتے ہیں کہ بنیادی خلیوں کے مسئلہ میں اسلامی جمہوریہ ایران،دنیا کا آٹھواں ملک ہے جسے یہ ٹیکنالوجی حاصل ہے ، یہ بہت بڑی بات ہے ؛ یہ وہ ایران ہے جسے ترقی اور پیشرفت کی تمام سہولتوں سے محروم رکھا گیا تھا ۔ جب اسلامی انقلاب نے اس ملک کی باگ ڈور سنبھالی تو ملک میں ان علمی پیشرفتوں کا مناسب بنیادی ڈھانچہ فراہم نہیں تھا ۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران دنیا کا دسواں یا نواں ملک ہے جس نے فضا میں مصنوعی سیّارہ (جس نے انقلاب کے دشمنوں اور رقیبوں کو حیرت میں ڈالدیا ) بھیجنے کا کارنامہ انجام دیا ہے ، یہ بہت بڑی بات ہے ۔ ایران اور سٹیلائیٹ؟!یہ معرکہ کس نے سر کیا ؟ بلا شک و شبہ یہ کارنامہ اسلامی نظام نے انجام دیا ہے ۔ علم کو کس نے آگے بڑھایا ؟ ملک میں علمی تحریک کا آغاز کس نے کیا ؟ کس نے ایرانی ذہانت اور ذکاوت کو خلاقیت کے لئیے استعمال کیا ؟یہ کارنامے اسلامی نظام نے انجام دئیے ، پس اس نظام نے اپنی پائداری کا بھی مظاہرہ کیا اور اپنے قومی مقاصد و اہداف کے حصول کے لئیے توانائی کا بھی مظاہرہ کیا ۔

یہ پورے عالم اسلام کے لئیے قابل فخر کارنامہ ہے ؛ دنیا کے کسی بھی کونے میں رہنے والے مسلمان کی عزّت و سرفرازی کا باعث ہے ، یہیں سے خصومتوں کا آغاز ہوتا ہے ؛ ان میں شدت پیدا ہو جاتی ہے ۔ اگر آپ سڑک پر چلتے ہو ئے کسی کو ناخن چبھا دیں تو زیادہ سے زیادہ غصّے سے آپ کی طرف دیکھے گا ، لیکن اگر تھپّڑ رسید کر دیں تو ممکن ہے کہ دو ، چار گالیاں نثار کر دے لیکن اگر آپ کسی پر کو ئی کاری ضرب لگائیں تو وہ آپ کے گریبان کو ہر گز نہیں چھوڑے گا ۔ یہی مثال اس انقلاب پر بھی صادق آتی ہے ۔ جیسا کہ آپ ملاحظہ کر رہے ہیں کہ یہ لوگ اسلامی جمہوریہ ایران کا گریبان پکڑے ہوئے ہیں اور اسے چھوڑنے کو تیار نہیں ہیں ، یہ اس بات کی علامت ہے کہ جو کاری ضرب اس انقلاب نے استکبار کے پیکر پر لگائی ہے وہ بہت گہری ہے ؛ ہمارا دشمن کوئی خاص گروہ ، دو، چار چھوٹے بڑے آدمی نہیں ، اس خطّے کی حکومتیں نہیں ان بیچاری حکومتوں کو تو اپنے عوام میں بھی مقبولیت حاصل نہیں ہے ، بلکہ ہمارا دشمن ، عظیم استکباری مشینری ہے جسے صہیونی سرمایہ داروں ، بڑی بڑی کمپنیوں اور ٹرسٹوں کی سرپرستی حاصل ہے ۔ یہ استکباری نظام ، اسلامی نظام کا مقابلہ کر رہا ہے ، اور اس کے لئیے ہر طریقےاور روش سے استفادہ کر رہا ہے ؛ چونکہ اسے کاری ضرب لگی ہے اس لئیے اپنے تمام امکانات اور وسائل کو بروئے کار لا رہا ہے ۔اسلامی عقائد کے بارے میں انتشار و تشویش کی فضا پیدا کرنا ، جوانوں کو منشیات اور فساد میں مبتلا کرنا ، بعض اداروں کی غفلت سے فائدہ اٹھا کر جوانوں کو نشانہ بنانا ، مذہبی اختلافات کو ابھارنا ، شیعہ و سنی اختلافات کو ہوا دینا ، منافقین کی مدد ، اگر ان کے اختیار میں ہو تو اس نظام کے اعلی حکام میں نفوذ اور رخنہ ڈالنا ، یا ان سے نچلی سطح میں رخنہ اندازی کرنا، یہ سب چیزیں ان کے منصوبے میں شامل ہیں اور صبح و شام ان مقاصد کے حصول کی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں لیکن اس کے باوجود صاحبان ایمان استقامت کا مظاہرہ کر رہے ہیں " کالجبل الرّاسخ لا تحرّکہ العواصف "یہ تیز ہوائیں ، اسلامی جمہوریہ کو ہلانے کی قدرت نہیں رکھتی ہیں۔

جب ہم اپنے دل میں جھانکتے ہیں ، اپنی قوم کے دل میں جھانکتے ہیں تو وہاں رحمت الٰہی کو موجزن پاتے ہیں ، جب ہم اپنے عزم راسخ کو دیکھتے ہیں ، جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دشمن کے اکسانے کی وجہ سے ہم آپے سے باہر نہیں ہوتے ، ان کی دھکیوں سے خائف نہیں ہوتے ، ان کے وعدوں سے ہمارے اندر خوش بینی پیدا نہیں ہوتی ؛ ہم اسے رحمت الٰہی سمجھتے ہیں ، ان ظاہری اسباب و عوامل کی پشت پر خدا کا ہاتھ ہے ۔ اس نظام کی پشت پر پروردگار عالم کا دست قدرت ہے جو اسے آگے بڑھا رہا ہے ، اس کی ہدایت و راہنمائی کر رہا ہے ۔ صحیفہ سجّادیہ کی ایک دعا میں ہم پڑھتے ہیں " اللّھم ّ یکتفی المکتفون بفضل قوّتک " (پروردگارا ! بے شک تیری قوّت اور بے نیازی کے سہارے ، بے نیاز افراد بے نیاز ی حاصل کرتے ہیں )میں آپ سبھی افراد کو صحیفہ سجّادیہ سے مانوس ہونے کی سفارش کرتا ہوں ۔ اس دعا میں امام سجّاد علیہ السّلام فرماتے ہیں : تمام وہ افراد جو روئے زمین پر طاقت اور قدرت کے حامل ہیں ، وہ تیرے دسترخوان کے ٹکڑوں پر پل رہے ہیں ، وہ تیرے قبضہ قدرت میں ہیں ۔ "فصل ّ علیٰ محمّد و آلہ واکفنا و انّما یعطی المعطون من فضل جدتک فصلّ علی ٰ محمّد و آلہ واعطنا وانّما یھتدی المھتدون بنور فضلک فصلّ علی ٰ محمّد و آلہ واھدنا "۔ خدا پر اعتماد اور یقین ، خدا کی مدد ،کفالت اور حمایت پر اعتماد ، خدا کی ھدایت و رحمت انسان کو ہر گز ناامّید و مایوس نہیں ہونے دیتی ، ہم جب اپنے عوام پر نگاہ ڈالتے ہیں تو اس جذبے کو موجزن پاتے ہیں ۔ صوبہ کردستان ہو یا بلوچی ہوں ، شیعہ ہوں یا سنی ، اصفہانی ہوں یا شیرازی سبھی کے دلوں میں رحمت الٰہی کے جلوے دکھائی دیتے ہیں؛ دلوں کو پروردگار عالم نے ثبات عطا کیا ہے ، خدا نے ہمارے اوپر اپنی حجّت تمام کر دی ہے ۔ اس موقع سے بھر پور فائدہ اٹھائیے اور آگے بڑہیے ۔اس دور کے علمائے کرام کو بھی ان امکانات سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے اور جدید افکار و نظریات سے آشنائی حاصل کرنا چاہیے ۔ دشمن کے طریقہ کار کو پہچاننا چاہیے ، اور اپنے زمانے کے مسائل سے آگاہی حاصل کرنا چاہیے " العالم بزمانہ لا تھجم علیہ اللوابس''۔ بالکل محاذ جنگ کی طرح ۔ شاید آپ میں سے کچھ افراد نے محاذ جنگ کا سماں دیکھا ہو (جوانوں نے البتہ وہ دور نہیں دیکھا) جنگ میں ہر طرف سے توپ ، ٹینک ، بندوقوں کی گولیوں کی برسات ہو تی ہے اور کبھی کبھی دوست و دشمن کی شناخت مشکل ہو جاتی ہے ، یہ بہت بڑا خطرہ ہے ۔ ایک سپاہی کے لئیے خطرے کا سب سے بڑا مقام یہ ہے کہ وہ راستہ بھٹک جائے ، اسے اپنے اور دشمن کے مورچوں کی خبر نہ ہو ، ایسی صورت میں وہ یہ سمجھ کر کہ دشمن کو نشانہ بنا رہا ہے اپنے ہی ساتھیوں پر گولیاں برساتا ہے ۔ یہ بہت خطرناک صورتحال ہے ، ہم میں سے بہت سے افراد یہ سمجھ کر کہ دشمن کو نشانہ بنا رہے ہیں اپنے ہی دوستوں کو حملے کا نشانہ بنا رہے ہیں ۔ہم میں سے بہت سے افراد اس بات سے غافل ہیں کہ شیعہ وسنی اختلافات کو ہوادینا دشمن کی سازش ہے ، اس کے ذریعہ دشمن ہمیں آپس میں لڑانا چاہتا ہے ، ہم غفلت کا شکا ر ہیں ۔ ایک شیعہ کی پوری توانائی ، سنی کو زیر کرنے میں صرف ہو رہی ہے ، ایک سنی کی پوری توانائی ،شیعہ کو مغلوب کر نے میں خرچ ہو رہی ہے ۔ یہ بہت افسوسناک صورت حال ہے اور دشمن کی دلی تمنا بھی یہی ہے ۔

نمونے کے طور پر میں آپ سے عرض کرتا چلوں کہ آپ فلسطین کی حمایت کے مسئلے کو ہی لےلیجئیے ۔ کوئی بھی ملک اور حکومت اس سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی گرد پا تک نہیں پہنچ سکتی ۔ پوری دنیا نے اس کی تصدیق کی ۔ جس سے جل بھن کر بعض عرب ممالک نے یہ آواز اٹھائی اور ہم پر یہ الزام لگایا کہ ایران یہاں اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لئیے کوشاں ہے !البتہ فلسطینیوں نے اس بات کی پرواہ نہیں کی اور اسے سراسر نظر انداز کردیا ۔غزّہ کی بائیس روزہ جنگ میں اسلامی جہوریہ ایران نے رہبریت ، صدر جمہوریہ ، دیگر اعلی ٰ حکام ، عوام ، مظاہروں ، پیسے ، فوج ۔۔۔ الغرض ہر سطح پر فلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی مدد کی ۔ اس دوران ہم نے دیکھا کہ ایک وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے ، ہم نے دیکھا کہ کچھ لوگ ہمارے بزرگوں ، علمائے دین اورلائق احترام شخصیات کے پاس مسلسل آجا رہے ہیں اور ان سے کہہ رہے ہیں کہ آپ کس کی مدد کر رہے ہیں ؛غزّہ کے لوگ ناصبی ہیں !ناصبی یعنی دشمن اہلبیت علیہم السّلام ۔ کچھ افراد کو ان کی باتوں کا یقین آگیا ؛ ادھر ادھر سے پیغام آنا شروع ہو گئے کہ جناب لوگ یہ کہہ رہے ہیں یہ تو ناصبی ہیں ، ہم نے جواب دیا ، اللہ کی پناہ ، خدا کی لعنت ہو شیطان رجیم و خبیث پر ، غزہ میں مسجد الامام امیر المؤمنین علی بن ابی طالب موجود ہے ، وہاں مسجد الامام الحسن پائی جاتی ہے ، تو پھر یہ کیسے ناصبی ہیں ؟! سنی ہیں لیکن ناصبی ؟! ہم نے اس رفتار وگفتار کا مشاہدہ کیا ۔ اس کا مدّ مقابل نقطہ بھی ہے ؛ اہل سنت حضرات میں سے کچھ لوگ قم جائیں اور اس غرض سے شیعہ حضرات کی کتابوں کو چھان ماریں کہ کہاں پر اہل سنت کے مقدسات کی اہانت کی گئی ہے ، اس کی فوٹو کاپی کرائیں اور اہل سنت میں تقسیم کریں اور ان سے کہیں کہ دیکھئیے یہ شیعوں کی کتابیں ہیں ۔ یا کسی کونے میں کوئی نادان ، غافل یا مغرض مقرّر، منبر سے اہل سنت کے مقدسات کو برا بھلا کہہ رہا ہو اس کی کیسیٹ یا سی ڈی بنا کر اہل سنت میں تقسیم کریں اور یہ کہیں کہ ملاحظہ کیجئیے شیعوں کی حقیقت یہ ہے ۔ اس کے ذریعے سے اہل سنت اور شیعوں کو ایک دوسرے سے بد گمان کریں ۔ اس کا مطلب کیا ہے ؟ " و تذھب ریحکم " کا کیا مطلب ہے ؟ اس کا مطلب یہی ہے ۔یعنی جب شیعہ اور سنی حضرات میں اختلاف و تفرقہ پیدا ہو جائے ، جب ایک دوسرے سے بد گمانی پیدا ہو جائے ، جب ایک دوسرے کو خائن سمجھنے لگیں تو یہ فطری بات ہے کہ ایک دوسر ے سے تعاون نہیں کریں گے ، اگر تعاون کریں گے تو اس میں خلوص نہیں پایا جائے گا ۔ یہ وہ چیز ہے کہ دشمن جس کے پیچھے ہے ۔ شیعہ اور سنی علمائے کرام کو اسے سمجھنا چاہیے ؛ دو مذہبوں کا بعض اصول و فروع میں آپسی اختلاف ایک بدیہی اور ناقابل تردید حقیقت ہے ؛ اگرچہ بہت سے مسائل میں اتحاد پایا جاتا ہے ،لیکن اختلاف کا مطلب ، خصومت اوردشمنی نہیں ہے ۔ بعض مسائل میں شیعہ فقہاء کے فتوے بھی ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتے ہیں ، آئمہ اہل سنت کے فتوے بھی بعض مسائل میں ایک دوسرے سے بہت مختلف ہیں ؛اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ ہم ان اختلافات کو بہانہ بنا کر ایک دوسرے کو برا بھلا کہیں ۔اس میں کیا حرج ہے کہ ہر کوئی اپنے مذہب پر عمل کرے ۔۔۔(۱)جی ہاں اہل سنت اسی رفتار و گفتار کے مالک ہیں ، کوئی یہ تصوّر نہ کرے کہ اہلبیت پیغمبر(ص) صرف شیعوں سے مخصوص ہیں ، اہلبیت علیہم السّلام پورے عالم اسلام سے متعلق ہیں ، معصومہ کونین حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیہا ) کو کون نہیں مانتا ؟ وہ کون ہے جو جوانان جنت کے سردار حضرت امام حسن اورامام حسین علیہما السّلا م کو نہ مانتا ہو ؟ وہ کون ہے جو شیعوں کے اماموں کو قبول نہ رکھتا ہو ؟ بعض انہیں واجب الطاعہ امام مانتے ہیں اور بعض اس اعتبار سے نہیں مانتے ، لیکن مانتا ہر کوئی ہے ؛یہ حقائق ہیں ، انہیں سمجھنے کی ضرورت ہے ، معاشرے میں ان کی ترویج اور نشر اشاعت ہونی چاہئیے ، البتّہ بعض افراد ان حقایق کو نہیں سمجھ پاتے اور دشمن کے اکسانے میں آجاتے ہیں ؛ اور یہ سمجھتے ہیں کہ اچھا کام کر رہے ہیں حالانکہ وہ نقصان کا سودا کر رہے ہیں " ھل ننبّئکم بالاخسرین اعمالا ، الّذین ضلّ سعیھم فی الحیاۃ الدّنیا و ھم یحسبون انھم یحسنون صنعا"یہ خیال کرتے ہیں کہ اچھے اعمال انجام دے رہے ہیں ، یہ اس سے غافل ہیں کہ در حقیقت یہ لوگ دشمن کے لئیے کام کر رہے ہیں ۔یہ ہمارے زمانے کی خصوصیت ہے جسے میں نے آپ کے سامنے رکھا ۔

میری گفتگو کچھ طولانی ہو گئی ہے ۔ البتّہ مجھے آپ سے بہت کچھ عرض کرنا تھا ، علمائے کرام بالخصوص جوان طلاب سے مجھے بہت کچھ کہنا تھا ، لیکن وقت کم ہے ، اگر دامن وقت میں گنجائش ہوتی اور میری مزاجی کیفیّت اجازت دیتی تو میں آپ سے مزید گفتگو کرتا ، مختصر طور پر اتنا جان لیجئیے کہ اس دور میں ماضی کے مقابلے میں اسلام سے خصومت اور دشمنی میں شدّت اور سنجیدگی آئی ہے ؛ اس کی سب سے بڑی وجہ اس ملک میں اسلام کی حاکمیّت ہے ؛ اسلام کے دشمن ، ایران میں اسلام کی حاکمیت ، اور پرچم اسلام کے لہرانے سے خطرے کا احساس کررہے ہیں ۔ اس پرچم کو مضبوطی سے اٹھائے رکھئیے ،ہم سب کو اس حاکمیّت کی قدرپہچاننا چاہئیے ؛ جو بھی شخص اسلام سے لگاؤ رکھتا ہے ، قرآن پر عقیدہ رکھتا ہے اسے اس اسلامی حاکمیّت کی قدر و قیمت کو سمجھنا چاہئیے ۔ یہ کلّی ہدف اور سمت و سو ہے ۔

عملی طور پر اس نکتے پر اپنی توجّہ مرکوز کیجئیے جس کی طرف میں نے اپنی تقریر کے پہلے حصّے میں اشارہ کیا ؛ زمانہ بہت آگے بڑھ چکا ہے ، اس میں نمایاں تبدیلی آچکی ہے ۔ جوانوں کے اذہان پر اثراندازہونے کے لیے نئے نئے طریقے استعمال ہو رہے ہیں ، ان طریقوں اور روشوں کو پہچانئیے ، دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئیے جوانوں کے جذبات اور خیالات کو اہمیت دیجئیے ؛ اور جا ن لیجئیے کہ دشمن سب سے پہلے ہماری جوان نسل کو اپنا نشانہ بنائے ہوئے ہے ، چونکہ مستقبل کی ساری امّیدیں اسی نسل سے وابستہ ہیں ۔ اسی وجہ سے دشمن اسے نشانہ بنائے ہوئے ہے ۔ البتّہ ایک دوسرا حسّاس نقطہ علمائےدین ہیں ۔ یہ بھی مختلف انداز سے دشمن کے نشانے پر ہیں ، اس کی ایک مثال دشمن کا وہ دباؤ ہے جو آج بھی موجود ہے ، محترم جناب موسوی صاحب نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا کہ صوبہ کردستان کے علمائے دین نے انقلاب کی کامیابی کے آغاز پر کن مصائب و آلام کا سامنا کیا اور انقلاب کی راہ میں ستر شہیدوں کا نذرانہ پیش کیا ، کل ، ہم ان میں سے بعض شہیدوں کے مزاروں پر حاضر ہو ئے اور سورہ فاتحہ کی قرائت کا شرف حاصل کیا ، پروردگار عالم ان شہیدوں کے درجات میں بلندی عطا فرمائے ۔

پروردگارا! ہم نے جو بیان کیا ، جو سنا اس میں اخلاص عنایت فرما ، اپنے لطف و کرم کے طفیل میں اسے شرف قبولیت عطا فرما ۔ پروردگارا ! محمّد و آل محمّد کا واسطہ، پوری ایرانی قوم اور اس اجتماع میں موجود ہر فرد پر اپنی توفیقات ، اور فضل و کرم کی بارش نازل فرما ۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) حاضرین مجلس میں سے ایک شخص نے یہ اشعار پڑھے

انّ النبی ذریعتی

وھم الیہ وسیلتی

ارجوا بھم اعطی غدا

بید الیمین صحیفتی

( ۲ ) کھف ۱۰۳ ، ۱۰۴

( ۳ ) صوبے میں ولی فقیہ کے نمائیندے