ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظّم کا ۱۹ دی کی سالگرہ کے موقع پر قم کے عوام کے مختلف طبقات سے خطاب

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

۱۹ دی کو ہر سال پوری ایرانی قوم ، بالخصوص سرزمین قم کے صاحب بصیرت عوام ،عالمی سامراج کے سامنے ایک بولتے ہوئے تاریخی دن کے طور پر مناتے ہیں ۔ ان کا یہ اقدام اپنی جگہ بالکل صحیح ہے ۔ ۱۹ دی جیسا  تاریخی واقعہ ، حقیقت میں  ہمارے دشمنوں کے سامنے خود نمائی کے قابل ہے ۔

یہ واقعہ مختلف پہلوؤں سے قابل توجّہ اور غور وفکر کے لائق ہے ۔ اس واقعہ میں بصیرت بھی موجزن ہے ، اس میں  وقت شناسی ، دشمن شناسی ، ایثار و قربانی بھی جلوہ گر ہے ۔ یہ اس عظیم واقعہ کے مختلف پہلو ہیں جو آج سے ٹھیک بتیس برس قبل یعنی ۱۹ دی ۱۳۵۶ ہجری شمسی (مطابق ۹ جنوری ۱۹۷۸ عیسوی ) کو رونما ہوا تھا ۔ دوسری طرف یہی واقعہ ایرانی قوم میں ایک بہت بڑی تبدیلی ، ایک عظیم اور بامقصد تحریک کا نقطہ آغاز قرار پایا ۔ اس اعتبار سے یہ واقعہ ایک انتہائی اہم واقعہ ہے ۔ جس نے اس دن بھی اپنا اثر دکھایا اور آج آپ بھی اس واقعہ میں شہید ہونے والے علماء اور دوسرے شہیدوں کی یاد منا رہے ہیں وہ اپنی تاثیر دکھا رہا ہے ،ہمیں درس دے رہا ہے ؛ ہمیں بصیرت عطا کر رہا ہے ،اور ہمیں راستہ دکھا رہا ہے ۔

یوں تو سال کے سبھی ایام ،بذات خود ایک جیسے ہیں ، لیکن یہ انسان ہی ہیں  اور ان کا عزم و ارادہ ، ایثار و قربانی ہی ہے جس کی وجہ سے کوئی دن بقیہ ایام پر فوقیت اور ممتازمقام حاصل کر لیتا ہے بقیہ ایام سے جدا ہو جاتا ہے اور اسے ایک پرچم کے طور پر زندہ رکھتا ہے تاکہ دوسروں کے لئیے مشعل راہ قرار پائے ۔ عاشور (دس محرّم ) کا دن بذات خود دیگر ایام سے مختلف نہیں ہے ، یہ حسین بن علی (علیہما السّلام ) کی ذات گرامی ہے جو اس دن میں جان ڈال رہی ہے ، اسے مؤثر ومعنا خیز بنا رہی ہے اور اسے عرش معلّی ٰ تک اوپر لے جارہی ہے ؛ یہ امام حسین علیہ السّلام اور ان کے اصحاب باوفا کی قربانیاں ہی ہیں جو اس دن کی اہمیت کو دوبالا کر رہی ہیں ۔ ۱۹ دی کے دن بھی یہی خصوصیت نمایا ں ہے ، اس سال کے ۹ دی (تیس دسمبر )  کے دن میں بھی یہی خصوصیت موجزن ہے ۔ ورنہ ۹ دی اور ۱۰ دی میں کوئی فرق نہیں ہے لیکن عوام کی ایک ناگہانی تحریک کی وجہ سے یہ دن دیگر ایام پر فوقیت حاصل کر لیتا ہے ، اس تحریک کے اسباب و عوامل بھی وہی تھے جو ۱۹ دی کے واقعہ کے رونما ہونے کا باعث بنے۔ ۹ دی کی تحریک بھی ، بصیرت ، وقت شناسی، دشمن شناسی اور میدان عمل میں موجودگی کا نتیجہ ہے ۔

آپ اطمینان رکھئیے ! کہ اس سال کا ۹ دی  (۳۰ دسمبر ) کا دن ہمیشہ کے لئیے تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہو چکا ہے ۔ ایک اعتبا ر سے ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں ؛چونکہ ہمارے معاشرے کی فضا غبار آلود اور مکدّر تھی اس لیئے اس عوامی تحریک کی اہمیت دوچنداں ہو جاتی ہے؛یہ بہت بڑا کارنامہ تھا ؛ ہم اس پر جس قدر زیادہ غور و فکر کرتے ہیں ہمیں اس کے پیچھے خداوند متعال کا دست قدرت دکھائی دیتا ہے ۔ ہمیں اس کے مختلف پہلوؤں میں ولایت اور امام حسین علیہ السّلام کی روح جلوہ گر دکھائی دیتی ہے ۔ یہ ایسے کام نہیں ہیں  جو مجھ جیسوں کے بس میں ہوں ؛ یہ خدائی کام ہیں ، ان کی پشت پر پروردگار عالم کا دست قدرت ہے ۔ جیسا کہ میں نے بارہا نقل کیا ہے کہ امام امت (رہ) نے مجھ سے ایک انتہائی حسّاس موقع پر فرمایا : " میں نے اس پورے عرصے میں ان واقعات کے پیچھے ، پروردگار عالم کے دست قدرت کا مشاہدہ کیا ہے " ؛ اس الٰہی اور صاحب بصیرت مرد نے ٹھیک ہی دیکھا ۔

فتنہ کے دور میں حالات اور بھی مشکل ہوجاتے ہیں ؛ حق و باطل کی پہچان اور بھی دشوار ہو جاتی ہے ۔ البتّہ پروردگار عالم ہمیشہ ہی اتمام حجّت کرتا ہے اور اپنے بندوں کو یہ کہنے کا موقع نہیں دیتا : کہ تو نے ہم پر حجّت تمام نہیں کی ، ہمارے لئیے کسی راہنما کا انتظام نہیں کیا ، جس کی وجہ سے ہم گمراہ ہو گئے ۔قرآن مجید میں بار بار اس بات پر تاکید کی گئی ہے ۔ خداوند متعال کے دست ہدایت کو ہر جگہ دیکھا جا سکتا ہے ؛ البتہ اس کے لئیے آنکھوں کا کھلا ہونا ضروری ہے ، بند آنکھوں سے تو چودھویں کے چاند کو بھی نہیں دیکھا جاسکتا ، لیکن اس سے چاند پر کوئی حرف نہیں آتا وہ تو اپنی جگہ موجود ہے اور ضو افشانی کر رہا ہے ۔ ہمیں اپنی آنکھیں کھلی رکھنا چاہیے اور اس حقیقت کے ادراک کے لئیے جو پروردگار عالم نے ہمارے سامنے رکھی ہے ، اپنی پوری توانائی کو بروئے کار لانا ہو گا ۔

 سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم اس کے ادراک کی کوشش کریں ، یہ کاوش ہمارے اپنے نفع میں ہے ؛ خداوند متعال بھی اس راہ میں ہمارا ناصر و مدد گار ہوگا ۔ سنہ ۱۳۵۶ ھ ش کے ۱۹ دی کے واقعے میں بھی یہی مجاہدت اور کوشش کارفرما تھی ، اس سال ۹ دی (۳۰ دسمبر ) کو رونما ہونے والی اس عظیم عوامی تحریک میں بھی یہی عوامل کار فرما تھے ، ۹ دی کی ریلیوں میں دسیوں ملین افراد شریک تھے ۔ البتہ انقلاب اسلامی کی تاریخ میں ان جیسے واقعات کی تعداد کم نہیں ہے ۔ ان واقعات سے ہمیں راستے کا پتہ چلتا ہے ۔  

آپ ملا حظہ کیجئیے ! کہ جنگ صفین میں امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السّلام کا مقابلہ کفّار سے نہیں تھا بلکہ آپ کا مخالف محاذبھی بظاہر نمازی تھا ؛ تلاوت قرآن کر رہا تھا ، اسلامی ظواہر کا پاس و لحاظ کررہا تھا ؛ ایسے دشمن سے جنگ بہت سخت و دشوار تھی ۔ اس میدان میں کسے آگے بڑھ کر حقائق کو واضح کرنا چاہیے تھا ؟بعض افراد کے قدم حقیقی معنا میں ڈگمگا سکتے تھے ۔ ہم جب بھی جنگ صفین کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمارے جسم پر لرزہ طاری ہو جاتا ہے کہ امیرالمؤمنین علی علیہ السّلام نے کتنی جانفشانی سے اتنا عظیم لشکر تیار کیا اور معاویہ کا مقابلہ کرنے کے لئیے  اس کے ہمراہ سر زمین شام کی طرف روانہ ہوئے ؛ تو پھراس لشکر میں سے بعض افراد کے قدم کیوں ڈگمگا رہے تھے ؛یہ جنگ کئی مہینے تک جاری رہی ۔ امیرالؤمنین علی علیہ السّلام کو بارہا اس طرح کی خبریں موصول ہوا کرتی تھیں کی فلاں محاذپر کسی شخص کے دل میں جنگ کے بارے میں شک و شبہ پیدا ہوگیا ہے ، اور وہ اس جنگ پر اعتراض کررہا ہےکہ ہم کس لئیے لڑ رہے ہیں ؟ اس جنگ کا کیا فائدہ ہے ؟ اور نہ جانے کتنے ہی دوسرے اعتراض ۔۔۔ اس نازک گھڑی میں وہ اصحاب باوفا آگے بڑھتے تھے جو صدر اسلام سے امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السّلام کے ساتھ ساتھ تھے اور کبھی آپ سے جدا نہیں ہوئے ؛ انہیں میں سے ایک صحابی جناب عمار یاسر تھے جو حقائق کو واضح کرنے میں پیش پیش تھے ، ایک مقام پر عمار یاسر نے کتنے ہی خوبصورت انداز میں امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی حقانیت پر استدلا ل کیا ہے یہ استدلا ل آج بھی زندہ ہے اور ہم بھی اس سے استفادہ کر سکتے ہیں ، جب جناب عمار یاسر نے دیکھا کہ کچھ لوگ شک و شبہ کا شکار ہو رہے ہیں تو  فورا اپنے آپ کو ان تک پہنچایااور ایک مفصل تقریر کی ، اس تقریر میں آپ نے ان لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا : کہ آج جس پر چم کو آپ مد مقابل محاذ پر لہراتا دیکھ رہے ہیں  ؛ کل ہم نے اسی پرچم کو جنگ بدر و احد میں پیغمبر اسلام (ص)   کے مد مقابل لہراتا ہو ا دیکھا ہے ۔ یہ بنی امیہ کا پرچم ہے ۔اس دن بھی بنی امیہ کے پرچم کے نیچے یہی لوگ جمع تھے جو آج جمع ہیں ، یعنی معاویہ ، عمرو عاص اور بنی امیہ کے دیگر سرکردہ افراد اس دن اسی پر چم تلے ، پیغمبر اسلام (ص)کے مد مقابل صف آرا تھے ۔ عمار یاسر نے کہا : جن لوگوں کو آپ دیکھ رہے ہیں کہ وہ مد مقابل کے محاذ کے پرچم تلے جمع ہیں ، ایک دن میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ یہی لوگ ، پیغمبر اسلام(ص) کے مد مقابل صف آرا تھے ۔امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السّلام کے محاذ کی طرف جو پرچم لہرا رہا ہے یہ وہی  بنی ہاشم کا پرچم  ہے اس کے نیچے وہی افراد ( حضرت علی علیہ السّلام اور آپ کے اصحاب ) جمع ہیں جو جنگ بدر و احد میں پیغمبر اسلام (ص)کے ساتھ اس پرچم کے نیچے جمع تھے ۔ کیا اس سے بھی بڑھ کر کوئی علامت چاہیے ؟ آپ ملاحظہ کیجئیے کہ یہ کتنی اچھی علامت ہے ؛ دونوں محاذوں کا پرچم وہی جنگ احد کا پرچم ہے ، افراد بھی وہی ہیں ، فرق صرف اتنا ہے کہ اس دن جو لوگ پیغمبر اسلام (ص) کے مد مقابل تھے وہ کفر کے دعویدار اور معترف تھے اور اس پر نازاں تھے لیکن آج وہی افراد اسلام کا دعویٰ کر رہے ہیں ، قرآن اور پیغمبراسلام (ص) کی طرفداری کے مدّعی ہیں ؛ لیکن افراد، وہی افراد ہیں پرچم بھی وہی پرچم ہے ۔یہ حق کو پہچاننے کے لئیے کافی ہے ۔ ہم بار بار  جو" بصیرت ''  پر زور دے رہے ہیں اس کا مقصد یہی ہے۔

 انقلاب کے آغاز سے اس طویل عرصے میں'' امام اور انقلاب '' کے مخالف محاذ کے پرچم کے نیچے کون کھڑا ہے ؟اس دور میں ، امریکہ ، برطانیہ ، دیگرسامراجی طاقتیں ، تسلّط پسند استکباری نظام سے وابستہ قوّتیں  یہ سبھی اس پرچم کے نیچے جمع تھے ؛ آج بھی وہی صورتحال ہے ۔ آج بھی آپ ملاحظہ کیجئیے ! کہ ہمارے صدارتی الیکشن کے انعقاد کے پہلے سے ان سات ، آٹھ مہینوں میں امریکہ کہاں کھڑا ہے ؟ برطانیہ کہاں کھڑا ہے ؟ صیہونی خبر رساں ایجنسیاں کہاں کھڑی ہیں ؟ اندرون ملک ، دین مخالف دھڑے ، تودہ (کمیونسٹ ) پارٹی کے افراد ، سلطنت طلب لوگ  یا دیگر انواع و اقسام  کے بے دین کہاں کھڑے ہیں ؟ یہ وہی لوگ ہیں جو انقلاب کے آغاز سے امام اور انقلاب کے دشمن تھے ؛ اس دور میں پتھر برساتے تھے ، گولیاں چلاتے تھے ، دہشت گردی پھیلاتے تھے ۔ ابھی اسلامی انقلاب کی کامیابی (۲۲ بہمن ) کو تین دن بھی نہیں گزرے تھے کہ یہی لوگ ، انہیں ناموں کے ساتھ ، ایران نامی سڑک پر امام (رہ)کی رہائشگاہ کی سامنے جمع ہو گئے تھے اور نعرے بازی کر رہے تھے ۔ وہی لوگ آج بھی سڑکوں پر نکلتے ہیں اور اسلامی انقلاب اور اس نظام کے خلاف نعرے لگاتے ہیں ! کچھ نہیں بدلا ہے ۔ اس دن بھی انہیں بائیں محاذ کے نام سے جانا جاتا تھا اور امریکہ ان کی پشت پر تھا  ، ان پر  آزادی طلب ، کمیونسٹ اور لیبرل جیسے عنوانوں کا لیبل چسپاں تھا اور ان کے پیچھے تمام رجعت پسند قوّتیں ، دنیا کی تمام چھوٹی بڑی استبدادی اور استعماری طاقتیں ان کے پیچھے تھیں! آج بھی یہی صورتحال ہے ۔ یہ ایک علامت ہے ، یہ ایک معیار ہے ؛ سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہماری قوم ان معیاروں کو پہچانتی ہے ؛ یہ وہ چیز ہے کہ جس کے لئیے اگر ہم سیکڑوں بار بھی پروردگار عالم کا شکر بجا لائیں تو بھی حق ادا نہیں ہو سکتا ؛ ہمیں سجدہ شکر بجا لانا چاہیے ۔

   پورے ملک میں  ہماری عظیم قوم کے ہر طبقے کے لوگ  حالات پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور حالات کی نزاکت کو اچھی طرح سمجھتے ہیں ؛ یہ بہت بڑی چیز ہے ۔ یہ جو میں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ ۹ دی ( تیس دسمبر ) کا دن دامن تاریخ میں ہمیشہ کے لئیے محفوظ ہو چکا ہے اس کی وجہ یہی ہے ۔ہمارے عوام بیدار ہیں ؛ یہی وہ چیز ہے جس نے آج تک اس ملک کی حفاظت کی ہے ۔ میرے عزیزو! یہی وہ چیز ہے جس نے آپ کے انقلاب کی پاسبانی کی ہے ؛ یہی وہ چیز ہے جس نے سامراجی آقاؤں سے ایران پر حملہ کرنے کی جرات سلب کر رکھی ہے ؛ وہ ایران سے خائف و ہراساں ہیں ، ممکن ہے اپنے سیاسی پروپیگنڈوں میں ، زید ، عمرو ،بکر کا نام آگے لائیں اوراس پر تشہیراتی بمباری کریں ؛ لیکن حقیقت کچھ اور ہی ہے ۔ ایرانی قوم ، ان کی حقیقی دشمن ہے ۔ ایرانی قوم کی بصیرت اور ایمان ان کا حقیقی دشمن ہے ؛ ان کا واقعی دشمن ہمارے جوانوں میں پائی جانے والی دینی غیرت ہےجو ان میں موجزن ہے ۔ کبھی کبھی یہ جوان ، خون جگر پی کرصبر سے کام لیتے ہیں اور انہیں صبر کرنا بھی چاہیے لیکن جہاں کہیں بھی ان کی ضرورت ہوتی ہے وہ میدان میں کود پڑتے ہیں ۔

ہمارے ملک میں رونما ہونے والے واقعات کا تجزیہ و تحلیل ، عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات سے جدا نہیں ہے ۔ عالمی سطح اور اس خطے میں رونما ہونے والے واقعات ایک ہی سلسلے کی کڑی ہیں ، ان میں سے کچھ واقعات ہمارے ملک سے مربوط ہیں جو اس سلسلے کی اصلی اور بنیادی کڑی شمار ہوتے ہیں؛ اس کی وجہ بھی واضح ہے، عالمی سامراج ، اسلامی جمہوریہ ایران کو اپنے اہداف و مقاصد کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ شمار کرتا ہے ؛ اس سے  یہ بات ظاہر ہو جاتی ہے کہ کوئی قوم ، انسانوں کا ایک مجموعہ کس قدر عظیم  کردار ادا کر سکتا ہے ؟  اسی حقیقت کے پیش نظر ، امام امت(رہ) ہمیشہ ہی امت مسلمہ کو اپنا مخاطب قرار دیتے تھے ۔جب کوئی قوم بیدار ہو جائے تو وہ سامراج کے تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیتی ہے ۔ وہ اس کارخانے کی اینٹ سے اینٹ بجا دیتی ہے جسے سامراج نے اپنے استعماری مقاصد کے لئیے تعمیر کیا ہو ۔ جب ایک قوم یہ کارنامہ انجام دے سکتی ہے تو آپ تصور کیجئیے کہ اگرتمام مسلمان قومیں میدان میں آجائیں تو کیا ہوگا !اگر تمام مسلمان قومیں ، اسی بصیرت ، اسی آمادگی اورموجودگی کا مظاہرہ کریں تو دنیا میں کتنا بڑا واقعہ رونما ہو سکتا ہے !وہ اس سے ہراسا ں ہیں ، وہ میری اور آپ کی آواز کو دبانا چاہتے ہیں تاکہ وہ دیگر اقوام عالم کے کانوں تک نہ پہنچ سکے ؛ وہ کوئی ایسا کام کرنا چاہتے ہیں جس کے ذریعہ عالمی واقعات پر کسی قوم کی بصیرت اور بیداری کی تاثیر کو دیگر قوموں تک پہنچنے سے روک سکیں ۔

میں اپنے عزیز انقلابی جوانوں، اپنی قوم ، اپنے عزیز بسیجیوں ( رضا کار فورس ) کے مرد و زن سے مخاطب ہوتے ہوئے ایک نکتے کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں ہمارے ملک کے جوان جب اغیار کے ہاتھوں دینی مقدسات کی توہین کے بارے میں سنتے ہیں یا یہ مناظر دیکھتے ہیں تو ان میں غیظ و غضب کی لہر دوڑ جاتی ہے ، جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ عاشور کے دن کس طریقے سے کچھ افراد نے عاشور کی حرمت کو پامال کیا ؛ امام حسین علیہ السّلام کی شان میں جسارت کی ، عزاداران حسینی کو نشانہ بنایا تو ان کے دل میں درد اٹھتا ہے ، ان کا سینہ غصّے سے لبریز ہوجا تا ہے ؛ البتہ یہ ایک قدرتی امر ہے اور انہیں اس کا حق بھی ہے ؛ لیکن میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اے عزیز جوانو!آپ خبردار رہیں ، ہوشیار رہیں اور بلا سوچے سمجھے کو ئی قدم نہ اٹھائیں ، اس سے دشمن کو مدد ملتی ہے ۔ ہمارے پاس جوانوں کے ٹیلیفون اور خطوط کا تانتا لگا ہوا ہے ، ان کے خلاصے سے مجھے آگاہ کیا جاتا ہے ، ان فونوں اور خطوط میں ہمارے جوان مسلسل گلے ، شکوے اور غصّے کا اظہار کر رہے ہیں ۔ کبھی کبھی مجھ سے شکوہ کرتے ہیں کہ آپ صبر کیوں کر رہے ہیں ؟ آپ پاس و لحاظ کیوں کر رہے ہیں ؟ میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان حالات و شرائط میں جب دشمن اپنے پورے وجود اور تمام وسائل کے ساتھ ایک فتنے کی منصوبہ سازی میں مشغول ہے اور ایک خطرناک کھیل کھیلنا چاہتا ہے، ہم سبھی کو ہوشیار رہنا چاہیے اور اپنے کسی اقدام سے اس کی مدد نہیں کرنا چاہیے ۔ہمیں انتہائی احتیاط و تدبیر سے کام لینا چاہیے ، البتہ وقت پڑنے پر پوری سختی سے نمٹنا چاہیے۔اس سلسلے میں ذمہ دار ادارے موجود ہیں ، قانون بھی موجود ہے ، ان افراد سے قانون کے مطابق سختی سے نمٹا جائے اور اس سلسلے میں قانون کو من و عن نافذ کیا جائے ۔ لیکن جن افراد کے پاس کوئی قانونی منصب نہیں ہے اور انہیں کوئی قانونی حیثیت حاصل نہیں ہے ، ان مسائل میں ان کی مداخلت سے بات بگڑ سکتی ہے ۔ پروردگار عالم نے ہمیں حکم دیا ہے " ولا یجرمنّکم شنان قوم علی ان لا تعدلوا اعدلواھو اقرب للتقویٰ "۔ (۱) ہاں یہ بات مسلّم ہے کہ کچھ لوگ دشمنی کر رہے ہیں ، کچھ لوگ خباثت کا مظاہرہ کر رہے ہیں ، اور کچھ لوگ ان خبیثوں کی پشت پناہی کر رہے ہیں ۔ یہ باتیں اپنی جگہ مسلّم ، لیکن ہمیں ہوشیار رہنا چاہیے کہ اگر ہم بغیر سوچے سمجھے بعض مسائل میں مداخلت کریں گے تو کچھ ایسے بے گناہ افراد بھی ہمارے غیظ و غضب کا نشانہ بن سکتے ہیں جن کا ان خبیثوں سے کو ئی تعلّق نہیں بلکہ وہ ان سے بیزار ہیں ، یہ چیز ہرگز واقع نہیں ہونی چاہیے ۔ میں اپنے عزیز انقلابی جوانوں کو خبر دار کر رہا ہوں کہ ان سےمن مانی کی بنیاد پر کوئی حرکت سرزد نہ ہو ، ہر چیز کو قانونی طور پر انجام پانے دیں ۔

ملک کے حکام بیدار ہیں ، وہ دیکھ رہے ہیں کہ ملکی عوام نے کس راستے کا انتخاب کیا ہے ، حکام پر حجت تمام ہو چکی ہے ، ۹ دی (۳۰ دسمبر ) بروز بدھ منعقد ہونے والی ریلیوں نے سبھی کے لئیے حجت تمام کر دی ہے ، حکومت، پارلیمنٹ ، عدلیہ اور دیگر حکام بخوبی جانتے ہیں کہ عوام میدان میں ہیں اور ان کے مطالبات کیا ہیں ۔ مختلف اداروں کو اپنے فرائض منصبی ادا کرنا چاہیے ؛ انہیں ان بلوائیوں ، مفسدوں ،انقلاب اور امن امان کے دشمنوں کے مقابلے میں اپنی ذمہ داریوں کو نبھانا چاہیے ۔اسی طرح انہیں ملک کو چلانے کے سلسلے میں بھی اپنے فرائض پر توجّہ دینی چاہیے ۔ ملک کے مسائل محض ان آشوب بپا کرنے والے افراد تک محدود نہیں ہیں ؛ ملک کے   سامنے اقتصادی ، سیاسی ، بین الاقوامی ؛علمی اور دیگر مسائل بھی ہیں ۔ انہیں ان مسائل پر توجّہ مرکوز کرنا چاہیے ، انہیں ملک کو چلانا ہے ، اسے آگے بڑھانا ہے، دشمن یہ چاہتا ہے کہ ان واقعات کے ذریعہ ملک کی ترقّی کے پہیے جام ہوجائیں ؛ ہمیں دشمن کی مدد نہیں کرنا چاہیے ۔ دشمن ، ان واقعات کے ذریعہ ، ہمارے اقتصاد کو مفلوج بنانا چاہتا ہے ، وہ ان واقعات کے ذریعہ ، ہماری علمی پیشرفت پر روک لگانا چاہتا ہے ، الحمدللہ ہماری علمی تحریک  ، روز بروز  ترقّی کی طرف گامزن ہے ۔ ہمارا دشمن ان واقعات کے ذریعہ عالمی مسائل پر ایران کے اقتدار و نفوذ کونقصان پہنچانا چاہتا ہے ، الحمد للہ عصر حاضر میں عالمی مسائل پر اسلامی جمہوریہ ایران کا نفوذ ، ماضی کے مقابلے میں بہت نمایاں ہے ۔ ان مسائل میں بے وجہ الجھ کر ہمیں دشمنوں کی مدد نہیں کرنی چاہیے ۔ لہٰذا ملکی حکام ، اقتصادی ، علمی ، سیاسی ؛ اجتماعی اور دیگر شعبوں میں اپنی ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے انجام دیں ، اس سلسلے میں حکومت اور ملکی حکام کا ہر ممکن تعاون بھی جاری رہنا چاہیے ۔ عوام نے بھی اپنی بھر پور حمایت کا اظہار کیا ہے ۔

 کسی بھی نظام  کا سب سے بڑا سرمایہ یہی ہے کہ اسے اپنے عوام کی پشت پناہی حاصل ہو ۔ ہمارے دشمنوں نے ان ریلیوں سے عالمی رائے عامہ کی توجّہ ہٹانے کے لئیے یہ پروپیگنڈہ کیا کہ یہ حکومت کے حامیوں کی ریلیاں تھیں ! ان احمقوں کو نہیں معلوم کہ وہ اس کے ذریعہ ، ایرانی حکومت کی تعریف و تمجید کر رہے ہیں ۔ یہ کون سی حکومت ہے جس نے دو دن (اتوار کو عاشور کی حرمت پامال ہوئی اور بدھ کو یہ ریلیاں نکالی گئیں ) کے اندر اتنی شاندار اور عظیم ریلیوں کا اہتمام کیا ؟ آ ج کس دوسرے ملک یا حکومت میں یہ قدرت و طاقت پائی جاتی ہے ؟ دنیا کی سب سے طاقتور اور امیر ترین حکومتیں ( جو جاسوس پروری ، تخریب کاری اور دہشت گردی پھیلانے کے لئیے بے تحاشا پیسہ بہا رہی ہیں ) اگر اپنی پوری طاقت بھی صرف کریں تو اپنے ملک ، اپنے شہر میں ایک لاکھ کا مجمع اکٹھا نہیں کر سکتیں ۔ آپ نے ملاحظہ کیا کہ ان ریلیوں میں دسیوں ملین افراد نے شرکت کی ! اگر یہ لوگ حکومت کے کہنے پر جمع ہوئے تھے تو یہ حکومت ایک بہت ہی مقتدر حکومت ہے ؛ ایک بہت  مضبوط حکومت ہے جو اس طریقے سے رضاکار افراد کی اتنی بڑی تعداد  کو سڑکوں پر لا سکتی ہے ۔لیکن حقیقت کچھ اور ہی ہے ۔ حقیقت یہ ہے ہمارے ملک میں عوام اور حکام کوئی معنا نہیں رکھتے ؛ دونوں ایک ہی ہیں ، ملک کے عہدیدار ، میں اور دیگر حکام ، ہم میں سے ہر کوئی  اس قوم کے عظیم سمند ر کا ایک معمولی قطرہ شمار ہوتا ہے ۔

خدا کی رحمت ہو ہمارے امام امت (رہ) پر جنہوں نے اس عظیم تحریک کی بنیاد رکھی ۔ خدا کی رحمت ہو ہمارے شہیدوں پر ،جو اس تحریک کے سبقت کرنے والوں میں شمار ہوتے ہیں '' و السّابقون السّابقون. اولئك المقرّبون '' ؛(۲) یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے ہمارے لئیے اس راستے کو کھولا ، اور اسے ہمارے لئیے ہموار کیا ۔ آپ عزیز عوام اور عزیز جوانوں پر خدا کی رحمت ہو جو ہمیشہ اپنی بصیرت اور آمادگی کے ذریعہ دشمن کو اپنے ملک ، انقلاب اور نظام میں مداخلت اور رخنہ اندازی سے مایوس کرتے ہیں ۔ پروردگار عالم آپ کا حافظ و ناصر ہے ۔

                        والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔……………………………۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 (۱)سورہ مائدہ : آیت ۸ (۔۔۔خبردار کسی قوم کی عداوت تمہیں اس بات پر آمادہ نہ کر دے کہ انصاف کو ترک کردو ۔ انصاف کرو کہ یہی تقویٰ سے قریب تر ہے ۔۔۔)

(۲) سورہ واقعہ : آیت ۱۰ ، ۱۱ ( اور سبقت کرنے والے تو سبقت کرنے والے ہی ہیں ، وہی اللہ کی بارگاہ کےمقرب ہیں )