ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم سےغزہ سمینار کی افتتاحی تقریب کے شرکاء کی ملاقات

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

میں آپ تما م عزیز مہمانوں ، قابل احترام بھائیوں اور اپنی محترمہ خواہر کو خوش آمدید کہتا ہوں ۔اور پروردگار عالم کی بارگاہ میں انتہائی تضرّع  کے ساتھ  دست بدعا ہوں کہ وہ ہمیں اس راستے اور اس  عظیم مشن کو جاری رکھنے کی توفیق عنایت فرمائے ۔ ہم ان عزیز بھائیوں کے بھی شکر گزار ہیں جنہوں نے تہران میں اس سمینار کو منعقد کیا ہے ۔ انشاء اللہ ہمارے دوستوں کا یہ اجتماع ، آگے کی سمت ایک قدم قرار پائے گا ۔

 میں سب سےپہلے یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ ملت فلسطین اور غزہ  کے عوام کا شایان شان شکریہ ادا کروں ۔ آپ نے گزشتہ برسوں میں مزاحمت میں پیشرفت اور فلسطینی مؤقف میں استحکام پیدا کیا ہے، اگر سرزمین فلسطین کی عظیم قوم کی استقامت اور ثابت قدمی نہ ہوتی تو یہ استحکام اور مزاحمت امکان پذیر نہ ہو پاتی ۔ حق و انصاف یہ ہے کہ فلسطینی عوام اور غزہ کے لوگوں نے اپنی اس مزاحمت اور استقامت کے ذریعہ ، اپنے آپ کو دنیا کی سب سے زیادہ مستحکم و ثابت قدم قوم کے عنوان سے تاریخ کے صفحات میں ہمیشہ کے لئیے محفوظ کر دیا ہے ۔

ان چند برسوں میں جب سے فلسطین کی تحریک آزادی کی نئی اور حقیقی لہر وجود میں آئی ہے  ، ملت فلسطین پر جو کچھ بیتا ہے وہ ایک انوکھا اور عجیب  واقعہ ہے ۔یہ الٰہی ہدایت اور حمایت کا ثمرہ ہے جس کی وجہ سے ہم مشاہدہ کررہے ہیں کہ بائیس روزہ جنگ کے دوران اور اس کے بعد سے غزہ کے عوام ،  مسلسل  مصائب و آلام ، محاصرے اور طرح طرح کی مشکلات کو برداشت کر رہے ہیں لیکن ایک مضبوط پہاڑ کی طرح سینہ تانے کھڑے ہیں ، یہ ایک عظیم حقیقت ہے ، اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔

میں آپ سے  یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے عوام میں اس جذبہ استقامت و مزاحمت میں جس قدر اضافہ کر سکتے ہیں کریں ۔ آپ نے یہاں اس بات کا اعادہ کیا اور بجا فرمایا : کہ مسئلہ فلسطین کا واحد راہ حل ، " مزاحمت اور استقامت"  ہے  ۔ یہ بات اپنی جگہ مسلّم ہے لیکن یہ مزاحمت اور استقامت ، عوام کے جذبہ ایثار و شہادت ، ان میں امید کی بقا ، اور میدان عمل میں ان کی موجودگی پر منحصر ہے ۔ میری نظر میں یہ ایک بہت بڑا کام ہے جو فلسطینی اداروں اور  جہادی تنظیموں کو انجام دینا چاہیے ۔ دورحاضر میں ، غزہ کے عوام کو اس غرض سے  دو طرفہ دباؤ ( صیہونی حکومت اور کچھ اندرونی عناصر ) کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تاکہ ان کے اندر سے جذبہ مزاحمت اور استقامت کو ختم کیا جاسکے ۔ مغربی کنارے کی جانب سے فلسطینی عوام پر دباؤ ، نئی یہودی بستیوں اور کالونیوں کی تعمیر ، دیوار کی تعمیر اور ان جیسی دیگر عجیب و غریب سختیوں کا  مقصد یہ ہے کہ ان اقدامات کے ذریعہ فلسطینی عوام کو مزاحمت اور تحریک آزادی سے دستبردارہونے اور اسرائیل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جاسکے ۔ ہمیں کسی بھی قیمت پر ایسا نہیں ہونے دینا چاہیے ۔ ہمیں فلسطینی عوام اور غزہ کے ثابت قدم اور آہنی لوگوں میں ، امید کی کرن کو روشن رکھنا ہوگا تاکہ انہیں اس بات کا یقین ہوجائے کہ ان کی یہ عظیم تحریک ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لائے گی ۔ یہ وہ نکتہ ہے جو میری نظر میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے ۔

ایک دوسرا نکتہ یہ ہے کہ عصر حاضر میں ہم مسئلہ فلسطین میں جو پیشرفت مشاہدہ کر رہے ہیں (اس پیشرفت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا )  ،  اور محاذ کفر و استکبار کے مقابلے میں ، حق و مزاحمت کے محاذ کے روز افزوں اقتدار کا مشاہدہ کر رہے ہیں جو روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔ یہ اقتدار اور پیشرفت ، خدا پر ایمان و توکّل ، اور اس معرکہ آرائی میں معنوی عنصر کا مرہون منّت ہے ۔ اگر اس معرکہ آرائی میں ، عنصر ایمان نہ پایا جاتا ہو تو اسے نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ ہمیں اس محاذ پر اسی صورت میں کامیابی حاصل ہو سکتی ہے جب اس پیکار میں ، خداپر ایمان اور بھروسے کا عنصر شامل ہو۔ عوام میں دینی جذبے  ، پروردگار عالم کے وعدوں پر حقیقی ایمان ، خداوند متعال پر اعتماد اور توکّل کے جذبہ کی تقویت کیجئیے ؛ لوگوں میں پروردگار عالم اور اس کے  وعدوں پر نیک گمان  (حسن ظن ) کی تقویت کیجئیے ۔ ہمیں خود  بھی پروردگار عالم کے بارے میں نیک گمان ( حسن ظن ) رکھنا چاہیے ۔ خداوند متعال ،'' اصدق القائلین '' ( سب سے سچا)  ہے ؛ اس کا ارشاد گرامی ہے " لینصرنّ اللہ من ینصرہ "؛ (۱) ( اللہ اپنے مدد گاروں کی یقینا مدد کرے گا ) ، وہ ہم سے کہہ رہا ہے : " من کان للہ کان اللہ لہ " ؛ جو راہ خدا میں قدم اٹھائے گا خدا بھی اس کی مدد کرے گا ۔ خد اوند متعال ہم سے کہہ رہا ہے کہ دشمن سے خائف و ہراساں نہ ہو چونکہ " انّ کید الشّیطان کان ضعیفا "۔ (۲) بیشک شیطان کا مکر بہت کمزور ہے ۔ پروردگار عالم ہمیں اس بات کی تلقین کررہا ہے اور مختلف انداز سے بیان کر رہا ہے ۔ خداوند متعال سچا ہے ۔ اگر ہم اس راہ میں  اپنے فریضے پر صحیح طور پر عمل کریں، مرضی پروردگار عالم کو مد نظر رکھیں ، اس کی خوشنودی کی خاطر پیکار کریں ، رضائے الٰہی کو اپنا ہدف قرار دیں تو یقنیا ہمیں کامیابی نصیب ہو گی ۔

میں آپ سے عرض کرتا چلوں : کہ ملت ایران نے اسلامی جمہوریہ کے قیام کے ذریعہ جو کامیابی حاصل کی ہے ، اس کے مقابلے میں  فلسطینی قوم  کے لئیے اپنے غصب شدہ حق کو دوبارہ حاصل کرناکوئی  زیا دہ مشکل کام نہیں ہے ۔ ملت ایران نے ایک ایسے دور میں اس ملک سے استبدادی اور طاغوتی حکومت کو ختم کیا کہ جب  کوئی شخص اس دور کے عالمی  اورعلاقائی حالات  کے تناظر میں اس پر نگاہ ڈالتا  تو اسے یہ بات حتمی طور پر  محال و ناممکن معلوم ہوتی کہ ایران کی طاغوتی حکومت کا تختہ الٹ سکتا ہے ، اور یہ حکومت ایک اسلامی نظام حکومت میں تبدیل ہو سکتی ہے ۔یہ چیز اس دور میں محال لگتی تھی اور ظاہری اسباب و عوامل کے اعتبار سے بھی یہ چیز غیر ممکن تھی ؛ چونکہ جہاں  ایک طرف شاہ ایران کی حکومت اس  خطے میں امریکہ کے اقتدار کی مظہر تھی اور اسے بلا قید و شرط ، امریکہ کی حمایت حاصل تھی ۔ وہیں دوسری طرف اس حکومت کے مخالفین کے پاس کچھ بھی نہیں تھا ، یعنی آج غزہ یا مغربی کنارے  کے عوام  کے پاس جو وسائل موجود ہیں ، اس دور کی معرکہ آرائی میں ہمارے پاس ان کے مقابلے میں بھی بہت محدود وسائل تھے ۔ لیکن اس کے باوجود یہ واقعہ رونما ہوا ، اور یہ امر محال ، عوام کی مسلسل جد و جہد ، خداوند متعال پر مکمل بھروسے اور امام امت (رح ) کی حکیمانہ اور فیصلہ کن    قیادت کی بدولت  امکان پذیر ہوا ؛ میری رائے یہ ہے کہ فلسطین کے بارے میں بھی یہی واقعہ رونما ہو سکتا ہے ۔ بعض لوگ جب عالمی سطح پر امریکہ کے نفوذ اور اس کی طاقت پر نظر دوڑاتے ہیں ، مغربی دنیا کی صہیونیوں کی پشت پناہی کو دیکھتے ہیں ، امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک پر صہیونیوں کے اقتصادی تسلّط پر نگا ہ ڈالتے ہیں ، ان کی پروپیگنڈہ مشینری پر نظر دوڑاتے ہیں تو انہیں لگتا ہے کہ  غاصب صہیونیوں کے قبضے سے سر زمین فلسطین کو آزاد کرانا محال ہے ۔ میرا نظریہ یہ  ہے کہ ایسا ہرگز نہیں ہے ، یہ بظاہر ناممکن لگنے والا امر، استقامت اور پائداری کی وجہ سے  ایک نہ ایک دن ممکن ہو جائے گا۔ ارشاد ربّ العزّت ہے :  " فلذٰلک فادع و استقم کما امرت " ۔ (۳)  ( لہٰذا آپ اس کے لئیے دعوت دیں اور اس طرح استقامت سے کام لیں جس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے ) استقامت ،  ثابت قدمی اور اس راستے کو جاری رکھنا  بہت ضروری ہے ۔ اس راہ کو جاری رکھنے کا ایک تمہیدی قدم آپ کے  یہی سمینار ہیں ، آپ کے درمیان پائی جانے والی ہم آہنگی ہے ، آپ کی عالمی تشہیراتی مہم ہے ؛ یہی باتیں  اور تجاویز ہیں  جو آپ نے یہاں پیش کیں ۔ یہ سبھی تجاویز صحیح ہیں ، اور ان پر عمل درآمد ضروری ہے ۔ ملت فلسطین کےدشمنوں نے عالمی رائے عامہ کو گمراہ و مسموم کر رکھا ہے ۔

آ ج امریکہ اور مغربی حکومتیں ، مسئلہ فلسطین اور بہت سے دیگر عالمی مسائل کے بارے میں کھلے عام جھوٹ بول رہی ہیں ؛ ببانگ دہل جھوٹ بول رہی ہیں ۔وہ  غزہ کی بائیس روزہ جنگ کے عظیم انسانی سانحے کو دنیا کے سامنے غلط انداز میں پیش کر رہی ہیں ۔ میں یہاں پر اس بات کی یاد دہانی کرنا چاہتا ہوں کہ ہمیں اس مسئلہ پر بھی خصوصی توجّہ دینی چاہیے ۔عصر حاضر میں غزہ اور فلسطین کی سرزمین مغربی دنیا کے لئے ذلت و رسوائی کے میدان میں تبدیل چکی ہے ۔ مغربی دنیا نےاپنے انسانی حقوق کی پاسداری  کے نعرے کے باوجود انسانی حقو ق کی سنگین خلاف ورزیوں اوراس انسانی سانحے کو نظر انداز کر دیا ۔ گزشتہ برس ، اہل مغرب نے غزہ کے مظلوم عوام کے حق میں اور  ان کے دفاع میں ایک بات تک اپنے منہ سے نہیں نکالی ۔ یکے بعد دیگرے ، دن بڑی تیزی کے ساتھ گزر رہے تھے اور ہم بھی اس انتظار میں کان لگائے بیٹھے تھے کہ دیکھیں ، یورپ ، امریکہ اور انسانی حقوق اور آزادی کا دم بھرنے والے دیگر عالمی اداروں کی جانب سے غزہ کے مظلوم عوام کے  حق میں کوئی بیان جاری ہوتا ہے یا نہیں ؟ کوئی بیان سامنے نہیں آیا ۔ لیکن جب عالمی سطح پر عوامی اعتراضات کا سلسلہ شروع ہوا ، مختلف ممالک کے عوام نے فلسطینی عوام کی حمایت میں مظاہرے کئیے ، بیان جاری کئیے ۔ تو ان مغربی ممالک اور عالمی اداروں کی رسوائی میں مزید اضافہ ہوگیا اور ان کی قلعی کھل گئی ۔ مزید رسوائی کے خوف سے ان ممالک اور اداروں نے زبانی جمع خرچی شروع کر دی ، صرف باتوں پر اکتفا کیا ! مغربی دنیا نے اس عظیم  انسانی المیے کے مقابلے میں جو سب کی آنکھوں کے سامنے انجام پا رہا تھا ،  غزہ کے مظلوم عوام کی ذرّہ برابر حمایت نہیں کی ؛ آج بھی مغربی دنیا اپنے اسی مؤقف پر قائم ہے ۔ اقوام متحدہ نے بھی اپنے آپ کو ذلت و رسوائی سے دوچار کیا ۔ امریکہ جو کہ اس واقعہ سے پہلے بھی ذلیل و رسوا تھا وہ اس واقعہ کے بعد مزید ذلیل و رسوا ہو گیا ۔ اب جب کہ گولڈ اسٹون کمیٹی کی رپورٹ منظر عام پر آچکی ہے اور سبھی اس سے آگاہ ہیں ۔ صہیونی حکومت کے جرائم پیشہ اور مجرم حکام کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے اور ان پر مقدمہ چلا کر انہیں ان کے کیفر کردار تک پہنچانا چاہیے ؛ لیکن اس کی دور دور تک کوئی خبر نہیں ، اس سلسلے میں کوئی بھی اقدام نہیں کیا جارہا ہے ؛ بلکہ اس غاصب اور جعلی حکومت کی حمایت میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ! اس واقعہ نے مغربی حکومتوں کی رسوائی کا سامان فراہم کر دیا ہے ۔ امریکہ نے اس نئی حکومت اور نئے صدر کے بر سر اقتدار آنے کے بعداس بات کا دعویٰ کیا کہ وہ اپنے رویّے میں تبدیلی لانا چاہتا ہے۔ امریکہ نے تبدیلی کا نعرہ اس لئیے لگایا تاکہ وہ اس اسلامی خطے میں امریکہ کی بدنامی اور رسوائی کو کسی حد تک کم کر سکے ، لیکن وہ اپنے اس مقصد میں کامیاب نہیں ہوا اور وہ  یہ جان لے کہ اسے کبھی بھی اس مقصد میں کامیابی نہیں ملے گی ۔  چونکہ وہ جھوٹ سے کام لے رہا ہے ؛ وہ عوام سے کھلے عام جھوٹ بول رہا ہے ۔ وہ بہت سے مسائل کے بارے میں کذب ودروغ سے کام لے رہا ہے ۔ ہم چونکہ اسلامی جمہوریہ کے زیر سایہ زندگی بسر کر رہے ہیں لگاتار ان کی غلط بیانی کو سن رہے ہیں اور اس کا مشاہدہ کر رہے ہیں ۔ ہم گزشتہ تیس برس سے مسلسل اس بات کا مشاہدہ کر رہے ہیں کہ امریکہ اور مغربی حکومتیں ، حقائق کو توڑمروڑ کر پیش کرتی ہیں ، ہمیں تو اس بات کی عادت ہو چکی ہے ؛ لیکن ، دنیا اس کے بارے میں فیصلہ کرے گی ، تاریخ اس کا فیصلہ کرے گی ۔ آج مسئلہ فلسطین ،مغربی تمدّن  کے لئیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے ۔ آج مغرب کی لیبرل ڈیموکریسی پرسوالیہ نشان لگ گیا ہے ۔آپ نے سرزمین فلسطین میں اپنی مزاحمت کے ذریعہ ، مغربی دنیا کے چند سو سالہ دعوے کی قلعی کھول دی ہے جس کے ذریعہ وہ  پوری دنیا پرچودھراہٹ کر رہی تھی ، آپ نے اس کے اس کھوکھلے دعوے کو باطل کر دیا ۔ یہ مزاحمت اوراستقامت جو آپ انجام دے رہے ہیں وہ  اس قدر اہم اور عظیم ہے ۔

مسئلہ فلسطین ، زمین کے ایک ٹکڑے کا مسئلہ نہیں ہے ؛ مسئلہ فلسطین محض ایک جغرافیائی مسئلہ نہیں ہے ، بلکہ عالم انسانیت و بشریت کا مسئلہ ہے ۔ آج مسئلہ فلسطین ، انسانی حقوق اور آزادی کے سچے اور جھوٹے طرفداروں کی حقیقی پہچان کی کسوٹی بن گیا ہے ۔ یہ اس درجہ اہمیت کا حامل مسئلہ ہے ۔ بلا شبہ امریکہ کو بھی اس مسئلہ سے نقصان پہنچے گا ۔ تاریخی اعتبار سے یہ دس ، بیس یا تیس سال کا عرصہ کوئی معنا نہیں رکھتا ، چشم زدن میں گزر جائے گا ، امریکہ کی تاریخ اور اس کا مستقبل یقینا اس روّیے کاجوابدہ ہوگا جو انہوں نے گزشتہ پچاس ، ساٹھ سالہ دور میں مسئلہ فلسطین کے بارے میں روا رکھا ہے ۔ مسئلہ فلسطین ، آنے والی صدیوں میں امریکہ کی بدنامی اور رسوائی کا موجب بنے گا ۔ اس میں کوئی شک و شبہ نہ رکھیے کہ سرزمین فلسطین ایک دن ضرور آزاد ہوگی ۔ سرزمین فلسطین میں یقینا آزادی کا سورج طلوع ہوگا اور یہ سرزمین ، فلسطینی عوام کی آغوش میں واپس آئے گی اور وہاں فلسطینی حکومت قائم ہوگی ؛ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجایش نہیں ہے ؛ لیکن امریکہ اور مغربی دنیا کے دامن پر یہ بدنما  داغ ہمیشہ کے لئیے باقی رہ جائے گا۔ یہ رہتی دنیا تک بدنام رہیں گے ۔اس میں کوئی شک نہیں کہ خداوند متعال کی جانب سے رقم کردہ تقدیر کے مطابق نئے مشرق وسطیٰ کا قیام عمل میں آئے گا ۔یہ مشرق وسطیٰ ، اسلامی مشرق وسطیٰ ہو گا ؛ جیسا کہ مسئلہ فلسطین ایک اسلامی مسئلہ ہے ۔ تمام اقوام عالم ، دنیا کی تمام حکومتیں (مسلم و غیر مسلم ) مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں ذمہ دار ہیں ، ہر وہ حکومت جو انسانیت کی طرفداری کا دعویٰ کرتی ہے وہ مسئلہ فلسطین کے بارے میں جوابدہ ہے ، البتّہ عالم اسلام پر اس کے بارے میں زیادہ سنگین ذمّہ داری عائد ہوتی ہے ۔ یہ اسلامی حکومتوں کا فریضہ ہے اور انہیں اس پر عمل کرنا چاہیے ، جو بھی اسلامی حکومت ، مسئلہ فلسطین کے بارے میں اپنی ذمّہ داری پر عمل نہیں کرے گی وہ اس کا خمیازہ خود  بھگتے گی ۔ چونکہ قومیں بیدار ہو چکی ہیں اور اپنی حکومتوں سے فلسطین کی حمایت کا مطالبہ کر رہی ہیں ، حکومتیں بھی خواہ نخواہ ان کی خواہشات  کے سامنے سر تسلیم خم کرنے پر مجبور ہیں ۔

اسلامی جمہوریہ ایران کے لئیے مسئلہ فلسطین ، کوئی سیاسی اور اسٹراٹیجک مسئلہ نہیں ہے ، بلکہ ایک عقیدتی مسئلہ ہے ، دل و ایمان کا مسئلہ ہے ، یہی وجہ ہے کہ ملکی حکام اور عوام کے درمیان اس مسئلہ میں ذرّہ برابر اختلاف نہیں پایا جاتا ؛ جس طریقے سے ہم مسئلہ فلسطین کی اہمیت کے قائل ہیں ہمارے عوام میں سے جو بھی  مسئلہ فلسطین کی حقیقت سے واقف ہے ( غالبا ہمارے ملک کے تمام لوگ اس مسئلہ سے آگا ہ ہیں) وہ بھی اسی طریقے سے مسئلہ فلسطین سے والہانہ لگاؤ رکھتا ہے ۔اور آپ مشاہدہ کرتے ہیں کہ ماہ رمضان کے آخری جمعہ کے موقع پر جسے ہمارے امام امت (رض) نے "یوم قدس" سے موسوم کیا ہے ، پورے ملک کے چھوٹے بڑے شہروں ، قصبوں اور دیہاتوں میں ، بائیس بھمن ( اسلامی انقلاب کی کامیابی کا روز جشن )  کی ریلیوں کی طرح ، عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر سڑکوں پر نکل پڑتا ہے اور مسئلہ فلسطین کے بارےمیں اپنے جذبات اور والہانہ لگاؤ کا اظہار کرتا ہے ، حالانکہ بائیس بہمن کا دن ہماری قوم کا ایک اندرونی مسئلہ ہے ، اور اس میں ان جذبات کا اظہار ایک فطری امر ہے ۔ لیکن یوم قدس کے موقع پر بھی ہمارے عوام ، گرمی و سردی کی پرواہ کئیے بغیر ، ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہر ، یہانتک کہ چھوٹے چھوٹے دیہاتوں میں ، سڑکوں پر نکلتے ہیں اور اپنی موجودگی اور جذبات کا ثبوت فراہم کرتے ہیں ۔ آ پ جان لیں کہ اگر  ملکی حکام نے ہمارے جوانوں کو نہ روکا ہوتا تو ہمارے بہت سے  جوان ، اپنی جان و دل سے سرزمین فلسطین پر حاضر ہونے کے لئیے تیّار تھے ۔غزہ کی جنگ کے دوران ہمارے بہت سے جوان ، ائیر پورٹ  پر جمع ہو گئے تھے اور وہاں سے کسی صورت واپس آنے کو تیاّر نہیں تھے ، میں نے پیغام بھیجا تو یہ جوان واپس آئے اگر میں نے پیغام نہ بھیجا ہوتا تہ یہ جوان ہر گز نہیں لوٹتے اور وہیں رہتے ، یہ جوان یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ ہمیں غزہ بھیجا جائے ، انہیں بس ایک ہی فکر تھی کہ کسی نہ کسی طریقے سے غزہ پہنچ جائیں ۔ یہ ہیں ہمارے جوانوں کے جذبات ، فلسطین اور غزہ کا مسئلہ ہمارا اپنا مسئلہ ہے ؛ ہمارا اسلامی مسئلہ ہے ؛ تمام مسلمانان عالم اور ہمارا مسئلہ ہے ؛ ہم اس سلسلے میں جو کچھ بھی انجام دے رہے ہیں وہ فرض کی ادائیگی ہے ، ہم کسی پر احسان نہیں کر رہے ہیں ؛ اپنے فرض کو ادا کر رہے ہیں ۔ اور خداوند متعال سے دعاگو ہیں کہ وہ فرائض کی ادائیگی  میں ہماری مدد فرمائے ۔جیسا کہ آپ حضرات نے یہاں اس بات  کا اعادہ کیا اور زور دیا کہ مسئلہ فلسطین کا واحد حل ، غاصب حکومت سے پیکار اور مزاحمت میں مضمر ہے ، آپ اپنے اسی مؤقف پر قائم رہیے اور اسے کھلے عام بیان کیجیے ۔ سیاسی میٹھی میٹھی باتوں اور  سیاسی فضا سازی کو اس منطق اور مؤقف پر غالب نہ آنے  دیجئیے ۔ فلسطینیوں میں سے جس کسی نے بھی راہ مزاحمت و استقامت سے کنارہ کشی کی اس نے نقصان اٹھایا ۔ اسرائیل اپنی صلح و امن کی تجویز میں مخلص نہیں ہے ، اگر وہ اس تجویز میں سچا بھی ہوتا تو بھی اسے ایسا کرنے کا حق نہیں ہے چونکہ سرزمین فلسطین پر اس کا کوئی حق نہیں ہے  ، چہ جائیکہ وہ اس تجویز میں مخلص بھی نہیں ہے ، وہ لوگ جنہوں نے سازباز کا راستہ اختیا ر کیا وہ دشمن کی جانب سے تھونپے گئے مطالبات کو ماننے پر مجبور ہو گئے اگر انہوں نے ایک لمحے کے لئیے بھی ان مطالبات سے گریز کیا تو انہیں راستے سے ہٹا دیا گیا یا ذلّت و رسوائی سے دوچار کیا گیا ، دونوں مثالیں آپ کے سامنے ہیں اور آپ نے اپنی آنکھوں سے اس کا مشاہدہ کیا ہے ، انہوں نے ان میں سے بعض افراد کو راستے سے ہٹا دیا اور بعض کی ذلت و رسوائی کا سامان کیا ۔ مسئلہ قدس، اور  فلسطین کا حل اور اس کی نجات  صرف و صرف ، مزاحمت و استقامت میں مضمر ہے ۔جیسا کہ آپ نے بھی اس مسئلہ کی طرف اشارہ کیا اور میں بہت خوش ہوں کہ آپ سبھی حضرات اس بات پر متّفق ہیں ۔ وہ شخص جو راہ مزاحمت و استقامت کو قبول نہیں رکھتا وہ دانستہ یا غیر دانستہ طور پر مسئلہ فلسطین پر ضرب لگا رہا ہے ۔ اگر وہ دانستہ طور پر ایسا کر رہا ہے تو اس کا نام "خیانت " ہے اور اگر نادانستہ طور پر ایسا کر رہا ہے تو وہ جہالت وغفلت کا شکار ہے ؛ بہر حال یہ عمل ، مسئلہ فلسطین کے پیکر پر کاری ضرب  ہے۔ مزاحمت کے سوا ، فلسطین کے سامنے کوئی دوسرا متبادل نہیں ہے ؛ قول و عمل میں اس کا مظاہرہ کیجئیے ، اسلامی ممالک بھی اسی کا اعادہ کریں ، لیکن بہت سی عرب حکومتوں نے غزہ کی جنگ اور دیگر مسائل میں بہت برا امتحان دیا ہے ۔ جب بھی مسئلہ فلسطین کی بات آئی وہ یہی دہراتے رہے کہ مسئلہ فلسطین ، ایک عربی مسئلہ ہے ! لیکن جب عمل کا وقت آیا تو ان حکومتوں نے مسئلہ فلسطین کو سراسر بھلا دیا اور فلسطین اور اہل فلسطین اور اپنے عرب بھائیوں کی مدد کے بجائے اپنے قدم میدان سے پیچھے کھینچ لئیے ، یہ لوگ اگر دین اسلام پر ایمان نہیں رکھتے تو کم سے کم اپنی عربیت کا تو خیال رکھیں ۔ انہوں نے بہت ہی برا امتحان دیا ۔ یہ حقائق، تاریخ  کے صفحات میں ہمیشہ کے لئیے باقی رہیں گے ۔ اس سزا و جزا کا تعلّق صرف عالم آخرت سے نہیں ہے بلکہ اس دنیا میں بھی انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ بالکل ویسے جیسے راہ خدا میں جہاد کرنے والوں کا اجر وثواب ، عالم آخرت سے مخصوص نہیں ہے ، جس آیت کی یہاں تلاوت کی گئی اور جناب خالد مشعل صاحب نے بھی اسے دہرایا ، اس میں ملائکہ،  صاحبان ایمان سے خطاب کرتے ہوئےکہتے ہیں : " نحن اولیاؤکم فی الحیاۃ الدنیا و فی الحیاۃ الآخرۃ "؛ ( ۴)  ( ہم زندگانی دنیا میں بھی تمہارے ساتھی تھے اور آخرت میں بھی تمہارے ساتھی ہیں ) لہٰذا یہ اجر و ثواب ، آخرت سے مخصوص نہیں ہے ، بلکہ خدا کے فرشتے اس دنیا میں بھی ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں جنہوں نے کہا " قالوا ربّنا اللہ ثمّ استقاموا "۔ ( ۵ ) کہ اللہ ہمارا رب ہے اور اس پر جمے رہے ۔

ہم آج بھی اس دنیا میں ،  اس امداد غیبی اور فرشتوں کی مدد کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ؛ ہم نے دیکھا کہ اللہ کے فرشتوں نے آٹھ سالہ جنگ میں ہماری مدد کی ؛ ہم نے  اس امداد کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ۔ ممکن ہے کہ عالم مادہ و مادیات میں غرق ، کوئی شخص ان حقائق سے انکار کرے ، ان کا یقین نہ کرے ، لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ؛ ہم نے اس مدد کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے ۔ آج بھی اللہ کے فرشتے ہماری مدد کر رہے ہیں ؛ آج بھی پروردگار عالم کی مدد و نصرت کی وجہ سے ہم استقامت کا مظاہر ہ کر رہے ہیں ۔ ہماری فوجی طاقت کا امریکہ سے کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا ، اسی طرح ، ہمارے اقتصادی وسائل ، ہماری پرپیگنڈہ مشینری اور سیاسی سرگرمیوں کا امریکہ سے کوئی موازنہ نہیں کیا جاسکتا ؛ لیکن اس کے باوجود ہم امریکہ سے زیادہ طاقتور ہیں ، اگر چہ  وہ فوجی ، اقتصادی ،  سیاسی اور پروپیگنڈہ مشینری کے اعتبار سے ہم سےبہت آگے ہے لیکن اس کے باوجود وہ کمزور ہے اور ہم طاقتور ہیں ، ہمارے طاقتور ہونے کی دلیل یہ ہے کہ ہر اس میدان میں جہاں ہم اور امریکہ ایک دوسرے کے  رو برو  ہوئے ہیں ا مریکہ قدم بقدم پیچھے ہٹ رہا ہے ؛ لیکن ہم ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹے ہیں ؛ ہم لگاتار پیش قدمی کر رہے ہیں ۔ یہ اسلام کی برکت سے ہے ، یہ اللہ اور اس کے فرشتوں کی مدد کا ثمرہ ہے ، ہمیں اس بات پر مکمّل یقین ہے ۔ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔قدس عزیز کے بارے میں آپ حضرات نے جن خدشوں اور اندیشوں کا اظہار کیا وہ حقیقت رکھتے ہیں لیکن ان کے باوجود ایک نہ ایک دن ، بیت المقدّس پر مسلمانوں کا قبضہ ہوگا ، آپ میں سے اکثر افراد شاید وہ دن دیکھیں گے ،ہمیں نصیب ہو نہ ہو یہ قسمت کی بات ہے ؛ بہرحال، فلسطین اور پوری دنیا کے لوگ وہ دن ضرور دیکھیں گے ۔

میں ایک بار پھر آپ حضرات کا شکر گزار ہوں اور آپ سے مل کر بہت خوش ہوں ۔ میری اور آپ کی باتیں بہت زیادہ ہیں جو اس مختصر سے وقت میں تمام نہیں ہوسکتیں ؛ لیکن  نماز ظہر کا وقت ہو چکا ہے لہٰذا ہمیں چلنا چاہیے ۔ پروردگار عالم آپ سبھی حضرات کی توفیقات میں روز افزوں اضافہ فرمائے ۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) سورہ حج ، آیت نمبر ۴۰

 (۲) سورہ نساء  آیت نمبر ۷۶

 (۳) سورہ شوریٰ : آیت نمبر ۱۵

 (۴) سورہ فصلت : آیت نمبر ۳۱

 (۵) سورہ فصلت : آیت نمبر ۳۰