ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا ملک کے بڑے صنعتی مرکز کے معائنے کے موقع پرخطاب

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

اس اہم صنعتی  شعبے کے اعلیٰ منتظمین ، فکری و عملی میدان میں سرگرم  اہلکاروں اور آپ سبھی حضرات کو نیا سال مبارک ہو ۔ پروردگار عالم آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے تاکہ آپ اپنی محنت ، خلاقیت، اور ایمان پر مبنی شوق و اشتیاق کی بدولت اس صنعتی شعبے کو مزید آگے بڑھا سکیں اور اپنے ملک وملّت کو سرفراز کرسکیں ۔ یہ صنعتی مرکز ، ملک کی ترقّی میں بہت اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔

میرے آج کے معائنہ کا ایک علامتی پہلو بھی ہے ؛  ایک اہم اور قابل توجّہ صنعتی مرکز کے مشاہدے کے علاوہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ ہم اس کے ذریعہ ملک کی ترقّی و پیشرفت میں صنعت کے  اہم کردار کو اجاگرکر سکیں ۔ صنعت سے ہماری مراد وہ صنعت ہے جو آپ کے ذہن ، فکر وعمل ، خلاّقیت و ایمان کا ثمرہ ہو ۔ ملک کی تعمیر و ترقّی میں صنعت کاایک انتہائی اہم کردار ہے ؛ درحقیقت کسی بھی ملک کے ترقّی یافتہ ہونے کا اصلی عنصر اور معیار ، اس کی صنعتی ترقّی اور پیشرفت پر منحصرہے ؛ اس کے علاوہ اس میں  کچھ دیگر معیّن شدہ شرائط و لوازمات  کو بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے  منجملہ ہماری قوم اور  آپ عزیزوں کے افکارونظریات اور عقائد کا معاملہ ہے جسے صنعتی ترقّی کے ساتھ ساتھ مدّنظر رکھنا بہت اہم ہے۔

ایک دور میں یہ بہت بڑی غلط فہمی پائی جاتی تھی ، اور اسے ہماری قوم کے دل و دماغ میں کوٹ کوٹ کر بھرا گیا تھا ،  شایدآ ج بھی بعض افراد کے ذہن میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہو کہ ترقّی یافتہ زندگی اور معنوی اور اخلاقی زندگی میں تضاد پایا جاتا ہے ، بعض لوگ اس غلط فہمی کا شکار تھے کہ اگر ہمارا معاشرہ ترقّی و پیشرفت اور عقلانیّت کے راستے کو برق رفتاری سے طے کرنا چاہتا ہے تو اسے  اخلاق ، معنویت ، دین اور خدا سے دور رہنا ہوگا ! اگر ہم اخلاقی مسائل ، معنویت، دینی اور اخلاقی اصول و ضوابط کی  حدود   کا پاس و لحاظ رکھیں گے تو ہمیں ملک کی ترقّی و پیش رفت کا خیال اپنے ذہن سے نکال دینا چاہیے ؛ ہمیں عقلانیّت پر مبنی زندگی سے چشم پوشی کرنا ہوگی !ہمارے معاشرے میں ایک ایسا غلط انداز فکر حکم فرما تھا ، البتہ اس خام خیال کی کچھ واضح و آشکار  تاریخی اور معاشرتی وجوہات بھی تھیں ۔

ہم اس بات پر تاکید کرنا چاہتے ہیں کہ جمہوری اسلامی ، دین اور اسلام کی حاکمیت نے اس خام خیال پر خط بطلان کھینچ دیا ۔ ہم عقل و منطق ، علم و دانش پر استوار پیشرفتہ زندگی بھی بسر کر سکتے ہیں اور اس کے ساتھ اپنی اخلاقی اقدار سے متمسّک  ، اپنے عقائد و ایمان کے پابند ، دینی فرائض و واجبات ، اور اپنی  مذہبی زندگی کے دیگر احکامات پر عمل پیرا بھی رہ سکتے ہیں بلکہ اس راستے میں مزید پیش رفت  حاصل کر سکتے ہیں ۔

دین مبین اسلام ، ایک معنوی دین ہونے کے ساتھ ساتھ ایک علمی دین بھی ہے ۔ چوتھی اور پانچویں صدی ھجری میں ، اسلامی معاشرہ اس دور کا سب سے پیشرفتہ اور ترقّی یافتہ معاشرہ تھا ۔ایک ہزار سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود ہماری اس دور کی قابل فخر علمی شخصیات آج بھی علم و دانش کے آسمان پر ، ستاروں کی طرح چمک رہی ہیں ؛ لیکن کچھ خاص وجوہات کی بنا پر ہم پسماندگي ، تنزّل و انحطاط کا شکار ہو گئے ۔

موجودہ دورمیں ہم برق رفتاری سے آگے بڑھ رہے ہیں ، ہمیں علم و دانش ، معنویت و اخلاق کے میدان میں  اسی رفتار کو بنائے رکھنا چاہیے ؛  ہماری صنعت ایک پیشرفتہ صنعت بن سکتی ہے ،صنعتی ترقّی کے ساتھ ساتھ  ہم اخلاقی ، دینی اور انسانی قدروں کی پاسداری بھی کر سکتے ہیں ۔ ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارے ملک کے صنعتکار اورملکی صنعت کے منتظمین اس حقیقت کا مظہر ہوں ۔ دین کی پابندی کے ساتھ ساتھ ، صنعتی میدان میں ترقّی کا نمونہ ہوں ۔

صنعتی میدان میں ہم موجودہ پوزیشن پر قانع نہیں ہیں ۔اگر چہ اس میدان میں آج تک ہمیں  جو کامیابی ملی ہے وہ قابل قدر ہے ؛ ہم اس کی قدر کرتے ہیں ، اس کامیابی کی راہ میں جو زحمتیں اور مشقتیں برداشت کی گئی ہیں ہم انہیں نظر انداز نہیں کرنا چاہتے ، ہم ان  کے قدر دان ہیں، یہ اپنی جگہ درست  ، لیکن یہ اس کام کی ابتداء ہے ، اس راستے کا آغاز ہے ۔

 گاڑیوں اور موٹر کاروں کی صنعت میں ہم ایک طویل عرصے سے پسماندگی کا شکار رہے ہیں۔ آپ کا سب سے بڑا ہنر یہ ہے کہ آپ نے اپنے عزم و حوصلہ کے ذریعہ اس طویل پسماندگی  کے سلسلے کو روکا؛ اور ملک میں گاڑیوں اور موٹرکاروں کی تیّاری کی صنعت  کے ورود کےتقریبا تیس برس گزرنے کے بعد ، اس پسماندگي کو دور کیا ۔ ہم چالیس (ھجری شمسی )،کے عشرے سے جب سے ہمارے ملک میں یہ ٹیکنالوجی آئی ہے ، تقریبا تیس سال سے ایک ہی جگہ چکّر کاٹ رہے تھے ۔  اندھی تقلید ہمارا وتیرہ بنا ہوا تھا ۔اس صورت حال کے لئیے ساٹھ کے عشرے کے ملکی حکام کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا ؛ان کا مؤاخذہ نہیں کیا جاسکتا ۔ چونکہ ساٹھ (ھجری شمسی )کا عشرہ ،انقلاب کا عشرہ ہے ، مقدّس دفاع کا عشرہ ہے ؛ ایک محترم اعلی اہلکار کے بقول وہ دور مجاہدین اسلام کو مسلّح کرنے کا دور تھا ؛ اس دور میں ایرانی قوم کاہر گھر میدان کارزار کے سلسلے کی ایک  کڑی شمار ہوتا تھا۔ ساٹھ کے عشرے کا مؤاخذہ نہیں ہو سکتا ؛لیکن ساٹھ کی دہائی سے پہلے اور انقلاب کی کامیابی سے پہلے دور کا مؤاخذہ ہو سکتا ہے، اور اس کامؤاخذہ اور احتساب  کرنا چاہیے ۔ جو ممالک گاڑیوں اور موٹرکاروں کی صنعت میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہتے ہیں، ان کا تقلیدی دور ، چار ، پانچ سال تک محدود ہوا کرتا ہے ۔ لیکن ہمارے ملک میں اتنی تاخیر کیوں ہوئی ؟یہ ان افراد کا شاخسانہ ہے جنہیں ملک کے مفادات کی کوئی پرواہ نہیں تھی ؛ جن کا دل ملک کی عزّت و عظمت کے لئیے نہیں دھڑکتا تھا ؛ یہ افراد ؛ ملک کے مادی سرمائے کی بربادی کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے ۔ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ستّر (ھجری شمسی ) کی دہائی سے آپ نے اس صنعت میں قدم رکھا ؛ آپ کی ترقّی کی رفتار نسبتا اچھی تھی ؛ آج یہ قومی انجن جس کی رونمائی عمل میں آئی ، یہ ملک کی عزّت و عظمت کی علامت ہے ۔اس انجن کی ساخت کے تمام مراحل ایرانی ماہرین کی فکر و عمل کانتیجہ ہیں ؛ یہ ایک انتہائی معنی ٰ خیز عمل ہے ۔ مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ ہم نے  کسی گاڑی کے انجن کی ساخت میں کامیابی حاصل کی ہے بلکہ مسئلہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے ۔ آج کی دنیا ؛ مختلف انجنوں اور موٹروں کی ساخت کے میدان رقابت میں تبدیل ہو چکی ہے ، ان میں سے گاڑی کے انجن کو ایک ممتاز مقام حاصل ہے چونکہ یہ ہم سبھی کی روز مرّہ زندگی میں استعمال ہونے والی چیز ہے ۔ رقابت کے اس میدان میں آپ نے ایرانی ہاتھوں کے ہنر کا پوری دنیا سے لوہا منوایا ، اس کی بہت زیادہ اہمیّت ہے ۔ سالہاسال تک ان  گاڑیوں میں  جو انجن استعمال ہوتے تھے وہ سب کے سب  غیر ملکی ساخت کے  تھے ، خواہ وہ گاڑیان درآمد ہونےوالی گاڑیاں ہوں یا بظاہر اندرون ملک تیّار کی جاتی ہوں ، جب ہم ان دنوں کو یاد کرتے ہیں تو ہمیں بہت افسوس ہوتا ہے ؛ان  انجنوں کو دوسروں نے تیّار کیا تھا ؛ دوسرے ممالک کے ملازموں اور مزدوروں کے تیّار کردہ تھے ۔ اپنے ملک کے افراد کو روزگار مہیّا کرنے ؛ ان کے ہنر سے استفادہ کرنے ؛ ملک کو نفع پہنچانے اور اس کی ترقّی کی راہ کو ہموار کرنے کے بجائے ہم نے اغیار کی مدد کی ۔ دوسروں کو فائدہ پہنچایا۔ الحمد للہ  آج  آپ نے اس کا موقع فراہم  کیا ہے ، اس کی بہت زیادہ اہمیّت ہے ۔ میں آپ کے اس اچھے کام کا بہت زیادہ قدردان ہوں ؛ لیکن یہ نہ بھولیں کہ یہ کام ، اس راستے کا پہلا قدم ہے ۔

کسی بھی ملک کی ترقّی کی پہلی شرط ، اس کا صنعتی استقلال اورغیر وابستگی ہے ۔ ہمیں تمام صنعتی میدانوں میں اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا چاہیے ، خود کفیل ہونا چاہیے ؛ ہمیں اپنی ذہنی صلاحیتوں اور توانائیوں پر بھروسہ کرنا چاہیے ۔ البتہ آج کی دنیا ، سائنس و ٹیکنالوجی  کے تبادلے کی دنیا ہے لیکن یہ لین دین کا تبادلہ ، دو طرفہ ہونا چاہیے۔جب ہم صنعتی میدان میں خود کفیل ہوں گے تبھی صنعتی تبادلے کی دنیا میں اپنی بات منوا سکیں گے ۔ میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں ؛ ہمیں اپنے آپ کو اس مقام تک پہنچانا چاہیے ۔ اسلامی جمہوریہ ایران اس مقام کا سزاوار ہے ؛ ہم اپنی تاریخ ، عظیم  ثقافتی ورثے ،  جوش و ولولہ سے سرشار عوام اور جوانوں نیزملک میں پائی جانے والی استعداد و صلاحیت کی بدولت اس مقام کے سزاوار ہیں ۔ ہمیں صنعتی اعتبار سے عالم اسلام میں علمبرداری کی ذمّہ داری نبھانا چاہیے ،ہراول دستے کا کام انجام دینا چاہیے ۔ اسلامی دنیا بھی اس کا استقبال کرے گی ،برآمدات کے متعلّق اپنی گفتگو کے  حصّے میں ہم اس کی طرف مزید اشارہ کریں گے ۔ دنیا ،جمہوری اسلامی کی ترقّی کا نظارہ کرے اور دیکھے کہ ایران کی ذہین اور ہوشیار  قوم نے اپنی صلاحیتوں اور توانائیوں پر بھروسہ کرتے ہوئے صنعتی میدان میں بھی اپنے جھنڈے  گاڑ دئیے ہیں ۔

اس سلسلے میں چند نکتے عرض کرنا چاہتا ہوں ۔ایک مسئلہ یہ ہے کہ اگر اہم داخلی مصنوعات ( اس وقت ہماری گفتگو کا موضوع گاڑیوں اور کاروں کی صنعت ہے  اگر چہ صنعت کے دوسرے شعبے بھی اسی اہمیت کے حامل ہیں )اور صنعت کی اہمیت  کے قائل ہیں  تو ہمیں اپنی تجارتی پالیسیوں کو توازن اوراعتدال کی بنیاد پر استوار کرنا چاہیے ۔ بے تحاشا درآمد یقینا ہمارے لئے نقصان دہ ہے ۔ ملک کی اقتصادی پالیسیوں کو مرتّب کرنے والے ادارے اس نکتے پر توجّہ دیں ۔ مصنوعات کی فراوانی ؛ ان کا سستا ہونا بہت اچھی چیز ہے ، لیکن اس سے زیادہ اہم اور بہتر چیز ملک کی داخلی صنعت کی رونق ہے ؛ ملک کی داخلی صنعت کا پھلنا پھولنا ہے ۔  یہ درست نہیں ہے کہ ہم غیر معقول دلائل و وجوہات کی بنا پر غیر ملکی مصنوعات کے لئیے اپنے ملک کا دروازہ کھول دیں ۔ میں نے ملک کے مختلف شعبوں کے حکام سے بارہا یہ بات کہی ہے :کہ اگر غیر ملکی مصنوعات کی درآمد کے پیچھے یہ فلسفہ، یہ منطق کارفرما ہے کہ اس کے ذریعہ ملکی مصنوعات کی کیفیت میں بہتری آتی ہے ، تو یہ دلیل درست نہیں ہے ، اس مقصد کے حصول کے لئیے آپ ملکی کمپنیوں پر دباؤ ڈال سکتے ہیں ، ایسی پالیسیاں بنائیے جن کے ذریعہ داخلی پیداوار کے شعبے کو کیفیت کے ارتقاء پر مجبور کیا جاسکے ، داخلی مصنوعات کی کیفیت کے ارتقاء کے لئیے سب سے برااور غلط متبادل یہ ہے کہ ہم غیر ملکی مصنوعات کے لئیے اپنے بازار کا دروازہ کھول دیں ؛ یہ سب سے برا متبادل ہے ۔ داخلی مصنوعات کی کیفیت کے ارتقاء کے لئیے اس سے بہتر اور مناسب متبادل موجود ہے ۔

ایک  دوسرا اہم نکتہ ، تحقیق و ریسرچ کا مسئلہ ہے ؛ تحقیق اور ٹیکنالوجی کے فروغ کا مسئلہ ہے ۔ آج دنیا کی تمام مصنوعات ، گاڑیوں اور کاروں کی تولید کی صنعت ، علم و دانش پر استوار ہے ۔ وہ ان گاڑیوں کے ارتقائی سفر کے لئیے ، ان میں بہتری لانے کے لئیے ، انہیں زیادہ خوبصورت اور کارآمد بنانے کے لئیے ، پٹرول و ڈیزل کی بچت کے لئیے ، ان کی قیمت میں کمی کے لئیے  لگاتار تحقیق ، ریسرچ اور غور و فکر میں مشغول ہیں۔ یہ کام ، علمی تحقیق و ریسرچ کے بغیر ممکن نہیں ہے ۔ مختلف صنعتی کارخانون کے منتظمین ، حکومت کے متعلقہ حکام کو ، تحقیق و ریسرچ کے مسئلے پر خصوصی توجّہ دینا چاہیے اور اس راستے میں انتھک محنت سے کام لینا چاہیے ۔تاکہ ہماری صنعت ان سخت رقابتی حالات میں اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکے ؛ اور اپنے رقیبوں کے مقابلے شکست سے دوچار نہ ہو ۔ تحقیق کے ذریعہ اس مقصد کو عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے ۔

ہماری مصنوعات ، منجملہ کاروں کی صنعت کے سلسلے میں ایک اہم مسئلہ ، برآمد(ایکسپورٹ) کا مسئلہ ہے ۔ مختلف حکومتی اداروں کو اس سلسلے میں کوشش کرنا چاہیے تاکہ ایرانی مصنوعات کو غیر ملکی بازاروں میں متعارف کرایا جاسکے  ۔ یہ ایک اہم اور حساس کام ہے جس کے لئیے ہمہ گیر کاوش  اور محنت کی ضرورت ہے ۔ ہمارے بعض ہمسایہ ممالک اپنی گاڑیوں اور کاروں کی صنعت کے ذریعہ سالانہ اربوں ڈالر کماتے ہیں ! یہ بہت اہم کام ہے ؛ گاڑیوں اور کاروں کے کارخانوں کی سب سے پہلی ترجیح یہی ہونا چاہیے وہ غیر ملکی منڈیوں کو اپنے مد نظر رکھیں ، میں نے گاڑیوں اور کاروں کی تولید کے کارخانوں کانام بعنوان مثال لیا ہے ، دیگر ملکی مصنوعات کا ہدف بھی یہی ہونا چاہیے کہ ایکسپورٹ کا دروازہ کھلے ۔ وہ ابتداء سے ہی اسی مقصد کو پیش نظر رکھیں ، حکومت بھی ان مصنوعات کو ایکسپورٹ  کرنے کے لئیے  نئی نئی منڈیوں کی تلاش میں رہے اور اسے اپنا نصب العین قرار دے ۔

ایک اہم مسئلہ ماحول اورفضائی آلودگی کی روک تھام کا مسئلہ ہے ۔ میں نے یہاں کی بعض رپورٹوں میں اس کے بارے میں سنا کہ اس مسئلہ پر خصوصی توجّہ دی جارہی ہے ، میں بھی اس مسئلہ پر زور دینا چاہتا ہوں ،ماحول کا مسئلہ وہ بنیادی معیار ہے جو انجنوں کی ساخت اور دیگر مصنوعات میں ہمیشہ پیش نظر رہنا چاہیے ۔ ماحول کی آلودگی،  ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے  کسی ایک ملک ، ایک جغرافیائی  خطے اور کبھی کبھی پوری دنیا   کو ناقابل تلافی  نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ ماحول کا مسئلہ بہت بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ دین اسلام نے بھی ماحول کے مسئلہ کے بارے میں بہت زیادہ تاکید کی ہے ۔ ماحول کی حفاظت ، اس کا خیال اور وہ چیزیں جن کی اہمیت کی طرف ، دنیا آج متوجّہ ہوئی ہے یہ چیزیں ، اسلامی تعلیمات کا حصّہ رہی ہیں۔ یہ بھی بہت اہم نکتہ ہے جس پر توجّہ دینا چاہیے ۔

میں اگر آپ عزیز بھائیوں کے کام کے بارے میں اپنے تمام خیالات کا اظہار کرنا چاہوں تو ایک جملے میں یوں کہہ سکتا ہوں : کہ آپ کی خلّاقیت ، ذہانت اور سعی پیہم ، اس ملک کے مستقبل کی ضامن  ہے ؛ اس قوم کے مستقبل کی ضامن ہے ۔ تھکن کا نام بھی نہ لیجئیے ، لگاتار محنت و مشقّت کی وجہ سے تھکن کا احساس بھی پیدا نہ ہونے دیجئیے ۔ کچھ ایسے ممالک بھی ہیں جو ہمارے بعد اس صنعت میں داخل ہوئے ہیں لیکن آج اپنی محنت ، سعی پیہم اور منتظمین کے عزم و حوصلے کی بنا پر  ہم سے آگے ہیں ! میں نے گزشتہ برسوں میں اپنی بعض حکومتوں کے اندر سب سے بڑی خامی یہ دیکھی  ہے کہ انہوں نے بعض امور کا تعاقب نہیں کیا ۔ انہوں نے  ان امور کو بڑے ذوق و شوق سے شروع کیا۔لیکن انہیں ادھورا چھوڑ دیا !ایسا کیوں ہوا؟ یہ صورت حال اس لئیے پیش آئی کہ ہمارے بعض منتظمین نے ان امور کی حمایت نہیں کی ،ان کا تعاقب نہیں کیا ؛ ان کاموں کی حوصلہ افزائی نہیں ہوئی ، ان کاموں کے راستے کی بعض معمولی رکاوٹوں کو دور نہیں کیا گیا ، ہمارا تجربہ بتاتا ہے کہ بسا اوقات کچھ معمولی رکاوٹوں کی بنا پر بڑے بڑے کام مدتوں رکے رہتے ہیں ۔ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ بعض بڑے بڑے پروجیکٹوں پر کام رک گیا ، اور جب ہم نے اس کی وجہ معلوم کی تو پتہ چلا کہ کسی معمولی نوعیّت کی رکاوٹ کی وجہ سے کام رکا ہوا ہے ۔کسی نے اس معمولی سی رکاوٹ کو دور کرنے کی ہمّت نہیں کی جس کی وجہ سے یہ عظیم کام یوں ہی بلاوجہ رکا ہوا ہے ۔ ہماری خوش نصیبی سے موجودہ حکومت ایک فعّال اور سرگرم حکومت ہے جو عوام کی ہمدردی اور  عزم و حوصلے سے سرشار ہے  ۔ وزیر صنعت و معادن بھی ایک جوان اور عزم و ہمّت سے سرشار شخصیت ہیں ، انشاء اللہ موصوف اپنے فرائض کو خوش اسلوبی سے انجام دیں گے ۔

 شعبہ زراعت بھی ہمارے لئیے بہت اہمیت رکھتا ہے ، میری نظر میں یہ شعبہ ہمارے ملک کی  حیات اور  ریڑھ کی ہڈی شمار ہوتا ہے ؛ یہ شعبہ بھی صنعت سے وابستہ ہے ۔ صنعتی میدان میں ترقّی کے بغیر زراعت کے شعبے میں ترقّی امکان پذیر نہیں ہے ۔ شعبہ صنعت  پر زور دینے کا مطلب ، شعبہ زراعت کی نظر اندازی نہیں ہے ۔در حقیقت یہ کام ملک کی عمومی ترقّی منجملہ شعبہ زراعت کی ترقّی کی تائید و حمایت ہے ۔ میں شعبہ صنعت کی ترقّی پر زور دینا چاہتا ہوں ، اس ترقّی و پیشرفت میں تحقیق ،  اپنی  فکری صلاحیتوں اور ایرانی  مہارت کو بروئے کار لائیے۔ الحمد للہ آج آپ کے اندر یہ صلاحیتیں موجزن ہیں ۔

میں آپ سے عرض کردوں کہ بہت سے ایسے ممالک  کہ جن کا عصر حاضر میں صنعتی میدان میں شہرہ ہے اور وہ دنیا کے صف اوّل کے ممالک شمار ہوتے ہیں ، مجھے ان کے بارے میں مصدّقہ اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ ان کے عوام میں فہم و فراست ، ذہانت و ذکاوت کی سطح ہمارے ملک کے متوسّط درجے سے بھی بہت کم ہے ! لیکن انہوں نے اپنی محنت اور مشقّت  کے ذریعہ اس قدر ترقّی کی ہے۔ ہمارے اندر ،فہم و فراست ، ذہانت اور ذکاوت بہت اہم چیز ہے ۔ ہمیں اس کے ساتھ ، عنصر عمل ،  سعی پیہم ، انتھک محنت کو بھی شامل کرنا چاہیے۔ آپ جان لیجئیے کہ اس صورت میں ہمارا ملک بڑی تیزی کے ساتھ ترقّی کرے گا ، برق رفتاری سے آگے بڑھے گا اور عظیم معرکے سر کرے گا ؛ ہم آج ، متعدّد شعبوں میں اس کے نمونے دیکھ رہے ہیں ، بعنوان مثال ، آج ہمارا ملک سائنس کے بعض شعبوں میں دنیا کا دسواں اور آٹھواں ملک ہے ۔ ایک شعبے کے بارے میں یہاں ایک صاحب نے کہا کہ ہمارا ملک دنیا کا چھٹا ملک ہے جن کے پاس یہ ٹیکنالوجی ہے ۔ ہم اس معرکے کو سر کر سکتے ہیں ؛ یہ بہت اہم چیز ہے ۔ یہی وہ ملک ہے جو انقلاب سے پہلے صنعت ، خلاقیت اور فعّالیت سے کوسوں دور تھا ، اس کے اندر امید اور خود اعتمادی کا فقدان تھا ۔ لیکن آج اس مقام پر پہنچ چکا ہے ؛ یہ بہت اہم چیز ہے ۔ لہٰذا ، آپ کے سامنے راستہ کھلا ہوا ہے اور آپ  کے اندر بڑی سرعت کے ساتھ ترقّی کرنےکی بہت زیادہ استعداد پائی جاتی ہے ۔ میں پروردگاعالم کے حضور میں آپ کی توفیق ونصرت کے لئیے دست بدعا ہوں ۔

یہاں ایک صاحب نے ، "یونیورسٹیوں اور شعبہ صنعت کے باہمی تعاون " کی طرف اشارہ کیا ؛ یہ مسئلہ بھی بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے ۔ میں کئی سال سے ملک کے حکام اور یونیورسٹیوں کے ذمہ دارحضرات پر ، شعبہ صنعت اور یونیورسٹیوں  کے رابطے کے  استحکام کے بارے میں  زور دیتا  آیا ہوں ۔ ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں میں مختلف صنعتی شعبوں پر تحقیق و ریسرچ کے مراکز قائم ہوں تاکہ وہ ہماری صنعت کے فروغ میں اپنا کردار ادا کر سکیں ۔

پروردگار عالم آپ سبھی کی توفیقات میں اضافہ فرمائے اور آپ کو امام زمانہ(عج ) کی دعاؤں میں شریک کرے ، ہمارے ا مام امت(رہ) اور شہیدوں  کی روحیں ہم سے راضی و خشنود ہوں ۔ آج کا دن میرے لئے ایک یادگار دن ہے ، میں آپ حضرات کی محنت و کوشش سے بہت خوش ہوں ، اس کے لئے خداوند متعال کا شکر گزار ہوں اور آپ کے لئے دعا گو ہوں ۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ