ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کاملک کے اعلیٰ عہدیداروں سے اہم خطاب

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

میں سب سے پہلے ضروری سمجھتا ہوں کہ آپ سبھی  بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں عید نوروز کی مبارک باد پیش کروں ۔ اگرچہ عید نوروز سے پندرہ ، سولہ دن گزر چکے ہیں لیکن چونکہ  یہ عید در حقیقت  موسم بہار کی عید ہے اس لئے سرکاری تعطیلات اور دیگر رسوم و رواج سے قطع نظر آج بھی جاری و ساری ہے ۔ ہمیں امید ہے کہ نیا سال پوری ایرانی قوم ، بالخصوص اس کے خدمت گزاروں اور ملک  کے  تینوں  اعلیٰ اداروں ( حکومت ، پارلیمان اور عدلیہ ) کے لئے ایک مبارک سال ثابت ہوگا ۔ اس سال کے بابرکت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس سال پروردگار عالم اپنی برکتوں کو آپ کے وسیلے سے اس ملک اور اس کے نیک اور مؤمن عوام پر نازل فرمائے۔ البتّہ اس مقصد کے حصول کے لئے میری اور آپ کی بامقصدمحنت اور جوش و ولولے سے سرشار کوشش درکار ہے ۔ہمیں اپنے آپ کو عوام کی فلاح و بہبود کے لئے وقف کر دینا چاہیے ۔ میری اور آپ کی ذمّہ داری کے لمحے لمحے کے بارے میں پوچھا جائے گا ۔سب سے پوچھ تاچھ ہوگی ؛ لیکن جس کے شانوں  پر کوئی سنگین ذمّہ داری نہیں ہے اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جس کے پاس زیادہ مال و دولت نہ ہو ، اگر اس کا حساب لیا جائے تو وہ بہت جلدحساب دیکر فارغ ہوجائےگا ۔ اس کے برعکس اگر کسی مالدار شخص کا حساب لیا جائے ، جس کی آمدنی کے متعدّد ذرائع ہوں تو چند لفظوں میں بات تمام نہیں ہوگی ، بالخصوص ایسے شخص کی مشکلات میں اس وقت  مزید اضافہ ہو سکتا ہے اگر حساب لینے والا دقیق ہو اور سخت گیری کرے ، انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنا چاہے ؛ ایسے محاسب کے سامنے اسے اپنی رائی پائی کا حساب دینا ہوگا ، کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا ، کہاں خرچ ہوا، اسے اپنی آمدنی اوراخراجات کا پورا حساب و کتاب پیش کرنا ہوگا۔ ذمّہ داری کی مثال بھی ایسی ہی ہے ۔ الحمد للہ آپ بظاہر مالدار نہیں ہیں اور خدا کرے کہ نہ ہوں لیکن آپ کی ذمّہ داری  کا بوجھ ، پیسے اور مال کے بوجھ سے کہیں زیادہ ہے  ۔ ہم سے پوچھیں گے : فلاں شعبے میں آپ کی ذمّہ داری کیا تھی ؟ آپ کو اپنی ذمہ داریوں کی جزئی چیزوں کا بھی علم ہونا چاہیے ، اگر ہمیں ان کا علم نہ ہو تو ہم سے یہ حساب ہوگا کہ تمہیں اپنی ذمّہ داری کا علم کیوں نہیں تھا ؟ تم نے غفلت کیوں برتی ؟ اگر ہمیں اپنی ذمہ داری معلوم ہو تو ہم سے یہ پوچھا جائے گا کہ تم نے یہ ذمہ داری کیوں کر نبھائی ؟ اس کی تفصیل اور عذر پیش کرنے میں ہمارا کافی وقت صرف ہوگا۔

ہم سبھی مقروض ہیں ، تمام عالم انسانیت ، تمام مخلوقات ، پر وردگار عالم کے محاسبے کے سامنے مقروض و جواب دہ ہیں ۔ کوئی بھی شخص یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ میرے نامہ اعمال کا پلڑا کافی سنگین ہے اور وہ جواب دہی کے لئے کافی ہے ؛ انبیائے الٰہی بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتے اسی لئے مسلسل استغفار میں مصروف رہا کرتے تھے ۔ انبیاء (ع)اور اولیاء(ع) بھی اپنی زندگی کے آخری لمحے تک ، توبہ اور استغفارمیں مصروف رہتے ہیں۔ امام زین العابدین علیہ السّلام اپنی ایک دعا میں فرماتے ہیں : " وعدلک مھلکی " ؛ تیرا انصاف میری ہلاکت و تباہی کا باعث ہے ۔ اس وجہ سے ہم پروردگار عالم کی بارگاہ میں یہ دعا کرتے ہیں " عاملنا بفضلک " ؛ ہمارے ساتھ اپنے فضل و کرم کے مطابق سلوک کر ، اگر روز محشر ہمارے ساتھ ، عدل و انصاف کے مطابق سلوک کیا جائے تو خدا ہی جانتا ہے کہ ہمارا کیا حشر ہوگا ۔ ہمیں پروردگار عالم کی بارگاہ میں ہمیشہ ہی اپنے گناہوں سے درگزر اور  بخشش کی دعا کرتے رہنا چاہیے  ۔

البتّہ پروردگار عالم کی بارگاہ میں ایک بات عرض کی جاسکتی ہے ؛ اور وہ یہ ہے کہ میں نے اپنی طاقت اور وسعت کے مطابق کوشش کی ، اگر ہم پروردگار عالم کی بارگاہ میں یہ عرض کر سکیں تو بہت اچھا ہے ۔ کہ ہم نے اپنی سوجھ بوجھ ، اپنے علم و ادراک کے اعتبار سے کسی کوشش سے دریغ نہیں کیا ؛  اب اگر کوئی کمی ، کسر یا خامی باقی رہ گئی ہے تو اسے اپنے دامن عفو میں جگہ دے ؛ ادب کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے اس انداز میں گفتگو کی جاسکتی ہے۔ پس ہمیں اپنی تمام تر توانائی ، وسعت اور طاقت سے استفادہ کر نے کے لئے ہمّت سے کام لینا چاہیے ۔ البتّہ ہر شخص میں کوئی نہ کوئی عیب ،  خامی اورنقص  ضرور پایا جاتا ہے ؛ یہ ایک اجتناب ناپذیر امر ہے ، ہمیں ان نقائص و عیوب کو خدا کو سونپ دینا چاہیے ؛ لیکن اپنی کوشش اور جد وجہد کو جاری رکھنا چاہیے ، اور اپنی تمام طاقت اور وسعت کو بروئے کار لانا چاہیے ۔ ہم نے اس سال کو ، دگنی ہمّت اور محنت کے سال سے موسوم کیا ، مضاعف (دوبرابر ) کے معنیٰ فقط" دوبرابر '' کے نہیں ہیں ۔ بلکہ اگر آپ دس گنا ہمّت کر سکتے ہیں تو کیجئیے ۔سب سے زیادہ اہمیّت ، ہمارے معاشرے کی صلاحیتوں اور استعداد کی ہے ۔ تمام شعبوں میں ہماری مثال اس معدن (کان) جیسی ہے جسے یا تو سرے سے کھودا ہی نہ گیا ہو یا ادھورا کھودا گیا ہو ۔ اقتصادی ، فنی ، سائنس و ٹیکنالوجی ، الغرض ہر شعبے کے ماہرین کا یہی کہنا ہے کہ ان تمام شعبوں میں ہمارے ملک کی صلاحیتیں ، ہمارے ملک کی قابلیت و استعداد بے مثال ہے ۔ ہمارے وہ دوست جو ہمارے سماج کے مختلف شعبوں سے وابستہ ہیں اور مسائل کی جانکاری رکھتے ہیں ، جب وہ اپنے متعلقہ شعبے کی رپورٹ پیش کرتے ہیں ، اور ہمارے ملک و ملت کا دیگر ممالک و اقوام سے موازنہ کرتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ ہمارے ملک    کی صلاحیتیں ان سے کہیں زیادہ ہیں ۔ اقتصادی لحاظ سے ہمارے ملک کی استعداد و صلاحیت کاگراف بہت اونچا ہے ۔ علم و دانش ، سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ہمارے ملک کی صلاحیتیں حیرت انگیز ہیں ۔ ہم اس میدان میں جس قدر اپنی رفتار کو بڑھا رہے ہیں ، اس کے بارے میں سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ، ثابت قدمی دکھا رہے ہیں  ، باغ میں کھلنے والے پھولوں کی طرح، اس میں اگنے والے ننّھے ننّھے پودوں کی طرح، ہماری یہ کوششیں بار آور ہو رہی ہیں ، اور وہ وہ معرکے سر ہو رہے ہیں جن کا ہمیں وہم و گمان تک بھی نہیں تھا ۔

ہم جب ملک کے ثقافتی شعبے پر نظر دوڑاتے ہیں تو وہاں بھی ہمیں  بہت زیادہ آمادگی ، استعداد اور افرادی قوّت کی بہتات نظر آتی ہے ۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی ملک کی رفتار ، تعجّب خیز  ہے ۔ بڑے بڑے کام انجام دیئے جاسکتے ہیں ۔ ہمارے ملک میں اس درجہ آمادگی اور استعداد پائی جاتی ہے ۔ موجودہ دور میں  یہ صلاحیت و استعداد میرے اور آپ کے اختیار میں ہے ۔ اگر ہم ان صلاحتیوں کو درست انداز میں نہ پہچانیں تو ہم کوتاہی کے مرتکب ہوئے ہیں ؛ اگر ہم ان قابلیتوں کو پہچانیں لیکن ان سے استفادہ کرنے کی کوشش نہ کریں تو بھی ہم کوتاہی کے مرتکب ہوئے ہیں ؛ اگر ہم اس راستے میں کسی متوسّط درجے اور مرحلے پر قناعت کرلیں تو بھی ہم نے اپنے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی کی ہے ، ہمیں اس میدان کی بلندی اور نقطہ عروج کی طرف حرکت کرنا چاہیے ۔ بالکل اس کھلاڑی  کی طرح ، جس کے اندر استعداد پائی جاتی ہو ، اس کا قد و قامت اور جسمانی ساخت بھی مناسب ہو ، اور اسے ورزش میں پیشرفت اور ترقّی کے تمام مواقع فراہم ہوں ؛ وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں روزانہ آدھا گھنٹہ یا بیس منٹ تمرین کرتا ہوں ؛ اسے چمپئن بننے کے لئے کوشش کرنا چاہیے ؛ اسے متعلقہ کھیل کے سب سے اعلیٰ مقام پراپنی  نظریں مرکوز کرنا چاہیے ۔

اخروی ، معنوی اور توحیدی امور کی مثال بھی ایسی ہی ہے ؛ کم پر کفایت نہیں کرنا چاہیے ۔ ثواب کے کام میں بھی کم پر اکتفا نہیں کرنا چاہیے ۔ اچھا ،  اگر ہم نے بلند ہمّتی سے کام نہیں لیا اور ظلم کیا ، کوتاہی کی ، تو اس کوتاہی کے ذریعہ ہم نے خود  اپنے اوپر بھی ظلم کیا ہے چونکہ روز محشر ہمیں خدا کے سامنے اس کا جواب دینا ہوگا ، اور دوسروں کے اوپر بھی ظلم کیا ہے چونکہ ہماری کوتاہی کی وجہ سے وہ لوگ ان صلاحیتوں سے استفادہ نہیں کر پائے جو اس کے اہل و سزاوار تھے ۔ اگر وہ لوگ اس استعداد و صلاحیت سے مستفید نہ ہو سکے اور محروم رہ گئے تو یہ ہماری تقصیر ہے ۔ ان باتوں کو زبان پر لانا بہت آسان ہے لیکن ان پر عمل کرنا بہت مشکل ہے ، اس کے لئے ہمّت اور  عزم و ارادہ  ضروری ہوتا ہے ۔

ہم یہ جان لیں کہ اس راستے میں خداوند متعال بھی ہماری نصرت و مدد فرمائے گا ۔ جو کوئی بھی کسی ہدف و مقصد کی تلاش میں ہو اور اس کے حصول میں اپنی طاقت اور وسعت کو استعمال کرے تو خدا بھی اس کی مدد کرتا ہے ۔ دنیوی کاموں کا بھی یہی حال ہے ، خدا وند متعال ان میں بھی اس کی مدد کرتا ہے ؛ ارشاد رب العزّت ہے " کلّا نمدّ ھؤلاء و ھؤلاء " ۔ (۱) جو لوگ طالب دنیا ہیں ، خداوند متعال ان کے بارے میں بھی یہ کہتا ہے کہ ہم ان کی مدد کرتے ہیں ۔ یہ لوگ چونکہ طالب دنیا ہیں اس لئے عالم آخرت میں ان کا کوئی حصّہ نہیں ۔ اسی طریقے سے جو لوگ طالب آخرت ہیں ، پروردگار عالم ان کی بھی امداد کرتا ہے ۔ خداوند متعال دونوں گروہوں کی مدد کرتا ہے ۔ نماز شب ، دعا و مناجات ، ذکر و توسّل صرف یہی کام اخروی کام نہیں ہیں ۔ البتّہ یہ امور ایک وسیلہ ضرور ہیں ؛ لیکن خدمت خلق ، اس میدان میں حاضر ہونا جہاں حاضری ضروری ہو ، یہ بھی خدائی کام ہیں ۔

آپ ملاحظہ کیجئیے کہ صدر اسلام کی جو شخصیات(ہماری ثقافت اور عقیدے کے مطابق) مدح و ثنا اور تعریف کی سزاوار قرار پائیں ، وہ اپنے صوم و صلاۃ اور دیگر عبادتوں کی وجہ سے اس مرتبہ پر فائز نہیں ہوئیں بلکہ وہ اپنے سیاسی مؤقف ، اجتماعی اور معاشرتی  میدان میں اپنی کاوشوں  کی بنا پر اس مقام کی اہل قرار پائیں ۔ ہم جناب عمّار ، جناب میثم تمّار ، جناب ابوذر ، جناب مقداد  اور جناب مالک اشتر جیسی عظیم شخصیات کی تعریف ان کی عبادتوں کی وجہ سے نہیں کرتے ۔ بلکہ تاریخ ان کو ان کے فیصلہ کن مؤقف سے جانتی ہے ؛ انہوں نے اپنے فیصلہ کن مؤقف کے ذریعہ اسلامی معاشرے کے خطوط کا تعیّن کیا ، اسلامی معاشرے کی راہنمائی کی اور اس کی پیشرفت وترقّی کی راہوں کو ہموار کیا ۔ اور صدر اسلام کی جو بڑی بڑی شخصیات مورد مذمّت قرار پائیں وہ بھی مے نوشی یا نماز ادا نہ کرنے  کی وجہ سے مورد مذمّت نہیں قرار پائیں ؛ بلکہ ان کی ملامت اس لئے کی جاتی ہے کہ وہ اس میدان میں حاضر نہیں ہوئیں جہاں انہیں حاضر ہونا چاہیے تھا۔ اگر آپ تاریخ کا بغور جائز لیں گے تو آپ کو یہی علل و اسباب نظر آئیں گے ۔ پس روحانی ، معنوی اور توحیدی کام ، نماز پڑھنے تک محدود نہیں ہے ؛اگر چہ نماز کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا چونکہ نماز ان تمام امور کی بنیاد و اساس ہے ۔ تلاوت قرآن ، اس میں تدبّر اور غور و فکر ، خدا کی بارگاہ میں تضرّع اور گریہ و زاری ، معصومین علیھم السّلام سے منقول دعاؤں ( صحیفہ سجادیہ کی دعائیں، دعائے عرفہ ، دعائے کمیل اور دیگر دعائیں ) کو پڑھنے سے انسانی وجود کے موٹر کی رفتار کو بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے ؛ اگر آپ خدا سے مانوس ہوں گے ، اپنے اور اپنے معبود کے رابطے کی اصلاح کریں گے ، تو آپ ان کاموں کو آسانی سے انجام دیں گے ؛ اور انہیں زیادہ ذوق و شوق سے انجام دیں گے ۔ لہٰذا جو بھی شخص راہ خدا میں قدم رکھتا ہے خدا بھی اس کی مدد کرتا ہے ۔ دنیوی امور کا بھی یہی حال ہے ۔ وہ لوگ جن کا مقصد و ہدف ، دنیا ، دنیوی منصب ، پوسٹ ومقام ، عیش عشرت ، جنسی لذّت اور ان جیسی چیزیں ہیں ( جن کی مثالیں کم نہیں ہیں ) وہ لوگ بھی جب ان پست و حقیر مقاصد و اہداف کے لئے کوشش و جد وجہد کرتے ہیں تو خداوند عالم ان کی بھی مدد کرتا ہے ۔ ان کی مدد کا مطلب یہ ہے کہ خدا ان کے لئے ان مقاصد و اہداف کے  وسائل کو فراہم کرتا ہے ۔ وہ ہمّت سے کام لیتے ہیں ، لیکن ان کا ہدف محض ایک مادی ہدف ہوتا ہے ؛اپنے مقصد تک تو پہنچ جاتے ہیں لیکن روحانی ، الٰہی اور اخروی پہلو کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے آخرت میں خسارہ اٹھائیں گے ؛ البتّہ اپنے مادی مقصد میں ضرور کامیاب ہوں گے ۔

آپ خواتین و حضرات جو یہاں تشریف فرما ہیں خود بھی  ملک کے مختلف شعبوں کے ذمہ دارہیں اور یہ وہی باتیں ہیں جو آپ عام طور پر دوسروں سے کہتے رہتے ہیں ؛ یہ باتیں آپ کے لئے کوئی نئی باتیں نہیں ہیں ؛ ہم انہیں تذکّر اور یاد دہانی کے طور پر عرض کر رہے ہیں ، ہر انسان کے لئے تذکّر، لازم و ضروری ہے ۔ تذ کّر اور یاد دہانی پر وہ نتائج مرتّب ہوتے ہیں جو جاننے اور علم پر مرتّب نہیں ہوتے ۔ بہت سی چیزیں ہمیں معلوم ہوتی ہیں لیکن ہمارے لئے  ان کی یاد دہانی ضروی ہوتی ہے تاکہ ہمیں معلوم ہو کہ ہم کہاں ہیں ، کیا کر رہے ہیں اور ہمارا مقصد و ہدف کیا ہے ؟ ہمارا ہدف ، دنیا کے یہ چند ٹکے نہیں ہیں کہ جن کی خاطر ہم اپنے عظیم فریضہ کو بھول جائیں اوراعلیٰ مقاصد و اہداف سے صرف نظر کر لیں ۔ ہمار ا مقصد ہر کسی کی مدح و ثنا اور چاپلوسی کرنا نہیں ہے جس کے ذریعہ ہم کچھ دن کے لئے کسی منصب کو حاصل کر سکیں اور چند لوگ ہماری تعظیم بجا لائیں ۔ یہ چیزیں انسان کے لئے بہت حقیر و ناچیز ہیں ۔ بلکہ ہمارا مقصد ، فلاح اور کامیابی  ہے ۔"قد افلح المؤمنون '' ؛ (وہ ایمان والے یقینا فلاح پاگئے ) (۲) ہمیں فلاح و کامیابی کو اپنا مقصد قرار دینا چاہیے ۔ ہمیں حقیقی زندگانی کی فکر میں رہنا چاہیے جو ،چند سال ، چند دن ، یا چندگھنٹوں میں ہم سب کے لئے شروع ہونے والی ہے ۔ اس جسمانی اور مادی موت سے حقیقی زندگانی کے دور کا آغاز ہوگا ۔ ہمارا مقصد یہ ہو کہ ہم اس زندگی کو آباد کر سکیں ؛ دنیوی زندگی  ، اخروی زندگی کاپیش خیمہ ہے ۔

چونکہ یہاں پر ملک کے تینوں اعلیٰ اداروں ( حکومت ، پارلیمان اور عدلیہ )  کے تقریباسبھی اعلیٰ عہدیدار تشریف فرما ہیں اس لئے ہم ایک انتہائی اہم چیز کی طرف اشارہ کرنا چاہتے ہیں اور وہ چیز ان اداروں میں " ہم آہنگی " اور باہمی تال میل کا مسئلہ ہے ۔ فکر و نظر اور سلیقے میں ہم آہنگی نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی زیادہ مطلوب ہے ۔ نکتہ نظر اور سلیقے کے اختلاف کی وجہ سے بحث و گفتگو کا ماحول پیدا ہوتا ہے جس سے نئے نئے میدان دریافت ہوتے ہیں ۔ لہٰذا ہم  یہ گزارش نہیں کرتے کہ تمام مسائل میں سبھی افراد ہم فکری کا مظاہرہ کریں ؛ ہم یہ نہیں چاہتے اور چیز عملی طور پر ممکن بھی نہیں ہے ۔ خلقت بشر کی ابتداء سے ، فکر و نظر ، فہم اور سلیقے کا اختلاف انسان کی ترقّی و پیشرفت کا باعث بنا ہے ۔ لیکن ان اختلافات کے باوجود حرکت و رفتار میں ہم آہنگی بہت ضروری ہے ۔ اگر کوئی قافلہ اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہو، قافلے کے افراد کے درمیان کسی بات پر اختلاف ہو ، وہ آپس میں بحث و تبادلہ خیال کریں ، علمی گفتگو کریں ، سیاسی گفتگو کریں ، اور روزمرّہ زندگی کے مختلف مسائل  کے بارے میں بحث و گفتگو کریں ، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے ، اگر یہ مذاکرات کسی نتیجے پر منتج ہوں تو بہت بہتر ، لیکن اگر کسی نتیجے پر نہ پہنچیں تو اس میں بھی کوئی قباحت نہیں ہے ؛ لیکن اس حرکت ، اس سفر کو بہرحال جاری رہنا چاہیے ۔ یہ سفر متوقّف نہ ہو ۔ فکر و نظر کا اختلاف اس بات کا باعث نہ بنے کہ یہ لوگ اپنے راہوار ، اپنی سواری کو ناکارہ بنا دیں اور بے سود بحث و گفتگو میں مشغول رہیں ؛ یا یہ کہیں کہ اب جب کہ ہم اس علمی مسئلہ میں کسی خاص نتیجے پر پہنچنے میں کامیاب نہیں ہوئے تو ہر کوئی اپنے اپنے راستے پر چلے ؛ نہیں جناب ؛ یہ درست نہیں ہے ، ہم ایک ہی منزل کے راہی ہیں ، ہمارا ہدف بھی ایک ہے تو پھر راستے الگ کیوں ہوں ۔ ملک کے تینوں اعلیٰ اداروں کواس کردار کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔ میرے عزیزدوستو! ان تینوں اداروں کے عزیز بھائیواور بہنو!آپ ہوشیار اور چوکس رہیے کہ بڑے بڑے منصوبوں اور فیصلوں میں آپ کے مابین ہم آہنگی اور تال میل محفوظ رہے ۔ یہ اختلافات ، بنیادی امور میں اختلافات پر منتج نہ ہوں ۔

اس وقت پانچویں ترقّیاتی منصوبے کا مرحلہ ہمارے سامنے ہے ۔ پانچویں ترقّیاتی منصوبے نے ہمارے کندھوں پر عظیم ذمّہ داریاں رکھی ہیں ۔ البتّہ یہ طبیعی بات ہے کہ ان ذمّہ داریوں کا زیادہ تر بوجھ حکومت کے شانوں پر ہے چونکہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے اور اس کے اجرا کی ذمّہ داری حکومت کی ہے ۔ لیکن عدلیہ ، ملکی پارلیمان اور دیگر مربوطہ ادارے بھی ذمہ دارہیں اور ان کا بھی اس میں  اہم اور مؤثر کردار ہے ۔ اگر ہم قدم قدم پر ایک دوسرے سے الجھنے، اور معمولی معمولی بات پر ایک دوسرے سے خفا ہو نے اور ایک دوسرے سے  عدم تعاون کی ٹھان لیں تو کام آگے نہیں بڑھے گا ۔ ایک دوسرے کا تعاون کیجئیے ، ایک دوسرے کا ہاتھ بٹائیے ، اور اس ادارے کے لئے راستہ ہموار کیجئیے جس پر اس منصوبے کے اجراء کی ذمّہ داری ہے ۔ البتّہ ملک کی مصلحت کو بھی مد نظر رکھئیے ۔ لیکن اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک دوسرے کا تعاون کیجئیے تاکہ کام آگے بڑھ سکے ۔

میں تینوں اعلی ٰ اداروں کے درمیان ، ہم آہنگی پر بہت زیادہ زور دیتا ہوں  ۔ تاکہ ہم ملک کے بیس سالہ ترقیاتی منصوبے کو جامہ عمل پہنا سکیں ۔ اس منصوبے کے اہداف و مقاصد بہت واضح و آشکار اور اہم ہیں ۔ البتّہ اگر ہم زیادہ ہمت و محنت سے کام لیں تو ان اہداف ومقاصد سے بھی آگے جا سکتے ہیں ۔ یہ چیز خارج  از امکان نہیں ہے ۔ جیسا کہ ہم مشاہدہ کر رہے ہیں کہ  بعض شعبوں میں ، بیس سالہ منصوبے میں معیّنہ وقت سے ہم  کافی آگے ہیں ۔ ممکن ہے کہ بعض شعبوں میں تھوڑے پیچھے ہوں ۔ لیکن کچھ شعبوں میں بہر حال ،ہم  مقرّرہ وقت سے آگے ہیں ۔ اور ہمیں ان  میں کسی قسم کی دشواری  کا سامنا نہیں کرنا پڑا ۔ ہم ان اہداف سے بھی آگے بڑھ سکتے ہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی کوشش اور محنت کو جاری رکھیں ، جس کے لئے دگنی ہمّت لازم ہے ۔

ہمیں دنیوی و اخروی، دونوں میدانوں میں کوشش و محنت کرنا چاہیے ۔ آپ اپنے فردی اور خدا سے روابط کے متعلق جس قدر ہمّت و محنت  سے کام لے سکتے ہیں اسے بروئے کا ر لائیے ؛ اسے بھی غفلت اور فراموشی کا شکار نہ ہونے دیجئیے ۔ خداوند متعال سے ہمارا رابطہ ، بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔ اگر ہم ان چیزوں سے مانوس ہوں گے تو خدا بھی ہماری مدد کرے گا ۔ ؛ جیسا کہ آج تک وہ ہماری مدد کرتا آیا ہے ۔ ثقافتی مسائل بھی بہت اہم ہیں ۔ عمومی ثقافت  کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔عام لوگوں کی زندگی میں " دینی ظواہر " کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ یہ دینی ظواہر ، باطن کا مظہر ہیں ۔ میں یہاں پر نظم و نسق قائم کرنے والی پولیس، ریڈیو و ٹیلیویژن ، ہسپتالوں میں کام کرنے والے عملے اور ملک کے دیگر اداروں کا تہ دل سے مشکور ہوں جنہوں نے عید نوروز کی تعطیلا ت میں عوام کی خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔ان اداروں نے  عوام کے آرام و آسائش کے لئے ہر ممکن کوشش کی ، حکومت اور دیگر سطحوں پر کافی اچھی کوششیں کی گئیں ۔ یقینا ان لوگوں نے اپنے عزم و عمل کا بہترین مظاہرہ کیا ۔ اور عوام کے لئے آرام و آسائش ، امن و سکون کا ماحول فراہم کیا ؛ یہ چیز بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے ۔

کتنا اچھا ہے کہ سرکاری ادارے ، تعطیلات کے اختتام سے ہی اپنے کاموں میں جی جان سے جٹ جائیں ۔ خوش قسمتی سے بعض اداروں نے تعطیلات کے دوران بھی اپنی ذمّہ داریوں کو  نہایت خوش اسلوبی سے  انجام دیا۔  جب ماہ فروردین ( ۲۱ مارچ کے  بعد کے ایام )کے ابتدائی ایام میں سرکاری تعطیلات تھیں تو یہ ادارے مصروف عمل تھے۔ آپ ، میدان عمل اور کام کے مورچوں میں ، جذبہ عمل اور کوشش کو جس قدر فروغ دے سکتے ہیں، فروغ دیجئیے ، یہ بہت اچھا کام ہے ، یہ  کام ہمارے معاشرے کی برق رفتار ترقّی اور اس کی نشاط میں مددگارہو سکتا ہے ۔

خداوند متعال کی بارگاہ میں آپ سبھی حضرات کی توفیقات اور تائید وحمایت کے لئے طالب دعا ہیں  ۔ جیسا کہ ہم نے سنا  ہے کہ  حکومت کی طرف سے دی جانے والی سبسڈی کو بامقصد بنانے کے لئے ، جو منصوبہ پیش کیا گیا  ہے ، اس پر کوئی سمجھوتہ طے پایا ہے، انشاء اللہ اس منصوبےپرایک بہترین سمجھوتہ طے پائے اور اچھے اچھے اقدامات کئے جائیں تاکہ عام لوگ آپ کی تدابیر اور کاوشوں سے مستفید ہو سکیں ۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) سورہ اسراء : آیت نمبر ۲۰

(۲) سورہ مؤمنون : آیت نمبر ۱