ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا ملک بھر کے اساتذہ کے ایک بڑے اجتماع سے خطاب

بسم‌اللَّہ‌الرّحمن‌الرّحيم‌

آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں کو بہت بہت خوش آمدید کہتا ہوں ، " روز معلّم " آپ سبھی حضرات، ملک بھر کے اساتذہ اور پوری ایرانی قوم کو مبارک ہو ۔ ایک عظیم معلّم کے یوم شہادت کو " روز معلّم " قرار دیا جانا ہمارے لئیے ایک سبق آموز واقعہ ہے ؛ یہ ایک علامتی اقدام ہے ؛ یعنی تعلیم و تربیّت کے کام کی اس قدر عظمت ہے کہ  فکری ، علمی اور زندگی کے دیگر بنیادی امور میں اس  کا ناقابل تردید کرداراس عظیم  پیشے اور شریف شغل کا نقطہ مطلوب ہے جیسا کہ شہید مطہری (رضوان اللہ تعالی ٰ علیہ ) کی بابرکت زندگی میں یہی خصوصیت نمایاں نظر آتی ہے ۔ ایک بنیادی نوعیت کا نکتہ یہ ہے کہ ملک کے اساتذہ اور معلّموں  کے طبقے کو ہمیشہ ہی اپنی ذمّہ داریوں کی عظمت کا احساس ہونا چاہیے ۔ اگر کسی شخص کو اپنے کام کی عظمت کا احساس ہوجائے تو اس کے عزم و حوصلے ، جوش و ولولے ، ایمان و کوشش میں کئی گنا اضافہ ہو سکتا ہے ۔ اس کی مثال اس مجاہد کی سی ہے جو محاذ جنگ کے کسی حساس نقطے  پر اپنے جذبہ جہاد و ایثار کے جلوے بکھیر رہا ہو؛ اس مجاہد کے اس عمل کا نقش اس قدر عظیم ہو کہ اس کی تاثیر اور فائدہ پورے محاذ تک پہنچ سکتا ہو ، اگر اس مجاہد کو اس بات کا علم ہو تو وہ تھکن کا نام تک بھی نہیں لے گا ؛اسے کسی بھی تکلیف کا احساس نہیں ہوگا؛ اس کے دل پر مایوسی کا کوئی بھی عامل مؤثر نہیں ہوگا۔ یہ نکتہ  ہمیشہ ہی  ہمارے اساتذہ اور معلموں کے  ملحوظ نظر رہے کہ کسی بھی معاشرے کے لئیے استاد کا کردار ایک کلیدی اور حیاتی کردار ہوا کرتا ہے ، اس کا موازنہ معاشرے کے دیگر بہت سے اہم اور حسّاس کرداروں سے ہر گز نہیں کیا جاسکتا ۔

یہ خام مادّہ جسے معلّم کے سپرد کیا جاتا ہے ؛ ایک سادہ تختی کی مانند ہے ؛ کسی شاعر کے بقول " من کہ لوح سادہ ام ، ہر نقش را آمادہ ام " ؛ میں ایک سادہ تختی کی طرح ہوں ؛ کسی بھی نقش و نگار کو قبول کرنے کےلئیے تیّار ہوں  ، معلّم اپنے ہاتھوں سے اس سادہ تختی پر اپنی پسندیدہ تصویر بناتا ہے اور اسے ایک نئی شناخت  عطا کرتا ہے ۔ ماں باپ ، سماجی و معاشرتی علل و اسباب اور ہمارے دور کا میڈیا  اور دیگر  ارتباطاتی وسائل یہ سبھی بچّوں کی تربیت میں اپنا مؤثر کردار ادا کرتے ہیں لیکن  ان کی تربیت میں معلّم کا کردار ان سب  سےممتازاور برجستہ ہے  ۔معلّم، اس خام مادّہ کو موروثی عوامل کی قید واسارت سے بھی چھٹکارا دلا سکتا ہے؛ علمی وسائنسی اعتبار سے یہ بات ثابت ہو چکی ہے  ۔جس طریقے سے مختلف تدابیر و احتیاطی اقدامات کے ذریعہ موروثی  جسمانی بیماریوں اور عوارض کےعوامل کی روک تھام کی جاسکتی ہے ویسے ہی موروثی معنوی اور اخلاقی  بیماریوں کے عوامل کی بھی روک تھام کی جاسکتی ہے ۔ معلّم ، اس بچّے یا نوجوان کو ایک عالم ، صاحب َ فکر ، جذبہ تحقیق سے سرشار شخص میں بھی تبدیل کر سکتا ہے اور اسے علم و تحقیق سے بیگانہ بھی بنا سکتا ہے ، اسے ایک شریف النّفس ، زندل دل اورپاک سیرت  انسان میں بھی تبدیل کر سکتا ہے اور اس کے برخلاف ایک شریر،بد اخلاق ، بد اطوار، بد اندیش انسان میں  بھی بدل سکتا ہے ، اسے خوش فکر ، امیدوار اور مردِ عمل بھی بنا سکتا ہے ،اس کے بر عکس اسے ایک مایوس ، ناامّید اور معاشرے سے گوشہ نشین اور کنارہ کش فرد میں بھی تبدیل کر سکتا ہے ، اسی طرح استاد اپنے شاگرد کو ایک دیندار ، متّقی و پرہیزگار ، اور پاک دامن  شخص میں بھی تبدیل کر سکتا ہے،اور اس کے برخلاف اسے ایک لاپرواہ ،  اخلاقی اقدار اور دینی تعلیمات سے غافل و بے توجہ شخص میں بھی بدل سکتا ہے ؛ یہانتک کہ استاد کی تربیّت ، میڈیا اور اس جیسے دیگربیرونی تربیتی عوامل پر بھی غالب آسکتی ہے ۔ بلکہ اس سے بھی بڑھ کر ایک استاد اس خام مادّے اور نوجوان کے آمادہ دل کی اپنی سالہاسال کی تعلیم و تربیت سے والدین کے تربیتی کردار پر بھی غلبہ حاصل کر سکتا ہے ؛معلّم کا کردار اس درجہ اہمیت رکھتا ہے۔

ہرمعاشرے کو صاحب ایمان ،  عزم و ارادے  سے سرشار ،  صبر و شکیبائی سے لبریز،  پر امّید ، خوش فکر ، قومی مفادات سے لگاؤ رکھنے والے ، فردی و اجتماعی طور پر نقطہ عروج و کمال میں دلچسپی رکھنے والے ،جدّت پسند، صاحب فکر ، محقّق اور ترقّی وپیشرفت کے متمنی افراد کی ضرورت ہوتی  ہے ۔ ایسے افراد کی تربیت کس کی ذمّہ داری ہے ؟ اسی  سے معلّم کے کردار کی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔ تعلیم و ترمیت کا شعبہ ایک انتہائی اہم اور حسّاس شعبہ ہے ۔

البتّہ تعلیم و تربیت اور معلّم کے کردارکے مسئلہ پر سیر حاصل بحث و گفتگو ہو چکی  ہے ، اس سلسلے میں بہت سی باتیں کہی گئی ہیں لیکن ہم موجودہ دور میں اس پوزیشن میں نہیں ہیں کہ صرف زبانی جمع خرچی پر اکتفا کرلیں ؛ ہمیں اس دور میں عمل کی ضرورت ہے۔ خواہ وہ  وزارت تعلیم کے اعلیٰ عہدیدار ہوں یا ملک بھر کے  پرائمری ، مڈل یا اعلیٰ تعلیم کے  اساتذہ  ہوں ، یہ سبھی اس ملک کے مستقبل کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ محکمہ تعلیم کی بنیادی تبدیلی  ایک بہت  بنیادی کام ہے ، ہم نے  ملکی حکام اور محکمہ تعلیم  سے وابستہ اعلیٰ عہدیداروں کو بارہا اس کی یاد دہانی کی ہے ؛ جیسا کہ اعلیٰ تعلیم کے وفاقی وزیر کی  تقریر میں آپ سبھی نے سنا کہ الحمد للہ اس سلسلے میں بہت  سے اچھے اقدامات کئے گئے ہیں  تاکہ ہماری ضرورتوں، عظیم مقاصد اور ملک کی صلاحیتوں اور  افرادی قوّت  کے پیش نظر ، ملک کے تعلیمی نظام میں ایک بنیادی تبدیلی رونما ہو ؛ یہ بات اپنی جگہ درست ، اور میں بھی اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں ، کہ اس کام کو متوقّف نہ ہونے دیجئیے ، اسے  دگنی ہمت اوراتھاہ عزم و ارادے سے جاری رکھئیے، اس کے آخر تک اس کا پیچھا کیجئیے ، یقینا یہ ایک بہت مشکل کام ہے ؛ لیکن اپنے ذاتی عزم و ارادے اور  اپنی ذمّہ داری کے احساس کے اعتبار سے کوئی بھی معلّم اس بات کا منتظر نہیں رہ سکتا ہے کہ  محکمہ تعلیم میں یہ مطلوبہ پوزیشن حکم فرما ہو تب وہ اپنی ذمہ داریوں کو نبھائے ۔ آپ عزیزاساتذہ اور ملک بھر کے معلّموں سے میری یہ گزارش ہے کہ آپ اپنے اس عظیم کردار پر یقین رکھئیے؛ اور یہ جان لیجئیے کہ ملک کے مستقبل کی تعمیر کے سلسلے میں آپ کتنا عظیم کردار ادا کر رہے ہیں ۔

گزشتہ چند صدیوں کے دوران ہمارا ملک ، سنگین نقصانات ، عظیم پسماندگیوں اور ناقابل تلافی غفلتوں کا شکار رہا ہے ؛ آج ہم اس صورت حال کا مشاہدہ کر رہے ہیں ۔ انقلا ب اسلامی   اور اس نئی تحریک کے معرض وجود میں آنے کے بعد اس ملک کو اس راستے پر چلنا چاہیے جو اس قوم  ، اس کے تاریخی ورثے ، اس کی اسلامی شناخت  کے شایان شان ہے ، اس مقصد کے حصول کی خاطر ایک عظیم جدّوجہد کی ضرورت ہے ۔

     معلّم حضرات اس بات پر خصوصی توجّہ دیں کہ ملک کے مستقبل کے لئیے ہمیں کیسے انسانوں کی ضرورت ہے ؟ اس ملک کی تعمیر و ترقّی کے لئیے ہمارے مردوں اور خواتین میں کن خصوصیات  کا ہونا ضروری ہے ؟ یہ آپ کے دائرہ اختیار میں ہے ۔ وہ بچّہ یا نوجوان جو کلاس میں آپ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کئیے بیٹھا ہے ، وہ مکمّل طورپر آپ کےدائرہ اختیار میں ہے ، آپ اپنی گفتار و رفتار ، روش و منش کے ذریعہ اس میں خود اعتمادی پیدا کر سکتے ہیں ، اس میں امید پیدا سکتے ہیں ، انہیں زندگی کے بڑے بڑے میدانوں میں قدم رکھنے کے لئیے تیار کر سکتے ہیں ؛ اس کے سزاوار ، روح دیانت کو اس میں پھونک سکتے ہیں ، آپ اسے ایک ہوشیار و چالاک ، محنتی ، ایک اچھا شہری ، قومی اور سماجی مصلحتوں سے لگاؤ رکھنے والا شخص بنا سکتے ہیں ؛ اس کے اندر جدّت پسندی کی روح پھونک سکتے ہیں ۔ ہمارا تیزفہم دانشمند معلّم،   اپنی  کلاس درس  کے دائرے میں ہی ان امور کو انجام دے سکتا ہے ، یہ ملک بھر کے تمام اساتذہ اور معلّموں کا فریضہ عام ہے ۔

البتّہ  یہ بات یاد رہے کہ ہمارے اساتذہ اور معلّمین ، ان امور کو عملی جامہ پہنا نے کے لئیے معاشرے کے روشن خیال ، اہل فکر ونظر اور تعلیمی وتربیتی ماہرین کی راہنمائی ،ان کی آراء و تجاویز  اورصلاح مشورے کے محتاج ہیں ۔ اس احساس ِ ضرورت سے ایسے ماہرین  کی مانگ  سامنے آئے گی ،  ضرورت  ، ایجاد کی ماں ہے  اس قاعدے کی  بنا پر ملک میں فوری طورپر ان افراد کی تربیت کے مراکز قائم ہوں گے، اور ملک کی ضرورت کے مطابق ایسے افراد کی تربیت ہوگی ۔ جب تک ہمارے اندر احساسِ ضرورت پیدا نہ ہو، ہم مطالبہ نہ کریں ، تب تک ہماری ضرورت کی چیز تیار نہیں ہوگی ۔ شعبہ تعلیم و تربیّت کا کردار اس درجہ اہم ہے ۔

اپنے عظیم و گرانقدر شھید مرحوم آیۃ اللہ مطہّری ( رضوان اللہ تعالی ٰ علیہ ) کے سلسلے میں بھی ایک جملہ عرض کرتا چلوں :  اس عظیم مرد کی گفتار و رفتار ، حقیقی معنیٰ میں ایک کامل اور فرض شناس " معلّم " کی آئینہ دار تھی ۔  موصوف نے کسی بھی ایسے میدان میں قدم رکھنے سےہرگز گریز نہیں کیا جہاں ایک اسلامی مفکّر کی موجودگی لازم وضروری تھی ۔ بے جاتکلّفات اور مصلحتیں ان کے آڑے نہیں آئیں، انہوں نے سیاسی اور  فکری  دونوں میدانوں میں قدم رکھا،   جن سوالات نے اس دور کے جوانوں کے ذہنوں کو جکڑ رکھا تھا ان کے قانع کنندہ جوابات دئیے ۔ شہیدمطہّری ، معاشرے کے ان نام نہاد روشن خیال مذہبی شخصیات میں سے نہیں تھے جو مغربی اور غیر اسلامی نظریات کو دین کے رنگ میں رنگ کر پیش کرتے ہیں ان  پر دینی غلاف چڑھاتے ہیں ، بلکہ شہید مطہّری اس کے بالکل برعکس ، دین اسلام کے حقیقی مفاہیم کو نئے اسلوب و پیرایے میں، نئی ترتیب ،وقت کے تقاضوں اور ضرورتوں ، اپنے مخاطبین کے ذہنوں میں پیدا ہونے والے سؤالات اور ان کی ضرور ت  کے مطابق پیش کیاکرتے تھے ۔ انہیں اس کی فکر نہیں تھی کہ کوئی خاص گروہ ، کوئی خاص جماعت ،  کوئی خاص فکری مجموعہ ان کی تعریف وستایش کرے ۔ انہوں نے فکری پسماندگی ، رجعت پسندی ، کٹھ ملّائیت اور دینی مسائل کے بارے میں کج فکری ( جو کہ رجعت پسندی اور کٹھ ملّائیت  کا ثمرہ تھی ) سے اسی شدّت سے مقابلہ کیا جس شدّت سے انہوں نے بدعتوں ، فکری انحراف اور غیر اسلامی نظریات کو اسلامی نظریات میں مخلوط کرنے کا مقابلہ کیا ۔یہ اس عظیم شخصیت کی سب سے بڑی خصوصیت تھی ۔انہوں نے کبھی بھی تھکن کا نام نہیں لیا اور ہمیشہ ہی علمی جہاد میں مصروف رہے ۔ انہیں نام و نمود، حوزہ و یونیورسٹی کی کسی ڈگری اور عنوان  کی ہرگز کوئی فکر نہیں تھی ۔ وہ فکر و نظر کے مجاہد کے عنوان سے اس میدان میں داخل ہوئے ۔ اور پورے اخلاص سے اس میں مشغو ل رہے ، پروردگار عالم نے اسی خلوص کی بنا پر آپ کی اس قلمی خدمت کو برکت عطا کی ۔ جس کی وجہ سے ، مرحوم کی شہادت سے تیس سال کا عرصہ گزرنے کے بعد ، آج بھی ان کی باتیں نئی اور تازہ معلوم ہوتی ہیں ، ان کے افکار و نظریات آج بھی  زندہ ہیں ؛ گویا ان باتوں کو آج کے دور کے لئیے لکھا گیا  ہے ۔ آج سے تیس سال پہلے بھی ہرسطح ِ فکر کے لوگ ان کی تحریر وں ، ان کے افکار و نظریات سے استفادہ کرتے تھے ، اور اپنے سوالات کا جواب حاصل کرتے تھے ، آج ، جب کہ فکری سطح کافی آگے بڑھ چکی ہے اور بہت سے مسائل حل ہوچکے ہیں اس کے باوجود ، مرحوم کی کتابیں جدید سؤالات  کے جوابات فراہم کرتی ہیں ۔ یہ مرحوم کی عمیق فکر اور خلوص نیّت کا ثمرہ ہے ۔

خلوص ِ نیت ایک معجزنما چیز ہے ، جب کوئی انسان اللہ تعالی کی خوشنودی اور اس کی مرضی کے مطابق قدم رکھتا ہے تو خدا بھی اس کے عمل میں خیر وبرکت عطا کرتا ہے ؛یہی وجہ کہ اس عظیم شخصیت ، اس عزیز شہید کا چند عشروں پر محیط عمل ہمارے معاشرے کے لئیے ایک دائمی سرمایہ بن چکا ہے ۔ہم سبھی کو زندگی کے ہر میدان میں اخلاص کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔

ہمارے ملک میں دینِ اسلام   کی آمد کے بعد ، اسلامی انقلاب کی کامیابی دوسرا بڑا واقعہ ہے ، عصر حاضر میں جب کہ اس عظیم واقعہ کو رونما ہوئے تیس سال کا عرصہ بیت چکا ہے ، ہمارے ملک و ملّت نے عالم اسلام کو اپنی طرف متوجّہ کر رکھا ہے ، اس انقلاب نے گزشتہ تیس سال کے دوران نہ  صرف ، اس خطے کے مسائل پر اپنا اثر چھوڑا بلکہ عالمی مسائل پر بھی اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ، الحمد للہ اس قوم نے گزشتہ تیس برسوں کے دوران ، مختلف شعبوں میں نمایاں ترقّی کی ہے ، آج ہمارے مفکّرین کو مستقبل کی منصوبہ سازی کرنا چاہیے کہ وہ آئندہ کیا کرنا چاہتے ہیں ۔

عالم اسلام ، انتشار و افتراق کا شکار ہے ۔ اہل اسلام ، قرآن اور اعلیٰ دینی تعلیمات کے باجود مختلف وجوہات کی بناپر پسماندگی سے دوچار ہیں ، یہ علل و اسباب کیا ہیں ؟ ہمیں ان کو پہچاننا چاہیے ۔ ایرانی قوم کا عزم وارادہ یہ ہونا چاہیے کہ وہ اس مقام پر پہنچ جائے کہ اس کا ہر عمل ، اس کا ہر نظریہ ، عالم اسلام کے لئیے ایک قابل اعتماد اور تسلیم شدہ منبع اور مصدر بن جائے ؛ تاکہ اقوام عالم کے روشن خیال افراداور ان کے  مفکّر ین  کو راستہ مل سکے ؛ یہ ایرانی قوم کی ایک تاریخی ذمّہ داری ہے ۔ یہ ہمارے اہداف کا راستہ ہے ؛ ہمیں اس راستے کو صحیح ڈھنگ سے طے کرنا چاہیے ؛ مکمّل خود اعتمادی سے اس راستے پر چلنا چاہیے ؛ اس سلسلے میں ہمیں اپنی تمام افرادی ، فکری قوّت ، اور اس خداداد صلاحیت کو بروئے کار لانا ہوگا جو پروردگار عالم نے ہماری ملّت میں بطور ِ امانت قرار دی ہے۔ اس صورت میں عالم اسلام کی تقدیر بدل جائے گی ، جس کے نتیجے میں پوری دنیا کی تقدیر بدل جائے گی ۔ آج کی دنیا ایک بہت ہی برے اور غلط راستے پر چل رہی ہے ، وہ انتہائی ناگفتہ بہ حالات سے دوچار ہے ، ہر طرف اخلاقی اقدار کو پامال کیا جارہا ہے ؛ مختلف قومیں اسی اخلاقی انحطاط  میں مبتلا اور گرفتارہوچکی ہیں ، مختلف قوموں کے مفکّر اس نقصان سے باخبر ہیں ؛ انہیں اس سے تکلیف پہنچ رہی ہے جس کا وہ برملا اظہار بھی کرتے ہیں ۔ ایسے راستے پر گام زن ہوا جاسکتا ہے جو عالم انسانیت کی نجات کا ضامن ہو،  عالم انسانیت کے سامنے جو ہولناک تقدیر  ہے اسے تبدیل کیا جاسکتا ہے ؛ اس کا سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ ہم اپنےاندریہ عظیم تبدیلی لائیں ، اور یہ تبدیلی ، تعلیم و تربیت کے ذریعہ ہی  شروع ہو سکتی ہے ۔ الحمد للہ گزشتہ تیس برس میں مختلف شعبوں میں اس کا بنیادی ڈھانچہ اس کی مطلوبہ شکل میں فراہم ہو چکا ہے ، اس بنیادی ڈھانچے کی بنیاد پر قدم بڑھایا جاسکتا ہے ۔اگر چہ ذمّہ داری بہت سنگین ہے ، راستہ بھی دشوار ہے لیکن اس راستے کی منزل پر نور ِالٰہی کو دیکھا جاسکتاہے ؛ ہم اسے دیکھ رہے ہیں ۔ اس راستے کا انجام روز روشن کی طرح عیاں ہے ، اس کا افق بالکل واضح ہے ،اس راستے کو بخوبی طے کیا جاسکتا ہے ۔

عداوتیں بھی پائی جاتی ہیں ۔ ایرانی قوم جس محاذپر بھی کامیابی حاصل کرتی ہے دنیا میں کچھ لوگوں کو اتنا ہی احساس ِ ناکامی ہوتا ہے ، دنیا  کے ستم پیشہ طاقتوروں  کا اس انقلاب کے خلاف صف آرائی کرنا ایک فطری ردّعمل ہے چونکہ اس انقلاب نے ان کے مفادات کو خطرے میں ڈال دیاہے ؛ یہ کوئی غیر مترقّبہ امر نہیں ہے ، جو قوم بھی ، زندگی کے اس عظیم پیکار کے میدان میں قدم رکھتی ہے اسے اس کا منتظر رہنا چاہیے ؛ یہ کوئی انوکھی چیز نہیں ہے ، ایرانی قوم نے انقلاب کے آغاز سے لے کر آج تک ان رکاوٹوں کے باوجود اپنے راستے کو جاری رکھا ہے ؛ ان رکاوٹوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ ایرانی قوم کا تجربہ بتاتا ہے کہ دشمنوں کی دھمکیاں ، ان کی باتیں ، ان کی مخالفتیں ، اس قوم کی حرکت کو کند کرنے میں کارگر اور مؤثر نہیں ہو سکتیں ، ایرانی قوم اپنے راستے پر گامزن رہے گی۔ سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ ہر کسی کو اپنے کردار و ذمّہ داری کا علم ہو ؛ ہر کوئی جہاں کہیں بھی ہواپنی ذمّہ داری کو ادا کرسکے ۔ اپنے فریضے کو پہچانے اور اسے انجام دے ؛ پروردگار عالم بھی آپ کی مددو نصرت فرمائے گا ۔

ہم دعا کرتے ہیں کہ ان حقائق کے پیش نظر محکمہ تعلیم سے وابستہ  سبھی افراد، دگنی محنت اور سعی پیہم  کے ذریعہ اس عظیم کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب ہوں ، آپ عزیز اساتذہ اس ملک میں جہاں کہیں بھی ہوں ، خداوند متعال پر مکمّل اعتماد و توکل ، اور اس کی رحمت اور ہدایت، اجر و ثواب  کے سایے میں اس کام کو آگے بڑھائیں۔ پروردگار عالم آپ سبھی کو اجر و ثواب عنایت فرمائے اور ہمارے عزیز شہیدوں کی پاک وطاہر  روحوں کو شاد فرمائےجنہوں نے اس قوم کو ان بنیادی مسائل کو حل کرنے کا  موقع عطا کیا ، انشاء اللہ پروردگار عالم ہمارے امام امت (رہ)( جنہوں نے ہمیں اس راہ کی جانب ہدایت و راہنمائی) کی روح ِ مطہّر کو اپنے اولیاء کی طیب و طاہر روحوں کے ساتھ محشور فرمائے اور آپ سبھی حضرات کو امام زمانہ (عج ) کی دعاؤں میں شامل کرے ۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ