بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم
خداوندِعالم آپ سبھی بھائیوں اور بہنوں، اہلِ بیت عصمت کے مداحوں ، ثناخوانوں ،شہزادیٔ کونین کے فضائل و مناقب کو بیان کرنے والوں اور پوری ایرانی قوم کے لئے اس عیدِسعید، اس عظیم ولادت اور تاریخِ اسلام کے اس مبارک دن کو مبارک قرار دے ، ہم اپنے پورے وجود سے پروردگارِعالم کے شکرگزار ہیں جس نے ہمارے دلوں کوعشق و محبّت ِاہل ِ بیت عصمت و طہارت علیہم السّلام کی دولت سے سرشار کیا اور اسے ہماری قوم کی سعادت وعزّت کا وسیلہ قرار دیا ۔
اگر شیعوں کے دلوں میں اہلِ بیت علیہم السّلام اور ان الٰہی و ربّانی عناصر سے عشق و محبّت کا دریا موج زن نہ ہوتا تو مکتبِ تشیّع اپنے مضبوط معارف کے باوجود اس قدر دشمنیوں اور عداوتوں کے درمیان تاریخ میں باقی نہ رہ پاتا، ہمیں اس والہانہ محبت اوربے لوث جذبات کو کم نہیں سمجھنا چاہیے ۔اگرچہ حق بات کے اثبات میں ،منطق و استدلال کی تاثیر بہت زیادہ ہواکرتی ہے ،اس کے بغیر کوئی بھی حق بات پائدار نہیں رہ سکتی لیکن عشق ومحبّت ، قلبی اور جذباتی لگاؤ کے بغیر اس حق کا فروغ ، اس کی طرف رجحان، تاریخِ اسلام میں اس کا بقا ہر گز ممکن نہیں تھا ۔یہی وجہ ہے کہ اسلام کے آغاز سے لے کر آج تک فکر و عقلانیت اور دلی و جذباتی لگاؤ میں چولی دامن کا ساتھ رہا ہے ۔
اگر آپ فتحِ مکّہ کے ایّام یعنی سنہ ۸ ہجری کی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ ملاحظہ کریں گے کہ جب پیغمبرِاسلام (ص) وضو کیا کرتے تھے تو صحابۂ کرام آپ (ص) کے چہرۂ اقدس سے زمین پر ٹپکنے والے قطروں کو اپنے ہاتھوں میں محفوظ کرنے اور اسے بعنوانِ تبرّک اپنے چہروں پر ملنے کے لئے ایک دوسرے پر سبقت لیا کرتے تھے ، یہ وہی جذباتی لگاؤ ہے ؛ یہ جذباتی لگاؤ ، معارف ِ نبوی کے سامنے دلی خضوع اور ان پر ایمان لانے سے مختلف ہے ؛ یہ ایک دوسری چیز ہے ، یہ وہی چیز ہے جس نے پیغمبرِاسلام (ص) کے برملا دشمن ابوسفیان کو حیرت زدہ کردیا ، جب ابوسفیان نے یہ منظر دیکھا تو بیساختہ بول پڑا: میں نے بہت سی طاقتوں، حکومتوں اور سلطنتوں کو دیکھا ہے لیکن دینِ اسلام کے سوا کسی طاقت کو نہیں دیکھا جس نے لوگوں کے دلوں میں اسلام کی مانند نفوذ پیداکیا ہو ، یہ قلبی لگاؤ اور جذباتی رشتہ ہے اس کی حفاظت کرنا چاہیے ۔
صدّیقۂ کبریٰ حضرت فاطمۂ زہراء سلام اللہ علیہا تاریخ ِانسانیت کی سب سے ممتاز وبرجستہ خاتون ، فخر ِاسلام وفخرِامّت ہیں ، حضرت فاطمہ زہراء کا رتبہ ایک ایسا بلند وبالا رتبہ ہے جو ہم جیسے عام انسانوں کے تصوّ ر کی حدوں میں نہیں آسکتا ، ہمارے لئے ان کے رتبہ کی معرفت بہت مشکل بلکہ محال ہے ، اس کی ایک بڑی وجہ آپ کی عصمت ہے ۔ حضرتِ زہراء سلام اللہ علیہا نہ تو منصب ِنبوّت پر فائز تھیں اور نہ ہی امام یا جانشینِ پیغمبر (ص)تھیں لیکن رتبہ کے لحاظ سے ان سے کسی درجہ کم نہیں تھیں ، آئمّۂ طاہرین علیہم السّلام آپ کا نامِ نامی نہایت عزّت و احترام سے لیا کرتے تھے ، اور" صحیفۂ فاطمی " کے معارف سے بعض چیزوں کو نقل کیا کرتے تھے ، یہ بہت عظیم چیز ہے اس سے حضرت ِ زہراء سلام اللہ علیہا کے رتبہ کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے ۔
آپ کی ظاہری زندگی میں جہاں ایک طرف علم و حکمت کادریا رواں ہے ، یہانتک کہ " خطبۂ فدکیہ " جیسے خطبہ میں بھی علم و حکمت کے سرچشمے جاری ہیں حالانکہ یہ خطبہ ایسے حالات میں دیا گیا ہے جہاں علم و حکمت ، تعلیم و تربیت پر گفتگو کا سازگار ماحول نہیں تھا درحقیقت یہ خطبہ ایک سیاسی بحث و گفتگو تھی لیکن اس کے باوجود یہ خطبہ عالی ترین معارف ِالٰہی پر مشتمل ہے ، آپ اس خطبہ کی حمد و ثنا، اس کے مقدّمہ پر نگاہ دوڑائیے تو آپ کو ایسا لگے گا کہ آپ کی زبانِ مبارک سے حکمت و معرفت کا دریا یوں رواں ہے گویا آپ کی زبان ِمبارک سے حکمت و معرفت کے موتی جھڑ رہے ہوں ، اس خطبہ کو شیعہ حضرات نے بھی نقل کیا ہے اور اہل ِ سنّت میں سے بعض نے اس کے کچھ جملوں کواور بعض نے پورا خطبہ نقل کیا ہے ، الحمد للہ یہ خطبہ آج بھی باقی ہے ، وہیں دوسری طرف آپ کی زندگی جہاد، ایثار و قربانی کا ایک مکمّل نمونہ ہے ، آپ ہر میدان میں کسی جان بکف سپاہی کی مانند فعّال و مؤثّر کردار ادا کرتی ہوئی نظر آتی ہیں ، اپنے بچپن کے زمانے میں شعبِ ابی طالب میں ، اپنے بابا کی حوصلہ افزائی اور امداد رسانی میں ، مدینہ کے سخت و دشوار حالات میں امیرالمؤمنیں حضرت علی علیہ السّلام کی ہمراہی میں، مختلف جنگوں میں ، غربتوں اور دھمکیوں میں ، مادّی زندگی کی مختلف سختیوں اور مصیبتوں میں ، پیغمبرِاسلام (ص) کی رحلت کے بعد امیرالمؤمنین علیہ السّلام کے مصائب و آلام میں ، مسجدِ مدینہ میں، بسترِ بیماری پر ، آپ ان تمام مراحل میں اپنی زندگی کے آخری لمحات تک کسی حکیم وعارف ومجاہد کی مانند سرگرمیوں اور کاوشوں میں مصروف رہیں ، اسی طریقہ سے آپ اپنی گھریلو ذمّہ داریوں میں ، زوجہ کے اعتبار سے ، ماں کے لحاظ سے ، بچّوں کی تربیت کے لحاظ سے ، اپنے شوہر سے مہربانی اور اس کی خدمت کے اعتبار سے ایک مثالی خاتون ہیں ، امیرالمؤمنین(ع) سے آپ کی گفتگو اور اس گفتگو کے الفاظ ، امیرالمؤمنین (ع)کے سامنے آپ کا خضوع وخشوع ، ان کی ہر بات پرتسلیم و اطاعت ، امام حسن اور امام حسین علیہما السّلام نیز حضرت زینب سلام اللہ علیہا جیسے بچّوں کی تربیت ، گھریلو ذمّہ داریوں ، تربیت ِاولاد اور محبتِ مادری کے سلسلے میں ایک خاتون کی آیت ِ عظمیٰ اور ایک مثالی خاتون کا نقطۂ عروج ہے ، آپ نے اٹھارہ سال کی مختصر سی عمر میں ، جواں سالی میں یہ تمام کارنامے انجام دئیے ، معنویت ، اخلاق وکردار کے نقطۂ کمال تک رسائی حاصل کی ، ایک ایسی شخصیت کا وجود کسی بھی معاشرے ، کسی بھی تاریخ اور قوم کے لئے باعثِ فخر قرار پاسکتا ہے ، تاریخ میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی ۔ان حقائق ومعارف کا علم ہمیں حضرتِ زہراء سلام اللہ علیہا کی صفات سے آگاہ کرتا ہے ، جب ہم خاتونِ جناں کے فضائل و مناقب اور مصائب و آلام کو سنتے ہیں تو ہماری آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب جاری ہوجاتا ہے ، فضائل و مناقب پر اشک ِشوق اور مصائب و آلام پر غم کے آنسو جاری ہو تے ہیں اس جذباتی لگاؤ اور عشق کے رشتہ کے سوا ہمارے دامن میں کچھ بھی نہیں ہے ؛ یہ وہی جذباتی ، معنوی اور روحانی رشتہ ہے اس کی حفاظت کرنا چاہیے ۔
شیعت کی تاریخ کی ابتداء سے آج تک شیعت کے فروغ کا ایک اصلی اور بنیادی عنصر یہی جذباتی لگاؤ ہے البتّہ یہ یاد رہے کہ یہ جذباتی لگاؤ ، حقیقت و منطق پر استوار ہے یہ کوئی بیہودہ و فضول رشتہ نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ قرآنِ مجید میں مؤدّت و محبتِ اہل بیت علیہم السّلام کو ہی اجرِرسالت قرار دیا گیا ہے " قل لا اسئلکم علیہ اجراالّا المودّۃ فی القربیٰ" ؛(۱) تو آپ کہہ دیجئیے کہ میں تم سے اس تبلیغِ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقرباء سے محبّت کرو ۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے اس پر توجّہ دینا چاہیے ۔ کسی بھی شکل و صورت میں اس محبّت کو داغ دار کرنا ، محبّت و اطاعتِ اہل بیت علیہم السّلام سے خیانت شمار ہوتا ہے ، ہر قیمت پر اس محبّت کی حفاظت کیجئیے ۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ ہمارے آئمّۂ طاہرین علیہم السّلام کے دور میں ان کے بے شمار شاگرد، محدّث، بالخصوص امام محمد باقر اور امام صاد ق علیہما السّلام کے دور میں عظیم فقہاء و علماء موجود تھے جنہوں نے اصول و فروع اور شریعت ِ اسلام کے دیگر مسائل کو نقل کیا، اخلاقی مسائل کو نقل کیا ، آئمّہ طاہرین سے جو سنا اسے ویسے ہی نقل کیا اپنی تحریروں میں محفوظ کیا لیکن اس کے ساتھ ساتھ دعبل ِخزاعی ، سید حمیری اور کمیت بن زیدِ اسدی کو بھی آئمّہ طاہرین علیہم السّلام کے نزدیک خصوصی مقام حاصل تھا حالانکہ جنابِ زرارہ ، محمّد بن مسلم اور ان جیسی دیگر عظیم شخصیتیں بھی اس دور میں موجود تھیں لیکن امام رضاعلیہ السّلام دعبل ِ خزاعی کو اپنی محبّت و شفقت سے نوازتے ہیں ، امام صادق علیہ السّلام سیّد حمیری کو اپنے لطف و محبّت سے نوازتے ہیں ، ایسا اس لئے ہے کہ شعراء کے اشعار میں، مدّاحوں کی مدح و ثنا میں بدرجۂ اتمّ و اکمل یہ جذباتی و والہانہ لگاؤ اور محبّت آمیز رشتہ موجزن ہے لیکن دوسری جگہوں میں یہ جذبات یا تو سرے سے پائے ہی نہیں جاتے یا بہت کم اور ناچیز ہیں ، دوسرے لفظوں میں ہم یوں کہہ سکتے ہیں کہ اشعار و مدح کے مقابلے میں دوسری چیزوں کی تاثیر بہت کم ہے ، شعر ، مدح و ثنا اور ذکرِ اہل ِ بیت (ع)کو تاریخِ تشیّع میں اس درجہ ممتاز مقام حاصل ہے ۔
اس جلسہ کی اکثریت ، اہل ِبیت عصمت وطہارت کے مدّاحوں ، ذاکروں اور ثناخوانوں پر مشتمل ہے ، اہلِ بیت علیہم السّلام کی مدح اور ذکر کا مقام بہت اونچا ہے ، میرا ارادہ یہ نہیں ہے کہ آپ کے حرفہ و فن اور ذمّہ داری کے سلسلے میں آپ کو اس راستہ پر ثابت قدم رہنے کی نصیحت کروں چونکہ یہ تحصیل ِ حاصل ہے آپ تو پہلے ہی اپنے ارادےو اشتیاق کی بنا پر اس میدان میں قدم رکھ چکے ہیں انشاء اللہ آپ پر خداکا لطف وکرم ،اس کاثواب اور آئمّۂ طاہرین علیہم السّلام کی نظرِ عنایت سایہ فگن ہے ، اس سے بھرپور استفادہ کیجئیے ؛ لیکن میں یہاں ایک نکتہ کی طرف آپ کی توجّہ مبذول کرانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ ہم اس ہنر کو صحیح طریقہ سےپہچانیں اور اس سے ویسا استفادہ کریں جیسا ہمارے آئمّۂ طاہرین علیہم السّلام کے مدِّ نظر ہے ، میں آپ عزیز بھائیوں اور اہل بیت علیہم السّلام کے مدّاحوں ، ثناخوانوں اور ذاکروں ، اور اس صنف و حرفہ سے متعلّق افراد سے یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ یہ کام ایک انتہائی قیمتی اور اہم کام ہے ، مذہبِ تشیّع کی بقا، شیعوں کے ایمان و معرفت کی پاسبانی اوراہل بیت(ع) کی اطاعت و پیروی میں اس کا ناقابلِ تردید کردار ہے ، آپ اپنے ہنر و حرفہ کی قدر و قیمت پہچانئیے ۔
گزشتہ بیس ، پچیس سال سے یہ جلسہ ہر سال اسی دن منعقد ہوتا آیا ہے، اس دوران مدّاحی اورمدّاحوں کے سلسلے میں کافی باتیں کہی گئی ہیں ، ہم نے بھی بہت کچھ عرض کیا ہے ، ہم اس سلسلہ میں کافی اچھی پیشرفت ، اچھّے امور اور جلوؤں کا مشاہدہ کر رہے ہیں لیکن میں آپ سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ موجودہ صلاحیتیں اور مواقع بہت زیادہ ہیں ، شاید میں نے اس سالانہ جلسہ میں شریک دوستوں سے بارہا یہ بات کہی ہو کہ کبھی کبھی آپ کے ایک شعر کی دلوں پر تاثیرکسی ماہرخطیب کی ایک گھنٹہ کی استدلالی بحث و گفتگو سے کہیں زیادہ ہوا کرتی ہے ، یہ بہت بڑی بات ہے ،ہمیں اس موقع سے بھر پور استفادہ کرنا چاہئے، ہم اس عظیم موقع سے فائدہ اٹھا کر ، عوام کے اہلِ بیت سے والہانہ لگاؤ کی مددسے اہلِ بیت علیہم السّلام کی تعلیمات کو ملک کے کونے کونے تک فروغ دے سکتے ہیں اور ان میں گہرائی پیدا کر سکتے ہیں یہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے ہمیں دورِحاضر میں اس کی سخت ضرورت ہے ، بلکہ یہ ہر دور کی ضرورت ہے ، ہمیں اپنے ایمان و ایقان کو مضبوط بنانے کی ضرورت ہے ، اسے واضح و روشن بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے ، اس میں ثبات اور پائداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دشمن کے پروپیگنڈے ہمارے ثباتِ قدم میں لغزش پیدا نہ کرسکیں ؛ ہمیں ہمیشہ ہی اس کی ضرورت ہے ۔ عصرِحاضر میں ، حقیقت ،اسلام اور معرفتِ اہل ِبیت (ع)کے دشمن نہایت کارگر وسائل سے لیس ہو کر میدان میں داخل ہو چکے ہیں ، آج وہ دوسرے کسی بھی دور کے مقابلہ میں زیادہ مسلح ہیں ، وہ قسم قسم کے حربوں اور ہتھکنڈوں کو استعمال کر رہے ہیں تاکہ اس معاشرے کو جمہوری ٔ اسلامی اور اس اسلامی سماج کو کمزور کر سکیں جس نے حق کے لئے قیام کیا ہے ، عالمِ اسلام کو اپنی طرف متوجّہ کیا ہے اور سامراج کے ناپاک عزائم کو مٹّی میں ملایا ہے ، وہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ اپنے حربوں کے ذریعہ ، ایران کی طاقت پر روک لگائیں ، مسلمان قوموں اور امّت مسلمہ کے نزدیک اس کی عزّت وآبرو پر ضرب لگائیں ۔
آپ نے گزشتہ تیس سال میں بے شمار عظیم معرکے سر کئے ہیں ،آپ کے دشمن کوئی معمولی دشمن نہیں ہیں انتہائی متکبر ، گھمنڈی اور مغرور دشمن ہیں ، دنیا کی تما م تسلّط پسند طاقتیں ، لٹیرے ، بڑے بڑے سرمایہ دار ، طاقت کی تمام لابیان ، پیسے اور طاقت کا تمام مافیا آپ کے مدِّ مقابل ہیں ، آپ نے ان سب کو شکست دی ، ان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کیں ، ایرانی قوم نے گزشتہ تیس برس میں انتہائی مؤثّر و فعّال کردار ادا کیا ہےاس کے دشمنوں کا کینہ و عداوت بے جا نہیں ہے اگر آپ نے ان کی چوریوں کے راستہ کو ان کے لئے سخت و دشوارنہ بنایا ہوتا ،اگر آپ نے ان کے سامراجی منصوبوں کی راہ میں رکاوٹیں نہ کھڑی کی ہوتیں تو وہ آپ سے اس قدر دشمنی نہ کرتے ، عصرِحاضر میں ایرانی قوم کے دشمن اس بات کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں کہ اس قوم کو اس کے اصلی محرّک یعنی دلیل و استدلال پر استوار ایمان سے منحرف کردیں ، اس مقصد کے حصول کی خاطر وہ قسم قسم کے حربے استعمال کر رہے ہیں ، باطل کو رائج کررہے ہیں ، بیہودہ سرگرمیاں وجود میں لا رہے ہیں ، بے جا فکری سرگرمیوں میں الجھانے کی کوشش کر رہے ہیں ، شہوانی اور سیاسی سرگرمیوں میں پھنسانے کی کوشش کر رہے ہیں ، فتنہ برپا کر رہے ہیں ، یہ سبھی چیزیں ان کی پالیسی کا حصّہ ہیں، ہمیں اس کے مقابلہ میں کیا کرنا چاہیے ؟ ہمیں اس ایمان کو مستحکم و مضبوط بنانا چاہیے جو ایرانی قوم کے قیام ، استقامت اور پائداری کا سب سے بڑا عنصر ہے ۔
ایک اہم عنصر جو اس عظیم مقصد کے حصول میں معاون ثابت ہو سکتا ہے عام لوگوں کے دلوں اور روحوں میں واضح انداز میں اسلامی ، معنوی اور انقلابی تعلیمات کا نفوذ، اور ان کے دلوں میں اہلِ بیت علیہم السّلام کی زیاد ہ سے زیادہ محبّت کابیج بونا ہے ، دورِحاضر میں ہم سب پر یہ ذمّہ داری عائد ہوتی ہے ، اس ذمّہ داری کا ایک اہم حصّہ مدّاحوں کے شانوں پر ہے ۔ آپ مدّاحی کے فن وحرفہ کو اس نگاہ سے دیکھیں ، جب آپ مدّاحی کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تواپنے آپ کو دینی مبلّغ اوردینی حقائق کا ترجمان سمجھیں آپ کا طریقۂ کار ان حقائق کو عام لوگوں تک پہنچانے کا انتہائی مؤثّر طریقہ ہے ، اگر آپ پر یہ احساس حکم فرما ہو تو آپ، شعر کے انتخاب میں بھی دقّت سے کام لیں گے ، اشعار کی ادائیگی کا شیوہ بدل جائےگا، ذمّہ دار لوگ محدودیت کے دائرے میں رہتے ہیں اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے ۔اس کام کو آپ خود انجام دیں ،یہ آپ کا کام ہے ، آج اگر کوئی شخص آپ سے یہ سؤال کرے کہ " مدّاحی کے حرفہ میں کون سی چیزیں ضروری ہیں؟ " اگر کوئی مدّاحی کا پیشہ اختیار کرنا چاہے تو اس کے لئے کن چیزوں کی ضرورت ہے ؟ تو آپ کم سے کم دو ،تین چیزوں کو ضرور شمار کریں گے ، آپ اسے جواب دیں گے کہ سب سے پہلی شرط یہ ہے کہ اس کی آواز اچھی ہو، اس کا حافظہ اچھا ہو تاکہ اشعار کو زبانی یاد کر سکے البتّہ اس کے اندر مدّاحی کا ذوق بھی پایا جاتا ہو ، کیا کوئی شخص اچھی آواز مناسب حافظہ کے ذریعہ ایک اچھا مدّاح بن سکتا ہے ، ہماری نگاہ میں اتنا کافی نہیں ہے ۔مدّاح کو ایک معلّم و استاد کے طور پر دیکھئیے جو اپنے سامعین کو کسی چیز کی تعلیم دینا چاہتا ہو، آپ سبھی حضرات میں یہ استعداد موجود ہے ، کسی کو بھی اس دائرہ سے باہر نہیں نکلنا چاہیے ، جس کو بھی مدّاحی کا شوق ہو ، جی بسم اللہ ، بہت اچھی بات ہے لیکن سب سے پہلے اپنے اندر اس کی لیاقت پیدا کرے ۔
ایسے اشعار کو پڑھئے جن سے معرفت ٹپکتی ہو ، جو سبق آموز ہوں ، اگر یہ اشعار عصری مسائل پر مشتمل ہوں تو بہت اچھا ہے جیسا کہ آپ میں سے بعض حضرات نے یہاں پر جو اشعار پیش کئے وہ ہمارے معاشرے کے موجودہ مسائل پر مشتمل تھے ، یہ بہت اہم مسئلہ ہے ، اس سے علم و آگہی میں اضافہ ہوتا ہے ، لیکن اگر آپ کے اشعار دورِحاضر کے مسائل پر مشتمل نہ بھی ہوں تو بھی انہیں سبق آموز ہونا چاہیے ، آپ فرض کیجئیے کہ اگر آپ حضرت ِ زہراء سلام اللہ علیہا کی شخصیت کو متعارف کرانا چاہتے ہیں تو آپ کا تعارف اس طریقہ سے کرائیے کہ ہر مسلمان مرد و عورت ، ہر پیر و جوان آپ(س) کی زندگی سے درس حاصل کرے ، اس قداست و طہارت ِمجسّم ، حکمت و معنویت اور جہادِ مجسّم کے سامنے اپنے دل میں خضوع و خشوع کا احساس کرے اور اپنے آپ کو ان سے وابستہ سمجھے ، ہم لوگ فطری طور پر کمال کے طالب ہیں اور اس کی طرف مائل ہیں اگر ہم اپنے آپ کو اس کمال سے آراستہ کرنے پر قادر ہوں تو اس سے مزیّن کرتے ہیں ورنہ فطری طور پر صاحب ِ کمال کی طرف مائل رہتے ہیں ۔ہم اپنے سامعین کے لئے ، حضرتِ فاطمۂ زہراء سلام اللہ علیہا ، امیرالمؤمنین علیہ السّلام اور دیگر آئمّۂ اطہار علیہم السّلام کے فضائل و کمالات کو بیان کریں اور ہمارے سامعین، اشعار اور موزوں کلام کی شکل میں،صاف و زلال پانی کی طرح ان معرفت آمیز اشعار سے اپنی روح کو سیراب کریں ، یہ کام بہت سے خطیبوں ، بہت سے ہنر مندوں اور معلّموں کے بس کی بات نہیں ہے لیکن آپ اگر چاہیں تو یہ کام انجام دے سکتے ہیں ۔
میں نے بارہا آپ سے یہ نصیحت کی ہے ، آج ایک بار پھر دہرا رہاہوں کہ آپ اپنی مجلس ومنبر کو دوحصّوں میں تقسیم کیجئیے : پہلے حصّہ میں اخلاقیات اور معارف پر روشنی ڈالئیے ، آج ہمیں اخلاقیات اور معارف کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ہمیں اس بات کی بہت زیادہ ضروت ہے کہ ہماری موجودہ نسل ، ہماری جوان نسل ، امیدو نشاط ، مستقبل کے بارے میں پرامّید ، دولت ِایمان اور اہلِ بیت علیہم السّلام کے عشق و محبّت سے سرشار ہو، ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہمارے جوان اپنے ایرانی ہونے پر فخر کریں، اپنے امام (رہ) پر فخر کریں ، جمہوریٔ اسلامی پر فخر کریں اپنے دین و مذہب اور اطاعت اہل ِبیت(ع) پر فخر و مباہات کریں ، آج ہمیں ایسے جوانوں کی ضرورت ہے جنہیں یہ معلوم ہو کہ ان کی اپنی سرنوشت ، ان کے معاشرے اور ملک کی تقدیر ان کی سعی و کاوش کی مرہون ِ منّت ہے ، یہ جوان اہل ِعمل ہو ، انتھک کوشش کا مظاہرہ کرے ، ہر کام کو سنجیدگی سے انجام دے اور ہر دم اس کا تعاقب کرے ، سستی و کاہلی نہ برتے ، لاپرواہی اور غفلت سے دور ہو ، یہ تربیت کیسے انجام پائے گی؟ آپ اس میں اہم اور مؤثّر کردار ادا کر سکتے ہیں ، لہٰذا آپ کےمنبر اور آپ کے اشعار کو ان معانی پر مشتمل ہونا چاہیے ، اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ ان معانی کو بالواسطہ طور پر بیان کیا جائے ۔
اچھّے اشعار کے ذریعہ ، اہلِ بیت علیہم السّلام کی تعلیمات کو عام کیجئیے، خوش قسمتی سے آج اچھے شعراء کی تعداد کم نہیں ہے ، آج یہاں جو اشعار پیش کئے گئے ان میں سے بعض اشعار کافی اچھے تھے ، الحمد للہ آج ہمارے پاس اچھے شعراء ، خوش بیان مقرّروں کی کمی نہیں ہے یہ شعراءاپنے اشعار میں حقائق کو بیان کرتے ہیں لیکن آپ ان شعراء کو تلاش کیجئے ، مدّاح حضرات ہمیشہ ہی اچھے اور مناسب اشعار کی تلاش و جستجومیں رہتے ہیں ، ان کی اس تشنگی کی وجہ سے شاعر کے شعری ذوق کا دریا جوش میں آتا ہے اور وہ شعر کہتا ہے ، جب آپ کے ذریعہ اس کے اشعار کو پڑھا جاتا ہے تو اس کے شعری ذوق میں دو چنداں اضافہ ہوتا ہے ، دونوں کے مابین ایک رشتہ قائم ہوتا ہے وہ آپ کی مدد کرتا ہے ، آپ اس کی مدد کرتے ہیں ۔
تقریر اور منقبت خوانی کا ایک حصّہ ،اہلِ بیت علیہم السّلام کی مدحت اور ان کے مصائب سے متعلّق ہوا کرتا ہے ، البتّہ مرثیہ خوانی کے باب میں کہنے کو بہت کچھ ہے ہم نے اس سلسلے میں ان جیسے جلسوں میں کچھ باتیں عرض کی ہیں ، اور بعض دیگر مقامات پر بھی اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ہمیں واقعہ کی سچّائی اور حقیقت کا پابند رہنا چاہیے ، یہ سچ ہے کہ آپ اپنے سامعین کو رلانا چاہتے ہیں لیکن اس مقصد کو کیفیت ِ بیان میں ہنرنمائی کے ذریعہ انجام دیا جاسکتا ہے ، اس کے لئیے کسی من گھڑت اور بے بنیاد واقعہ کا سہارا لینے کی ضرورت نہیں ہے ۔ ماضی میں ایسے افراد پائے جاتے تھے جو مجلس کے دوران بعض چیزوں کو جعل کیا کرتے تھے ان کے ذہن میں جو بھی بات آتی تھی اور ماحول سازگارہوتا تھا، لوگوں کو رلانے کے لئے وہ اسے وہیں پر بیان کر دیتے تھے ! یہ طریقہ صحیح نہیں ہے ، مقصد یہ نہیں ہے کہ لوگوں کو رلایا جائے ، بلکہ مقصد یہ ہے کہ ہنر نمائی کے ذریعہ ان اشکبار آنکھوں کے آنسوؤں کو اسلامی تعلیمات کے صاف وزلال چشمہ سے مخلوط کردیا جائے ۔
مشہدِ مقدّس میں کوئی پچاس سال قبل ایک خطیب تھے خدا ان پر اپنی رحمت نازل کرے ، رکن الواعظین کے نام سے معروف تھے ، وہ جب بھی مصائب کو بیان کرتے تھے عوام زار زار گریہ کرتے تھے ،حالانکہ وہ خود بھی بارہا یہ کہا کرتے تھے کہ میں اپنے مصائب میں نیزےو خنجر کا نام تک نہیں لیتا ، اور حقیقت بھی یہی تھی ، میں نے بھی دسیوں باران کی تقریر سنی تھی ، وہ واقعہ کو اس قدر ہنرمندی سے بیان کیا کرتے تھے کہ قتل ، تیر و نیزہ اور تلوار و خنجر کا نام لئے بغیر حاضرین ِ مجلس بے اختیار گریہ و زاری کیا کرتے تھے وہ ان چیزوں کا تذکرہ تک نہیں کرتے تھے، ہنرمندانہ طریقہ سے مصائب کو بیان کیا جاسکتا ہے اور رلایا جاسکتا ہے ۔
البتّہ آپ سے ایک بات عرض کرتا چلوں کہ اگر چہ ہمیں مدّاحوں سے استفادہ کرنے کا موقع کم ہی ملتا ہے لیکن ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ کچھ پرانے اور باسابقہ مدّاح ِاہل ِ بیت اس بات پراصرار کرتے ہیں کہ ان کے سامعین بلند آواز میں گریہ کریں ، اس کی کوئی ضرورت نہیں ، آہستہ گریہ کیجئیے اس میں کوئی حرج نہیں ، ماتم کے وقت زور سے سینہ زنی کرنے کو کہتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ یہ آواز اتنے بڑے مجمع کی آواز نہیں ہے ، یا صلوات بھجواتے وقت ،یہ کہتے ہیں کہ یہ صلوات اتنے بڑے مجمع کی صلوات نہیں ہے ! آپ صرف صلوات بھجوائیے ، حاضرینِ مجلس اگر آہستہ آواز میں صلوات بھیجیں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے ، اس طریقہ سے مجلس کو گرم کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، بلکہ آپ کا ہدف یہ ہونا چاہیے کہ آپ اپنے سامعین کے دلوں کو اپنے اختیا رمیں لے لیں، اگر آپ اس مقصد میں کامیاب ہوگئے تو سمجھئیے آپ کا مقصد حاصل ہوگیا ، آہستہ آواز سے گریہ کرنے سے آپ کے مقصد پر کوئی آنچ نہیں آتی ، اگر آپ کے سامعین آپ کی طرف متوجّہ ہوجائیں تو بھی آپ اپنے مقصد میں کامیاب ہیں ۔
ہماری آج کی گفتگو کا خلاصہ یہ ہے کہ مدّاحی کا پیشہ ایک عظیم پیشہ ہے ، بہت اہم کام ہے ، ایک انتہائی مؤثر فن وحرفہ ہے یہ پیشہ ، جہاد ِ فی سبیل اللہ کا ایک ممتاز و برجستہ مصداق قرار پاسکتا ہے ، آپ میدان میں جانے کی جس آمادگی کا اظہار کرتے ہیں وہ آمادگی مختلف افراد کے اعتبار سےتبدیل ہوتی رہتی ہے کبھی کبھا ر ہمارے اور ہمارے دشمن کا آمنا سامنا ظاہری جنگ کے میدان میں ہوتا ہے اور کبھی یہی سامنا ، ثقافتی اور نرم اور خفیہ جنگ کے میدان میں ہوتا ہے ، یہ بھی ایک طرح کی جنگ ہے ، اس کے بھی اپنے تقاضے ہیں ،مدّاحان ِاہلِبیت کا جہاد یعنی ہنرمندانہ طریقہ سے مؤثر پیغام پہنچانا اور دلوں کی ہدایت کرنا، ہنر مندانہ شیوہ کے بارے میں آپ سے عرض کرتا چلوں کہ الحمد للہ آپ سبھی اچھی آواز کے مالک ہیں ، اپنے اشعار کو اچھے اسلوب و پیرایے میں پیش کرتے ہیں ، اس کے لئے مناسب روش کا انتخاب کرتے ہیں لیکن کبھی کبھی کچھ ایسے اسلوب بھی سامنے آتے ہیں جو ہرگز مناسب نہیں ہوتے ، ممکن ہے اس کے ذریعہ کچھ لوگ اس کی طرف جذب ہوجائیں لیکن یہ مناسب نہیں ہوا کرتے ، اسلوب کو باوقار ، متین اور ان معانی و مضامین کے مطابق ہونا چاہیے جو آپ پیش کرتے ہیں ، خدا نخواستہ آپ کہیں حرام موسیقی کے جال میں نہ پھنس جائیں اور گناہ کا ارتکاب نہ کر بیٹھیں ، یہ ایک انتہائی اہم اور بنیادی نکتہ ہے ، ہر شعر ہرموسیقی اور ہر اسلوب کی تقلید نہیں کی جاسکتی ، کچھ موسیقیاں ذاتی طور پرحرام ہیں اگر مدّاحی کے میدان میں ، خدا و رسول (ص)کے پیغام کو پہنچانے کے لئے ان سے استفادہ کیا جائے تو ان کی حرمت دگنی ہوجائے گی ، یہی وجہ ہے کہ مدّاحی کے لئے مناسب موسیقی کا انتخاب،اچھی آواز، اچھے اشعار اور ان سب سے بڑھ کر مدّاح کا پاک و پاکیزہ اور اخلاص سے سرشار دل لازم و ضروری ہے۔
ہم دعا کرتے ہیں کہ پروردگارعالم جنابِ فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا کے صدقہ میں آپ سب کی توفیقات میں اضافہ فرمائے اور آپ کی زحمتوں کو شرفِ قبولیت بخشے ، خداوندا! تجھے محمّد (ص) اور آل محمّد کا واسطہ زہرائے مرضیہ (س)کے صدقے میں ہمارے معاشرے اور ملک کی حفاظت فرما ۔ خدایا ! دنیا و آخرت میں ہمیں اس خاندان سے جدا نہ فرما ، خدایا! ہمیں امام زمانہ ( ارواحنا فداہ ) کی دعاؤں میں شامل فرما ، خدایا! ہمیں دنیا و آخرت میں ان ہستیوں کے ساتھ محشور فرما ، خداوندا! ہمارے عزیز امام (رہ) اور شہیدوں کو حضرت ِ زہراء سلام اللہ علیہا اور آئمّۂ طاہرین علیہم السّلام کے ساتھ محشور فرما ۔
والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) سورۂ شوریٰ ، آیت ۲۳