ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم نےتہران میں امام خمینی (رہ) کے حرم میں نمازِ جمعہ کے خطبے پیش کئے

پہلا خطبہ

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

والحمد للہ ربّ العالمین نحمدہ و نستعینہ و نتوکّل علیہ و نستغفرہ و نتوب الیہ ونصلّی ونسلّم علیٰ حبیبہ ونجیبہ وخیرتہ فی خلقہ حافظ سرّہ ومبلّغ رسالاتہ بشیررحمتہ ونذیر نقمتہ سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفیٰ محمّد و علیٰ آلہ الأطیبین الأطھرین المنتجبین الھداۃ المھدیّین المعصومین سیّما بقیّۃ اللہ فی الأرضین وصلّ علیٰ ائمّۃ المسلمین و حماۃ المستضعفین ودعات الی اللہ ، اوصیکم عباداللہ و نفسی بتقوی اللہ

تمام عزیزنمازیوں کو تقوائے الٰہی کی رعایت کی سفارش کرتا ہوں ، خداوندِعالم کا ارشاد ہے :" یا ایّھا الّذین آمنوااتّقواللہ و قولواقولاسدیدا۔یصلح لکم اعمالکم ویغفرلکم ذنوبکم ومن یطع اللہ و رسولہ فقد فاز فوزا عظیما "؛ (۱) ہمیں اپنی رفتار و گفتار حتّیٰ تصوّر و خیال کی دنیا میں بھی تقوائے الٰہی کا پاس و لحاظ رکھنا چاہیے ، یعنی ہمیں اپنی رفتار و گفتار میں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ہم رضائے الٰہی اور حق سے ذرّہ برابر بھی تجاوز نہ کریں ، مجھے امّید ہے کہ پروردگارِعالم اس حقیر بندہ کو اس قرآنی  اصل اورتقویٰ کی بنیاد پر آپ کے سامنے کچھ باتیں  پیش کرنے کی توفیق عنایت فرمائے گا۔

یہ ایّام صدّیقۂ کبریٰ ،شہزادیٔ کونین،  حضرت فاطمۂ زہراء سلام اللہ علیہا  کی ولادت باسعادت  کے مبارک ایّام ہیں ، خدا وندِعالم کی اس مخلص کنیز کی ملکوتی روح سے مدد حاصل کرتے ہوئے  ہم اس نمازِ جمعہ کو جو کہ امامِ امّت(رضوان اللہ تعالیٰ علیہ )  کی رحلت کی اکیسویں برسی کی مناسبت سے اس مقام پر منعقد ہوئی ہے ، پروردگارِ عالم کی اس آیت عظمیٰ کے مرتبہ ومنزلت کی یاد تازہ کرنے کے  لئے  اداکریں  ،  ہم    امامِ امّت (رہ)  کے مبارک اور ہمیشہ باقی رہنے والے  نام اور ان کی یاد  کو ویسے ہی تازہ رکھیں ، اس کی حفاظت کریں اور اسے آگے بڑھائیں جس طریقہ سے گزشتہ اکیس سال میں ہماری قوم نے جان و دل اور  زبان سے اپنی زندگی کے ہر شعبہ میں اس کی حفاظت کی ہے  ۔

اس نمازِجمعہ کے پہلے خطبہ میں ہم امامِ امّت (رہ)  کی زندگی پر معیار ہونے کے اعتبار سے روشنی ڈالیں گے ،اس نگاہ  کی اہمیت اس اعتبار سے ہے کہ تمام معاشرتی اور سماجی تبدیلیوں منجملہ انقلابوں  کے سامنے سب سے بڑا چیلنج اس تحوّل اور انقلاب کے اصلی و بنیادی خطوط کی بقا کا مسئلہ ہے ، یہ ہر اس عظیم اجتماعی تحوّل و تبدیلی کا سب سے اہم چیلنج ہے جو بامقصد ہو اور اس مقصد کی طرف رواں دواں ہواور دوسروں کو اس کی دعوت دے رہاہو۔  انقلاب کے اصلی خطوط اور اس کے بنیادی مؤقف کی حفاظت ہونا چاہیے ، اگر کسی انقلاب  اور اجتماعی  تحریک کے بنیادی خطوط اور اصلی سمت و سو کی حفاظت نہ کی جائے اور وہ باقی نہ رہیں تو ایسا انقلاب اپنی ضد آپ بن جائے گا اور اپنے اہداف ومقاصد سے منحرف ہوجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ پروردگارِعالم قرآن ِمجید کی سورتِ ھود میں اپنے پیغمبر(ص) کو مخاطب کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے " فاستقم کما امرت ومن تاب معک ولاتطغواانّہ بما تعملون بصیر " (۲) خداوندِعالم اس آیت میں اپنے حبیب کو استقامت ، یعنی پائداری اور ثابت قدمی ، صراطِ مستقیم  کو جاری رکھنے اور رہِ راست پر چلنے کا حکم دے رہاہے ، اس آیت  میں"طغیان" (زیادتی ) کو صراطِ مستقیم کا نقطۂ مقابل قراردیا گیا ہے اور " لاتطغوا" کے ذریعہ اس سے منع کیا گیا ہے ، طغیان کے معنیٰ سرکشی و انحراف کے ہیں ، خدا اپنے پیغمبر (ص) سے فرماتا ہے کہ آپ اور جولوگ آپ کے ساتھ ہیں پوری استقامت سے اس راہ ِراست کو جاری رکھیں اور اس سے ہرگز منحرف نہ ہوں چونکہ خداسب کے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے ۔  تفسیر المیزان کے مؤلّف مرحوم علّامہ طباطبائی اس سلسلے میں یوں رقم طرازہیں  کہ اس آیت کے لہجہ  سے شدّت و سختی کا احساس ہو رہاہے اور اس میں رحمتِ الٰہی کی کوئی بھی علامت نہیں پائی جاتی ، " من افرادالنّّبی بالذّکر"  اس آیت میں سب سے پہلے پیغمبرِاسلام (ص)کی ذاتِ گرامی کو مخاطب قرار دیا گیا ہے اور " فاستقم " کے ذریعہ ، صراطِ مستقیم پر استقامت کا حکم دیا گیا ہے ، اسی شدّت و سختی کے پیشِ نظر پیغمبرِاسلام (ص)نے سورۂ ھود کے بارے میں فرمایا " شیّبتنی سورۃ ھود" سورۂ ھود نے مجھے بوڑھا کر دیا ہے  ، ایک روایت میں ہے کہ  مذکورہ آیت کی  وجہ سے ہی آپ نے سورۂ ھود کے سلسلہ میں ارشاد فرمایا کہ اس نے مجھے بوڑھا کردیا ہے  ، اس بڑھاپے کی وجہ اس  آیت میں پائی جانے والی شدّت و سختی ہے  حالانکہ قرآن ِ مجید میں ایک دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے " فلذٰلک فادع واستقم کما امرت " (۳) لیکن اس  کے مقابلہ میں " فاستقم کما امرت و من تاب معک ولاتطغوا" کا خطاب زیادہ سخت و شدید ہے ؛ اس خطاب سے پیغمبرِاسلام (ص) کا دل دہل جاتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی انقلاب کو اس کے بنیادی  خطوط  اور اہداف و مقاصد کے ذریعہ پہچانا جاتا ہے ،اگر کوئی انقلاب اپنے  اصلی خطوط اور حقیقی راستہ سے منحرف ہوجائے  تو اس انقلاب کا راستہ بالکل بدل سکتاہے ، ایسا انقلاب کبھی بھی اپنی منزل تک نہیں پہنچ سکتا ، اس انحراف کی اہمیت اس اعتبار سے ہے کہ یہ انحراف دفعۃً پیدا نہیں ہوتا بلکہ غیر محسوس طریقہ سے  رفتہ رفتہ یہ تبدیلی رونما ہوتی ہے ، ایسا نہیں ہے کہ ابتداء ہی سے  اس میں ۱۸۰ ڈگری کا انحراف  پیدا ہوجاتا ہو ، شروع میں یہ انحراف بہت معمولی نوعیت کا ہوتا ہے ، لیکن رفتہ رفتہ یہ انحراف بڑھتا رہتا ہے اور روزبروز اس میں اضافہ ہوتا چلا جاتاہے، اس انحراف کا ایک پہلو یہ ہے ۔

انحراف کا دوسراپہلو یہ ہے کہ وہ افراد جو اس انقلاب کو اس کی ڈگر سے ہٹانا چاہتے ہیں اعلانیہ طور پر  کسی پرچم یا بینر تلے آگے نہیں آتے ، وہ اس طریقہ سے سامنے نہیں آتے کہ ان کے عمل سے اس تحریک کی مخالفت کا پتہ چلے ، یہانتک کہ وہ کبھی کبھی اس انقلاب کی طرفداری میں کوئی ایسا اقدام کرتے ہیں ، ایسا اظہارِخیال کرتے ہیں ، کوئی  ایسا عمل انجام دیتے ہیں  ، کوئی ایسا  انحراف پیدا کرتے ہیں  جس سے انقلاب اپنے اہداف و مقاصد سے بہت دور ہوجاتا ہے اور اس کا راستہ بالکل بدل جاتا ہے ، اس انحراف کی روک تھام  کے لئے کچھ مقرّرہ معیاروں کی ضرورت ہوا کرتی ہے ، راستہ میں معیاروں کا ہونا ضروری ہے ، چونکہ اگر یہ معیار واضح وآ  شکار طور پر عوام کے سامنے ہوں تو انحراف رونما نہیں ہوسکتا، اگر کوئی شخص اس تحریک میں انحراف پید ا کرنا چاہے توعوام  النّاس اسے فوراً پہچان لیتے ہیں  لیکن اگر کوئی معیار سامنے نہ ہو تو تحریک کو  سنگین خطرہ لاحق ہوسکتا ہے   ۔

ہمارے انقلاب کا معیار کیا ہے ؟ یہ بہت اہم ہے ۔ ہم تیس سال سے اس انقلاب کے راستے پر گامزن ہیں ، ہماری قوم نے حددرجہ بصیرت و شجاعت سے کام لیا ہے ، لیاقت کا مظاہرہ کیا ہے ، آپ تیس سال سے اس انقلاب کو آگے بڑھا رہے ہیں لیکن خطرہ اپنی جگہ باقی ہے ، انقلاب کے دشمن ، امامِ امّت (رہ) کے دشمن  ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیکار نہیں بیٹھے ہیں وہ اس انقلا ب کو مٹانے کے درپے ہیں ، کس طریقہ سے؟ وہ راہِ انقلاب میں انحراف کے ذریعہ اس کو مٹانے کے درپے ہیں ۔ اس لئے ہمارے پاس معیار کا ہونا ضروری ہے ۔

میری نگاہ میں سب سے اچھا معیار امامِ امّت (رہ)کی ذاتِ گرامی اور آپ کابتایا ہوا راستہ ہے ، امام (رہ) ،ہمارے لئے سب سے بہترین معیار ہیں، تمام فاصلوں اور حفظِ مراتب کے ساتھ اگر ہم امام ِامّت (رہ) کو پیغمبرِاسلام (ص) سے تشبیہ دیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، پیغمبراسلام کے سلسلہ میں قرآنِ مجید کا ارشاد ہے " لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ لمن کان یرجواللہ والیوم الآخر"(۴)پیغمبرِاسلام (ص) کی ذاتِ اقدس خود بھی نمونۂ عمل ہے اور آپ کی رفتارو گفتار اور اخلاق بھی نمونۂ عمل ہے ۔ ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے " قدکانت لکم اسوۃ حسنۃ فی ابراھیم والّذین معہ" (۵) حضرت ابراہیم علیہ السّلام اور ان کے اصحاب بھی نمونۂ عمل ہیں ، یہاں حضرت ابراہیم علیہ السّلام کے اصحاب کا تذکرہ اس لئے کیا گیا ہے تاکہ کوئی یہ نہ کہے کہ پیغمبرِاسلام (ص) اور حضرت ابراہیم علیہ السّلام تو معصوم تھے ہم ان کی پیروی واطاعت کیوں کر کرسکتے ہیں ، وہ ہمارے لئے نمونۂ عمل نہیں بن سکتے ، اسی لئے آیت میں حضرت ابراہیم کے ساتھ ساتھ ان کے اصحاب کا تذکرہ کیا گیا ہے اور ارشاد ہوتا ہے " قد کانت لکم اسوۃ حسنۃ فی ابراھیم والّذین معہ اذاقالوالقومھم انّابراء منکم وممّاتعبدون من دون اللہ کفرنابکم۰۰۰  الخ ۔

ہمارے باعظمت امام(رہ)  پر بھی  یہی بات صادق آتی ہے چونکہ آپ بھی اسی مکتب کے شاگرد تھے  اور انبیائے کرام کے راستہ کو جاری رکھے ہوئے تھے ، امام (رہ) کی ذاتِ گرامی ، آپ کی رفتار و گفتار  ایک  برجستہ و ممتاز معیار ہے ، زہے نصیب کہ امام(رہ)  کی تقاریر آج بھی محفوظ ہیں ، ان کو مرتّب کیا گیا ہے ، امام (رہ) کا وصیت نامہ بالکل واضح و آشکار طور پر انقلاب کے مستقبل کے بارے میں امام(رہ)  کے مافی الضّمیر کو بیان کررہا ہے، ہمیں ان معیاروں کی غلط تفسیر ، انہیں پنہان کرنے یا انہیں فراموش کرنے کی ہرگز اجازت نہیں دینا چاہیے ، اگر ہم  غیر مناسب اندازمیں ، غلط انداز میں ان معیاروں کو بیان کریں گے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے ہم کسی راستے میں قطب نما کو کھودیں یا وہ خراب ہوجائے ۔ فرض کیجئے کہ کسی دریائی یا صحرائی سفر میں جہاں  راستہ کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہ ہو ہماری قطب نماکونقصان پہنچ جائے اور وہ ناکارہ ہوجائے تو ایسی صورت میں ہم حیرت وسرگردانی کا شکار ہوجائیں گے ۔ اگر امامِ امّت(رہ)  کے نظریات اور خیالات کو صحیح ڈھنگ  سے بیان نہ کیا جائے تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے قطب نما خراب ہوجائے ، اور راستہ کھوجائے ؛ اگر ہر کوئی اپنے ذوق و سلیقہ ، اور من چاہے طریقہ سے امام (رہ) کے خیالات و نظریات کی تفسیر کرے گا تودشمنوں کو بھی اس بات کا موقع ملے گا کہ راستہ کو اس طریقہ سے بیان کریں کہ ہماری ملّت غلط راستہ کا انتخاب کرے ۔

امامِ امّت (رہ) کی تقریر وتحریر کے عین مطابق ، آپ کے مؤقف کو بالکل واضح و آشکار طور پر بیان کرنا چاہیے ، یہ راہِ امام، خطِّ امام اور انقلاب کے صراطِ مستقیم کا سب سے بڑا معیار ہے ،بسا اوقات کوئی شخص صراحتاً ، کھلے عام اس بات کا اعلان کرتا ہے کہ میں امام (رہ) کو نہیں مانتا، اس کا معاملہ جدا ہے ، ایسے شخص سے امام (رہ) کے ماننے والوں اور آپ کے طرفداروں کا حساب و کتاب بالکل واضح و آشکار ہے ، لیکن اگر اس انقلاب کو امام(رہ)  کے راستہ اور آپ کے اشاروں پر آگے بڑھنا ہے تو امام ِامّت(رہ)  کے نظریات اور خیالات معلوم ہونا چاہیے امامِ امّت (رہ) کے مؤقف کو صحیح ڈھنگ سے بیان ہونا چاہیے ۔

کسی غیر اور بیگانہ کی خوشامد کے لئے امام (رہ) کے بعض حقیقی اور ناقابل انکار مؤقف  کا سرے سے انکار یا انہیں پنہان  نہیں کرنا چاہیے ، بعض لوگ اس فکر میں مبتلا ہیں ، یہ ایک انتہائی  غلط نقطۂ نظر ہےکہ ہم امامِ امّت(رہ)  کے طرفداروں اور مریدوں میں اضافہ کرنے کے لئے ، امام (رہ) کے مخالفوں کو امام (رہ) کی طرف راغب کرنے کے لئے امامِ امّت (رہ) کے کچھ مواقف کو پنہان کردیں ، یا انہیں بیان نہ کریں یا ان کا رنگ پھیکا کر دیں ؛ یہ طریقہ درست نہیں ہے ، امام (رہ) کی شناخت و پہچان ، آپ کی شخصیت انہیں معیاروں اور اصولوں پر استوار ہے جنہیں آپ نے  اپنے صریح و آشکار بیانات اور الفاظ و کلمات کے ذریعہ بیان کیا ، انہیں اصولوں اور ٹھوس اقدامات نے دنیا کو ہلا دیا ، آپ کے انہیں نظریات نے اقوامِ عالم کو ایرانی قوم کا شیفتہ اور ان میں سے بہت سی قوموں کو ایرانی قوم کا پیرو بنا دیا ، یہ عالمی تحریک جس کے مظاہر عالمِ اسلام کے ہر کونے میں دکھائی دے رہے ہیں اسی کی مرہونِ منّت ہے ۔

امام (رہ) کو واضح وصریح  انداز میں میدان میں لانا چاہیے ، عالمی سامراج ، کٹھ ملّائیت ، مغرب کی لیبرل ڈیموکریسی ، منافقوں اور دوغلے افراد کے بارے میں امام (رہ) کے مؤقف کو کھلم کھلّا بیان کرنا چاہیے ، جو لوگ امام (رہ) کی شخصیت سے متاثر ہوئے ہیں وہ آپ کے انہیں نظریات کی وجہ سے آپ کے شیفتہ ہیں ، ہم زید و عمر و کو امام (رہ) سے راضی کرنے کے لئے آپ کے اصولوں کوپنہان ، یا آپ کے ان نظریات کے رنگ کو پھیکا نہیں کرسکتے جو ہماری نگاہ میں سخت معلوم ہوتے ہیں ۔ ہمیں اچھی طرح یاد ہے کہ ہماری نوجوانی کے دور میں کچھ لوگ ، اسلام کے طرفداروں  میں اضافہ کرنے کی غرض سے دینِ اسلام کے بعض احکام  سے چشم پوشی کیا کرتے تھے مثلاً قصاص،جہاد اور پردہ کے حکم سے انکار اور اسے پنہان کیا کرتے تھے ، وہ کہتے تھے کہ یہ احکام اسلام کا حصّہ نہیں ہیں ،وہ یہ کام  ،بعض مستشرقوں اور اصول اسلام کے  مخالفوں  کوخوش کرنے کے لئے انجام دیا کرتے تھے! یہ سراسر غلط ہے ، اسلام کو اس کے جامع نظام کے ساتھ بیان کرنا چاہیے ۔

خطِ امام (رہ) کے بغیر ، امام (رہ) وہ امام (رہ) نہیں ہیں جن کے اشارہ اور ہدایت  پر ایرانی قوم نے  اپنی جانوں کو ہتھیلی پر رکھااور اپنے بیٹوں کو موت کے منہ میں بھیجا ، اپنی جان و مال سے کسی قسم کا دریغ نہیں کیا اور دنیا کے اس نقطہ پر اس صدی کے سب سے بڑے انقلاب کو کامیابی سے ہمکنار کیا ۔ راہ امام (رہ) کے بغیر امام(رہ)  کی کوئی دوسری شناخت نہیں ہے ، امام (رہ) سے ان کی شناخت کو سلب کرنا یہ امام (رہ) کی خدمت نہیں ہے ، امام (رہ) کے اصول بالکل واضح و آشکار ہیں ، اگر کوئی خوشامد اور تکلّف سے کام نہ لے تو یہ اصول ،امام (رہ) کے کلمات ، بیانات و تقاریر ، خطوط بالخصوص آپ کی وصیت میں جوکہ ان تمام اصولوں اور نظریات کا خلاصہ ہے ، جلوہ گر ہیں ، یہ فکری اصول وہی چیز ہیں جس نے مغرب کی غارت گری اور امریکہ کی بے تاج بادشاہت کے خلاف دنیا میں ایک عظیم لہر پیدا کی ،  آج آپ جو یہ دیکھ رہے ہیں کہ امریکہ کے مختلف صدور جب  ایشیا، مشرقِ و سطیٰ  حتّیٰ  بعض یورپی ممالک کے دورے پر جاتے ہیں تو وہاں کے عوام ان کے خلاف نعرہ بازی کرتے ہیں ، کیا ہمیشہ سے ہی ایسا تھا ؟ نہیں ، بلکہ یہ امام (رہ) کی تحریک ، اظہارِحقائق اور اٹل مؤقف کا ثمرہ ہے جس نے سامراج کو رسوا کردیا ، صہیونیزم  کے چہرے سے نقاب کو ہٹا دیا ، مختلف قوموں بالخصوص اسلامی معاشرے میں مزاحمت کی روح کو زندہ کیا۔

یہ کج فہمی ہے کہ ہم امام (رہ) کے مواقف  سے انکار کردیں ، افسوس! کہ اس کج فہمی کا شکار بعض وہ لوگ ہیں جو کسی دور میں امام (رہ) کے نظریّات کی ترجمانی کرتے تھے یا آپ کے پیروکاروں میں شمار ہوتے  تھے  ، اب نہ جانے کیوں اس راستہ سے منحرف ہو چکے ہیں ؟ اپنے مقصد کو کھو بیٹھے ہیں ، ان میں سے کچھ ایسے افراد جو سالہاسال امام (رہ) اور امام(رہ)  کے اہداف و مقاصد کی بات کرتے رہے ہیں اپنے راستہ سے پلٹ گئے ہیں ، وہ امام(رہ)  کے اصولوں سے ہٹ کر باتیں کر رہے ہیں !

راہ و روش امام(رہ)  ، کچھ اجزاءپر مشتمل ہے ، خطِ امام (رہ) کے سلسلہ میں سب سے اہم بات جو کہی جاسکتی ہے وہ یہ چند نکتے ہیں جنہیں میں یہاں پر آپ سے بالخصوص عزیز جوانوں سے  عرض کروں گا: میری آپ سے یہ گزارش ہے کہ جائیے اورامام (رہ) کے  وصیت نامہ کا مطالعہ کیجئیے ، وہ امام (رہ) جس نے پوری دنیا کو ہلا دیا وہ امام (رہ) ہے جو اس وصیت میں منعکس ہے ، اس رفتار و گفتار میں منعکس ہے ۔

امامِ امّت (رہ)  کے بنیادی نظریات و اصول  کاسب سے  پہلا اور اصلی نقطہ" خالص و ناب اسلامِ محمدی"  کا مسئلہ ہے ، خالص اسلام یعنی ایسا اسلام جو ظلم کا مقابلہ کرے، عدل و انصاف قائم کرے ، جذبہ جہاد کو فروغ دے ،مظلوم  ، ستم دیدہ ، کمزور و بے سہارا لوگوں کا دفاع کرے ۔ اس اسلام کے مقابلہ میں امام (رہ) نے " امریکی اسلام " کی اصطلاح کو ہماری سیاسی ڈکشنری میں داخل کیا۔امریکی اسلام یعنی ظاہری ، رسمی و اسمی اسلام ، ظلم وستم اور لوٹ کھسوٹ سے  چشم پوشی کرنے والااسلام ،   مظلوموں کے حقوق کی پامالی پر خاموش رہنے والا اسلام ، ظلم پیشہ طاقتوں کی مدد کرنے والا اسلام ، صاحبانِ قدرت و طاقت کی مدد کرنے والا اسلام ، وہ اسلام جو ان تمام چیزوں سے سازباز کر سکتا ہو امام (رہ) نے اسے امریکی اسلام کے نام سے موسوم کیا ۔

اسلامِ ناب کا نظریہ امام کا ہمیشہ کا نظریہ تھا ،اس کا تعلّق ، جمہوریٔ اسلامی کے دور سے نہیں تھا ، لیکن یہ نظریہ ، اسلام کی حاکمیت اور اسلامی نظام کی تشکیل کے بغیر عملی شکل اختیار نہیں کرسکتاتھا ، اگر کسی ملک کا سیاسی نظام ، اسلامی شریعت اور اسلامی طرزِفکر کی بنیاد پر استوار نہ ہو تو ایسا اسلام دنیا کی  ستم پیشہ ، ظالم وجابر حکومتوں، سماج  کے ظلم پیشہ عناصر سے حقیقی اور واقعی پیکار نہیں کرسکتا ، یہی وجہ ہے کہ امامِ امّت  ، جمہوریٔ اسلامی کی حفاظت و پاسداری کو اوجب واجبات(سب سے بڑا واجب ) جانتے تھے ، سب سے زیادہ واجب ، نہ سب سے زیادہ واجبات میں سے ایک واجب ، جمہوریٔ اسلامی کی حفاظت سب سے بڑا واجب  ہے ، چونکہ اسلام کی حفاظت و بقا ، حقیقی معنیٰ میں اسلامی سیاسی نظام کی بقا کی مرہونِ منّت ہے ، سیاسی نظام کے بغیر اس کی پاسداری و بقا ہرگز ممکن نہیں ہے۔

امامِ امّت (رہ) جمہوریٔ اسلامی کو اسلام کی حاکمیت کا مظہر  سمجھتے تھے ، اسی وجہ سے امام (رہ) نے جمہوریٔ اسلامی کی تشکیل کی راہ میں اس قدر جانفشانی کی ،  انتہائی سختی اور پامردی  سے جمہوریٔ اسلامی کا دفاع کیا ، امام (رہ) اپنی ذاتی طاقت  کے طالب نہیں تھے وہ اپنی ذاتی طاقت میں اضافہ کے درپے نہیں تھے ، بلکہ آپ کے پیشِ نظر اسلام کا مسئلہ تھا ، اسی لئے آپ نے جمہوریٔ اسلامی کا بھر پور دفاع کیا ، امام (رہ) نے حکومت کا یہ نیاماڈل (یعنی جمہوریٔ اسلامی ) دنیا کو متعارف کرایا ۔

جمہوریٔ اسلامی میں  سب سے بنیادی مسئلہ دنیا کی ان  شاطر، ظالم و جابر، اقتدار طلب  حاکمیّتوں سے پیکار کا مسئلہ ہے ، جو مختلف شکلوں میں سراٹھاتی رہتی ہیں ، ڈکٹیٹر شب  اور اقتدار پرستی صرف بادشاہی نظام حکومت  تک محدود نہیں ہے ، یہ تو ڈکٹیٹر شپ کا محض ایک نمونہ ہے ، اس دور میں   بائیں محاذ کی ڈکٹیٹر شپ کا  دوردورہ تھا ،مختلف ممالک پر ایک ہی پارٹی کی حکومت برسر اقتدار تھی ، وہ عوام سے  اپنے من چاہے طریقہ سے سلوک کرتے تھے ، کوئی بھی قوم کے سامنے جوابدہ نہیں تھا ، درحقیقت ، قوم ایک چھوٹے سے گروہ کےہاتھوں اسیر تھی ، یہ بھی ایک قسم کی ڈکٹیٹر شپ تھی ، ایک مطلق العنانیت ، سرمایہ دارانہ نظام کی مطلق العنانیت ہے جو بظاہر جمہوریت ، لیبرل ڈیموکریسی کا نقاب اوڑھے ہوئے ہے ، یہ نظام بھی مطلق العنانیت کی ایک دوسری مثال ہے ، لیکن یہ ایک شاطر اور بالواسطہ ڈکٹیٹر شپ ہے ، یہ در حقیقت بڑے بڑے سرمایہ داروں اور صاحبانِ ثروت و دولت کی ڈکٹیٹر شپ  ہے ۔امام (رہ) نے ان بشری طاغوتوں کے مقابلہ میں ، جمہوریٔ اسلامی کی داغ بیل ڈالی، دینِ اسلام کو اس نظام کا حقیقی معیار قرار دیا ، اس  اسلام میں عوام کی رائے اور ان کے مطالبات  کا احترام  بھی پایا جاتا ہے ، لہٰذا جمہوریٔ اسلامی ، جمہوری بھی ہے یعنی عوام کی رائے اور مرضی پر استوار ہے ، اور اسلامی بھی ہے یعنی شریعتِ الٰہی کے مطابق ہے ، یہ حکومت کا ایک جدید ماڈل ہے ، یہ خطِ امام(رہ)  کا ایک ممتاز معیار ہے ، جو کوئی بھی جمہوریٔ اسلامی  کے نظام کی حاکمیت کے سلسلہ میں اس کے برخلاف سوچ رہا ہو وہ یقیناً امام (رہ) کے نقطۂ نظر کے برعکس سوچ رہا ہے ، وہ یہ دعویٰ نہ کرے کہ امام (رہ) کے راستہ پر چل رہا ہے ،  ایسا ہرگز نہیں ہے ، یہ امام (رہ) کے نظریات  و خیالات  کا سب سے واضح و آشکار خط ہے۔  

امام کے  منصوبہ  ، آپ کے خط اور راہِ راست  کا ایک دوسرا معیار ، آپ کی قوّتِ جاذبہ اوردافعہ ہے  ، عظیم ہستیوں کی قوّت ِ کشش اور دفع کا دائرہ بھی بہت وسیع ہوا کرتا ہے ، یوں تو ہر انسان میں یہ خصوصیت پائی جاتی ہے کہ وہ اپنی رفتار و گفتار سے کچھ لوگوں کو اپنی طرف مائل کرتا ہے اور کچھ لوگوں کو دور کرتا ہے اسی کو جاذبہ و دافعہ کہا جاتا ہے  لیکن عظیم انسانوں کی قوّت کشش کا دائرہ اور قوّت ِ دفع کا دائرہ بہت وسیع ہوا کرتا ہے ۔ امام(رہ)  کا جاذبہ و دافعہ بھی دیکھنے کے لائق ہے ۔

امام کی قوّتِ کشش و دفع کا معیار  مکتب اور اسلام ہی  تھا،  بالکل اسی طریقہ سے جیسے امام سجّاد علیہ السّلام صحیفۂ سجّادیہ  میں  ماہِ رمضان  کے استقبال کی دعا میں خد ا سے دعا مانگتے ہیں ۔ میں نے بارہا عرض کیا ہے کہ امامِ سجّاد علیہ السّلام کی دعائیں معارفِ اسلامی کا انمول خزانہ ہے ، ان دعاؤں میں وہ معارف جلوہ گر ہیں جو ہمیں روایات و احادیث میں نہیں ملتے لیکن وہی معارف ان دعاؤں میں صراحتاً بیان ہوئے ہیں ، صحیفۂ سجّادیہ کی چوالیسویں دعا جسے امامِ سجّاد (ع)ماہ ِرمضان کے استقبال میں پڑھا کرتے تھے اور خدا سے کچھ چیزوں کی درخواست کیا کرتے تھے اس دعا میں امام علیہ السّلام جن چیزوں کی درخواست کر رہے ہیں ان میں سے ایک یہ ہے " وان نسالم من عادانا" خدایا !   تجھ سے یہ درخواست کرتے ہیں کہ ہم اپنے دشمنوں کے ساتھ صلح کریں ، ان کی خاطر تواضع کریں ، اس کے فوراً بعد آپ فرماتے ہیں : " حاشیٰ من عودی فیک و لک فأنّہ العدوّ الّذی لا نوالیہ والحرب الّذی لا نصافیہ " مگر وہ دشمن جس سے تیری خاطر دشمنی  کی ہو ، تیری راہ میں اس سے دشمنی کی ہو ، ایسے دشمن سے ہم کبھی بھی دوستی کا دم نہیں بھریں گیں اور ہمارا دل کبھی بھی اس سے صاف نہیں ہوگا ۔

ہمارے امامِ امّت (رہ) میں بھی یہی صفت موجزن تھی ، آپ کسی سے ذاتی عناد نہیں رکھتے تھے ، اگر کسی سے  کوئی ذاتی کدورت  و رنجش  پائی جاتی تھی تو امام (رہ) اسے فراموش کر دیتے تھے ، لیکن مکتب کی خاطر  دشمنی و عداوت میں امام(رہ)  بہت سنجیدہ تھے ، وہی امام جنہوں نے سنہ ۱۳۴۱ ھ ، ش  میں  اسلامی تحریک کے آغاز پرہرمکتبِ فکر کے افراد کے لئے اپنی آغوش کوپھیلا رکھا تھا ، ہر قوم و مذہب کے افراد کو بلا کسی تفریق کے اپنے دامن میں جگہ  دے رہے تھے، اسی امام(رہ)  نے انقلاب کے آغاز میں کچھ گروہوں اور مجموعوں کو اپنے اردگرد سے دور کیا ، آپ نے کمیونسٹوں کو دھتکارا، اس دن امام(رہ)  کا یہ عمل ہم میں سے بعض افراد کو عجیب معلوم ہوتاتھا جو شروع سے ہی اس تحریک میں شامل تھے ، انقلاب کی کامیابی کے بالکل ابتدائی ایّام میں امام (رہ) نے واضح و آشکار طور پر کمیونسٹوں کے خلاف مؤقف اختیارکیا اور ان سے اپنا حساب الگ کیا ، امام (رہ) نے لیبرل مسلک  ،مغرب کے سیاسی و ثقافتی نظام کےشیفتہ افراد کے مقابلہ میں اٹل مؤقف اختیار کیا ، انہیں  اپنے پاس سے دور کیا ، اور اس سلسلہ میں کسی تکلّف و ججھک سے کام نہیں لیا ، انہوں نے کٹھ ملّاؤں  کا جم کر مقابلہ کیا جو الٰہی حقائق اور احکامِ اسلامی کی قرآنی روح  اور اس عظیم تحوّل کو ماننے سے انکار کر رہے تھے ، انہیں اپنے پاس سے دھتکارا ، امام(رہ)  نے  بارہاان کٹھ ملّاؤں کی انتہائی سخت الفاظ میں مذمّت کی ، انہیں اپنے پاس سے دور کیا ، وہ افراد جو امام (رہ) کے فکری اور اسلامی اصولوں کے دائرہ میں نہیں آتے تھے امام (رہ) نے ان سے بیزاری میں ایک لمحہ کے لئے بھی تامل نہیں کیا حالانکہ امام (رہ) کی ان سے کوئی نجی و شخصی دشمنی نہیں تھی ۔

آپ امام (رہ) کا وصیت نامہ ملاحظہ کریں ، امام (رہ) اس وصیت میں ان کمیونسٹوں سے جو اندرونِ ملک  جرائم کا ارتکاب کر کے بیرونِ ملک بھاگ گئے تھے مخاطب ہوتے ہوئےفرماتے ہیں : ایران واپس آجاؤ ،  قانون اور عدلیہ نے جو سزا تمہارے لئے مقرّر کی ہے اس کا سامنا کرو ۔ یعنی اپنے آپ کو عذابِ الٰہی سے نجات دینے کے لئے پھانسی اور قید و بند کی سزا کو قبول کرو۔ آپ ان  سے بھی  ہمدردانہ لہجے میں گفتگو کیا کرتے تھے ۔ آپ ان کو خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر تمہارے اندر یہ شجاعت نہیں پائی جاتی کہ ملک واپس آکر اپنی سزاؤں کا سامنا کروتو کم ازکم جہاں کہیں بھی ہو اپنے راستہ کو جدا کرو، اپنے اعمال سے توبہ کرو ، ایرانی قوم ، اسلامی نظام اوراسلامی تحریک کی مخالفت سے دستبردار ہوجاؤ ؛ تسلّط پسند طاقتوں  کے سپاہی نہ بنو۔

امام (رہ) کی کسی سے شخصی اور ذاتی دشمنی نہیں تھی ، لیکن مکتب کے سلسلہ میں فیصلہ کن انداز میں اپنی قوّتِ کشش ودفع کو بروئے کارلاتے تھے ، یہ امام (رہ) کی زندگی اور مکتبِ فکر کاایک اہم اور ممتاز معیار ہے ، سیاسی میدان  میں بھی حبّ و بغض کو اسلامی اور مذہبی  اصول اور طرزِفکر کے ماتحت ہونا چاہیے ، یہاں بھی ہمیں اسی چیز کو معیار قرار دینا چاہیے اور ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ خداوندِ عالم ہم سے کیا چاہتا ہے ۔

امام (رہ) کے اس فیصلہ کن مؤقف کے باوجود جو آپ کی رفتار و گفتار میں نمایاں تھا ، یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص اپنے آپ کو خطِ امام کا راہی ظاہر کرے ، خود کو امام کا تابع و پیروکار بتائے لیکن ان لوگوں سے ساز باز کرے جو صراحتاً  امام(رہ)  اور اسلام کی مخالفت کا پرچم لہرا رہے ہیں ، ہم یہ بات کیسے قبول کرلیں کہ امریکہ، برطانیہ ، سی آئی اے ، موساد ، سلطنت طلب  اور منافق  کسی ایک پلیٹ فارم پر جمع ہوں ، کسی ایک محور کے اردگرد جمع ہوں ، اس کے باوجود وہ محور اس بات کا مدّعی ہو کہ میں خطِ امام ہوں !  یہ ممکن نہیں ہے ، ہم اسے قبول نہیں کرسکتے ۔

اغیارسے ساز باز نہیں کی جاسکتی ۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہیے کہ کل جو امام (رہ) کے دشمن تھے وہ ہمارے سامنے کیا مؤقف اختیار کر رہے ہیں ، اگر ہم دیکھیں کہ ہمارے مؤقف کی وجہ سے مستکبر امریکہ ، غاصب  صہیونسٹ ، مختلف طاقتوں کے زرخرید غلام ، امام(رہ) ، اسلام اور انقلاب کے دشمن ہماری عزّت و حوصلہ افزائی کر رہے ہیں تو ہمیں اپنے مؤقف کے  بارے میں شک کرنا چاہیے ، ہمیں سمجھ لینا چاہیے کہ ہم راہِ راست پر گامزن نہیں ہیں ، یہ بھی ایک معیار ہے ، یہ بھی ایک پیمانہ  ہے ، امام(رہ)  بھی بارہا اس پر زور دیا  کرتے تھے ، امام (رہ) فرمایا کرتے تھے ، یہ بات امام (رہ) کی تحریروں میں بھی موجود ہے اور دیگر قطعی اسناد بھی اس کی گواہ ہیں کہ اگر ہمارے دشمن ہماری تعریف و ستائش کریں تو ہمیں جان لینا چاہیے کہ ہم خائن ہیں ۔ یہ بہت اہم چیز ہے ۔

کچھ لوگ راہ امام (رہ) کے بر خلاف  چلیں ، عالمی یومِ قدس  کے موقع پر اس طریقہ سے اپنے مؤقف کو بیان کریں ، عاشور کے دن  اس ذلّت و رسوائی کا سامان کریں ، اس کے بعد ان لوگوں سے ہمراہی کا اظہار کریں جو واضح و آشکار طور پر امام (رہ) کے اصول کے مخالف ہیں ، اپنے آپ کو ان کے ساتھ قراردیں ، یا ان کی تعریف و ستائش کریں ، یا ان کے مقابلہ میں سکوت اختیار کرلیں ، اس کے باوجود اس بات کی رٹ لگائے رہیں کہ ہم امام(رہ)  کے پیرو ہیں ؟  یہ کیوں کر ممکن ہے ؟  ہم اسے نہیں مان سکتے، ہماری قوم نے بھی اسے بخوبی جان لیا ، ہماری قوم اسے دیکھ رہی ہے ، اسے جانتی ہے ، اسے پہچانتی اور سمجھتی ہے ۔

امام (رہ) کی روش و منش اور نہج کا ایک دوسرا معیار  جو بہت اہمیت رکھتا ہے ، معنوی والٰہی حساب وکتاب کا مسئلہ ہے ، امام (رہ)اپنے فیصلوں اور  تدابیر میں معنوی حساب و کتاب کو تمام مسائل پر ترجیح دیتے تھے ، اس کا مطلب کیا ہے ؟ یعنی انسان جو بھی کام انجام دینا چاہے اس کا اوّلین مقصد  رضائے الٰہی کا حصول ہو ، کامیابی اور طاقت کا حصول اس کے پیشِ نظر نہ ہو ، کسی کے نزدیک عزّت و آبرو کا حصول منظورِنظر نہ ہو ، سب سے پہلے خوشنودیٔ پروردگار مقصود ہو ، اس کے بعد اسے خداکے وعدوں پر پورا بھروسہ ہو ،اگر کسی انسان کا مقصد رضائے الٰہی کا حصول ہو اور اسے خدا کے وعدوں پر مکمّل بھروسہ بھی ہو تو ایسے انسان کے لئے مایوسی ، ناامّیدی ، خوف ، غفلت، غرورو تکبّر جیسی چیزیں کوئی معنیٰ نہیں رکھتیں ۔

جس دور میں امام (رہ) بالکل تنہا تھے اس دور میں بھی خائف و ہراساں نہیں ہوئے ، یاس وناامّیدی کا شکار نہیں ہوئے ، جب پوری ایرانی قوم نے  مل کرآپ کے نام کا نعرہ لگایا ، اور دوسری قوموں نے بھی آپ سے اپنی والہانہ محبّت کا اظہار کیا تو آپ غرور وتکبّر کا شکار نہیں ہوئے ، جس دور میں عراقی حملہ آوروں اورمتجاوزوں کےتوسّط سے خرّم شہر ہمارے ہاتھوں سے نکل چکاتھا امام (رہ)مایوس نہیں ہوئے ، اورجب اس شہر کو ہمارے جانباز اور دلیر سپاہیوں نے غاصبوں کے قبضہ سے آزاد کرایا تو امام (رہ) میں ذرّہ برابر بھی غرور و تکبر پیدا نہیں ہوا ، بلکہ آپ نے فرمایا " خرّم شہر کو خدا نے آزاد کرایا" ، یعنی ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے ، اپنی قیادت کے دور کے تمام واقعات میں امام (رہ)نے اسی سیرت کو اپنایا ، جب آپ اکیلے تھے تو تنہائی سے گھبرائے نہیں ، جب قدرت و اقتدار پر آپ کا تسلّط تھا تو مغرور نہیں ہوئے ، غفلت کا شکار نہیں ہوئے ، یہ خداپر بھروسہ  کی ایک بہترین مثال ہے ، جب خوشنودیٔ پروردگارپیش نظر ہو تو یہی چیز سامنے آتی ہے ۔

ہمیں خدا کے وعدوں پر مکمّل بھروسہ کرنا چاہیے ، سورۂ فتح میں ارشادِ ربّ العزّت ہے " ویعذّب المنافقین و المنافقات والمشرکین و المشرکات الظّانین باللہ ظنّ السّوء " (۶)اہل ِ نفاق و شرک کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ خدا کے بارے میں بدگمان ہیں  ، اس کے وعدوں پر بھروسہ نہیں کرتے ، صاحبِ ایمان جان و دل سے   " ولینصرنّ اللہ من ینصرہ " (۷) پر بھروسہ رکھتا ہے  لیکن منافق کو اس پر کوئی بھروسہ نہیں ہے ، اسی  بدگمانی کی وجہ سے وہ خدا کے غیظ و غضب کے مستحق ٹھرے ہیں " علیھم دائرۃ السّوء وغضب اللہ علیھم و لعنھم و اعدّ لھم جھنّم و ساءت مصیرا" (۸) جو بھی خداکے بارے میں بدگمانی رکھتا ہے اس کا یہی انجام ہوتا ہے ۔

امام (رہ)کو الٰہی وعدہ پر مکمّل  اطمینان تھا ۔ ہم خدا کے لئے جہاد کریں گے  ، خدا کی راہ میں قدم اٹھائیں گے ، اپنی  تمام تر کاوشوں کو میدان میں لائیں گے  ، اور جیسا کہ خدا نے وعدہ کیا ہے وہ ہماری ان کوششوں کو بارآور بنائے گا ، ہم اپنے فریضہ و ذمہ داری کی بنا پر کام کریں گے ، خدا ہمیں اس کا بہترین  نتیجہ اور صلہ عنایت فرمائے گا ، یہ بھی امام (رہ)کے خط کی ایک اہم خصوصیت ہے ۔ انقلاب کاراستہ ، انقلاب کا صراطِ مستقیم، اسی خصوصیت کا حامل ہے ۔

اس سلسلہ میں ایک اہم چیز جو امام (رہ)کے وجود میں موجزن تھی وہ تمام امور میں آپ کا عجیب و غریب تقویٰ تھا ، شخصی و نجی مسائل میں تقویٰ کی رعایت کوئی بڑی بات نہیں لیکن سیاسی ، اجتماعی اور عام مسائل میں تقویٰ کی رعایت بہت مشکل کام ہے ، یہ تقویٰ بہت اہم ہے ، بہت مؤثّر ہے  کہ ہم اپنے دوستوں اور دشمنوں  کے سلسلہ میں کس قسم کا اظہارِ خیال کریں ؟ یہاں تقویٰ اپنا اثر چھوڑتا ہے ، ممکن ہے کہ ہم کسی کے مخالف ہوں ،اس کے دشمن ہوں  لیکن اہمیت اس بات کی ہے کہ  آپ  اس کے بارے میں کیسے قضاوت  کرتے ہیں ؟ اگر اپنے دشمنوں کے بارے میں آپ کی قضاوت حقائق پر مبنی نہ ہو تو یہ جادّۂ حق سے تجاوز  ہے ، جس آیت کا میں نے شروع میں شرفِ تلاوت حاصل کیاتھا اسے دہرا رہاہوں " یا ایّھا الّذین آمنوا اتّقوااللہ و قولواقولاسدیداً " ۔ قولِ سدید یعنی استوار اوردرست بات ، ہمیں سیدھی بات کا حکم دیا گیا ہے ، میں اپنے انقلابی ، صاحبِ ایمان اور عاشقِ امام (رہ)جوانوں سے جواس راہ میں زبان و بیان اور عمل کے ذریعہ مصروفِ خدمت ہیں یہ گزارش کرتا ہوں کہ وہ اس بات کا خیال رکھیں ، ایسا نہ ہو کہ کسی سے ہماری دشمنی و مخالفت ہمیں جادۂ حق سے تجاوز پر اکسادے ، اور ہم ظلم و زیادتی کا ارتکاب کر بیٹھیں ، ہمیں ظلم و ناانصافی سے پرہیز کرنا چاہیے ، ہمیں کسی پر ظلم نہیں کرنا چاہیے ۔

میں یہاں پر امامِ امّت (رہ) کا ایک واقعہ نقل کررہاہوں ، ایک شب کی بات ہے کہ میں امام (رہ)کی خدمت میں حاضر تھا ، میں نے دنیائے اسلام کی ایک مشہور و معروف شخصیت کے بارے میں امام (رہ) سے ان کی رائے معلوم کی ( میں یہاں پر اس شخصیت کا نام لینا مناسب نہیں سمجھتا ، آپ سبھی اس کو پہچانتے ہیں )    امام (رہ)نے مختصر ساغور و فکر کیا اور فرمایا میں اسے نہیں پہچانتا ، اس کے بعد آپ نے اس کی مذمّت میں ایک جملہ کہا ۔ یہ بات گزرگئی ، مجھے اچھی طرح یاد نہیں ہے کہ اس واقعہ کے دوسرے یا تیسرے دن میں کسی کام سے دوبارہ امام (رہ)کی خدمت میں حاضر ہوا ، قبل اس کے کہ میں اپنے کام کے بارے میں گفتگو کرتا ، امام (رہ)نے مجھے دیکھتے ہی فوراً فرمایا کہ آپ نے جس شخص کے بارے میں کل یا پرسوں رات  مجھ  سے سؤال کیا تھا اس کے بارے میں اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ میں اس کی شخصیت سے واقف نہیں ہوں ، آپ نے اس کے ذریعہ وہ مذمّت آمیز جملہ پاک کردیا ، آپ ملاحظہ کیجئے کہ یہ بہت اہم چیز ہے ، حالانکہ وہ جملہ نہ تو گالی  تھی  نہ کوئی نازیبا تعبیر تھی ، نہ الزام تراشی تھی  خوش قسمتی سے میرے حافظہ کی کمزوری یا امام (رہ)کے معنوی تصرّف  کی وجہ سے  مجھے وہ جملہ بالکل بھول گیا ہے کہ کیا تھا ، صرف اتنا یاد ہے کہ ایک مذمّت آمیز جملہ تھا ، آپ نے " میں اسے نہیں پہنچانتا "  کے ذریعہ اسے بالکل پاک کردیا ، یہ ہمارے لئے نمونۂ عمل ہے "لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ" ، آپ جس شخص کو قبول نہیں رکھتے اس کے بارے میں دو طریقہ سے گفتگو کر سکتے ہیں ، ایک طریقہ یہ ہے کہ حق و حقیقت کے مطابق گفتگو کریں اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم انصاف سے کام نہ لیں  ، حق سے تجاوز کریں ، یہ دوسرا طریقۂ کار برا ہے ، اس سے پرہیز کرنا چاہیے ، وہی بات کہیے جو حق ہو اورآپ عدلِ الٰہی کی عدالت میں اس کو پیش کر سکیں ، اس سے زیادہ کچھ نہ کہیے ، یہ بھی امام (رہ)کی تحریک اور خطوط  کے اصلی معیاروں میں سے ایک اہم معیار ہے ہم سب کو اسے یاد رکھنا چاہیے ۔

راہ امام (رہ) کے اصلی خطوط میں سے ایک دوسرا خط ، انتخابات اور دیگر اجتماعی مسائل میں عوام کا کردار ہے ، امام (رہ)نے اس میدان میں حقیقی معنا میں ایک عظیم تحوّل پیدا کیا ، بیسویں صدی کے پہلے پچاس سال ،  مشرق و مغرب  میں مختلف انقلابوں کے رونما ہونے کے سال ہیں لیکن کسی بھی انقلاب میں یہ خصوصیت نہیں پائی جاتی کہ انقلاب کی کامیابی کے محض دو ماہ بعد نظامِ حکومت کے انتخاب کے لئے  ریفرینڈم کرایا گیا ہو لیکن امام (رہ)کی قیادت میں ، انقلابِ ایران نے یہ کارنامہ انجام دیا ، انقلاب کی کامیابی کو ابھی ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ اس ملک کا بنیادی قانون مرتّب  ہو کر سامنے آیا ، مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ انقلاب کے ابتدائی چند ماہ میں جب کچھ وجوہات کی بنا پر قانونِ اساسی کی تدوین میں کچھ تاخیر ہوگئی تو امام (رہ)نے ہمیں قم طلب کیا اس وقت امام(رہ) قم میں رہائش پذیر تھے ، جب ہم ان کی خدمت میں پہنچے تو آپ نے انتہائی سخت لہجہ میں فرمایا کہ بنیادی آئین کو جلد از جلد تدوین کیجئے ۔ اس کے بعد خبرگان کونسل  کا الیکشن منعقد ہوا اور عوام نے بنیادی آئین کی تدوین کے لئے خبرگان کونسل کا انتخاب کیا ، بنیادی آئین کی تدوین کے بعد اس کے سلسلہ میں استصوابِ رائے ہوا ، ریفرینڈم منعقدہوا ، لوگوں نے بنیادی آئین کے حق میں ووٹ ڈالا ، اس کے بعد صدارتی اور پارلیمانی الیکشن منعقد ہوئے ، ان دشوار و سخت حالات میں جب تہران پر  دشمن  بمباری کر رہاتھا ان حالات میں بھی یہ الیکشن ملتوی نہیں ہوئے ، آج تک ایران میں کسی بھی الیکشن کے انعقاد میں ایک دن کی بھی تاخیر نہیں ہوئی ہے ، انقلاب تو درکنا ، آپ دنیا کی کس جمہوریت  میں ایسا نمونہ ڈھونڈ سکتے  ہیں  جہاں اس باریک بینی سے بروقت عوام کے ووٹ  بیلٹ بکسوں میں ڈالے جاتے ہوں ۔ یہ امام (رہ)کا راستہ ہے ۔

 انتخابات کے علاوہ بھی امام (رہ)نے بارہا عوام کو اپنی توجّہ کا مرکز بنایااور ان کے ناقابلِ تردید کردار کی طرف اشارہ کیا ؛ اور کبھی کبھی واضح انداز میں ان کے کردار پر روشنی ڈالی ، بعض مقامات پر فرمایا : اگر ملکی حکّام فلاں کام کو انجام نہیں دیں گے تو عوام خود ، میدان میں وارد ہوں گے اور اسے انجام دیں گے ۔

راہ امام (رہ)کا ایک دوسرا روشن و واضح نقطہ ، اس انقلاب کا عالم گیر ہونا ہے ، امام (رہ) اس تحریک کو عالم گیر جانتے تھے ،اسے تمام مسلمان بلکہ غیر مسلم  قوموں سے متعلّق سجھتے تھے ، امام (رہ) کو اس میں کوئی قباحت معلوم نہیں ہوتی تھی ، یہ چیز ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت  شمار نہیں ہوتی ، ہم کسی بھی ملک کے اندرونی مسائل میں مداخلت نہیں کرتے ، اس کا مطلب سامراجی ہتھکنڈوں کے ذریعہ انقلاب کو دیگر مقامات تک صادر کرنا نہیں ہے ، ہم یہ بھی نہیں چاہتے ، یہ ہمارا نصب العین نہیں ہے ، اس کا مطلب یہ ہے  کہ اس رحمانی  واقعہ کی خوشبو دنیا میں دور دور تک پھیلے  ، قوموں کو اپنی ذمّہ داری کا احساس ہو ، مسلم قوموں کو اپنی شناخت کا علم ہو ، اس عالم گیریت کی ایک مثال مسئلہ فلسطین کے بارے میں امام(رہ) کا موقف  ہے ، امام (رہ)نے اس سلسلہ میں صراحتاً فرمایا " کہ اسرائیل کینسر کا پھوڑا ہے " کینسر کے پھوڑے کے ساتھ کیا سلوک کیا جاتا ہے ؟ اس کو جڑ سے کاٹے بغیر اس کا کوئی علاج نہیں ہوا کرتا ، امام (رہ)نے اس سلسلہ میں کسی کا پاس و لحاظ نہیں کیا ،امام (رہ)کی منطق یہ تھی ،یہ  باتیں کوئی نعرہ نہیں ہیں بلکہ ان کی پشت پر منطق و استدلال کارفرما ہے ، فلسطین ایک تاریخی ملک ہے ، تاریخ میں ہمیشہ سے ہی فلسطین نام کا ایک ملک موجود رہا ہے ، دنیا کی ظالم و جابر حکومتوں کی پشت پناہی  سے کچھ لوگ اس سرزمین میں داخل ہوئے اور فلسطینی قوم کو انتہائی بے رحمی اور بہیمانہ انداز سے باہر نکالا، وہاں خون ، قتل و غارت کا بازار گرم کیا ، انہیں جلا وطن کیا ، ان کو آزار و اذیت کا نشانہ بنایا ، ان کی توہین کی  ، فلسطینی قوم کو وہاں سے باہر نکالا ، جس کی وجہ سے آج کئی لاکھ فلسطینی مقبوضہ فلسطین کے ہمسایہ ممالک اور دیگر ممالک میں جلا وطنی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ، یہ جلاوطن فلسطینی عام طور پر پناہ گزین کیمپوں میں انتہائی ناگفتہ بہ حالات میں زندگی بسر کر رہے ہیں ، در حقیقت  ان غاصبوں نے دنیا کے جغرافیائی نقشہ سے ایک ملک کو مٹا دیا ہے ، ایک پوری قوم کو نابود ی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے اور اس کے بجائے ایک جعلی اور خودساختہ ملک کو معرضِ وجود میں لائے ہیں جس کا نام انہوں نے اسرائیل رکھا ہے ۔آپ ملاحظہ کیجئے کہ منطق وعقل کا تقاضا کیا ہے ؟ ہم فلسطین کے بارے میں جو کہتے ہیں وہ کوئی دکھاوا یا نعرہ نہیں ہے بلکہ سوفیصد ایک منطقی ومعقول بات ہے ۔

شروع میں برطانیہ کی حکومت  نے اس کی  پشت پناہی کی اس کے بعد امریکہ بھی اس سے ملحق ہوگیا ، رفتہ رفتہ دیگر مغربی ممالک بھی اس صف میں شامل ہوگئے اور یہ کہنا شروع کردیا کہ فلسطین اور فلسطینی قوم کو یہاں سے مٹا دیا جائے تاکہ اس کے بجائے یہاں ایک خودساختہ اور جعلی ملک اور قوم  یعنی اسرائیل  اور ملّت ِ اسرائیل وجود میں آئے ، یہ ان کی بات ہے اس کے مقابلہ میں امامِ امّت(رہ) کا نظریہ یہ ہے کہ اس خودساختہ اور بے بنیاد ملک کا خاتمہ ہونا چاہیے اور اس کے بجائے یہ ملک اور اس کی حکومت اس کے حقیقی وارثوں کے سپرد کی جائے ، آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ ان میں سے کون سی بات منطقی ہے ؟ وہ بات منطقی ہے جو زور زبردستی ، سرکوبی پر استوار ہے ، جو ایک سیاسی نظام کو ،  کئی ہزار سال پر مشتمل تاریخی اور  انتہائی قدیمی جغرافیائی سرزمین کو ہڑپنے کے درپے ہے یا وہ بات منطقی ہے جو اس خود ساختہ و بے بنیاد حکومت کی نابودی کی بات کرتی ہے ؟ امام(رہ) اس بات کو دہراتے تھے ، مسئلہ فلسطین اور غاصب اسرائیل کے باب میں جو باتیں کہی جاسکتی ہیں امام(رہ) کی بات ان میں سے سب سے زیادہ منطقی بات ہے ، امام (رہ)نے اپنے نظریہ کو واضح و آشکار طور پر بیان کیا ، اگر آج کوئی شخص اشارے و کنایے میں یہی بات کہے تو کچھ لوگ جوراہ امام (رہ)کی پیروی کے مدّعی بھی ہیں فوراً اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ جناب آپ نے یہ بات کیوں کہی ؟ ! جناب یہ ہماری بات نہیں ہے بلکہ امام (رہ)کی بات ہے ، یہ امام (رہ)کی منطق ہے ، یہ بالکل صحیح منطق ہے ، تمام مسلمانانِ عالم ، دنیا کے آزاد مردوں ، حرّیت پسندوں اورغیر جانبدار قوموں کو اسے مان لینا چاہیے ، یہ موقف صحیح ہے ، یہ امام(رہ) کا موقف ہے

      امام(رہ) کے معیاروں کے سلسلہ میں ایک آخری نکتہ کی طرف اشارہ کروں اور آپ کی زحمتوں کو تمام کروں ، آپ آفتاب کی گرمی کو برداشت کر رہے ہیں ،خداوندِ عالم آپ کو اجرو ثواب عنایت فرمائے ، امام (رہ)کے راہ  اور راستہ  کے بارے میں ایک دوسرا بنیادی نکتہ جس کی امام (رہ)نے بارہا تاکید کی  ہے ، یہ ہے کہ افراد و اشخاص کے بارے میں فیصلہ کا معیار ان کی موجودہ حالت ہے ، افراد کا ماضی فیصلہ کا معیار نہیں بن سکتا ، ماضی اسی صورت میں فیصلہ کا معیار قرار پاسکتا ہے جب کسی کی موجودہ حالت معلوم نہ ہو ، اس صورت میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ یہ شخص ماضی میں ایسا تھا اب بھی یقیناً ویسا ہی ہے ، لیکن اگر کچھ لوگ اپنے ماضی کے مدِّ مقابل آکھڑے ہوں تو ان کا ماضی کسی کام کا نہیں ، یہ وہی فیصلہ ہے جو جنابِ امیر المؤمنین علیہ السّلام نے طلحہ و زبیر کے بارے میں کیا ، آپ یہ جان لیجئے کہ طلحہ و زبیر کوئی معمولی افراد نہیں تھے ، جنابِ زبیر کے اندر وہ تابناک کارنامے جلوہ گر تھے جو امیرالمؤمنین علیہ السّلام کے انگشت شمار اصحاب میں ہی  پائے جاتے تھے ، جب خلیفۂ اوّل  کو خلافت کی کرسی مل چکی تو اس کی خلافت کے ابتدائی ایّام میں چند افراد منبر کے پاس سے کھڑے ہوئے اور اس کی خلافت کی مخالفت کی اور یہ کہا کہ حق ، علی بن ابی طالب کے ساتھ ہے   ، تاریخِ اسلام  کے صفحات میں ان کے نام محفوظ ہیں ، شیعہ و سنّی سبھی نےاس کا تذکرہ کیا ہے ، انہیں افراد میں سے ایک جنابِ زبیر ہیں جنہوں نے خلیفۂ اوّل پر اعتراض کیا اور جنابِ امیر (ع)کے حق کادفاع کیا ، زبیر کا ماضی یہ تھا، اس دن اور جس دن زبیر نے امیرالمؤمنین علیہ السّلام کے مقابلہ میں تلوار کھینچی  پچیس سال کا فاصلہ تھا ، برادرانِ اہلِ سنّت کا کہنا ہے کہ طلحہ و زبیر نے اجتہاد کیا اور اس میں ان سے چوک ہوگئی ، ہم اس وقت ان کے اجتہاد اور قیامت میں ان کے انجام کے بارے میں بحث و گفتگو نہیں کرنا چاہتے لیکن ہم یہ معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ امیرالمؤمنین (ع)نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ؟ امام(رہ) نے ان سے جنگ کی ۔ امام (رہ)نے مدینہ سے لشکر اپنے ساتھ لیا اور طلحہ و زبیر سے جنگ کے لئے   بصرہ و کوفہ کی طرف روانہ ہوئے  ، ان کا ماضی محو ہوگیا ۔ امامِ امّت(رہ) کا معیار بھی یہی تھا ۔

بعض افراد پیرس سے اسی ہوائی جہاز سے جس میں امام(رہ) سوار تھے  امام (رہ)کے ہمراہ ایران آئے لیکن امام (رہ)کے زمانہ میں ہی  کسی خیانت کی وجہ سے انہیں سولی پر لٹکا دیا گیا  ! کچھ لوگ نجف کے زمانے اور اس کے بعد پیرس کے دور میں امام (رہ)سے قریبی تعلّقات  قائم کیئے ہوئے تھے ، اوّلِ انقلاب میں امام (رہ)کی توجّہ اپنی طرف جذب کرنے میں کامیاب بھی ہوئے لیکن اس کے بعد ان کی رفتار و گفتار ، ان کا مؤقف اس بات کا باعث بنا کہ امام (رہ)نے انہیں اپنے قریب سے دور کردیا ، ہماری موجودہ حالت معیار ہے لیکن خدانخواستہ اگر ہمارے اوپر نفسِ امّارہ اور شیطان غالب آجائے اور ہمیں راستے سے منحرف کردے تو ہمارے بارے میں مختلف فیصلہ ہوگا ، اسلامی نظام کا مبنا یہ ہے اور امام (رہ)نے اسی اصل پر عمل کیا ۔

امام(رہ) کے راہ و روش کے سلسلہ میں کچھ دیگر خطوط کو بھی بیان کیا جاسکتا ہے ۔ ہم نے  سب اہم اور مؤثر معیاروں اور خطوط کی طرف اشارہ کیا ، کتنا ہی اچھا ہے کہ ہمارے جوان ، صاحبان ِ فکر و نظر ، اہل ِ تحقیق، حوزہ و یونیورسٹی کا طلباء ان مبانی پر کام کریں ، ان پر غور و فکر کریں ، یہ مبانی صرف متن کی صورت میں باقی نہ رہیں بلکہ ان کو درست انداز میں بیان کیا جائے ، ان کی توضیح و تشریح کی جائے ۔

سبھی لوگ بالخصوص ہمارے عزیز جوان  یہ جان لیں کہ امام(رہ) کی رحلت سے لے کر آج تک ہمارے دشمنوں کی عداوتیں ، رخنہ اندازیوں اور دیگر قسم قسم کی سازشوں  نے اس نظام کے ستونوں میں ذرّہ برابر لغزش پیدا نہیں کی ہے بلکہ اس کے برعکس دشمن نے آٹھ سالہ تحمیلی جنگ کی مانند اسلامی جمہوریہ ایران پر جو بھی وار کیا ہے وہ اس نظام کے زیادہ استحکام پر منتج ہوا ہے ؛ ان آٹھ سال میں دنیا کی بڑی بڑی سیاسی ، فوجی اور اقتصادی طاقتیں ، عراق کی بعثی حکومت کی پشت پر تھیں ، ایران سے نبردآزما تھیں ، انہوں نے ایران کو شکست یا کم سےکم کمزور بنانے کے لئے اپنی پوری طاقت میدان میں جھونک دی  لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ جب یہ آٹھ سالہ جنگ ختم ہوئی تو دنیا نے حیرت سے دیکھا کہ جنگ کی ابتداء کے مقابلہ میں ایران کی فوجی اور دفاعی طاقت میں کہیں زیادہ اضافہ ہوچکا ہے ، اس جنگ کے بعد ایران کی طاقت کا سورج  دنیا میں کچھ اس طرح طلوع ہوا کہ تمام دنیا کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں، آج بھی یہی صورتِ حال ہے ، دشمن جو بھی سازش رچیں اور ملک کے اندر کے کچھ سادہ لوح ، خام اور غافل افراد ان کی ہمراہی کریں  ، ایرانی قوم کی استقامت  کی وجہ سے یہ سازش جمہوری اسلامی کی تقویت پر منتج ہو گی ۔

آپ نے مشاہدہ کیا کہ ملک کے اندر آشوب و بلوے بپا کئے گئے ، دشمنوں نے سرتوڑ کوشش کی ، امریکہ نے ان فتنہ پروروں اور بلوائیوں کا دفاع کیا ، برطانیہ نے دفاع کیا ، دیگر مغربی طاقتوں نے دفاع کیا ، منافقوں اور سلطنت طلبوں نے ان کا دفاع کیا،  اس کا  نتیجہ کیا نکلا؟ اس کے نتیجہ یہ ہوا کہ اس منحوس اتحاد کے مقابلہ میں ہمارے عزیز عوام اور ایران کی عظیم قوم نے ۹دی (۳۰ دسمبر ۲۰۰۹ ع) اور بائیس بھمن (۱۱ فروری ۲۰۱۰ ع) کے عظیم مظاہروں کے ذریعہ پوری دنیا کو حیرت میں ڈال دیا ، آج کا ایران ، آج کا جوان ، آج کا تعلیم یافتہ جوان ، آج کی ایرانی قوم  الحمد للہ ایک ایسے مقام پر فائز ہے کہ وہ خدا کی توفیق کے زیرِ سایہ اسلامی نظام کے خلاف دشمن کی ہر سازش کو ناکام بنانے پر قادر ہے ،  اس کے لئے ہمیں تقویٰ اختیار کرنے کی ضرورت ہے ، تقویٰ ، ہمیں مضبوط بناتا ہے ، ہر مصیبت سے نجات دلاتا ہے ، وہ چیز جو ہمیں اس راستہ پر چلنے کی ترغیب  اور مقصد تک پہنچنے کی امّید دلاتی ہے وہ تقویٰ ہی ہے ۔

اے خدا!تجھے محمّد و آلِ محمّد کا واسطہ ہم سب کواور ایرانی قوم کی فرد فرد کو تقوائے الٰہی کی توفیق عنایت فرما، خدایا! ہمارے دلوں کو ایک دوسرے سے قریب کر دے ، اے خدا! راہ امام(رہ) کے محور ، امام(رہ) کی شخصیت اورا س انقلاب کی حقیقی شناخت کو ہمارے عوام میں روزبروز فروغ دے ، خدایا! امامِ زمانہ (عج) کے مقدّس دل کو ہم سے راضی و خوشنود فرما ، ہمارے شہیدوں کی طیّب و طاہر روحوں اور ہمارے عزیز امام(رہ) کی روحِ مطہّر کو ہم سے راضی و خوشنود فرما۔

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

والعصر ۔انّ الانسان لفی خسر ۔ الّا الّذین آمنوا و عملوا الصّالحات و تواصوابالحقّ وتواصوا بالصبر (۹)

دوسرا خطبہ

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

والحمد للہ ربّ العالمین والصلاۃ والسّلام علیٰ سیّدنا محمّد و آلہ الطّاھرین سیّما علی امیرالمؤمنین والصّدّیقۃ الطّاھرۃ والحسن والحسین سیّدی شباب اھل الجنۃ و علی بن الحسین زین العابدین و محمّد بن علی باقر علم الاوّلین و الآخرین و جعفر بن محمّد الصادق و موسیٰ بن جعفر الکاظم و علی بن موسی الرّضا و محمّد بن علی الجواد وعلیّ بن محمّد الھادی و الحسن بن علیّ الزکیّ العسکری  والحجّۃ القائم المھدی صلوات اللہ علیھم اجمعین ۔

وصلّ علیٰ آئمّۃ المسلمین و حماۃ المستضعفین و ھداۃ المؤمنین اوصیکم عباد اللہ بتقویٰ اللہ

آپ سبھی بھائیوں اور بہنوں کو ایک بار بھر تقوائے الٰہی کی رعایت کی دعوت دیتا ہوں اور اس کی نصیحت کرتا ہوں، آج کے دور میں عالمِ اسلام بلکہ پوری دنیا میں کچھ عظیم  تبدیلیاں رو نما ہورہی ہیں جو عالمی توازن میں تبدیلی کی خبر  دے رہی ہیں ، اس اعتبار سے ایرانی قوم کے لئے ان تبدیلیوں پر توجّہ دینا بہت اہمیت رکھتا ہے ۔

 ایک مسئلہ ، فلسطین اور غزّہ  کا مسئلہ ہے بالخصوص اس قافلہ پر حملہ کا مسئلہ  جو غزّہ کے مظلوم عوام کی امداد اور غزّہ کا محاصرہ توڑنے کے لئے رواں دواں تھا جس پر ان غدّار ، دغاباز اور سنگدل صہیونیوں نے حملہ کیا ، فلسطین کے مسئلہ میں گزشتہ ایک سال بالخصوص گزشتہ چند ماہ میں جو چیز دیکھنے میں آئی ہے وہ سرزمینِ فلسطین کی یہودی سازی کا مسئلہ ہے ، اس غاصب حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ سرزمینِ فلسطین اور دریائے اردن کے مغربی کنارے سے رفتہ رفتہ تمام اسلامی آثار کو مٹا دیا جائے اور اس کو یہودی علاقہ میں تبدیل کیاجائے حالانکہ اس مغربی کنارے کے بارے میں صیہونی حکومت خود بھی اس بات کی تصدیق کر چکی ہے اور اقوامِ متّحدہ کی متعدّد قرادادیں بھی موجود ہیں کہ یہ مقبوضہ علاقہ ہے اور اسرائیل کو اسے فوراً خالی کردینا چاہیے ، غیرقانونی اور ظالمانہ کالونیوں کی تعمیر ، فلسطینیوں کے گھروں کو ویران کرنا، شہر الخلیل اور قدس  کے اسلامی آثار کو مٹانا ، صیہونی حکومت یہ شرمناک اعمال اس غرض سے انجام دے رہی ہے تاکہ اپنےخیالِ خام میں  فلسطینی ملک سے اسلام کا قلعہ قمع کردے ، یہ نکتہ بہت اہمیت کا حامل ہے ، عالم اسلام کو اپنے پورے وجود سے اس کا مقابلہ کرنا چاہیے اور اس المیہ کی روک تھام کرنا چاہیے ۔

ایک دوسرا مسئلہ غزّہ کا محاصرہ ہے کہ جسے تین سال کا عرصہ بیت چکا ہے ، یہ محاصرہ درندگی ، سنگدلی ، حیوانیت کا ایک بے مثال نمونہ ہے  ، انتہائی تعجّب کی بات ہے کہ اس محاصرہ کو امریکہ ، برطانیہ اور ان مغربی طاقتوں کی بھر پور حمایت حاصل ہے جو ہمیشہ انسانی حقو ق کے دفاع کا دم بھرتی رہتی ہیں ۔ اس غاصب حکومت نے تین سال سے پندرہ لاکھ  کی آبادی کا محاصرہ کر رکھا ہے ، اور کسی قسم کی غذائی اور طبّی امداد کو وہاں نہیں جانے دیتی ، ان کے واٹر سپلائی اور پاور سپلائی نظام کو درہم برہم کر رکھا ہے ، سیمنٹ اور عمارتوں کی تعمیر میں استعمال ہونے والے دیگر مواد کا وہاں داخلہ ممنوع ہے ،کشتیوں کا یہ قافلہ ، اپنے ساتھ سیمنٹ اور عمارتوں کی تعمیر میں  استعمال ہونے والا دیگر سازو سامان اپنے ساتھ لے جارہا تھا تاکہ غزّہ کے عوام اپنے برباد شدہ گھروں کی تعمیر کر سکیں ، وہ مسلسل گولیاں برسانے کے علاوہ انسانوں کا قتل عام بھی کرتے ہیں ، معصوم بچّوں اور مظلوم عورتوں کا خون بہاتے ہیں ، یہ صیہونی حکومت کا اصلی چہرہ ہے ۔

انسانی حقوق کے دفاع کی مدّعی تنظیمیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے  تماشائی بنی کھڑی ہیں ، مغربی حکومتیں ان سے بھی دوہاتھ آگے ہیں ، تماشہ کے علاوہ اس کی حمایت بھی کر رہی ہیں ، افسوس! کہ جن عرب ممالک اور اسلامی ممالک کو ان مظلوموں کی حمایت کرنا چاہیے تھی ان میں سے اکثر نے خاموشی اختیار کررکھی ہے ، بلکہ بعض نے تو منافقانہ و خائنانہ رویّہ اپنا رکھا ہے ، بہت عجیب صورتِ حال ہے ۔

صہیونیوں کے اس اقدام  (جس میں انہوں نے غزّہ کی طرف امدادی سامان لے  جانے والی کشتیوں کے قافلہ پر حملہ کیا حالانکہ یہ کشتیاں ابھی ان کی بحری حدود میں داخل بھی  نہیں ہوئی تھیں )کا جائزہ لیتے وقت ہمیں دوپہلوؤں پر خصوصی توجہّ دینا چاہیے

 اس واقعہ کا پہلا پہلو یہ ہے کہ اس واقعہ سے صہیونی حکومت کی حیوانیت اور درندگی پوری دنیا پر عیاں ہوگئی ، دنیا کو اس کی حقیقت کا پتہ چل گیاہے ، دنیا کو سمجھنا چاہیے ، صہیونی اس بات کے مدّعی ہیں کہ ہم کشتیوں کی چھان بین کے لئے اور انہیں غزّہ جانے سے روکنے کے لئے ان پر سوار ہوئے تھے وہ سراسر جھوٹ بول رہے !  وہ حملہ کی غرض سے کشتیوں پر سوار ہوئے ، انہوں نے پہلے سے اس کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی ، ان کے اغراض و مقاصد معیّن ہیں ، وہ اگرنصیحت اور سمجھانے بجھانے کے لئے بھی گئے تھے تو بھی انہوں نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ، ایک ایسی کشتی جو آزاد سمندر میں چل رہی ہو اسے کوئی بھی نہیں روک سکتا ، تم زیادہ سے زیادہ یہ کام کر سکتے تھے کہ اسے اپنی بندر گاہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ دیتے ، تم کس حق سے سمندر میں داخل ہوئے اور ان کو حملہ کا نشانہ بنایا ، قتل و غارت کی ، بہت سے افراد  کو قتل کیا ،  بہت سے افراد کو زخمی کیا ، ان میں سے ایک بڑی تعداد کو قیدی بنا لیا ؟ تم نے ایسا کیوں کیا ؟ یہ تمہاری درندگی کی علامت ہے ۔ یہ وہی چیز ہے  کہ گزشتہ تیس سال سے ایران جس سے  خبردار کر رہا ہے لیکن مغرب کی دوغلی ، جھوٹی اور ریاکار حکومتیں اس کی ان سنی کر رہی ہیں ، آج پوری دنیا نے صہیونیوں کی حیوانیت اور درندگی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ۔

اس مسئلہ کے بارے میں ایک دوسرا نکتہ جس پر توجّہ مرکوز کرنا چاہیے یہ ہے کہ صہیونیوں نے اس واقعہ میں بھی اپنے حساب و کتاب میں غلطی کی ، بہت بڑی غلطی کی ، یہ غلطی گزشتہ چند سال سے مسلسل دہرائی جارہی ہے ، انہوں نے لبنان پر حملہ کر کے غلطی کی ، غزّہ پر حملہ کیا  ایک اور غلطی کی ، ان کشتیوں کے قافلہ پر حملہ کر کے ایک دوسری بڑی غلطی کی ، ان غلطیوں کی بار بار تکرار سے پتا چلتا ہے کہ غاصب صہیونی حکومت اپنے حتمی زوال کے بالکل قریب ہے اور روزبروز اس کی طرف قدم بڑھا رہی ہے ۔

ایک دوسرا اہم واقعہ جس کی اہمیت کے اعتبار سے ایرانی قوم کو اس پر توجّہ دینا چاہیے نیویارک میں  این ، پی ، ٹی معاہدے پر نظر ثانی کے لئیے منعقد ہونے والی طویل کانفرنس  اور اس میں رونما ہونے والا واقعہ ہے ، عالمی طاقتوں نے اس کانفرنس کو اس غرض سے منعقد کیا تھا تا کہ ان ممالک کی جوہری توانائی تک رسائی کو محدود کر سکیں جو ابھی اس ٹیکنالوجی کے حصول میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں ، ان کے راستہ کی رکاوٹوں میں اضافہ کر سکیں البتّہ ان کی دلی خواہش تھی اور اس کے لئے انہوں نے منصوبہ بندی بھی کر رکھی تھی کہ اس کانفرنس میں جمہوریٔ اسلامی سے اپنے کینہ و عناد کو ظاہر کریں ، لیکن ان کی حسرت  ان کے دل میں رہ گئی اور اس کانفرنس کا نتیجہ الٹا نکلا ، یہ کانفرنس ایک مہینہ تک جاری رہی ، اس کانفرنس سے ان طاقتوں کے اغراض و مقاصد کے حصول کے بجائے ،  اسلامی جمہوریہ ایران جیسے ممالک کو محدود کرنے کے بجائے اس کانفرنس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ  ۱۸۹ ممالک کی جانب سے ایٹمی طاقتوں پر یہ ذمّہ داری عائد کی گئی کہ وہ جلد از جلد ان ہتھیاروں کو برباد کردیں اور آئندہ ایسے ہتھیار نہ بنائیں ، پر امن مقاصد کے لئے جوہری توانائی کے حصول کے حق کو دیگر ممالک نے رسمی طور پر قبول کیا ،غاصب صہیونی حکومت کی مذمّت کی گئی اور اس پر این ، پی ، ٹی معاہدے پر دستخط پر زور دیا گیا حالانکہ اس حکومت کی دائیاں اس کے حق میں بہت فعّال تھیں  ، ان کی دلی خواہش کے بالکل بر خلاف نتیجہ نکلا ، یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے ، اس سے پتا چلتا ہے کہ  آج کی دنیا میں کوئی بھی امریکہ جیسی سامراجی حکومتوں کی باتوں کے جھانسے میں نہیں آسکتا ، آج امریکہ کے اندر اتنی سکت نہیں ہے کہ وہ عالمی مسائل پر اثر انداز ہوسکے ، اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنی گزشتہ تیس سال کی مزاحمت کے ذریعہ ایساماحول پیدا کردیا ہے کہ نہ صرف قومیں بلکہ دنیا کے ۱۸۹ ممالک ، امریکہ کے مقابلہ میں اٹھ کھڑے ہوتے ہیں اور اس کی مرضی و منشا کے برخلاف فیصلہ کرتے ہیں اور ووٹ دیتے ہیں ، یہ ملتِ ایران کے لئے خداکی نوید و خوشخبری ہے ۔

میں یہاں پر کچھ دیگر مسائل پر بھی گفتگو کرنا چاہتا تھا لیکن چونکہ وقت کافی زیادہ گزر چکا ہے اس لئے ان سے صرفِ نظر کرتا ہوں ، ہم دعا گو ہیں کہ پروردگارِ عالم تمام مؤمن بھائیوں اور بہنوں اور ایران کے تمام لوگوں کو اپنے لطف و کرم سے نوازے اور اس قوم کی کامیابیوں میں روز بروزاضافہ فرمائے ۔

خدایا! اپنے لطف و کرم سے مسلمان قوموں کے دلوں کو ایک دوسرے سے قریب کردے ، امّت ِ مسلمہ کے اتحاد و اقتدار میں اضافہ فرما ، ایرانی قوم کو سربلند فرما ، اس قوم کی مشکلات کو دور کردے ۔  

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

انّا اعطیناک الکوثر ۔ فصلّ لربّک وانحر ۔ انّ شانئک ھو الابتر (۱۰)

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) سورۂ احزاب ، آیت ۷۰ ، ۷۱ ایمان والو اللہ سے ڈرواور سیدھی بات کرو تاکہ وہ تمہارے اعمال کی اصلاح کردے اور تمہارے گناہوں کو بخش دے اور جو خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا وہ عظیم  کامیابی کے درجہ پر فائز ہوگا۔

 (۲) سورۂ ھود ، آیت ۱۱۲ ، " لہٰذا آپ کو جس طرح حکم دیا گیا ہے اسی طرح استقامت سے کام لیں اور وہ جنہوں نے آپ کے ساتھ توبہ کر لی ہے اور کوئی بھی کسی طرح کی زیادتی نہ کرے کہ خداسب کے اعمال کو خوب دیکھنے والا ہے "

(۳) سورۂ شوریٰ ، آیت ۱۵ " لہٰذاآپ اسی کے لئے دعوت دیں اوراس طرح استقامت سے کام لیں جس طرح آپ کو حکم دیا گیا ہے "

(۴)سورۂ احزاب ، آیت ۲۱

(۵) سورۂ ممتحنہ ، آیت ۴

(۶)سورۂ فتح ، آیت ۶

 (۷) سورۂ حج ، آیت ۴۰ " ۔۔۔۔اور اللہ اپنے مددگاروں کی یقیناً مدد کرے گا "

(۸) سورۂ فتح ،آیت ۶ "۔۔۔ ان کے سر عذاب کی گردش ہے اور ان پر اللہ کاغضب ہے ، خدا نے ان پر لعنت کی ہے اور ان کے لئے جہنّم کو مہیّا کیا ہے جو بدترین انجام ہے "

(۹)سورۂ عصر ،" قسم ہے عصر کی ۔  بے شک انسان خسارے میں ہے ۔علاوہ ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے  اور ایک دوسرے کو حق وصبر کی وصیت و نصیحت کی ۔

(۱۰)سورۂ کوثر ، بے شک ہم نے آپ کو کوثر عطا کیا ہے ۔ لہٰذاآپ اپنے رب کے لئے نماز پڑھیں اور قربانی دیں ۔ یقیناً آپ کا دشمن بے اولاد اور ابتر رہے گا ۔