ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا مختلف یونیورسٹیوں کے رضاکار دستوں سے خطاب

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم
اس ملاقات کا موقع فراہم کرنے کے سلسلے میں ، میں آپ حضرات کا انتہائی شکر گزار ہوں اور بہت خوش ہوں ، یہ اجتماع حقیقت میں علم و ایمان کے حسین امتزاج کی علامت ہے ؛ رضاکارانہ جذبہ سے سرشار ،الٰہی رنگ میں  رنگے اساتذہ علم و ایمان  کے امتزاج کامظہر ہیں ۔یہ جلسہ بھی بہت بے تکلّف  اور اچھّا جلسہ تھا ، میں نے آپ حضرات کے خیالات کو بغور سنا ، آپ حضرات  کا شمار ہمارے ملک  کے دانشوروں میں ہوتا ہے ؛ آپ نے بہت اچھّی تجاویز پیش کیں ، ان میں سے بعض تجاویز کا تعلّق  حکومت سے  ہے ، حکومت کے محترم وزراء اور دیگر ذمّہ داران یہاں تشریف فرما ہیں انہیں ان تجاویز کا جائزہ لینا چاہیے ، البتہ بعض تجاویز حکومت کے اختیارات سے خارج ہیں ،ہمیں ان کا جائزہ لیناچاہیے ، ان سے استفادہ کرنا چاہیے اور ان پر عمل درآمد کرنا چاہیے ۔
شھید چمران کے یومِ شہادت کو " رضاکار اساتذہ" کے دن سے موسوم کرنے کی جو تجویز یہاں پیش کی گئی میری نگاہ میں یہ تجویز ایک انتہائی بامعنیٰ اور معقول تجویز ہے ۔ مرحوم شھید چمران در حقیقت ہمارے جوانوں کی تربیّت اور اہلِ یونیورسٹی کی منزلِ مقصود کے لئے ایک بہترین نمونہ اور مظہر ہیں، اس لئے یہ تجویز ایک معنیٰ خیز اور مناسب تجویز ہے ۔

اس شہید کا حق اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ ہم مرحوم شہید چمران کے بارے میں چند جملے عرض کریں ۔ سب سے پہلے یہ شہید ایک ممتاز ، برجستہ اور بہت باصلاحیت شخصیت کے حامل تھے ،  موصوف  امریکہ  کے اپنے دورِ تعلیم اور وہاں کے ممتاز اساتذہ کی آپ پر خصوصی توجّہ اور اپنی علمی کاوشوں کا مجھ سے تذکرہ کیا کرتے تھے ، موصوف ایک مکمّل دانشور تھے ۔ اس کے باوجود ان کے عاشقانہ ایمان کا یہ عالم تھا کہ دنیوی نام ونمود، مقام ومنصب ، اور بظاہر عاقلانہ دنیوی مستقبل کو خیرآباد کہا اور امام موسیٰ صدر کے ہمراہ لبنان میں جہادی سرگرمیوں میں مصروف ہوگئے ، وہ بھی ایک ایسے دور میں جب لبنان ایک انتہائی پرتلاطم اور خطرناک دور سے گزر رہا تھا ، سنہ ۵۷ ھ۔ ش میں ہمیں لبنان کی تشویشناک  صورت حال کی خبریں مسلسل موصول ہورہی تھیں، اس دور میں شہرِ بیروت کی سڑکیں جنگ کا سماں پیش کر رہی تھیں ، ہر طرف مورچہ بندی تھی ، اس خانہ جنگی کے پسِ پردہ صیہونیوں کا ہاتھ تھا البتّہ لبنان کے اندر بھی کچھ لوگ ان کی مدد کرر ہے تھے ، وہاں پر انتہائی عجیب و غریب اور افسوسناک صورت حال حکمفرما تھی ، وہاں کی صورتِ حال انتہائی پیچیدہ و مبہم تھی ۔

اسی دور میں شہرِ مشہد میں مرحوم چمران کی ایک آڈیو کیسٹ  ہمارے ہاتھ لگی جو موصوف سے ہمارے پہلے رابطہ اور آشنائی کا وسیلہ بنی ، یہ کیسٹ مرحوم کی دو گھنٹہ کی تقریر پر مشتمل تھی جس میں آپ نے لبنان کے حالات پر روشنی ڈالی تھی ، یہ بات ہمارے لئے بہت دلچسپ تھی کہ موصوف نے اپنی مکمّل سیاسی بصیرت ، ،صاف و شفاف سیاسی نقطۂ نظر کے ذریعہ وہاں کی صورت حال کا ایک ہمہ گیر  تجزیہ کیا اور اسے دو گھنٹہ کی ایک آڈیو کیسٹ میں بھر کر ایران بھیجا جو ہم تک بھی پہنچی ، حالانکہ  وہاں کے حالات انتہائی پیچیدہ تھے اوریہ سمجھنا بہت مشکل تھا کہ اصل حقیقت کیا ہے اور بیروت میں اس داخلی جنگ کے پس پردہ کون سے علل و اسباب کارفرما ہیں  ۔ موصوف وہاں تشریف لے گئے اور اپنے ہاتھ میں بندوق سنبھالی جس سے مرحوم کی سیاسی بصیرت اور دورِ فتنہ کے بادلوں  کو چھٹانے  میں آپ کے ناقابل تردید کردار کو بخوبی سمجھا جا سکتا ہے ، فتنہ ایک گھنگھور گھٹا کی طرح ماحول کو تاریکی میں بدل دیتا ہے اس تاریکی کو مٹانے کے لئے چراغ کی ضرورت ہوتی ہے بصیرت ہی وہ چراغ ہے  جواس گھٹا کو دور کرتا ہے ، مرحوم نے وہاں لڑائی لڑی اور جب اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہو ا تو آپ نے اپنے آپ کو یہاں پہنچایا ۔

انقلاب کے آغاز سے حسّاس  و نازک میدانوں میں موجود رہے ۔ صوبۂ کردستان تشریف لےگئے اور وہاں کی جنگوں میں سرگرم حصّہ لیا ، اس کے بعد تہران واپس آئے اور وزارت ِ دفاع کا چارج سنبھالا، جب جنگ شروع ہوئی تو آپ نے وزارت اور دیگر حکومتی منصبوں اور عہدوں کو خیرآباد کہا اور شہراہواز تشریف  لے گئے ، وہاں پر دشمن سے جنگ کی اور استقامت کے جوہر دکھائے ، آخرکار ۳۱ خردادسنہ  ھ۶۰  ھ۔ ش ( ۲۱ جون ۱۹۸۱ عیسوی )کو درجۂ شہادت پر فائز ہوئے ۔اس کامطلب یہ ہے کہ آپ کی نظر میں دنیوی منصب و مقام ، دنیا کے زرق برق اور جلوؤں کی کوئی حیثیت نہیں تھی ۔

ایسا نہیں ہے کہ موصوف کوئی خشک اور کج اخلاق انسان تھے جو زندگی کی لذّتوں کا ادراک نہیں رکھتے تھے ، اس کے برخلاف آپ  انتہائی زندہ دل اور  لطیف روح کے مالک تھے ، اعلیٰ پائے کے فوٹو گرافر تھے ، آپ مجھ سے کہا کرتے تھے کہ میں نے ہزاروں فوٹو کھینچے ہیں لیکن میں ان تصویروں میں نہیں ہوں چونکہ اس سلسلہ میں میری حیثیت ہمیشہ ہی فوٹو گرافر کی رہی ہے  ، آپ صاحبِ کمال اور صاحب فن تھے، پاک و پاکیزہ دل کے مالک تھے، اگر چہ آپ عرفان کے اسرار و رموز سے آشنا نہیں تھے  اور شاید کسی بھی توحیدی اور عملی سلوک  کی راہ میں کسی سے بھی تعلیم حاصل نہیں کی تھی لیکن اس کے باوجود آپ کا دل ،محبّت ِخدا سے سرشار،خداکا متلاشی ،پاک وپاکیزہ ، راز و نیاز کی دولت سے مالامال اور معنوی امور کا شیفتہ دِل  تھا  ۔

آپ ایک انصاف پسند انسان تھے ،آپ حضرات" پاوہ" کے واقعہ سے  یقینا واقف ہیں کہ اس پہاڑی علاقہ میں کئی روز کی جنگ کے بعد ، مرحوم چمران اور ان کے چند گنے چنے  ساتھی  انقلاب مخالف عناصر کے نرغے میں گھر گئے ،انہوں نے ہر طرف سے ان کامحاصرہ کر لیاتھا ،وہ  بہت جلد مرحوم چمران اور ان کے ساتھیوں تک پہنچنے والے تھے ، امام امّت(رہ)  کو یہ خبر ملی اور آپ نے ریڈیو کے ذریعہ قوم کے نام ایک پیغام دیا کہ سبھی لوگ" پاوہ" کی سمت حرکت کریں ، دن کے دو بجے یہ پیغام نشر ہوا ، میں نے سہ پہر چار بجے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ شہرِ تہران کے فوجی اور غیر فوجی عام لوگ ٹرکّوں ، بسوں اور دیگر وسائل کے ذریعہ جوق در جوق " پاوہ " کی طرف رواں دواں تھے ، دیگر شہروں کا بھی یہی عالم تھا ۔ اس واقعہ کے بعد جب مرحوم شہید چمران تہران تشریف لائے اور اس دور کے وزیرِ اعظم کو اس کی رپورٹ پیش کی ، ہم بھی اس جلسہ میں موجود تھے ، ان دونوں کے درمیان پہلے سے بھی ایک جذباتی رابطہ پایا جاتا تھا ۔ مرحوم چمران  اس میٹنگ  میں یوں گویا ہوئے : جب دن کے دو بجے امام ِ امّت(رہ)  کا پیغام نشر ہوا ، اس پیغام کے نشر ہوتے ہی ہمیں محسوس ہوا کہ  گویا ہمارا محاصرا ٹوٹ چکا ہو حالانکہ ابھی عام لوگ وہاں نہیں پہنچ پائے تھے ۔ آپ کہا کرتے تھے کہ امام ِامّت (رہ)کا پیغام ، ان کا فیصلہ اور موجودگی اس درجہ مؤثّر تھی کہ جب یہ پیغام برق رفتاری سے ہم تک پہنچا تو گویا ہمارے اوپر کسی قسم کا دباؤ باقی نہ رہا ، انقلاب مخالف عناصر کے حوصلے پست ہو چکے تھے ، ہمارے اندر ایک نیا عزم و ولولہ موجزن تھا ، ہم نے بھر پور حملہ کیا اور اس محاصرہ کو توڑ ڈالااور وہاں سے نکلنے میں کامیاب ہوئے ۔ اس موقع پر اس دور کے وزیر اعظم کو غصّہ آیا اور شہید چمران سے کہا کہ آپ اس کا سہرا امام (رہ) کے سر باندھ رہے ہیں حالانکہ ہم نے بھی اس سلسلہ میں سرتوڑ کوشش کی ؟! مرحوم،  انصاف کی دولت سے مالا مال تھے اور اس سلسلہ میں کسی کا بھی  پاس و لحاظ نہیں کرتے تھے ،حالانکہ انہیں اس بات کا علم تھا کہ اس حق گوئی کی بنا پر شکوہ و شکایت کا ماحول پیدا ہوسکتا ہے لیکن اس کے باوجود حق بات کو بے خوف و خطر کہہ دیتے تھے ۔  ہرحسّاس و نازک میدان میں وہ ہمیشہ ہی موجود رہتے تھے ، ہم یہاں سے اہواز کے لئے روانہ ہوئے ، ہم پہلی مرتبہ محاذِجنگ پر جا رہے تھے ، مرحوم کے ساتھ تہران سے روانہ ہوئے ، رات کی تاریکی میں اہواز پہنچے ، ہر جگہ تاریکی کا دور دورہ تھا ، دشمن یہاں سے کوئی گیارہ ، بارہ کیلو میٹر کے فاصلہ پر تھا ، مرحوم تہران سے کوئی ساٹھ ، ستّر افراد کا قافلہ ساتھ لائے تھے ،  لیکن میں تنہا  تھا  ، ہم سی ۱۳۰ ہوائی جہاز کے ذریعہ وہاں پہنچے تھے ، وہاں پہنچتے ہی ایک مختصر سی فوجی رپورٹ ہمیں پیش کی گئی ، آپ نے فورا سبھی کو حکم دیا کہ فوجی وردی  زیبِ تن کریں اور محاذ کی طرف روانگی کے لئے تیّار ہوں ، رات کے نو یا دس بجے ہوں گے ، آپ نے ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کیا ، آپ کے ساتھ جو بھی افراد تھے سبھی کے لئے فوجی وردی لائی گئی اور  سبھی نے اسے زیبِ تن کیا اور محاذ کے لئے روانہ ہوئے ، میں نے مرحوم سے کہا کہ کیا میں بھی آپ کے ساتھ چل سکتا ہوں ؟ چونکہ میں یہ سوچ رہا تھا کہ شاید اس فوجی جنگ میں حصّہ نہ لے سکوں ۔ مرحوم نے میری حوصلہ افزائی کی اور کہا کیوں نہیں  ، آپ بھی ہمارے ساتھ چل سکتے ہیں ، میں نے وہیں پر اپنا شخصی لباس اتارا اور فوجی وردی پہنی اور کلاشنکوف اٹھائے ان کے ساتھ چل پڑا ۔
آپ نے ایک لمحہ ضائع کئے بغیر اپنے مشن کا آغاز کیا ، آپ وقت کو یوں ہی برباد نہیں ہونے دیتے تھے ، حاضری کا مطلب بھی یہی ہے ، رضاکار افراد اور اس تحریک کی سب سے بڑی خصوصیت بھی یہی ہے کہ جہاں ان کی موجودگی ضروری ہو وہ وہاں سے غائب نہ ہوں ، یہ رضاکار افراد کی اوّلین خصوصیت ہے ۔

"سوسنگرد" کی فتح میں بھی مرحوم  کا یہی کردار ہے ، جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ دشمن نے سوسنگرد پر دو مرتبہ قبضہ کیا ، جب اس پر پہلی مرتبہ قبضہ ہوا تو ہم نے اسے دشمن کے چنگل سے آزاد کرا لیا ، دشمن نے دوبارہ اس پر قبضہ کر لیا ، دشمن کے قبضہ سے اسے آزاد کرانے کے لئے فوجوں کو جمع کرنےکی انتھک کو شش کی گئی ، اس دور میں فوج کی کمان کچھ دوسرے لوگوں کے ہاتھ میں تھی ، جس دن ہمیں اہواز سے سوسنگرد کی طرف روانہ ہونا تھا اسی شب ہمیں یہ خبر دی گئی کہ ایک فوجی یونٹ کو جو کہ اس حملہ میں حصّہ لینے والی تھی ، اسے اس حملہ سے نکال دیا گیا ہے ، اس کا مطلب یہ تھا کہ یاتو یہ حملہ سرے سے ملتوی کر دیا جائے یا شکست پر منتج ہو ، میں نے اہواز کے کمانڈر کے لئے ایک یادداشت تحریر کی ، مرحوم شہید چمران نے بھی اس کے ذیل میں ایک یادداشت لکھی ( کچھ عرصہ پہلے وہی کمانڈر ہمارے پاس آئے اور اس یاد داشت کو فریم شدہ حالت میں ہمیں پیش کیا ، یہ تیس سالہ پرانی یادگار ہے ، وہ کاغذ آج بھی ہمارے پاس ہے ) رات کے ایک ، ڈیڑھ بجے تک ہم ساتھ  میں تھے اور اس بات کے لئے کوشاں تھے کہ کل ہر صورت میں یہ حملہ انجام پائے ، اس کے بعد ہم ایک دوسرے سے الگ ہوگئے ، میں کچھ دیر کے لئے سو گیا ۔

 دوسرے دن علی الصّباح جب ہم نیند سے بیدار ہوئے ، اور فوجی دستوں کے ساتھ ساتھ ہم  نے اور ہمارے ساتھیوں نے  اپنے سفر کا آغاز کیا، جب ہم اس علاقہ میں پہنچے تو میں نے سؤال کیا چمران کہاں ہیں ؟  تو ہمیں جواب ملا کہ وہ تو بہت تڑکے یہاں آئے اور محاذ کی طرف آگے بڑھ گئے ہیں ۔ یعنی قبل اس کے کہ فوجی دستے صف آراء ہوں اور منصوبہ بند طریقہ سے محاذ کی طرف روانہ ہوں ، شہید چمران ان سے پہلے ہی اپنے ساتھیوں کے ساتھ کئی کیلو میٹر آگےجا چکے تھے ۔ اس کے بعد الحمد للہ یہ معرکہ سر ہوا ، اس آپریشن میں شہید چمران زخمی ہوئے ، پروردگارِ عالم اس شہید پر رحمت نازل کرے ، چمران ایک ایسی شخصیت کانام ہے ۔ آپ کے نزدیک  دنیا ، دنیوی منصب و مقام کی کوئی حیثیت نہیں تھی ، آپ کی نگاہ میں  پیسہ اور شہرت کو کوئی مقام حاصل نہیں تھا ، اس کارنامہ کا سہرا کس کے سر بندھے گا انہیں اس کی ذرّہ بھر پرواہ نہیں تھی ، آپ ایک منصف شخص تھے ، کسی کا پاس و لحاظ نہیں کرتے تھے ، شجاعت اور محنت کے جذبہ سے سرشار تھے ، اس کے باوجود شاعرانہ و عارفانہ لطافت و رقّت سے مالا مال تھے ، محاذِ جنگ پر ایک جانباز سپاہی تھے ۔  

میں خود دیکھا کرتا تھا کہ موصوف ہماری فوجوں کو آر، پی ، جی ، چلانے کی ٹریننگ دیا کرتے تھے ، چونکہ ہماری فوج آر، پی ، جی سے ناآشنا تھی ، یہ ہتھیار ہماری فوج کے رسمی ہتھیاروں میں شامل نہیں تھا ، ہمارے پاس یہ اسلحہ نہیں تھا ، آپ نے لبنان کے دور میں اس کی ٹریننگ حاصل کی تھی ، آپ اسی عربی لہجہ میں آر ، بی ، جی  کہا کرتے تھے ، ہم آر ، پی ، جی کہا کرتے تھے لیکن وہ آر ، بی ، جی کہا کرتے تھے ، انہوں نے لبنان میں اسے چلانا سیکھا تھا ، اور نہ جانے کہاں سے کچھ  مقدار میں یہ اسلحہ حاصل کیا تھا، مرحوم ہماری فوج کو اس اسلحہ کی ٹریننگ دیا کرتے تھے ، یعنی آپ میدانِ عمل میں ایک مکمّل مردِ عمل تھے ، پلازما فیزیک کے ایک  اعلیٰ دانشور، ایک اعلیٰ سائنسدان کو ایک فوجی آفیسر کی شکل  میں دیکھئے جو فوجی آپریشن کی ٹریننگ دے رہاہو، لطیف جذبات ، قوی ایمان اور انتھک جدّ وجہد کو ایک دوسرے سے ملا کر دیکھئے ، کتنی عمدہ ترکیب بنتی ہے ، اسے کہتے ہیں رضاکار(بسیجی) دانشور۔ یہ شخصیت ، بسیجی(رضاکار) استاد کی ایک اعلیٰ مثال ہے ، یہ اس کا ایک مکمّل نمونہ ہے جسے ہم نے نزدیک سے مشاہدہ کیا ۔ ایک ایسے انسان کے وجود میں سنّت اور تجدّد کے درمیان کوئی تضاد ایک بے معنیٰ بات ہے ، علم و ایمان کے مابین تضاد ایک مضحکہ خیز بات ہے ، تضاد کے یہ جھوٹے اور کھوکھلے دعوے ایک ایسے شخص کے لئے سراسر بے معنیٰ ہوجاتے ہیں ، حالانکہ کچھ لوگ اپنے من پسند نتائج و مقاصد کی غرض سے اس نظریہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہیں ۔ اس شخص میں علم بھی ہے اور ایمان بھی ،  سنّت بھی ہے اور تجدّد بھی ، تھیوری بھی ہے اور عمل بھی ، عشق بھی ہے اور عقل بھی ۔ یہ جو کہتے ہیں کہ :

با عقل آب عشق بہ یک جو نمی رود              بیچارہ من کہ ساختہ از آب و آتشم

( جب عقل و عشق ایک دوسرے کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتے    تو میری بات جانیں دیں میں بیچارہ تو پانی اور آگ سے بناہوں)

موصوف کے اندر پانی و آگ بیک وقت موجود تھے ، معنوی ایمانی  عقل اور  عشق میں کوئی منافات نہیں ہے بلکہ ایسے موقع پر عقل خود ، اس پاک و پاکیزہ عشق کی پشت پناہ اور حامی ہوا کرتی ہے ۔

        اب اگر ہم آپ سے یہ توقّع  رکھتے ہیں  اور یہ توقّع کوئی بہت بڑی اور بے جا توقّع بھی نہیں ہے ، جب ہم آپ میں نشاط و طراوت کو موجزن دیکھتے ہیں ، آپ کے پاک و پاکیزہ دلوں پر نگاہ ڈالتے ہیں ، آپ کے روشن اذہان اور فکری جولانی  کو دیکھتے ہیں تو ہمارے اندر امّید کی یہ کرن پیدا ہوتی ہے کہ جمہوری اسلامی کی یونیورسٹیوں سے شہید چمران جیسی شخصیات  سامنے آئیں یہ چیز ایک  قاعدہ اور اصول  کی شکل اختیار کر لے ، چمران جیسی شخصیتیں استثنائی  نہ ہوں بلکہ ان کی کثرت ہو ، یہ کوئی بے جا توقّع نہیں ہے ۔

جب آپ میں سے کچھ افراد  سنہ ۷۶ ھ ۔ ش میں مشھد، اصفھان اور علم وصنعت ( سائنس و ٹیکنالوجی) یونیورسٹی  میں رضا کار اساتذہ  کے عنوان سے جمع ہوئے اور آپ نے یہ نظریہ پیش کیا کہ آئندہ ، دس بارہ سالوں میں پورے ملک میں  اسی ہدف و مقصد ، اسی جذبہ و عشق کے تحت ہزاروں اساتذہ اس پرچم کے نیچے جمع ہوں گے تو اس دن کسی کو بھی اس کا یقین نہیں آتا تھا ، لیکن یہ کارنامہ انجام پایا ۔ میں یہاں کسی مبالغہ آمیزی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہتا، میں حقیقت کو بڑھا چڑھا  کر پیش  نہیں کرنا چاہتا تاکہ خود کو اور آپ  کو کسی وہم و خیال میں مبتلا  کر سکوں ، ایسا ہر گز نہیں ہے ، یہ بات واضح ہے کہ سبھی لوگوں کی سطح  مساوی نہیں ہے ( ہم میں سے کچھ لوگ ایمان ، عشق اور ہمت و ارادہ  کے اعتبار سے اونچے درجہ پر فائز ہیں اور کچھ ان  کے مقابلہ میں کم درجہ پر فائز ہیں ) یہی وجہ ہے کہ اس دور میں کچھ لوگ اس تحریک کو ایک کمزور تحریک سمجھتے تھے اور کچھ لوگوں نے اسے مٹانے کے لئے کمر کس رکھی تھی لیکن آج وہی تحریک ایک ایسی شکل اختیار کر چکی ہے کہ اب اس کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا ، آج یہ تحریک یونیورسٹی کی سطح پر ، اعلیٰ علمی پیمانہ پر  مختلف شعبوں کے ممتاز انقلابی ، رضاکار اور صاحبِ ایمان اساتذہ کی عظیم تحریک بن کر سامنے آئی ہے ۔

     لہذا یہ کوئی بےجا توقّع نہیں ہے ، جب ہم اس تحریک کو دیکھتے ہیں ، اس رشد پر نظر دوڑاتے ہیں تو یہ توقّع بےجا معلوم نہیں ہوتی کہ ہم اس بات کا مطالبہ کریں کہ اسلامی جمہوریہ ایران کی یونیورسٹیاں آئندہ بھی چمران جیسے عناصر کی تربیت کرتی رہیں ۔ اگر یہ مقصد حاصل ہو جائےتوآپ دیکھیں گے کہ کیا انقلاب آسکتا ہے !  عالمی سطح پر اعلیٰ پیمانہ پر عالمی مطالبات کا حامل  نظام وجود میں آسکتا ہے ۔آج ہمارے  نظام کے انسانی،حکومتی ، خواتین ، اخلاق اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان کے مطالبے عالمی نوعیت کے ہیں ۔

بعض اربابِ قلم اور کچھ دیگر افراد کے سامنے جیسے ہی بین الاقوامی سطح  کی بات آتی ہے وہ اس کا مذاق اڑاتے ہیں ، یہ لوگ  وسیع النظری کا مطلب سمجھنے سے قاصر ہیں ، جب تک آپ پہاڑ کی چوٹی پر نظریں نہیں جمائیں گے  چوٹی کو سر کرنا تو دور کی بات ہے  آپ اس کےنشیب  تک بھی نہیں پہنچ پائیں گے،اسی وجہ سے ہماری روایات میں ، بلند ہمّت اور عزمِ جواں پر اتنی زیادہ تاکید کی گئی ہے ، ہمارے بزرگ بھی سالکِ فی سبیل اللہ سے یہی کہتے ہیں : اپنا حوصلہ بلند رکھو۔ یہ ابتدائی قدم اور فتوحات کسی کو فریب نہ دیں ، ہمیں اپنے حوصلے بلند رکھنا ہوں گے ۔ ہمیں انسانیت کو معیار بنانا ہوگا ، انسانیت کا دائرہ بہت وسیع ہے  وہ تمام دنیا پر محیط ہے " امّا اخ لک فی الدّین او نظیر لک فی الخلق" دنیا کے انسان یا تو آپ کے دینی بھائی ہیں یا خلقت و پیدائش میں آپ کی مانند ہیں ، انسانیت میں آپ کے شریک ہیں ، ہماری نگاہ کو اس قدر وسیع ہونا چاہیے۔

عالمِ انسانیت کے لئے آج ہمارے دل میں وہ امنگیں پائی جاتی ہیں جسے کوئی بھی بیدار قوم ، کوئی بھی دانشور، کوئی بھی انصاف پسند سیاسی لیڈر نہیں ٹھکرا سکتا، ہم اپنے سر میں تسلّط پسند نظام کے خاتمہ کا سودا لئے ہوئے ہیں ، ہم دنیا سے تسلّط پسندی اور تسلّط پذیری کے نظام کو ختم کرنا چاہتے ہیں ، حتّی ٰ وہ شخص جو  کسی ایسے ملک میں زندگی بسر کر رہاہو جس کی حکومت سو فیصد ایک تسلّط پسند حکومت ہو وہ بھی اس سے انکار نہیں کر سکتا ، ہم یہ چاہتے ہیں کہ عالمی روابط پر تسلّط پسندی اور تسلّط پذیری کا ماحول حکم فرما نہ ہو، سائنس و ٹیکنالوجی سے عالمِ انسانیت کی آسائش اور عدل و انصاف کے قیام  کے لئے استفادہ کیا جائے اسے بشریت کو خائف و ہراساں کرنے  کے لئے استعمال نہ کیا جائے ، یورپ کی نشاۃِ ثانیہ کے بعد سے بالخصوص گزشتہ صدی  سے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں جوبھی ترقّی ہوئی ہے وہ غالبا عالم ِانسانیت کی خدمت اور آسائش کے بجائےاس کے ڈر و خوف کا باعث بنی ہے ، اس سے جان ، اخلاق ، خاندانی اقدار کو شدید خطرہ لاحق ہوگیاہے ، اس علمی ترقّی سے بے رویّہ مصارف ،  عالمی لٹیروں ، مختلف ٹریسٹوں اور کمپنیوں کی جیبیں بھرنے کا بازار گرم ہوا ہے ، ہمارا یہ کہنا ہے کہ ان سب چیزوں کے بجائے سائنس و ٹیکنالوجی  کو انسانیت کی خدمت ، اس کے آرام ، انسانوں کے جسمانی اور روحانی سکون کا باعث بننا چاہیے ۔ یہ وہ بات ہے جس سے دنیا انکار  نہیں کرسکتی ۔  

آپ جانتے ہیں کہ جب کوئی نظام ان امنگوں کا حامل ہو، کوئی قوم ان خصوصیات سے مزیّن ہو ، مختلف میدانوں میں اپنے ایمانی حوصلہ کو بروئے کار لائے ، صاحبانِ ایمان کی مددو نصرت کے قرآنی وعدوں سے استفادہ کرتے ہوئے موت سے نہ ڈرے اور موت کو خدا تک پہنچنے کا وسیلہ سمجھے،   راہِ خدا میں شہادت کو اپنا افتخار سمجھے ، شہید چمران جیسی دانشور شخصیتوں سے مزیّن ہو تو ایسی قوم  کہاں تک پرواز کر سکتی ہے ہم اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے ؟! ہم آپ سے یہ توقّع رکھتے ہیں ۔

 ایک جملہ بسیج(رضاکار ) کے سلسلہ میں بھی عرض کرتا چلوں ، بسیج(رضاکار)  انقلاب کی ایک عجیب اور بے مثال تحریک ہے ، یہ تحریک حکمتِ الٰہی کے اس سرچشمہ سے پھوٹی ہے جو پروردگارِ عالم نے اس عظیم شخصیت یعنی ہمارے امامِ امّت (رہ) کے دل میں بطورِامانت قرار دیا تھا ، امامِ امّت (رہ)حقیقی معنیٰ میں ایک حکیم شخص تھے ، کبھی کبھی ہم اس  تعبیر کو معمولی شخصیات کے لئے بھی استعمال کرتے ہیں ، لیکن امام حقیقی معنیٰ میں "حکیم" تھے " ومن یؤت الحکمۃ فقد اوتی خیرا کثیرا" (وہ جس کو  بھی چاہتا ہے حکمت عطا کر دیتا ہے  اور جسے حکمت عطا کر دی جائے اسے گویا خیرِ کثیر عطا کردیا گیا) امام (رہ)کے دل سے نہ جانےحقائق کے کتنے سرچشمے جاری ہوئے ، منجملہ یہی بسیج(رضاکار ) کا مسئلہ تھا ، امام (رہ)نےانقلاب کی کامیابی کے آغاز سے بلکہ اس سے بھی پہلے عوام کو میدان میں لانے ، ان پر ذمّہ داریاں ڈالنے اور ان پر بھروسہ کرنے کے ذریعہ ، بسیج(رضاکار  افراد) کی داغ بیل ڈالی۔ امام (رہ)نے عوام پر پورا بھروسہ کیا ، عوام نے بھی خود اعتمادی کا مظاہرہ کیا ، انہوں نے اپنے اندر خود اعتمادی پیدا کی ، اگر امام (رہ)نے عوام پر اعتماد نہ کیا ہوتا تو عوام بھی اپنے اوپر اعتماد نہ کرتے ، بسیج کی بنیاد یہیں سے پڑی ۔ درحقیقت سپاہ پاسداران اور جہاد ِسازندگی (ملکی تعمیروترقّی کا ادارہ)  جیسے ادارے، بسیج کی دین ہیں ، اگر چہ اس دور میں بسیج  نے ایک منظّم اور مدوّن ادارے کی شکل اختیار نہیں کی تھی لیکن بسیجی ثقافت ، بسیجی(رضاکار) تحریک اور حقیقت ہمارے ملک و معاشرہ میں  بہت سے اچھے اور نیک امور کی بنیاد قرار پائی ، بسیج ایک ایسی حقیقت کا نام ہے ، بسیج در حقیقت ملک کی ایک بے نام و نشان اور کسی بھی دعوے سے مبرّا ہمہ گیر فوج ہے ، یہ فوج  نہ فقط فوجی محاذ پر بلکہ ہر محاذ پر لڑنے کے لئے آمادہ ہے ۔فوجی جنگ تو کبھی کبھی پیش آتی ہے ہمیشہ کی بات نہیں ۔

بسیج کی حاضری کا میدان ، فوجی میدان سے کہیں زیادہ وسیع ہے ۔ یہ جو میں نے بارہا یہ بات کہی ہے اور اسے دہرا رہا ہوں کہ بسیج(رضاکارفورس) کو ایک فوجی ادارہ نہیں سمجھنا چاہیے یہ کوئی تکلّف آمیز بات نہیں ہے بلکہ عینِ حقیقت ہے ۔ بسیج کا میدان ، جہاد کا میدان ہے نہ کہ قتال اور جنگ کا میدان ۔ قتال و جنگ تو جہاد کا محض ایک گوشہ ہے ، جہاد کا مفہوم ، مختلف میدانوں میں  ہدف و ایمان  کے ساتھ جدّو جہداور کوشش کا ہے اسی لئےارشادِ ربّ العزّت ہے " جاھدوا باموالکم و انفسکم فی سبیل اللہ " ؛(راہِ خدا میں اپنے اموال اور نفوس سے جہاد کرو) اس آیت میں جہاد با نفس کے ساتھ ساتھ جہاد با مال کی بات کی گئی ہے ۔ نفس سے جہاد کا مطلب کیا ہے ؟ نفس سے جہاد کا مطلب  صرف یہ نہیں ہے کہ ہم اپنی جانوں کو  ہتھیلیوں پر رکھے ہوئے میدانِ جنگ میں  داخل ہوں ، بلکہ  نفس کے ذریعہ جہاد کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ ہم شام سے صبح تک کسی تحقیقی پروجیکٹ میں مصروف رہیں اور ہمیں وقت کےگزرنے کا احساس تک نہ ہو، نفس سے جہاد کامطلب یہ ہے کہ آپ اپنے سیر و تفریح اور آرام سے صرفِ نظر کریں ، روپے پیسے اور کمائی سے صرفِ نظر کریں ، اور اپنے قیمتی وقت کو تحقیق و ریسرچ میں صرف کریں تاکہ آپ ایک زندہ علمی حقیقت کو دریافت کر سکیں اور اسے ایک گلدستہ کی شکل میں اپنے معاشرہ کو پیش کرسکیں ، نفس کے ذریعہ جہاد کا مطلب یہ ہے ۔ البتّہ اس جہاد کا ایک چھوٹا سا حصّہ مال سے متعلّق ہے ۔

پس بسیج کا میدان ایک بہت وسیع میدان ہے  ، کسی خاص طبقہ سے مخصوص نہیں ہے ، ملک کے کسی خاص جغرافیائی حصّہ سے مخصوص نہیں ہے ، کسی خاص دور سے مخصوص نہیں ہے ، کسی خاص میدان سے مخصوص نہیں ہے ، بسیج ہر دور ، ہر جگہ ، ہر میدان اور ہر طبقہ میں موجود ہے ۔بسیج(رضاکار فورس) کا معنیٰ و مفہوم یہ ہے ۔   

آپ یونیورسٹی میں بسیجی(رضاکار ) کا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں ، آپ کو اپنی ذمّہ داری  معلوم ہونا چاہیے ، آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ یونیورسٹی کو کس چیز کی ضرورت ہے ؟ ملک کی ضرورت کیا ہے ؟ چند برسوں سے ہم مسلسل سائنسی ترقّی پر زور دے رہے ہیں ۔ آپ ملاحظہ کیجئے کہ دورِحاضر میں ہمارے عالمی دشمنوں کا حسد، ان کی رقابتیں ، حسرتیں اور پسماندگی کا احساس آپ کی اسی سائنسی پیشرفت کا نتیجہ ہے ، اسی سائنسی ترقّی کی بنا پر کچھ لوگ  ایرانی قوم کی تعریف و ستائش کر رہے ہیں ، اسی ترقّی کی بنا پر کچھ لوگ ایرانی قوم کو اپنی خصومت کا نشانہ بنا رہے ہیں ، آپ کی علمی ترقّی میں یہ تاثیر ہے ۔

یہ ابھی اس راستہ کا پہلا قدم ہے ، ہم نے ابھی کوئی کام انجام نہیں دیا ، یہ بات اپنی جگہ تسلیم شدہ ہے کہ ہم نے نانو ٹیکنالوجی ، بایوٹیکنالوجی ، ایٹمی توانائی ، ہوائی اورفضائی میدان  کے مختلف شعبوں میں نمایاں ترقّی کی ہے لیکن کسی بھی  ملک کی علمی تحریک کے پیمانہ و معیار  کے مطابق ان کامیابیوں کی کوئی حیثیت نہیں ہے ، ہمارے ایک دوست نے اس جلسہ میں اس بات کی طرف اشارہ کیا اور مجھے بھی ان اعداد و شمارکا علم ہے کہ ہماری علمی اور سائنسی ترقّی کی شرح دنیا کے دیگر ممالک کی متوسّط شرح سےگیارہ گنا زیادہ ہے ۔ ان اعداد و شمار کو مکمّل تفصیلات کے ساتھ کینیڈا کےایک ریسرچ سینٹر نے شایع کیا ہے ۔ البتّہ یہ گیارہ گنا ترقّی  ایک متوسّط  لحاظ سے ہے ورنہ بعض شعبوں میں اس  ترقّی اور پیشرفت  کی رفتار دنیا کی ترقّی و پیشرفت سے پینتیس گنا زیادہ ہے ، البتہ بعض شعبوں  میں اس کی رفتار سست ہے ، اس کی متوسّط حد ، گیارہ گنا ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ گزشتہ دس ،بارہ سال میں ہمارے ملک کی  علمی ترقّی کی شرح دنیا کی متوسّط شرح سے گیارہ گنا زیادہ رہی ہے ، یہ بہت اہم چیز ہے لیکن یہ وہ چیز نہیں ہے کہ ہم جس کے حصول کی تگ و دو میں مصروف ہیں ، یہ اس سے کہیں کم ہے ، اس رفتار کو اسی شدّت سے جاری رکھیے تا کہ ہم اپنے معیّنہ اہداف و مقاصد تک پہنچ سکیں ، یونیورسٹی میں اس چیز پر توجّہ مبذول کرنے کی بہت ضرورت ہے ۔

یونیورسٹی میں شہید چمران جیسے افراد کی تربیت بہت ضروری ہے ، ہمیں اس کی بہت زیادہ ضرورت ہے، لہذا بسیجی استاد کو یونیورسٹی کے تئیں اپنی ذمّہ داریوں کا علم ہے ، بسیجی استاد کی ، یونیورسٹی میں دائمی اورہرمناسب موقع پر موجودگی ، اس کی مخلصانہ اور مجاہدانہ حاضری کا وہی مطلب ہے جو ہم نے آپ سے بیان کیا ۔ معلّم کا کردار ایک ناقابلِ تردید کردار ہے ، تعلیمی اداروں میں معلّم کا کردار انتہائی اہم اور ممتاز کردار ہے ۔ معلّم اپنے شاگردوں کو صرف علم نہیں سکھاتا بلکہ اس کی روش و منش ، شاگردوں کی تربیت میں اہم کردار ادا کرتی ہے ، معلّم اپنے شاگردوں کی تربیت کا بیڑا اٹھاتا ہے ، بظاہر دیگر مؤثّر عوامل کے مقابلہ میں، شاگرد کی علمی ، معنوی اور مادی پیشرفت میں معلّم کا اثر کہیں زیادہ ہوا کرتا ہے ، معلّم اپنے ایک جملہ کے ذریعہ کبھی کبھی اپنے شاگردوں کو دیندار انسانوں میں بدل سکتا ہے ، اس کے  لئے ضروری نہیں ہے کہ وہ حتمی طور پر معارف اور علومِ دینی کا معلّم ہو ، آپ حساب کی کلاس میں ،  یا فیزیک کی کلاس میں  یا دوسری کسی کلاس میں اپنی زبان پر ایک ایسا کلمہ جاری کر سکتے ہیں ، کسی قرآنی آیت سے بجا اور بہترین استفادہ کر سکتے ہیں ، یا اپنی انگلی سے قدرتِ پروردگار اور اس کی مخلوقات کی طرف اشارہ کرسکتے ہیں جو جوان کے دل میں ہمیشہ کے لئے باقی رہ سکتا ہے ،اسے ایک مؤمن انسان میں بدل سکتا ہے ، معلّم کا کردار اس قدر اہم ہے ۔

 اس کے بر خلاف  اگر دوسرے رخ سے دیکھا جائے تو بھی یہی بات صادق آتی ہے ، انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ آج بھی ہماری یونیورسٹیوں میں ایسے اساتذہ پائے جاتے ہیں (اگر چہ ان کی تعداد بہت کم ہے ) جو اس کے برخلاف عمل کرتے ہیں ،وہ اپنی ایک بات سے اس جوان کو اپنے مستقبل، اپنے ملک کے مستقبل اور ملک میں اس کے کردار سے ناامید و مایوس کردیتے ہیں ، اسے اپنے تاریخی ورثہ سے بدگماں کر دیتے ہیں ، اسے اغیار کے آلودہ اور گندے سرچشموں سے اپنی پیاس بجھانے کی ترغیب دلاتے ہیں ، اسے اپنے حال پر چھوڑ دیتے ہیں ۔ ایسے اساتذہ بھی موجو د ہیں ، استاد کا کردار اس درجہ اہم ہے ، لہٰذا بسیج اور معلّم  کے معنیٰ کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ، بسیجی استاد  کے بارے میں ہمارے نظریہ کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے اس بات کا اندازہ ہوجاتاہے کہ یونیورسٹی میں آپ حضرات کا کردار کس قدر حسّاس ہے۔

اسلامی نظام کے لئے اس مجموعہ کی موجودگی ایک بہت بڑی نعمت ہے ، کسی بھی اسلامی ،بطریقِ اولیٰ غیر اسلامی ملک میں مؤمن اساتذہ کی اتنی بڑی تعداد نہیں پائی جاتی جتنی بڑی تعداد ہمارے ملک میں ہے ، یونیورسٹی کے اساتذہ، دانشور، اپنے فن کے ماہر ، پیشہ وارانہ صلاحیتوں سے سرشار ، خدا، راہِ خدا اور الٰہی اہداف و مقاصد پر پختہ ایمان رکھنے والے افراد کی اتنی بڑی تعداد ،دنیا میں بے مثال ہے ۔ یہ بھی امام ِامّت کے وجود کی برکتوں سے ہے ، اس کی قدر و قیمت کو پہچانئے ، اس کی جان و دل سے حفاظت کیجئے ۔ اس کو منظّم کیجئے ، اس کے اہداف و مقاصد کو معیّن کجیئے ، اس میں گہرائی پیدا کیجئے ، بسیجی استاد کی سرگرمی اور فعّالیت کے دائرہ کو شفّاف بنائیے  ، اسے  واضح کیجئے ، آپ حقیقی معنیٰ میں جہاد فی سبیل اللہ کے اس میدان کے کمانڈروں کا کردار ادا کیجئے ، یہ کام بہت اہم کام ہے ۔

آج ہمارے ملک کو ان چیزوں کی ضرورت ہے ۔ یہ ضرورت ایک دائمی ضرورت ہے ، عصرِحاضر تک محدود نہیں ہے لیکن چونکہ ہم دورِحاضر میں ایک حسّاس اور نازک موڑ پر کھڑے ہیں اس لئے اس کی افادیت میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے ، اگر میں چند لفظوں میں موجودہ دور کا تجزیہ و تحلیل کرنا چاہوں(شاید اس مختصر سے وقت میں اس پر استدلال قائم نہ کر سکوں ، البتّہ اس پر استدلال کیا جاسکتا ہے ، لیکن استدلال کے لئے چند لفظوں پر اکتفا نہیں کیا جاسکتا) تو یہ کہہ سکتا ہوں کہ عالمی سامراج کے مراکز اسلامی تحریک کے سامنے اپنے آخری حربے استعمال کر رہے ہیں، اس اسلامی تحریک کی حقیقی علامت ، اسلامی جمہوریہ ایران ہے ۔ بہت سے میدانوں میں ان کی کوششیں، ان کی تدبیریں ناکام ہو چکی ہیں اور وہ اپنا اختیار کھو بیٹھے ہیں ، انہوں نے عالمی مسائل کے اردگرد جو حصار قائم کر رکھا تھا ، انہوں نے جو حدیں  بنا رکھی تھیں ،روئے زمین کے حسّاس ترین خطہ یعنی مشرقِ وسطیٰ میں وہ حصار ٹوٹ گیا ہے یا کم از کم ڈھیلا پڑ چکا ہے ، میری نگاہ میں وہ حصار ٹوٹ چکا ہے ،حالات ان کے عنان اختیار سے خارج ہو چکف ہیں ۔

پروردگارِ عالم مرحوم شیخ حسن لنکرانی کو غریقِ رحمت کرے ، مرحوم سنہ ۵۳ اور ۵۴ یا اس سے بھی پہلے کے ایک  تجربہ کار مذہبی سیاسی لیڈر تھے ، موصوف شاہِ ایران کی طاغوتی حکومت کی ایک ایسے شخص سے تشبیہ دیا کرتے تھے جو کسی گنبد پر بیٹھا ہو اور اس کے ہاتھ میں ریشمی رومال ہو جو اخروٹوں سے بھرا ہوا ہو ، اس رومال کا کوئی سرا کھل جائے اور اخروٹ یکے بعد دیگرے زمین پر گر رہے ہوں ، وہ اخروٹوں کو گرنے سے روکنا چاہتا ہو لیکن اخروٹ ادھر ادھر سے مسلسل گر رہے ہوں  ، گنبد پر بیٹھے ہوئے اس سے کچھ بھی نہ بن پڑے ! اگر وہ زمین پر ہوتا تو کسی نہ کسی طریقہ سے ان کو جمع کرلیتا ۔

میر ی نظر میں موجودہ دور میں اسلامی تحریک کے سامنے تسلّط پسند نظام کا یہی حال ہے ۔ اس کے کھڑے ہونے کی جگہ مستحکم نہیں ہے ، چونکہ ان کےبہت سے  قدیمی پروپیگنڈہ ہتھکنڈوں کی قلعی کھل گئی ہے ۔ آج امریکی سماج میں طاقتور صیہونی لابی  کے خلاف غصّہ بڑھتا جارہاہے ، امریکی عوام میں صیہونی لابی کے خلاف غم وغصّہ میں رفتہ رفتہ اضافہ ہو رہاہے ، امریکہ ،صیہونی لابی کی سرگرمیوں کا مرکز ہے ، البتّہ امریکی حکومت نے وہاں کے عوام پر شکنجہ کس رکھا ہے ، انہیں زندگی کے روز مرّہ مسائل میں اس قدر گرفتار کر رکھا ہے کہ ان کے پاس سر کھجلانے کی بھی فرصت نہیں ہے، اس کے باوجود وہاں حالات تبدیل ہو رہے ہیں ۔ ہمیں مؤثق اور معتبر ذرائع سے یہ بات پتہ چلی ہے ، یورپ میں بھی کم و بیش یہی حالت ہے ، اسلامی ممالک اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کے حالات تو سبھی کو معلوم ہیں ، اقوامِ عالم میں تسلّط پسند نظام اور امریکی حکومت سے نفرت اور دشمنی میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے ، وہ اس کی روک تھام نہیں کر سکتے ، اپنی تمام تر کوششوں کو بروئے کار لارہے ہیں لیکن اس کی روک تھام نہیں کر پا رہے ہیں ۔

اگراسلامی جمہوری نظام نے دنیا میں سر نہ اٹھایا ہوتا اور دنیا کے افق پر یہ سورج طلوع نہ ہوا ہوتا تو اتنی جلدی ان کو یہ مشکل درپیش نہ ہوتی ، ممکن ہے کہ پچّاس سال بعد انہیں ان مسائل کا سامنا کرنا پڑتا، عین ممکن ہے کہ انہیں ان مسائل و مشکلات کا اتنی جلدی سامنا نہ کرنا پڑتا۔ لیکن اسلامی جمہوریہ کی موجودگی اور اس اسلامی نظام کے قیام نے ان کے کام کو مشکل بنا دیا ، اسی لئے وہ اس نظام کے جانی دشمن ہیں ، وہ اپنی دشمنی کا اظہار بھی کر رہے ہیں لیکن اس میں بھی وہ جلدبازی ، حیرانی و پریشانی کا شکار ہیں ۔ دشمنی میں یہی خصوصیت پائی جاتی ہے ۔وہ اسلامی نظام کے خلاف نت نئی سازشین کر رہے ہیں ، نئی تدابیر اختیار کر رہے ہیں ، جھوٹے پروپیگنڈوں کا جال بچھا رہے ہیں ، اقوامِ متحدہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف جب بھی کوئی قراردار منظور ہوتی ہے ، اس پر اقتصادی پابندیاں لگائی جاتی ہیں تو انہیں بڑھا چڑھا کا پیش کرتے ہیں ، محتاط انداز میں اسے فوجی حملہ کی دھمکی دیتے ہیں ، ان سب چیزوں کی وجہ یہ ہے کہ وہ  عالم اسلام میں اس عظیم اسلامی تحریک کے سامنے سر جھکانے پر مجبور ہو چکے ہیں ، ایرانی قوم اس تحریک میں پیش پیش رہی ہے ۔ وہ ہمارے راستہ میں مشکلات کھڑی کر رہے ہیں ، اس میں کوئی شک نہیں ۔ تما م اجتماعی مسائل میں زحمتیں اور مشقّتیں پائی جاتی ہیں لیکن ہم  اپنے عظیم مفادات اور مطلوبہ اہداف تک پہنچے کے لئے انہیں خندہ پیشانی سے برداشت کریں گے ۔ آج کی پوزیشن یہ ہے ، یہ دور اس اعتبار سے ایک حسّاس دور ہے ، اس دور میں کام اور محنت کی سخت ضرورت ہے ۔

یونیورسٹیوں کی سب سے پہلی ترجیح یہ ہے کہ وہاں علمی ، تحقیقی ، معنوی اور ایمانی امور پر توجّہ دی جائے اور اس کی تمام سرگرمیوں پر جذبہ محنت و جہاد حکمفرما ہو ، یہ وہ بنیادی چیزیں ہیں جو ان میں پائی جانا چاہیے ۔ اس کے بعد اس تحریک کو آگے بڑھانے اور اس میں نظم پیدا کرنے کی نوبت آتی ہے ، میرا عقیدہ یہ ہے کہ ملک کے لئے کام کرنے والے دیندار اساتذہ صرف بسیجِ اساتذہ تک محدود نہیں ہیں بلکہ اس کا دائرہ بہت وسیع ہے ۔ بہت سے ایسے معلّم بھی ہیں جن کے پاس بسیج کا شناختی کارڈ بھی نہیں ہے ، اس بسیجی مجموعہ کا حصّہ بھی نہیں ہیں لیکن حقیقت میں وہ بسیجی ہیں ، دیندار ہیں ، وہ ہر طرح کی قربانی پیش کر نے کے لئے تیّار ہیں ، البتہ سبھی کی آمادگی کی سطح مساوی نہیں ہے ، سب کا ایمان ایک درجہ کا نہیں ہے ، ہمیشہ سے یہی کیفیت رہی ہے ، اور آئندہ بھی یہی حالت باقی رہے گی ۔ لیکن یہ لوگ بھی اس مجموعہ میں داخل ہیں ۔ ہمیں ان میں نظم پیدا کرنا چاہیے ، عقل و تدبیر سے کام لینا چاہیے ، نظام الاوقات اور پروگراموں کو معیّن کرنا چاہیے ، اہداف کی نشاندہی کرنا چاہیے ۔ یہ وہ کام ہے جسے انجام پانا چاہیے ، یہ آپ کی ذمّہ داری ہے ۔

آپ اپنی ذاتی اور انفرادی ذمّہ داری کے میدان میں اپنے شاگردوں کی فکری تربیت پر توجّہ دیجئے ،  بسیجی اساتذہ اپنے طلباء کی ذہنی فضا میں ایک معنوی رجحان پیدا کرسکتے ہیں ، ان کی راہنمائی کر سکتے ہیں، ان کے لئے سکون کا باعث بن سکتے ہیں  ،آپ اپنے مجموعہ اور اپنے مخاطبوں میں سیاسی بصیرت پیدا کیجئے ، یہ بہت اہم کام ہے ، بصیرت کا کردار بہت اہم ہے ۔ ہر میدان میں موجودگی کی تمرین بھی بہت اہم ہے ، جیسا کہ میں نے شہید چمران کے بارے میں عرض کیا کہ موصوف رات ڈیڑھ بجے بلکہ اس بھی زیادہ وقت تک اپنے منصوبوں کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی تگ و دو میں مصروف رہا کرتے تھے ، صبح ، شام ، اندھیرے اور روشنی ، محاذِ جنگ پر سب سے آگے ، الغرض جہاں کہیں بھی ان کی ضرورت ہوا کرتی تھی آپ حاضر رہتے تھے ، ہمیں بھی اس دائمی موجودگی اور کسی بھی موقع و محل پر فورا حاضر ہونے کی تمرین کرنا چاہیے ،  ہم سب کو یہ سیکھنا چاہیے۔

ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد و یکجہتی کو فروغ دینا چاہیے ، اس کے علاوہ ہمیں ایرانی معاشرہ کی ہر فرد میں اس اتحاد و یکجہتی کی روح پھونکنا چاہیے ۔ بھائیو، بہنو اور عزیزو! آج ملک کو اتحاد و یکجہتی کی سخت ضرورت ہے ، میں ہر اس رفتار وگفتار کا شدید مخالف ہوں جو ہمارے معاشرے میں نفاق ، انتشار اور شگاف کا باعث بنے اگر چہ وہ نیک نیّتی اور صداقت پر مبنی ہو، میں اس سے راضی نہیں ہوں ۔ اگر کوئی مجھ سے میری رائے جاننا چاہتا ہے تو میری رائے یہی ہے جو میں نے آپ سے عرض کی۔ ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد و یکجہتی کو فروغ دینا چاہیے ، ہمیں اس عظیم مجموعہ میں ہمدلی کی فضا پیدا کرنا چاہیے ، کیا مختلف بہانوں سے اس اجتماع میں تشریف فرما افراد کو چھوٹے چھوٹے گروہوں میں تقسیم نہیں کیا جاسکتا ؟ بڑی آسانی سے یہ کام انجام دیا جاسکتا ہے ، لباس کے رنگ ، عمر اور علاقائی بنیاد پر آپ کو ایک دوسرے سے الگ الگ کیا جاسکتا ہے ،آپ کے درمیان دیوار کھڑی کی جاسکتی ہے ، انقلاب کا سب سے بڑا ہنر یہ تھا کہ اس نے ان دیواروں کو گرایا، ہم اپنے چھوٹے چھوٹے گھروں میں بڑی بڑی دیواروں کے درمیان زندگی بسر کر رہے تھے اور ایک دوسرےسے بے خبر تھے ، انقلاب نے ان دیواروں کو گرایا اور ان چھوٹے چھوٹے گھروں کو ایرانی  انقلابی قوم  کے  وسیع و عریض میدان میں تبدیل کر دیا ۔

ہماری یونیورسٹی کا طالب علم ، دینی طالب علم کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتا تھا ، دینی طالب علم،مروّجہ تعلیم کے طالب علم سے بدگماں تھا ، ہمارے معلّموں اور اہل بازار میں اختلاف تھا ، تجارت پیشہ افراد کو زراعت پیشہ افراد اچھے نہیں لگتےتھے ، ہم نے اپنے درمیان اونچی اونچی دیواریں کھینچ رکھی تھیں ، انقلاب نے ان دیواروں کو مسمار کر دیا ۔ کیا ہم ایک مرتبہ پھر وہی دیواریں قائم کرنا چاہتے ہیں ؟ !اور وہ بھی ایسی دیواریں جو غلط اورناحق ہیں ۔ ایسا نہ ہونے دیں، آج، اصول واضح وآشکار ہیں ، سمت و سو اور اہداف بھی واضح ہیں ، جو کوئی بھی اس منزل کا راہی ہو وہ اس مجموعہ کا حصّہ ہے ، اس بات کو مدّنظر رکھئیے ۔

میں نے بارہا کہا ہے کہ ہم  ظلم و زیادتی  کے مرتکب نہ ہوں ، یہ بھی ایک بنیادی کام ہے ، ظلم و زیادتی ایک بہت بری اور خطرناک چیز ہے ۔ ظلم کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم سڑک پر کسی کو تھپّڑ رسید کریں ، بلکہ  کبھی کبھی کسی شخص کے بارے میں کوئی نامناسب رفتار و گفتار ( جس کا وہ مستحق نہ ہو) ظلم و زیادتی شمار ہوتی ہے ، ہمیں اپنے دل اور عمل کی پاکیزگی و طہارت کا حد درجہ خیال رکھنا چاہیے ۔

 مجھے یاد پڑتاہے کہ میں نے کسی مقام پر پہلے بھی یہ واقعہ پیش کیا ہے ، کسی شخص کو زنائے محصّنہ  کی سزا میں سنگسار کیا جارہاتھا ، پیغمبر اسلام (ص)  بھی وہیں ایک کونے میں کھڑے تھے کچھ دوسرے لوگ بھی یہ منظر دیکھ رہے تھے ، ان میں سے دو آدمی آپس میں  کانا پھوسی کر رہے تھے ، ایک شخص دوسرے سے کہہ رہاتھا کہ یہ شخص کتّے کی موت مرا ہے ، یا اس جیسی کوئی دوسری تعبیر استعمال کی ، اس کے بعد پیغمبراسلام(ص) اپنے بیت الشّرف کی طرف روانہ ہوئے ، وہ دونوں بھی پیغمبر(ص) کے ہمراہ تھے ، راستہ میں ان کا گزر ایک بدبودار مردار سے ہوا ،  کتّے ، گدھے یا کسی دوسرے حیوان کا مردار تھا ، پیغمبر اسلام (ص)نے اس دونوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا، جاؤ اور اس مردار کا گوشت کھاؤ ، انہوں نے جواب دیااے اللہ کے رسول ! آپ ہم کو مردار کا گوشت کھانے کا حکم دے رہے ہیں ؟! آنحضرت نے فرمایا تم نے اپنے بھائی سے جو سلوک کیا وہ اس مردار کا گوشت کھانے سے بھی زیادہ برا تھا ۔ آپ ملاحظہ کیجئے کہ کس بھائی کی بات ہورہی ہے ؟ ایک ایسا بھائی جو شوہردار عورت سے زنا کا مرتکب ہوا ہو ، جسے سنگسار کیا گیا  ہو ، اس کے بارے میں انہوں نے دو جملے کہے تھے اور پیغمبر (ص)نے ان کی اتنی شدید مذمّت کی ۔

جو حقیقت ہے اس سے زیادہ ایک لفظ بھی زبان پر نہ لائیے ، ہمیں انصاف پسند ہونا چاہیے ، عدالت کو ملحوظِ نظر رکھنا چاہیے ، ایسا نہیں کہ ہم چونکہ مجاہد ہیں ، انقلابی  ہیں لہٰذاہمارے خیال میں جو بھی شخص ہم سے ذرّہ برابر بھی ان چیزوں میں کم ہو ہمیں یہ حق حاصل ہو کہ ہم اس کے بارے میں جو بھی کہہ سکتے ہوں وہ کہیں ، ہرگز ایسا نہیں ہے ، سبھی کا درجہ ایمان مساوی نہیں ہے ، حدیں  بھی ایک جیسی نہیں ہیں ، بعض کو بعض پر فضیلت حاصل ہے ، خدا ہر انسان کے درجہ و مرتبہ سےآگاہ ہے ، ممکن ہے اس کے نیک و صالح بندے بھی اس سے واقف ہوں لیکن عملی زندگی کے میدان میں ، روز مرّہ کے معاملات میں ، اجتماعی زندگی میں اس اتحاد و یکجہتی کی حفاظت بہت ضروری ہے ، اس فرق کوکم کرنا چاہیے ۔

اصلی  اہداف اور معیار بہت اہم ہیں انہیں ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے ، ہم نے بارہا اس مسئلہ پر زور دیا ہے ، ایک محترم استاد نے آج بھی اس جلسہ میں اس کی طرف اشارہ کیا کہ سامراج سے پیکار ، عالمی سطح پر کفر و نفاق کے مقابلہ میں اٹل استقامت ، انقلاب اور دین کے دشمنوں سے شفّاف و واضح انداز میں حد بندی ، یہ معیار ہیں ، اگر کوئی شخص انقلاب اور دین مخالف عناصر سے اپنی حدوں کو واضح نہیں کرتا تو ایسا شخص خود ہی اپنی قدر و قیمت کو کم  کردیتا ہے ، اگر وہ انقلاب اور دین مخالف گروہوں کی طرف مائل ہوجائے تو اس نطام کے مجموعہ سے خارج ہوجاتا ہے ، یہ اس نظام کے اصلی خطوط اور اصول ہیں ، انقلاب کا راستہ ایک واضح  راستہ ہے ، یہ انقلاب مسلسل آگے کی سمت بڑھ رہا ہے ، انشاء اللہ آئندہ بھی وہ اپنے راستہ پر رواں دواں رہے گا ۔

آپ حضرات  نے بسیج کی طرح عمل کیا اور ۵ منٹ کے مختصر سے وقت میں اتنے اہم مطالب بیان کئے   ہم بھی آپ کی طرح اس مفصّل وقت میں اپنی تمام باتیں آپ کے سامنے رکھنا چاہتے تھے لیکن ہم نے دیکھا کہ ایسا نہ ہو سکا ، لیکن کچھ ضروری باتیں ہم نے آپ کے گوش گزار  کی ہیں ، میں اس سے زیادہ آپ کو زحمت نہیں دینا چاہتا ۔

پروردِ گارِ عالم کی بارگاہ میں دعا کرتا ہوں کہ وہ  آپ سب کی حفاظت فرمائے ، آپ کی توفیقات اور بصیرت میں مزید اضافہ فرمائے ، آپ کو علمی اور  عملی جہاد نیز یونیورسٹی اور معاشرہ کی سطح پر بصیرت کے فروغ میں روز بروز کامیابی عطا فرمائے ۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ