بسم اللہ الرحمن الرحیم
میں اس اجتماع اورنشست میں حاضر آپ تمام عزيزبھائیوں ، بہنوں ، ملکی اعلی حکام ، دیگر عہدیداروں، عزيز مہمانوں اوراسلامی ممالک کے سفیروں کوعید سعید بعثت کی مناسبت سے مبارکباد پیش کرتا ہوں اسی طرح ایران کی عظیم ، مؤمن ، مخلص قوم، تمام مسلمانوں اور دنیا کے حریت پسندوں کواس عید سعید کے موقع پر مبارکباد عرض کرتا ہوں۔
عید بعثت اس لحاظ سے تاریخ کی ایک عظیم یادگار ہے کیونکہ اس نے تاریخ بشریت کے ایک حساس مرحلہ اور حساس دورکو رقم کیا ہے اور انسانیت کے سامنے ایک عمدہ و بہترین کا راستہ پیش کیا ہے اگر سب لوگ اور تمام انسان اس راستہ پر گامزن ہوجائیں تو بشریت کے تمام فطری، قدرتی اور تاریخی مطالبات اور تقاضے پورے ہوجائیں گے، آپ تاریخ کا مشاہدہ کریں کہ عدل و انصاف کے فقدان پر انسانیت کی چیخ و پکار نکلتی رہی ہے یعنی پوری تاریخ میں ہر انسان عدل و انصاف کا متمنی اورخواہشمند رہا ہے، اگرآج کوئی شخص عدل و انصاف کا پرچم ہاتھ میں تھام لے تو گویا اس نے انسان کے طولانی ، قدرتی اور فطری مطالبہ کو پیش کیا ہے اسلام کا آئین، اسلام کی حرکت اور تمام انبیاء (ع) کی طرح نبی مکرم (ص) کی بعثت کا سب سے پہلا مرحلہ اور سب سے اہم مقصد اور ہدف، عدل و انصاف کا قیام ہے۔
انسانیت کی ایک دوسری عظیم اور بنیادی خواہش امن و صلح اور آرام و سکون کا حصول ہے، انسان کو فکری پرورش اور تربیت کے لئے، زندگی کے لئے، عمل کی پشرفت و ترقی کے لئے، نفسیاتی آسائش کے لئے، ایسے ماحول کی ضرورت ہے جس میں امن و سکون کی فضا حکم فرما ہو، یہ آرام و سکون چاہے انسان کے اندر پیدا ہو، چاہے خاندانی ماحول میں میسر ہو، چاہے معاشرے کی سطح پر حاصل ہو، چاہے عالمی سطح پر نصیب ہو، بہر حال امن و صلح اور آرام و سکون انسان کی ایک بنیادی اور قدیمی ضرورت ہے ۔ اسلام ، امن و صلح اور سلامتی کا پیغام لایا ہے یہ جو ہم قرآن کریم کی روشنی میں یا قرآن محید کی تعلیمات کے مطابق کہتے ہیں کہ اسلام دین فطرت ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ راستہ جو اسلام نے انسان کو دکھایا ہےوہ فطرت کا راستہ ہے وہ انسان کی فطری ضرورتوں کو پورا کرنے کا راستہ ہے اللہ تعالی کی طرف سے پیغمبر اسلام (ص)کی بعثت اس اہتمام کے ساتھ ، اس دقت کے ساتھ اور اس جامعیت کے ساتھ وجود میں آئی اورانھیں انسانیت کی فلاح و نجات کا وعدہ اور خوشخبری دی؛ " بشیرا ونذیرا" ،(1)پہلے مرحلے میں بشارت، اسی آرام و پرسکون زندگی کے بارے میں بشارت، عدل و انصاف کے ہمراہ زندگی، انسانی خلقت کے مطابق زندگی،البتہ اس کے ہمراہ ، الہی ثواب کی بشارت بھی ہے جو انسان کی دائمی اور ہمیشگی زندگی سے متعلق ہے،لہذا پغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی بعثت در حقیقت بعثت رحمت ہے، اس بعثت کے نتیجے میں اللہ تعالی کی رحمت اس کے بندوں کے شامل حال ہوگئی؛ یہ راستہ انسانوں کے سامنے کھل گیا؛ عدل و انصاف کو پیش کیا، امن و سلامتی کو پیش کیا؛ «قد جائكم من اللَّه نور و كتاب مبين. يهدى به اللَّه من اتّبع رضوانه سبل السّلام و يخرجهم من الظّلمات الى النّور».(2( ان دستورات ، ان احکامات اور ان تعلیمات کے ذریعہ پیغمبر اسلام (ص) نے انسانوں کو امن و صلح کا راستہ دکھایا، سلامتی کا راستہ دکھایا،یہ سلامتی کے راستے، یہ امن کے راستے، یہ آرام و سکون کے راستے انسان کے لئے اہمیت کے حامل ہیں جو اس کے تمام حالات سے متعلق ہیں؛ انسان کی قلبی کیفیت اور اندرونی حالت سے لیکرمعاشرے کی حالت ، خاندان کی حالت، کاروبار کی حالت، اجتماعی زندگی سے بین الاقوامی زندگی تک تمام حالات سے متعلق ہیں،یہ وہ امر ہے جس کا اسلام سبق دیتا ہے یہ وہ چیز ہے جس کے بارے میں اسلام تاکید کرتا ہے۔
جو چیز اسلام میں دشمنی کے مقصد و ہدف کے عنوان سے بتائی گئی ہے، حقیقت میں وہ ایسے نقاط ہیں جو انسان کی زندگی کے اصلی خطوط کے ساتھ تعارض رکھتے ہیں، جو لوگ عدل وانصاف کے مخالف ہیں، جو لوگ امن و صلح اور سلامتی کے مخالف ہیں جو لوگ انسان کی عظمت و پاکیزگی اور اس کی طہارت کے مخالف ہیں یہ لوگ پیغمبر اسلام (ص) کی دعوت کے مد مقابل نقطہ پر قائم ہیں،اللہ تعالی نے عدل و انصاف قائم کرنے کے لئے مسلمانوں پر جہاد کو واجب قراردیا ہے، یہ بات صرف اسلام سے مخصوص نہیں ہے؛ بلکہ تمام الہی ادیان میں جہادکا وجود رہا ہے، جو لوگ اس دعوت کے مخالف ہیں وہ در حقیقت عوام کی آسائش، عوام کے آرام و سکون ، معاشرے کی سربلندی اور معاشرے کی عظمت کے مخالفت ہیں وہ انسانوں کے مفادات کے دشمن ہیں؛ یہ وہی نقطہ ہے اسلام نے جسے مقصد قراردیا ہے، بعثت کے آغاز سے ہی پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نےان آیات کے ذریعہ جو ان پر وحی کے ذریعہ نازل ہوئیں روشن نقاط کو واضح طور پر بیان کیا ہے۔
اسی سورہ مبارکہ " اقراء " کی پہلی آیات بظاہر وہ آیات ہیں جو پیغمبر اسلام (ص) پر نازل ہوئی ہیں، بعد والی آیات ذرا فاصلہ سے نازل ہوئی ہیں لیکن وہ بھی بعثت کے اوائل سےمتعلق ہیں، ارشاد ہوتا ہے: «كلّا لئن لمينته لنسفعا بالنّاصية. ناصية كاذبة خاطئة. فليدع ناديه. سندع الزّبانية».(3( وہ لوگ جو دعوت رحمت، دعوت عزت ،دعوت آرام و سکون کے مقابلے میں کھڑے ہونگے قرآن مجید کے پہلے سورہ میں ان کو دھمکی دی جاتی ہے اور ڈرایا جاتا ہے۔
یا سورہ مبارکہ "مدثر" جو پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر نازل ہونے والے اولین سوروں میں شمار ہوتا ہے اس میں بھی لوگوں کی زندگی کے ساتھ متصادم و متعارض نقطہ پر توجہ مبذول کی گئی ہے: «ذرنى و من خلقت وحيدا. و جعلت له مالا ممدودا. و بنين شهودا. و مهّدت له تمهيدا. ثمّ يطمع ان ازيد. كلّا انّه كان لأياتنا عنيدا. سأرهقه صعودا».(4) وہ شخص جو پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے مد مقابل اور ان کا دشمن و مخالف ہے، وہ شخص جو انسانی معاشرے اور انسانی مفادات کا مخالف اور دشمن ہے، وہ شخص جو حق کا دشمن اورمخالف ہے اس کے خلاف قیام و استقامت اورپائداری کے جوہر دکھانے کا دستور ہے لہذا اسلام میں مقابلہ و مبارزہ ہے، اسلام میں جہاد ہے؛ البتہ یہ جہاد ان لوگوں کے خلاف ہے جو معاشرے اور سماج کے امن و سکون اور نظم و انضباط کو درہم و برہم کرنا چاہتے ہوں یہ جہاد ان لوگوں کے خلاف ہےجو انسانی سعادت اور عدل و انصاف کے مخالف اور دشمن ہیں، آپ قرآن کریم اور پیغمبر اسلام صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم کی سیرت کو ملاحظہ کریں تو آپ کو اسلامی حکومت کی تشکیل کے آغاز سے ہی ایسے غیر مسلمان نظر آئیں گے جو پیغمبر اسلام (ص) کے سائے میں امن و امان اور آرام و سکون کے ساتھ زندگی بسر کررہے ہیں مدینہ میں جو یہودی رہتے تھے انھوں نے پیغمبر اسلام کے ساتھ معاہدہ کیا تاکہ آنحضور (ص)کے ساتھ آرام و سکون کے ساتھ زندگی بسرکر سکیں؛ البتہ انھوں نے سازش کی، مخالفت کی،خیانت کی ، پشت میں خنجر گھونپا ؛ لہذا پیغمبر اسلام (ص) نے ان کے مقابلے میں قیام کیا ، اگر مدینہ کے یہودی مخالفت نہ کرتے ، دشمنی نہ کرتے، سازش اور خیانت نہ کرتے، شاید پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کبھی بھی ان کی مخالفت نہ کرتے۔ لہذا اسلامی دعوت ایک معنوی دعوت ہے، یہ دعوت، منطق اور استدلال کی بنیاد پر استوارہے؛ یہ دعوت، بشرکے لئے سعادت بخش اور امید افزا زندگی پیش کرنے کی دعوت ہے۔ اس دعوت کے کچھ لوگ مخالف ہوجاتے ہیں اسلام ان مخالفین کو راستے سے ہٹا دیتا ہے۔ اسلام انفعالی عمل نہیں کرتا ہے اگر کوئی ایسا دشمن ہے جو انسان کی سعادت کا دشمن ہے جو دعوت حق کا دشمن ہے اسلام ایسے دشمن کے پنجہ میں پنجہ دیکر اس کے ساتھ مقابلہ کرتا ہے ایسے دشمن کے مقابلے میں استقامت کا مظاہرہ کرتا ہے اس چیزکا ان حالات اور واقعات کے ساتھ موازنہ کیجئے جو ظالم و مستکبر طاقتوں نے تاریخ میں انجام دی ہیں اور آج بھی انجام دے رہی ہیں؛ اپنی طاقت و قدرت کو وسیع کرنے کے لئےجنگ و جدال برپاکرتی ہیں، ظلم و بے انصافی کو فروغ دینے کے لئے جنگ اور لڑائی کی آگ روشن کرتی ہیں۔
آپ آج دنیا کے حالات ملاحظہ کیجئے؛ دنیا کی مستکبر اور ظالم طاقتیں آج بشریت کو فنا اور نابود کرنے کے لئےہتھیار تیار کررہی ہیں، اسلحہ بنا رہی ہیں، ظلم و نا انصافی کو فروغ دینے کے لئے اپنی طاقت و قدرت کو وسعت دے رہی ہیں وہ عدل و انصاف کے فروغ کے خلاف ہیں وہ انسان کےامن و امان کے خلاف ہیں بلکہ جو لوگ ان کے سامنے سرتسلیم خم نہیں کرتے وہ ان کی سلامتی کوبھی سلب کرلیتی ہیں آج دنیا کو یہ سنگين مسئلہ درپیش ہے۔
اس دنیا میں پائی جانے والی جاہلیت کو آج ہم ماڈرن جاہلیت سے جو تعبیر کرتے ہیں وہ اسی وجہ سے ہے۔ جاہلیت کا دور ختم نہیں ہوا ہے جاہلیت یعنی حق کے ساتھ مقابلہ، جاہلیت یعنی توحید کے ساتھ مقابلہ، جاہلیت یعنی انسانی حقوق کے ساتھ مقابلہ، جاہلیت یعنی اس راستے کے ساتھ مقابلہ جو پروردگار متعال نے انسان کی سعادت کے لئے منتخب کیا ہے۔یہ جاہلیت آج بھی موجودہے؛ لیکن پیشرفتہ اورماڈرن شکل میں ہے ، انسانی زندگی کو نابود اور فنا کرنے والے صنعت گروں کی جیبیں پر کرنے کے لئے علم و دانش کے ذریعہ، پیشرفتہ ٹیکنالوجی کے ذریعہ ، ایٹمی ہتھیاروں کے ذریعہ، انواع و اقسام کے ہتھیاروں کے ذریعہ استفادہ کیا جارہا ہے۔
دنیا میں آج فوجی اخراجات اور ہتھیاروں کی داستان ایک غم انگیز اور المناک داستاں ہے آج دنیا میں ہتھیاروں کی فیکٹریاں انواع و اقسام کے ہتھیار بنا رہی ہیں،اس لئے بنا رہی ہیں تاکہ ان ہتھیاروں کو فروخت کریں۔ اس لئے وہ دنیا میں جنگ و جدال برپا کرتی ہیں ، انسانوں کو ایک دوسرے کے خلاف اکساتی ہیں حکومتوں کو ایک دوسرے کے خلاف ابھارتی ہیں اپنی سازشوں کوعملی جامہ پہنانے اوراپنے مفادات و خواہشات کے حصول کے لئے دوسروں کودھمکیاں دیتی ہیں ۔
لہذا جب تک عالمی مسائل کی سلسلہ جنبانی بڑی طاقتوں کے ہاتھ میں رہے گی اس وقت تک دنیا سے جنگ ختم نہں ہوگی کیونکہ جنگ سے ان کے مادی مفادات وابستہ ہیں یہ جنگ عدل وانصاف کے قیام کی جنگ نہیں ہے امریکہ اور اس کے دوسرے اتحادی جھوٹ بولتے ہیں کہ وہ امن و سلامتی کے لئے جنگ لڑ رہے ہیں، نہیں، وہ امن و سلامتی کے لئے جنگ نہیں لڑ رہے ہیں بلکہ وہ امن و سلامتی کے مخالف ہیں وہ دنیا میں بد امنی پھیلا رہے ہیں جہاں انھوں نے فوجی یلغار کی وہاں انھوں نے بد امنی پھیلائی ، وہاں انھوں نے بے گناہ افراد پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ، وہاں انھوں نے انسانیت کا خوں بہایا، وہاں انھوں نے عوام کے لئے مشکلات پیدا کیں، جب سے دنیا میں یہ ماڈرن وسائل آئے ہیں اس وقت سے انسان دباؤ کا شکارہے گذشتہ 45 سال سے یعنی دوسری عالمی جنگ کے بعد سنہ 1990ء تک جسے اصطلاح میں سرد جنگ کے دور سے تعبیر کیا جاتا ہے بین الاقوامی سرکاری رپورٹوں کے مطابق دنیا میں صرف تین ہفتہ تک جنگ نہیں ہوئی ہے! اس کے علاوہ باقی ان 45 سالوں میں دنیا میں جنگيں جاری رہی ہیں ان جنگوں کے پیچھے کس کا ہاتھ رہا ہے؟ ان جنگوں کے پیچھے انہی لوگوں کا ہاتھ ہوتا رہاہے جو ہتھیار بناتے اور فروخت کرتے ہیں، آج بڑی طاقتوں کے فوجی اخراجات بے تحاشا اور بہت زيادہ ہیں ان کے اپنے اعداد وشمار کے مطابق اسی گذشتہ برس میں امریکہ نے چھ سو ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم فوجی اخراجات پر صرف کی ہے! ان فوجی اخراجات کو آج ہم اپنے ہمسایہ ممالک میں مشاہدہ کررہے ہیں۔ یہ اخراجات افغانستان میں صرف ہورہے ہیں یہ اخراجات افغانستان کی مسلمان قوم کو کچلنے کے لئے خرچ ہورہے ہیں ، یہ اخراجات عراق کی مظلوم قوم کو سرکوب کرنے کے لئے خرچ ہورہے ہیں ، عراقی عوام کو مٹھی میں لینے کے لئے صرف ہورہے ہیں ، یہ اخراجات غاصب صہیونی حکومت کی مدد میں صرف کئے جارہے ہیں،مشرق وسطی میں بحران جاری رکھنے کے لئے فوجی اخراجات صرف کئے جارہے ہیں،آج فاسد اور ظالم طاقتوں کا یہ طور و طریقہ اور سلسلہ جاری ہے اسلام ان کے منصوبوں اور ان کی پالیسیوں کا مخالف ہے اسلام ان کے مد مقابل کھڑاہے۔
وہ لوگ جن کی مصلحت اور صلاح اس امر میں ہے کہ مسلمان قومیں اور مسلمان حکومتیں ہمیشہ آپس میں جنگ و جدال میں مشغول و مصروف رہیں، ایکدوسرے سے متنفر رہیں ، ایکدوسرے سے خائف رہیں، ایکدوسرے کو خطرہ تصور کریں یہ وہی لوگ ہیں جن کی استعماری اور سامراجی طاقت و قدرت کا دوام اسی طریقہ کار اور روش سے وابستہ ہے کہ دنیا میں جنگ و جدال کا سلسلہ جاری رہے؛ ان کے لئے جنگ ، مال و اسباب لوٹنے اور غارت کرنے کا وسیلہ اور ذریعہ ہے، یہ تمام انسان فنا اور نابود ہوجائیں، قوموں کا تمام سرمایہ ہتھیاروں کی خرید پر خرچ ہوجائے، مہنگے ہتھیاروں کی پیداوار اور تیاری پر صرف ہوجائے، کیوں؟ اس لئے تاکہ بڑی بڑی کمپنیاں زیادہ سے زیادہ رقم حاصل کریں ،زندگی میں زيادہ سے زیادہ لذت اٹھائیں یہ وہی بشریت کا طاغوتی ،جاہلانہ اور خطرناک نظام ہے جو انسانوں پر حاکم ہےاور توحید کی راہ و روش سے دور ہے۔
یقینی طور پر یہ طریقہ باقی نہیں رہےگا؛ کیونکہ یہ طریقہ حق کے خلاف ہے، یہ روش باطل ہے، یہ روش مٹ جائے گی یہ روش محو ہوجائے گی؛ «جاء الحقّ و زهق الباطل انّ الباطل كان زهوقا».(5( باطل یعنی وہ چیز جو آفرینش اور خلقت میں سنت الہی کے برخلاف ہے؛ یہ چیز مٹ جائے گی ، ختم ہوجائے گي، زائل ہوجائے گی،یہ باقی رہنے والی چیز نہیں ہے ان کے زوال کی علامتیں آج انسان بخوبی مشاہدہ کررہا ہے انسان بین الاقوامی حالت کو جب ملاحظہ کرتا ہے تو ان کے زوال کی علامتوں کومشاہدہ کرتاہے۔
دنیا کی حالت تبدیل ہوگئی ہے؛ قومیں بیدار ہوگئی ہیں؛ خوش قسمتی سے مسلمان قوموں میں یہ بیداری زيادہ ہے؛ مسلمان قومیں ، مسلم حکومتیں ، اسلام کی اہمیت ، اسلام کی عظمت اور اس قابل اطمینان اور قابل اعتماد و قابل وثوق سہارا کی عظمت کو درک اور محسوس کررہی ہیں، آج عالم اسلام میں اسلامی بیدار نے سامراجی طاقتوں سے ان کی توانائی اور قدرت کو سلب کرلیا ہے، ماضی کی نسبت امریکہ کی پوزیشن میں بہت بڑا فرق پیدا ہوگیا ہے امریکہ کے بعد دوسری طاقتوں کی حالت بھی واضح ہے ان کی حالت بھی یہی ہے؛ مسلمان قوموں کو توحید کے راستہ کو غنیمت شمار کرنا چاہیے اور اللہ تعالی کے سچے وعدوں پر یقین اور اطمینان رکھنا چاہیے آج مسلمانوں کی سعادت کا راز یہ ہے کہ وہ اسلام کی بنیاد اور اسلام کے محور پر ایکدوسرے کے ساتھ متحد رہیں۔
البتہ دشمن موجود ہے اور اس کی دشمنی اور عداوت کا سلسلہ جاری رہےگا، جہاں کہیں بیداری زیادہ ہوگی انسانیت اور بشریت کے دشمن وہاں زیادہ خطرہ محسوس کرتے ہیں؛ ہم آج اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ ہونے والی دشمنیوں اور عداوتوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں، اچھی طرح جانتے ہیں ، ان عداوتوں کے علل و اسباب کو بھی جانتے ہیں؛ اسلامی جمہوریہ ایران نے چونکہ قوموں کی بیداری کا پرچم اپنے ہاتھ میں اٹھا رکھا ہے، اسلامی جمہوریہ ایران چونکہ قوموں اور حکومتوں کو عزت و اتحاد کی طرف دعوت دیتا ہے اور اس کا یہ کہنا ہے کہ اسلام کے سائے میں قومیں اور حکومتیں اپنی عزت و عظمت کی قدر و قیمت کو پہچانیں، اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمنوں کی عداوتیں انہی علل و اسباب کی وجہ سے ہیں ۔ ان چیزوں کو ہم جانتے ہیں اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ تمام عداوتیں اور دشمنیاں ناکام ہوجائیں گي؛ جیسا کہ آج تک شکست و ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اکتیس سال سے عداوتوں اور سازشوں کا سلسلہ جاری ہے اور اکتیس سال سے اسلامی جمہوریہ ایران کی جڑیں مضبوط اورمستحکم ہورہی ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران ترقی اور پیشرفت کی شاہراہ پر گامزن ہے اور ترقی کا یہ سلسلہ اسی شان کے ساتھ جاری رہےگا۔ دشمنی کا سلسلہ جتنا جاری رہےگا ہمارے عوام اور عالم اسلام میں سب مسلمان اپنی عظمت اور شان و شوکت کو زیادہ سے زیادہ درک کریں گے اور اپنی کھوئی ہوئی عظمت کوپہچان لیں گے۔
اللہ تعالی سے امید رکھتا ہوں کہ وہ مسلمان حکومتوں اور مسلمانوں قوموں کی مدد اور نصرت فرمائے تاکہ وہ اپنے اوپر اعتماد کریں ، اپنے اوپر بھروسہ کریں، مغرور اورسامراجی طاقتوں سے ہرساں نہ ہوں ؛ یہ سجھ لیں کہ سامراجی طاقتوں کی قدرت ختم ہورہی ہے؛ جعلی اور باطل طاقت کا خاتمہ قریب ہے باطل باقی نہیں رہےگا؛ وہ چیز باقی رہےگی جو بشریت کے فائدے میں ہے وہ چیز باقی رہےگی جو انسانوں کے مفاد میں ہے؛«و امّا ما ينفع النّاس فيمكث فى الأرض».(6(
اللہ تعالی سے امید کرتا ہوں کہ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بعثت کی برکت سے ہم سب کو راہ اسلام اور روش اسلام سے نزدیک تر فرمائے؛اور مسلمان حکومتوں کے ہاتھ کومضبوط گرہ لگا کرایک دوسرے کے ہاتھ میں قراردے تاکہ امت مسلمہ انشاء اللہ اپنی کھوئی ہوئی عزت و عظمت اور طاقت و قدرت کو پھر حاصل کرسکے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1) )بقره: 119
2) )مائده: 15 و 16
3) )علق: 15 - 18
4) )مدثر: 11 - 17
5) )اسراء: 81
(6) رعد: 17