بسم اللہ الرحمن الرحیم
آپ عزیز بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید پیش کرتا ہوں!جیسا کہ ابھی یہاں بیان کیا گيا ہے آپ حضرات کی ملاقات اور زیارت میں کچھ مدت تاخیر ہوگئی، ہم اللہ تعالی کا شکر ادا کرتے ہیں اور جناب آقائ محمدیان کا بھی بہت بہت شکریہ ، جنھوں نے اس ملاقات کا پروگرام مرتب کیا اور بحمداللہ یہ ملاقات انجام پذیر ہوگئی۔
یونیورسٹیوں میں علماء اوردینی طلباء کی موجودگی بہت ہی اہم مسئلہ ہے۔ ديگر اہم مسائل کی مانند اس مسئلہ میں بھی ہماری عادت یہ بن گئی ہے کہ ہم اس مسئلہ کی اہمیت کو صحیح اوردرست انداز میں درک نہ کرسکیں ، آپ ملاحظہ کریں کہ ملک کی یونیورسٹیوں کی فضا اور ماحول کیسا تھا؛ یونیورسٹیوں کے لئے ابتدا ہی سے جو سمت و سو مرتب کئی گئی تھی وہ کیسی تھی؛ نصاب اور دروس کا سلسلہ جو ایک خاص فکری سمت و سو اور ایک خاص معنی و مفہوم کا حامل تھا اسے کس طرح منظم و مرتب کیا گياتھا؛ اس کے بعد آپ انقلاب اسلامی سے قبل کی حالت اور انقلاب اسلامی کے بعد کے دور کا موازنہ کریں کہ انقلاب اسلامی کی برکت اور اسلام کی برکت سے آج یونیورسٹیوں میں علماء ، فضلاء اور اہل معرفت افراد موجود ہیں اور یہ لوگ اساتید کے ساتھ جو انس و محبت رکھتے ہیں اس کو ملاحظہ کیجئے اس وقت آپ مشاہدہ کریں گے کہ یونیورسٹیوں اور یونیورسٹی طلباء کے درمیان علماء اور فضلا کی موجودگی کتنی اہمیت کی حامل ہے۔
جس وقت ہمیں اس کی اہمیت کا احساس اور ادراک ہوجائے، اس کا سب سے پہلا اثر جو ظاہر ہونا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہمیں خود - یعنی ہم اور آپ – جو یونیورسٹی سےمنسلک اور وابستہ ہیں اس موقع کو غنیمت شمار کرنا چاہیے ہمیں اس صورتحال کی قدر وقیمت جاننا چاہیے اور ہمیں اس عظیم نعمت کا حقیقی معنی میں شکریہ ادا کرنا چاہیے، نعمت کو پہچاننے کا شکریہ ، نعمت کو خدا کی طرف سے سمجھنا اور اس نعمت کو ایسی جگہ کام میں لانا جو خدا کی مرضی و منشاء اور اس کی خوشنودی کے مطابق ہو؛ شکریہ کا یہ کامل اورعملی معنی ہے اس نعمت کا شکریہ ادا کیجئے؛ اس نعمت کی بدولت ذمہ داریوں کا ایک عظیم بوجھ ہمارے دوش پر عائد ہوتا ہے۔
میں اسی موازنہ کے سلسلے میں کچھ باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں؛ انقلاب سے قبل یونیورسٹی طلباء کے ساتھ میرے اور بعض علماء کے ارتباطات اور تعلقات برقرار تھے یہ رابطہ کوئی اداری رابطہ نہیں تھا؛ یہ رابطہ کوئی تشکیلاتی رابطہ نہیں تھا، یہ رابطہ مزاحمتی مسائل سے مربوط رابطہ نہیں تھا،؛ بلکہ یہ رابطہ ایک فکری اور تبلیغی رابطہ تھا؛ یعنی ہم نے ایسے جلسات اور پروگرام مرتب کئے تاکہ طلباء ان جلسات میں شرکت کرسکیں، یا کبھی ہم یونیورسٹی میں طلباء کے کسی جلسہ میں شرکت کرسکیں اس دور میں ہماری طرف سے مشہد میں ایک جلسہ نماز مغرب و عشا کے بعد منعقد ہوتا تھا میں بھی اس جلسہ میں بیس منٹ یا آدھے گھنٹے تک تقریر کرتا تھا جلسہ میں شریک نوے فیصد حاضرین اور سامعین جوان ہوتےتھے؛ اکثر جوان یونیورسٹی اور کالج سے آتے تھے ایک رات مرحوم شہید باہنر (رحمۃ اللہ علیہ) مشہد میں تھے وہ میرے ہمراہ ہماری اس مسجد میں حاضر ہوئے مسجد کی حالت کو دیکھ کر حیران رہ گئے ، تعجب کرنے لگے جناب باہنر وہ شخص تھے جو تہران میں جوانوں اور یونیورسٹی طلباء سے بھی منسلک اور مرتبط تھے۔انھوں نے کہا کہ میں نے اپنی عمر میں اتنی تعداد میں جوان اور طلباء کسی ایک مسجد میں نہیں دیکھے ہیں مگر ہماری مسجد میں کتنی تعداد میں جوان موجود تھے؟ زیادہ سے زیادہ ان کی تعداد تین سو چالیس یا تین سو پچاس رہی ہوگي جبکہ آقائ باہنر جیسے عالم دین کے لئے جو ایک روشنفکر اور جوانوں اور یونیورسٹی سے منسلک عالم دین تھے انھوں نے یونیورسٹی کے ماحول کو قریب سے دیکھ رکھا تھا وہ یونیورسٹی طلباء کو قریب سے پہچانتے تھے اور نئی اور تازہ مذہبی سرگرمیوں سے بھی اچھی طرح واقف اور آگاہ تھے ان کے لئے تین سو یا تین سو پچاس جوانوں کا ایک جگہ اجتماع حیرت کا سبب بن گيا جن میں کوئی دو سو یونیورسٹی طلباء رہے ہونگے یہ اجتماع دیکھ کروہ حیران اور ششدر رہ گئے دوسو طلباء ایک جگہ جمع ہوجائیں اور ایک عالم دین ان کے لئے خطاب کرے اور مسائل بیان کرے؟!
اب آپ اس دور کا موازنہ اپنےاس موجودہ دور سے کیجئے جو آج کل یونیورسٹیوں میں آپ کے سامنے ہے یونیورسٹیوں کے ماحول میں یونیورسٹی طلباء اور اساتید تک آپ جیسے فاضل علماء کی اچھی خاصی اور آسان رسائی ہے اس کا موازنہ کیجئے اس کو ملاحظہ کیجئے کہ کتنا عظیم اور گرانقدر موقع آپ کو نصیب ہوا ہے اس کی قدر کیجئے؛ یہ ایک اصلی اور اساسی نکتہ ہے۔
اس واقعہ اور قضیہ کی اہمیت یہاں سے مزید واضح ہوجاتی ہے کہ یونورسٹی کے ماحول کے بارے میں بہت سی غلط اور جھوٹی افواہیں اورپروپیگنڈے جاری ہیں ان تبلیغات میں سب زيادہ جس چیز پر زوردیا جاتا ہے وہ یونیورسٹیوں کے اسلامی ماحول کا مسئلہ ہے، کہ اسلامی جمہوریہ ایران یونیورسٹیوں کو کیوں اسلامی بنانا چاہتی ہے؛ یونیورسٹیوں میں آپ کی موجودگی ہی ان کے اسلامی ہونے کا نمونہ ہے۔
دوسرا نکتہ ہماری یونیورسٹیوں، ہمارے اساتذہ اور طلباء کے بارے میں ہے میں بھی ان نکات سے اتفاق کرتا ہوں جو جناب محمدیان نے طلباء کی فکری اور عقلی سمت و سو اور صلاحیت کے بارے میں بیان کئے ہیں بعض لوگ صرف منفی نقاط پر توجہ رکھتے ہیں؛ ہم بھی کبھی یونیورسٹی ، طلباء اور جوانوں کی جو تعریف کرتے ہیں اس پر بھی بعض لوگ آپس میں چہ میگوئیاں کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کو یونیورسٹیوں میں موجود فلاں اشکال اور فلاں مفسدہ کے بارے میں کوئي خبر نہیں ہے؛ نہیں ، یہ مسئلہ بے خبری اور عدم اطلاع کا مسئلہ نہیں ہے؛ ہم منفی امور اور اشکالات کے بارے میں بےخـبر نہیں ہیں ؛ لیکن مسئلہ کی نزاکت اور طبیعت کو مد نظر رکھنا چاہیے؛ وہ بھی ایک اجتماعی ماحول میں جوانوں کی طبیعت، طلباء کی طبیعت جو آج مختلف قسم کے پروپیگنڈوں اور تبلیغات کی زد میں ہیں؛ ہمارے جوان اور فہیم طلباء کی افکار کو اغوا کرنے، منحرف کرنے اور ان کی طبیعت پر اثرانداز ہونےکے لئے پروپیگنڈوں کا سلسلہ جاری ہے، ان تمام غلط اور موزی پروپیگنڈوں کے باوجود آپ ان درخشاں حقائق کوملاحظہ کریں جو اس وقت دینی لحاظ سے طلباء کی فضا پر چھائے ہوئے ہیں؛ انسان اچھی طرح درک کرتا ہے کہ جوباتیں بیان کی گئی ہیں وہ بہت ہی اہم ہیں، اعتکاف کے مراسم میں شرکت، نماز جماعت میں شرکت، حساس مواقع میں حساس مراکز میں فعال موجودگی، یہ جہادی تفریحات، یہ تعمیراتی سرگرمیاں ، یہ سب امور بہت ہی اہم امور ہیں۔
آج ہماری یونیورسٹیوں کے طلباء بے مثال اور بے نظیر ہیں ، ہمارے اساتید بھی ایسے ہی ہیں یہ تمام مؤمن، متدین،فعال اور ملک و قوم کی دینی اور اسلامی خدمت اورسرنوشت میں دلچسپی رکھنے والے اساتذہ ہیں، ان کا ہمارے ملک کی پیشرفت و ترقی میں اہم اور فعال کردار ہے ان کی خدمات اہم اور نمایاں ہیں ؛ ان کی جد و جہد اور کوششیں تاریخ میں ہمیشہ یاد رہیں گی، ہماری یوینورسٹیوں کا ماحول ایک ایسا ماحول ہے؛ ہماری یونیورسٹیوں کا ماحول دینی ماحول ہے، اسلامی ماحول ہے البتہ ہمیں اس حد پر قناعت نہیں کرنی چاہیے اور بحث اس حد پر راضی ہونے کی نہیں ہے؛ لیکن ایسا بھی نہیں ہوسکتا کہ انسان بالکل اس حالت سے راضی اور خوشنود نہ ہو۔ یہ اللہ تعالی کی سب سے بڑی نعمت ہے، لہذا یہ تمام امورحقائق پر مبنی ہیں ، حقیقت میں یونیورسٹیوں کا ماحول ایک سازگار ماحول ہے ، ایک مناسب ماحول ہے اور وہ توقعات جو دینی لحاظ اور اسلامی اعتبارسے یوینورسٹیوں کے ماحول سے وابستہ ہیں ، ان توقعات کو مد نظر رکھنا چاہیے، ہر ایک ماحول سے توقع کی اپنی اپنی نوعیت اور کیفیت ہوتی ہے یونیورسٹی طلباء سے توقع میں اور دینی طلباء سے توقع میں فرق ہے۔ یونیورسٹی طلباء سے جو توقع ہے اور دینی طلباء سے جو توقع ہے ان دونوں میں فرق ہے۔
وہ عناصر اور شرائط جو یہاں ہیں وہ عوامل جو یہاں مصروف ہیں، وہ تاریخی عوامل جنھوں نے ان پر کام کیا ان تمام عوامل کو مد نظر رکھنا چاہیے تاکہ انسان صحیح اور درست جائزہ لے سکے لہذا یونیورسٹی کا ماحول بھی بہت ہی اچھا ماحول ہے؛ اور اس ماحول سے بھر پور استفادہ کرنا چاہیے۔
میری نظر میں جو چیز سب سے پہلے بڑی اہمیت کی حامل ہے وہ آپ کے مخاطبین کا دل اور ان کی فکر ہے؛ پہلے ان کی فکر اور پھر ان کے دل پر توجہ مبذول کرنی چاہیے، فکر کا معنی اور مفہوم یہ ہے کہ جوانوں کی اعتقادی اور دینی بنیاد کو مضبوط و مستحکم بنانا چاہیے، جوانوں میں تغییر و تحول اور تبدیلی رونما ہورہی ہے، جوانوں میں تبدیلی اور تحول کا سلسلہ جاری ہے، دنیا میں آج تاثیرات کی مقدار اور میزان میں بہت زيادہ اضافہ ہوگیا ہے جوانوں کی فکری اساس و بنیاد کو اس طرح مضبوط اور قوی بنانا چاہیے تاکہ وہ غلط افکار اور گمراہ کن پروپیگنڈوں کا شکار نہ ہوں اور اس کے ساتھ وہ اپنے اردگرد کےماحول پر اچھے اور مثبت اثرات بھی مرتب کرسکیں؛ انھیں اپنے اردگرد کے ماحول کو منور کرنا چاہیے، نور افشانی کرنی چاہیے اپنے اردگرد کے ماحول کو اسلامی معارف سے آشنا بنانا چاہیے اس راہ میں پیشقدم رہنا چاییے جوانوں کے اندر فکری لحاظ سے ایک ایسی حالت پیدا ہونی چاہیے۔
قلبی لحاظ سے بھی جوان پر توجہ رکھنی چاہیے کیونکہ انسانی کی روحی پیشرفت و ترقی کے لئے ضروری ہے درحقیقت انسان کے لئے صراط مستقیم پر ثابت قدم رہنے کے لئے صرف فکر ہی کافی نہیں ہے، اعتقادی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ قلبی اور روحی پہلوؤں پر بھی توجہ لازمی ہے۔ اطاعت و بندگی کی حالت لازمی ہے ، خشوع اور خضوع کی حالت ضروری ہے، اللہ تعالی پر توجہ اور اس کا ذکر انسان کے لئے ضروری ہے اگر جوانوں کے اندر یہ حالت پیدا ہوجائے تو بہت سی خامیوں کی تلافی اور بہت سے نقائص کا جبران ہوجائے گا۔ اگر ایسا نہ ہو تو انسان کی فکری طاقت ، استدلال و برہان کی قدرت بہت سے مواقع پر انسان کی مدد کے لئے نہیں پہنچ پائے گی ، انسان کی فکر بہت سے موارد میں انسان کی مدد نہیں کرپائےگی، نصیحت کے ساتھ، اچھے اور نیک موعظہ کے ساتھ ، اچھی رفتار کے ساتھ ، اچھے کردار کے ساتھ جوانوں کے دل کو نرم کرنا چاہیے؛ ان کو خضوع و خشوع اور توسل وذکر کے ساتھ آشنا بنانا چاہیے؛ نماز کے فضائل و کمالات کو ان کے لئے صحیح انداز میں بیان کرنا چاہیے؛ اللہ تعالی کے ذکر کو ان کے لئے درست انداز میں بیان کرنا چاہیےیہ امور جوانوں کی فکر کے لئے ممد و معاون ثابت ہونگے یہ چیزیں جوانوں کی فکر کے لئے مددگار اور مفید ثابت ہونگی اگر یہ کام انجام پاگیا تو اس وقت جوانوں کی فکری استقامت لازاول ہوجائے گي ۔ قلب کی یہ نرمی، دل کی یہ توجہ اور اللہ تعالی کا ذکر و مناجات،عمل کے میدان میں انسان کے کام آتے ہیں؛ وہی ذات ہے جو انسان کو ثابت قدم رکھتی ہے؛ یہ چیز لازمی ہے اور ان دونوں چیزوں یعنی قلب و فکر کو مضبوط بنانا چاہیے۔
آپ کوجوانوں کے لئے معارف کی کلاس لگانی چاہیے؛ آپ کوروزمرہ کےحالات کے مطابق انھیں معارف کی تعلیم دینا چاہیے، آپ کویونیورسٹی طلباء کی فکر اوریونیورسٹی طلباء کی ادبیات کےمطابق معارف کو پیش کرنا چاہیے۔ یہ ضروری اور اہم امور ہیں، قوم کی زبان میں بات اور گفتکو کرنے کا یہ ایک مصداق ہے، طلباء کی زبان میں بات کرنی چاہیے ایسی ادبیات کے ذریعہ طلباء سے گفتگو کرنی چاہیے جو ان کے فہم و ادراک اور ذہن کے مطابق ہو ، اکثر ادبیات ممکن ہے ایک جگہ کارساز و کارآمد اور مفیدثابت ہوں لیکن ممکن ہے دوسری جگہ وہ کارآمد اور مفید ثابت نہ ہوں یہ بھی بالکل لغت کے اختلاف کی طرح ہے، ادبیات میں اختلاف بھی درحقیقت لغت کے اختلاف کے مانند ہے؛ یہ ایسے ہی ہے جیسے ایک انسان فارسی ماحول میں آئے اور گجراتی میں بات کرے؛ کسی کے پلے کچھ نہیں پڑےگا ، کسی کو کچھ سمجھ میں نہیں آئے گا، چنانچہ اگر انسان جوانوں کے ماحول اور طلباء کی ادبیات اور ان کے طور و طریقہ اور ماحول سے آشنا نہ ہو، اگر وہ ان ادبیات سے استفادہ نہ کرے، تو فکری ارتباط کا راستہ بند ہوجائے گا اور اثرات میں کمی واقع ہوجائے گی لہذا قوم کی زبان اور ماحول کے مطابق بات کرنا بہت ضروری ہے۔
نیک پند و نصیحت کے سلسلے میں زبان کے علاوہ عمل و رفتار پر توجہ دینا بھی ضروری ہے میں اس سلسلے میں لفظ تربیت کی تعبیر استعمال نہیں کرنا چاہتا کیونکہ تربیت ایک عام معنی ہے یہ آیہ شریفہ «كونوا دعاة النّاس بغير السنتكم»(1( یہاں معنی پیدا کرتی ہے وہ چیز جو دلوں کو نرم بناتی ہے بلکہ عداوتوں اور دشمنیوں کومٹادیتی ہے وہ صحیح رفتار، اچھا اور نیک عمل ہے البتہ تواضع، اچھا اخلاق، بات میں سچائی و صداقت ، مؤقف میں صداقت، حقیقت بیان کرنے میں صراحت اور دنیوی و مادی امور کی نسبت بلند نظری جیسے اموراچھی رفتار میں شامل ہیں؛ یہ وہ امور ہیں جو عمل میں خلوص کا مظہر ہیں؛ اگر اللہ تعالی کی توفیق سے ہمارے اندر حقیقت میں خلوص پیدا ہوجائے تو وہ ہماری رفتار اور گفتار میں نمایاں ہوجائے گا لہذا دوسرا اساسی اور بنیادی نقطہ یہ ہے کہ سب سے پہلے موعظہ اور نصیحت کی زبان برادرانہ اور بعض موارد میں پدرانہ اور مشفقانہ ہونی چاہیے اور اس کے بعد صحیح عمل و رفتار پر خاص توجہ مبذول کرنی چاہیے۔
ایک چیز جو میری نظر میں آپ کے لئے مددگار ثابت ہوسکتی ہے وہ یہ ہے جو نبی مکرم اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے بارے میں امیر المؤمنین (ع) نے فرمائی ہے: «طبيب دوّار بطبّه قد احكم مراهمه و احمى مواسمه».(2( میز کے پیچھے چپک کر بیٹھنا اور کمرے میں بند نہیں ہونا چاہیے دینی طلباء اور علماء کو اداری اور دفاتری شکل و صورت اور طریقہ کار اختیار نہیں کرناچاہیے یہ طریقہ کار ہمارے لئے مفید نہیں ہے ہم کسی پوسٹ ، منصب اور مقام پر کیوں نہ ہوں ہمیں دینی طلباء کی روش ، دینی علماء کی سیرت اور طریقہ کار کو فراموش نہیں کرنا چاہیے ہمیں عوام کے ساتھ انس و محبت اور الفت رکھنی چاہیے ہمیں عوام کے درمیان جا کر ان کے درد دل کو سننا چاہیے ہمیں عوام کے ساتھ عام فہم زبان میں گفتگو کرنی چاہیے ان کی زبان میں انھیں سمجھانا چاہیے ۔
البتہ ہم نے علماء کے درمیان دونوں قسم کے علماء اور طلباء کو مشاہدہ کیا ہے ایسے بھی علماء رہے ہیں جن کے پاس کوئی سرکاری عہدہ و مقام اور منصب نہیں رہا اور کوئی دفتری ذمہ داری بھی ان کےدوش پرنہیں تھی اس کے باجود ان کا رویہ عوام کے ساتھ بالکل سخت اور خشک تھا عوام کے ساتھ انھیں نہ کوئی محبت تھی اور نہ ہی عوام پر ان کی کوئی توجہ تھی۔ اس کے برعکس بھی ہم نے مشاہدہ کیا ہےایسے علماء بھی دیکھے ہیں جن کے دوش پر اداری ذمہ داری بھی تھی لیکن اس کے باوجود وہ اسی گوشہ اور اسی صورت میں عوام کے ساتھ رابطہ پیداکرتے تھے، وہ عوام کے ساتھ شفیقانہ اور پدرانہ رفتار رکھتے تھے وہ عوام کے ساتھ محبت آمیز رفتار رکھتے تھے وہ عوام کے ساتھ ہمدردانہ رفتار رکھتے تھے،؛ یہ بات اچھی ہے یہ رفتار اچھی رفتار ہے، لہذا یہ بھی ایک اہم مسئلہ ہے؛ یعنی عوام کے ساتھ محبت آمیز رفتار، عوام کے ساتھ ہمدردانہ رفتار ، عوام کے ساتھ پدرانہ اور مشفقانہ رفتار سے پیش آنا ایک اہم مسئلہ ہے اور اداری اور دفتری شکل میں کسی ایک جگہ مقید نہیں ہونا چاہیے، میں نظم و انضباط کا مخالف نہیں ہوں ؛ کیونکہ نظم و انضباط کے بغیر ، تشکیلات کے بغیر اور مدیریت کے بغیر کوئی کام انجام نہیں پاسکتا، نہیں میں نظم و انضباط پر اعتقاد رکھتا ہوں میں اداری تشکیلات کا حامی ہوں لیکن اس بات پر اعتقاد رکھتا ہوں کہ یہ اداری نظم و انضباط ہمیں اپنے تشخص سے دور نہ کردے۔ ہم ہر شکل میں عالم دین ہیں ہمیں اسی عالم دین ہونے کی شکل و صورت میں، شیعہ عالم دین ہونے کی حالت میں اپنی حرکت کو جاری رکھنا چاہیے اپنے عالم دین ہونے کے تشخص کو مد نظر رکھنا چاہیے البتہ یہ چیزیں تمام ادیان اور مذاہب میں موجود ہیں؛ ديگر مذاہب میں بھی یہ باتیں موجود ہیں ان کے لئے بھی یہ باتیں بہت اچھی ہیں؛ البتہ شیعوں کے درمیان یہ ایک سنت رہی ہے۔ شیعہ علماء ہمیشہ عوام کے ساتھ رہے ہیں شیعہ علماء ہمیشہ عوام کے ساتھ مانوس رہے ہیں وہ عوام کے ساتھ منسلک اور مربوط رہے ہیں وہ عوام کے ساتھ مہربان رہےہیں وہ عوام کے درد و غم میں برابر کے شریک رہےہیں علماء کی اس سیرت و رفتار کی حفاظت کرنی چاہیے یہ چیز بہت ہی اہم چیز ہے۔
بہت خوب ؛ ان امور کی طرف اشارہ کیا گيا جو امور انجام پاچکے ہیں ، یہ امور بہت ہی اہم اور اچھے امورہیں میری بھی اس سلسلے میں مزید سفارش یہ ہے البتہ یہ سفارش بھی آپ کے مدیریتی مجموعہ کے لئے ہےکہ آپ اپنی سرگرمیوں اور فعالیتوں کو میدان میں منظم و مرتب کریں اور مفید اور مؤثر طریقہ سے انجام دیں یعنی مرکزی ادارے میں سرگرم رہنے کے بجائے میدان میں سرگرم اور مصروف عمل رہیں میدان مین موجود افراد پر توجہ مبذول رکھیں مرکزی ادارے میں سرگرم افراد صحیح اور درست پروگرام منظم و مرتب کرنے کی تلاش و کوشش کریں مختصر اور طویل المدت منصوبوں کو وضع کرنےپر اپنی توجہ مرکوز کریں مرکزی ادارے میں صرف اسی حدود میں کام ہونا چاہیے۔اگر مرکزی ادارے میں افرادی قوت میں اضافہ کیا گيا تو اس سےمشکلات پیدا ہونگی ؛ اس کا ڈھانچہ سنگین اور وزنی ہوجائے گا۔
بہر حال کام بہت ہی اہم کام ہے اور آپ کے اس مجموعہ نے گذشتہ برسوں میں اچھے کا م انجام دیئے ہیں امیدوار ہوں کے اللہ تعالی آپ سب کی مدد اور نصرت فرمائے، تاکہ آپ انشاء اللہ اس تلاش و کوشش اور مقدس جہاد کو جاری و ساری رکھ سکیں ۔
البتہ انسانی اور علمی مدد فراہم کرنے کے سلسلے میں حوزات علمیہ پر بھی اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے حوزات علمیہ کی ذمہ داری ہے جیسا کہ حکومتی اداروں کی بھی اس سلسلے میں سنگين اور اہم ذمہ داری ہے۔خوش قسمتی سے اس حکومت میں آپ کے لئے راہیں ہموار ہیں اس چیز کو میں مکمل آگاہی اور اطلاعات کی بنا پر عرض کررہا ہوں موجودہ حکومت کے اس دور میں آپ کے لئے کام آسان ہے یہ کام گذشتہ حکومتوں میں اتنا آسان نہیں تھا کیونکہ بعض اس نظریہ کے بالکل مخالف تھے بعض محدود پیمانے پر مدد کرتے تھے موجود ہ صورتحال اچھی حالت ہے اس سے استفادہ کرنا چاہیے اور اس نعمت پر اللہ تعالی کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔
امیدوار ہوں کہ اللہ تعالی آپ سب کو کامیاب و کامراں فرمائے آپ کی نصرت اور تائید فرمائے انشاء اللہ پروردگار متعال آپ کی محنتوں کو قبول فرمائے آپ کے کام بقیۃ اللہ(ارواحنا فداہ) کی خوشنودی کا سبب قرار پائیں اور انشاء اللہ آپ روزبروز کام کو بہتر کیفیت اور اعلی سطح پر پیش کرنے میں کامیاب رہیں۔
والسلام علیکم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1) مشکاۃ الانوار، ص 46
2) نہج البلاغہ ، خطبہ 108