بسماللَّهالرّحمنالرّحيم
الحمد للَّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابىالقاسم محمّد و على اله الأطيبين الأطهرين المنتجبين سيّما بقيّةاللَّه فى الأرضين.
رمضان المبارک کے سلسلے میں بعض دعائیں چاہیے وہ صحیفہ مبارکہ سجادیہ میں وارد ہوئی ہوں یا دیگر ماثور دعائيں ہوں ان میں رمضان المبارک کے بارے میں بعض صفات کا ذکر ہوا ہے اور ان صفات اور خصوصیات میں سے ہر ایک قابل غور وفکر اور قابل تامل اور تدبر ہے: «شهر التّوبة و الانابة» یہ مہینہ توبہ اور انابہ کا مہینہ ہے اورمیں بعد میں توبہ اور انابہ کے بارے میں کچھ جملات عرض کروں گا۔ «شهر الاسلام»، صحیفہ مبارکہ سجادیہ کی دعا میں ہے۔ اسلام سے مراد بھی وہی چیز ہےجو آیہ شریفہ میں ذکر ہوئی ہے: «و من يسلم وجهه الى اللَّه و هو محسن فقد استمسك بالعروة الوثقى».(1( اسلام الوجہ للہ ، یعنی اللہ کے ارادے، اللہ کے حکم ، اللہ کی شریعت کے سامنےدل اور جان کو تسلیم کردینا؛ اللہ کا مطیع اور فرمانبردار ہوجانا، «شهر الطّهور» ۔ الطہور کے معنی یا پاک کرنے والے کے ہیں یعنی وہ مہینہ جس میں پاک کرنے والا عنصر موجود ہے جو انسان کو طہارت اور پاکیزگی عطا کرتا ہے۔ یا الطہور مصدر کی صورت میں ذکر ہوتا ہے؛ یعنی آلودگیوں ، کثافتوں اور برائیوں سے پاک ہونے والا مہینہ ، «شهر التّمحيص». تمحیص یعنی خالص ہونا، یعنی وہ قیمتی دھات جو دوسری دھاتوں کے ساتھ مخلوط ہے جب اس کو بھٹی سے گزارا جاتا ہے – مثال کے طور پر سونے کو جب دیگر دھاتوں سے الگ کیا جاتا ہے- تو اس کو تمحیص کہتے ہیں یعنی انسان کی پاکیزہ ذات کو برائیوں ، ناپاکیوں اورکثافتوں سے جدا کرنا، یہ وہ خصوصیات ہیں جو اس مہینے کے بارے میں ذکر ہوئی ہیں۔
انسان کی نظر میں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ رمضان المبارک کا مہینہ سال کے مہینوں اور سال کے ایام میں ایسے ہی ہے جیسے روز و شب میں نماز کے اوقات ہیں، یعنی ہم جو مادی عوامل کے ذریعہ محدود اور محصور ہیں جس طرح اسلامی شریعت مقدس نے ہمارے لئے کچھ مواقع اور اوقات معین کئے ہیں یہ اوقات نماز کے اوقات ہیں- نماز صبح کا وقت، نمازظہر کا وقت، نماز عصر کا وقت ، نمازمغرب کا وقت، نمازعشاء کا وقت، یہ بیداراور ہوشیار رہنے کی ایک گھنٹیاں ہیں، خلوت میں ،تنہائی میں، دل و روح و جاں میں نورانیت پیدا کرنے کا موقع ہے؛ ہمارے لئے شب و روز میں نماز کی ساعات اورنماز کے اوقات کو قراردیا گيا ہے،یہ اس لئے ہے کہ ہم کہیں گمراہ اور منحرف نہ ہوجائیں؛ مادی دنیا سے کچھ لمحات کے لئے باہر آجائیں ، نفس تازہ کریں ،معنویت حاصل کریں مادیات میں ہی بالکل غرق نہ ہوجائیں – ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سال بھر میں رمضان المبارک کی اہمیت ایسی ہی ہے؛انسان کی ملکوتی روح اوربدن کے لئے تازہ سانس لینے کا یہ بہترین موقع ہے؛ بہترین فرصت ہے، تاکہ انسان اس ایک مہینے کی طولانی ریاضت کے ذریعہ مادی عوامل سے چھٹکارا حاصل کرسکے، نجات پا کرسکے، تازہ سانس لے سکے، اپنے اندر نورانیت پیدا کرسکے، شارع مقدس نے رمضان المبارک کو ان چیزوں کے لئے مخصوص قراردیا ہے لہذا یہ ایک اچھا ،غنیمت اور بہترین موقع ہے۔
جن خصوصیات کا ذکر کیا ہے البتہ وہ سب کی سب مہم ہیں۔ لیکن ان میں جو صفت میرے لئے سب سے زیادہ قابل توجہ ہے جو صفت ہمارے اور آپ کے لئے غور طلب ہے اس لئے کہ ہمارے اور آپ کے ہاتھ میں ملک کے امورکی زمام ہے میں اس صفت کو بیان کرتا ہوں یہ توبہ اور انابہ کا مہینہ ہے «شهر التّوبة و الانابه» توبہ کا مہینہ ہے انابہ کا مہینہ ہے، توبہ کا مطلب یہ ہے کہ کسی غلط راستے سے واپس لوٹ آنا، ایک غلط کام سے واپس پلٹ آنا، ایک غلط فکر کو ترک کردینا،انابہ یعنی اللہ کی طرف رجوع کرنا،اللہ کی طرفرجوع کرنا ، یہ توبہ اور انابہ قدرتی طور پر ایک ایسے معنی کو اپنے اندر لئے ہوئے ہیں جب ہم کہتے ہیں کہ غلط راستے سے واپس آجائیں تو اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم پہلےغلط نقطہ اور غلط راستے کو پہچان لیں ؛ یہ بہت اہم چیز ہے، ہم جو اسی طرح آگے کی جانب بڑھ رہے ہیں ، آگے کی سمت چل رہے ہیں تو ہم اکثر اپنی خطا ، اپنی غلطی ، اپنے گناہ اور اپنے عیب سے غافل ہوجاتے ہیں ہمارے کام میں جو غلطی اور جو اشکال پایا جاتا ہے ہم اس پر توجہ نہیں کرتے ہیں۔ انسان اپنے متعلق، اپنی جماعت کے متعلق،اپنی قوم کے متعلق، اپنی پارٹی کے متعلق، اپنے گروہ کے متعلق اور ہر وہ چیز جس کا خود انسان کے ساتھ تعلق اور رابطہ پیدا ہوتا ہے انسان اپنے سے متعلق افراد کے عیوب پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے غفلت سے کام لیا جاتا ہےاپنوں کے عیوب کو چھپایا جاتا ہے ؛ لہذا دوسروں کو چاہیے کہ وہ ہمارے عیب ہمیں بتائيں اگر ہم خود اپنے عیب سے آشنا ہوجاتے ، اپنے عیب سے واقف ہوجاتے اور اپنے عیب کی اصلاح کرتے، تو پھر دوسروں کو ہماری اصلاح کی ضرورت نہ ہوتی ؛ دوسروں کو ہمارے عیوب کے متعلق ہمیں بتانے کی ضرورت نہ ہوتی ، یہ جو توبہ اور انابہ کے بارے میں فرمایا ہے، یہ اس کا پہلا قدم ہے کہ ہم اپنے عیب پر توجہ مبذول کریں، ہم یہ جان لیں کہ ہمارے کام میں کہاں اشکال، غلطی اور خطا ہے؛ ہماری غلطی کہاں ہے، ہمارا گناہ کہاں ہے، اس کام کو ہمیں اپنے آپ سے شروع کرنا چاہیے اور اس کے بعد ہمیں جماعتی اور گروہی دائروں تک پہنچانا چاہیے،سب سے پہلے اپنے آپ کا محاسبہ کرنا چاہیے، خود کا محاسبہ کرنا چاہیے، ہمیں دیکھنا چاہیے کہ ہم نے کہاں اشتباہ کیا ہے؛ یہ سب کی ذمہ داری ہے، ہم جو معمولی اور ادنی انسان ہیں ہمارے کام میں غلطی ، خطا اور گناہ کا بہت زيادہ امکان ہے ہمیں استغفار کی سخت و اشد ضرورت ہے ، اسی طرح جو ممتاز اور برجستہ شخصیات ہیں جو اللہ تعالی کے صالح اور نیک بندے ہیں حتی جو اولیاء اللہ ہیں انھیں بھی اسی طرح استغفار کی ضرورت ہے وہ بھی استغفار کرتے ہیں ان کو بھی توبہ کی ضرورت ہے، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے ایک حدیث میں وارد ہوا ہے اس حدیث کو شیعوں نے بھی نقل کیا ہے اور سنیوں نے بھی نقل کیا ہے، آنحضرت (ص) سے منقول ہے کہ حضور(ص) نے فرمایا: «انّه ليغان على قلبى»؛ میرے دل پر غبار بیٹھتا ہے، بادل چھا جاتے ہیں، «يغان»، «غين» سے ہے اور اس کے معنی «غيم» ہیں؛ اور غیم بادل کو کہتے ہیں یعنی جس طرح بادل سورج کو چھپالیتے ہیں جس طرح بادل چاند پر چھا جاتے ہیں اور ان کی چمک اور تابندگی اور روشنی میں تیرگی پیدا کردیتے ہیں ان کی ضوفشانی میں مانع ہوجاتے ہیں ، فرمایا : «ليغان على قلبى» کبھی میرے دل پر بادل چھا جاتے ہیں کبھی میرے دل پر غبار چھا جاتا ہے، تو میں ہر روز ستر مرتبہ استغفار پڑھتا ہوں و انّى لأستغفر اللَّه كلّ يوم سبعين مرّة»؛ یہ جملہ پیغمبر اسلام (ص)جیسی عظیم اور پاک و پاکیزہ شخصیت کا ہے ایک دوسری روایت میں وارد ہوا ہے جس کا ذکر ہماری کتابوں میں ہوا ہے کہ «كان رسول اللَّه صلّى اللَّه عليه و اله يتوب الى اللَّه فى كلّ يوم سبعين مرّة» ۔ یہاں پرلفظ توبہ کی تعبیرآئی ہے ، حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام ) سے منقول ہے کہ پیغمبر اسلام (ص) بغیر گناہ کے «من غير ذنب»؛ہر روز ستر مرتبہ توبہ کرتے تھے پیغمبر اسلام (ص) بغیر گناہ کے توبہ کرتے تھے ، بہت خوب ، پیغمبر اسلام (ص) تو معصوم ہیں ، وہ کس چیزسے توبہ کرتے تھے؟ مرحوم فیض (رحمۃ اللہ علیہ) فرماتے ہیں : «انّ ذنوب الأنبياء و الأوصياء عليهم السّلام ليس كذنوبنا بل انّما هو ترك دوام الذّكر و الاشتغال بالمباحات». ممکن ہے نبی(ع) و ولی (ع) کی عام اور معمولی زندگي میں ، بازار میں ، گلی میں ایک لمحہ کے لئے کوئی غفلت پیش آجائے؛ وہ چیز جس کے لئے ہماری پوری زندگی صرف ہوتی ہے ممکن ہے نبی یا ولی کے لئے ایک لمحہ کے لئے پیش آجائے وہ ایک مباح کام میں مشغول اور سرگرم ہو جائے؛ خود کسی امر مباح میں مشغول ہونا پیغمبر(ص) کے لئے استغفار کا باعث بن جاتا ہے لہذا استغفار صرف ہم سے مخصوص نہیں ہے بلکہ استغفار سب کے لئے ہے ۔
خوب ، یہ استغفارحکومتی اہلکاروں کے لئے سب سےلازمی چیز ہے، یعنی ہمارے اور آپ کے ہاتھ میں ملک کے بعض امورکی زمام ہے یا ہمارا کسی خاص اجتماعی طبقہ میں اثر ونفوذ ہے، تو اللہ تعالی کی بارگاہ میں توبہ و انابہ اور استغفار کے سلسلے میں ہماری ذمہ داری بھی سب سے سنگين ہے؛ ہمیں بہت ہی محتاط اور ہوشیار رہنا چاہیے، کبھی میرے اور آپ کے زیر نظر ادارے اور مجموعہ میں کوئی خطا اور بد عنوانی رونما ہوتی ہے؛ اگر کسی صورت میں اس بد عنوانی کا سلسلہ ہم سے جڑا ہوا ہو تو ہم اس کے ذمہ دار ہیں ، مثال کے طور پر ہم نےکسی حکم کے ابلاغ میں غفلت سے کام لیا ، ہم نےکسی شخص کے انتخاب میں غفلت اور کوتاہی برتی ، ہم نے بد عنوانیوں کا مقابلہ کرنے میں غفلت کی، جس کی وجہ سے یہ بدعنوانی پیدا ہوئی ۔ «قوا انفسكم و اهليكم نارا وقودها النّاس و الحجارة».(2)
پس نتیجہ یہ نکلا کہ رمضان المبارک کے مہینے میں اپنی طاقت و توانائی کے مطابق محتاط اور مراقب رہنا چاہیے ہمیں اپنی رفتار کو درست کرنا چاہیے ، اپنی فکر کی اصلاح کرنی چاہیے، ہمیں اپنے قول اورعمل کو درست کرنا چاہیے؛ ہمیں اپنے اشکالات کو ڈھونڈھنا چاہیے اور اپنی غلطیوں کی تلاش کرنی چاہیے اور اپنے اشکالات اور غلطیوں کو برطرف کرنا چاہیے عمل اوررفتار کی اصلاح کس سمت میں ہونی چاہیے؟ عمل اور رفتار کی اصلاح تقوی کی سمت میں ہونی چاہیے، روزہ والی آیہ شریفہ میں ارشاد ہوتا ہے: «لعلّكم تتّقون»؛(3( روزہ کا مقصد تقوی ہے روزہ تقوی کے لئے ہے لہذا رمضان المبارک کے مہینے میں جو کوششیں انجام پاتی ہیں ان کا مقصد و ہدف اور سمت و سو تقوی ہے۔
تقوی کے سلسلے میں ایک جملہ میں نے یہاں یاداشت کیا ہے جسے بیان کرتا ہوں ، اکثر جب تقوی اور پرہیز گاری کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے تو انسان کے ذہن میں شرع مقدس کے ظواہر پر عمل، محرمات سے اجتناب، واجبات پر عمل کا تصور پیدا ہوتا ہے جو ہمارے پاس ہے،؛ ہم نماز پڑھیں، شرعی وجوہات ادا کریں ، روزہ رکھیں ، جھوٹ نہ بولیں ، البتہ یہ چیزیں مہم ہیں یہ سب چیزيں مہم ہیں ؛ لیکن تقوی کے دیگر پہلو بھی ہیں جن کے بارے میں ہم اکثر غفلت سے کام لیتے ہیں، دعائے مکارم الاخلاق میں دیگر پہلوؤں کی تشریح وتوضیح کے سلسلے میں ایک فقرہ موجود ہے ؛ «اللّهم صلّ على محمّد و اله و حلّنى بحلية الصّالحين و البسنى زينة المتّقين»؛(4( انسان پروردگار سے درخواست کرتا ہے کہ پروردگارا ! مجھے صالحین کے زیور سے آراستہ فرما، اور مجھے پرہیزگاروں کا لباس مرحمت فرما، اچھا، یہ پرہیزگاروں کا لباس کیا ہے؟ اس کی یہ تشریح اس وقت قابل توجہ ہے: «فى بسط العدل»؛ عدل و انصاف کو فروغ دینا پرہیزگاروں کا لباس ہے، «و كظم الغيظ»؛ غیظ و غضب کو پی جانا پرہیزگاری ہے، «و اطفاء النّائرة»؛ نفرت و فتنہ و فساد کی آگ کو بجھانا تقوی ہے ، وہ آک جو سماج و معاشرے میں پھیلائی جاتی ہے۔ یہ امور تقوی ہیں،«و ضمّ اهل الفرقة»؛ وہ لوگ جو آپ کےقریبی ہیں ، آپ کے رشتہ دار ہیں ، کسی وجہ سے ناراض ہوگئے ہیں الگ ہوگئے ہیں ، کسی امر کی بنا پر جدا ہوگئے ہیں ان کو اپنے قریب کرنے کی کوشش کیجئے ان کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کیجئے،یہ سعی و کوشش تقوی کے موارد میں شامل ہے، صحیفہ سجادیہ کی بیسویں دعا، دعامکارم الاخلاق میں اس کی طرف اشارہ ہوا ہے، یہ دعا بہت ہی اہم دعا ہے، میرا اس بات پر عقیدہ ہے کہ یہ دعا سب کو پڑھنی چاہیے بالخصوص حکومتی اہلکاروں کو چاہیے کہ وہ اس کو ضرور پڑھیں اور اس کے معانی اور مطالب میں دقت اور غور و خوض کریں ؛ اس کے مطالب سبق آموز ہیں ،«و اصلاح ذات البين»؛ آگ پھیلانے کے بجائے ، فتنہ برپا کرنے کے بجائے، چغلی کرنے کے بجائے ، ایکدوسرے کو آپس میں لڑانے کے بجائے، ایکدوسرے میں اختلاف ڈالنے کے بجائے ان میں صلح اور محبت پیدا کریں ، مسلمان بھائیوں کے درمیان ، اخوت اور اتحاد اور برادری کی فضاقائم کریں ؛ان امور کو انجام دینا تقوی ہے۔
توجہ فرمائیں ، یہ تمام مسائل آج ہمیں درپیش ہیں،عدل و انصاف کو فروغ دینا، قضاوت اور عدالتی فیصلوں میں عدل و انصاف، اقتصادی امور میں عدل و انصاف، ملازمت کے سلسلے میں عدل و انصاف، افراد کے انتخاب میں عدل و انصاف،ملک کے وسائل اور کارو باری مواقع کی تقسیم میں عدل و انصاف، جغرافیائی عدالت، یہ مسائل بہت ہی اہم مسائل ہیں؛ یہ تمام امور ہماری ضروریات میں شامل ہیں عدل و انصاف کو فروغ دینا تقوی کا سب سے اعلی ترین درجہ ہے؛ یہ امر ایک اچھی نماز اور شدید گرمی میں روزہ رکھنے سے کہیں زیادہ اہم ہے ۔ روایت میں وارد ہوا ہےکہ : ہر امیر یعنی آپ حضرات؛ جن کے پاس ایک ادارہ ہے جس پر امیر وحاکم کا حکم چلتا ہے جس پر اس کا حکم نافذ ہے اگر ایک دن عدل و انصاف پر مبنی حکم صادر کرے تو اس کا یہ عمل ستر سال کی عبادت کے برابر ہے؛یہ مسائل بہت ہی اہم مسائل ہیں ؛ جو ہمیں عدالت اور عدل و انصاف پر مبنی رفتار کی اہمیت کا پتہ بتاتے ہیں۔
دوستوں کے سامنے غصہ پر کنٹرول کرنا ، غصہ پی جانا، یہاں بحث دوستوں کے متعلق ہے۔ البتہ دشمنوں کے مقابلے میں غیظ و غضب رکھنا چاہیے؛ «و يذهب غيظ قلوبهم».(5( وہ دشمن اور عدو جو آپ کے تشخص کے خلاف ہے جو آپ کی موجودیت کے خلاف ہے، اس کے سامنے غصہ اور غیظ وغضب ایک مقدس امر بن جائے گا؛ اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ مؤمنین کے ساتھ اورجن افراد کے ساتھ ہمیں اسلامی رفتار رکھنے کے لئے حکم دیا گيا ہے ، ان کے ساتھ ہمیں ، غصہ اور غیظ و غضب سے اجتناب کرنا چاہیے، غصہ انسان کو نقصان پہنچاتا ہے، غصہ کی حالت میں فیصلہ مضر اور نقصان دہ ہے، غصہ کی حالت میں کام کرنا مضرہے اس حالت میں اکثر انسان سے غلطی اور اشتباہ ہوجاتا ہے؛ یہ وہ چیز ہے جس میں ہم اکثر مبتلا رہتے ہیں ، غصہ پر کنٹرول ضروری ہے ایسا غصہ جو انسان کو منحرف کردیتا ہے جو انسان کی فکر و عمل میں غلطی اور خطا کا سبب بنتا ہے غصہ پر کنٹرول تقوی کے موارد میں شامل ہے؛ «و كظم الغيظ» ۔
دوسرا کام «اطفاء النّائرة»۔ بعض افراد حزبی اور سیاسی آگ پھیلاتے ہیں بعض لوگ گویا اس کام پر مامور ہیں میں دیکھتا ہوں کہ بعض عناصر ایسے ہیں جو ملک کے اندر ، ہمارے درمیان ، مختلف پارٹیوں کے درمیان ، مختلف افراد کے درمیان اختلاف کی آگ پھیلانا چاہتے ہیں لوگوں کو ایکدوسرے کے خلاف اکساتے ہیں ان میں اختلافات پیدا کرتے ہیں گویا آگ پھیلانے سے، آتش بھڑکانے سے انھیں خوشی اور مسرت محسوس ہوتی ہے؛ یہ امر تقوی کے خلاف ہے دوسروں کے درمیان اختلاف پیدا کرنا تقوی کے منافی ہے، تقوی یہ ہےکہ: «اطفاء النّائرة» ۔جیسا کہ آپ ایک مادی فضا اور مادی ماحول میں آگ بھجاتے ہیں، تو آپ کو معنوی ماحول اور معنوی فضا میں بھی آگ بجھانا چاہیے آتش خاموش کرنی چاہیے۔ اور اسی طرح دوستوں اور قریبی لوگوں کے ساتھ میل ملاپ کی فضا پر توجہ دینی چاہیے : «و ضمّ اهل الفرقة»۔
ہم نے عرض کیا کہ ہمارا ہدف یہ ہے کہ ہم زیادہ سے زیادہ اور حد اکثر افراد کو جذب کریں اور اپنے ساتھ ملائیں اور کم سے کم افراد کو دور کریں لیکن اس کا معیار انقلاب اسلامی کے اصول اور اقدار ہیں، تمام انسان ایمان کے لحاظ سے مساوی نہیں ہیں ، ایک جیسے نہیں ہیں، ہمارے درمیان کچھ لوگ ضعیف الایمان اور کمزور ایمان والے بھی ہیں کچھ لوگ بہت قوی اور مضبوط ایمان والے ہیں ، ہمیں راستہ نکالنا چاہیے، کمزور ایمان والوں کو دور نہیں کیا جاسکتا، صرف قوی ایمان والے لوگوں کو مد نظر نہیں رکھا جاسکتا؛ نہیں، کمزور ایمان والوں کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے، وہ لوگ جو قوی ایمان والے ہیں انھیں کمزور ایمان والوں پر نظر رکھنی چاہیے، ان کا لحاظ رکھنا چاہیے ان کو مد نظر رکھنا چاہیے ان کو اپنے سے دور نہیں کرنا چاہیے، وہ لوگ جو اپنے مجموعہ کا حصہ ہیں لیکن بعض غلطیوں کی بنا پر ، بعض خطاؤں کی بنا پر یا غفلتوں کی بنا پر دور ہوگئے ہیں، الگ ہوگئے ہیں ان کو قریب لانا چاہیے ، ان کو ساتھ ملانا چاہیے؛ ان کو نصیحت کرنی چآہیے ، ان کو راستہ دکھانا چاہیے ، ان کو واپس لانا چاہیے ، یہ بنیادی اور اساسی مسائل ہیں۔
پس یہ امور تقوی میں شامل ہیں، یہ توبہ اور انابہ کی راہیں ہیں؛ «شهر التّوبه» ۔ «شهر الانابه» یہ توبہ اور انابہ کا مہینہ ہے۔ لیکن قابل توجہ امر یہ ہے کہ روزہ اور یہ مہینہ ایک اجتماعی عمل ہے؛ ایک شخصی اور فردی عمل نہیں ہے۔ یعنی ہم سب روزہ دار ہیں ہم سب اس مہینہ میں وارد ہیں ہم سب اس دسترخوان پر بیٹھے ہیں ؛ تمام افراد روزے سے ہیں ، پورے اسلامی معاشرے میں روزہ ہے اور پوری امت اسلامیہ روزہ دار ہے۔ جب ہم کتاب اور سنت کی اہم سفارشوں اور نصیحتوں پرعمل کرنا چاہتے ہیں اگر ہم ان سب کو اپنا مخاطب قراردیں ، تو پھر آپ ملاحظہ کریں گےکہ عالم اسلام میں کیسے حالات تبدیل ہوتے ہیں کیا واقعات رونما ہوتے ہیں ملک کے محدود دائرے میں کیسے حالات پیدا ہوتے ہیں۔ اس مہینہ کی قدر کرنی چاہیے ، اور قدر کرنے کا مطلب بھی یہی ہے کہ ہمیں اس مہینہ میں حقیقت میں توبہ اور انابہ کرنی چاہیے ہمیں اس مہینے کو تطہیر اور پاکیزگی کا مہینہ قراردینا چاہیے،ہمیں اس مہینے میں توبہ اور انابہ کی جانب حرکت کرنی چاہیے۔اس جلسہ میں ہماری اصل بات یہی تھی جو ہم نے آپ کے سامنے پیش کی۔
ملک کے موجود حالات و شرائط کے بارے میں محترم صدر جمہوریہ نے اچھی، طویل اور مفصل رپورٹ پیش کی ہے، اگر ہم ملک کے موجودہ حالات و شرائط کا صحیح تجزیہ و تحلیل کرنا چاہیں ، اور اس تجزیہ و تحلیل میں کسی غلطی اور اشتباہ کا ارتکاب نہ کریں، تو ہمیں یہاں سے شروع کرنا چاہیے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور کچھ طاقتوں کے درمیان ایک پرانی محاذ آرائی موجود ہے، اوراس عداوت و دشمنی اور محاذ آرائی کو اکتیس ، بتیس برس گذرچکے ہیں، یہ محاذ آرائی اور دشمنی کوئی نئی دشمنی نہیں ہے، البتہ ہمارے مخالف محاذ میں بعض تبدیلیاں بھی رونما ہوئی ہیں لیکن ہمارے مؤقف میں کسی قسم کا کوئی فرق نہیں پڑا اور نہ ہی کوئی تبدیلی رونما ہوئی ہے،ہماری بات وہی بات ہے ، ہمارے اصول وہی اصول ہیں ، ہمارا راستہ وہی راستہ ہے، ہم ایک راہ و روش اور اصول پر سرعت کے ساتھ گامزن ہیں اور آگے کی طرف بڑھ رہے ہیں ، ہم نے اپنے اہداف و مقاصد کو بھی مشخص اور واضح کردیا ہے، یہ اہداف امام (رہ) کی فرمائشات اور انقلاب کے مراحل میں مشخص اور واضح رہے ہیں ، ہم اپنی قدرت اور توانائی کے مطابق آگے بڑھ رہے ہیں ، لیکن ہمارے مخالف محاذ میں فرق پڑا ہے ان میں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں ، ان میں کمی و بیشی ہوئی ہے؛ دشمن محاذ میں بہت سے لوگ تھے ، اب نہیں ہیں، ان کے ساتھ کچھ لوگ نہیں تھے، اب ان کے ساتھ شامل ہوگئے ہیں۔ آج اس محاذ آرائی میں دو چیزیں صاف اور واضح نظر آتی ہیں: پہلی بات یہ ہےکہ ہمارے مد مقابل محاذ میں پہلے کی نسبت بہت زيادہ کمزوری پیدا ہوگئی ہے؛ یعنی ہمارے مخالف محاذ کی حرکت کند اور ضعیف ہوگئی ہے؛ دشمن کی حرکت میں نمایاں کمزوری پیدا ہوگئی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے محاذ میں قدرت و طاقت پیدا ہوگئی ہے ہمارا محاذ قوت کی سمت گامزن ہے؛ یعنی ہماری حرکت قوت و قدرت کی سمت رہی ہے اور یہ دونوں باتیں ایسی ہیں جو قابل استدلال ہیں ؛ اور جو حقائق پر مبنی ہیں یہ کھوکھلی باتیں نہیں ہیں ۔
مخالف محاذ کے بارے میں ایک مختصر جملہ میں یہاں بیان کرتا چلوں ، مد مقابل محاذ سے مراد کیا ہے؟ اس محاذ نے اپنے پروپیگنڈہ اور تبلیغات میں اپنا نام عالمی برادری رکھا ہواہے اور یہ بہت بڑا جھوٹ ہے؛ وہ کسی صورت میں عالمی برادری نہیں ہے اور نہ ہی بن سکتاہے ؛ وہ محاذ گنے چنے چند ممالک کا محاذ ہے اورہمارے ساتھ دشمنی اور عداوت کا اصلی سبب بھی اسرائیلی اور امریکی حکومتیں ہیں؛ باقی ممالک یا سیاسی لحاظ سے ان کے تابع ہیں یا ان کے مد مقابل ہیں یا بہت ہی کمزور ہیں اور ان کے ہاتھ میں کچھ نہیں اور ان سے کچھ نہیں بن سکتا،بہت سارے ممالک ان دو اصلی عناصر پر اکٹھا نہیں ہیں ؛ نہ آج ہیں نہ ماضی میں تھے، دعوؤں کو چھوڑیئے ، حقائق یہی ہیں جو میں نے عرض کئے ہیں۔
خوب، ہم ان دو حکومتوں یعنی امریکہ و اسرائیل کو اس محاذ بندی میں مخالف محاذ کا اصلی محور قراردینے کا ملاک اور معیار کیا سمجھتے ہیں؟ یہ مخالفت کیا ہے؟ دیکھئے مخالفت کی دو قسمیں ہیں: بنیادی مخالفتیں اور سطحی اور معمولی مخالفتیں، سطحی اور معمولی مخالفتیں جیسے زمینی مخالفتیں، تجارتی مسائل میں اختلاف کی بنا پر ہونے والی مخالفتیں ، دو ممالک کے درمیان بعض پالیسیوں میں مخالفت ، یہ سطحی مخالفتیں ہیں ، لیکن بنیادی مخالفت ، موجودیت کے ساتھ مخالفت ہے کسی کے وجود کی مخالفت، دو ممالک جو ایک دوسرے کے وجود کے مخالف ہیں اسرائيل کے ساتھ ہماری مخالفت اس قسم کی مخالفت ہے، ہم اسرائيل کے وجود کو تسلیم نہیں کرتے ہیں ؛ ہمارا اعتقاد اور نظریہ یہ ہے کہ اسرائیلی حکومت ایک جعلی حکومت ہےجو طاقت کے زور پر علاقہ میں قائم کی گئی ہے، اسرائيلی حکومت مشرق وسطی میں ایک بدنما داغ ہے اور علاقہ سے یہ بدنما داغ یقینی طور پر ختم ہوجائے گا؛ یعنی اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ اسرائیل کا وجود باقی نہیں رہے گا ، بہر حال ہم اسرائيل کی موجودگی اور اس کے تشخص کے مخالف ہیں اور اسرائیل بھی اسلامی نظام کے وجود کا مخالف ہے۔ وہ ایران کو اس صورت میں دوست رکھتے ہیں جب ایران ایک طاغوتی طاقت کے ہاتھ میں ہو؛ وہ اسلامی نظام کے سخت مخالف ہیں لہذا بنیادی مخالفت یہی ہے۔
امریکہ کے متعلق: امریکہ کی مخالفت بھی اسلامی نظام کے وجود سے ہے؛ امریکہ بھی اسلامی نظام کا مخالف ہے اور اس امر کو ہم نے طویل مدت میں اچھی طرح سمجھ لیا ہے البتہ وہ خود اس بات کے قائل نہیں ہیں وہ رفتار میں تبدیلی کا کہتے ہیں اگر چہ وہ اس پر ہمیشہ اصرار نہیں کرتے ہیں لیکن رفتار میں تبدیلی کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ وہ اسلامی تشخص کے خلاف ہیں، یعنی وہ ان اعمال و رفتار کے خلاف ہیں جو اسلامی ہونے کے اصلی معیار ہیں، اور وہ ان میں تبدیلی چاہتے ہیں ، ہمارا نظریہ بھی امریکہ کے بارے میں ایسا ہی ہے ہم بھی امریکہ کی استکباری خصلت کے مخالف ہیں ؛ ورنہ امریکہ بھی ایک ملک ہے جو دوسری حکومتوں کی طرح ہے؛ ہم امریکہ کی استکباری خصلت ، تسلط پسندی ، منہ زوری اور اس کی چودھراہٹ کو قبول نہیں کرتے ہیں ہم اس کی ان نا پسندیدہ خصلتوں کے مخالف ہیں؛ لہذا یہ مخالفت اساسی اور بنیادی مخالفت ہے،یہ بنیادی مخالفت بھی کبھی فعال اور کبھی غیر فعال ہوتی ہے ۔ ممکن ہے یہ بنیادی مخالفت بعض دیگر ممالک میں بھی پائی جاتی ہو ہمارے اور ان کے درمیان یہ مخالفت موجود ہو؛ لیکن یہ مخالفت فعال مخالفت نہیں ہے؛ بعض وجوہات کی بنا پر غیر فعال ہے ان کے پاس اس کے دلائل ہیں ، ممکن ہے ہمارے پاس بھی دلائل موجودہوں لیکن امریکہ اور اسرائیل کی مخالفت فعال مخالفت ہے، لہذا یہ محاذ ہمارے مخالف محاذ ہے، اور اس محاذ میں اس وقت ضعف و کمزوری پیدا ہوگئی ہے یہ محاذ اس وقت روبزوال ہے یعنی اگر ہم گذشتہ تیس برسوں میں اس کی حالت کا آج موازنہ کریں اگر ہم اس کی سیاسی حالت کا، اس کی اقتصادی حالت کا، اس کی سماجی حالت کا، دنیا میں اس کی موجودگی اور نفوذ کا موازنہ کریں تو ہمیں معلوم ہوجائے گا کہ ہمارے مخالف محاذ میں ضعف اور کمزوری پیدا ہوگئی ہے اور ہمارا مخالف محاذ زوال کی جانب گامزن ہے اس سلسلے میں کچھ موارد میں یہاں پیش کرتا ہوں :
ہمارے مخالف محاذ کو دنیا میں عوامی حمایت بالکل حاصل نہیں ہے اور وہ دنیا میں عوامی حمایت سے مکمل طور پرمحروم ہوگيا ہے۔ یعنی آپ دنیا میں کسی بھی ملک کے عوام کو امریکہ اور اسرائیل کا حامی و طرفدارنہیں پائیں گے، امریکہ اور اسرائیل کو دنیا میں عوامی حمایت حاصل نہیں ہے؛ حتی ان ممالک میں بھی ان کو عوامی حمایت حاصل نہیں ہے جہاں حکومتیں ان کی طرفدار ہیں، وہاں کے لوگ ان کے مخالف ہیں؛ ان میں بہت سے غیر مسلمان بھی شامل ہیں آپ نے آج ہی خبروں میں ملاحظہ کیا ہوگا کہ اسرائیل کے صدر نے ایک یورپی ملک کا دورہ کیا جہاں اس کے خلاف اس ملک کے ہزاروں لوگوں نے زبردست مظاہرہ کیا جیسا کہ خبروں میں تھا اس ملک کے عوام نےاس سے کہا کہ ہمارے ملک سے نکل جاؤ ، ہمارے ملک سے چلے جاؤ! ہر جگہ ان کے ساتھ ایسا ہی ہے جہاں وہ جاتے ہیں وہاں کے عوام انھیں ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے ہیں ، نفرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں لہذا انھیں دنیا میں عوامی حمایت حاصل نہیں ہے، اسرائيل کی تو یہ حالت ہے ہی، لیکن امریکی حکام بھی اپنی طاقت و قدرت اور اپنے تمام سیاسی اثر و نفوذ کے باوجود جہاں جاتے ہیں انھیں بھی اسرائیل جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے دنیا میں لوگ امریکیوں کو بھی نفرت کی نظر سے دیکھتے ہیں صرف یہی نہیں ، بلکہ ہمارے مخالف محاذ کو دنیا میں عوامی نفرتوں کا سامنا ہے صرف یہی نہیں کہ ان کا کوئی طرفدار نہیں بلکہ لوگ ان سے متنفر بھی ہیں: ان کے پرچم کو نذر آتش کرتے ہیں ، ان کے فوٹو جلاتے ہیں، ان کے پتلے بنا کر پاؤں تلے روندھتے ہیں ان کی دنیا میں آج یہ حالت ہے۔
ان کی حالیہ فوجی کارروائی بھی ان کے لئے تلخ اور ناگوار تجربہ بن گئی ہے۔ افغانستان میں امریکہ کو تلخ اور سخت تجربہ ہوا ہے، عراق میں امریکہ کو ناگوار اور تلخ تجربہ ہوا ہے، انھیں شکست وناکامی ہوئی ہے ، امریکہ کوشکست کا سامنا ہے،۔ فلسطین کے بارے میں تمام امریکی کوششیں اب تک ناکام ہوئی ہیں ، امریکہ کو ہر جگہ ناکامی اور شکست کا سامنا ہے صہیونیوں کے بارے میں نفرت اور 33 روزہ جنگ اور غزہ پر حملے میں ان کی شکست سب کے لئے واضح اور آشکار ہے۔
ہمارے مد مقابل اور دشمن محاذ کی اقتصادی حالت بھی بہت بری اور سخت بحران کا شکار ہے ، اس سلسلے میں انھوں نے بہت کوشش و جد وجہد کی ہے لیکن ابھی تک وہ سنگین اقتصادی بحران سے نکل نہیں پائے ہیں البتہ کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں کچھ پیشرفت ہوئی ہے ، لیکن نہیں ، ابھی تک انھوں نے اس سلسلے میں کوئی صحیح قدم نہیں اٹھایا ہے؛ ابھی بھی ان پر اقتصادی دباؤ باقی ہے اس سلسلےمیں انھوں نے جو کام کیا ہے وہ یہ ہے کہ بڑی مقدار میں رقم مالی اداروں کے حوالے کی ہے لیکن اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے اقتصادی بحران کا سلسلہ اسی طرح جاری و ساری ہے۔
وہ فلسطین، شام اور لبنان میں بھی اپنی پالیسیوں میں ناکام ہوگئے ہیں انھوں نے اس سلسلے میں سنگین غلطیوں اور اشتباہات کا ارتکاب کیا ہے جس کی وجہ سے فیصلہ کرنے سے بھی عاجز ہوگئے ہیں؛ وہ اضطراب ،حیرت اور پریشانی کی حالت میں ہیں۔ آج امریکیوں کو کچھ معلوم نہیں کہ انھیں افغانستان میں کیا کرنا چاہیے اور وہ آئندہ کیا کریں گے، ان کے درمیان اس وقت اختلاف پایا جاتا ہے وہ اس سلسلے میں مطمئن نہیں ہیں کہ انھیں کیا فیصلہ کرنا چاہیے جو ان کے مفاد میں ہو، اگر وہ افغانستان سے انخلاء کے لئے کوئی قدم اٹھائیں تو وہ بھی ان کے لئے بدنامی ، بدبختی اور ذلت کا باعث ہے اور اگر وہ افغانستان میں موجود رہیں تو وہ بھی ان کے لئے شکست اور ناکامی کا سبب ہے اور یہی صورت حال انھیں کم وبیش عراق میں بھی درپیش ہے؛ انھیں نہیں معلوم کہ انھیں کیا کرنا چاہیے، مداخلت بھی کرتے ہیں ، فعالیت بھی کرتے ہیں پھر بھی کسی نتیجے تک نہیں پہنچ پاتے، انھیں ماضی کی نسبت اپنی ذمہ داری پر اعتماد کم ہوگیا ہے، آج کے امریکہ کو انقلاب کے اوائل اور ریگن دور سے موازنہ کیجئے، امریکہ میں وہ خود اعتمادی جو اس دور میں تھی وہ اب نہیں ہے و ہ قدرت جو اس دور میں امریکہ کے پاس تھی وہ آج نہیں ہے وہ اثر و نفوذ جو اس دور میں امریکہ کو حاصل تھا وہ آج نہیں ہے لہذا ہمارا دشمن آج زوال کی جانب بڑھ رہا ہے اوراس کا مؤقف ہر روز کمزور ہوتا جارہا ہے۔
دوسری جانب حالات اس کے بالکل بر عکس ہیں، اسلامی جمہوریہ ایران بلندی کی جانب گامزن ہے، منحنی طور پراونچائی کی سمت بڑھ رہا ہے؛تمام شعبوں میں یہی حالت برقرار ہے، پشرفت و ترقی کے لحاظ سے ہم اس وقت بہت ہی اچھی اور مناسب حالت میں ہیں،میں نے کچھ عرصہ قبل ایک جلسہ میں کچھ اعداد و شمار نقل کئے ہیں البتہ یہ اعداد و شمار مغربی ممالک کے ہیں، میں نے کہا کہ ایرانی عوام کی پیشرفت و ترقی عالمی تناسب سے گيارہ برابر ہے اور یہ چیز بہت ہی اہم ہے؛ یہ چیز بہت ہی مہم ہے، البتہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم پیشرفت و ترقی کے لحاظ سے دنیا کے پیشرفتہ اور ترقی یافتہ ممالک کی سطح تک پہنچ گئے ہیں؛ نہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم تیزی کے ساتھ آگے کی سمت گامزن ہیں؛ یہ خبر ایک قوم کے لئے بہت ہی اچھی اور مسرت بخش خبر ہے، اگر اس حرکت و پیشرفت کا سلسلہ اسی طرح جاری رہےگا تو تھوڑے ہی عرصہ میں ہماری قوم اور ہمارے جوان اس مقام تک پہنچ جائیں گے جہاں انھیں پہنچنا چاہیے، علم و سائنس کے میدان میں ایسا ہی ہے، ٹیکنالوجی کے شعبہ میں بھی یہی حال ہے، ملک کی تعمیر و ترقی کے شعبہ میں یہی سلسلہ جاری ہے، محترم صدر جمہوریہ نے ابھی کچھ اعداد و شمار پیش کئے ہیں؛ یہ اعداد و شمار درست اور صحیح ہیں،تعمیرات کے شعبہ میں، صنعت و معدن کے شعبہ میں، انرجی کے شعبہ میں ، روڈ اور ٹرانسپورٹ کے شعبہ میں ، ملک کے مختلف اور گوناں گوں شعبوں میں بہت ہی عمدہ اور نمایاں کام انجام دیئے جارہے ہیں، گذشتہ تیس برسوں کی نسبت ، حتی گذشتہ بیس سالوں کی نسبت آج ہم نے کافی ترقی اور پیشرفت حاصل کی ہے، لیکن یہ ترقیات صرف مادی شعبوں میں نہیں ہیں؛ سماجی ، اجتماعی اور معنوی شعبوں میں بھی نمایاں کام انجام دیئے گئے ہیں، آج ہمارا جذبہ بہت بلند و بالا ہے،ہمارے ملک میں جذبہ بہت اعلی ہے، ہمارے جوان پختہ عزم کے مالک ہیں، سیاسی میدان، جوش و ولولہ اور نشاط سے سرشار ہے، جب انتحابات ہوتے ہیں چالیس ملین افراد شرکت کرتے ہیں ، پچيس ملین انتخاب کرتے ہیں؛ یہ چیزيں بہت اہم ہیں یہ حالات بہت مہم ہیں، جی ہاں ، انتخابات کے بعد کچھ تلخ واقعات بھی رونما ہوئے؛ عوامل کے لحاظ سے ان واقعات میں سے ہر ایک کے پيجھے ایک عامل کارفرما ہے؛ لیکن اصل میں عوام کی اتنے وسیع پیمانے پر انتخابات میں شرکت بہت بڑا کام ہے، بہت بڑی اور اہم پیشرفت ہے،ہمارے مخالفین کی یہ توقع تھی کہ انقلاب کے تیس برس میں ملک میں تقریبا تیس انتخابات ہوئے ہیں اور انتخابات میں اب لوگوں کی دلچسپی ختم ہوگئی ہے انتخابات کے سلسلے میں لوگوں کا جوش و ولولہ ختم ہوگیا ہے؛ لیکن لوگوں نے دشمن کی توقع کے برعکس عمل کیا انتخابات کو سنجیدگی کے ساتھ لیا؛ یہ حرکت ایک عمومی حرکت تھی ؛ جو ملک کی پیشرفت کا آئینہ دار ہے۔
دیگر ممالک کے درمیان اسلامی جمہوری نظام کا نقش و کردار بے نظیر و بے مثال ہے،آج ہمارے حکام جس ملک کا بھی دورہ کرتے ہیں وہاں کے لوگ ان کا والہانہ جذبات کے ساتھ اور جوش و خروش کے ساتھ استقبال کرتے ہیں، ایسا کسی دوسرے ملک کے ساتھ ہرگز نہیں ہے، یہ امر صرف اس دورسےہی مخصوص نہیں ہے بلکہ انقلاب اسلامی کے اوائل سے ہی ایسا رہا ہے، ایرانی حکام نے جس ملک کا بھی دورہ کیا ہے ایرانی صدور کا وہاں کے لوگوں نے زبردست اور والہانہ استقبال کیا ہے ان لوگوں کا تعلق ایسے ممالک سے ہے جن سے ہمارا نہ کوئی مذہبی رابطہ ہے اور نہ ہی علاقائی یا جغرافیائی رابطہ ہے ایرانی صدور کے ساتھ وہ اپنے پاک احساسات و جذبات کا اظہار کرتے ہیں، اسلامی جمہوری نظام کی عوامی پشتپناہی میں اگر پہلے کی نسبت اضافہ نہ ہوا ہو تو کمی بھی نہیں ہوئی ہے۔
مستقبل اور آئندہ کے بارے میں ہم پر امید ہیں یہ تعمیراتی کام جو ہم آج انجام دے رہے ہیں ان کی امید نہیں رکھتے تھے کہ یہ اتنے جلدی انجام پاجائیں گے اللہ تعالی نے لطف و کرم کیا کہ آج ہمارے جوان سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبہ میں ایسےکام انجام دیتے ہیں اگر گجھ لوگ آج سے پندرہ سال پہلے، بیس سال پہلے، پچیس سال پہلے ان کو انجام دینے کے لئے فکر کرنا چاہتے تو یہ کام ان کے لئے بعید تھا لیکن یہ کام ہوگيا، یہ امید ہمیں آئندہ کے لئے مزید حوصلہ مند بناتی ہے ہماری امیدیں سرشار ہیں۔
ہمارے سیاسی تجربات کامیاب تجربات ہیں، ہمارے تجربات مد مقابل محاذ کے برعکس ہیں، مقابل محاذ کے تجربات مشرق وسطی میں شکست و ناکامی سے دوچار ہوئے، عراق میں انھیں شکست کا سامنا ہے، افغانستان میں ان کے تجربات ناکام ہوئے، لیکن ہم جہاں بھی وارد ہوئے ہیں ہمارے تجربات کامیاب رہے ہیں ، یہی مذکورہ جگہیں جن کا میں نے ذکر کیا ہے جہاں تک جمہوری اسلامی ان میں وارد ہوئی ہے، وہاں تک اس نے اپنی ذمہ داری پر عمل کیا ہے جمہوری اسلامی نے اگر کوئی مؤقف اختیار کیا ہے ، کوئی اقدام انجام دیاہے ، اس میں اسے کامیابی حاصل ہوئی ہے؛ اس بات کا سبھی اعتراف کرتے ہیں، ہمارے حریف بھی اس بات سے کافی ناراض اورناراحت ہیں۔
ہماری ایک سب سے بڑی کامیابی یہ ہے کہ ہمارے دشمن آج عالمی نفرت اور لعنت کے حصار میں پھنسے ہوئے ہیں؛ یہ ہماری کامیابی کا حصہ ہے لہذا یہ دو چیزيں آشکارا ہیں یعنی ہمارے دشمن اور ہمارے حریف نشیب اور زوال کی جانب بڑھ رہے ہیں اور ہم اونچائی اور بلندی کی جانب گامزن ہیں، اگر آپ اس طرح موازنہ کریں گے اور ملک کے تمام حالات کو اس زاویہ نگاہ سے دیکھیں گے تو آپ صحیح اور درست تجزيہ پیش کرسکیں گے۔
خوب، جسطرح ہم اس محاذ بندی کے سلسلے میں غور وفکر کرتے ہیں ، تجزیہ و تحلیل کرتے ہیں، تدبیر کرتے ہیں منصوبہ بندی اور پروگرام مرتب کرتے ہیں؛ دشمن بھی ہمارے بارے میں بالکل اسی طرح غور وفکر کرتا اورسوچتا ہے، وہ بھی اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں پروگرام مرتب کرتا ہے پالیسی مرتب کرتا ہے کہ اسلامی جمہوری نظام کے ساتھ اسے کیا سلوک کرنا چاہیے ، اسلامی نظام کو چوٹ پہنچانے کے لئے وہ بھی منصوبہ بناتا ہے دشمن ہمارا مقابلہ کرنے کے لئے حملہ اور دفاعی دونوں طریقوں سے استفادہ کرتا ہے، دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے ہمارے پاس بھی کچھ پالیسیاں اور کچھ پروگرام ہیں، ہم سب کو ان کے بارے میں غور فکر کرنا چاہیے ہم سب کو عمل کے میدان میں آگے بڑھنا چاہیے؛ جیسا کہ بحمداللہ آج تک ایسا ہی ہوا ہے۔
دشمن کے بعض منصوبوں اور سازشوں کے بارے میں مختصر طور پرمیں کچھ اشارے کرنا چاہتا ہوں ، دشمن کے منصوبے یہ ہیں : اقتصادی دباؤ، فوجی کارروائی کی دھمکی، عام افکار پر اثر انداز ہونے کے لئے ملک کے اندر اور عالمی سطح پر نفسیاتی جنگ؛ یہ وہ امور ہیں جن کو وہ انجام دے رہا ہے، ملک کے اندر سیاسی عدم استحکام ، سیاسی گڑبڑی، سیاسی خلل اور تخریب کاری، بیشک ملک کے اندر ایسے مراکز ہیں جو دشمن کے لئے کام کررہے ہیں جو دشمن کی ہدایت پر چل رہے ہیں ، جو دشمن کے حکم کے تابع ہیں جو دشمن کے ساتھ ہم آہنگ ہیں،یہ مراکز بعض امور میں مشغول ہیں؛ «انّ الشّياطين ليوحون الى اوليائهم ليجادلوكم».(6( بیشک ایسے مراکز موجود ہیں، ان تمام سازشوں اور کاموں کے بعد بھی امریکی مذاکرات کی بات بھی کرتے ہیں ! اب یکطرفہ اقتصادی پابندیاں بھی لگ گئی ہیں، قرارداد بھی منظور ہوگئی ہے، فوجی کارروائی کی دھمکی بھی موجود ہے، لیکن ان کے ساتھ مذاکرات کی بات بھی موجود ہے، اس بات کی لگاتار تکرار کررہے ہیں کہ ہم ایران کے ساتھ مذاکرات کے لئے تیار ہیں! ہمارے مد مقابل محاذ کی یہ حکمت عملی ہے ہمارے دشمن کی یہ تدبیریں ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی نئی حکمت عملی اورنئی تدبیر نہیں ہے اور اس نکتہ پر خصوصی توجہ رکھنی چاہیے کہ دشمن کی تبدبیروں میں سے کوئی بھی تدبیر نئی نہیں ہے جو پہلے سے موجود نہ ہو، اقتصادی پابندیاں گذشتہ تیس برس سے لگی ہوئی ہیں، فوجی کارروائی کی دھمکیاں اس سے پہلے بھی دیتے رہے ہیں۔
میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں اور آپ سب سے زیادہ واقف بھی ہوں ؛میرے خیال میں کلنٹن کی صدارت کا زمانہ تھا کہ فوجی کارروائی کا بہت زیادہ خطرہ موجود تھا اور اس وقت کے صدر محترم نے مجھ سے یہ بات کہی تھی ، کہ آئیں ، کوئی غورو خوض کریں ، کوئی کام انجام دیں ، افسوس ہے کہ وہ آئیں اور حملہ کریں ، اور ہمارے تمام تعمیراتی کاموں کو تباہ و برباد اورخراب کرکے چلے جائیں ؛ یعنی حملہ کا احتمال بہت زيادہ تھا؛ دھمکی دیتے تھے اور کہتے تھے کہ اسی صدارتی دورے میں حملہ کریں گے یعنی نویں صدارتی دورے سے قبل، یعنی دشمن کی طرف سے فوجی حملے کی دھمکیاں اتنی شدید تھیں کہ داخلی اہلکار کبھی رعب و دبدبے اور خوف میں مبتلا ہوجاتے تھے، بعض اوقات جلسات منعقد کئے جاتے تھے اور ہمارے پاس ان جلسات کی کافی یاداشتیں اور نوٹس بھی موجود ہیں؛ اس وقت کی کافی باتیں مجھے یاد ہیں۔ فوجی کارروائی کی دھمکی ہمیشہ سے تھی؛ ایسا نہیں ہے کہ اس سے پہلےفوجی کارروائی کی دھمکی یا خطرہ موجود نہیں تھا۔
ہمارے خلاف پروپیگنڈہ اور تبلیغات کا سلسلہ انقلاب کے آغاز ہی سے جاری تھا انھوں نے ملک کے اندر جہاں تک ممکن ہوسکا ہر چیزپر الزام عائد کئے،؛ امام (رہ) کی ذات سے لیکرعوامی سطح تک کسی کو معاف نہیں کیا، انھوں نے اپنے عالمی پروپیگنڈوں اور تبلیغات میں عوامی اجتماعات اور نماز جمعہ میں عوام کی شرکت کی توہین کی، انھوں نے عوام پر غلط اور بے بنیاد الزامات عائد کئے، ان کی تبلیغات اور پروپیگنڈوں کا سلسلہ صرف آج سے مخصوص نہیں ہے؛ البتہ آج بھی تبلیغات کا سلسلہ جاری ہے لیکن ماضی میں ان کی تبلیغات اور ان کے پرپیگنڈوں کا سلسلہ آج سے کم نہیں تھا بلکہ بعض موارد میں اس سے بھی کہیں زیادہ رہا ہے۔
داخلی سطح پر تخریب کاری آج سے مخصوص نہیں ہےعراق میں سنہ 1382 ہجری شمسی کے حوادث کے بعد " عراق پر تسلط پسند طاقتوں کے حملے کے بعد" یہاں تہران میں کئی دن تک بلوہ اور بغاوت کا سلسلہ جاری رہا، اور امریکہ کی وہ کالی عورت جو اس وقت امریکی صدر کی مشیر تھی اور بعد میں امریکہ کی وزیر خارجہ بن گئی اس نے واضح الفاظ میں کہا: ہم تہران میں ہونے والی ہر بعاوت اور بلوے کی حمایت کرتے ہیں ؛ اس نے واضح اور آشکار طور پر یہ اعلان کیاان کی امید بندھ گئی تھی انھوں نے یہ تصور کیا کہ تہران میں کوئی حادثہ رونما ہونے والا ہے ، کوئی اہم واقعہ رونما ہونے والا ہے؛ یہ بات سن 1382 ہجری شمسی کی ہے، آپ نے ملاحظہ کیا ، آپ نے دیکھا ، آج کی دھمکیاں بھی ویسی ہی ہیں یہ حقیقت سےعاری ہے، میں ان میں سے ہر مورد کے بارے میں ایک کلمہ عرض کرنا چاہتا ہوں۔
سب سے پہلے میں مذاکرات کے بارے میں کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں؛ مذاکرات کی بات کرنا ان کے لئے کوئي بری بات نہیں ہے،مذاکرات کی تجویز کوئی نئی تجویز نہیں ہے، مذاکرات اور بات چیت کے لئےامریکہ کی پہلی حکومتیں بھی ہمیں تجویز پیش کرچکی ہیں؛ ہم نے بھی بعض دلائل کی بنیاد پرہمیشہ ان کی اس تجویز کو رد کیا ہے، ایک واضح اور آشکار دلیل یہ ہے کہ دباؤ اور رعب و دبدبہ کے سائے میں مذاکرات درحقیقت مذکرات نہیں ہیں، ایک طرف ایک بڑی اور تسلط پسند طاقت قدرت اور طاقت کے ذریعہ دھمکی اور دباؤ سے کام لے اور اقتصادی پابندیاں عائد کرے اور اپنی آہنی مٹھی دکھائے اور دوسری طرف یہ کہے کہ آئیے ہم مذاکرات کی میز پر بیٹھتے ہیں گفتگو کرتے ہیں تو ایسے مذاکرات درحقیقت مذاکرات نہیں ہیں، اس قسم کے مذاکرات ہم کسی کے ساتھ کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں، لہذا امریکہ ہمیشہ اس صورت میں اور اس شکل میں مذاکرات کے میدان میں حاضر ہوا ہے۔
ہمارے پاس مختصر مدت کے دو تجربے بھی ہیں: عراق سے متعلق مسائل کے بارے میں مذاکرات کا تجربہ بھی ہے، میں نےایک عام خطاب میں بھی کہا تھا کہ ہم ان مذاکرات کو قبول کرتے ہیں اور وفد بھی گیا اور مذاکرات بھی ہوئے؛ اور ایک تجربہ گذشتہ حکومتوں کے دور میں تھا، امریکیوں نے ایک معاملے کے بارے میں پیغام دیا تھا کہ سلامتی کا ایک اہم مسئلہ ہے، حکومت نے دو تین مرحلوں میں مذاکرات انجام دیئے، امریکیوں کی یہ عادت اور روش ہے کہ جب وہ مذاکرات میں رہ جاتے ہیں اور منطقی او قابل قبول استدلال پیش کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں تو اس وقت وہ منہ زوری اور طاقت کا سہارا لینے لگتے ہیں چونکہ منہ زوری کا اسلامی جمہوریہ ایران پر کوئي اثر نہیں پڑتا، اس لئے وہ یکطرفہ طور پر مذاکرات کو معظل کرنے کا اعلان کردیتے ہیں، سچ بتائیں، یہ کس قسم کے مذاکرات ہیں؟ یہ تجربہ بھی ہمارے پاس موجود ہے،دونوں موارد میں ایسا ہی ہوا ہے ، البتہ میں نے پہلے مورد میں اس قسم کی پیشنگوئی کی تھی، مذاکرات کی کیفیت کو دیکھ کر ہم سمجھ گئے تھے کہ یہ لوگ کس سمت جارہے ہیں؛ وہ رپورٹیں میرے پاس بھیجتے تھے؛ دو ، تین جلسات تک باہم مذاکرات کئے تھے، میں نے اسی وقت وزارت خارجہ سے کہا کہ ان مذاکرات کو ختم کردیں ،ابھی کوئی اقدام نہیں کیا ، انھوں نے یکطرفہ طور پر اقدام کردیا، وہ ایسے ہیں، ان کی رفتار ایسی ہے،لہذا یہ بات جو کی جاتی ہے؛ صدر محترم یا دوسرے لوگ ، جو یہ کہتے ہیں کہ ہم مذاکرات کے حامی ہیں، یقینی طور پر ہم مذاکرات کے حامی ہیں ؛ لیکن امریکہ کے ساتھ نہیں، اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ امریکہ صداقت کے ساتھ مذاکرات کے میدان میں وارد نہیں ہوتا ہے وہ ایک بڑی طاقت کے طور پر اور غرور کے ساتھ مذاکرات کے لئے آتا ہے، لیکن ہم بڑی اور مغرورطاقت کے ساتھ مذاکرات نہیں کرتے ہیں، وہ بڑی طاقت کےغرور کو ترک کردیں، تکبر ختم کردیں، دھمکیاں دینا بند کردیں، اقتصادی پابندیوں کی بات ترک کردیں، اپنے طور پرمذاکرات کے لئے ایک مشخص ہدف فرض نہ کریں کہ مذاکرات کو وہاں تک پہنچنا چاہیے،میں نے چند سال قبل شیراز میں ایک عام خطاب میں اعلان کیا تھا کہ ہم نے ہمیشہ مذاکرات نہ کرنے کی قسم نہیں کھا رکھی ؛ کہ ہم کبھی مذاکرات نہیں کریں گے، مذاکرات میں امریکہ کی عدم صداقت کی بنا پر ہم مذاکرات نہیں کرتے ہیں؛ ان دلائل کی بنا پر ہم ان کےساتھ مذاکرات نہیں کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ مذاکرات کے اہل نہیں ہیں، وہ طاقت اور زور دکھانا چاہتے ہیں امریکہ کی مثال اس اوباش شخص جیسی ہے جو شہد کی دکان میں داخل ہوتا ہے اور دکاندار سے پوچھتا ہے کہ شہد کی بوتل کی قیمت کیا ہے؟ مثلا دکاندار نے کہا سو تومان، تو وہ اوباش دکاندار کا ہاتھ پکڑ کر دباتا تھا دکاندارمظلوم ڈرجاتا تھا اس کے دباؤ کے تحت کہتا تھا کہ جو قیمت تم کہو وہی ہے!وہ کہتا ہے تیس تومان، تو دکاندار بھی کہتا چلو ٹھیک ہے، یہ معاملہ دباؤ کے تحت ہوا ، یہ معاملہ نہیں ہے، دباؤ کے تحت مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہے کیونکہ دباؤ کے تحت مذاکرات میں تو امریکہ اپنی بات منوانا چاہتا ہے اگر وہ دوسروں کا ہاتھ دبا کر سو تومان کے بجائے 30 تومان دے سکتے تو وہ دوسروں کو اس بات پر مجبور کرتے کہ 100 تومان سے 30 تومان پر آجائیں،لیکن اسلامی جمہوریہ ایران اس قسم کے دباؤ میں نہیں آئے گا، ایران بھی اپنے طور پر ہر دباؤ کا جواب دےگا، وہ طاقت اور زور کا سہارا نہ لیں ، وہ اپنی طاقت کی بوسیدہ سیڑھی نیچے اتر آئیں ، تو کوئی اشکال نہیں ؛ لیکن جب تک وہ طاقت کے نشے میں چوررہیں گے ان کے ساتھ مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
ادھر ایٹمی معاملے میں ایٹمی ایندھن کی پیداوار ہمارا حق ہے اور ہم اپنے اس حق سے ہر گز دست بردار نہیں ہوں گے اور اپنے حق کے حصول کی کوشش جاری رکھیں گے؛ یہ ہمارا حق ہے ہم ایٹمی ایندھن کی پیداوار چاہتے ہیں کئی ہزار میگاواٹ ایٹمی بجلی کے لئے ہمیں ایٹمی ایندھن کی ضرورت ہے، ایٹمی بجلی پلانٹس کو تعمیر کرنا چاہیے، اور ان کی خوراک اور ایندھن ملک کے اندر تیار کرنا چاہیے اگر ہم ایٹمی پلانٹس کے ایندھن کے لئے دیگر ممالک کے انتظار میں رہیں گے اور ہم ان کے محتاج رہیں گے تو ملک کے امور کا چلنا مشکل ہوجائےگا؛ ایٹمی ایندھن کی پیداوار ہمیں ملک کے اندر کرنی چاہیے، یہ ہمارا حق ہے اور ہمیں اپنے اس حق کے پیچھے رہنا چاہیے؛ وہ یہ کہتے ہیں کہ ایران کو ایٹمی ایندھن کی ضرورت نہیں ہے ہم ایران کے لئے ایٹمی ایندھن فراہم کریں گے؛ عالمی بینک بنائیں گے، ہم ایٹمی ایندھن فراہم کریں گے، لیکن ان کی یہ بات ایک مہمل بات ہے، ان کی اس بات کی کوئی حیثیت اور اہمیت نہیں ہے ان کی یہ بات بے معنی بات ہے، بیس فیصد ایٹمی ایندھن کے تبادلے کے موضوع میں معلوم ہوگیا ہے کہ وہ اپنے قول اور فعل میں کتنے سچے اور صادق ہیں(1) ہمیں اس چھوٹے اور آزمائشی پلانٹ کے لئے ضرورت تھی یہ چیز کوئی بڑی اور اہم بھی نہیںتھی، دنیا میں اس کا معاملہ اور لین دین جاری ہے، ہم نے بھی آج سے چودہ ، پندرہ سال پہلے اس کو خریدا تھا؛ ہم نے بھی اسے حاصل کیا تھا اس میں کوئي مشکل بھی نہیں تھی، انھوں نے جونہی اس بات کا احساس کیا کہ ایران کو اس کی ضرورت ہے، تو انھوں نے بازی شروع کردی اور اس کو ایک مسئلہ میں تبدیل کردیا، لیکن میری نظر میں امریکہ اور یورپ کی جانب سے یہ ایک بہت بڑی غلطی تھی ، انھوں نے بیس فیصد ایٹمی ایندھن فراہم کرنے کے معاملے میں بہت بڑے اشتباہ کا ارتکاب کیا ہے۔
سب سے پہلے انھوں نے اپنے اس عمل کے ذریعہ ہمیں شوق دلایا ہے کہ ہم خود بیس فیصدایٹمی ایندھن کی پیداوار کی تلاش و کوشش کریں انھوں نے ہمیں بیس فیصد ایٹمی ایندھن کی پیداوار کے لئے مجبور کیا ہے کہ ہم خود بیس فیصد ایٹمی ایندھن ملک کے اندر تیارکریں،ہم نے بھی ایسا ہی کیا، یہ ان کا سب سے پہلا اور سب سے بڑا اشتباہ تھا ان کا دوسرا اشتباہ یہ تھا کہ انھوں نے پوری دنیا کے سامنے ثابت کردیا کہ امریکہ اور دوسرے ممالک جو ایٹمی ایندھن تیار کرتے ہیں وہ قابل اعتبار اور قابل اطمینان نہیں ہیں، اگر ہم ایٹمی ایندھن کو ان کی مرضی پر چھوڑدیں گے تو جونہی وہ ہماری نیاز اور ضرورت کا احساس کرتے ہیں اورضرورت پڑنے کے وقت وہ اپنے تمام مطالبات کی فہرست تیار کرلیتے ہیں اور کہتے ہیں ، جناب ان چیزوں پر آپ کو عمل کرنا چاہیے پھر ہم آپ کو ایٹمی ایندھن فراہم کریں گے، یہ تو معاملہ نہیں ہوا، لہذا ایٹمی معاملے میں ان کے پاس کہنے کے لئے کوئی بات نہیں ہے، کوئی منطق نہیں ہے ، ہم نے بھی اپنا راستہ پیدا کرلیا ہے، اس راستہ پر چل رہے ہیں اور انشاء اللہ اسی راستہ پر گامزن رہیں گے۔
فوجی دھمکی اور کارروائی کے سلسلے میں بھی بعید ہے کہ وہ کوئی حماقت کریں ؛ البتہ اگر اس قسم کی کوئی صورت حال پیش آئی ، تو پھر سب کو جان لینا چاہیے کہ جنگ کا میدان صرف ہمارا علاقہ ہی نہیں ہوگا؛ بلکہ جنگ کا میدان بہت بڑا اور وسیع ہوجائے گا۔
اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف امریکی تبلیغات اور پروپیگنڈہ بھی غیر منصفانہ اور ظالمانہ اقدام ہے جسے دشمن ہمارے خلاف جاری رکھے ہوئے ہے؛ جبکہ امریکہ خود انسانی حقوق کو سب سے زیادہ پامال کرتا ہے۔ اور یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے، جہاں ان کا مفاد ہوتا ہے وہاں وہ بیشمار انسانوں کو قربانی کا بکرا بنا دیتاہے ان کے لئے کسی حق کا قائل نہیں ہوتا ہے اور جہاں ان کی باری آتی ہے وہاں وہ طلبگار بن جاتے ہیں، عراق پر اپنی یلغار کے دوران انھوں بصرہ پر دس ٹن کے بم گرائے ہیں، جن کے بارے میں خود امریکیوں کا کہنا ہے یہ تمام بموں کی ماں ہے، دس ٹن! ان وحشیانہ حملوں میں انھوں نے بہت سے عراقی شہریوں ، عراقی عورتوں اور عراقی بچوں کو موت کی نیند سلا دیا ، بصرہ اور عراق کےدیگر شہروں میں انھوں نے بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کو پامال کیا بے گناہ انسانوں کا قتل عام کیا ، انہی ایام میں کچھ امریکی پائلٹ بھی گرے ہوئےتھے، عراق کی بعثی حکومت نے ان سے ٹی وی پر انٹرویو لیا، اس پر امریکیوں کی صدائیں بلند ہوگئیں، کہ عراق نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے؛ جنگی قیدی سے انٹرویو نہیں لینا چاہیے! یہ ہے دشمن کی متضاد اور دوگانہ پالیسی ، وہ ایک ہی معاملے کو دو زاویوں سے دیکھتے ہیں۔
امریکہ ڈیموکریسی کا بھی سب سے زيادہ نقض کرنے والا ہے، بہت سی جگہوں پر امریکہ نے انتخابات کے واضح نتائج کو درہم و برہم کردیا جس کا ایک واضح نمونہ غزہ ہے، حماس حکومت ہے، دوسری جگہوں پر بھی اس قسم کے بہت سے شواہد موجود ہیں جن کا میں نام نہیں لینا چاہتا ہوں، وہ خود بدترین لوگ ہیں ، بہر حال وہ لوگ ایسے ہی ہیں۔
وہ چیز جس پر توجہ مبذول کرنا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ یہ حملے اور یہ عداوتیں نئی اور جدید نہیں ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران بھی ان تمام عداوتوں کا مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ اور تیار ہے ایران نے بھی ان کا مقابلہ کرنے کے لئے منصوبے بنائے ہوئے ہیں ، اقتصادی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے حکام نے اچھی ، مضبوط اور مستحکم تدبیریں اختیار کی ہیں، میں نے صدر محترم سے درخواست کی کہ وزیر خزانہ آئیں اور اپنی رپورٹ پیش کریں؛ وزیر خزانہ آئے اور انھوں نے رپورٹ پیش کی، سکیورٹی کونسل کی پابندیوں کے مقابلے میں اور اس کے بعد امریکہ اور یورپ کی طرف سے یکطرفہ اقتصادی پابندیوں کا مقابلہ کرنے کے لئے جو تد بیریں اختیار کی گئی ہیں وہ بہت اچھی اور مستحکم تدبیریں ہیں ؛ بہت اچھے کام انجام دیئے گئے ہیں اور انشاء اللہ حکام نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ ان اقتصادی پابندیوں کوبہترین فرصت میں تبدیل کریں گے اور حقیقت میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے اور ان پابندیوں کو بہترین فرصت میں تبدیل کرنا چاہیے۔
ہمیں قومی پیداوار میں اضافہ کرنا چاہیے؛ داخلی اور ملکی پیداوار استعمال کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے؛ داخلی پیداوار کی کیفیت کو اچھا اور بہتر بنانا چاہیے، البتہ اس سلسلے میں قوہ مقننہ اور حکومتی اہلکاروں کی ذمہ داریاں سنگين ہیں، میں نے درآمدات کی مدیریت کےمسئلہ میں حکومت کو سفارش کی ہے؛ اب بھی اس بات پر تاکید کرتا ہوں میں درآمدات روکنے اور متوقف کرنے کے حق میں نہیں ہوں ؛ کیونکہ بعض جگہوں پر درآمدات کی ضرورت ہے، درآمدات کا ہونا ضروری ہے لیکن درآمدات کی مدیریت ہونی چاہیے۔ بعض جگہوں پر درآمدات کی بالکل کوئی ضرورت نہیں ہے، بعض جگہوں پر درآمدات کی ضرورت ہے، درآمدات کا کام صحیح مدیریت کے ذریعہ انجام پانا چاہیے، البتہ حکومتی اہلکاروں نے مجھ سے کہا ہے کہ پارلیمنٹ نے جو قوانین منظور کئے ہیں ان کے تحت وہ درآمدات کو روک نہیں سکتے ہیں؛ میں تقاضا کرتا ہوں کہ اس مسئلہ کو حل کریں، اگر ایسا کوئی قانون موجود ہے جو حکومت کو درآمدات روکنے کے لئے مانع ہے تو ایسے قانون کی اصلاح کرنی چاہیے درآمدات کی مدیریت ہونی چاہیے ، قومی پیداوار میں اضافہ ہونا چاہیے اور اس کی کیفیت کو بہتر بنانا چاہیے۔
اس سلسلے میں عقلمندی ،خردمندی اور سوج بوجھ سے کام لینا چاہیے، عقلمندی بہت اہم چیز ہے عقلمندی سے فیصلہ لینے کی بہت بڑی اہمیت ہے عقلمندی، خردمندی اورشجاعت سے فیصلہ لینے کو ڈر، خوف اور پیچھے ہٹنے کے معنی میں نہیں لینا چاہیے، عقلمندی کے ساتھ شجاعت ، یہ انبیاء(ع) کا خاصہ ہے انبیاء (ع) سب سے زيادہ عقلمند انسان تھے، پیغمبر اسلام (ص) سے ایک روایت میں وارد ہوا ہےکہ : «ما بعث اللَّه نبيّا و لا رسولا حتّى يستكمل العقل»؛(7( خدا وند متعال نے ہر نبی (ع)کو عقل کامل ہونے کے بعد رسالت عطا کی ہے اور نبی(ص) بنایا ہے ، لیکن یہی پیغمبر ہیں جنھوں سب سے زیادہ جہاد، سب سے زیادہ مقابلہ اور سب سے زيادہ خطرات کا مقابلہ کیا ہے، یعنی شجاعت کو عقلمندی کے ہمراہ ہونا چاہیے؛ پختہ عزم کے ہمراہ ہونا چاہیے اس میں تزلزل نہیں ہونا چاہیے اس میں ہمدلی اور اتحاد کی حفاظت اور وسیع النظری ہونی چاہیے۔
میں اتحاد کی ضرورت پر زور دیتا ہوں ملکی حکام کے درمیان اتحاد و ہمدلی ایک اہم فریضہ ہے اتحاد کی جان بوجھ کر مخالفت آج ایک غیر شرعی عمل ہے،بالخصوص اعلی حکام اس پر گہری توجہ مبذول کریں ، دشمن ایک معمولی اختلاف سے بہت بڑا مسئلہ بنانا چاہتا ہے ایسا کرنے کی ہرگز اجازت نہ دیں ایسا بھی نہیں ہے کہ دو حکام یا دو اداروں کے درمیان ہراختلاف ایک المیہ ہو؛ ممکن ہے پارلیمنٹ کا اپنا ایک نظریہ ہو، حکومت کا دوسرا نظریہ ہو ، راہ و روش، عقیدے اور سلیقے مختلف ہوں ؛ یہ المیہ نہیں ہے لیکن ان اختلافات کو ناقابل علاج اختلافات اور عظیم شگافوں میں تبدیل کرنا بہت بڑی اور عظیم غلطی اورخطا ہے۔
البتہ بعض امور بھی بہانہ اورمستمسک بن جاتے ہیں ، ہم نے کچھ عرصہ پہلے گارڈین کونسل سے کہا ہے کہ وہ ایک جلسہ تشکیل دیں ، اور جو موارد حکومت اور پارلیمنٹ کے درمیان باعث نزاع و اختلاف ہیں ان کو واضح کریں تاکہ قوا کے درمیان حدود و اختیار کا پتہ چل جائے کیونکہ قوا کی تفکیک کا مسئلہ بنیادی آئین کا حصہ ہے اور اس کو محقق ہونا چاہیے۔ اتحاد کی حفاظت، اصول سے تمسک،اصول کی رعایت یہ وہ امور ہیں جن کے بارے میں حضرت امام (رہ) ہمیشہ سفارش کیا کرتے تھے۔
ہمیں دشمن کے حیلہ اورمکر وفریب پر توجہ رکھنی چاہیے اوردشمن کے نقشہ کے مطابق بازی نہیں کرنی چاہیے دشمن کا ایک سب سے اہم کام یہ ہے کہ وہ حکام کے بارے میں عوام میں عدم اعتماد کی فضا قائم کرنا چاہتا ہے، ہمیں ہوشیار رہنا چاہیے ہمیں ایسی باتیں کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے جن سے لوگ حکومت کے بارے میں، عدلیہ کے بارے میں اور پارلیمنٹ کے بارے میں مایوس اوربدگمان ہوجائیں ؛ ایسی مایوسی پھیلانا غلط اور نادرست ہے؛ دشمن یہی چاہتا ہے، ہمیں ایسا کام نہیں کرنا چاہیے میں بعض اوقات دیکھتا ہوں کہ جو اعداد و شمار پیش کئے جاتے ہیں بغیر کسی دلیل کے ان پر خدشہ وارد کیا جاتا ہے؛ ایسا کیوں ہے؛ اعداد و شمار میں بغیر کسی دلیل کے کیوں خدشہ اور اشکال وارد کیا جاتا ہے؟ اعداد و شمار ایک ذمہ دار ادارہ پیش کررہا ہے، اس کی بات قابل قبول ہونی چاہیے عوام میں عدم اعتماد اور مایوسی پھیلانے سے اجتناب کرنا چاہیے۔
اللہ تعالی کی قدرت اور اس کے سچے وعدوں پر توجہ رکھنی چاہیے؛ کیونکہ تمام امور کی بنیاد اسی امر پر استوار ہے ہمیں اللہ تعالی کے وعدوں پر مکمل اطمینان رکھنا چاہیے، جو لوگ اللہ تعالی کے وعدوں کے بارے میں سوءظن اور بدگمانی رکھتے ہیں اللہ تعالی نے ان پر لعنت فرمائی ہے؛ «و يعذّب المنافقين و المنافقات و المشركين و المشركات الظّانّين باللَّه ظنّ السّوء عليهم دائرة السّوء و غضب اللَّه عليهم و لعنهم و اعدّ لهم جهنّم و سائت مصيرا»؛(8( یعنی جو لوگ اللہ تعالی کے وعدوں کے بارے میں سوء ظن رکھتے ہیں اللہ تعالی ان کی مذمت اور ملامت کرتا ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے: «لينصرنّ اللَّه من ينصره»؛(9) «أوفوا بعهدى أوف بعهدكم».(10( اللہ کے راستے پر چلو، اللہ تعالی کے راستہ پرحرکت کرو، اللہ تعالی مدد کرےگا یہ صرف اللہ تعالی کا وعدہ ہی نہیں ہے، اگر ہم دیر سے یقین کرنے والے بھی ہوں، تاریک باطن کے مالک ہوں کہ اللہ تعالی کے وعدے کو صحیح قبول نہ کرسکتے ہوں، ہمارا تجربہ اس بات کی گواہی دےگا کہ چالیس سال پہلے انقلاب کے دوستوں و حامیوں اور انقلاب کے دشمنوں میں سے کون یہ سوچ سکتا تھا کہ ملک کے اندر اتنا عظیم واقعہ اور عظیم انقلاب رونما ہوگا؟ ایک عظیم واقعہ اور ایک بلند اور رفیع عمارت کی بنیاد رکھی جائے گی؟ کون سوچ سکتا تھا؟ لیکن ایسا ہوگیا، یہ اللہ تعالی پر توکل اور اعتماد کی بدولت ہوا ہے، پختہ عزم کی بنا پر ہوا ہے، موت اور شکست سے خوفزدہ نہ ہونے کی بنا پر ہوا ہے یہ عظيم واقعہ اللہ تعالی پرتوکل اور اس کے نام پر آگے بڑھنے کی وجہ سے رونما ہوا ہے اس کے بعد بھی ایسا ہی ہوگا۔
پروردگارا !محمد اور آل محمد(ص) کے طفیل ہمارے بزرگ اور عظيم الشان امام (رہ) پر اپنی رحمت اور مغفرت نازل فرما ، جنھوں نے ہمیں یہ راستہ دکھایا، پروردگارا! عزیز شہیدوں کو عالی ترین مقام اور درجات نصیب فرما، پروردگارا! ایرانی قوم کو اپنے اعلی اہداف اور اپنے اعلی مقاصد میں کامیاب فرما، پروردگارا!اس قوم اور اس ملک کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما،پروردگارا! اسلامی نظام کے خدمتگذاروں ، عوام کی ہمدردانہ اور مخلصانہ خدمت کرنے والوں پر اپنی رحمت و برکت نازل کراور انھیں مزید خدمت کی توفیق عطا فرما۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1) لقمان: 22
2) تحریم: 6
3) بقرہ: 183
4) صحیفہ سجادیہ، دعائے 20
5) توبہ: 15
6) انعام: 121
7) مشکاۃ الانوارص 251
8) فتح: 6
9) حج: 40
10)بقرہ: 40