ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کامختلف یونیورسٹیوں کے طلباء و طالبات سے خطاب

رہبر ماس موقع پمیں آپ عزیز جوانوں، عزیز طلباء اور اپنے فرزندوں اور اس جلسہ کے ناظم کو خوش آمدید کہنا چاہتا ہوں اس کے سوا کچھ بھی عرض نہیں کرنا چاہتا ہوں ، میں آپ حضرات کا شکر گزار ہوں  ، آپ نے اس نشست میں ان عزیز طلباء کو بارہا  " جوان افسروں " سے تعبیر کیا مجھے بھی اس پر پورا یقین ہے ، میں اس تعبیر سے بہت لطف اندوز ہوا انشاء اللہ ان عزیز جوانوں کے آج کے اظہارات ، ان کی تجاویز و آراء بھی ہماری اور دیگر ناظرین کی نگاہوں میں  انہیں جوان افسروں کے تعیّن و تشخّص کومجسّم کریں گی۔ ***

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم 

میں پروردگارِ عالم کا انتہائی شکرگزار ہوں کہ اس نے ہمیں زندگی اور توفیق سے نوازا تاکہ ایک مرتبہ پھر رمضان المبارک میں  ہم اس شیریں، پرجوش اور پر نشاط جلسہ کا انعقاد کرسکیں ، یہ نشست ہر سال رمضان المبارک میں مسلسل منعقد ہوتی رہی ہے ، یہ نشست میری سب سے زیادہ پسندیدہ اور شیرین نشستوں میں سے ایک ہے ۔

طلبہ و طالبات  جو مطالب اور نکات یہاں پیش کرتے ہیں وہ جدید اور تازہ ہوتے ہیں ، میں ان سے استفادہ کرتا ہوں ، اس کے علاوہ یہاں پر کبھی کبھی کچھ ایسی تجاویز بھی سامنے آتی ہیں جنہیں متعلّقہ اداروں تک پہنچایا جاتا ہے ، آپ جان لیجئے اور اطمینان رکھیئے کہ ان تجاویز پر حتّی الوسع عمل درآمد کی سعی بھی کی جاتی ہے  ، یہ تصوّر نہ کیجئے کہ یہاں جو باتیں کی جاتی ہیں وہ ہوا میں منتشر ہو جاتی ہیں اور ان کا کوئی عملی نتیجہ بر آمد نہیں ہوتا ، ایسا نہیں ہے بلکہ ان مطالب کا یقینا تعاقب کیا جاتا ہے جنہیں ہماری تائید و تصدیق حاصل  ہوتی ہے یہاں پیش ہونے والے مطالب کو عام طور سے ہماری تائید اور حمایت حاصل ہوتی  ہے ۔

 ہماری آج کی یہ نشست بہت ہی شاداب ہے ، عزیز جوانوں نے بلا کسی روک ٹوک کے ہر شعبہ میں اپنے مطالب کو بیان کیا  ، طلباء و طالبات نے جو مطالب یہاں پیش کئے ان میں نظریاتی اختلاف کی جھلک بالکل نمایاں تھی میری نظر میں یہ نظریاتی اختلاف ایک   انتہائی حوصلہ افزا امر ہے ، یہ بہت اچھی چیز ہے کہ کسی ایک چیز کے بارے میں مختلف نظریّا ت پیش کئے جائیں ، ہر نظریہ کے پسِ پردہ ایک استدلال ہوتا ہے ، اس نظریہ کے کچھ ماننے والے ہوا کرتے ہیں ، نظریاتی اختلاف سے غور و فکر ،عمق و گہرائی اور حقیقت تک رسائی کے مواقع پیدا ہوتے ہیں ، آپ کو مجھ سے یہ امّید نہیں رکھنا چاہیے کہ میں یونیورسٹی کے مسائل میں مداخلت کروں ، اور اس سلسلہ میں میری رائے حتمی قرار پائے ، یہ امّید بیجا ہے البتّہ بعض مواقع پر اٹل موقف اور قولِ فیصل لازمی امر ہے جہاں رہبریت یا متعلّقہ عہدیدار کو اپنا قولِ فیصل  پیش کرنا چاہیے لیکن یہاں اس کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، یہ ان مقامات میں سے ہے جہاں عام طور پر حتمی فیصلہ کی کوئی ضرورت نہیں ہوا کرتی ، اگر کوئی نظریاتی اختلاف ہے تو اس میں کیا قباحت ہے ؟ ابھی چند دن پہلے ملک کے اعلیٰ عہدیدار یہاں تشریف فرما تھے میں نے ان سے بھی  ایک خاص مسئلہ کے بارہ میں یہی بات کہی تھی کہ نظریاتی اختلاف نظریاتی اختلاف ہے کوئی المیہ تو نہیں ہے اس میں کیا قباحت ہے ؟  کبھی کبھی یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ دشمن کی طرف گولی چلائی جائے یا نہیں اس سلسلہ میں اگر اختلاف ہو جائے تو یقینا مشکل پیش آسکتی ہے لیکن اگر یہ صورت ِ حال نہ ہو بلکہ  کسی نظریاتی یا سماجی  مسئلہ میں اختلاف پایا جاتا ہو تو ایسی صورت میں یہ اختلاف حوصلہ افزا ثابت ہو سکتا ہے ، میری نگاہ میں اس اختلاف کو یہی مقام حاصل ہے، آپ حضرات میرے مقابلہ میں بہت جوان ہیں آپ کو مختلف نظریات و دلیلوں سے اور بھی زیادہ  لطف اندوز ہونا چاہیے  ۔

    آپ کی آج کی گفتگو میں ، میں نے کافی غور و فکر کیا ، اس کا عمیق مطالعہ کیا تو مجھے احساس ہوا کہ  آپ کی گفتگو بہت عمیق تھی ،اس سے قبل بعض مواقع پر جو جوان یہاں اظہارِ خیال کیا کرتے تھے کبھی کبھی مجھے دل ہی دل میں ان سے یہ شکایت ہوا کرتی تھی کہ ان کی گفتگو میں گہرائی نہیں پائی جاتی ہے لیکن آج یہ کیفیت نہیں تھی ، مجھے آپ کی آج کی گفتگو عمیق معلوم ہوئی ، آپ نے میرے بارے میں جو تکلّف آمیز اور محبّت آمیز گفتگو کی(اس کا حساب و کتاب جدا ہے ) اس کے قطع ِنظر یہاں جوبھی تجاویز و آراء پیش کی گئیں وہ بہت عمیق اور گہری تھیں ان پر کافی غور و فکر کیا گیا تھا لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ سبھی باتیں صحیح تھیں بلکہ ان میں سے کچھ باتیں درست تھیں اور کچھ  باتیں  اتنی پختہ نہیں تھیں لیکن ایک بات واضح تھی کہ ان سبھی باتوں پر غور و فکر کیا گیا تھا یہ بہت اہم چیز ہے  خاص کر جب  مختلف طلباء یونینوں کے نمائندوں نے یہاں آکر ان کی طرف سے اظہارِ خیال کیا جو اس بات کی علامت ہے کہ فکری  میدان میں بھی باہمی تعاون کاسازگار ماحول موجود ہے یہ بھی اپنے آپ میں ایک مثبت اقدام ہے  جو میرے لئے مسرّت بخش ہے ، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی صاحبِ فکر و نظر کسی گوشۂ تنہائی  میں بیٹھ کر کسی مسئلہ پر غور و خوض کرتا ہے یہ بھی اچھی چیز ہے لیکن اس سے  زیادہ بہتر یہ ہے کچھ صاحبِ نظر مل بیٹھ کر کسی مسئلہ پر غور وخوض کریں ، مختلف نظریات کو پیش کریں ، ان نظریات کے تمام پہلوؤں کا جائزہ لیں اور بہترین نظریہ کا انتخاب کریں ، مجھے اس نشست میں اس کی ایک جھلک دکھائی دی ،خاص کر ان تجاویز و آراء میں یہ خصوصیت  بدرجہ اتم تھی جنہیں کسی طلبہ یونین کی طرف سے پیش کیا گیا ۔

میری نظر میں آج کا یہ اجتماع بہت اچھا اجتماع تھا ، میں پروردگارِ عالم کا شکرگزار ہوں ، جن افراد نے یہاں اپنے خیالات پیش کئے میں ان سبھی کا شکرگزار ہوں ، بہت اچھا اجتماع تھا ۔ میرے ذہن میں کچھ مطالب ہیں جو دامنِ وقت کی گنجایش کو مدّ نظر رکھتے ہوئے عرض کروں گا لیکن ایک  بات کی اہمیت ان مطالب سے بھی بڑھ کر ہے اور وہ یہ ہے کہ آپ جوانی کی دولت سے مالا مال ہیں ، آپ کے دل پاک  ہیں ، ابھی وہ گناہوں سے آلودہ نہیں ہوئے ہیں ، اس وقت شاید آپ اس بات کی گہرائی کا ادراک نہ کر سکیں کہ اس طہارت کا مفہوم کیا ہے ، گناہوں میں آلودہ دلوں کی  مشکلات کیا ہیں ؟ آپ چونکہ ابھی جوان ہیں اس لئے ابھی اس کی حقیقت کو نہیں سمجھ سکتے ، جب آپ ہماری عمر کو پہنچیں گے تو ان مشکلات کو سمجھیں گے اور اس وقت آپ کو جوانی کے دور کی طہارتِ قلب کی قدر و قیمت معلوم ہوگی لیکن یہ زمانہ پھر ہاتھ نہیں آئے گا ۔

آج یہ سرمایہ آپ کے اختیار میں ہے ۔ میری گفتگو کا مقصد یہ ہے : کہ آپ کے لئے جس قدر ممکن ہو اپنے پاک و پاکیزہ دل کو عظمت  ،حقیقت اور زیبائی کے سرچشمہ یعنی پروردگارِ عالم سے قریب کریں، اگر آپ کو اس میں کامیابی نصیب ہوجائے تو  آپ مرتے دم تک ایک سعادت مند زندگی بسر کریں گے  لیکن اگر آج آپ اس میں کامیاب نہیں ہوئے تو بیس سال بعد جب آپ چالیس ، پینتالیس سال  کے ہوں گے تو یہ کام اور بھی مشکل ہوجائےگا، اس کے بیس سال کے بعد جب آپ میرے سن سے قدرے کم عمر کے ہوں گے تو یہ کام اور بھی سخت و دشوار ہوجائے گا ، محال و ناممکن نہیں ہے لیکن سخت و دشوار ضرور ہے ، جوانی میں اپنے دل کو خدا سے متّصل کیجئے ،شرعِ مقدّس میں اس کا راستہ کھلا ہوا ہے یہ کوئی پیچیدہ و مبہم چیز نہیں ہے جب آپ پہاڑ کے دامن سے اس کی چوٹی کو دیکھتے ہیں اور وہاں آپ کو چند افراد دکھائی دیتے ہیں ایسا نہیں ہے کہ ان افراد کے پر لگے ہوں جن کے ذریعہ پرواز کر کے وہ وہاں پہنچے ہوں بلکہ وہ اسی راستہ کو طے کر کے وہاں پہنچے ہیں جوآپ کے سامنے ہے، آپ کسی وہم وگمان کا شکار نہ ہوں ، آپ  ہر گز یہ تصوّر نہ کیجئے کہ آپ کسی غیرمعمولی اقدام کے ذریعہ وہاں پہنچ سکتے ہیں ، ایسا نہیں ہے ، آپ اس پہاڑ کی چوٹی پر جن افراد کا مشاہدہ کر رہے ہیں وہ اسی عام راستہ سے وہاں پہنچے ہیں ۔ یہ راہیں کیا ہیں ؟ اس راستہ کا سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ گناہوں کو ترک کر دیا جائے ، اس بات کا زبان پر لانا آسان ہے لیکن اس پر عمل کرنا بہت سخت ہے لیکن یہ ایک ناگزیر اور ضروری قدم ہے ، جھوٹ نہ بولنا ، خیانت نہ کرنا ، جنسی و  شہوانی لغزشوں سے اجتناب کرنا ، گناہوں سے پرہیز کرنا یہ سب سے اہم قدم ہے ، اس کے بعد واجبات کی ادائیگی کا مرحلہ آتا ہے ، فریضۂ نماز کی اہمیت تمام واجبات سے زیادہ ہےامیر المؤمنین حضرت علی علیہ السّلام کا ارشادِ گرامی ہے "واعلم انّ  کلّ شیٔ من عملک  تابع لصلاتک   " (۱) یہ جان لو کہ تمہارا ہر عمل نماز کا تابع ہے ، نماز کووقت پر ادا کیجئے ،  پوری توجّہ اور حضورِ قلب سے نماز ادا کیجئے،قلبی توجّہ کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو معلوم ہو کہ آپ کس عظیم ذات سے ہم کلام ہیں ، آپ کو معلوم ہو کہ آپ ایک مخاطب سے محوِ گفتگو ہیں ، اگر آپ اپنے اندر یہ کیفیت پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے تو مرتے دم تک یہ چیزایک  عظیم سرمایہ کے طور پر آپ کے ساتھ رہے گی، لیکن اگر خدا نخواستہ  آج اگر آپ نے اس کی مشق نہ کی اور اپنے اندر یہ تمرکز پیدا نہ کیا  تو  آج سے بیس سال بعد یہ کام مشکل ہوجائے گا اور اس کے بیس سال بعد  کے دور میں تو اور بھی دشوار ہوجائے گا  اگرکسی نے پہلے سے یہ عادت نہ ڈالی ہو تو عالمِ پیری میں اس کا امکان بہت کم ہے ۔ آپ ابھی سے نماز کی حالت میں حضورِ قلب کی عادت ڈالیں ۔ اگر آپ اس میں کامیاب ہوگئے تو ایسی صورت میں یہ نماز " تنھیٰ عن الفحشاء و المنکر " (۲)کی مصداق قرار پائے گی ،" تنھیٰ" یعنی  روکتی ہے ،اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نماز آپ کے سامنے کوئی ایسی رکاوٹ کھڑی کرتی ہے جس کے بعد آپ کوئی گناہ انجام نہیں دے سکتے ، ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ یہ نماز ہمیشہ ہی آپ سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ آپ گناہ کے مرتکب نہ ہوں ، جب دن میں کئی مرتبہ انسان کے دل سے یہ آواز بلند ہو کہ خبردار گناہ کا ارتکاب نہ کرنا تو انسان گناہ سے باز رہتا ہے ، نماز کے اندر یہ تاثیر ہے ۔

رمضان المبارک کا  روزہ بھی بہت غنیمت موقع ہے جس سے بھوک ، پیاس گرمی اور دیگر مشکلات سے مقابلہ کرنے  کی مشق ہوتی ہے ، یہ مہینہ قرآن ، نہج البلاغہ ، صحیفۂ سجادیہ  سے انس پیدا کرنے ، دعا ومناجات ، نافلۂ شب اور دیگر عبادات کا بہترین موقع ہے ، روزہ کے بعد جس قدر ممکن ہو آپ ان عبادات کو بجا لائیے۔

آپ اپنے نورانی اور پاکیزہ دلوں کی قدر جانیں ، میں یہ بات آپ کی خوش آمد کے لئے نہیں کہہ رہاہوں ، دنیا کے جوان آپ تک محدود نہیں ہیں ، دنیا میں آپ کے علاوہ بھی بے شمار جوان پائے جاتے ہیں ، یہ جوان کا طرّہ امتیاز ہے کہ اس کادل پاک و پاکیزہ ہوتا ہے ، چونکہ آپ  اس دور کا عالمِ پیری سے موازنہ نہیں کر سکتے اس لئے اس بات کا ادراک  بھی نہیں کرسکتے  ۔ جیسے جیسے یہ دورگزرتا جاتا ہے  دل پر برائیوں ، گناہوں اور دیگر مسائل و مشکلات کی گرد و غبار  بیٹھتی جاتی ہے یہی وجہ  ہے کہ ایک روایت میں اس حقیقت کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے کہ جب کوئی انسان گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ پیداہوجاتا ہے ، دوسرا گناہ کرتا ہے تو اس نقطہ میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے یہاں تک کہ ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب یہ سیاہی اس کے پورے دل پر غالب آجاتی ہے ، البتّہ یہاں یہ بیان کر دینا ضروری ہے کہ روایت کی زبان ایک علامتی زبان  ہے ۔ اس روایت کا عرفی ترجمہ وہی ہے جو میں نے آپ کے سامنے پیش کیا، اس وقت آپ کی روح اور دل ہر لحاظ سے آمادہ و تیّار ہے ،وقت گزرنے کے  ساتھ ساتھ سیاست ، اقتصاد، روزی روٹی کے حصول ، زندگی کے دیگر وسائل و عیش وآرام ، زندگی کی راہ میں دیگر بے پناہ مشکلات و مسائل اور گناہوں کی وجہ سے دل کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے ، اگر ہم  نے عہدِ جوانی میں ان مشکلات پر قابو پانے کی مشق نہ کی تو یہ چیزیں  دل کی تاریکی و ظلمت  میں اضافہ کا باعث بنیں گی میری آپ سے سب سے اہم اور اصلی گزارش یہی ہے کیونکہ آپ میری اولاد کی طرح ہیں۔

میں اگر اپنی حقیقی اور نسبی اولاد کو ایک بہترین نصیحت کرنا چاہوں تو ان کو بھی وہی نصیحت کروں گا جو میں نے آپ  کو کی ہے ۔اس بات پر توجّہ دیجئے کہ مختلف میدانوں میں انسان سے جو لغزشیں سر زد ہوتی  ہیں ان میں سےاکثر اسی اہم اور اصلی نکتہ  سے غفلت برتنے کا شاخسانہ ہوا کرتی ہیں جس کا ہم نے تذکرہ کیا ۔ یہاں تک کہ میدانِ جہاد ، جنگ احد میں لشکرِ اسلام کی شکست  کا سب سے بڑا عامل یہی تھا ، جنگِ احد کے  واقعات سے آپ بخوبی آگاہ ہیں، اس جنگ میں کچھ افراد کی غفلت کی بنا پر ایک المیہ رونما ہوا ، اگر آپ نے جنگِ احد کا مطالعہ نہیں کیا ہے تو جائیے اور تاریخ کے صفحات کی ورق گردانی کیجئے تاکہ مجھے یہاں پر اس کی وضاحت نہ کرنا پڑے ، قرآنِ مجید ان افراد کے سلسلہ میں  یوں گویا ہوتا ہے " انّ الّذین تولّوا منکم یوم التقی الجمعان انّما استزلّھم الشّیطان ببعض ما کسبوا" (۳) (جن لوگوں نے دونوں لشکروں کے ٹکراؤ کےدن پیٹھ پھیر لی یہ وہی ہیں جنہیں شیطان نے ان کے کئے دھرے کی بنا پر بہکا دیا ہے )ترجمہ کا ماحصل یہ ہے کہ آپ نے جنگ احد میں جن لوگوں کو دیکھا کہ وہ میدان چھوڑ کا بھاگ کھڑے ہوئے اور اس المیہ کا باعث بنے ، سیّد الشہداء  جناب حمزہ(ع) اور دیگر بزرگ صحابۂ کرام کی  شہادت کا باعث بنے یہ وہی لوگ تھے  انّما استزلّھم الشّیطان ببعض ما کسبوا جنہیں شیطان نے ان کے اعمال کی بنا پر بہکا دیا ، ان کی لغزش ان  کے گناہوں کا نتیجہ تھی شیطان نے جس سے بھر پور استفادہ کیا اور انہیں راہِ راست سے گمراہ کر دیا، قرآن مجید میں اس جیسی دیگر متعدّد آیات بھی ہیں  جہاں اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے ،ملک کے انتظام و انصرام میں ، ملک کے کسی شعبہ کے انتظامی امور میں، میدانِ جنگ میں ، کسی مالی اور اقتصادی امتحان میں الغرض گناہوں سے اجتناب  نہ کرنے کا اثر ہر جگہ دکھائی دیتا ہے اسی وجہ سے ہم گناہوں سے اجتناب پر زور دے رہے ہیں ۔ مختصر طور پر آپ سے عرض کردوں کہ آپ جوانی کی قدر و قیمت کو پہچانیں ، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے پاک وپاکیزہ دلوں کو پہچانیں انہیں خدا سے مانوس کریں اس کا بہترین طریقہ گناہوں سے اجتناب اور فریضۂ نماز پر توجّہ مرکوز کرنا ہے ، جیسا کہ میں نے پہلے بھی عرض کیا کہ واجب نمازوں کی ادائیگی کے بعد جس قدر ممکن ہو مستحبّات ، دعا اور دیگر امور پر توجّہ دیجئے پروردگارِ عالم بھی انشاء اللہ آپ کی راہیں ہموار کرے گا ۔

میں نے کچھ مطالب یاد داشت کر رکھے ہیں جنہیں یہاں بیان کرنا چاہتا ہوں البتہ آ پ نے جو سؤالات اور موضوعات  یہاں اٹھائے وہ بھی اہمیت کے حامل ہیں  ، میں مناسب سمجھتا ہوں کہ  سب سے پہلے مذکورہ  موضوعات اور سؤالات  کے سلسلہ میں کچھ مطالب عرض کروں ، ان سوالوں میں سے ایک سوال یہ تھا کہ آیا طلبہ تحریک کو یہ حق حاصل ہے کہ اسے جہاں کہیں بھی کوئی خامی یا نقص دکھائی دے وہ اس کے بارے میں سوال کرے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ جی ہاں! سوال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے بشرطیکہ آپ اپنے طور پر کوئی  یکطرفہ فیصلہ نہ کریں جیسا کہ آپ میں سے ایک طالبِ علم نے یہاں اس بات کی طرف اشارہ کیا ، آپ سوال پوچھیے لیکن فیصلہ نہ کیجئے ، سوال جواب کا بہترین طریقۂ کار یہ ہے کہ ملک کے ذمّہ دارحضرات  طلبہ کی محافل میں زیادہ سے زیادہ حاضر ہوں ، میں اس موقع پر ملک کے اعلیٰ عہدیداروں سے گزارش کرتاہوں کہ طلبہ سے ملاقاتوں کے سلسلہ میں اضافہ کریں ، طلبہ عصرِ حاضر میں ہمارے ملک  کا سب سے بہترین طبقہ ہیں ، جو جوانی ،تعلیم ، فہم و فراست   جوش و جذبہ کی دولت سے مالا مال ہیں، ملک کے حکام ، طلبہ کی نشستوں میں حاضر ہوں ، وہاں پر ان سوالوں کو پیش کیا جائے آپ کو  ان کے تسلی بخش جوابات  بھی ملیں گے ۔ میرے ذہن میں بھی کبھی کبھی یہی سوالات یا ان سے مشابہ سوال پیدا ہوتے ہیں جب بھی ملک کے اعلیٰ عہدیداروں سے ملاقات ہوتی ہے  ان سے ان کے بارے میں سوال کرتا ہوں  وہ بھی اس کا جواب دیتے ہیں کبھی کبھی ہم ان کے جواب سے مطمئن ہو جاتے ہیں اور کبھی ان کا جواب تسلّی بخش نہیں ہوتا، بہرحال سوال ایک اچھی چیز ہے ، البتّہ ہوشیار رہیے کہ سوال اور مخالفت کو ایک دوسرے سے مخلوط نہ ہونے دیا جائے ۔ میں نے اس سے پہلے بھی بارہا اس بات  کی طرف اشارہ کیا ہے ، آج ایک بار پھر اس کا اعادہ کر رہاہوں کہ طلبہ یونینوں اور ان کی مختلف کمیٹیوں کو ہر گز یہ تصوّر نہیں کرنا چاہیے کہ ان کا فریضہ یہ ہے کہ وہ ملکی انتظامیہ کی مخالفت پر کمر کس لیں اور اس سے پیکار میں مصروف ہوجائیں، یہ کام غلط ہے ، اس کی کیا ضرورت ہے ؟ مخالفت و دشمنی ہر جگہ اچھی نہیں ہوتی ، عین ممکن ہے کہ کسی مقام پر مخالفت  درست ہو لیکن دوسرے مقام پر درست نہ ہو ، اہمیت اس بات کی ہے کہ آپ اپنے دل کی بات کہیے ، اپنے استدلال کو پیش کیجئے ، تسلّی بخش جواب طلب کیجئے ، حکام  بھی تسلّی بخش جواب دیں۔

ایک دوسرا سوال یہ ہے کہ کچھ لوگ اتحاد کی بات کرتے ہیں اور کچھ اخلاص پر زور دیتے ہیں اس بارے میں آپ کی رائے کیا ہے ؟ میری نگاہ میں دونوں ہی ضروری ہیں ، وہ خلوص جو آپ کے مدِّ نظر ہے کہ اب جب کہ کھرا کھوٹا سب واضح ہو چکا ہے لہٰذا ہم ان افراد کو اپنے  دائرہ سے خارج کر دیں جو خلوص سے عاری ہیں  کسی بھی اجتماع میں یہ خلوص لڑائی جھگڑے ، ایک دوسرے کے دست و گریبان ہونے ،سختی برتنے اور دباؤ ڈالنے سے حاصل نہیں ہوتا اور نہ ہی  ہم اس پر مامور ہیں ،صدرِ اسلام میں بھی پیغمبراسلام (ص) کے سبھی صحابی  درجہ کے اعتبار سے مساوی نہیں تھے ان میں جناب سلمان ، ابوذر ، ابی ابن کعب ، عمّارِ یاسر اور ان جیسے دیگر  مخلص اور صفِ اوّل کے صحابۂ کرام بھی تھے آنحضرت(ص) کے اصحاب میں کچھ متوسّط درجہ کے بھی تھے اور کچھ ایسے اصحاب بھی تھے جنہیں کبھی کبھی پیغمبراسلام (ص) کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑتا تھا ، آپ فرض کیجئے کہ اگر پیغمبرِ اسلام (ص)اس دور کے چند ہزار نفوس پر مشتمل  اسلامی سماج  میں خالص سازی کا عمل انجام دینا چاہتے تو کیا کرتے ؟ ان کے لئے کیا باقی رہ جاتا؟ حالانکہ ہماری  ستّر ملین  آبادی کے مقابلہ میں اس دور میں یہ عمل بہت آسان تھا ،اگر کسی شخص کو اس کے محض ایک گناہ کی وجہ سے  پیغمبر(ص) کے پاس سے چلا جانا چاہیے تھا ، اگر کسی کو پیغمبر(ص) کی ناراضگی کی وجہ سے  پیغمبر(ص) کا ساتھ چھوڑ دینا چاہیے تھا ،  اگر کوئی اس لئے دائرہ اسلام سے خارج ہوجاتا کہ اسے جہاں پیغمبرِاسلام (ص) سے اجازت نہیں لینا چاہیے تھا وہاں اس نے اجازت لی ، یا زکات کی ادائیگی میں تھوڑی سی تاخیر کی وجہ سے کوئی اسلام سے خارج ہوجا تا تو پیغمبرِ اسلام (ص) کے اردگرد کوئی باقی نہ رہتا ، آج بھی یہی صورتِ حال ہے۔ یہ ٹھیک نہیں ہے کہ آپ خالص سازی کا بہانہ بنا کر ضعیف الایمان افراد کو انقلاب کے دائرہ سے خارج کردیں بلکہ آپ کو حتّی الوسع مخلصین کے دائرہ کو وسیع کرنا چاہیے ، آپ کو ایسے عمل کا مظاہرہ کرنا چاہیے کہ جس کی وجہ سے معاشرہ میں مخلصین کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہو ، یہ اچھی چیز ہے اس کو عملی جامہ پہنانے کے لئے آپ اپنے دوستوں ، اعزا ء و اقارب ، اپنے خاندان، اپنی انجمن سے شروع کیجئے اس کے بعد بقدرِ امکان دیگر افراد میں فردی اور اجتماعی خلوص کی سطح کو اوپر لانے کی بھر پور کوشش کیجئے جس کے نتیجہ میں آپ کے معاشرہ کے خلوص میں روز افزوں اضافہ ہوگا ، راستہ کو صاف و شفّاف بنانے کا مطلب یہ ہے ۔

ہم نے جس اتّحاد کا تذکرہ کیا کہ جس کے سلسلہ میں بعض دیگر سوالات بھی پوچھے گئے اس اتّحاد سے ہماری مرادایسا اتّحاد ہے  جو اصولوں پر استوار ہو ، یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم کس سے اتّحاد کے خواہاں ہیں ؟ ہم ان  لوگوں سے اتّحاد قائم کرنا چاہتے ہیں جو انقلاب کے  اصولوں  کو مانتے ہوں ، یہ لوگ جس قدر ان اصولوں کو مانتے ہیں اسی قدر ہم ایک دوسرے سے متّصل  ہیں ،  اس چیز کو اہلِ ایمان کے درمیان ولایت سے تعبیر کیا جاتا ہے ، لیکن جو شخص اصول کو قبول نہ رکھتا ہو یا  کھلّم کھلّا اس کا اعلان کرے کہ وہ ان اصول کو نہیں مانتا تو ایسا شخص  ناگزیز طور پر اس دائرہ سے خارج ہے لہٰذا ہماری  مذکورہ توضیحات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے ہم اتّحاد اور اخلاص دونوں چیزوں کے حامی ہیں ، ایک دوسرا سوال جو آپ کی گفتگو میں بھی تھا اور دوسری جگہوں پر عام طور سے یہ سوال کیا جاتا ہے کہ آیا ہمیں بھی رہبرِ انقلاب کی طرح  کھلے عام اپنے مؤقف کا اظہار کرنا چاہیے یا نہیں ؟ اس سلسلہ میں عرض کردوں کہ  ہماری اور آپ کی اپنی مخصوص ذمّہ داریاں  ہیں ، کوئی بھی یہ تصوّر نہ کرے کہ رہبرِانقلاب کا مؤقف اس موقف سے مختلف ہوا کرتا ہے جو رسمی طور پر اعلان کیا جاتا ہے  اور اسے خفیہ طور پر بعض خواص اور مخلص افراد  کے اجتماع میں بیان کیا جاتا ہے تاکہ وہ اسے نافذ کریں  ، ہرگز ایسی کوئی چیز نہیں ہے اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے تو بالکل غلط ہے اگر اسے ہماری طرف نسبت دے تو  وہ یقینا گناہِ کبیرہ کا مرتکب ہو ا ہے ۔ رہبری کے مؤقف اور نظریات وہی ہیں جو اعلانیہ طور پر  بیان ہوتے رہتے ہیں میرا وہی مؤقف ہے جس کی میں خود وضاحت کرتا رہتا ہوں ۔

    کچھ برس پہلے ایران میں ایک قتل رونما ہوا ہمارے دشمنوں نے بھر پور پروپیگنڈہ کیا کہ اس قتل کا ارتکاب کرنے والوں کے پاس قتل کا فتویٰ اور حکم موجود تھا وہ اس طریقہ سے رہبری کو اس قتل میں ملوّث کرنا چاہتے تھے ، میں نے نمازِ جمعہ میں واشگاف الفاظ میں اعلان کیا کہ اگر مجھے کسی دن کسی شخص کے واجب القتل ہونے کا یقین ہوجائے تو میں نمازِ جمعہ میں اس کا اعلان کروں گا ، اس لئے یہ انتہائی غیر شائستہ اور نازیبا حرکت ہے کہ ہمارے اس مؤقف سے ہٹ کر کوئی بات بیان کی جائے جو ہم اعلانیہ اور واضح انداز میں بیان کیا کرتے ہیں ، حقیقت یہی ہے جو میں آ پ سے بیان کررہا ہوں ۔

البتہ یہ عین ممکن ہے کہ ہمارے اور آپ کے روزہ رکھنے اور نماز بجا لانے کے انداز میں کچھ فرق ہو آپ جوان ہیں ، آپ طالب علم ہیں ، آپ کی دینی اور اجتماعی سرگرمیوں پر جوانی غالب ہے آپ اور ہمارے طورطریقہ میں اختلاف کا پایا جانا ایک فطری امر ہے  ان ناگزیز اور فطری  اختلافات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا ۔

اس نظامِ حکومت کی حفاظت و بقا کا مسئلہ اٹھایا گیا ، میری نظر میں نظام کی حفاظت اور بقا واجب ہے بلکہ دیگر تمام واجبات سے بڑھ کر ہے ، نظام کی اپنی کچھ حدود ہیں منجملہ اس کی  اخلاقی اور ثقافتی حدود ہیں جن کی یقینا حفاظت ہونا چاہیے ۔

علمی مرجعیت اور اس کے تقاضوں کے سلسلہ میں چند نکات بیان کئے گئے وہ بالکل صحیح ہیں میں ملک  کے اعلیٰ عہدیداروں سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ ان نکات پر توجّہ دیں اور انہیں  نوٹ کریں ، ایک دوسرا اعتراض یہ تھا کہ عدل و انصاف کے تقاضوں کے مناسب  ثقافتی اشیاء تیار کیوں نہیں ہوتیں ؟ ہمارے ذہن میں بھی یہی اعتراض ہے یہ اعتراض  بجا اور درست اعتراض ہے ، ہماری ثقافتی مصنوعات میں وہ گہرائی اور دقت نہیں ہے حالانکہ ہمارے پاس اچھے فنکاروں ، قلم کاروں ، ہنرمندوں کی کوئی کمی نہیں ہے لیکن ایسے ثقافتی شاہکار شاذ و نادر ہی منصّہ شہود میں آتے ہیں جو ہمارے ثقافتی تقاضوں پر کھرے اترتے ہوں اس سلسلہ میں  ملک کے ثقافتی حلقوں کو مزید کوشش کرنا چاہیے ، آپ بخوبی واقف ہیں کہ یہ کام کوئی ایسا کام نہیں ہے جو راتوں رات  وجود میں آجائے ، ایسا نہیں ہے کہ ہمارے کہنے سے آئندہ چھ ماہ یا ایک سال کے اندر دس، بیس یاکم و بیشتر چند شاہکار انقلابی ، اسلامی اور ثقافتی فلمیں بنا کر نمائش کے لئے پیش کردی جائیں  بلکہ اس کے لئے بنیادی ڈھانچہ کی فراہمی ایک لازمی امر ہے جب تک یہ بنیادی ڈھانچہ فراہم نہ ہو اس سلسلہ میں کوئی پیشرفت نہیں ہوسکتی ، ابھی اس بنیادی ڈھانچہ میں بہت سی خامیاں ہیں ،مختلف حکومتوں کے دورمیں ان بنیادی ڈھانچوں کی تعمیر ہونا چاہیے تھی لیکن افسوس! کہ بعض حکومتوں کے دور میں اس بنیادی ڈھانچہ کو تباہی و بربادی کا سامنا بھی کرنا پڑا !  بعض اوقات نہ فقط یہ کہ ہمارے اعتقادی اور ثقافتی بنیادی ڈھانچہ کو مضبوط کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی بلکہ اسے خراب کیا گیا ! اب ان کی از سر نو تعمیر کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں آپ کا اعتراض بجا اور درست ہے مجھے بھی ریڈیو وٹیلیویژن ، وزارتِ ارشاد ، سازمانِ تبلیغات اور دیگر ثقافتی و ہنری اداروں پر  یہی اعتراض ہے ،  اس موضوع پر  ہم نے ان اداروں کے ذمّہ دار حضرات سے کئی مرتبہ گفتگو کی ہے ، ان کے سامنے اپنے استدلال کو پیش کیا ہے ، وہ کام جو ملک کی انتظامی مشینری کو کرنا چاہیے کبھی کبھی وہی کام مجبورا مجھے کرنا پڑتا ہے ، ابھی ماضیٔ قریب میں ثقافتی امور کے ذمّہ داران سے ہنری ، سینمائی اور دیگر ثقافتی شعبوں پر بحث و گفتگو کے لئے ہم نے متعدّد نشستیں منعقد کی ہیں ہم نے مل بیٹھ کر ان مسائل کے بارے میں تبادلۂ خیال کیا ہمیں پوری توقّع ہے کہ جلد ہی اس کے مطلوبہ نتائج سامنے آئیں گے ، بہرحال آپ کا یہ مطالبہ  اپنی جگہ بالکل درست ہے ۔

آپ میں سے ایک صاحب نے ثقافت اور صحّت عامہ کے شعبہ کی نجکاری کے بارہ میں ایک نکتہ کی طرف اشارہ کیا میری نگاہ میں بھی  یہ نکتہ  بالکل درست ہے  ، نجکاری کا تعلّق ملک کے بنیادی آئین کی دفعہ چوالیس کے ذیل میں  ذکر ہونے والے اداروں اور کمپنیوں سے ہے ، اس  کی تعریف بالکل واضح و آشکار ہے ، ہماری نظر میں ثقافت ، صحّت ِ عامہ اور ان جیسے دیگر مسائل مذکورہ دفعہ کی رو سے نجکاری کے دائرہ میں نہیں آتے ، متعلّقہ حکام کی جانب سے بھی اس سلسلہ میں بعض چیزیں مجھ سے بیان کی گئی ہیں ۔ میری نظر میں یہ اعتراض بھی  درست ہے ، اس پر توجّہ دینا جانا چاہیے ۔

خارجہ پالیسی اور انقلاب  کے صدور میں طلبہ کے کردار کی بڑی اہمیت ہے ، یہ کوئی بیہودہ کام نہیں ہے اس کے یقینا بہت سے فوائد ہیں لیکن آپ  یہ بات ذہن میں ضرور رکھئیے کہ اس سلسلہ میں بہت سا کام ہو رہا ہے ، ایشیا، افریقہ ، لاطینی امریکہ میں مسلم اقوام اور دیگر قوموں سے روابط کو فروغ دینے کی بھرپور کوشش کی جارہی ہے ، لاطینی امریکہ میں اگر چہ کوئی اسلامی ملک نہیں ہے لیکن وہاں برازیل  اور اس جیسے  بعض دیگر ممالک میں عربی ، لبنانی ، شیعہ اور دیگر اسلامی مذاہب سے تعلّق رکھنے والے مسلمانوں کی ایک بہت بڑی تعداد آباد ہے ، وہاں بہت کام ہورہاہے ، آپ کو اس کی زیادہ معلومات نہیں ہیں ، میری نظر میں اس بات میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ طلبہ اس میدان میں اپنا سرگرم کردار ادا کریں لیکن یہ کام حساب و کتاب کی بنیاد پراور پروگرام کے تحت ہونا چاہیے ۔

امتیازی سلوک کے بارے میں بھی کچھ مسائل کی طرف اشارہ کیا گیا ، میں نے  یہاں بریکٹ میں لکھ رکھا ہے  کہ یہ اعتراض بھی بجا ہے ، بعض اعتراضات  حقیقت میں  درست ہیں ۔ کچھ لوگوں نے بہترین صلاحیت  سے سرشار ممتاز طلبہ کے بیرونِ ملک فرار کا مسئلہ اٹھایا ، ایک خاتون نے کہا کہ جب ہم ان لوگوں سے معلوم کرتے ہیں کہ آپ ملک چھوڑ کر باہر کیوں جارہے ہیں تو ان کا جواب ہوتا ہے کہ ملک کے اندر بعض وہ امور جن پر کام ہونا چاہیے تھا ان سے غفلت برتی گئی ہے اور بعض ان چیزوں پر کام ہوا ہے جن کی چنداں ضرورت نہیں تھی ، میں اس سے انکار نہیں کرتا ، عین ممکن ہے کہ یہ اعتراض درست ہو ، لیکن جو طالب علم اپنی تعلیم کے دوران یا اس سے فارغ ہونے کے بعد بیرونِ ملک  چلا جاتا ہے  اس کے پسِ پردہ غالبا کچھ دیگر عوامل کارفرما ہوتے ہیں ، یہ چیزیں تو محض ایک بہانہ ہیں ، بیرون ملک کچھ لوگ ان کو سبز باغ دکھاتے ہیں ، روزگار کے مواقع اور اچھی نوکری کی لالچ دیتے ہیں ، یہ طالب ِ علم بھی یہ سوچتا ہے کہ وہاں جا کر نہ جانے کہاں سے کہاں پہنچ جائے گا ، شاید بیرونِ ملک کے کچھ حکومتی ادارے بھی اس میں ملوّث  ہوں جو طلبہ کے شوقِ تعلیم اور اس کی صلاحیت سے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے  ہوں، ان کا مقصد یہ ہے کہ وہ اس طریقہ سے اسلامی جمہوریہ ایران کی مخالفت کا اظہار کر سکیں ،  اسی وجہ سے وہ اس مسئلہ پر سرمایہ کاری کر رہےہیں اور ہمارے طلبہ کو اپنے ممالک میں لے جاتے ہیں ۔ جو طلبہ وہاں جاتے ہیں ان میں سے بعض کامیابی کی منزل سے ہمکنار ہوتے ہیں تو کچھ کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے وہ اپنے کئے پر بہت نادم ہوتے ہیں ، ہم ایسے افراد کو بھی  جانتے ہیں ، دوسری طرف ہم ایسے بھی طلبہ سے واقف ہیں  جن پر  ملک سے بھاگنے  کا بھوت سوار نہیں ہے ، وہ تعلیم کی غرض سے بیرونِ ملک جاتے ہیں لیکن اپنے  مذہبی ، اسلامی اور خیر خواہانہ جذبہ کی بدولت اپنے ملک کی آغوش میں لوٹ  آتے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ  طلبہ ملک سے  صرف فرار ہور ہے ہیں بلکہ کچھ لوٹ کر بھی آرہے ہیں ، ہم ایسے افراد سے آشنا ہیں جوممتاز علمی مقام رکھتے ہیں ، نابغۂ دہر ہیں ، برجستہ علمی شخصیت کے مالک ہیں وہ اپنے ملک کے دامن میں لوٹ آئے ہیں اور یہاں مصروفِ عمل ہیں ، ملک و قوم کی خدمت میں مشغول ہیں ، یہ سفر یک طرفہ نہیں ہے بلکہ بیرونِ ملک سے بھی کچھ لوگ واپس آرہے ہیں ، یہاں بھی وسائل کی کمی نہیں ہے ، اس سلسلہ میں مزید کام ہورہا ہے ۔

آپ میں سے ایک عزیز دوست نے یونیورسٹی پر حملہ کا تذکرہ کیا میں نے اس واقعہ کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کی ہے اور آج بھی اسی کوشش میں  مصروف ہوں ، مجھے قبول ہے کہ اس  کی پیشرفت سست رفتاری کا شکار رہی ہے اس میں پیشرفت ہونا چاہیے اور انشاء اللہ یہ پیشرفت ہوگی ، آپ یہ تصوّر نہ کیجئے کہ یہ مسئلہ فراموشی کا شکار ہوگیا ہے ، لیکن یہ یاد رکھئیے کہ اس سلسلہ میں مشکلات بہت ہیں ، بہت زیادہ امور پرکام ہونا ہے ۔ بعض اداروں میں اس سلسلہ میں تعاون کا جذبہ  بہت کمزور ہے ، ان کاجذبہ کمزور ہے یہی وجہ ہے کہ یہ معاملہ سست رفتاری کا شکار ہے انشاء اللہ اس میں پیشرفت ضرور ہوگی ۔

یہ کہا جاتا ہے کہ یونیورسٹیوں  میں سیکورٹی اور نظم و ضبط  کے لحا ظ سے بہت سختی برتی جاتی ہے ، مجھے نہیں معلوم کہ یونیورسٹیوں میں کس نوعیت کی سکیورٹی اور نظم وضبط کی سختی برتی گئی ہے لیکن اتنا جانتا ہوں کہ یونیورسٹی میں نظم و ضبط اور قانون کی پاسداری بہر حال لازم ہے ، ممکن ہے اس سلسلہ میں بعض اوقات افراط و تفریط سے کام لیا جاتا ہو مجھے اس کا علم نہیں ہے لیکن نظم و ضبط  بہر حال ضروری ہے ، یونیورسٹی کے ماحول کو یوں ہی نہیں چھوڑا جا سکتا چونکہ دشمن کے بہت سے حملوں کا محور و مرکز یونیورسٹی ہے ، آپ بھی اچھی طرح جان لیجئے کہ آپ اس سرخ لکیر کے وسطی دائرہ میں ہیں ، جب فوٹو یا فلموں میں کسی خاص نقطہ کو معیّن کیا جاتا ہے تو اسے سرخ دائرہ کے ذریعہ معیّن کیا جاتا ہے بالکل ویسے ہی ہمارے دشمنوں نے آپ کو سرخ دائرہ میں قرار دیا ہے دشمن کی بہت سی سازشوں کا نشانہ آپ ہیں ، دشمن آپ کو راہِ راست سے منحرف کرنے ، آپ کے پائے ثبات میں لغزش پیدا کرنے، ملک اور انقلاب کی تقدیر اور مصلحت سے   غافل کرنے کے لئے نت نئی سازشیں کر رہا ہے ۔

یہ کیسے ممکن ہے کہ ایسے ماحول میں  یونیورسٹیوں پر نظر نہ رکھی جائے ؟یونیورسٹیوں پر نظر رکھنا ضروری ہے لیکن کسی بھی کام میں انتہا پسندی اور افراط اچھی چیز نہیں ہے منجملہ اس کام میں بھی تند روی درست نہیں ہے ۔

ایک دوست نے کہا کہ تفکّر اور علم  کے بارے میں امر و نہی سے کام نہ لیا جائے ، مجھے ایسی کسی چیز کا علم نہیں ہے ، ہمارے معاشرہ میں علم تفکّر اور سوچ  پر امر و نہی حکم فرما نہیں ہے اور نہ ہی  علم کسی حکم کا تابع ہے ، یہ چیز کہاں ہے ؟ اس کی نشاندہی کیجئے میں پہلا شخص ہوں جو اس کا مخالف ہوں ، ہم اظہارِ خیال کی آزادی کے حامی ہیں البتّہ میں آپ سے یہ کہہ دوں کہ اظہارِ خیال کی آزادی  کی  جولان گاہ ٹیلیویژن نہیں ہے، بلکہ اس کی جگہ ماہرین کی نشستیں ہیں ، بعنوانِ مثال اگر آپ کو کسی سیاسی مسئلہ پر بحث و گفتگو کرنا ہے تو اس کے لئے پانچ ، دس طلبہ کو دعوت دیجئے  کہ وہ اس موضو ع پر بحث و گفتگو کریں اسے آزادیٔ رائے اور خیال کہا جاتا ہے اسی طریقہ سے اسلامی معارف اور دنیا کے دیگر عالمی مکاتبِ فکر کے سلسلہ میں  بحث و گفتگو کی جاسکتی ہے ، کسی علمی مسئلہ پر بحث و گفتگو کرنے کا طریقۂ کار بھی یہی ہے ، لہذاان مسائل  پر خصوصی نشستوں میں بحث و گفتگو ہونا چاہیے ورنہ اگر ریڈیو یا ٹیلیویژ ن پر  چند افراد ان مسائل پر بحث و گفتگو کریں گے تو یہ ضروری نہیں ہے جو شخص حق پر  ہو وہ مدِّ مقابل پر حتمی طور پر غالب آجائے گا بلکہ وہاں ایسا شخص غالب آئے گا جو عیّاری و مکّاری سے کام لے گا  جو زیادہ بناوٹ کرسکے گا، سانپ اور سانپ کی تصویر والے واقعہ کی طرح، جب لوگوں سے معلوم کیا گیا کہ واقعی سانپ کون سا ہے تو انہوں نے سانپ کی تصویر کی طرف اشارہ کیا  اور کہا کہ سانپ یہ ہے ۔ لٰہذا  اظہارِ خیال اور رائے کی آزادی کو اس کے موضوع کے مطابق مناسب  جگہ پر انجام پانا چاہیے ، عام مقامات اور جگہیں ان بحثوں اور مناظروں کے لئے ہرگز موزوں نہیں ہیں،  اس کامطلب یہ نہیں ہے کہ اسے تھوپا جا رہا ہے، ایسا نہیں ہے، کوئی حق بات پیش کی جاتی ہے  ارشادِ ربّ العزّت ہے " ادع الیٰ سبیل ربّک بالحکمۃ والمو عظۃ الحسنۃ و جادلھم بالّتی ھی احسن  " (۴)(آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ذریعہ دعوت دیں اور ان سے اس طریقہ سے بحث کریں جو بہترین طریقہ ہے ) حکمت ، اچھی نصیحت اور بہترین بحث و جدل کا فلسفہ کیا ہے ؟ " ادع الیٰ سبیلِ ربّک "  یہ ایک ناقابل تردید اصل ہے ، یعنی دعوت کا رخ خدا کی طرف ہونا چاہیے ، ہر کام  میں ایسا ہی ہونا چاہیے ، دعوت کاانداز اور طورطریقہ اچھا ہونا چاہیے اسی کے ساتھ ساتھ اس کی سمت و سو بھی معیّن ہونا چاہیے ، یہ بات بالکل بے معنیٰ ہے کہ انسان دعوت کی سمت و سو کو معیّن نہ کرے ، یہ چیز گمراہی کا باعث بنتی ہے ، لوگوں کی راہنمائی کرنا چاہیے ، آپ کا کہنا ہے کہ حکومتیں عوامی رائے عامہ اور افکار کی راہنمائی کی ذمّہ دار ہیں ، اس سلسلہ میں بہت اچھی بات کہی گئی ، اس بارے میں  عزیزوں نے بہت اچھے خیالات کا اظہار کیا ، ایک عزیزنے کہا کہ صدر ِ جمہوریہ سے  ہمارا دل خون ہے ، خدا نہ کرے کہ آپ کا دل خون ہو لیکن میں آپ سے عرض کردوں کہ یہ مسائل ملک کے اصلی اورسرنوشت  ساز مسائل میں سے نہیں ہیں ، عین ممکن ہے کہ آپ کی بات  صحیح ہو میں اس سلسلہ میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہتا ، ممکن ہے کہ کسی شخص کو کسی شخص یا اس کے کسی کام پر اعتراض ہو لیکن ہمیں تمام مسائل کو اصلی و فرعی مسائل میں تقسیم کرنا چاہیے ، ایسا نہ ہو کہ کہیں  ہمارے عزم و حوصلہ اور طاقت و قوّت کے مصرف میں دوسرے درجہ کے مسائل پہلے درجہ کے مسائل کی جگہ لے لیں ، میں آپ سے فقط اتنا ہی عرض کرنا چاہتا ہوں ، ورنہ مجھے زید یا عمر پر تنقید کرنے پر کوئی اعتراض نہیں ہے  ، ممکن ہے کوئی آپ کو اچھا لگے اور کوئی برا لگے  مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے  اور نہ ہی مجھے اس تنقید( جب تک وہ بد نیتی پر مبنی نہ ہو)  کے زبان پر لانے پر کوئی اعتراض ہے لیکن آپ اس بات کو ملحوظِ نظر رکھئے کہ یہ چیز اصلی مسائل کی جگہ نہ لے ، ہمارے اصلی مسائل کچھ اور ہیں  ۔

یہاں پر اقتصاد میں عوام کی حصّہ داری اور قانون کی دفعہ چوالیس کے نفاذ کا مسئلہ اٹھایا گیا ، دفعہ چوالیس کا نفاذ عمل میں لانے والے اہلکار اس بات کا دعویٰ کر رہے ہیں کہ وہ اس دفعہ کو خوش اسلوبی سے نافذ کر رہے ہیں البتہ پارلیمنٹ کے اندر اور باہر  ان کے مخالف بھی ہیں جو وقتا فوقتا ان پر  اعتراض کرتے رہتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ دفعہ چوالیس پر صحیح ڈھنگ سے عمل درآمد نہیں ہو رہا ہے ، لیکن  کے نفاذ کے ذمّہ داروں کا کہنا ہے کہ ایسا نہیں ہے  ، ہم اسے بخوبی نافذ کر رہے ہیں ، میری نظر میں یہ سوال بھی ان سوالوں میں سے ہے جس کے بارے میں متعلّقہ حکام معلوم کرنا چاہیے،ان اہلکاروں کو یونیورسٹی کی محافل میں حاضر ہونا چاہیے اور اس بارے میں وضاحت کرنا چاہیے اور واقعی میں کوئی کام انجام پایا ہے تو اسے بیان کریں اور ہمارے جوانوں کو مطمئن کریں اگر وہ کوئی تسلّی بخش جواب نہ دے پائیں تو انہیں اپنی کارکردگی پر نظرِ ثانی کرنا چاہیے ۔

آپ نے ریڈیو و ٹیلیویژن پر تنقید کی ، آپ کی تنقید بجا ہے ، آپ نے ملک کے اعلیٰ عہدیداروں کے اختلافات کے برملا ہونے پر تنقید کی ، آپ اس تنقید میں بھی حق بجانب ہیں ، مجھے بھی اس پر اعتراض ہے ، اور میں نے اپنا اعتراض ان تک پہنچایا ہے اور اس سلسلہ میں ان کی سرزنش کی ہے  ۔

ملکی پارلیمان کے سامنے دھرنے کی طرف اشارہ کیاگیا ، میں اس بارے میں کوئی اظہارِ خیال نہیں کرنا چاہتا ، اس سلسلہ میں صرف اتنا ہی کہنا چاہتاہوں کہ آپ ملک کے حکّام کے بارے میں گلہ مند ہیں  کہ وہ تنقید برداشت نہیں کرتے آپ بھی تنقید برداشت کیجئے ! تنقید پذیری محض حکام سے مخصوص نہیں ہے اگر طلبہ  میں کوئی خامی ہے تو انہیں  خندہ پیشانی سے اسے  قبول کر لینا چاہیے ۔ ملکی پارلیمان کے سامنے ایک اچھا خاصا مجمع  جمع ہو گیا تھا  جو نعرے لگا رہا تھا ، ان کے نعرے بھی برے نہیں تھے لیکن ان میں سے ایک گروہ  نے زیادتی کی اور کچھ سخت قسم کے نعرے بلند کئے ، میں نہیں کہتا کہ یہ لوگ برے ہیں یا نالائق ہیں لیکن انہوں نے بہر حال زیادتی کی ، ناپختگی و کم تجربی کا مظاہرہ کیا ، اگر آپ سمجھتے ہیں کہ یہ نعرے افراطی تھی ، ان سےکسی کی حق تلفی ہوئی تو اسے قبول کر لیجئے ۔ایسا نہ ہو کہ آپ ہر اس چیز کو موردِ اعتراض قرار دیں جس سے یونیورسٹی کے طلبہ کی قبا(حالانکہ یونیورسٹی کے طلبہ  قبا نہیں رکھتے ) کا کوئی گوشہ کہیں  الجھتا ہو ،آپ بھی تنقید کو کھلے دل سے قبول کیجئے۔

کچھ افراد نے بتایا کہ وہ ولایت  کے مسئلہ میں سرگرم و فعّال ہیں اس سلسلہ میں انہوں نے "ضیافتِ اندیشہ " نامی نئے اقدام کی وضاحت کی ، جس سے مجھے انتہائی  مسرّت ہوئی ، کچھ لوگوں نے اس بات کی طرف اشارہ کیا کہ انہوں نے ملک کا ایک جامع علمی نقشہ تیّار کیا ہے جو موجودہ نقشہ سے مختلف ہے ، میں اس نقشہ کا کھلی آغوش سے استقبال کرتا ہوں اس نقشہ کو ہم تک پہنچائیے ۔ ہمارے عوامی رابطہ کے دفتر کو اس چیز کو یاد داشت کرنا چاہیے اور ان سے یہ نقشہ حاصل کرنا چاہیے ، یونیورسٹی طلبہ  کے تفریحی سفر اور ملاقاتوں  سے میں بھی موافق ہوں۔

میں نے کچھ مطالب کو یاد داشت کر رکھا ہے، افسوس کہ دامنِ وقت میں گنجایش نہیں ہے اس لئے مختصر طور پر انہیں عرض کررہا ہوں ، ایک اہم چیز جس کے متعلق میں آ پ کو ہوشیا ر رہنا چاہیے وہ یہ ہے کہ نہ تو  مختلف طلبہ یونینوں  کے اندر کوئی اختلاف ہونا چاہیے اور نہ ہی دیگر یونینوں سے ان کا کوئی تصادم  ہونا چاہیے ، ہم جس اتحاد پر زور دیتے آئے ہیں اس کا ایک اہم اور ممتاز مصداق یہی ہے ، بنیادی و شناختی اصول ہی انسانوں کو ایک دوسرے سے دور یا قریب کرتے ہیں ، اگر ان مبانی و اصول پر وہ متّفق نہ ہوں تو ان میں جدائی  اور دوری بڑھتی ہے لیکن اگر وہ ان مبانی و اصول پر متّفق ہوں تو ان کے درمیان قربت و نزدیکی  وجود میں آتی ہے ، سلیقہ و طور طریقہ میں اختلاف کوئی بری چیز نہیں ہے ، ہر کوئی ایک مخصوص سلیقہ اور ذوق  کا مالک ہے  ، کوئی طالب علم  شعبۂ انجینئرنگ سے منسلک ہے تو کوئی شعبۂ ہنر سے اور کوئی شعبۂ ڈاکٹری سے ، ان کا سلیقہ مختلف ہو سکتا ہے ، ان کے ذیلی شعبوں میں بھی سلیقوں اور طور طریقوں  میں اختلاف کا ہونا ایک فطری چیز ہے ، کسی کو کوئی چیز اچھی لگتی ہے تو کسی کو اچھی نہیں لگتی ، اس چیز کو ایک دوسرے سے جدائی اور دوری کا عامل قرار نہ دیں ، یہ مسئلہ میری نظر میں بہت اہم مسئلہ ہے ۔

ایک دوسرا نکتہ ان مسائل کے متعلق ہے جو ملک کی تقدیر و سرنوشت  سے مربوط ہیں ، ان مسائل کا تجزیہ کیجئے اور ان کے بارے میں اپنے مؤقف کو واضح کیجئے ۔ تہران کی سہ فریقی قراراداد بہت اہم تھی ، اس معاہدہ کے سلسلہ میں آپ  کی رائے کیا ہے ، آپ  کا مؤقف کیا ہے ؟ آپ اس کے مخالف ہیں یا حامی ؟ اسلامی جمہوریۂ ایران کے خلاف  سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر ۱۹۲۹صادر ہو چکی ہے جس کی رو سے امریکہ اور یو رپ کی جانب سے ایران کے خلاف  یکطرفہ پابندیاں عائد کی گئی ہیں اس کے بارے میں آپ کا تجزیہ کیا ہے ؟ یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے ۔ اس کے بارے میں آپ کا موقف کیا ہے ؟ اس سلسلہ میں ایران کو کیا اقدام کرنا چاہیے ؟ ان کی دھمکیوں ، گیدڑ بھبکیوں ، اقتصادی پابندیوں سے مرعوب ہو کر ان کے سامنے سرِ تسلیم خم کر لیں ؟ کیا ہمیں  اپنے مؤقف میں تھوڑی سی لچک لانا چاہیے ؟ اس سلسلہ میں آپ کا تجزیہ و تحلیل کیا ہے ؟ ہمارے ملک کے اندر کچھ سیاسی گروہ اسی مؤقف کے طرفدار ہیں ، ان کا نظریہ یہ ہے کہ جب آپ کا مدِ مقابل  زیادہ سخت مؤقف اختیار کئے ہوئے ہو تو آپ کو پیچھے ہٹ جانا چاہیے! کیا آپ کو ان کا یہ مؤقف قبول ہے ؟ کیا ہم عقب نشینی اختیارکرلیں ؟ یا ہمیں ایسا نہیں کرنا چاہیے، یا اس کے برخلاف آپ کا مؤقف یہ ہے کہ کسی قسم کی لچک دشمن کو ہمارے مقابلہ میں اور بھی جری کر دیتی  ہے ۔ وہ جیسے ہی یہ دیکھتے ہیں کہ کوئی انکی ترش روئی ، ان کی دھمکیوں یا رعب سے ڈر جاتا ہے تو وہ یہ کہتے دکھائی دیکھتے ہیں کہ اس کا علاج یہی ترش روئی ، دھمکی اور مارپٹائی ہے اسی سلسلہ کو جاری رکھیں گے تا کہ آپ کو اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کرسکیں ، بلکہ ان میں مزید اضافہ کرتےجائیں گے تاکہ آپ اپنے تمام ارادوں سے دستبردار ہوجائیں ، آپ کا مدِ مقابل اس خصوصیت کا حامل ہے ، آج کی دنیا پر یہی سیاست حکم فرما ہے ۔

ایک دوسرا نکتہ جو آپ عزیزوں سے عرض کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ میرے بھائیواور بہنو! بنیادی اصول کی تقویت پر سنجیدگی سے توجّہ دیجئے ، البتّہ سات سال قبل کی طلبہ کی نشست کا تقابل جب موجودہ نشست سے کرتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ  طلبہ کے درمیان بنیادی اصول پر توجّہ میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے  ، آپ جو اظہارِ خیال کرتے ہیں  وہ آپ کے اذہان میں ان اصول کی تقویت کا غمّاز ہے ۔ ہم اس پیشرفت کو محسوس کر رہے ہیں لیکن طلبہ یونینوں کو اس کی تقویت کے سلسلہ میں مزید اقدامات کرنا چاہیے تاکہ عام طلبہ اس سرچشمہ سے فیض یاب ہو سکیں ، بنیادی اصول کی تقویت بہت ضروری ہے ، بنیادی اصول  کی کمزوری پورے ملک کے طلبہ اور طلبہ یونینوں کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچائےگی ۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہےکہ تمام طلبہ یونینیں اور طلبہ کمیٹیاں ، طلبہ سے اپنے روابط کو مستحکم  بنائیں، آپ عام طلبہ سے غافل نہ ہوں ، مجھے بتایا گیا ہے کہ " ضیافتِ اندیشہ" نامی  نشستوں اور تفریحی سفروں  کو شروع کیا گیا ہے یہ انتہائی اچھا اقدام ہے یہ طلبہ سے رابطہ بڑھانے کی راہوں میں سے ایک اہم راستہ ہے ، میری نظر میں طلبہ اور اساتذہ سے  مختلف مناسبتوں سے بلکہ پورے سال رابطہ بنائے رکھنے کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔

دو خواتین نے اس نشست میں انسانی علوم کے بارہ میں گفتگو کی ، ان کی بات بالکل صحیح ہے ، ان کی تنقید بجا ہے ،یہ ہمارے دل کی آواز ہے ، یہ وہی چیز ہے  جو مجھے منظور ہے ، گذشتہ دو برس سے میں مسلسل اس پر زور دیتا آیا ہوں ، کہ ہمارے محقّقوں ، اسکالروں اور صاحبانِ فکر و نظر کو ایسے علومِ انسانی کی تدوین  کرنا چاہیے جو دینِ اسلام کے اصول پر منطبق ہوں ، ایسے انسانی علوم جو مغربی دنیا کے موجودہ  غلط اور نادرست مادی نظریہ پر استوار نہ ہوں ، اگر سیاسی و اقتصادی علوم نیز بقیہ انسانی علوم  موجودہ دنیا کے مادی نظریۂ حیات اور مادی اقدار پر استوار ہوں تو ایسے علوم کسی مسلم اور صاحب ِ ایمان سماج کی توقّعات پر ہرگز کھرے نہیں اتر سکتے ۔

آخر میں آپ تمام بھائیوں اور بہنوں سے ایک جملہ عرض کرنا چاہتا ہوں ، میرے عزیزو! آپ جان لیجئے کہ ہماری خوش قسمتی سے مختلف میدانوں میں ہمارے ملک کی ترقّی کی رفتار بہت اچھی اورمطلوب ہے ۔ عدل و انصاف کے قیام کی رفتار بھی اچھی ہے ، اس عشرہ کو ترقّی و انصاف کا عشرہ قرار دیا گیا ہے ، ترقی سے مراد، علمی ، سائنسی ، سیاسی ، ٹیکنالوجی اور اخلاقی میدان میں ترقّی مراد ہے ، ان سبھی شعبوں  کی ترقّی ہمارے پیشِ نظر ہے ۔ اس سلسلہ میں کچھ اچھّے اقدام اٹھائے جا رہے ہیں ، عظیم  کاموں اور برق رفتار ترقّی  کے لئے بنیادی ڈھانچہ فراہم کیا جارہا ہے ۔ عدل و انصاف کے قیام کا نظریہ تمام معاشرہ میں پھیلتا جارہا ہے ، سبھی کے اندر یہ اعتقاد پیدا ہوتا جا رہا ہے کہ ہمیں عدل و انصاف کے قیام کی طرف آگے بڑھنا چاہیے ، اسے عملی جامہ پہنانا چاہیے ، ان تمنّاؤں اور آرزوؤں کو جامۂ عمل پہنانا چاہیے ۔ اسے نفاذ کے مرحلہ میں داخل کرنا چاہیے ،آپ کے خیالات میں بھی اسی چیز کی طرف اشارہ کیا گیا تھا یہ چیز اپنے آپ میں ایک بہت بڑی پیشرفت اور ترقّی ہے ۔ لیکن اس کامطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ ہم موجودہ ترقّی اور عدل و انصاف پر قناعت کر لیں ، ہماری آرزوئیں اور عزم و حوصلہ اس سے کہیں بلند و بالا ہے ، میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ہم لگاتار آگے بڑھ رہے ہیں ، ہم مسلسل ترقّی کر رہے ہیں ، ہمارے دشمن زبوں حالی اور کمزوری کا شکار ہوتے جا رہے ہیں ، اور ہم مزید قوی ہوتے جارہے ہیں، امریکی حکومت کی شکل میں دنیا کا طاغوتی اور سرمایہ دارانہ نظام گذشتہ دس ، بیس برس کے مقابلہ میں بہت کمزور ہوچکا ہے ، دوسری طرف  اسلام اور اسلامی جمہوریۂ ایران کا طرزِ فکر گزشتہ دس، بیس برس کے مقابلہ میں کہیں زیادہ قوی ، مستحکم ، ترقّی یافتہ اور قابل نفاذ بن چکا ہے ، ہمارے جوان گذشتہ دس برس کے مقابلہ میں بہت بہتر ہیں ، بہت زیادہ آمادہ ہیں ، دس سال پہلے کے مؤمن جوان آج بھی اسی جوش و خروش سے زندگی کے بہت سے شعبوں میں سرگرم ِ عمل ہیں ، انشاء اللہ  مستقبلِ قریب میں آپ بھی  ملک کی تعمیر و ترقّی میں بھر پور کردار ادا کریں گے ۔اس مشکل اور دشوار امتحان کے لئے اپنے آپ کو تیّار کیجئے ، ہم آگے بڑھ رہے ہیں ۔انقلاب کی کامیابی کے اکتیس ، بتّیس سال کے عرصہ میں ہم نے دشمن کی بے پناہ عداوتوں کے باوجود ترقّی کے اکتیس ، بتّیس مرحلے  طے کئے ہیں ، ہمارے دشمن آج سے تیس برس پہلے کی طرح اتنے طاقتور نہیں ہیں ، عصرِ حاضر میں امریکہ تیس سال پہلے کی طرح طاقتور نہیں ہے ، اس دن ملک کے اعلیٰ عہدیداروں سے بھی میں نے یہی بات کہی تھی ، مجھے اس پر پختہ یقین ہے ، تمام قرائن و شواہد بھی اس کی گواہی دے رہے ہیں ، اس دور کی ریگن کی حکومت ،اوبامااورچھوٹے بش  کی حکومت  سے کہیں زیادہ طاقتور اور مستحکم تھی ۔ حقیقت بھی یہی ہے ، وہ روز بروز کمزور ہوتے گئے ، اس بات کے آثار نہیں دکھائے دیتے کہ وہ پستی و نشیب سے دوبارہ بلندی کی طرف گامزن ہو پائیں گے ۔ اس کے برخلاف اس بات کے نمایاں آثار دکھائی دے رہے ہیں کہ انشاء اللہ  ایرانی قوم اور اسلامی نظام  انتہائی برق رفتاری سے اپنے ارتقائی سفر کو جاری رکھیں گے ۔

خدایا! ان مؤمن اور جوان دلوں پر اپنی رحمت و عنایت نازل فرما۔ پروردگارا ! ہم نے جو کچھ کہا اور جو کچھ سنا اس میں اخلاص عطا فرما اور اپنے لطف و کرم کے طفیل اسے ہم سے قبول فرما ۔ اے خدا! ہماری زندگی کو اسلام اور اپنی راہ کے لئے وقف کر دے ، ہماری موت کو اپنی اور اسلام کی راہ  میں قرار دے ۔ اے خدا! ہمیں   اپنے اولیاء ، اپنے دوستداروں ، اور اپنی بارگاہ  کی برگزیدہ ہستیوں شامل فرما ۔ امامِ زمانہ (عج) کے مقدّس دل کو ہم سے راضی فرما ، امامِ امت اور شہدائے کرام کی ارواحِ طیّبہ کو ہم سے خوشنود فرما ، اپنے سچّے راستے میں مزید اتحاد کی خاطر ان طلبہ کے دلوں کو ایک دوسرے سےزیادہ سے زیادہ قریب فرما ۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) نہج البلاغہ ، خطبہ نمبر ۲۷

(۲) سورۂ عنکبوت ، آیت نمبر ۴۵

(۳) سورۂ آلِ عمران ،  آیت نمبر ۱۵۵

 (۴) سورۂ نحل ، آیت ۱۲۵