بسماللهالرّحمنالرّحيم
السّلام عليك يا بنت رسولالله يا فاطمة المعصومة صلوات الله عليك و على ابائك الطّيّبين الطّاهرين المطهّرين.
حضرت فاطمہ معصومہ سلام اللہ علیھا کی پاک و پاکیزہ اور مطہر روح سے اجازت حاصل کرتا ہوں یہ معنوی اور ملکوتی محفل اس عظیم بی بی کے سائے میں تشکیل پائی ہے۔
قم بہت سے مسائل میں نام آور اور سرفہرست شہر ہے، شہادت ، شہیدوں اور شہداء کے اہل خانہ کے حوالے سے بھی قم ایک ممتاز اور نام آور شہر شمار ہوتا ہے، قم نے تقریبا چھ ہزار شہید اسلام اور انقلاب کی راہ میں پیش کئے ہیں ؛ دفاع مقدس کے بعض سالوں میں ایک سال کے عرصہ میں ایک ہزار سے زیادہ شہیدوں نے خاک اور خوں میں تڑپ تڑپ کراللہ تعالی کے راستہ میں اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا، اور اس باعظمت شہر نے ان شہیدوں کے پاک پیکروں کی تشییع کی اور اس کی پیشانی پر شکن تک نہیں پڑی، اس شہر میں تقریبا 11 ہزار جانباز ہیں ؛ در حقیقت یہ جانباز ہمارے درمیان زندہ شہید ہیں؛ قم کے نام آور شہداء نہ صرف قم کے لئے باعث فخر و ناز ہیں بلکہ قم کے شہداء پورے ملک کے لئے قابل فخر اور مایہ ناز ہیں شہداء درخشاں ستاروں کی مانند ہیں اور یہ بات قم کے بڑے امتیازات میں شامل ہے۔
میرے عزیزو! شہادت کا مسئلہ بہت عظیم ، گہرا اور عمیق مسئلہ ہے؛ یہ مسئلہ بہت ہی اہم مسئلہ ہے؛ ہمارے عوام نے اپنے ایمان کے ذریعہ، اپنے دینی و مذہبی احساسات و جذبات کے ذریعہ ، اپنی شجاعت کے ذریعہ اور اپنے عمل کے ذریعہ اس مسئلہ کو حل کیا؛ قم نے انقلاب اور اسلام کی خدمت شہیدوں کو پیش کیا؛ بعض ایسے بھی ماں باپ ہیں جنھوں نے اپنے پیارے شہیدوں پر حتی گریہ بھی نہیں کیا؛ بعض ایسے خاندان بھی تھے جنھوں نے اپنے شہیدوں کی مجلس ترحیم میں خوشی کا لباس زیب تن کیا؛ اور یہی وجہ ہے کہ ہماری قوم کے ذہن میں عملی طور پر شہادت کا مسئلہ حل ہوگیا؛ لیکن ہمارے پاس بہت وسیع و عریض جگہ ہے اور بہت سارے میدان موجود ہیں جن میں ہم شہادت کے بارے میں مزید غور و فکر کرسکتے ہیں۔
اگر ہم شہادت اور اس کی اہمیت کے مسئلہ کو ایک جملہ میں بیان کرنا چاہیں ، تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ شہادت کی اہمیت پر اعتقاد اور شہیدوں کی عظمت پر قوم کا یقین، اس قوم کے تشخص اور معنوی شخصیت کی گہرائی کا مظہر ہے۔ کیسے ممکن ہوسکتا ہے کہ ایک قوم دنیا کے لوگوں کی نظروں میں صاحب عظمت بن سکتی ہے؟کس طر ح ممکن ہوسکتا ہے کہ ایک قوم دنیا کے گوناگوں سیاسی مسائل سے متاثر ہونے کے بجائے دنیا کے تمام حوادث و واقعات پر خود اثر انداز ہوسکتی ہے؟کس طرح ایک قوم اس اہم مقام تک پہنچ سکتی ہے؟ کس طرح ممکن ہوسکتا ہے کہ ایک قوم پیچیدہ فوجی وسائل کے بغیر اور وسیع تبلیغات اور نشریاتی ذرائع کے بغیر عالمی سطح پر دیگر قوموں میں اپنا اثر قائم کرسکتی ہےاور دیگر قوموں میں عزیز قوم اور ان کی نظروں میں پسندیدہ قوم اور ان کے درمیان مقبول قوم ہوسکتی ہے؟ آپ ملاحظہ کریں یہی استقبال جو لبنانی عوام نے اسلامی جمہوریہ ایران کے صدر کا کیا ہےیہ استقبال کوئي معمولی چیز نہیں ہے؛یہ چیز قابل غور و خوض اور قابل مطالعہ ہے، یہ امر قابل تجزيہ و تحلیل ہے، کہ کس طرح ایک قوم کا صدر جب دوسرے ملک میں جاتا ہے تو وہاں کے لوگ اس کا والہانہ اور شاندار استقبال کرتے ہیں جب کہ اس کی نہ تو ان کے ساتھ کوئی قرابت ہے اور نہ ہی ان کے ساتھ کوئي رشتہ اور تعلق ہے کیوں وہ ان کی توجہ کا مرکز بن جاتا ہے؟ اس قوم کو یہ عظمت اور یہ شان و شوکت کہاں سے حاصل ہوئی؟ ان تمام سوالات کے جوابات میں شہادت کے مسئلہ کی اہمیت پر توجہ ضروری ہے جب ایک قوم کےتمام افراد ، پیر وجواں ،مرد و خواتین، والدین سب کے سب ایمان کی بنیاد پر اللہ تعالی کی راہ اور بلند و بالا اہداف کے لئے اپنی فدا کاری اور قربانی پیش کرنے کےلئے آمادہ ہیں تو یہ قوم قدرت و طاقت کی عظیم منزل پر فائز ہوجاتی ہے؛قدرتی طور پر یہ قوم قوی اور مقتدر قوم بن جاتی ہے معروف و مشہور اور نام آور قوم بن جاتی ہے ہتھیاروں کے بغیر اور غیر معمولی ثروت و دولت کے بغیر اپنی طاقت اور قدرت کا لوہا منوالیتی ہے۔
آپ ملاحظہ کریں ، کہ سو افراد دوسرے سو افراد کے مقابلے میں عدد کے لحاظ سے یکساں ہیں، سو افراد سو افراد کے مقابلے میں ، ہزار افراد ،ہزار افراد کے مقابلے میں، دس ملین افراد ، دس ملین افراد کے مقابلے میں ، یہ عدد کے لحاظ سے برابر ہیں ممکن ہے کہ ان میں ایک گروہ جسمانی توانائی و طاقت اور مادی و مالی اور اقتصادی اعتبار سے قوی بھی ہو لیکن دوسرا گروہ جو جسمانی ، مادی اور اقتصادی اعتبار سے اتنا قوی نہیں، جب وہ خدا وند متعال پر پختہ ایمان و محکم یقین کے ذریعہ مسلح ہوجائے اسےیقین ہوجائےکہ اگر وہ اللہ تعالی کے راستہ میں فداکاری کرے گا تو اس کے ہاتھ سے کچھ نکل نہیں جائے گا، بلکہ اس کے ہاتھ میں کچھ آجائےگا، تو ان سو افراد میں اتنی قوت و طاقت پیداہوجائے گي کہ ان کے مد مقابل سو افراد کسی بھی طرح کی مادی طاقت کے ذریعہ اتنی طاقت و قدرت پیدا نہیں کرسکتے۔۔
جنگ بدر میں پیغمبر اسلام (ص) کے دشمنوں کی تعداد مسلمانوں سے کئی گنا زيادہ تھی ان کے پاس ہتھیار اور جنگی ساز و سامان بھی مسلمانوں سے کئی گنا زیادہ تھا ان کے پاس مال و دولت اور ثروت بھی مسلمانوں سے کئی گنا زيادہ تھی، لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کو فتح اور کامیابی نصیب ہوئی؛ کیوں؟ کیا فتح و کامیابی بازؤں کے زور پر نہیں ہے ؟ کیا کامیابی تلوار کے زور پر نہیں ہے؟ کیا کامیابی ثروت و دولت کے زور پر نہیں ہے؟ کیا کامیابی ظاہری اقتدار کی وجہ سے نہیں ہے؟ نہیں، کامیابی ان چیزوں کے ذریعہ نہیں ہے، فتح و کامیابی ایک ایسے اقتدار سے وابستہ اور منسلک ہے کہ وہ اقتدار مال و دولت،مادی وسائل اور ایٹمی ہتھیاروں سے حاصل نہیں ہوسکتا؛ شہادت پر اعتقاد و یقین،ایثار و فداکاری پر ایمان اس طاقت کا اصلی سرچشمہ ہے جب انسان ایثار و فداکاری کرتا ہے تو اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کے ساتھ معاملہ کررہا ہے اور اللہ تعالی سے معاملہ انسان کو قوی بناتا ہے اس لحاظ سے اگر محاسبہ کیا جائے اور یہ محاسبہ درست اور صحیح بھی ہے تو ایرانی قوم دوسری تمام قوموں سے قوی اور طاقتور ہے اور سب سے زیادہ عظمت کی حامل ہے۔
ایرانی قوم کو یہ عظمت کس نے عطا کی ہے؟ہمارے انہی عزیز شہیدوں کی پہلی صف میں کئي زین الدین، کئی صادقی، کئي وکیلی اور کئی حیدریان جیس شہیدموجودہیں؛ یہ وہ لوگ تھے جنھوں نے اس یقین کو صرف زبان سے نہیں بلکہ عمل کے میدان میں ثابت کیا ہے۔
وہ دن جس دن شہید حیدریان کچھ معدود افراد کے ہمراہ قم سے روانہ ہوئے اور دشمن کے خلاف جنگ لڑنے کے لئےکردستان پہنچ گئے ، ان دنوں ایرانی قوم مکمل طور پر عالم غربت میں تھی؛ہمارے مقابلے میں مغربی ممالک کی تمام فوجی چھاؤنیاں سرگرم عمل تھیں؛ تمام عالمی وسائل ہمارے خلاف استعمال ہورہے تھے کچھ جوان قم سے ، کچھ جوان دوسرے شہروں سے، کچھ جوان تمام دہاتوں سے اور اسی طرح ملک بھر سے جوان اٹھ کھڑے ہوئے اور انھوں نے یقین کے ساتھ اللہ تعالی کے ساتھ معاملے کو عملی طور پر ثابت کیا؛ " انّ الله اشترى من المؤمنين انفسهم و اموالهم بأنّ لهم الجنّة يقاتلون فى سبيل الله فيقتلون و يقتلون وعدا عليه حقّا فى التّورية و الانجيل و القران " (1) اللہ تعالی کا وعدہ سچا اور برحق وعدہ ہے؛ ہمارے شہداء پہلی صف میں ہیں، ہمارے جانباز اور فداکار پہلی صف میں ہیں ، یہ جانباز ہمارے راہنما اور پیشوا بن گئے؛ یہ محاذ حق کےہر اول دستہ میں پہنچ گئے؛ ان کا شہادت پر محکم اور پختہ یقین تھا انھوں نے خدا کے ساتھ معاملے کو میدان عمل میں ثابت کیا۔
دوسری صف میں شہیدوں کےخاندان کےلوگ شامل ہیں ؛ دوسری صف شہیدوں کے ماں باپ کی صف ہے، شہیدوں کےفرزندوں کی صف ہے، شہیدوں کی ہمسروں اور بیویوں کی صف ہے آپ حضرات کی صف ہے جنھوں نے صبر کیا ، آپ کی صف ہے جنھوں نے بظاہر اس تلخ حادثہ کو برداشت اور تحمل کیا، عزیزوں کا ہاتھ سے کھونا تلخ و سخت حادثہ ہے، عزیزوں کی موت کو برداشت کرنا بڑا سنگین مرحلہ ہے، ماں باپ زحمت اٹھاتے ہیں، اس گلدستہ کو ، اس پھول کو ، اس پودے کو دل کے خون سے آبیاری کرتے ہیں ، اس کو جوان کرتے ہیں ، بعد میں اس کا جسم محاذ جنگ اورمیدان کارزار سے لاتے ہیں ؛ اس کو تحمل کرنا سنگین مرحلہ ہےیہ کوئی آسان کام نہیں ہے لیکن شہیدوں کے والدین ، فرزندوں اور بیویوں نےبظاہر اس تلخ حادثہ کو کھلی آغوش سے قبول کرلیا؛ اور انھوں نے ثابت کردیا کہ خدا کے ساتھ اس معاملے پر ان کا پختہ اور مکمل یقین ہے۔
میں نے ایسی ماؤں کی زيارت کی ہے جو بالکل سنجیدگی اور صداقت کے ساتھ کہتی تھیں کہ اگر ہمارے دس فرزند بھی ہوتے تو ہم ان کو راہ خدا میں قربان کرنے کے لئے حاضر تھیں؛ یہ مائیں جھوٹ نہیں کہہ رہی تھیں یہ سچ بول رہی تھیں، میں نےایسے والدین سے ملاقات کی جو اس بات پرعزت و عظمت اور فخر کا احساس کرتے تھے، کہ ان کے فرزند اللہ تعالی کی راہ میں شہید ہوئے ہیں، البتہ حق بھی ان کے ساتھ ہے، یہ بات عزت و فخر کا باعث ہے؛ جیسا کہ ہماری پھوپھی حضرت زینب سلام اللہ علیھا نے فرمایا: " ما رأيت الّا جميلا " (2) زیبائی کے سوا میں نے کچھ نہیں مشاہدہ کیا، کیا حادثہ کربلا کوئی چھوٹا اور معمولی واقعہ ہے؟ یہ خدائی آنکھ ، واقعہ کربلا کو، کربلا کی سرزمین پر گرے ہوئے خون کو ، اس سنگین اور عظیم مصیبت کو ایک زیبا اور خوبصورت حقیقت کے طور پر مشاہدہ کرتی ہے" ما رأيت الّا جميلا " ، میں نے بہت سے خاندانوں کو دیکھا ہے کہ ان کے اندر بھی حضرت زینب سلام اللہ علیھا کا یہی احساس موجزن اور جلوہ گرتھا؛ وہ بھی یہی کہتے تھے: " ما رأيت الّا جميلا " یہ وہ چیزيں ہیں جو ایک قوم کو قوت اقتدار عطا کرتی ہیں؛ یہ وہ سربستہ راز ہیں جو ایک قوم کے اندر خود اعتمادی کا جذبہ پیدا کرتے ہیں؛ یہ وہ چیزیں ہیں جن کی بدولت سامراجی، منہ زور اور تسلط پسند طاقتوں کی دھمکیوں کے مقابلے میں ان کے دلوں پر کبھی لرزہ طاری نہیں ہوتا ہے۔
آج ایرانی قوم ، دنیا پر حاکم ان رہنماؤں کی دھمکیوں سے بالکل خوفزدہ نہیں ہے جو مادیت اور شہوت کی دنیا میں ڈوبے ہوئے ہیں ایرانی عوام اپنے مضبوط اور مستحکم اصولوں پر کھڑے ہوئے ہیں ؛جیسا کہ یہاں بعض شہداء کے والدین اور ایک دوسرےعزیز نے بیان کیا ہے اوران کی باتیں بالکل درست اور صحیح بھی ہیں ، شہداء کے اہل خانہ میدان میں آج بھی ڈٹے ہوئے ہیں ملت ایران آج بھی میدان میں موجود ہے،اور یہ موجودگی اس معنوی اقتدار اور اس قوت و طاقت کی بدولت ہے جو اللہ تعالی پر ایمان کی وجہ سے حاصل ہوتی ہے اور اس ایمان کی حفاظت کرنی چاہیے اور اسےقوی اور مضبوط بنانا چاہیے۔
میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ حکام کو ، قوم کے ہر فرد کو، تمام خاندانوں کو اس ایمان کی قدر و قیمت پہچاننی چاہیے؛ اس کو اپنے اندر روز بروز گہرا ، قوی اور مضبوط بنانا چاہیے؛ یہ ایمان ایرانی عوام کی قدرت و طاقت کا مظہر ہے؛ یہی ایمان ہے جو ہماری علمی ترقیات، جو ہماری ٹیکنالوجی کے شعبہ میں ترقیات، جو ہماری سیاسی پیشرفتوں اور جو ہماری سماجی پیشرفتوں کا قوی پشتپناہ ہوسکتا ہے۔آپ اچھی طرح سمجھ لیں کہ حضرت امام (رضوان اللہ تعالی علیہ) کی رحلت کے بعد ہماری قوم کے اندر سے اس ایمان اور اس مذہبی جذبہ و احساس کو ختم کرنے کی بہت زیادہ تلاش و کوشش کی گئی ، انھوں نے اس بارے میں لکھا ، کہا اور اس کی بار بار تکرار کی ، اسے بار بار دھرایا ؛ دشمن نے بھی اپنی ساری قوت و طاقت اس ایمان کو ختم کرنے پر صرف کردی، البتہ وہ اس میں ناکام ہوگئے اور آئندہ بھی وہ اس میں شوم منصوبے میں کامیاب نہیں ہوسکیں گے۔
اس دور میں ہمار ے عزیز جوان بہت ہی اچھے جوان ہیں، موجودہ ماحول، مذہبی احساس و جذبہ اور دینی ایمان سے نکلی ہوئی جوان نسل بہت ہی اچھی نسل ہے با برکت نسل ہے۔ اگر آج بھی سن ساٹھ کی دہائی جیسا کوئی واقعہ پیش آجائے تو اس دور کے جوان بھی اس دور کے جوانوں کی طرح میدان کارزار میں پہنچ جائیں گے،اس دور کے جوان بھی اس دور کے جوانوں سے کسی صورت میں کم نہیں ہیں،، وہ تجربہ ان کے سامنے تھا، وہ میدان میں گئے اور اپنی ذمہ داری پر عمل کیا؛ اگر آج بھی ویسا ہی ہوتا ، تو جوان میدان میں پہنچ جاتے اور اپنی ذمہ داری پر عمل کرتے ، ہمارےجوان اچھے جوان ہیں ، ہمارے جوان پاک جوان ہیں، ہمارےجوان آمادہ ہیں، میں اپنے عزیز جوانوں بالخصوص شہیدوں کے جوانوں کو سفارش کرتا ہوں کہ آپ اپنی عزت کی قدر کیجئے؛یہ آپ کے لئے اور پوری ایرانی قوم کے لئے فخر کی بات ہے۔
پروردگارا! محمد اور آل محمد کے طفیل ہمیں شہیدوں کا قدرداں قرار دے؛ ہمیں جانبازوں اور ایثار گروں کا قدرشناس قراردے؛ پروردگارا! ایمان اور معنویت کے اس راستے کو ہمارے لئے ہمیشہ باز رکھ جسے شہیدوں نے ہمارے لئے ایجاد کیا ہے، حضرت ولی عصر (عج) کے دل کو ہم سے راضی اور خوشنود فرما۔
واسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1) توبہ : 111
2) لہوف، ص 160