ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبرمعظم کا تیرہ آبان کی مناسبت سے طلباء کے اجتماع سے خطاب

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

تیرہ آبان کی مناسبت سب سے زیادہ ہمارے ملک کے ممتاز جوانوں ،کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ سے متعلّق ہے،یہ جلسہ جواس الٰہی ملک  کے جوانوں کے عظیم اجتماع کا ایک نمونہ ہے معرفت، بصیرت، انقلابی امنگوں اور آرزوں کے شوق میں جوش و ولولہ سے سراسر سرشار ہے ، آپ سے ملاقات میرے لئے ایک شیریں موقع ہے  ، میں یہاں پر  ان  مطالب کے بارہ میں چند جملے عرض کروں گا جن کے سلسلہ میں ہمارے درمیان گفتگو ہونا چاہیے ۔

تاریخی مناسبتیں عام طور پر ایک علامت شمار ہوتی ہیں ، تیرہ آبان بذاتِ خود اپنی ماقبل و مابعد تاریخ سے مختلف نہیں ہے؛ لیکن یہ دن ایک علامت ہے ، علامت کا مفہوم کیا ہے ؟ علامت وہ رمز ہے جس کے اندر بہت سے مفاہیم و معانی پوشیدہ ہوتے ہیں ، انسان اپنی زبان سے محض ایک کلمہ ادا کرتا ہے لیکن یہ کلمہ اپنے دامن میں معانی و حقائق کا ایک سمندر سمیٹے ہوتا ہے ؛ تیرہ آبان کا واقعہ ایسا ہی ایک واقعہ ہے ، یہ دن ایک علامت ہے ، اس دن کے وسیع دامن میں بہت سے اہم مطالب و مسائل  پوشیدہ ہیں ، یہ مسائل ہرگزتاریخی مسائل نہیں ہیں بلکہ یہ مسائل ہمارے حالِ حاضر کے مسائل شمار ہو تے ہیں ، ہم اس دن کی  مناسبتوں پر ایک نگاہ ڈالنا چاہتے ہیں ۔

اس دن کی سب سے پہلی مناسبت یہ ہے کہ آج ہی کے دن سنہ ۱۳۴۳ ہجری شمسی میں امامِ امّت (رہ)کو جلا وطن کیا گیا، جلا وطن کیوں کیا گیا ؟ چونکہ اس دن سے کچھ روز پہلے امامِ امّت (رہ)نے قم میں ایک پرجوش تقریر کی تھی جو کیسٹ اور تحریری شکل میں آگ کی طرح فوری طور پر پورے ملک میں پھیل گئی ، اس تقریر میں امام(رہ) نے ایک قومی حق کا مطالبہ کیا ، آپ نے کیپٹلزم جیسے ظالمانہ قانون کے خاتمہ کا مطالبہ کیا، ہماری جوان نسل کو ان حقائق کواچھی طرح سمجھنا چاہیے ، اسے معلوم ہونا چاہیے کہ ہم نے اس منزل تک پہنچنے میں کن خطرناک مرحلوں سے عبور کیا ہے ۔

ایران میں امریکہ کے دسیوں ہزار اہلکار موجود تھے ، پچّاس ہزار ، ساٹھ ہزار یا اس سے کم و بیش ،  ان کی دقیق تعداد زیادہ اہم نہیں ہے ، یہ اہلکار  سیاسی ، فوجی اور خفیہ اہلکار تھےجو ایران کی فوج ، خفیہ اداروں، منصوبہ بندی اور دیگر شعبوں القصّہ ایرانی حکومت کے ہر شعبہ میں موجود تھے ، وہ ایرانی حکومت سے ایرانی اہلکاروں کے مقابلہ میں کئی گنا زیادہ تنخواہ وصول کرتے تھے لیکن امریکہ کے لئے کام کرتے تھے ، یہ ایک بہت برا کام تھا جو ہمارے ملک میں انجام پایا ۔ پہلوی طاغوتی حکومت اپنی امریکہ نوازی اور امریکہ کی نوکری کی وجہ سے ان اہلکاروں کو کئی سال کی مدّت میں رفتہ رفتہ ایران لے کر آئی تھی ، یہ کام تو اپنی جگہ بہت برا تھا ، اس میں کوئی دورائے نہیں ہے لیکن اس کے نتیجہ میں جو واقعہ رونما ہوا وہ اس سے بھی  کئی گنا قبیح تھا ، وہ بدترین کام یہ تھا کہ ایران کی پارلیمنٹ اور اس دور کی سینٹ میں یہ قانون پاس کیا گیا کہ امریکی اہلکاروں پر ایرانی سول اور فوجی  عدالتوں  میں مقدّمہ نہیں چلایا جاسکتا، یعنی اگر امریکی اہلکاروں میں سے کوئی ایران میں کسی بڑے جرم کا مرتکب ہو تو ایرانی عدالتوں کو اس پر مقدّمہ چلانے اور سزا دینےکا کوئی حق نہیں تھا، اس کو کیپیٹلزم کہا جاتا ہے ، یہ کسی قوم کی زبوں حالی اور وابستگی کی انتہا ہے کہ اس کے ملک میں  دوسرے ممالک کے لوگ اپنی من مانی کریں  اور اس ملک کی پولیس اور عدالتوں کو ان کے خلاف ذرّہ برابر کاروائی کی اجازت نہ ہو ، امریکیوں نے طاغوتی حکومت سے اس کا مطالبہ کیا ، طاغوتی حکومت نے بلاتامّل انہیں یہ حق  دے دیا، کیپیٹلزم کے قانون کو  پاس کیا۔

البتّہ وہ لوگ انتہائی خاموشی سےیہ کام کر رہے تھے ، ملکی اخبارات میں اس خبر کو شائع کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے لیکن امام (رہ)اس سے باخبر تھے ، آپ نے تیرہ آبان سے پہلے قم کے طلّاب اور عوام کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے اس قانون پر شدید اعتراض کیا ، آپ کے الفاظ یہ تھے کہ اگرامریکہ کا کوئی معمولی سا اہلکار کسی مرجعِ تقلید کی توہین کرے ، اسے اپنی گاڑی کے نیچے کچل ڈالے یا کسی دوسرے جرم کا ارتکاب کرے تو ایرانی قوانین اس اہلکار کے لئے بالکل غیرمؤثّر ہیں ؛ کسی کو اس پر اعتراض کا حق نہیں ہے ؛ صرف امریکیوں کو اس کے خلاف کاروائی کا حق ہے ، اور یہ اچھی طرح معلوم ہے کہ وہ اس کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کریں گے ، امام(رہ) نے اس غیرمنصفانہ قانون کے خلاف آواز اٹھائی ، امام (رہ)کو اس واقعہ کے  کچھ ہی دن پہلے قیدِاسارت سے رہائی ملی تھی ، امام (رہ) کی چند ماہ پر محیط اسارت کو ختم ہوئے ابھی کچھ ہی مہینے گزرے تھے ، امام (رہ) اٹھ کھڑے ہوئے اور ایرانی قوم کی اس دبی ہوئی آواز کو سب کے کانوں تک پہنچایا، البتّہ بہت سے عام لوگوں کو اس قانون کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا کہ ایرانی قوم کو کس طریقہ سے ذلیل و رسوا کیا جارہا ہے ، لیکن امام (رہ)کو معلوم تھا ، کسی ملک کے مفادات  اور مصلحتوں کا حقیقی پاسبان اسی کردار کا حامل ہوتا ہے ، جب اسے خبر ملتی ہے کہ اس کی  قوم پر کیا مصیبت ڈھائی جارہی ہے ، اس کی قوم کی کس طریقہ سے توہین کی جارہی ہے ، اس کی قوم کے شرف کو کس طرح پامال کیا جارہا ہے تو وہ خاموش نہیں رہتا بلکہ صدائے احتجاج بلند کرتا ہے ، اس دور میں صدائے احتجاج ایک نہایت خطرناک اقدام تھا یہی وجہ ہے کہ اس تقریر کے بعد امام (رہ)کو فی الفور گرفتار کر لیا گیا انہیں تہران منتقل کر دیا گیا ، اس کے بعد امام (رہ)کو ایران میں رہنے کی اجازت نہیں دی گئی اور انہیں ترکی  جلا وطن کردیا گیا اس  تاریخ کی سب سے پہلی مناسبت یہ ہے ۔

پس تیرہ آبان کی تاریخ دو عظیم حقیقتوں کی علامت ہے ، دو انتہائی حساس اورخطیر حقیقتوں کی ترجمان ہے ، ان میں سے پہلی حقیقت امریکیوں کی طمع و لالچ کی انتہا ہے کہ اگر کوئی قوم اپنے حق و شرف کا دفاع نہ کرے تو استعمار و سامراج یہاں تک پیش قدمی کرتا ہے کہ کیپیٹلزم جیسے غیرمنصفانہ قانون کو اس پر مسلط کردیتا ہے ، تسلّط پسند سامراجی طاقتوں کا اصلی ہدف یہ ہے ، ایسا نہیں ہے کہ امریکہ جیسی طاقتور حکومت کے روابط ایک ایسے ملک سے جو اس کی طرح طاقتور نہیں ہے دو عام ملکوں کے مابین معمول کے روابط جیسے ہوں، ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ امریکیوں کے بقول ان کے اور تیسری دنیا کے ممالک کے درمیان بادشاہ اور رعایا کا رابطہ ہے وہ بادشاہ ہے اور یہ ممالک ان کی رعایا، ان کو ان ممالک پر مکمّل اختیار ہے ، وہ ان کا تیل لے جاسکتے ہیں ، ان کی گیس لے جاسکتے ہیں ، ان کے مفادات  ، ان کے پیسے کو پامال کر سکتے ہیں ، انہیں ان ممالک میں امریکی مفادات کی پاسداری اور ان ممالک کی قوموں کی تحقیر کا مکمّل اختیار ہے ۔ 

اگر امریکہ کا کوئی معمولی سا فوجی ایران کے کسی اعلیٰ کمانڈر کو تھپّڑ مار دیتا تو کسی کو اعتراض کا حق نہیں تھا! ملک کی مختلف فوجی بیرکوں میں جب نچلی سطح کا کوئی امریکی فوجی آفیسر کسی بلند مرتبہ ایرانی کمانڈر سے رو برو ہوتا تو کسی آقا کی طرح اس سے گفتگو کیا کرتا تھا !ایران کی فوج ان کے اس رویّہ سے نالاں تھی ، لیکن اس میں اعتراض کی جرأت نہیں تھی ؛ وہ کچھ بھی نہیں کر سکتی تھی ، تیرہ آبان امریکہ ستیزی کی علامت ہے ، اقوامِ عالم منجملہ ایرانی قوم پر سامراج کے  تسلّط  کے خلاف صدائے احتجاج ہے ۔

اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد اس راستہ کو دوبارہ کھولنے کے لئے  مختلف ادوار میں امریکی صدور نے ایڑھی چوٹی کا زور لگایا ، چرب زبانی سے کام لیا ، بظاہر کچھ کہتے تھے لیکن ان کے دل میں کچھ اور ہی ہوتا تھا ، انہوں نے اپنے آہنی ہاتھوں پر مخملی دستانے چڑھا رکھے تھے ۔

تیرہ آبان ایک تلخ اور بہت اہم  حقیقت کی یاد دلاتا ہے ، اور وہ تلخ حقیقت سامراجی طاقتوں کا تسلّط پسند انہ رویّہ ہے ، مختلف ممالک کی قوموں منجملہ ایرانی قوم کو اسے ہرگز نہیں بھولنا چاہیے، انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ان سامراجی طاقتوں کا چہرہ تسلّط پسندانہ چہرہ ہے وہ اقوامِ عالم کے شرف کو پامال کرنے کے درپے ہیں، وہ قوموں کی جان و مال ، عزّت و ناموس کو حملہ کا نشانہ بنانا چاہتی ہیں، وہ چاہتی ہیں کہ اس سلسلہ میں نہ تو کوئی ان سے سوال کرے اور نہ ہی وضاحت چاہے ۔

ایک دوسرا مطلب کہ تیرہ آبان جس کی علامت شمار ہوتا ہے وہ ہمارے امامِ امّت (رہ) کی ہمہ گیر آواز ہے یہ وہ پاک و پاکیزہ صدائے احتجاج تھی جو پاکیزہ ترین حلق سے خارج ہوئی ۔ ممکن ہے کہ بہت سے لوگ ادھر ادھر کچھ باتیں کریں ، صدائے احتجاج بلند کریں لیکن سنہ ۱۳۴۳ ہجری شمسی کی تیرہ آبان کو جوصدائے احتجاج فضا میں گونجی تھی وہ سب سے پاکیزہ حلق سے نکلی تھی ، اس صدائے احتجاج کی پہلی خصوصیت یہ تھی کہ یہ فریاد  دین و مذہب کے احساس پر استوار تھی ، اس کی دوسری خصوصیت یہ تھی کہ یہ آواز اسلامی اور قومی غیرت کی غمّاز تھی ، یہ آواز اس قوم پر دشمن کے تسلّط کو برداشت نہیں کر سکتی تھی ، اس صدائے احتجاج کی تیسری بڑی خصوصیت یہ تھی کہ اس آواز کو عوام کی بھر پور حمایت حاصل تھی ، جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ ابتدا میں ایرانی عوام کو اس قانون کا علم نہیں تھا لیکن جب امام (رہ) نے صدائے احتجاج بلند کی تو لوگوں نے امام (رہ) کی بھر پور حمایت کی ، اسی حمایت کے نتیجہ میں چودہ برس بعد اسلامی انقلاب کامیابی سے ہمکنار ہوا ، امام (رہ) کی پاک و پاکیزہ آواز ، انبیائے الٰہی کی اس ہمہ گیر آواز کی طرح تھی جسے انہوں نے اپنے زمانہ کے لوگوں کے درمیان بلند کیا اور لوگوں کے دلوں کو اپنی جانب جذب کیا ، امام (رہ) نے اس ملک میں ایک ایسی ہی عظیم تحریک کا آغاز کیا ، اس کے بعد آپ نے اس تحریک کی قیمت بھی اداکی ، امام (رہ) کو اپنے گھربار، وطن ، اعزّاء و اقارب سے جدا ہونا پڑا ، حکومتِ وقت نے امام (رہ) کو جلاوطن کردیا، پس دوسرا اہم مطلب یہ ہے کہ تیرہ آبان ایک ایسی صدائے احتجاج کی علامت ہے ۔

اس علامت کے پیچھے تیسرا انتہائی اہم مطلب سنہ ۱۳۵۷ ہجری شمسی میں طلبہ کے ذریعہ  کیا جانے والا اقدام ہے ، سنہ۱۳۴۳ ھ ، ش کے ٹھیک چودہ سال بعد سنہ ۱۳۵۷ ہجری شمسی میں ہمارے جوان ، ہمارے نوجوان ، اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ میدان میں کود پڑے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ، تیرہ آبان کا دن ، تہران کی سڑکوں پر طلبہ کے قتلِ عام کا دن ہے ، اس دن جب یہ طلبہ سڑکوں پر نکلے اور امام (رہ) کے چودہ برس پہلے والے نعرہ کو دہرایا تو امریکہ کے غلام جلّادوں نے ان سے اس کا انتقام لیا ، ان پر گولیاں برسائیں ، تہران کی سڑکیں ان کے خون سے رنگین ہوگئیں یہ بھی ایک اہم مطلب ہے ، اس کی اہمیت صرف اس اعتبار سے نہیں ہے کہ اس دن کچھ طلبہ نے جامِ شہادت نوش کیاتھا اگر چہ اس کی بہت اہمیت ہے لیکن اس واقعہ کی سب سے زیادہ اہمیت یہ ہے کہ سنہ ۱۳۴۲اور ۴۳ ہجری شمسی میں امام (رہ) کے ذریعہ شروع کی گئی تحریک  میں وہ شادابی و طراوت موجزن تھی کہ چودہ برس بعدبھی اس کی تاثیر میں کوئی کمی نہیں آئی اور اس نے کچھ پاکیزہ جوانوں کو میدان میں اتارا، ان کے اندر فرض شناسی کا احساس جگایا، ان میں ظالم و جابر حکومت کے خلاف مزاحمت کا جذبہ بیدار کیا ، دنیا میں ان چیزوں کی مثال شاذونادر ہی ملتی ہے ۔

آج بھی یہی پوزیشن ہے ، آج بھی ہمارے اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے جوان دیگر شعبوں سے وابستہ افراد کے شانہ بشانہ ، رضا کار فورس کے شانہ بشانہ  ہرمیدان میں سب سے اگلے دستے میں دکھائی دیتے ہیں ، مقدّس دفاع کے دوران بھی ہمارے طلبہ  محاذِ جنگ کے سب سے اگلے مورچوں پرتھے ، اگر آپ شہداء کے گھر انوں سے رابطہ کریں اور ان سے معلوم کریں کہ آپ کے جوان کاسن کیا تھا تو یہی جواب ملے گا، سولہ سال ، سترہ سال ، چودہ سال ، اس کا مطلب کیا ہے ؟ اس کا مطلب یہ ہے کہ فرض شناسی ، انقلابی جذبہ ، بصیرت پر استوار ذمّہ داری کا احساس اس درجہ عروج پر تھا کہ اس قوم کا جوان طالبِ علم بے خوف و خطر میدان میں کود پڑتا ہے ، دشمن کے سامنے سینہ سپر ہو جاتا ہے ، معاشرہ میں اسلامی و الٰہی اہداف و مقاصد کے نفاذ کے لئے  جوانی کی تمام آرزؤں کو خیرباد کہہ دیتا ہے ، سنہ ۱۳۵۷ ہجری شمسی میں رونما ہونا والا یہ واقعہ بھی ایک عظیم واقعہ ہے ، یہ عظیم واقعہ بھی تیرہ آبان میں مضمر ہے ، تیرہ آبان ان واقعات کی علامت ہے ۔

آخری واقعہ جو تیرہ آبان میں پنہاں ہے وہ جاسوسی کے اڈہ پر طلبہ کے قبضہ کا واقعہ ہے ، سنہ ۱۳۵۸ ہجری شمسی میں امام (رہ) کی جلاوطنی اور طلبہ کی شہادت کی سالگرہ منانے  کے موقع پر طلبہ نے یہ عظیم کارنامہ انجام دیا ، یہاں بھی جوانوں نے یہ عظیم کارنامہ انجام دیا جس نے دنیا کوحیران کر دیا ، امریکہ کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا، یہ اس واقعہ کی  اصل حقیقت ہے ، یہ کوئی نعرہ نہیں ہے، آپ یہ جان لیں کہ جس دور میں امریکی جاسوسی اڈہ پر قبضہ کیا گیا اس دور میں امریکی حکومت کی عزّت و آبرو، اس کا اعتبار ، اس کا رعب و دبدبہ آج سے کئی گنا زیادہ تھا، آپ آج کے امریکہ کو نہ دیکھیں جو نظروں سے گر چکا ہے ، حقیر و ذلیل ہو چکا ہے ،مختلف قومیں کھلے عام امریکہ کوگالیاں دے رہی ہیں اس کی  سرزنش کر رہی ہیں ، اس دور میں یہ نہیں تھا ، بلکہ اس دور میں امریکہ کو دنیا کی نمبر ایک سپر پاور کا درجہ حاصل تھا، ہمارے طلبہ نے شجاعت و دلیری کے جوہر دکھاتے ہوئے ایک ایسے امریکہ کے سفارت خانہ پر قبضہ کیا ، جو لوگ وہاں موجود تھے انہیں قیدی بنا لیا ، امام (رہ) نے دریا دلی اور انسان دوستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کچھ لوگوں (خواتین اور سیاہ فام افراد)کی رہائی کا حکم دیا ، ان کے علاوہ دیگر عناصر کافی مدّت تک یہاں موجود تھے ، یہ بھی ایک عظیم حرکت تھی جس نے دنیا میں امریکہ کی طاقت کو ہلا دیا، امریکہ اپنے رعب و دبدبہ اور عظمت کے باوجود قوموں کی نگاہ سےگر گیا ، نوبت یہاں تک پہنچی کہ امریکہ کے صدر نے ان قیدیوں کی رہائی کے لئے رات کے سنّاٹے میں ایران پر فوجی حملہ کا  منصوبہ بنایا ، ایران کے اندر اپنے جاسوسوں کو جمع کیا ، اس حملے کے مقدّمات فراہم کئے ، افراد فراہم کئے ، جگہ کو متعیّن کیا، ہیلی کاپٹروں اور جنگی جہازوں سے حملہ کیا ، طبس کی سرزمین پر اترے تاکہ اپنے خیالِ خام میں ان قیدیوں کو آزاد کر اسکیں ، انہیں اپنے ہمراہ امریکہ لے جاسکیں، جس کے بعد طبس کا وہ مشہور و معروف واقعہ رونما ہوا جس سے آپ سب واقف ہیں، پروردگارِ عالم نے ان کی عزّت و آبر و کو خاک میں ملا  دیا ، ان کے ہیلی کاپٹروں اور جنگی جہازوں میں آگ لگ گئی اور وہ طبس سے واپس لوٹنے پر مجبور ہوئے ، تیرہ آبان کے واقعات یہ ہیں ۔

تیرہ آبان ایک علامت ہے جو اپنے دامن میں معانی کا ایک سمندر سمیٹے ہوئے ہے ، یہ تمام معانی ہمارے لئے درس ہیں ، ہمیں ان کوہمیشہ یاد رکھنا چاہیے، امریکہ کی حرص و لالچ، طاغوتی حکومت کی امریکہ سے وابستگی،امام(رہ) اور ایرانی عوام کی  بصیرت پر مبنی ایمانی مزاحمت ، جوان نسل کی موجودگی ، امریکہ کے رعب و دبدبہ کے سامنے انقلابی جوان نسل کی شجاعت و جسارت، تیرہ آبان کے دامن میں یہ سبھی مفاہیم پائے جاتے ہیں ، پس تیرہ آبان کوئی معمولی دن نہیں ہے ۔

اب آپ اس بات پر غور کیجئے کہ گزشتہ برس کچھ مٹھی بھر بد قسمت لوگ تہران کی سڑکوں پر نکلے اور اس مناسبت کے دامن کو آلودہ کرنے کی غرض سے  تیرہ آبان کے خلاف نعرے لگائے ، انہیں اس مقصد میں شکست ہوئی ، یہ بات واضح و عیاں تھی کہ انہیں شکست ہوگی لیکن آپ ملاحظہ کیجئے کہ ان کی اس حرکت کے پسِ پردہ کیا تھا ؟ وہ کس چیز کا مقابلہ کررہے تھے ؟ وہ اس عظیم علامت کی مخالفت کر رہے تھے جس کے پسِ پردہ یہ عظیم مفاہیم  پائے جاتے ہیں ، درحقیقت وہ ان مفاہیم کی مخالفت کر رہے تھے ، وہ امریکہ کی تسلّط پسندی اور مداخلت کی پردہ پوشی کر رہے تھے ، وہ اس عظیم ظلم کے مقابلہ میں ایرانی عوام کی تحریک پر سوالیہ نشان لگانا چاہتے تھے ۔

اگر ہم تیرہ آبان کی حقیقت کو درک کر لیں تو ان لوگوں کی حقیقت اور ہدف کو بھی بخوبی سمجھ سکتے ہیں جو تیرہ آبان کو خراب کرنا چاہتے تھے ، وہ بصیرت جس پر ہم باربار زور دے رہے ہیں یہ ہے ، ہمیں ان واقعات پر غورو فکر کرنا چاہیے ، میں آپ عزیز جوانوں سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آج آپ ایرانی قوم کی تحریک سے سب سے اگلے محاذ پر ہیں ، ایرانی قوم نے بلندیوں پر نظر یں گاڑ رکھی ہیں اور ان کی طرف پیش قدمی کر رہی ہے ، دوست و دشمن اس بات کے معترف ہیں کہ ایرانی قوم انتہائی برق رفتاری سے ان بلندیوں کی طرف رواں دواں ہے ، ابھی ہمیں بہت طویل راستہ طے کرنا ہے ، ہمیں سطحی فکر سے اجتناب کرنا چاہیے ،ہمارا راستہ ایک سالہ یا دوسالہ راستہ نہیں ہے ، ایک طویل  المیعاد راستہ ہے  ، ہم اس راستہ پر چل رہے ہیں ، جب تک حرکت نہ ہو ہدف تک پہنچنا ممکن نہیں ہوتا ہے ، ہاتھ پر ہاتھ دھرے جماہی لیتے رہنے سے کوئی بھی شخص اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہوسکتا ہے ، راستہ میں قدم رکھنا چاہیے اور عزمِ راسخ کے ساتھ آگے بڑھنا چاہیے ، ایرانی قوم  نہایت خوش اسلوبی سے یہ کام انجام دے رہی ہے ۔

سائنس و ٹیکنالوجی  کے میدان میں ، سیاسی میدان میں  ، ملک کی تعمیر و ترقّی اور جدید سہولتوں کی فراہمی کے میدان میں ہم نے نمایاں ترقّی کی ہے ، ہماری خوش قسمتی سے آج پورا ملک ایک کارخانہ میں تبدیل ہو چکا ہے جہاں ہر طرف تعمیر و ترقّی کا دور دورہ ہے ،جہاں ایک طرف ایرانی کاریگر مہارت اور تجربہ حاصل کر رہے ہیں وہیں عوام بھی ان کی خدمات سے مستفید ہو رہے ہیں اور ہم دوسروں کی محتاجی سے بے  نیاز ہو رہے ہیں۔

ماضی میں اگر ہم کسی شہر میں کوئی پل تعمیر کرنا چاہتے تھے تو ہمیں بیرونی ماہرین کا سہارا لینا پڑتا تھا، اگر کسی جگہ ڈیم کی تعمیر کی بات آتی تھی  تو ہمیں دیگر ممالک کی منّت سماجت کرنا پڑتی تھی ، پیچیدہ ٹیکنالوجی  کی بات کو رہنے دیجئے  ان معمولی کاموں کے لئے ہمیں دوسروں کا سہارا لینا پڑتا تھا ، دورِ حاضر میں ایرانی قوم اس اعتبار سے بے نیاز ہے ، اس کے پاس ، باصلاحیت انسانی قوّت ، ہمدرد منتظمین  کی کثرت ہے ، ہماری قوم مسلسل آگے بڑھ رہی ہے ، لیکن وہ مجموعہ جو اس حرکت کے آگے آگے چل رہا ہے وہ کون سا مجموعہ ہے ؟ وہ کون لوگ ہیں ؟ وہ ملک کے جوان طلبہ ہیں ، جوان ہی اس حرکت کو آگے بڑھا رہے ہیں ، یہ جوان  اس عظیم تحریک اور عظیم ریل گاڑی کا انجن ہیں ۔

البتّہ آزمودہ کار اور جہاں دیدہ منتظمین کا وجود بھی لازم و ضروری ہے ، جوانوں پر زور دینے کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ ہم آزمودہ کار اور جہاں دیدہ افراد کا احترام نہ کریں ، نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے ، ان کا وجود بھی ضروری ہے لیکن جب تک کسی کام میں جوان ہاتھ نہیں بٹائیں گے تو وہ کام پایۂ تکمیل تک نہیں پہنچے گا ، موجودہ زمانہ میں پروردگارِ عالم کی توفیق و عنایت کے طفیل میں جوان ہر شعبہ میں موجود ہیں ، ہر میدان میں حاضر ہیں ، یہ بہت اہم اور بڑی چیز ہے ۔ آپ لوگ سیاسی ، اقتصادی  اور علمی  محاذ کے سب سے اگلے مورچوں پر ہیں  ۔

آپ نے سنہ ۱۳۸۸ ہجری شمسی کے فتنہ  کا قلع قمع کیا، دیگر عوامل  سے زیادہ آپ نے اس آگ کو بجھانے میں اپنا مؤثر کردار اداکیا، ورنہ یہ فتنہ کوئی معمولی فتنہ نہیں تھا ، میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ آئندہ چند برسوں میں دنیا کے سیاسی مبصّرین کے قلم آزادی سے ان حقائق کو لکھیں گے ، ان کی زبانیں کھل جائیں گی ، شاید میں اس دن نہ ہوں لیکن آپ ہوں گے اور سنیں گے ، پڑھیں گے کہ سنہ ۱۳۸۸ ھ ، ش کے فتنہ کے پسِ پردہ کتنی عظیم سازشیں کارفرما تھیں ۔ یہ فتنہ بہت اہم چیز تھی ، ہمارے دشمن اس کے ذریعہ ایران پر قبضہ کرنا چاہتے تھے جو ایک عجیب و غریب چیز ہے ، جولوگ اس فتنہ کو عملی جامہ پہنا رہے تھے وہ غالبا نادانستہ طور پر اس میدان میں داخل ہوئے تھے ، کچھ لوگ انہیں اپنے مقاصد کے لئے استعمال کر رہے تھے لیکن وہ یہ بات نہیں سمجھ پا رہے تھے ، کچھ لوگ غیر ارادی طور پر اس میدان میں کیسے داخل ہوئے ، انہوں نے کس طریقہ سے دشمن کی مدد کی اس کے لئے دقیق تحلیل و تجزیہ لازم ہے ،لیکن حقیقت وہی ہے جو میں نے بیان کی ، یہ مسئلہ بہت بڑا مسئلہ تھا ، آپ لوگوں نے اس مسئلہ کو حل کیا ۔

میرے عزیزو! میدان میں رہو، یہ ملک آپ کا ملک ہے ، میں نے جن بلندیوں کی طرف اشارہ کیا وہ آپ سے متعلّق ہیں جب آپ سن کے اعتبار سے  پختہ ہوں گے تو انشاء اللہ ان بلندیوں کو دیکھیں گے ، اپنی قوم کے لئے باعثِ فخر قرار پائیں گے ، البتّہ کوئی بھی حرکت کسی بھی مرحلہ پر ختم نہیں ہوسکتی ، کمال کی جانب یہ حرکت ہمیشہ جاری رہے گی ، کبھی بھی نہیں رکے گی ، سب سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہے کہ کوئی قوم عروج و کمال کی جانب حرکت کرنے کی عادت پیدا کرے اور اس کے حصول کا پختہ عزم کرے ، اس عزم و ارادہ میں کبھی بھی تزلزل نہیں آنا چاہیے ۔

زہے نصیب کہ موجودہ دور میں عزیز ایرانی قوم جی جان سے اسلامی جمہوریۂ ایران کی حفاظت کر رہی ہے ، یہ جمہوریہ اور اس کے عوام ہمیشہ سے زیادہ طاقتور ہیں ، آج ہمارا راستہ ماضی کے مقابلہ میں کہیں زیادہ واضح ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں ، ہم جانتے ہیں کہ ہم کہاں جا رہے ہیں ، ہم اپنے دوستوں اور دشمنوں کو پہچانتے ہیں ۔  

ایرانی قوم کے دشمن ماضی کے مقابلہ میں زیادہ کمزور ہیں ، انہیں ہر جگہ نفرت کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے ، وہ اقتصادی ، سیاسی اور قسم قسم کی دیگر مشکلات میں پھنسے ہوئے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم ان کی طرف سے آسودہ خاطر ہو جائیں اور نرم تکیہ پر سر رکھ کر سو جائیں ، انہیں بھول جائیں ، یہ صحیح نہیں ہے " دشمن نتوان حقیر و بیچارہ شمرد" دشمن کو کبھی بھی حقیر و ناتواں نہیں سمجھنا چاہیے ، ہمیں ہمیشہ ہی یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ دشمن ہماری کمین میں ہے  ، ہمارے اوپر نظر رکھے ہوئے ہے ، لیکن آپ جان لیں کہ ہمارا دشمن دورِحاضر میں ماضی کی روشوں سے استفادہ نہیں کر سکتا ، عصرِ حاضر میں ایرانی قوم بہت بیدار و ہوشیار ہے ، ہمارے جوان بیدار و آگاہ ہیں ، حوزہ و  یونیورسٹی اور  محلہ و بازار کے جوانوں کی بہت بڑی اکثریت  انقلاب و اسلام کے اہداف پر گامزن ہے اور ہر جگہ فعّال کردار ادا کر رہی ہے ۔

خداوندا! ان جوانوں پر اپنا لطف وکرم نازل فرما ، پروردگارا! اس ملک پر اچھائیوں کی حکمرانی قرار دے ، اے خدا! ہم سب کی اسلام کی مرضی کے  مطابق تربیت فرما، خدایا! ایرانی قوم کی کامیابیوں میں اس کی مدد فرما ، پروردگارا!امام زمانہ (عج) کی دعاؤں کو اس قوم کا حامی و ناصر قرار دے ، اس قوم کے حق میں امام زمانہ(عج) کی دعاؤں کو شرف قبولیت عطا فرما ۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ