ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کے تہران میں نماز جمعہ میں ملکی، علاقائی اور عالمی مسائل پر اہم خطبے

پہلا خطبہ

بسم‌اللّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌
الحمد للّه ربّ العالمين احمده و اشكره و استعينه و استغفره و اتوكّل عليه و اصلّى و اسلّم على حبيبه و نجيبه و خيرته فى خلقه حافظ سرّه و مبلّغ رسالاته بشير رحمته و نذير نقمته سيّدنا و نبيّنا و حبيب قلوبنا ابى‌القاسم المصطفى محمّد و على ءاله الأطيبين الأطهرين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين و صلّ على ائمّة المسلمين و حماة المستضعفين و هداة المؤمنين و صلّ على بقيّةاللّه فى الأرضين. اوصيكم عباداللّه بتقوى اللّه و نظم امركم.

میں تمام نماز گزار بھائیوں اور بہنوں کو تقوائے الہی اور پرہیز گاری کی سفارش کرتا ہوں۔ تقوی اور پرہیزگاری کمال اور بلندیوں کی سمت انسان کے ارتقائی سفر کا بنیادی عنصر ہے۔ اگر توفیق پروردگار ہمارے شامل حال ہو جائے اور ہم ذاتی ،شخصی، اجتماعی، سیاسی اور سماجی تمام اعمال و افعال میں تقوائے الہی کو ملحوظ رکھنے میں کامیاب ہو جائیں تو ہم پر اللہ تعالی کے لطف و کرم اور خیر و برکت کا سایہ قائم ہوجائےگا۔
یہ عشرہ فجر کے مبارک ایام ہیں۔ عشرہ فجر میں مجھ حقیر اور میرے جیسے تمام افراد کے لئے کئی طرح کا شکر بجا لانا ضروری ہے۔ ایک تو اللہ تعالی کا شکر ہے۔ ہم پورے خضوع و خشوع کے ساتھ، پورے تواضع و انکسار کے ساتھ اللہ تعالی کی بارگاہ میں سجدہ شکر بجا لاتے ہیں کہ اس نے ہماری قوم کو یہ عظیم کامیابی عطا فرمائی۔ یہ عظیم تحریک، یہ عظیم کارنامہ اور یہ تاریخ ساز انقلاب جو ایرانی قوم کے ہاتھوں ، مایہ ناز اورعظیم الشان ہستی کی قیادت میں انجام پذیر ہوا، ایران میں یہ اسلامی نظام تشکیل پایا، اور ایرانی عوام کی توجہ اللہ تعالی کی ذات پر، الہی اہداف پر اور انقلابی اقدار پر مرکوز ہوئی، اس سے بڑی کوئی نعمت نہیں ہو سکتی اور ہمیں اللہ تعالی کی اس عظيم نعمتپر اس کا شکر ہمیشہ ادا کرنا چاہیے اور عشرہ فجر کے ایام میں تو بار بار اس پر سجدہ شکر بجا لانا چاہیے۔ دوسرا شکریہ ہمیں ایرانی قوم کا ادا کرنا چاہیے۔ ایرانی قوم نے ایثار کا مظاہرہ کیا، بزرگی کا ثبوت دیا، وفاداری کا مظاہرہ  کیا، شجاعت سے کام لیا، بصیرت پر عمل کیا، ان تینتیس برسوں میں اپنی شراکت اور ہر لمحہ موجودگی کی ایسی مثال پیش کی کہ انقلاب اسلامی کا یہ تازہ پودا تمام تر خطرات کے باوجود، تمام تر مشکلات کے باوجود روز بروز مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا، ترقی اور پیشرفت حاصل کی ، ثمر بخش بنا۔ آج یہ درخت اسی شجرہ طیبہ کی مانند «اصلها ثابت و فرعها فى السّماء»،(1) انسانی زندگی کی زمین میں اپنی جڑیں پھیلائے ہوئے ہیں اور اس کے ثمرات لمحہ بہ لمحہ ہمیں حاصل ہو رہے ہیں۔
اس سال عشرہ فجر کے ایام میں ایک الگ ہی جوش و ولولہ سامنے ہے۔ اس وقت علاقے کے انقلابی ماحول میں خواہ وہ تیونس ہو یا مصر، عوام کی تحریکیں کامیابی سے ہمکنار ہوئی ہیں، بڑی عظیم کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔ ایرانی عوام کے لئے یہ بہت بڑی خوشخبری ہے۔ بڑے شیریں اور مبارک واقعات رونما ہوئے ہیں۔ اس سال ہم عشرہ فجر اور گیارہ فروری انقلاب اسلامی کی سالگرہ کا جشن اس طرح کے ماحول میں منا رہے ہیں۔ یہ کہنا چاہیے کہ ایرانی قوم ان انقلابوں کی کامیابی کے بعد کسی حد تک تنہائي سے باہر آ گئی ہے۔ آج میں انشاء اللہ اس ضمن میں چند باتیں پیش کروں گا۔
اس خطبے میں تین موضوعات پر اپنے نماز گزار بھائیوں اور بہنوں کے سامنے چند اہم باتیں پیش کروں گا جبکہ دوسرے خطبے میں اپنے عرب بھائیوں سے خطاب کروں گا۔ تین موضوعات میں سے ایک کا تعلق ہمارے انقلاب سے ہے اور ان تین عشروں میں ہم نے جو راستہ طے کیا، ہم نے جو کامیابیاں حاصل کیں اور جو مستقبل ہمارے سامنے ہے اس سے متعلق ہے۔ دوسرے موضوع کا تعلق علاقے اور دنیا کے مسائل سے مربوط ہے۔ تیسرے موضوع کے تحت میں انتخابات سے متعلق دو تین نکات پیش کروں گا۔
جہاں تک پہلے موضوع کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں بیان کرنے کی اتنی زیادہ باتیں ہیں کہ کئی کتابیں لکھی جاسکتی ہیں ۔ میں ایران کے انقلاب کے بنیادی خطوط کے سلسلے میں بس دو تین باتیں عرض کروں گا۔ اس کی تشریح و تفصیل بہت طولانی ہے۔ ہمارے انقلاب میں یہ چند اہم ترین خصوصیات ہیں۔ ہمارے اس انقلاب نے اسلام مخالف حکومت کو سرنگوں کردیا، اسلامی حکومت کی تشکیل کی، جابر و ڈکٹیٹر حکومت کو نیست و نابود کرکے اس کی جگہ عوامی حکومت قائم کی، برسوں سے ہمارا ملک غیروں پر انحصار کے جس جال میں پھنسا  ہوا تھا اور پہلوی حکومت کے دور میں اپنے بدترین اور شرمناک ترین مرحلے میں پہنچ گیا تھا، انقلاب نے اس انحصار کو ختم کر دیا اور ہمہ گیر خود مختاری کا تحفہ ایرانی قوم کو عطاکیا۔ ہماری قوم پر جو جان لیوا  اورگھٹن کا ماحول مسلط کر دیا گیا تھا اسے ختم کیا اور عوام نے آزادی کی فضا میں سانس لینا شروع کیا۔ اب وہ اپنی بات، اپنی خواہشات کا برملا اظہار کرتے ہیں، آزادی کا ماحول ہے۔ ایرانی قوم نے اغیار کی    طرف سےتحقیر کا سلسلہ ختم کرکے اسے قومی وقار میں بدل دیا۔ ہماری قوم دسیوں سال سے تحقیر کا نشانہ بن ہوئی تھی۔ یہ عظیم قوم، اتنے درخشاں ماضی والی قوم، اتنے عظیم ثقافتی و علمی ورثے کی مالک قوم بدعنوان او جابر حکمرانوں اور ان کی پیشت پر کھڑی عالمی استعماری طاقتوں کے ہاتھوں ذلت و رسوائی برداشت کرتی رہی۔ انقلاب نے آکر اس سلسلے کو روکا اور قوم کو قومی وقار عطا کیا۔ آج ایرانی قوم کو اپنے عز و وقار کا احساس ہے، اپنے تشخص پر ناز ہے۔ انقلاب نے ہماری قوم سے احساس کمتری اور احساس کمزوری کو ختم کرکے اس کی جگہ قومی خود اعتمادی کا جذبہ پیدا کیا۔ ہم احساس کمتری میں مبتلا تھے، ہمیں بھی رفتہ رفتہ یقین ہو چلا تھا کہ نہ ہم سے کوئی علمی کام ہو سکتا ہے، نہ ہم کوئی سیاسی کام انجام دے سکتے ہیں اور نہ ہی دفاعی شعبہ ہمارے بس کا روگ ہے۔ ہم یہ سوچنے لگے تھے کہ ہم ایرانی عوام ایک کمزور قوم ہیں۔ یہ خیال ہمارے ذہنوں میں بٹھا دیا گیا تھا اور ہمیں اس کا یقین اور باور کرا دیا گیا تھا۔ انقلاب نے اس تصور کو ہمارے ذہنوں سے محو کیا اور اس کی جگہ قومی خود اعتمادی کا جذبہ بیدار کیا۔ آج ہم ہر شعبہ میں خود اعتمادی کے جذبے سے سرشار ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے اندر ہر کام انجام دینے کی بھر پور صلاحیت موجود ہے اور اسی احساس توانائی کے ساتھ ہم آگے بڑھ رہے ہیں اور الحمد للہ ہم اپنے مقصد میں کامیاب بھی ہیں۔
ہماری قوم سیاسی امور سے بیگانہ اور بے بہرہ تھی، سیاسی امور پر اس کی توجہ نہیں تھی، ملک میں رونما  ہونے والی تبدیلیوں سے اس کا کوئی سروکار نہیں رہتا تھا۔ انقلاب نے آکر قوم کی اس حالت کو بدلا، ہمیں آگاہ اور سیاسی شعور رکھنے والی قوم میں تبدیل کردیا۔ آج ملک کے گوشے گوشے میں ہمارے نوجوانوں میں سیاسی شعور موجود ہے، وہ سیاسی امور کی باریکیوں کو سمجھتے ہیں اور ہر واقعہ کا تجزیہ اور تحلیل کرتے ہیں۔ انقلاب سے پہلے ایسا نہیں تھا۔ اس زمانے میں سیاسی شعور اور سیاسی امور کچھ گنے چنے افراد سے ہی مخصوص تھے۔ عوام ملک میں تبدیلی کے واقعات سے عام طور پر الگ تھلگ رہتے تھے، حکومتیں آتی تھیں، جاتی تھیں، عالمی معاہدے ہوتے تھے، دنیا میں عظیم تبدیلیاں رونما ہوتی تھیں، لیکن ایرانی عوام کو اس کی بھنک تک نہیں لگتی تھی۔ تو ہمارے انقلاب کی بنیادی خصوصیت یہ ہے کہ اس نے یہ تبدیلیاں پیدا کیں۔ یہ چیزیں اب گہرائی تک اتر چکی ہیں، انہیں پائیداری حاصل ہو چکی ہے۔ یہ تغیرات سطحی قسم کے نہیں ہیں، یہ تغیرات وقتی نہیں ہیں۔ انقلاب کے موجودہ نعرے وہی ہیں جو پہلے روز فضا میں گونجے تھے۔ اس سے انقلاب کے محفوظ تسلسل کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ نعرے در حقیقت اہداف کی جانب مرکوز اشارے ہیں، ان سے اہداف کا خاکہ ابھر کر سامنے آتا ہے۔ اگر کسی نظام اور کسی انقلاب کے نعرے ماحول میں پوری طرح رچ بس جائیں، انہیں دوام مل جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس نظام کے اہداف اپنی اصلی شکل میں محفوظ ہیں، ان میں کوئیتبدیلی رونمانہیں ہوئي ہے، اس کا مطلب ہے کہ عوام اور ذمہ داران اصلی اہداف اور معینہ راستے سے منحرف نہیں ہوئے ہیں۔ آج آپ دیکھئے! ایرانی قوم کے نعرے وہی اوائل انقلاب کے نعرے ہیں۔
ان بتیس تینتیس برسوں میں ہماری زندگی انہیں بنیادی خطوط پر استوار رہی ہے۔ ہم نے ترقی کی ہے، کچھ خامیاں اور کمزوریاں بھی رہی ہیں۔ ہمیں اپنی پیشرفت اور ترقی سے بھی آگاہ رہنا چاہیے اور اپنی خامیوں اور کمزوریوں کے بارے میں بھی باخبر رہنا چاہیے ۔ اگر ہم نے اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی، انہیں سمجھنے میں کوتاہی کی، جان بوجھ کر انہیں نظر انداز کیا تو یہ کمزوریاں باقی رہ جائیں گی، جڑ پکڑتی جائیں گی اور پھر انہیں دور کرنا ناممکن اور مشکل ہوجائےگا۔ لہذا ہمیں اپنی تمام صلاحیتوں اور کمزوریوں کی خبر رکھنی چاہیے۔
خوبیاں او خامیاں دونوں ہیں، نشیب و فراز بھی ہیں، لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ترقی اور پیشرفت کا سلسلہ جاری ہے۔ ہمارے عزیز نوجوان یاد رکھیں کہ ان بتیس برسوں میں ایسا بھی ہوا کہ کبھی ہماری کمزوری بھی سامنے آئی، ہماری پیشرفت اور پیش قدمی کے عمل میں نشیب و فراز آئے، ہمیشہ یہ پیش قدمی یکساں نہیں رہی ہے۔ کبھی اس کی رفتار تیز ہو گئی تو کبھی سست ، لیکن کبھی یہ حرکت متوقف نہیں ہوئی اور ہم صحیح سمت میں آگے بڑھے جس کا ثمرہ آج ہماری نظروں کے سامنے موجود ہے۔
اس مدت میں جو کامیابیاں حاصل ہوئیں ان میں سے چند کا میں ذکر کروں گا اور کچھ کمزوریوں کی بھی وضاحت کروں گا۔ ان بتیس برسوں میں ہماری سب سے بڑی کامیابی چیلنجوں پر غلبہ حاصل کرنے کی رہی ہے، یہ بہت اہم بات ہے۔ ہماری قوم کوئی ایسی قوم نہیں تھی کہ سر جھکائے اپنے راستے پر چلتی رہے اور کسی کو اس سے کوئی سروکار نہ ہو۔ ایسا نہیں ہے، پہلے ہی دن سے پیشرفتہ ٹیکنالوجی  کی حامل عالمی طاقتیں، تسلط پسند قوتیں ہمارے پیچھے پڑ گئیں، ہمیں ناکام کرنے اور ہمیں نقصان پہنچانے پر کمربستہ ہو گئیں، ہمارے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے پر آمادہ ہو گئیں۔ ہمارے اوپر جنگ مسلط کر دی، صدام کو ہمارے خلاف اکسا دیا، آٹھ سال تک ہمیں جنگ کی مصیبت میں مبتلا کر دیا۔ ہمارے پیچھے دہشت گردوں کو لگا دیا اور ہم پر اقتصادی پابندیاں عائد کر دیں۔ ہم اب تک ان چیلنجوں پر غلبہ حاصل کرتے رہے۔ یعنی ان میں سے کوئی بھی چیلنج اور مشکل ہمارے عوام اور ہمارے انقلاب کو سر جھکانے اور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور نہ کر سکا۔ ہم الحمد اللہ سربلندی کے ساتھ اپنے راستے پر گامزن رہے۔ یہ بہت اہم خصوصیت ہے۔
اس مدت میں ایک اور اہم پہلو عوام کے لئے کیفیت اور مقدار دونوں لحاظ سے سہولیات اور خدمات کی فراہمی کا ہے۔ ان سہولیات کا نہ تو انقلاب سے  پہلے کے دور سے کوئی مقابلہ ہے اور نہ ہی ماضی بعید سے اس کا کوئی موازنہ کیا جا سکتا ہے۔ پورے ملک میں جس طرح خدمات اور سہولیات مہیا کرائی گئی ہیں ان کی کیفیت بھی بہترین ہے، درجہ اول کی سہولیات ہیں، مادی سہولیات بھی اور معنوی سہولیات بھی۔ اسی طرح ان کی مقدار بھی بہت زیادہ ہے۔ یہ بہت اہم کامیابی ہے۔
دوسرا اہم پہلو علم و دانش کے شعبہ میں ترقی کا پہلو ہے۔ میرے عزیزو! آپ سائنسی ترقی کو معمولی نہ سمجھئے۔ یہ پیشرفت انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ علم و دانش کسی بھی ملک کی ہمہ گیر                      پیشرفت کی بنیاد ہے۔ میں نے یہ حدیث پڑھی ہے؛ «العلم سلطان»؛(2) علم اقتدار ہے۔ جس کے پاس بھی یہ اقتدار ہو وہ اپنے تمام مقاصد کی تکمیل پر قادر ہے۔ یہ عالمی استکباری طاقتیں علم و دانش کی وجہ سے ہی تمام دنیا کو آنکھ دکھانے میں کامیاب ہوئیں۔ البتہ آنکھ دکھانا ہمارا شیوہ نہیں ہے البتہ ترقی و پیشرفت کے لئے علم کی ہمیں بہت ضرورت ہے۔
ان تیس بتیس برسوں میں علمی شعبہ میں ہماری ترقی حیرت انگیز رہی ہے۔ یہ ایٹمی ٹکنالوجی کا مسئلہ تو اتفاق سے زیادہ شہرت پا گیا ہے اور اس پر سب کی توجہ مرکوز رہی ہے، ملک کے اندر بھی اور عالمی سطح پر بھی۔ ورنہ صرف یہی ایک ترقی نہیں ہے۔ جوہری ٹکنالوجی کے علاوہ فضائی و خلائی شعبوں میں بھی ترقی حاصل کی ہے، میڈیکل سائنس کی ترقی بھی ہے، خوش قسمتی سے آج ایران میڈیکل سائنس کے انتہائی اہم اور صعب العلاج شعبوں میں بھی ترقی حاصل کر چکا ہے اور بڑے عظیم کام انجام پائے ہیں۔ اسی طرح بایولوجی کے شعبے میں بھی، نینو ٹکنالوجی کے شعبے میں بھی جو دنیا کی جدید ترین ٹکنالوجی ہے، اسٹم سیلز کی ٹکنالوجی میں بھی جو سائنس کا انتہائی اہم شعبہ ہے، کلوننگ کی ٹکنالوجی میں، سوپر کمپیوٹر کی ساخت میں بھی، جدید انرجی کی فراہمی میں بھی اور نیوکلیئر میڈیسن اور کینسر کی دواؤں کی پیداور میں بھی نمایاں کام انجام پائے ہیں۔ یہ فہرست بہت طویل ہے۔ یہ جو باتیں میں کہہ رہا ہوں اس کو رجز خوانی نہ سمجھئے۔ یہ ایسے حقائق ہیں جس کی گواہی دنیا کے معتبر سائنسی اداروں نے دی ہے۔ ان اداروں کا کہنا ہے کہ حالیہ برسوں کے دوران پوری دنیا میں سب سے تیز رفتار سائنسی ترقی ایران میں نظر آئی ہے۔ سنہ دو ہزار گیارہ کی رپورٹ کے مطا بق پوری دنیا میں سب سے تیز رفتار سائنسی ترقی ایران میں ہوئی ہے۔ دنیا کے معتبر علمی مراکز نے جو رپورٹ جاری کی ہے اس کے مطابق علاقے میں ایران پہلے علمی مقام پر پہنچ چکا ہے۔ ہم نے سنہ دو ہزار چھبیس میں خود کو اس منزل تک پہنچانے کا منصوبہ بنایا تھا۔ ابھی یہ مدت پوری ہونے میں چودہ سال باقی ہیں لیکن اسی گزشتہ عیسوی سال میں تصدیق ہو گئی کہ ایران علمی لحاظ سے علاقے میں پہلے نمبر پر ہےاور دنیا میں سترہویں نمبر پر پہنچ گیا ہے۔ عالمی سطح پر سائنس کے شعبے میں ہم سترہویں نمبر پر ہیں۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ تو ہماری ایک بڑی کامیابی یہی سائنسی شعبہ  میں ترقی سے متعلق ہے۔
ہماری ایک اور بڑی کامیابی فنی، صنعتی اور انجینیئرنگ ڈھانچہ تیار کرنےسے متعلق ہے جو ملک کی بہت بڑی کامیابی ہے۔ جب بھی بیرونی ملکوں سے لوگ آئے اور انہوں نے بنیادی تنصیبات کا مشاہدہ کیا تو بے ساختہ تعریفیں کرنے لگے۔ مواصلاتی شعبے میں، سڑکیں بنانے اور ریل کی پٹریاں بچھانے کے شعبے میں، اسی طرح گوناگوں صنعتی اور فنی تنصیبات کی تعمیر میں جو عظیم کام انجام پذیر ہوئے ہیں ان کی ایک الگ ہی داستان ہے۔ مجھے یہ دیکھ کر بڑا افسوس ہوتا ہے کہ عوام کے سامنے یہ رپورٹیں پوری طرح پیش نہیں کی جاتیں کہ لوگ خوش ہوں اور انہیں اندازہ ہو کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔
اس عرصے میں ہماری ایک اور عظیم کامیابی دوسری اور تیسری نسلوں کو انقلاب کے اقدار کی منتقلی رہی ہے۔ آج آپ ایسے نوجوانوں کو دیکھ رہے ہیں جن میں یہ اقدار منتقل ہو چکی ہیں۔ ہمارے یہی عزیز شہید مصطفی احمدی روشن، جن کی شہادت نے ہم سب کے دلوں کو داغدار کر دیا، یا ان سے قبل وہ شہید نوجوان رضائی ںژاد جنہیں اسی سال کے اوائل میں شہید کر دیا گیا۔ یہ دونوں نوجوان سائنسداں، بتیس تینتیس سال کے نوجوان تھے، امام خمینی (رہ) کی صحبت میں نہیں رہے تھے، انہوں نے جنگ میں شرکت نہیں کی تھی، انہوں نے انقلابی جدوجہد میں حصہ نہیں لیا تھا لیکن انہوں نے کس شجاعت اور جوانمردی کے ساتھ تعلیم حاصل کی، خود کو بلند مقامات تک پہنچایا۔ انہیں بخوبی اندازہ تھا کہ خطرات کا سامنا ہو سکتا ہے لیکن پھر بھی آگے بڑھتے رہے۔ یہ بہت بڑی بات ہے۔ یہ وہی انقلابی اقدار ہیں جو تیسری نسل میں منتقل ہو چکی ہیں۔ احمدی روشن، رضائی نژاد اور ان کے جیسے افراد انقلاب کی تیسری نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی عظیم اقدام جو احمدی روشن کی شہادت کے بعد طلباء نے انجام دیا کہ ہم اپنا تعلیمی موضوع بدل کر جوہری ٹکنالوجی کی تعلیم حاصل کرنے اور شہید کی مہم کو آگے بڑھانے کے لئے تیار ہیں، اسے معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔ ہماری بہت بڑی کامیابی یہ بھی ہے کہ یہ اقدار انقلاب کی دوسری اور تیسری نسلوں میں بھی منتقل ہو گئی ہیں۔ البتہ انقلاب سے اپنا راستہ الگ کر لینے والے بھی لوگ نظر آئے ہیں جنہوں نے انقلاب پر "پشیمانی" کا اظہار کیا، اس سے الگ ہو جانے کی بات کی لیکن شجر انقلاب پر لگنے والے برگ و گل، سوکھ کر گر جانے والے پتوں سے بہت زیادہ ہیں۔ فرسودہ عناصر ہٹ گئے لیکن سرسبز و شاداب غنچے دم بدم کھلتے رہے اور نشو نما کے مرحلے سے گزرتے رہے۔
اس عرصے میں ہماری ایک اور بڑی کامیابی علاقائی اور عالمی مسائل میں بہت تیزی سے بڑھنے والا ہمارا اثر و رسوخ ہے۔ آج اسلامی جمہوریہ ایران ایک بااثر ملک بن چکا ہے۔ کسی بھی مسئلہ میں اس کا نفی یا اثبات میں جواب علاقے اور دنیا کی سطح پر اپنا ایک خاص اثر رکھتا ہے۔ یہ کسی بھی ملک کے لئے بہت اہم پوزیشن اور اہم مقام ہوتا ہے۔
ہماری ایک اور بڑی کامیابی عداوتوں کے مقابلے میں ملک اور نظام کی بنیادوں اور ڈھانچے کا مضبوط اور مستحکم ہونا ہے۔ ہم عداوت اور دشمنی کا سامنا کرتے ہوئے مضطرب نہیں ہوتے، سراسیمہ نہیں ہوتے، پریشان نہیں ہوتے۔ کیونکہ ملک اور نظام کی بنیادیں بہت مضبوط اور مستحکم ہیں۔
ہماری ایک اور کامیابی ہمارے علمی و سائنسی مراکز یعنی یونیورسٹیوں اور دینی علوم کے مراکز کی تعداد اور معیار کا ارتقائی سفر ہے۔ دینی علوم کے مراکز میں بھی تعداد اور معیار دونوں لحاظ سے ارتقاء دیکھنے میں آ رہا ہے اور یونیورسٹیوں میں بھی یہی صورت حال نگاہوں کے سامنے ہے۔ یہ ہماری بڑی کامیابیاں ہیں جن کی باقاعدہ طولانی وضاحت کی ضرورت ہے۔ ان کے اعداد و شمار موجود ہیں۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں۔
میں ان حاصل ہونے والی کامیابیوں کے ضمن میں یہ بھی عرض کردوں کہ ایرانی قوم کی توجہ اس حقیقت پر مبذول رہنی چاہیے کہ یہ تمام علمی، فنی اور سماجی ترقیاں پابندیوں کے باوجود حاصل ہوئی ہیں۔ یہ بہت اہم نکتہ ہے۔ سائنس و ٹکنالوجی کے دروازے ہم پر بند کر دیئے گئے، راستے مسدود کر دیئے گئے، ہماری ضرورت کی اشیاء ہمیں فروخت کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ ہم نے ان دشوار حالات میں ترقی کی ہے۔ یہ سب کچھ پابندیوں کے باوجود انجام پایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری امیدیں بڑھتی جاتی ہیں۔
بیشک ہمارے اندر کچھ کمزوریاں بھی ہیں، جنہیں دور کرنے کی ضرورت ہے۔ میں پابندیوں اور مسلط شدہ حالات کے سلسلے میں ابھی مزید کچھ باتیں پیش کروں گا۔ ہماری جو کمزوریاں ہیں وہ در حقیقت ہمارے راستے کے خطرات ہیں جو اس مدت میں ہمیں در پیش رہے ہیں، ہمیں آئندہ ان کا سد باب کرنا ہوگا۔ ہماری پہلی کمزوری دنیا طلبی ہے جو بعض افراد کے دامن گیر ہو گئی۔ ہم عہدیداروں میں بھی بعض دنیا پرستی میں مبتلا ہو گئے، مادہ پرستی میں مبتلا ہو گئے۔ ہمارے لئے دولت، عیش و عشرت کی زندگی، شاہانہ ٹھاٹ باٹ جیسی چیزیں رفتہ رفتہ قبیح نہیں رہ گئیں۔ جب ہم ایسے ہو گئے تو عوام میں ان عادتوں کا پھیلنا فطری تھا۔ شاہانہ زندگی کا شوق، شان و شوکت کی چاہت، زراندوزی کی طمع اور دولت کا غلط اور ناروا مقاصد کے لئے استعمال فطری طور پر بہت سے لوگوں میں پایا جاتا ہے۔ جب ہم خود اس میں مبتلا ہو گئے، ہم نے اپنا محاسبہ نفس نہیں کیا، نفس کو آزاد چھوڑ دیا تو پھر عام لوگوں میں بھی یہ باتیں پھیلیں گی، عوام میں بھی یہ مشکل عام ہوگی۔
افسوس کی بات ہے کہ ہم اسراف اور ‌فضول خرچی میں مبتلا ہیں۔ میں بارہا یہ بات کہہ چکا ہوں اور دوبارہ اس کا اعادہ کر رہا ہوں۔ یہ ہماری زندگی کی ایک بڑی مشکل ہے۔ فضول خرچی پرہمیں قابو پانا ہوگا۔ دنیا میں تیار کئے جانے والے گوناگوں ساز و سامان کی لالچ سے ہمیں چھٹکارا حاصل کرنا ہوگا۔ جیسے ہی کسی چیز کے بارے میں کوئی افواہ سنائی دی کہ اس کی قلت ہونے والی ہے سب لوگ دکانوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں اور اس چیز کا ذخیرہ تیار کرنا شروع کر دیتے ہیں کہ کہیں گھر میں اس کی کمی نہ پڑ جائے۔ حالانکہ ممکن ہے کہ وہ چیز ایسی ہو جس کی آپ کو کچھ خاص ضرورت بھی نہیں ہے۔ یہ صورت حال پیدا ہو جائے تو پھر اس چیز کی قلت نہ بھی ہو تب بھی اس ذخیرہ اندوزی کے نتیجے میں اس کی کمی ہو جائے گی۔ ہم اس نکتے پر توجہ نہیں دیتے۔ یہ ہماری ایک کمزوری ہے۔ اسے دورکرنا ہوگا۔
ہماری ایک اور کمزوری یہ ہے کہ ہم علم و دانش کے ساتھ ساتھ، سائنس و ٹکنالوجی کی پیشرفت کے ساتھ ساتھ اخلاقیات اور تزکیہ نفس کے میدان میں خود کو ارتقائی منزلوں تک نہیں پہنچا سکے ہیں۔ یہ ہماری پسماندگی کی علامت ہے۔ البتہ انقلاب سے قبل کے دور کی نسبت آج حالات کافی بہتر ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ تاہم ہمیں اور بھی بہتر حالت میں خود کو پہنچانا چاہیے تھا۔ ہم نے علم و دانش کے شعبہ میں ترقی کی ہے، سیاست میں ہم آگے گئے ہیں تو ہمیں معنوی میدان اور تزکیہ نفس کے میدان میں بھی آگے بڑھنا چاہیے تھا۔ قرآن میں جہاں جہاں بھی تزکیہ نفس اور حصول علم کا ذکر ہے، تزکیہ نفس کو حصول علم پر مقدم رکھا گیا ہے۔ حالانکہ قرآن میں جس علم کا ذکر ہے وہ کتاب الہی اور حکمت کا علم ہے۔ «يزكّيهم و يعلّمهم الكتاب و الحكمة»(3) صرف ایک مقام ایسا ہے جہاں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان سے علم کا لفظ تزکیہ نفس پر مقدم نظر آتا ہے۔ مختصر یہ کہ تزکیہ نفس اور اخلاقی بلندی تک پہنچنےسے ہم نے غفلت کی ہے۔
سماجی انصاف کے میدان میں بھی ہم اس مقام پر نہیں پہنچے ہیں جو اسلام کو مطلوب ہے اور جو ہماری دلی آرزو بھی ہے۔ یہ بھی ہماری ایک کمزوری ہے۔ ان کمزوریوں کو دور کرنا چاہیے۔ یہ ایسی کمزوریاں ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ حکام اور عوام دونوں کو یہ احساس ہونا چاہیے کہ ان خامیوں کو دور کرنا ان کا فریضہ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اللہ تعالی سے نصرت طلب  کریں اور ان کمزوریوں سے خود کو نجات دلائیں۔ یہ یقین رکھیں کہ ہم ان کمزوریوں کو برطرف کرنے پر قادر ہیں۔
میری نظر میں ان کمزوریوں کو دور کرنے کے لئے جو کام انجام دینے چاہییں ان میں سرفہرست احساس ذمہ داری ہے۔ ہم سب کو اپنی اس ذمہ داری کا احساس ہونا چاہیے۔ خاص طور پر ملک کے حکام اور قوم کو، خدمت گزار عہدیداروں کو اس کا احساس ہونا ضروری ہے۔ غلطی ایک دوسرے کی گردن پر ڈالنے کی کوشش نہ کیجئے۔ ایسا نہ ہو کہ جہاں کہیں کوئی خامی نظر آئے تو پارلیمنٹ برجستہ کہہ دے کہ یہ مجریہ کا قصور ہے۔ مجریہ جوابا پارلیمنٹ کو قصوروار قرار دے۔ کوئی عدلیہ کو اس کا ذمہ دار ٹھہرائے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ حدیں معین ہیں۔ آئین نے حدبندی کا کام انجام دے دیا ہے۔ سب کے فرائض واضح ہیں۔ رہبر انقلاب کے فرائض معین ہیں، حکومت کے فرائض بھی واضح ہیں، پارلیمنٹ اور عدلیہ کی ذمہ داریاں بھی روشن ہیں۔ اسی طرح مسلح فورسز کے فرائض بھی واضح ہیں، اجرائی اداروں کی ذمہ داریاں بھی معین کی جا چکی ہیں۔ غلطیوں کو ایک دوسرے کی گردن پر ڈالنے کی کوشش نہ کی جائے۔ اگر کوئی مشکل پیدا ہوتی ہے اور اس کا تعلق رہبر انقلاب سے ہے تو رہبر انقلاب انکساری کے ساتھ اس ذمہ داری کو قبول کرے۔ اس مشکل کو برطرف کرنے کی کوشش کرے۔ یہ بڑی بنیادی چیز ہے۔
دوسری اہم چیز یہ ہے کہ کلیدی اور بنیادی امور سے غفلت نہ ہونے پائے۔ فروعی اور جزوی باتوں میں نہ الجھیں کہ جس کی بنا پر اصلی باتوں سے ہماری توجہ ہٹ جائے۔ اس نکتے کی تشریح کافی تفصیل طلب ہے۔
اتحاد و ہمدلی کو قائم رکھنا بھی بہت اہم ذمہ داری ہے۔ میں نے بارہا عرض کیا ہے کہ حکام کے درمیان ہمدلی اور الفت و محبت کا ماحول ہونا چاہیے۔ تینوں قوا مقننہ، مجریہ، عدلیہ اور دیگر ادارے آپس میں ہمدلی، امداد باہمی اور بھرپور ہم آھنگی کا ماحول پیدا کریں۔ کہیں اگر اختلاف رائے ہے تو کوئی مضائقہ نہیں ہے تاہم ملک، نظام اور انقلاب کے رخ اور سمت کا تعین کرنے میں سب کو متحد رہنا چاہیے، ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔ یہ ماحول حکام کے درمیان بھی ہو، عوام کے درمیان بھی ہو اور عوام اور حکام کے مابین بھی ہو۔ یہ اتحاد و ہمدلی ملک کی متعدد مشکلات کے حل کے لئے اکسیر ہے۔
ایک اور انتہائی بنیادی نکتہ جس پر ہم سب کو توجہ دینے کی ضرورت ہے، وہ یہ ہے کہ دشمن کی مسکراہٹ اور اس کے جھوٹے وعدوں کے فریب میں ہرگز نہ آئیں۔ ان تیس برسوں میں بارہا ہمیں اس کا تجربہ ہوا ہے کہ کبھی دشمن بڑی خندہ پیشانی سے پیش آتا تھا اور ابتدائی طور پر ہمارے اندر کچھ افراد اس کے دھوکے میں آبھی جاتے تھے۔ رفتہ رفتہ ہمیں علم ہو گیا کہ پس پردہ اصلی صورت حال کیا ہے؟! ہمیں دشمن کی مسکراہٹ اور اس کے جھوٹے وعدوں کے فریب میں نہیں آنا چاہیے۔ آج دنیا پر حکمراں مادی طاقت کا محاذ بڑی آسانی سے عہد شکنی کرتا ہے، بڑی آسانی سے وعدہ خلافی کرتا ہے، اپنی بات سے مکر جاتا ہے۔ اسے نہ اللہ کا کوئی خوف ہے نہ خلق اللہ سے کوئی شرم اور نہ ہی مذاکرات میں اس کے ساتھ بیٹھنے والے دوسرے فریق سے کوئی ندامت۔ بڑی آسانی سے جھوٹ بول دیتا ہے۔ اس کی بڑی واضح مثالیں میرے پاس ہیں تاہم یہاں اس کا مناسب مقام نہیں ہے، جب ضرورت ہوگی تو میں یہ مثالیں بھی پیش کر دوں گا۔ یہی بیان جو امریکیوں نے دیئے، صدر امریکہ نے جو بیان دیا، انہوں نے ہمیں جو خط لکھا اور اس کا جو جواب ہم نے دیا، اس کے بعد ان کا جو رد عمل سامنے آیا، انہوں نے ان خطوط کے مضمون کے سلسلے میں جو اقدام کیا۔ یہ ساری چیزیں ایک نہ ایک دن دنیا کی رائے عامہ کے سامنے آئیں گی۔ جب ضروری ہوگا ان سے عوام کو باخبر کر دیا جائے گا اور سب دیکھ لیں گے کہ یہ کس قماش کے لوگ ہیں، ان کی بات اور ان کے وعدوں کی کیا اہمیت اور وقعت ہے۔ تو ہمیں دشمن کی مسکراہٹوں اور جھوٹے وعدوں کے فریب میں نہیں آنا چاہیے۔
ایک اور اہم چیز سستی اور تساہلی سے اجتناب ہے۔ تساہلی، سستی اور کام سے فرار ایسی عادتیں ہیں جو ایک انسان کو، ایک کنبے کو، ایک ملک اور ایک قوم کو تباہ کرکے رکھ دیتی ہیں۔ سب کو کام کرنا چاہیے، مجاہدانہ انداز سے کام کرنا چاہیے۔ ہم نے اس ( 1390ہجری شمسی) سال کو اقتصادی جہاد کا سال جو قرار دیا ہے اس سے مقصود یہی ہے کہ سب مجاہدانہ انداز میں اقتصادی سرگرمیاں انجام دیں۔ تو یہ انقلاب سے متعلق مسائل کی باتیں تھیں۔ باتیں اور بھی بہت ہیں لیکن دامن وقت تنگ ہے۔ ہمیں دوسرے اہم مسائل پر بھی گفتگو کرنی ہے۔
اب علاقے اور دنیا کے مسائل؛ اس ایک سال کے اندر علاقے کی قومیں چار ڈکٹیٹروں کو سرنگوں کرنے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ یہ بہت اہم تبدیلی ہے۔ اس لئے کہ کسی قوم کے ہاتھوں ڈکٹیٹر کی سرنگونی کے لئے بڑی جانفشانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ گزشتہ سال کے عشرہ فجر سے لیکر اس سال کے عشرہ فجر تک اس ایک سال کے عرصے میں اس علاقے کے چار خطرناک اور انتہائی خبیث طاغوتوں کا تختہ پلٹا۔ یہ بہت بڑا واقعہ ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور انتہائی اہم واقعہ یہ ہوا کہ تیونس اور مصر میں عوام نے اسلام کو منتخب کیا۔ مصر میں تقریبا پچہتر فیصدی رائے دہندگان نے پولنگ کے مراکز پر جاکر اسلام نواز پارٹیوں کو ووٹ دیا۔ تیونس میں بھی یہی سلسلہ رہا۔ یہ بہت اہم واقعات ہیں۔ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان برسوں کے دوران اسلامی جمہوریہ کی دشمنی میں امریکیوں نے، مغرب والوں نے، تشہیراتی اداروں اور ہالی وڈ نے اسلاموفوبیا پھیلانے کے لئے اور لوگوں کو اسلامی حکومت سے ہراساں کرنے کے لئے جو کوششیں کی تھیں وہ نقش بر آب ہو گئیں اور عوام اسلام ہی کے شیدائی رہے۔ ان عوامی انقلابات کا ایک نتیجہ صیہونی حکومت کے تزلزل اور تنہائی کی صورت میں نکلا۔ یہ بھی بہت اہم تبدیلی ہے۔ صیہونی حکومت اس علاقے میں واقعی ایک کینسر ہے، جسے کاٹ کر پھینک دیا جانا چاہیے اور یقینا ایسا ہی ہوگا۔ ان عوامی انقلابوں سے صیہونی حکومت اور بھی کمزور اور تنہا ہوکر رہ گئی ہے۔ فلسطینی نوجوانوں کے حوصلے بلند ہوئے، ان کی امیدیں بڑھیں، اپنے مستقبل اور اپنی جدوجہد کے بارے میں ان کے جذبات کو تقویت پہنچی، قوموں میں امید کی نئی کرن پیدا ہوئی۔
البتہ ان قوموں میں بحرینی قوم  سب سے مظلوم قوم واقع ہوئی ہے کیونکہ وہ دنیا کے تمام ذرائع ابلاغ کے سکوت اور بے مہری کی شکار بنی ہے۔ کسی بھی انسانی اصول اور عالمی قانون کے تحت اس قوم کے مطالبے کو بیجا قرار نہیں دیا جا سکتا، اس کا مطالبہ بالکل جائز ہے لیکن پھر بھی یہ قوم مظلوم واقع ہوئی ہے۔ اسے خبروں سے یکسر غائب کر دیا گيا ہے۔ یہی نہیں اس کے خلاف پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ ویسے اس پروپیگنڈے کا کوئی اثر نہیں ہو رہا ہے۔ یہ قوم بھی اللہ تعالی کی توفیق سے یقینا فتحیاب ہوگی۔
میں یہیں یہ بھی عرض کر دوں کہ بحرین کے حکام نے دعوی کیا ہے کہ ایران بحرین کے امور میں مداخلت کر رہا ہے۔ یہ سراسر جھوٹ ہے۔ بالکل نہیں، ہم کوئی مداخلت نہیں کر رہے ہیں۔ ہم جب مداخلت کرتے ہیں تو صراحت کے ساتھ اس کا اعلان بھی کر دیتے ہیں۔ ہم نے اسرائیل کی دشمنی میں انجام دیئے جانے والے اقدامات میں مداخلت کی اور اس کا نتیجہ تینتیس روزہ جنگ میں حزب اللہ لبنان کی فتح کی شکل میں نکلا، غزہ میں بائیس روزہ جنگ  میں حماس کی فتح کی صورت میں سامنے آیا۔ آئندہ بھی جہاں کہیں کوئی قوم یا تنظیم صیہونی حکومت کے خلاف بر سرپیکار ہوگی، محاذ آرا ہوگی، ہم اس کی پشت پناہی کریں گے، اس کی مدد کریں گے اور اسے آشکارا بیان کرنے میں ہمیں کوئی ہچکچاہٹ بھی نہیں ہوگی۔ یہ ایک حقیقت ہے، ایک سچائی ہے۔ لیکن بحرین نامی جزیرے کا حکمراں اگر کہتا ہے کہ ایران بحرین کے امور میں مداخلت کر رہا ہے تو یہ درست نہیں ہے، یہ خلاف حقیقت بات ہے۔ اگر ہم بحرین میں مداخلت کر رہے ہوتے تو بحرین کے حالات کچھ اور ہوتے!
دنیا کے حالات بھی عجیب و غریب سمت پر جا رہے ہیں۔ امریکہ کمزور پڑتا جا رہا ہے، سیاسی لحاظ سے بھی، اقتصادی اور معاشی لحاظ سے بھی ۔ یہ ایک سچائی ہے۔ امریکہ کو مشرق وسطی سے متعلق اپنی سیاست میں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا ہے، فلسطین کے مسئلے میں اسے شکست ہوئی ہے، عراق کے مسئلے میں اسے ہزیمت اٹھانی پڑی ہے۔ امریکیوں کا منصوبہ یہ تھا کہ عراق کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیں، لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکے۔ عراقی قوم ڈٹ گئی اور اس نے یہ خواب پورا نہیں ہونے دیا۔ اپنی پٹھو حکومت بٹھانے کی کوشش کی، لیکن یہ بھی نہ کر سکے۔ عدالتی استثناء حاصل کرکے عراق میں موجود رہنے کی کوشش کی تو عراقی عوام اور حکومت نے صاف انکار کر دیا۔ آج عراق کی حکومت ایک عوامی حکومت ہے اور عراقی قوم  ایک بیدار قوم۔ یہی وجہ ہوئی کہ امریکیوں کو خالی ہاتھ عراق سے نکلنا پڑا۔ جو انہوں نے چاہا تھا، حاصل نہ کر سکے۔ البتہ اب بھی تیل کے امور میں ان کی دخل اندازیاں ہیں، سیکورٹی کے امور میں ان کی مداخلتیں ہیں۔ انشاء اللہ آگے چل کر عراقی حکومت اور عوام اس کا بھی کوئی نہ کوئی علاج نکال ہی لیں گے۔
امریکی اپنے داخلی حالات بھی چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ امریکہ زوال کی راہ پر آگے بڑھ رہا ہے لیکن اقرار کرنے کی ہمت نہیں ہے کہ شدید ناتوانی میں مبتلا ہے۔ اوبامہ نے چند روز قبل کانگریس میں اپنی تقریر میں اس بارے میں ہلکا سا اشارہ تک نہیں کیا کہ امریکی عوام چار مہینے سے زیادہ عرصے سے سڑکوں پر اترے ہوئے ہیں، اس سردی کے موسم میں، پورے امریکہ کے اندر، مختلف ریاستوں میں، اتنی بڑی تعداد میں عوام سڑکوں پر نکل پڑیں، پولیس کے تشدد آمیز روئے کا سامنا کریں، انہیں زد و کوب کیا جائے اور پھر بھی ڈٹے رہیں، کیا اس واقعہ کی اتنی بھی اہمیت نہیں ہے کہ اس کا ذکر کیا جائے؟! کوئی اشارہ تک نہیں کیا۔ پردہ پوشی کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہیں ان کے انسانی حقوق کی حقیقت بھی کھل گئی۔ یورپ میں بھی یہی عالم ہے۔ یورپ بھی زوال کے راستے پر چل رہا ہے۔ اقتصادی ومعاشی مسائل اپنی جگہ۔ یہ عجیب و غریب زوال تو ہے ہی جس پر لوگ سخت برہم ہیں، سیاسی لحاظ سے بھی آج یورپ بہت کمزور ہو گیا ہے۔
میں ایک مثال دیتا ہوں۔ فرانس کی حکومت نے جنرل ڈوگل کے دور میں جو اس ملک کے صدر تھے، برطانیہ کو یورپی یونین میں داخل ہونے سے روک دیا۔ کیوں؟! یہ وجہ بتائی کہ برطانیہ کی حکومت امریکہ کی تابع ہے لہذا امریکہ اور برطانیہ کے تعلقات کی یہ نوعیت یورپی یونین کی خود مختاری کو متاثر کر سکتی ہے۔ جنرل ڈوگل نے امریکہ پر برطانیہ کے انحصار کی وجہ سے برطانیہ کو یورپی یونین میں شامل ہونے سے روک دیا۔ اس زمانے کے فرانس کی طاقت کا یہ عالم تھا۔ آج یہ جو حضرت فرانس میں بر سراقتدار ہیں، ان کا یہ عالم ہے کہ بس امریکہ کی باتیں دوہراتے رہتے ہیں، امریکی جو چاہتے ہیں، جو ان کی خواہش ہوتی ہے یہ صاحب اسی کو رٹتے رہتے ہیں۔ غلام بن کر رہ گئے ہیں! ظاہر ہے کہ یہ کمزوری ہے۔ یورپ کی آج یہ ذلت ہوئی ہے۔ جب فرانس کا یہ عالم ہے تو پھر دیگر یورپی ملکوں کا ذکر ہی کیا؟! یہ نظاموں کا زوال ہے۔
مغربی ممالک اس وقت اقتصادی زوال سے دوچار ہیں، سیاسی مسائل میں ناتوانی کا شکار ہیں، عالمی فیصلوں کے متعلق ان کی کمزوری عیاں ہے، ایک مثال یہی ہم پر پابندیاں عائد کرنے کے فیصلے کی ہے۔ ان لوگوں نے در حقیقت اسلامی جمہوریہ کو اور ملت ایران کو اسلام نوازی کی سزا دینے کا منصوبہ بنایا۔ دھمکیاں دیں "مفلوج کن" پابندیوں کی بات کی، "دردناک" پابندیوں کی بات کی۔ بار بار یہی باتیں دوہراتے رہے۔ لیکن یہ پابندیاں دو لحاظ سے ہمارے فائدے میں رہیں۔ ایک تو یہ کہ جب ہم پر پابندی عائد ہوتی ہے تو ہم اپنی داخلی اور مقامی صلاحیتوں اور توانائیوں پر توجہ مرکوز کرتے ہیں، اندرونی طور پر ہماری صلاحیتیں پروان چڑھتی ہیں، چنانچہ آپ ان تیس برسوں کا جائزہ لیجئے، یہی ہوا ہے۔ اگر ہم پر دفاعی شعبے میں پابندیاں عائد نہ کی گئی ہوتیں تو آج یہ حیرت انگیز ترقیاں نہ ہوتیں۔ اگر ایٹمی مسئلے میں ان مغربی طاقتوں نے بوشہر ایٹمی بجلی گھر کی تعمیر کر دی ہوتی تو ہم یورینیم کی افزودگی کے شعبے میں پیشرفت حاصل نہ کرتے۔ اگر علم و دانش کے دروازے ہم پر بند نہ کئے ہوتے تو ہم اسٹم سیلز کے شعبے میں، فضائی و خلائی شعبے میں، خلاء میں مصنوعی سیاروں کی لانچنگ کی ٹکنالوجی میں اس مقام پر نہ پہنچ پاتے۔ معلوم یہ ہوا کہ وہ جیسے جیسے ہم پر پابندیاں عائد کرتے جائیں گے ہم اپنی مقامی اور داخلی صلاحیتوں کو پروان چڑھاتے جائيں گے اور صلاحیتوں کا یہ سرچشمہ اسی طرح ابلتا رہے گا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پابندیاں ہمارے لئے نفع بخش بن گئیں۔
ایک اور لحاظ سے بھی یہ پابندیاں ہمارے لئے مفید ہیں۔ یہ لوگ بار بار اپنے بیانوں میں اور پروپیگنڈوں میں یہی رٹ لگائے ہوئے ہیں کہ ہم ایران پر یہ پابندیاں عائد کرنا چاہتے ہیں تا کہ ایران کو پسپائی اختیار کرنے پر مجبور کر دیں، مثلا ایٹمی مسئلے میں۔ اس طرح ساری دنیا کو خبر ہو گئی کہ ایٹمی مسئلے میں اور اسی طرح دیگر امور میں پسپا کرنے کے لئے ایران پر یہ سارا دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ اب جب ہم نے پسپائی اختیار نہیں کی تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا؟ یہ ساری پابندیاں ایران کو حقوق سے دستبرداری اور پسپائی پر مجبور کرنے کے لئے لگائی گئی ہیں۔ ایران پسپائی اختیار کرنے سے رہا۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ علاقے کی ان انقلابی قوموں کی نظر میں مغرب کا سارا رعب و دبدبہ، مغربی ممالک کی دھمیکوں کا سارا خوف ختم ہو جائے گا۔ دوسری طرف ان قوموں کی نگاہ میں ملت ایران کی عظمت و جلالت پہلے سے زیادہ نمایاں اور اجاگر ہو جائے گی۔ ظاہر ہے کہ یہ بھی ہمارے فائدے میں ہے۔ بنابریں یہ پابندیاں جو ہماری کمر توڑ دینے کے لئے عائد کی گئی ہیں ان دونوں زاویوں سے جن کا میں نے ذکر کیا، ہمارے فائدے میں ہیں۔
یورپ کی حالت کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ یورپ لا ینحل مشکلات کی دلدل میں غرق ہوتا جا رہا ہے۔ یورپ کے عوام برہم ہیں۔ اقتصادی مسائل پر انہیں سخت اعتراض ہے۔ میں یہ بات پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ جس دن یورپی اقوام کو معلوم پڑے گا کہ جس بدحالی میں وہ دوچار ہوئی ہیں وہ امریکی مداخلتوں اور صیہونی نیٹ ورک کی ریشہ دوانیوں کی دین ہے تو اقتصادی مسائل کے تحت شروع ہونے والی یہی عوامی تحریک عظیم سماجی انقلاب کا روپ اختیار کر لیگی۔ ایسا ہوا تو ہمیں نئے عالمی نظام کا مشاہدہ کرنے کے لئے تیار ہو جانا چاہیے اور یہ نیا نظام وجود میں آنے والا ہے۔
چند جملے امریکی دھمکیوں کے بارے میں بھی عرض کرتا چلوں۔ وہ مسلسل دھمکیاں دے رہے ہیں۔ اس کے لئے جملہ استعمال کرتے ہیں کہ؛ "تمام آپشن میز پر ہیں!" یعنی حتی جنگ کا آپشن بھی زیر غور ہے۔ یہ در حقیقت ایک مخصوص انداز میں جنگ کی دھمکی ہے۔ بذات خود یہ دھمکی بھی امریکہ کے نقصان میں ہے جبکہ باقاعدہ جنگ دس گنا زیادہ زیاں بار ثابت ہوگی۔ یہ دھمکیاں کیسے امریکہ کے نقصان میں ہیں؟ اس طرح نقصان میں ہیں کہ یہ دھمکیاں منطقی و فکری مقابلہ آرائی میں امریکہ کی عاجزی اور بے لیاقتی کی غماز ہیں۔ ان کے پاس اسلامی جمہوریہ ایران کی منطقی روش کا کوئی جواب نہیں ہے۔ فکری اور منطقی زور آزمائی میں غلبہ حاصل نہیں کر پا رہے ہیں۔ مجبورا طاقت کے استعمال کی بات کرتے ہیں، عسکری قوت کا سہارا لینے کی بات کرتے ہیں۔ لہذا ثابت ہوا کہ امریکہ کے پاس نہ کوئی فکر ہے نہ منطق، اسے بس لڑنا آتا ہے، اپنے اہداف کے حصول کا اس کے پاس ایک ہی طریقہ قتل و غارتگری کا ہے۔ یہ سرشت دنیا کی اقوام کی نگاہ میں ہی نہیں بلکہ خود امریکی عوام کی نظر میں بھی امریکی حکومت کا اگر تھوڑا بہت اعتبار بچا ہے تو اسے بھی ختم کر دے گی۔ یہ بڑی اہم چیز ہے جو نظاموں کی سرنوشت کا تعین کرتی ہے۔ جس نظام حکومت کا اعتبار خود اس ملک کے عوام کی نظر میں ختم ہو جائے اس کا مستقبل کیا ہوگا یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کی مثال سابق سویت یونین کی ہے۔ ابھی حال ہی کی بات ہے کچھ مغربی مفکرین نے واضح طور پر کہا ہے کہ امریکہ اور مغرب کی آج کی حالت وہی ہو گئي ہے جو سنہ انیس سو اسی کے عشرے کے آخری برسوں کے دوران سابق سویت یونین کی ہوئی تھی اور نتیجہ اس کے بکھراؤ کی صورت میں سامنے آيا تھا۔ یعنی جب کوئی حکومت اور کوئی نظام منطق کے لحاظ سے اور فکری سطح پر اپنے عوام کی نگاہوں سے گر جاتا ہے تو پھر اس حکومت کی بقاء کی امید بھی مر جاتی ہے۔ اس طرح ثابت ہوا کہ وہ جتنی دھمکیاں دیں گے اتنا ہی نقصان اٹھائیں گے۔ البتہ امریکی بھی اور دوسرے لوگ بھی جان لیں! ویسے وہ جانتے ہیں کہ جنگ کی دھمکیوں اور تیل پر پابندی کی دھمکیوں کے جواب میں ہمارے پاس بھی راستے ہیں جو انشاء اللہ وقت آنے پر ہم استعمال کریں گے۔
انتخابات کے تعلق سے بھی میں چند باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔ برادران و خواہران عزیز، عظیم الشان ملت ایران! انتخابات ملک کے تحفظ کے ضامن ہیں۔ اس قوم کی ہیبت کو قائم رکھنے والی، دشمنوں سے اس قوم کی روحانی طاقت کا لوہا منوانے والی چیز یہی عوامی شراکت ہے اور عوامی شراکت کا ایک اہم مظہر انتخابات ہیں، اس کا ایک اور اہم مظہر گیارہ فروری کو اسلامی انقلاب کی سالگرہ پر نکلنے والے جلوسوں میں بھرپور شرکت ہے۔ شرکت جتنی زیادہ وسیع ہوگی قومی اعتبار و وقار میں اتنا ہی اضافہ ہوگا۔ انتخابات کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ پولنگ کے مراکز پر رائے دہندگان کی کثرت ملک کے اعتبار اور اس کے استحکام کو بڑھائے گی۔ عوام کی شراکت ملک کے مستقبل کو یقینی بنائے گی، اس کی ضامن بن جائے گی۔ ایک باصلاحیت، صحتمند اور مضبوط پارلیمنٹ ملک کے تمام محکموں پر مثبت اثرات مرتب کرے گی۔ مجریہ کی کارکردگی پر، عدلیہ کی کارکردگی پر، حتی مسلح فورسز کی کارکردگی پر اچھے اثرات ڈالے گی۔ مضبوط پارلیمنٹ، باصلاحیت پارلیمنٹ اور صحتمند پارلیمنٹ کی یہ خوبیاں ہیں۔ اس طرح کی پارلیمنٹ کی تشکیل عوام الناس کے علاوہ کون کر سکتا ہے؟ دشمن کو یہی پسند نہیں ہے۔ دو تین مہینے سے دشمن کے لاؤڈ اسپیکر چل پڑے ہیں کہ انتخابات کے تعلق سے عوام میں بے رغبتی پیدا کر دیں۔ ملک کے اندر بھی کچھ افراد بغیر سوچے سمجھے وہی راگ الاپ رہے ہیں، دشمن تو خاص سازش کے تحت یہ کام کر رہا ہے اور ملک کے اندر یہ افراد غفلت کی وجہ سے یہ عمل انجام دے رہے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی بات پر رائی کا پربت نہیں بنانا چاہیے۔ بحرانی حالات پیدا کرنے کی کوشش سے اجتناب کرنا چاہیے۔ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ ایران میں بحران ہے۔ آخر کیسا بحران ہے؟ کون سا بحران ہے؟ ملک میں پرسکون ماحول ہے، قوم کے اندر جوش و جذبہ بھرا ہوا ہے، مختلف ادارے زبردست کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ توفیق پروردگار سے ملک میں امن و استحکام کی فضا قائم ہے۔ اداروں میں اچھا باہمی تعاون دیکھنے میں آ رہا ہے اور اس میں دن بدن مزید بہتری آ رہی ہے۔ دشمن یہی نہیں چاہتا۔ انتخابات کے سلسلے میں سب سے اہم چیز ہے رقابت کا صحتمند ہونا۔ ایسی رقابت جس میں ایک دوسرے کے خلاف تہمتیں لگانے اور ایک دوسرے کی خامیاں بیان کرنے سے اجتناب کیا جائے۔ عوام اگر خود انتخابی امیدوار کو باقاعدہ جانتے ہیں تو اپنی تشخیص کی بنیاد پر عمل کریں اور اگر نہیں جانتے تو صاحب فہم اور دیانتدار افراد کی مدد سے امیدوار کا انتخاب کریں۔ انتخابی عہدیداروں کو چاہیے کہ پوری توجہ سے کام کریں۔ ان چیزوں سے ملک میں ایک بار پھر بہترین انتخابات کا انعقاد ہوگا۔
انقلاب کی کامیابی کے بعد سے اب تک بتیس تینتیس انتخابات ہوئے ہیں۔ خوش قسمتی سے سارے انتخابات شفاف اور آزادانہ رہے ہیں۔ بیشک ان انتخابات میں کچھ لوگوں کو اعتراض بھی ہوا، اعتراض کی بنیاد پر تحقیقات بھی انجام دی گئی ہیں اور کبھی ایسا بھی نظر آیا کہ واقعی غلطی ہوئی تھی لیکن کبھی ایسا نہیں ہوا کہ انتخابات کی صحت اور شفافیت پر سوالیہ نشان لگا ہو۔ انشاء اللہ آئندہ بھی یہی صورت حال جاری رہے گی۔
میں چند جملے انتخابی امیدواروں کی صلاحیت اور اہلیت کے سلسلے میں بھی عرض کرنا چاہوں گا۔ گارڈین  کونسل امیدواروں کی اہلیت کا جائزہ لیتی ہے اور بعض امیدواروں کی اہلیت ثابت نہیں ہو پاتی۔ میں اس ضمن میں تین نکات بیان کرنا چاہوں گا۔ پہلا نکتہ یہ ہے کہ شورائے نگہبان کی آئينی ذمہ داری ہے کہ امیدواروں کی اہلیت کا جائزہ لے۔ اسے تشخیص دینی ہے اور اس بات کا تعین کرنا ہے کہ اہلیت اور صلاحیت موجود ہے۔ البتہ ہماری طرف سے ہمیشہ یہ سفارش رہی ہے کہ اہلیت کی سطح اتنی بلند نہ رکھی جائے کہ معدودے چند افراد ہی اس پر پورے اتریں۔ اہلیت کی سطح کے تعین میں کسی حد تک تسامح اور درگزر سے کام لینا چاہیے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو شورائے نگہبان کی نظارت اور یہ عمل انجام دینے والے عہدیداروں پر اعتراض ہے۔ ممکن ہے کہ ان کا اعتراض واقعی درست اور بجا ہو۔ تاہم یہ خیال رکھنا ضروری ہے کہ جب ایک قانونی اور قابل اعتماد عہدیدار کوئی فیصلہ کرتا ہے تو ہمیں وہ فیصلہ قبول کرنا چاہیے۔ سب کو اس فیصلے پر عمل کرنا چاہیے۔ مثال کے طور پر پارلیمنٹ ایک قانون بناتی ہے۔ مجھے اس قانون پر اعتراض ہے۔ میں کہوں گا کہ اس قانون میں یہ خامیاں ہیں۔ یہ سب اپنی جگہ پر درست ہے لیکن بہرحال یہ قانون بنا ہے تو ہمیں اس پر عمل کرنا ہے۔ جب کوئی قانونی ادارہ جس پر ہمیں اعتماد ہے مثال کے طور پر شورائے نگہبان، اگر کوئی فیصلہ کرے تو ہمیں وہ فیصلہ قبول کرکے اس کے مطابق عمل کرنا چاہیے۔ تیسرا نکتہ یہ ہے کہ تمام افراد یہ بات ذہن میں رکھیں کہ جن افراد کی اہلیت ثابت نہیں ہوئی ہے، ایسا نہیں ہے کہ وہ لازمی طور پر نااہل لوگ ہیں۔ یہ خیال پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ فلاں صاحب چونکہ انتخابات کے لئے نااہل قرار دے دیئے گئے ہیں لہذا ثابت ہو گیا کہ ان میں کوئی لیاقت اور اہلیت نہیں ہے۔ ایسا نہیں ہے، جناب! وہ شخص امیدوار کی حیثیت سے انتخابات میں شرکت نہیں کر سکا تو یہ بھی تو ممکن ہے کہ جس عہدیدار نے انتخابات کے لئے اسے نااہل قرار دیا ہے اس سے کوئی غلطی ہوئی ہو یا ہو سکتا ہے کہ الیکشن لڑنے کی اس میں صلاحیت نہیں ہے لیکن دوسری متعدد صلاحیتیں اس کے اندر پائی جاتی ہوں۔ یہ تصور پیدا نہیں ہونا چاہیے کہ اگر کوئی انتخابات کے لئے نااہل قرار پا گیا ہے تو گویا اس کے اندر کوئی اہلیت و لیاقت ہی نہیں رہی۔ ایسا نہیں ہے، اس کے اندر ممکن ہے کہ دوسری صلاحیتیں بدرجہ اتم موجود ہوں۔
انتخابات کے سلسلے میں آخری بات یہ عرض کرنا ہے کہ ذمہ دار افراد انتخابات کے سلسلے میں دشمن کی سازشوں کی طرف سے ذرہ برابر غفلت نہ برتیں۔ انتخابات میں جن افراد کو کامیابی نہیں ملی ہے وہ بھی بہت محتاط رہیں کہ جس فریب میں جون دو ہزار نو کے صدارتی انتخابات میں شکست کھانے والے امیدوار آ گئے تھے، اس میں وہ بھی گرفتار نہ ہو جائیں۔ تمام امیدوار اور ان کے طرفدار، دشمن کی ممکنہ سازشوں کے مقابلے کے لئے اپنی ذمہ داری کا احساس کریں۔ انتخابات پر سوالیہ نشان نہ لگائیں۔ کوئی بھی دشمن کو فائدہ پہنچانے کی غلطی نہ کرے۔ پروپیگنڈوں میں اس طرح کی غلط فہمیاں پیدا نہ کی جائیں کہ ملک کے اندر اختلافات ہیں، مایوسی ہے۔ ان باتوں کا خیال رکھیں تا کہ فضل پروردگار سے ایک بار پھر بہترین انتخابات کا انعقاد ہو۔

بسم‌اللّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌
والعصر. انّ الانسان لفى خسر.
الّا الّذين ءامنوا و عملوا الصّالحات و تواصوا بالحقّ و تواصوا بالصّبر.


دوسرا خطبہ

بسم‌اللّه‌الرّحمن‌الرّحيم‌
الحمد للّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا ابى‌القاسم المصطفى محمّد و على ءاله الأطيبين الأطهرين سيّما بقيّةاللّه فى الأرضين و صلّ على علىّ اميرالمؤمنين و فاطمة الزّهراء سيّدة نساءالعالمين و صلّ على الحسن و الحسين سيّدى شباب اهل الجنّة و على علىّ ‌بن ‌الحسين و محمّد بن ‌علىّ و جعفر بن ‌محمّد و موسى‌ بن ‌جعفر و علىّ ‌بن ‌موسى و محمّد بن ‌علىّ و علىّ ‌بن‌ محمّد و الحسن‌ بن ‌علىّ و الخلف القائم المهدىّ حججك على عبادك و امنائك فى بلادك و صلّ على ائمّة المسلمين و حماة المستضعفين و هداة المؤمنين.

میں ایک بار پھر تمام نماز گزار عزیزوں، اپنے بھائیوں اور بہنوں کو تقوا اور پرہیزگاری کی سفارش کرتا ہوں۔ دوسرے خطبے میں مجھے جو باتیں عرض کرنا ہیں وہ میں نے پہلے خطبے میں بیان کر دی ہیں۔ اب اس دوسرے خطبے میں عزیز نمازیوں سے معذرت کے ساتھ میں اپنے عرب بھائیوں کو مخاطب کرنا چاہوں گا جو بڑے حساس اور نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ یہ خطبہ میں عربی زبان میں دوں گا۔

عربی خطبے کا اردو ترجمہ

بسم ‌اللّه ‌الرّحمن ‌الرّحيم
الحمد للّه ربّ العالمين و الصّلاة و السّلام على سيّدنا و نبيّنا محمّد و ءاله الطّاهرين و صحبه المنتجبين و من تبعهم باحسان الى يوم الدّين.

مسلمان  بھائیو اور بہنو! سلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

میں چاہتا ہوں کہ ماہ "ربیع" الاول میں، خاتم المرسلین کے یوم ولادت با سعادت کے موقعہ پر اسلامی بیداری کی "ربیع" (بہار)، یعنی مصر تیونس اور لیبیا سے بحرین، یمن اور دیگر اسلامی سرزمینوں تک آباد عرب بھائیوں اور بہنوں کے قیام کی پہلی سالگرہ کی ملت ایران اور تمام مسلمین جہان کی طرف سے مبارکباد پیش کروں۔
بڑے اہم واقعات سے بھرا ہوا یہ سال گزرا۔ تیونس اور مصر میں پہلی دفعہ عوام الناس کے ووٹوں کو قدر کی نظر سے دیکھا گیا اور دونوں ہی ملکوں میں یہ ووٹ اسلام نواز جماعتوں کے حق میں پڑے۔ لیبیا میں بھی یہی کہانی دوہرائی جانے والی ہے۔ صیہونیت کی مخالفت، آمریت کی نفی، آزادی کی محبت، حریت پسندی اور ترقی کی چاہت سے آمیختہ یہ اسلام نوازی، قرآن کے سائے میں تمام مسلمان اقوام کا نصب العین اور حتمی ارادے کا مظہر قرار پائے گی۔ یہ لہر جس نے تین عشرے قبل اسلامی مملکت ایران کی تقدیر (فروری مہینے کے) انہی ایام میں بدل کر رکھ دی، جس نے امریکہ، نیٹو اور صیہونزم کے محاذ پر کمرشکن ضرب لگائی اور علاقے میں مغرب کے پٹھو اور سب سے بڑے دین مخالف ڈکٹیٹر کو سرنگوں کر دیا، آج انہی ایام میں، اسی انداز سے اور انہیں مطالبات کے ساتھ پورے مشرق وسطی کے اس اسلامی اور عرب علاقے میں پھیلی ہوئی ہے۔
قوموں کی بیداری ارادہ پروردگار کا آئینہ قرار پائی ہے اور اسلام کی صدی اور قوموں کے دور اقتدار کی آہٹ سنائی دینے لگی ہے جو مستقبل میں تمام انسانیت کی تقدیر بدل دے گی۔ کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ لندن، میڈرڈ، روم اور ایتھنز کے نوجوان اور دانشور (قاہرہ کے) التحریر اسکوائر سے الہام لیکر سڑکوں پر نکل پڑے؟!
پورے عالم اسلام کے حساس ترین علاقوں میں دین مبین کی سمت بازگشت اور وقار و تشخص کی بحالی کی تحریک نے تلاطم برپا کر دیا ہے اور ہر جگہ "اللہ اکبر" کے نعروں کی گونج فضا میں گردش کر رہی ہے۔ عرب قوموں نے ڈکٹیٹروں کو اب مزید برداشت کرنے سے صاف انکار کر دیا ہے، اب اغیار کے پٹھو طاغوتوں کی اپنے اوپر حکمرانی انہیں گوارا نہیں ہے، یہ قومیں غربت و پسماندگی، تحقیر اور اغیار پر انحصار سے تنگ آ چکی ہیں۔ انہوں نے سوشلزم، لبرلزم اور نیشنلزم کے تحت سیکولرزم کو خوب آزما کر دیکھ لیا، یہ سارے مکاتب فکر فیل ہو چکے ہیں۔ یہ قومیں اسی طرح اسلامی لیبل لگی ہوئی انتہا پسندی، مذہبی تشدد، رجعت پسندی، فرقہ واریت اور طبقاتی تفریق سے بھی بیزار ہو چکی ہیں۔
تیونس اور مصر کے انتخابات، یمن، بحرین اور دیگر عرب سرزمینوں میں بسنے والوں کے نعروں اور رجحانات سے صاف ظاہر ہے کہ سب کی خواہش ہے کہ عصر حاضر کا مسلمان خشک انتہا پسندی کی افراطی کیفیت سے بھی آزاد ہو اور مغرب نوازی کی "تفریط" سے بھی پاک ہو۔ وہ چاہتے ہیں کہ اللہ اکبر کے نعرے کے سائے میں روحانیت، مساوات اور عقل پسندی کو یکجا جمع کرکے دینی جمہوریت کو وجود بخشیں جو انہیں سو سالہ تحقیر آمیز زندگی، استبداد، پسماندگی، استعمار، بدعنوانی اور غربت و تفریق سے نجات دلائے۔ بیشک یہی بہترین راستہ ہے۔
عرب حکومتیں جو آج اپنے عوام کے غیظ و غضب کے آتشفشاں کے لاوے میں جھلستی نظر آ رہی ہیں، کس قماش اور کن عادات و اطوار کی تھیں؟ دین کی دشمنی، مغرب یعنی امریکہ اور برطانیہ کی اطاعت شعاری و فرمانبرداری، صیہونیوں کی معاونت اور فسطین کے حق میں خیانت، موروثی اور خاندانی آمریت، حکمراں خاندانوں کی دولت و ثروت کے پہاڑ کے نیچے غربت و افلاس کی جکی میں پستی اور سسکتی ملت، تفریق و عدم مساوات، قانونی آزادی اور جوابدہی کا فقدان یہ ان آمر حکومتوں کی مشترکہ خصوصیات رہی ہیں۔ ان حکومتوں کی اسلام پسندی کی ریاکاری اور بعض اوقات جمہوریت نوازی کی مکاری بھی عوام کو دھوکا نہ دے سکی۔ یہ خصوصیات عرب اقوام کی تحریک کی ماہیت کو پہچاننے کی بہترین کسوٹی کا درجہ رکھتی ہیں۔ خواہ وہ ان قوموں کی تحریک ہو جنہیں عظیم کامیابی حاصل ہو چکی ہے یا ان اقوام کی تحریک جو کامیابی سے محض چند قدم کی دوری پر ہیں۔ اللہ اکبر کے نعرے کے ساتھ شروع ہونے والی ان تحریکوں کی ماہیت کے بارے میں اگر کوئی بھی دوسری بات کہی جاتی ہے تو یہ خاص مقاصد کے حصول اور تحریک کو گمراہ کرنے کی کوشش کے تحت حقائق کو نظر انداز کرنا ہے۔ ان انقلابوں کا مستقبل بھی اسی اصول کی کسوٹی پر پرکھا جائے گا اور ان انقلابوں کی اصالت اور انحراف کو پرکھنے کے لئے انہی امنگوں پر انہیں تولا جائے گا۔ "اشیاء اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہیں" اور ان انقلابوں کی حقانیت کو متعلقہ ممالک کی ان حکومتوں کے عادات و اطوار سے بیزاری کی بنیاد پر پرکھا جائے گا، جنہیں ان انقلابوں نے لرزہ براندام کر دیا ہے۔ انقلابیوں کو چاہیے کہ ان سازشوں سے ہوشیار رہیں جن کے تحت انقلابی نعروں کو تبدیل کر دینے اور ان کے لئے نئے نئے ہدف تراشنے کی کوشش ہو رہی ہے۔
بیشک مغرب کی یہ کوشش ہے کہ انقلابوں کو ان کی مخالف سمت میں موڑ دے اور نئے طرز پر انہیں پرانی حکومتوں کی تشکیل نو کرکے، عوام کے جوش و جذبے کو ٹھنڈا کرکے، کچھ اصولوں اور فروعات، کچھ مہروں اور پٹھوؤں کی جگہ تبدیل کرکے، ظاہری اور دکھاوٹی جمہوری اصلاحات کرکے کئی عشروں کے لئے عالم عرب کو ایک بار پھر اپنے استعماری چنگل میں جکڑ لے۔
اسلامی بیداری کے ان عشروں میں، خاص طور پر حالیہ برسوں کے دوران ایران و افغانستان سے لیکر عراق، لبنان، فلسطین اور اب مصر، تیونس اور دیگر جگہوں تک ہر مقام پر ہونے والی پے در پے شکستوں کو دیکھتے ہوئے مغربی ممالک اسلام دشمنی اور اعلانیہ تشدد کے حربے کی ناکامی سے واقف ہو چکے ہیں اور اب غلط اور نقلی نمونے پیش کر رہے ہیں تا کہ شہادت پسندی کی جگہ غیر انسانی دہشت گردانہ کارروائیوں، اسلام پسندی اور جہاد کی جگہ تعصب، رجعت پسندی و تشدد، دین پسندی اور متحدہ مسلمہ امہ کے نظریئے کی جگہ قومیتی اور قبائلی جذبے، خود مختار ترقی کی جگہ مغرب نوازی اور مغرب پر اقتصادی و ثقافتی انحصار، علم دوستی کی جگہ دین سے بیزاری، دانشمندی کی جگہ ساز باز، آزادی کی جگہ اخلاقی بے راہروی، لا اینڈ آرڈر کے نام پر ڈکٹیٹر شپ، ترقی و پیشرفت کے نام پر دنیا پرستی، صارف اور اشرافیہ کلچر اور روحانیت و زہد کے نام پر غربت و پسماندگی کو رائج کر سکیں۔
سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام کے مابین دولت و طاقت کی لڑائی ختم ہو چکی ہے۔ اس وقت لڑائی دوسرے دو محاذوں کی ہے۔ ایک طرف مسلمانوں کی تحریک کے تحت دنیا کے مستضعف انسان ہیں اور دوسری طرف امریکہ، نیٹو اور صیہونزم کی قیادت میں استکباری طاقتیں ہیں۔ یہ دو محاذ تشکیل پا چکے ہیں، اب کوئی تیسرا محاذ نہیں ہے۔
میں اس مختصر سے وقت میں ماضی کی باتوں کو دوہرانے اور عرب اقوام کو داد شجاعت دینے کی جگہ پر حال اور مستقبل کی باتیں کرنا چاہوں گا۔ بیشک ہم سب کی نگاہیں، ساری دنیا کی نظریں اس علاقے پر ٹکی ہوئی ہیں۔ ہم جزیرۃ العرب سے لیکر شمالی افریقا تک کے علاقوں میں اٹھ کھڑی ہونے والی اقوام کی جتنی بھی تعریف کریں کم ہے۔ گزشتہ سال اسی نماز جمعہ میں میں نے مصر کے عوام سے اس عالم میں خطاب کیا تھا کہ ابھی ان کے سروں پر حسنی مبارک کا نامبارک (منحوس) سایہ باقی تھا۔ اب وقت نے کروٹ بدلی ہے اور ڈکٹیٹر، عدالت کے کٹہرے میں لایا جا چکا ہے۔ ہم سب عزیز ترین ملک مصر اور دیگر عرب اقوام کی تحریک اور انقلاب کے مستقبل کو پرامید نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔
اب انقلابوں کے میدان میں جو مختلف فریق سرگرم ہیں ان پر بھی ایک نظر ڈال لینا مناسب ہوگا۔
ایک محاذ امریکہ، نیٹو، صیہونی حکومت اور کچھ عرب حکومتوں کے اندر بیٹھے ان کے اتحادیوں اور مہروں پر مشتمل ہے۔ دوسرا محاذ قوموں اور نوجوانوں کا ہے۔ تیسرا محاذ اسلامی اور غیر اسلامی سیاسی جماعتوں اور کارکنوں کا ہے جن میں ہر ایک کی الگ پوزیشن اور الگ ہدف ہے۔ تیونس، مصر اور دیگر انقلابی ملکوں میں اصلی شکست پہلے محاذ کو ہوئی ہے اور آئندہ بھی ہوگی۔ مغربی دنیا حتی یورپ اور خود امریکہ میں بھی سرمایہ دارانہ نظام اور لبرل ڈیموکریسی کا آئیڈیل پہلے اپنی مقبولیت سے محروم ہوا اور اب اس کے وجود کے لالے پڑے ہیں۔ وہ زوال کی راہ پر چل رہا ہے اور اس کی حالت انیس سو اسی کے عشرے میں مشرق کے کمیونسٹ بلاک کی حالت جیسی ہو گئی ہے۔ اخلاقی و سماجی تنزل، غیر معمولی اقتصادی بحران، عراق، افغانستان، لبنان اور دیگر جگہوں پر ہونے والی شکست فاش، عرب اور مسلم ممالک میں ان کے پٹھو اور غلام ڈکٹیٹروں کا یکے بعد دیگرے سقوط، خصوصا مصر کا ہاتھ سے نکل جانا، صیہونی حکومت کا شمالی سمت اور مغربی سمت سے بلکہ اندرونی طور پر بھی شدید خطرات سے دوچار ہو جانا، ان سے وابستہ عالمی اداروں کی حقیقت کا افشاء، جمہوریت اور انسانی حقوق کے مسئلے میں ان کا دوغلاپن اور دوہری سیاست، لیبیا، مصر، بحرین، یمن اور دیگر ملکوں کے معاملے میں ان کا متضاد موقف اور ان کی سراسیمگی، ان حقائق نے اول الذکر محاذ کو عالمی رائے عامہ کے اعتماد سے محروم اور صحیح فیصلہ کرنے کے سلسلے میں بڑے عمیق بحران سے دوچار کر دیا ہے۔ یہ محاذ حالات پر غلبہ پانے اور قوموں کو کچلنے میں ناکامی کے بعد اب انقلابوں کی مرکزی کمان پر تسلط قائم کرنے اور پارٹیوں اور تنظیموں کے اندر دراندازی کی کوشش کر رہا ہے۔ سابقہ بدعنوان سسٹم کو جہاں تک ممکن ہو تحفظ دینا، سطحی اور نمائشی تبدیلی لاکر معاملے کو رفع دفع کر دینا، انقلاب لانے والے ملکوں میں اپنے مقامی مہروں کی نئے سرے سے تقویت، انقلاب کے جوش و خروش کو ٹھنڈا کرکے اسے منحرف کر دینے کے لئے افراد کو لالچ دینا، ڈرانا دھمکانا اور آگے چل کر ٹارگٹ کلنگ کرنا اور لوگوں یا گروہوں کو خریدنا، لوگوں کو مایوسی میں مبتلا کرنا، انہیں فروعی باتوں میں الجھا دینا، قومیتی، قبائلی، مذہبی اور جماعتی اختلافات کو ہوا دینا، تحریکوں کی ماہیت کو تبدیل کرنے کے لئے گمراہ کن نعرے تراشنا، انقلابی رہنماؤں کے ذہن و زبان پر براہ راست یا بالواسطہ طور پر کنٹرول حاصل کرنا، انہیں اپنے سیاسی کھیل میں گھسیٹ لینا، انقلابی رہنماؤں کے درمیان اور پھر ان کی مدد سے عوام کے درمیان تفرقہ ڈالنا، بعض اہم رہنماؤں کو مالیاتی امداد جیسے جھوٹے وعدوں کے ذریعے پس پردہ اپنے ساتھ ملانا، اسی طرح دوسرے درجنوں حربے ہیں جن میں بعض کی طرف میں نے تہران میں منعقدہ اسلامی بیداری بین الاقوامی کانفرنس میں اشارہ کیا تھا۔
امریکہ اور نیٹو کی کاسہ لیسی کرنے والی بعض بنیاد پرست عرب حکومتیں اپنے وجود کو طول دینے کے لئے پوری قوت صرف کر رہی ہیں کہ وقت کی رفتار تھم جائے، علاقے کے انقلابات کالعدم ہو جائیں یا انہیں نامعلوم منزل کی طرف گھسیٹ لے جائیں۔ ان کوششوں کے لئے ان کے پاس واحد ذریعہ پیٹرو ڈالر (تیل کی فروخت سے حاصل ہونے والی دولت) کا ہے۔ ان کا ہدف مصر، تیونس، یمن، لیبیا، بحرین اور دیگر ملکوں کی قوموں کو شکست دینا، صیہونی حکومت کی بقاء اور استحکام کی ضمانت فراہم کرنا اور علاقے میں اسلامی مزاحمتی تحریک پر کمرشکن وار کرنا ہے۔
دوسرا محاذ جو سب سے اہم محاذ ہے، قوموں پر مشتمل ہے۔ قومیں کیا چاہتی ہیں؟ مصر اور دیگر اسلامی ممالک میں امریکیوں کے ذریعے بار بار کرائے جانے والے سروے کی رپورٹوں سے قوموں کا منشاء ان کے سامنے آ چکا ہے۔ سنہ دو ہزار تین سے دو ہزار آٹھ تک مساجد اور شعائر دینی منجملہ حجاب کی طرف مصر، اردن، ترکی، ملیشیا اور دیگر ملکوں کے عوام کی رغبت چالیس فیصدی سے بڑھ کر پچہتر فیصدی تک پہنچ گئی ہے۔ اسلامی اور عرب ملکوں میں امریکہ سے نفرت کی اوسط شرح پچاسی فیصدی ہو گئی۔ تینتیس روزہ جنگ لبنان اور بائیس روزہ جنگ غزہ میں حزب اللہ لبنان اور تحریک حماس کی فتح اور عراق سے امریکہ کی خالی ہاتھ واپسی سے عرب نوجوانوں میں مستقبل اور فتح و کامرانی کی امید قوی ہوئی ہے۔
مصر کے نوجوانوں کے درمیان ہمیشہ صیہونیت مخالف مسلمان مجاہدین کو مقبولیت حاصل رہی ہے۔ صیہونزم سے نفرت، مسئلہ فلسطین پر خصوصی توجہ اور اسلامی عظمت و وقار کا احیاء قوموں کی بنیادی خصوصیات میں شامل ہے۔ حالیہ انتخابات میں مصر کے پچہتر فیصدی عوام نے اسلامی نعروں کی حمایت کی۔ تیونس میں بھی اکثریت نے اسی پرچم اسلام کو بلند کیا۔ لیبیا میں بھی یہ شرح اس سے کم ہرگز نہیں ہوگی۔ عوام الناس نئی حکومت اور نئے نمائندوں سے اپنے مستقبل کے لئے یہی چیزیں چاہتے ہیں۔ عوام مصر کو باوقار، محترم اور آزاد دیکھنا چاہتے ہیں۔ کیمپ ڈیوڈ والے مصر کو پسند نہیں کرتے، غربت زدہ اور اغیار کا تابع مصر نہیں چاہتے۔ امریکہ کا فرماں بردار اور اسرائيل کا اتحادی مصر نہیں چاہتے۔ عوام رجعت پسند، انتہا پسند، مغرب زدہ، الحادی اور اغیار پر منحصر مصر نہیں چاہتے۔ آزاد مصر، اسلامی اور پیشرفتہ مصر عوام کا اصلی مطالبہ اور نصب العین ہے۔ یہ نوجوانوں کی مانگ ہے، وہ تنازعہ نہیں چاہتے۔ مصر کی فوج کا پورا سسٹم عوام کے ساتھ ہے۔ مصر کے اندر اور باہر کچھ عناصر ہیں جو فوج کو مصری قوم سے لڑانا چاہتے ہیں۔ سب کو بہت محتاط رہنا چاہیے۔ مصری فوج کا نظام امریکہ کا نفوذ برداشت نہیں کرے گا، اسرائیل کے احباب کی پذیرائی پر تیار نہیں ہوگا۔
جب مصر، تیونس اور لیبیا میں اسلام پسندی کی بات ہوتی ہے تو اس سے مراد وہ اسلام ہے جو رسول اکرم لے آئے تھے۔ جس نے مدینے میں اہل ذمہ قرار پانے والے یہودیوں اور عیسائیوں پر عطوفت و رحمت کا سایہ کیا۔ اسلام کی بات کی جاتی ہے تو اس کا مقصد ہرگز یہ نہیں کہ اللہ کی پرستش کرنے والوں میں جنگ کا بگل بجے یا مسلم فرقوں کے مابین ٹکراؤ ہو۔ مصر تو اسلامی مکاتب و مسالک کا نقطہ اجتماع ہے، یہ (اتحاد مسلمین کے علمبردار) شیخ شلتوت کا مصر ہے۔
مصر، تیونس اور لیبیا کے عوام یہ بات ذہن نشیں کر لیں کہ اس وقت انہیں جو چیز حاصل ہوئی ہے وہ در حقیقت ایک نامکمل انقلاب ہے۔ بیشک بنیادی اور بڑے قدم اٹھائے گئے ہیں لیکن ابھی مہم شروعاتی دور میں ہے۔ ایران میں اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد ہمارے سامنے جو مسائل اور مشکلات کھڑی ہوئیں اور تاحال جاری ہیں البتہ ہم بفضل الہی ان پر غلبہ حاصل کرتے رہے ہیں، یہ مشکلات شاہی نظام کی سرنگونی سے قبل کی مشکلات سے سیکڑوں گنا زیادہ ہیں۔ بہت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے، میانہ مدت اور طولانی مدت کے منصوبوں کے تحت انقلاب کو ایک ایک قدم آگے لے جانے اور آخری منزل تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔
مصر کے طاغوتوں کی حکومت پہلی حکومت تھی جس نے فلسطینی کاز کے ساتھ خیانت کی اور عرب حکومتوں کو اسرائیل سے سازباز کا راستا دکھایا۔ یہاں تک کہ صرف ایک عرب حکومت یعنی شام کو چھوڑ کر سب نے فلسطین کے ساتھ خیانت کی اور صیہونیوں سے ہاتھ ملا لیا۔ مصری حکومت امریکہ اور اسرائیل کی دو انتہائی معتمد حکومتوں میں سے ایک تھی۔ امریکہ کے موجودہ ریاکار صدر (باراک اوباما) نے مسلمانوں کو منافقانہ اور ریاکارانہ پیغام دینے کے لئے حسنی مبارک کے تسلط والے مصر کا سفر کیا لیکن مصر کے عوام نے اپنے انقلاب کے دوران اپنا ما فی الضمیر بیان کرکے سب کی غلط فہمی دور کر دی۔ اب مصر کو چاہیے کہ دوبارہ فلسطینی امنگوں کی حمایت کے تعلق سے صف اول میں اپنی جگہ سنبھالے اور خیانت آمیز کیمپ ڈیوڈ معاہدے کو نذر آتش کر دے۔ انقلابی مصر ہرگز برداشت نہیں کرے گا کہ زوال کی کھائی کی طرف گامزن صیہونی حکومت کی گیس اور انرجی کی ضرورت غربت زدہ اور گوناگوں مسائل سے دوچار مصری قوم کی جیب سے پوری کرے۔
تیسرا محاذ مصر اور دیگر انقلابی ممالک میں سرگرم سیاسی تنظیموں اور جماعتوں کا ہے۔ شمالی افریقا یعنی مصر اور تیونس سے لیکر الجزائر اور مراکش تک اور خاص طور پر مصر سے تعلق رکھنے والے مفکرین اور مجاہدانہ کاوشیں انجام دینے والے افراد سب کے سب امت اسلامیہ کے عز و وقار کے علمبردار اور بیت المقدس کی رہائی کے طرفدار رہے ہیں۔ آپ ہزاروں شہیدوں کے خون کے وارث، دسیوں ہزار جلا وطنوں، قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے مجاہدوں اور ایذائیں برداشت کرنے والے جیالوں کے وارث ہیں جنہوں نے آج کے اس دن اور ان کامیابیوں کے لئے کئی عشروں تک کبھی بھی ایثار و جاں نثاری کا سلسلہ رکنے نہیں دیا۔
میرے عزیز بھائیو اور بہنو! اس عظیم امانت کا خیال رکھئے۔ شروعاتی کامیابیوں کے بعد غرور اور غفلت دو بڑی آفتوں کے نازل ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ نظام کی تشکیل، عوام کی مجاہدتوں کے ثمرات کی حفاظت اور تحریک کی مشکلات کے ازالے کے سلسلے میں آپ کی ذمہ داریاں سب سے زیادہ سنگین ہیں۔ علاقے اور دنیا کی وہ طاقتیں جنہیں ان تغیرات سے چوٹ پہنچی ہے، یقینا شیطانی منصوبے تیار کرنے میں مصروف ہوں گی۔ انتقام کی فکر سے لیکر فریب دینے، آپ کے قدموں کو ڈانواڈول کرنے، آپ پر خوف بٹھانے، آپ کو لالچ دینے، آپ کے انقلاب کو مٹانے اور العیاذ باللہ پہلے سے زیادہ بدتر حالات آپ پر مسلط کرنے کی فکر تک گوناگوں سازشیں ان کے ذہنوں میں گردش کر رہی ہوں گی۔ آپ کے فیصلے، آپ کا موقف اور آپ کے اقدامات تاریخی حیثیت کے حامل ہوں گے۔ یہ موجودہ دور در حقیقت آپ کے ممالک کی تاریخ کی "شب قدر" (مستقبل کے تعین کا وقت) ہے۔
امریکہ اور نیٹو پر ہرگز اعتبار نہ کیجئے۔ وہ کبھی بھی آپ کے مفادات اور آپ کی قوم کے مفادات کے بارے میں نہیں سوچیں گے۔ ان سے ڈریئے بھی نہیں۔ وہ اندر سے کھوکھلے ہیں اور بڑی تیزی سے ان کی طاقت کو زوال آیا ہے۔ عالم اسلام پر ان کی حکمرانی کی وجہ ڈیڑھ سو سال کی طویل مدت تک ہم پر طاری خوف اور ہماری جہالت تھی۔ ان سے کوئی آس نہ لگائیے اور ان سے ہرگز نہ گھبرائیے۔ صرف اور صرف اللہ پر توکل کیجئے اور صرف اپنے عوام کی طاقت کا باور کیجئے۔ انہیں عراق میں شکست ہوئی ہے اور وہ اس ملک سے بے نیل مرام باہر نکلنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ افغانستان میں بھی ان کے ہاتھ کچھ بھی نہیں لگا ہے۔ لبنان میں حزب اللہ سے اور غزہ میں حماس سے انہیں زبردست ہزیمت اٹھانی پڑی ہے اور اب مصر اور تیوس میں عوام ان کی ناک زمین پر رگڑ رہے ہیں۔ ان کا کوئی بھی منصوبہ پورا نہیں ہو سکا اور قوموں پر طاری ان کا خوف بھی زائل ہو گیا ہے۔ آپ خیال رکھئے کہ وہ آپ پر اپنی ہیبت نہ بٹھانے پائیں۔
ان کی چالوں کی طرف سے ہوشیار رہئے۔ عربوں کے درمیان موجود مغرب کے اتحادیوں اور مہروں کے پیٹرو ڈالر کے جھانسے میں نہ پڑیئے ورنہ یہ کھیل ایسے ہیں کہ آپ کو صحیح سالم باہر نہیں نکلنے دیں گے۔ اسرائیل مٹنے والا ہے، اسے نہیں بچنا چاہیے اور نہیں بچے گا۔ موجودہ تحریکوں کے انحراف کا شروعاتی نقطہ یہ ہو سکتا ہے کہ آپ صیہونی حکومت کی بقاء پر رضامند ہو جائیں اور ساز باز پر مبنی مذاکرات اور صیہونی حکومت کو تسلیم کرنے کے اس عمل میں شامل ہوں جس کی بنیاد سرنگوں ہو چکی حکومتوں نے رکھی تھی۔ آپ کی قومیں اسلام کی طرف بازگشت کی خواہاں ہیں جسے ماضی کی طرف پلٹ جانے کے معنی میں نہیں لینا چاہیے۔ اگر اللہ تعالی کے اذن سے انقلاب حقیقی صورت میں باقی رہتے ہیں، سازشوں کا شکار ہوکر منقلب نہیں ہوتے تو پھر آپ کے سامنے سب سے اہم مرحلہ نظام مملکت کی تشکیل، آئین کی تدوین اور ملک کا انتظام سنبھالنے کا ہوگا۔ یہی در حقیقت عصر جدید میں اسلامی تمدن کی تشکیل نو ہے۔
اس عظیم جہاد میں آپ کا سب سے بنیادی امتحان یہ ہوگا کہ آپ اپنے ملک کی پسماندگی، پٹھو حکام کے استبداد و لا دینیت اور عوام کے افلاس و غربت کی تاریخ کو کس طرح کم سے کم مدت میں دگرگوں کرتے ہیں اور کس طرح اسلامی آداب کے مطابق جمہوری، منطقی اور علمی روش پر چلتے ہوئے معاشرے کی تشکیل نو کرتے ہیں اور داخلی و بیرونی خطرات کا یکے بعد دیگرے کامیابی سے سامنا کرتے ہیں؟ آپ کس طرح لبرلزم سے گریز کرتے ہوئے سماجی حقوق اور آزادی کی زمین ہموار کرتے ہیں، اشتراکیت سے دور رہتے ہوئے مساوات اور برابری کو یقینی بناتے ہیں اور کس طرح مغرب کے فاشزم میں مبتلا ہوئے بغیر سماجی نظم و ضبط قائم کرتے ہیں؟ آپ کس طرح جمود اور رجعت پسندی سے دور رہتے ہوئے پیشرفتہ اسلامی شریعت کا التزام اپنے اندر پیدا کرتے ہیں؟ الگ تھلگ ہوئے بغیر خود مختار رہنے کا کیا راستہ اختیار کرتے ہیں؟ اغیار پر منحصر ہوئے بغیر ترقی کس طرح حاصل کرتے ہیں؟ کنزرویٹیو یا الحادی دائرے سے دور رہتے ہوئے کس طرح علمی اور سائنسی شعبوں میں آگے بڑھتے ہیں؟
تعریفوں اور اصطلاحات کا نئے سرے سے جائزہ لیا جائے، ان کی اصلاح کی جائے۔ مغربی دنیا نے آپ کے سامنے "تکفیری اسلام" اور "الحادی اسلام" کے دو ماڈل پیش کئے ہیں یا آئندہ پیش کرے گی تا کہ علاقے کے عوامی انقلابات کے تناظر میں اعتدال پسند اور عقلی بنیادوں پر استوار اصولی اسلام کی تقویت نہ ہو سکے۔ اصطلاحات پر دوبارہ نئے سرے سے غور کیجئے۔
ڈیموکریٹ ہونے کا مطلب اگر عوامی ہونا اور انقلابوں کے اصولوں کے تناظر میں آزادانہ انتخابات کا انعقاد ہے تو آپ سب ڈیموکریٹ ہو جائیے اور اگر اس سے مراد دوسرے درجے کی لبرل ڈیموکریسی کی نقل اتارنا اور اس جال میں پھنس جانا ہے تو آپ ہرگز ڈیموکریٹ بننے کی کوشش نہ کیجئے۔
"سلفی" ہونے سے مراد اگر قرآن اور احادیث کے اصولوں کی پابندی، حقیقی اقدار کی پاسداری، انحرافات اور خرافاتی باتوں کے خلاف جدوجہد، مغرب نوازی کی نفی اور شریعت اسلامیہ کا احیاء ہے تو آپ سب سلفی بن جائیے۔ لیکن اگر سلفی کا مطلب تعصب، رجعت پسندی، اسلامی مذاہب اور مکاتب فکر کے درمیان نفاق اور تفرقہ ہے تو یہ روش جدیدیت، معقولیت اور درگزر کی عادت سے جو اسلامی تمدن اور افکار کی بنیادیں ہیں، ہم آہنگ نہیں ہوگی اور اس کا نتیجہ لا دینیت اور الحاد کی ترویج کی صورت میں نکلے گا۔
واشنگٹن، لندن اور پیرس کو پسند آنے والے اسلام کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھئے، خواہ وہ الحادی اور مغرب نواز اسلام ہو یا رجعت پسندی اور تشدد پر استوار اسلام ہو۔ اس اسلام پر ہرگز اعتبار نہ کیجئے جو صیہونی حکومت کے ساتھ رواداری سے پیش آتا ہے لیکن دیگر اسلامی مذاہب سے بے رحمی اور قسی القلبی کا برتاؤ کرتا ہے، امریکہ اور نیٹو کی طرف آشتی اور دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہے لیکن اندرونی سطح پر قبائلی اور فرقہ وارانہ جنگوں کی آگ بھڑکاتا ہے، مومنین کے ساتھ سختی سے اور کفار کے ساتھ رحمدلی سے پیش آتا ہے۔ امریکی اور برطانوی اسلام سے ہمیشہ محتاط رہئے کہ کہیں آپ کو مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام، صارف کلچر اور اخلاقی انحطاط کی کھائی میں نہ گرا دے۔ ماضی کے عشروں میں علمی شخصیات اور ارباب اقدار سبھی فرانس، برطانیہ، امریکہ یا سویت یونین سے اپنے گہرے رشتے پر فخر کیا کرتے تھے اور اسلامی مظاہر سے ہمیشہ بھاگتے تھے۔ لیکن آج حالات دگرگوں نظر آ رہے ہیں۔
آپ یقین جانئے کہ مغرب انتقام لینے کی کوشش ضرور کرے گا۔ اقتصادی انتقام، فوجی انتقام، سیاسی و تشہیراتی انتقام! اگر مصر، تیونس، لیبیا اور دیگر ممالک کی اقوام نے راہ خدا پر اپنا سفر جاری رکھا تو ممکن ہے کہ ان کے خلاف پابندیوں کی دھمکیاں بھی شروع ہو جائیں۔
آخری نکتہ یہ کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور عظیم الشان ملت ایران آپ کی خدمت کے لئے، آپ سے تعاون کے لئے تیار ہے۔ باہمی امداد کے لئے تیار ہے۔ ایران کا اسلامی انقلاب عصر حاضر کا سب سے زیادہ کامیاب اسلامی تجربہ ثابت ہوا ہے، قوموں میں خود اعتمادی پیدا کرنے کے لحاظ سے، عوامی طاقت پر رہنماؤں کے بھرپور اعتماد کے لحاظ سے، طاغوتی حکومتوں اور ان کے آقاؤں کے ناقابل تسخیر ہونے کے طلسم کو توڑ دینے کے لحاظ سے، سرمایہ دارانہ نظام اور اشتراکی نظام کے غرور کو چکناچور کر دینے کے لحاظ سے اور جمہوری حقوق کی پاسداری اور بنیادی اقدار کی پاسبانی کے ساتھ ساتھ ملک کی عظیم کامیابیوں کے لئے کارآمد اور کارساز نمونہ عمل پیش کرنے کے بھی لحاظ سے۔
عزیز بھائیو اور بہنو! برسوں سے آپ کو آپ کے ایرانی بھائیوں کے خلاف ورغلایا جاتا رہا ہے، جبکہ اسلامی مملکت ایران کے سلسلے میں امر واقع یہی ہے جو میں آپ کی خدمت میں عرض کر رہا ہوں۔ ان تین عشروں میں ہمارا انقلاب متعدد کامیابیاں حاصل کر چکا ہے البتہ کبھی کبھی ہماری کمزوری بھی سامنے آئي ہے لیکن گزشتہ صدی میں مسلمانوں پر مشرق و مغرب کی توسیع پسند طاقتوں کے تسلط کے بعد سے کوئی بھی اسلامی تحریک اس حد تک پیشرفت نہیں کر سکی تھی۔ کوئی بھی تحریک اتنے نشیب و فراز کو کامیابی سے طے نہیں کر سکی تھی۔
انشاء اللہ آپ برادران عزیز سے ہمارے مذاکرات کا سلسلہ شروع ہوگا۔ عالمی صیہونی نیٹ ورک اور سرمایہ دارانہ نظام سے وابستہ ذرائع ابلاغ عامہ میں ایران پر دہشت گردی کا الزام عائد کیا جاتا ہے اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ یہ ملک فلسطین، لبنان اور عراق میں اپنے عرب بھائیوں کو بے یار و مددگار چھوڑ دینے پر تیار نہیں ہوا اور غاصبوں کو قانونی حیثیت دینے پر رضامند نہیں ہوا۔ حقیقت امر تو یہ ہے کہ دنیا میں ہم سب سے زیادہ دہشت گردی کی بھینٹ چڑھے ہیں اور ہمارے خلاف یہ دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ ہنوز جاری ہے۔
اگر اسلامی انقلاب اور اسلامی جمہوری نظام بھی اپنے افغان، بوسنیائی، لبنانی، عراقی اور فلسطینی بھائیوں کو اسی مظلومیت کے عالم میں دیگر بظاہر اسلامی حکومتوں کی مانند تنہا چھوڑ دیتا اور اگر فلسطین کے ساتھ خیانت کرنے والی بیشتر عرب حکومتوں کی طرح ہم بھی خاموشی اختیار کر لیتے اور پس پشت سے خنجر گھونپ دیتے تو عالمی طاقتیں ہرگز ہم پر دہشت گردی اور مداخلت پسندی کا الزام نہ لگاتیں۔ ہم بیت المقدس اور پوری فلسطینی سرزمین کو آزاد کرانے کی فکر میں ہیں اور یہی ملت ایران اور اسلامی جمہوریہ کا سب سے بڑا جرم ہے۔
شیعہ یا ایرانی استعمار کے شگوفے چھوڑے جا رہے ہیں، جبکہ سب کو معلوم ہے کہ ہم نے کبھی بھی اسلامی انقلاب کو صرف شیعہ، ایرانی یا قوم پرستانہ انقلاب نہیں مانا ہے اور ان تیس برسوں میں ہم نے جو سختیاں اٹھائیں اور جن خطرات کا سامنا کیا ان کی وجہ ہماری اسلام نوازی، امت اسلامیہ کے لئے ہماری فکرمندی، اسلامی مذاہب کے اتحاد کی ہماری مساعی، مشرقی ایشیا سے لیکر افریقا کے اندرونی علاقوں اور یورپ کے داخلی حصوں تک بسنے والے مسلمان بھائیوں کی عزت و آزادی کا ہمارا نعرہ رہا ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران سائنس و ٹکنالوجی کے شعبے میں، سماجی حقوق اور سماجی انصاف کے میدان میں، ترقی و پیشرفت کی وادی میں، طب و صحت کے شعبے میں، خواتین کے وقار اور اقلیتوں کے حقوق کی بازیابی کی کوششوں میں بے مثال اور انتہائی اہم قدم اٹھانے میں کامیاب ہوا ہے۔ ہمیں اپنی کمزوریوں کا بھی علم ہے اور انشاء اللہ نصرت خداوندی سے ہم اپنی ان کمزوریوں کو دور کریں گے۔ علاقے میں اسلامی جمہوریہ ایران کی مدد سے اسلامی مزاحمت کی پوزیشن تبدیل ہوئی۔ فلسطینیوں کے ہاتھوں میں نظر آنے والے پتھر کا میزائل میں تبدیل ہو جانا اور غاصبوں کے سامنے غزہ اور دیگر مقامات کی اسلامی مزاحمتی تحریکوں کی جانب سے میزائل کا جواب میزائل سے دیا جانا، یہ سب اسلامی انقلاب سے ملنے والے الہام کا نتیجہ ہے۔
ایران تمام عربوں کو ایرانی یا تمام مسلمانوں کو شیعہ بنانے کی مہم نہیں چلا رہا ہے۔ ایران در حقیقت قرآن، سنت پیغمبر اسلام (ص) اور اہل بیت رسول (ص) کا دفاع کرنے اور امت اسلامیہ کے پیکر میں نئي روح ڈالنے کے لئے کوشاں ہے۔ اسلامی انقلاب کی نظر میں حماس اور جہاد اسلامی جیسی تنظیموں کے اہل سنت مجاہدین کی مدد اور حزب اللہ اور تحریک امل کے شیعہ مجاہدین کی مدد یکساں حیثیت رکھنے والا شرعی فریضہ ہے اور اسلامی انقلاب کو اپنے اس شرعی عمل کا اچھی طرح  احساس ہے۔ ایرانی حکومت اور قوم پختہ عزم کے ساتھ بلند آواز میں یہ اعلان کرتی ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف ہے ،قوموں کے قیام کے حق میں ہے، فرقہ وارانہ نفاق سے بیزار ہے،اسلامی اتحاد پر عمل پیرا ہے نسلی و قومی اختلافات کے خلاف ہے اور وہ  مسلمانوں کے درمیاناخوت و بھائی چارے کی خواہاں ہے، اورحقیقی اسلامی جہاد کی مکمل پابند ہے۔  میں تمام مسلم اقوام کی سعادت و کامرانی کے لئے ہمیشہ دعا کرنی چاہیے، اس کے ساتھ ہی ہمیں اپنی سنگین ذمہ داریوں کا احساس بھی رہنا چاہیے، ہمیں اپنے فرائض پر عمل کرنا اور دل میں یہ یقین رکھنا چاہیے کہ «و اللّه غالب على امره».(4)
اے بندگان خدا! تقوائے الہی اختیار کیجئے، ظالموں کے دشمن اور مظلوموں کے مددگار بنیے۔ میں اپنی بات یہیں پر ختم کرتا ہوں، اپنے اور آپ کے لئے اللہ تعالی سے مغفرت کا طلبگار ہوں۔

بسم‌ اللّه‌ الرّحمن‌ الرّحيم‌
اذا جاء نصر اللّه و الفتح. و رأيت النّاس يدخلون فى دين اللّه افواجا.
فسبّح بحمد ربّك و استغفره انّه كان توّابا.

والسّلام عليكم و رحمةاللّه و بركاته‌

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1) ابراهيم: 24
2) شرح نهج‌البلاغه، ج 20، ص 319
3) آل عمران: 164
4) يوسف: 21