رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح علمی، سماجی، اقتصادی، سیاسی و ثقافتی شعبوں سے وابستہ ممتاز اور سرگرم ہزاروں خواتین کے اجتماع میں اسلامی نقطہ نظر سے خواتین کے مقام و منزلت پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا: ملک کی ترقی و پیشرفت میں حصہ لینا اگر چہ ہرفرد کی ذمہ داری ہے اور اسمیں مرد و عورت برابر کے شریک ہیں لیکن اسلام کے زاویہ نگاہ سے عورت کی سب سے بڑی ذمہ داری ، گھر اور خاندان میں اس کا ناقابل تردید کردار ہے ۔
رہبر معظم نے تاریخ انسانیت کی بےمثال خاتون معصومہ کونین حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا اور انقلاب اسلامی ایران کے بانی حضرت امام خمینی (رہ) کی ولادت باسعادت کی مناسبت سے مبارکباد پیش کرتے ہوئے فرمایا: گھر اورخاندان میں عورت کے بےنظیر نقش و کردار پر اسلام کی تاکید کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ اسلام دیگر شعبہ ہای حیات میں عورت کے حصہ لینے کا مخالف ہے، بلکہ اسلام اس حقیقت کی طرف توجہ مبذول کروانا چاہتاہے کہ ماں اور زوجہ کار کا کردار ، دیگر سرگرمیوں اور کرداروں کے مقابلہ میں اہمیت و اولویت کا حامل ہے چونکہ بشریت کی بقاء اور سماج کا آرام وسکون اسی کردار کا مرہون منت ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران میں مختلف شعبوں میں سرگرم، ممتاز خواتین کے وجود کو اسلام اور جمہوریہ اسلامی کے نظریے کو خواتین کے سلسلہ میں کامیابی کا عکاس قراردیتے ہوئے فرمایا: ایران میں موجود دور کی طرح، کسی بھی دور میں، محقق، عالم و ادیب، ہنرمند اور دیگر شعبہ ہای حیات میں سرگرم خواتین کا وجود نہیں تھا اور یہ حقیقت اس امر کو عیان کرتی ہے کہ بےپردگی کے برخلاف ، پردہ نہ صرف یہ کہ خواتین کی پیشرفت و ترقی میں حائل نہیں ہےبلکہ اسلامی و شرعی حدود کی پابندی کرتے ہوئے انھیں اپنی صلاحیت و استعداد کے اظہار کا بڑھ چڑھ کر موقع فراہم کرتاہے
رہبر معظم نے خواتین کے سلسلہ میں مغرب کے غلط نظریہ پر شدید تنقید کرتے ہوئے فرمایا: مغربی ممالک میں خواتین کو ان کے فطری حقوق سے محروم کرنے اور انہیں مردوں کی اندھی تتقلید پر اکسانے کی ایک سازش چل رہی ہے اور مغربی نظریہ میں خواتین کی واضح اہانت ہے چونکہ بعض مواقع پر خاتون کامل کا مقام ، مرد کامل کے مقام سے بالاتر و با عظمت ہوتا ہے ۔
حضرت آیۃ اللہ العظمی خامنہ ای نے اس نظریہ کا مقابلہ کرنے کے سلسلہ میں ملک کی ممتاز خواتین کو ان کی ذمہ داری یاددلاتے ہوئے فرمایا، اسلام کی نظر میں عورت ہونا خود ایک مقام و منزلت ہے ، مرد و عورت ، خداوند متعال کی خلقت میں ایک منفرد مقام اور مخصوص کردار کے حامل ہیں۔
رہبر معظم نے عورت کے سلسلہ میں مغربی نظریہ کو عالم انسانیت پر ایک ظلم اور عورت کے حقوق کے سلسلہ میں ایک عظیم خیانت قراردیتے ہوئے فرمایا: عورت نظام خلقت کا ایک حسین ، لطیف و مستور تحفہ ہے۔
اہل مغرب نے عورت کے مقام کو اس درجہ پست کردیا ہے کہ اسے اپنی مختلف مصنوعات کی فروخت اور زیادہ مالی منافع حاصل کرنے کیلئے ، بہ طور اشتہار استعمال کررہے ہیں غیر اخلاقی ، غیر قانونی اور جنسی مسائل اور اپنی ہوس و شہوت کے ارضاء کے لئے عورت کا استحصال کررہے ہیں ، یہ وہ مسائل ہیں جن کے لئے مغربی دنیا جواب دہ ہےاور مغرب کی انہیں برائیوں نے دنیا کو ایک لاعلاج مرض میں مبتلا کردیا ہے ۔
رہبر معظم نے خواتین کے سلسلہ میں پائے جانے والے بعض اسلامی احکام کو کچھ بین الاقوامی اداروں کے قوانین پر زبردستی منطبق کرنے کی بعض کوششوں پر سخت تنقید کرتے ہوئے فرمایا : خواتین کے سلسلہ میں بعض احکام و مسائل جو فقہ میں پائے جاتے ہیں، حرف آخر نہیں ہیں بلکہ ان میں تحقیق کی گنجائش ہے اور عین ممکن ہے کہ ایک ایسے فقیہ کی تحقیق سے کچھ نئے پہلو سامنے آئیں جو فقاہت کے مبانی پر مسلط ہو، لیکن بعض نادان افراد کی یہ کاوش سراسر غلط ہے جو مغربی دنیا سے مرعوب ہوکر ، اسلامی احکام میں کمی و زیادتی کرکے انہیں بین الاقوامی قوانین و معاہدات کے مطابق بنانا چاہتے ہیں۔
رہبر معظم نے فیمینستی (عورت پرستی ) مراکز کے پروپیگنڈوں کی یلغار کا مقابلہ کرنےکے لئے یونیورسٹیوں اور حوزات علمیہ کے تحقیقاتی مراکز کو اپنی ذمہ داریوں کی یاددہانی کراتے ہوئے اسے خواتین عالم کی ایک بہت بڑی خدمت قرار دیا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دنیا کے مختلف ممالک میں عورت کے ساتھ نا انصافی و امتیازی سلوک پر تنقید کی اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئےفرمایا: مردوں کو اپنی جسمانی قوت اور دیگر خصوصیات سے ناجائز فائدہ اٹھا کر گھریلو زندگی میں عورتوں کو ظلم و تشدد کا نشانہ بنانے کی اجازت نہیں ہے۔
آپ نے اس سلسلہ میں فرمایا: گھر میں اسلامی اخلاق کی رعایت ، اسلامی تعلیمات سے آشنائی تزکیہ نفس ، وہ عوامل ہیں جو عورتوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و تشدد کا سد باب کر سکتے ہیں۔
رہبر معظم نے فرمایا: بہر حال ہر ممکن طریقے سے گھر کی فضا کو صحیح و سالم بنانے کی ضرورت ہے چاہے اس سلسلہ میں نصیحت و ارشاد کا سہارا لینا پڑھے اور خواہ قانونی چارہ جوئی کرنا پڑے۔
رہبر معظم نے اپنے خطاب کے دوسرے حصہ میں ملک کی ممتازخواتین کے ساتھ اس جلسہ کو انتہائی مفید قراردیتے ہوئے فرمایا: اس ملاقات کا مقصد یہ تھا کہ ملک کی ممتاز خواتین کی زبانی بعض مسائل سے آشنائی ہو اور اسلامی سماج میں خواتین کے سلسلہ ميں انجام پانے والے بعض اچھے اقدامات پر ایک عمومی نگاہ دوڑائی جائے۔
بعض مطالب جو اس جلسہ میں بیان ہوئے نہایت مفید اور استفادہ کے لائق تھے۔
اس جلسہ میں موجود بعض برجستہ و ممتاز خواتین کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں:
1. طبیب زادہ : صدر جمہوریہ ایران کی مشیر اور خواتین اور خاندانی منصوبہ بندی کےادارے کی سربراہ
2. علاسوند: حوزہ و یونیورسٹی کی استاد اور خواتین کے امور کی محقق
3. بداغی : عدالت کی جج اور یونیورسٹی کی استاد ۔
4. آیت اللہی : محقق، اور یونیورسٹی کی استاد ۔
5. عطای : یونیورسٹی کے شعبہ انجینئرنگ میں استاد
6. زعفرانچی : یونیورسٹی کےشعبہ اقتصادیات میں استاد
7. بوباش:وزارت تعلیم کی ممتاز استاد
8. موسوی: شاعر
- حیدری: سیستان و بلوچستان یونیورسٹی میں شعبہ Histology میں معاون پروفیسر
- زمزم زادہ : بہترین دبیر و معلم ۔۔۔ایوارڈ یافتہ اور سو سے زائد تحقیقاتی مقالات کی خالق
حسن اسکوبی : آذربائیجان یونیورسٹی کی علمی رکن
زارعی اقدم : جانباز کی زوجہ، مبلغ اور یونیورسٹی کی استاد
داودی : شعبہ زیست شناسی میں P.H.D کی طالبہ
اس ملاقات میں مندرجہ ذیل بعض اہم نکات پر توجہ مرکوز کی گئی ۔
- انسانی اور اسلامی علوم میں خواتین کے سلسلہ میں موجود تحقیقاتی اور نظریاتی خلاء کو پر کرنے اور اس سلسلہ میں تحقیقاتی کام انجام دینے کی سنجیدہ کوشش کرنا۔
- خواتین کے مسائل اور انکی منزلت کے سلسلہ میں اسلامی نظریات پر سطحی و ظاہری نگاہ ڈالنے سے اجتناب کرنا۔
- گھریلو اور خاندانی رشتوں کو مضبوط بنانے کے لئے عملی راہ حل کی نشاندہی اور سماج و معاشرہ میں خواتین کو انکا حقیقی مقام دلانے کے لئے کوشش کرنا۔
- بین الاقوامی اداروں میں عورت کے بارے میں اسلامی نظریہ کو پیش کرنے کے لئے سرگرم و فعال کردار ادا کرنا ۔
- خاندانی حقوق کا منشورالعمل تدوین کرنا اور اسے بین الاقوامی اداروں میں پیش کرنا ۔
- اسلامی اقدار و تعلیمات کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف میدانوں میں خواتین کے سرگرم و فعال کردار کے لئے نئے ماڈل اور جدید راہوں کی تلاش ۔
- مختلف علمی مراکز کی علمی کمیٹیوں میں خواتین اساتذہ کی مشارکت کے لیئے مناسب اقدام کرنا۔
- یونیورسٹیوں کے مختلف شعبوں میں ماہر خواتین کی تربیت کے لیئے مواقع فراہم کرنا۔
- ملازمت پیشہ خواتین کے لئے اعلی تعلیم کے حصول کا بند و بست کرنا۔
- سماج میں خاندانی تربیت کے نقش و کردار کو دوبارہ زندہ کرنا
- خواتین سے مربوط مختلف اداروں یا N.G.O.S کی طرف خصوصی توجہ دنیا
- خواتین کی ورزش کی طرف توجہ دینا اور اس سلسلہ میں مناسب مراکز کا قیام عمل میں لانا
- خاندانی منصوبہ بندی و تربیت جیسے مسائل کو مختلف تعلیمی مراکز کے نصاب میں شامل کرنا
- سماج کی ثقافتی و فکری تربیت جو ایک معین ثقافتی حکمت عملی کو مد نظر رکھ کر انجام پائے
- غیر اسلامی و مغربی نظریات کے سامنے سر تسلیم خم کرنے سے اجتناب کرنا
- علمی میدانوں میں پیشرفت کے لئے مواقع کی فراہمی
- علمی و تحقیقاتی مراکز میں بیوکریسی و اداری پیچیدگیوں سے اجتناب کرنا
اس ملاقات میں مختلف یونیورسٹیوں اور علمی مراکز میں رضاکار اسٹوڈنٹ (طلباء) یونین کے سربراہ ڈاکٹرمحمد رضا مردانی نے اپنی سرگرمیوں کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے آگاہ کیا کہ اس وقت ملک کی مختلف یونیورسٹیوں کے زیر نگرانی 2600 دوہزار چھ سو مراکز میں چھ لاکھ انچاس ہزار طلباء مختلف ثقافتی ، علمی ، تعمیراتی سرگرمیوں میں سرگرم عمل ہیں ۔