ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبرمعظم کامختلف شعبوں میں سرگرم ہزاروں ممتاز خواتین سےخطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

سب سے پہلے میں انسانی تاریخ کی سب سے عظیم خاتون حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیھا) کے مبارک یوم ولادت کی آپ تمام عزیزبہنوں اوربیٹیوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ ہمارے عظیم امام (رہ)کی ولادت بھی اسی دن ہوئی تھی آپ نے تمام اسلامی اصولوں بشمول خواتین سے متعلق اسلامی اصولوں کو جس رخ سے دیکھا ہے وہ اس باب میں ایک اہم موڑ ہے، اس دن کی بھی میں آپ بہنوں اور اپنی بیٹیوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

آج کی نشست اچھی رہی میری نظرمیں یہ نشست نہایت خوب، دلنیشیں اورمفید رہی ہے میرے لئے بھی اوران لوگوں کے لئے بھی مفید ہوگی جوبعد میں اس سے مطلع ہوں گے اوراس کی رپورٹ پڑھیں گے تقریباً دو گھنٹے تک میں نے محترم خواتین کے بیانات سنے ہیں اوراصل مقصد بھی یہی تھا اس نشست کے دومقاصد تھے ایک یہی کہ ملک کی کچھ منتخبہ خواتین اپنے نقطہ نظرسےبعض اہم مسائل خاص طورسے خواتین سے متعلق مسائل کا وضاحت سے ذکرکریں یہ کام ہوگیا ہے آج کی تمام مقررین اعلی ذہنیت کی مالک، قوی، منطقی، منظم اورپیش کردہ موضوع میں صاحب نظرہیں یہ میرے لئے بہت دلچسپ بات ہے ان خواتین کے بیانات کے خلاصے اوراہم نکات میں نے نوٹ کر لئے ہیں جوبعد میں میرے کام آئیں گے جتنی باتیں پیش کی گئی ہیں خاص طور سے کچھ بہت ہی اہم اورقابل توجہ ہیں یہ ایک مقصد تھا۔

دوسرامقصد اس نشست کی علامتی حیثیت ہے جیسا کہ میں بارہا عرض کرچکا ہوں عورت سے متعلق دنیا ہمارے سامنے جوابدہ ہے ہم مدعی ہیں اب اقوام متحدہ سے وابستہ ادارے، کوئی دوسری تنظیم یا اخبارنویس، انسانی حقوق کے نام پرحجاب پر سوال اٹھائیں اورہم سے جواب چاہیں تو اس سے حقیقت بدل نہیں جائے گی ہم دنیا سے جواب مانگتے ہیں دنیا سے مراد مغربی دنیا ہے ہم دنیا سے مخاطب ہوکر کہہ رہے ہیں تم نے پوری انسانیت سے اورخاص طور سے عورت سے خیانت کی ہے وہ اس طرح کے تم نے مردوعورت کو جنسی مسائل میں پھنسا دیا ہے، سماج میں جنسی بے راہ روی کی آگ بھڑکائی ہے، عورت کو سجا سنوارکرچوراہے کے درمیان لے آئے ہو، معلوم ہے کہ عورت انسانی تخلیق کی خوبصورت قسم ہے یہ خوبصورتی فطرتاً کچھ پردہ کے اندر ہی رہنے میں ہے انسانی وجود کی اس نازک اورخوبصورت قسم کی یہی خاصیت ہے اس پردہ کو چاک کرنا، مردوعورت کی جنسی ضرورت جسے قاعدہ وقانون کے تحت پورا ہونا چاہئے اسے سماج میں بے لگام چھوڑنا سب سے پہلے عورت کے ساتھ اور دوسرے نمبرپر پوری انسانیت کے ساتھ بہت بڑی خیانت ہے یہ کام مغربی پالیسیوں نے کیا ہے البتہ سب سے بڑا نقصان توانہیں خود اٹھانا پڑا ہے اس وقت ہمجنس پرستی مغربی دنیا میں ایک بحران بن چکا ہے اس بات کو سامنے نہیں لاتے ہیں لیکن حقیقت حال یہ ہے کہ یہ مسئلہ ان لوگوں کے لئے اوروہاں کے مفکرین کے لئے ناقابل علاج مرض بن چکا ہے اورکوئی چارہ ان کے پاس نہیں رہ گیا ہے۔ یہ سب کرنا، جنسی مسائل میں اورمردوعورت کے روابط سے متعلق یوں بے حجاب اوربرہنہ ادب سامنے لانا، صنف نازک یعنی انسانی وجود کی وہی خوبصورت، لطیف اورمستوروپردہ دار قسم کوصنعت، اشتہارات اورکام کے لئے چوراہے پرلاکھڑاکرنا، اس کی مسکراہٹ، اس کی خوبصورتی، اس کے جسم اوراس کے چہرہ کا کسی بے قیمت اورپست شے کے اشتہارمیں استعمال کرنا انہیں ساری چیزوں کا پیش خیمہ ہے سیدھی سی بات ہے یہ کام مغربی دنیا نے کئے ہیں یہ کام مغربی پالیسیوں نے کئے ہیں ان کاموں کا کسی مذہب سے سروکار نہیں ہے یہودیت یا عیسائیت سے ان کا کوئی واسطہ نہیں ہے یہ ان پالیسیوں اورسیاست کا نتیجہ ہےجو تقریباً ڈیڑھ سوسال سےدنیا میں رائج ہیں۔

آپ اٹھارہویں اورانیسویں صدی کے یوروپی ادب اورعورت سے متعلق ان کے نطریے کو ملاحظہ کیجئے تو آپ کوان کابیسویں صدی کا ادب اورعورت سے متعلق تحریریں بالکل الگ نظرآئیں گی اس وقت عورت کے بارے میں ان کے خیالات کچھ نجیبانہ، باحیا اورمردوعورت کی فطرت کے مطابق تھے توپتہ یہ چلتا ہے کہ یہ کام سیاسی تھا اب صہیونیوں کی طرف سے تھا یا سامراجی اداروں کی طرف سے، اس کی تحقیق کی ضرورت ہے یہی صورتحال رفتہ رفتہ آگےبڑھتی گئی یہاں تک کہ اس حد تک پہونچ گئی ہےجہاں اس وقت آپ دیکھ رہے ہیں لہذا مغربی دنیا کو جواب دینا چاہئے اس لئے کہ انہوں نے عورت کونقصان پہنچایا ہے ، اس کے حقوق پامال کئے ہیں، عورت کی حثیت گرادی ہے، اس کی حمایت کے نام پر اس کے ساتھ خیانت کی ہے یہ بات ہے ہماری طرف سے۔

اسلامی حقوق سے متعلق کچھ خواتین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے جو صحیح بھی ہیں ان میں کافی تحقیق وتشریح کی گنجائش ہے بعض خواتین نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے میں ان کی تصدیق کرتا ہوں کہ ہم نے مخالف پروپیگنڈہ خاص طورسے فیمینزم کے جواب میں جتنا اورجیسےکرنا چاہئے تھا اتنا صحیح، مضبوط ، پرمعنی اوراعلی کیفیت کا کام نہیں کیا ہے میں یہیں سے تحقیقاتی مراکز، یونیورسیٹیز ،حوزات علمیہ اورصاحبان فکرونظرکوتاکید کرتا ہوں اوران سے درخواست گذارہوں کہ وہ اس ضمن میں کام کریں یہ اہم مسئلہ ہے اگرہم صرف اپنے ملک کی خواتین سے متعلق کام کریں تب بھی یہ پوری دنیا کی خواتین کی خدمت ہوگی پوری دنیا کی خواتین کی حقیقی خدمت ہوگی ممکن ہے کچھ لوگ اس خدمت کی اہمیت کو آج ہی سمجھ جائیں ممکن ہے کچھ سالوں بعد سمجھیں لیکن اگر اچھی طرح کام کریں تو یہ ان کی خدمت ہے میں جوعرض کرنا چاہتا ہوں وہ بس دوتین باتیں ہیں جو میں نے پیش کرنے کے لئے نوٹ کر رکھی ہیں۔

پہلی بات یہ ہے کہ مختلف شعبوں میں ممتاز خواتین کا یہ مجموعہ اسلام اوراسلامی نظام کے نقطہ نظر کی کامیابی کی دلیل ہے ہس مجموعہ میں ملک کی تمام ممتاز خواتین موجود نہیں ہیں البتہ آپ ملک کی ممتاز خواتین کا ایک نمونہ ہیں طاغوتی حکومت کے دور میں اتنی ممتاز خواتین کا وجود نہیں تھا یہ میری بات ہے اورمیں اسے زور دے کے کہتا ہوں اس وقت محقق خواتین، پروفیسرخواتین، مختلف شعبوں کی دانشورخواتین، مختلف شعبوں کی مفکر اوراہل قلم خواتین، ادیب خواتین، شاعرخواتین، فنکارخواتین، ناول نگار، شاعر اورنقاش خواتین کی تعداد مطلقاً اورنسبتاً طاغوتی دور سے کہیں زیادہ ہے اس دور میں عورت کی حمایت کی نام پرحجاب، عفت اورمردوعورت کے درمیان فاصلہ کو پوری طرح ختم کردیا گیا تھا، دن بدن جنسی بے راہ روی کو فروغ دے رہے تھے اوربعض مواقع پر تو یوروپی ممالک سے بھی بڑھ چڑھ کرعمل کررہے تھے آج اسلامی جمہوریہ نظام کے تحت حجاب چادر اورمقنعہ میں ہمارے ملک کے اندراتنی تعداد میں فکری، علمی اورعملی لحاظ سے ممتاز، سیاستداں اورفن وثقافت میں اہل نظرخواتین موجود ہیں اس دور میں یہاں اس تعداد کا عشرعشیر بھی نہیں تھا بہت کم تھیں جوچیز وہ القاء کرنا چاہتے تھے یہ حقائق بالکل اس کے برعکس ہیں مطلب یہ ہواکہ جنسی بے راہ روی کو رواج دینے کا مطلب عورت، اس کے جذبات اور اس کی صلاحیات کوترقی دینا نہیں ہے بلکہ اس کا مطلب عورت کوایسی چیزوں میں مشغول کردینا ہے جوزندگی میں ثانوی حیثیت رکھتی ہیں مثلاً طرح طرح کے میک اپ اوراس سے مربوط دیگرمسائل وغیرہ تو یہ چیز خود عورتوں کی ترقی اورکمال کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔

اسلامی نظام کے تحت جو پابندیاں سامنے آتی ہیں وہ عورت کی انسانی فطرت کے عین مطابق ہیں ایک لحاظ سے مردوں کے لئے بھی پابندیاں ہیں اورایک لحاط سے عورتوں کے لئے بھی یہ پابندیاں اس بات میں مددگار ثابت ہوتی ہیں کہ لوگوں کی صلاحیتیں ضائع نہ ہوں بلکہ حتی الامکان صحیح سمت میں کام میں لائی جائیں خواتین میں علمی، فکری اورعملی ترقی جس کا ہم آج مشاہدہ کررہے ہیں وہ اسی کا نتیجہ ہے یہ ہوئی پہلی بات! یہ جوکہا جا رہاتھا اورآج بھی پوری طرح غفلت میں کچھ لوگ کہہ رہے ہیں کہ کیا حجاب اورشرعی اوراسلامی حدود کی رعایت کے ساتھ عورتوں کی ترقی ممکن ہے؟ اسلامی نظام میں عورت کا کیا ہوگا؟ یہ اس کا عملی جواب ہے ، اس کا حقیقی جواب ہمارے ملک میں ممتاز خواتین کی یہ عظیم تعداد ہے اس ملک میں کبھی بھی یہ کیفیت نہیں رہی ہے نہ طاغوتی دورمیں اورنہ اس سے پہلے کے دورمیں اس سے پہلے کے دور میں تعلیمی نظام میں دوسرے اعتبارسے خامیاں تھیں آج بحمداللہ اسلامی نظام کے اندریہ چیز موجود ہے یونیورسٹیوں میں پوزیشن لانے والی لڑکیوں کی بڑھتی تعداد وغیرہ بعد کا مرحلہ ہے پہلے مرحلہ میں یہی ممتاز خواتین ہیں جواسلامی جمہوریہ نظام کے مختلف شعبوں میںدرخشاں حیثیت رکھتی ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں فعال بعض مردوخواتین اس کوشش میں ہیں کہ خود کوخواتین کے عالمی کنونشن سے ہماہنگ کرلیں اس کے لئے احکام اسلامی کے ساتھ چھیڑچھاڑ، کمی زیادتی اوربازی کرتے ہیں یہ صحیح نہیں ہے میں یہ نہیں کہتا کہ ہماری فقہ میں عورت سے متعلق جواحکام وارد ہوئے ہیں حرف آخر ہیں، نہ ممکن ہے کسی حکم میں کسی ماہر فقیہ کی تحقیق کی وجہ سے تبدیلی آجائے ایسا ممکن ہے اورہوابھی ہے، یہی زمین اورغیرمنقول کی میراث کے جس مسئلہ کی طرف ایک خاتوں نے اشارہ کیا ہے اس میں موجودہ وگذشتہ بہت سے بزرگان کا اورخود ہمارا نظریہ بھی یہی ہے کہ ممنوع المیراث عین شے ہے اس کی قیمیت بلا شک وشبہ بیوی کا حق ہے اوراسے میراث ملے گی اس میں کوئی حرج نہیں ہے لہذا فقہی مسائل میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ تبدیلی کی گنجائش ہے لیکن فقہی مسائل کے سلسلہ میں جو چیز ضروری ہے وہ یہ ہے کہ فقہی استنباط ایک ماہراوراصول فقہ پرکامل دسترس رکھنے والے فقیہ کے ذریعہ انجام پانا چاہئے نیز فقہی طریقہ اورفقاہتی طرز استدلال کے ذریعہ! ایسا نہ ہوکہ کسی عالمی معاہدہ یا کنونشن سے مطابقت پیدا کرنے کے لئے کوئی اٹھ کر احکام اسلامی کے کنارے تراشنے لگ جائے یہ بالکل غلط ہے قطعی حمایت کے قابل نہیں ہے اسلامی فقہ اور اسلامی احکام میں مصلحت کے مطابق جوکچھ آیا ہے وہ یہی ہے اوریہی صحیح ہے جو غورکرنے سے یاغورکئے بغیرہی کسی نہ کسی جگہ ثابت ہوجاتا ہے ۔

عزیزبہنو! جولوگ عورتوں سے متعلقہ مسائل کے سلسلہ میں فعال ہیں اگروہ کہیں کوئی کمی خیال کرتے ہیں تواس کا حل یہ نہ قرار دیں کہ ہم فقہی اسلامی احکام میں تبدیلی لے آئیں فقہی اسلامی احکام جواسلامی اصولوں کے مطابق استنباط ہوئے ہیں وہ بالکل صحیح اورکسی مصلحت کے پیش نظرہیں اگرکسی عالمی تنظیم یا بین الاقوامی کانفرنس میں کچھ طے پایا ہے یا کنونشن وجود میں لایا گیا ہے توہمیں اس سے مرعوب ہوکرتنگ نظری سے اپنے مسلمات اورفقہ میں ردوبدل نہیں کرنا چاہئے میری نظرمیں یہ درست نہیں ہے۔

دوسری بات جو بہنوں نے بھی اپنی تقاریر میں باربار کہی وہ یہ ہے کہ عورت کے سلسلہ میں جو چیز سب سے اہم ہے وہ اس کی گھریلو ذمہ داری ہے میری نظر میں ایک گھرانہ کے ممبرکے بطوروہ جوکچھ کرسکتی ہے اس کی اہمیت دوسرے کسی بھی کام سے زیادہ ہے کچھ لوگ تواس طرح کی بات کو پہلے ہی مرحلہ میں یہ کہتے ہوئے مسترد کر دہتے ہیں کہ کیا آپ عورت کو گھر میں قید کرنا چاہتے ہیں اسے اندربند کرکے زندگی کے میدانوں میں حاضری اورسرگرمی سے روکنا چاہتے ہیں جی نہیں ہمارا مقصد ہرگز یہ نہیں ہے اورنہ ہی اسلام یہ چاہتا ہے اسلام نے جب کہا ہے " والمومنون والمومنات بعضھم اولیاء بعض یأمرون بالمعروف وینھون عن المنکر" یعنی مومنین ومومنات سماجی نظام کی حفاظت اورامربالمعروف اورنہی عن المنکر میں ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہیں توعورت کو مستثنی نہیں کیا ہے ہم بھی عورت کو مستثنی نہیں کرسکتے سماج کی مدیریت اورترقی کی ذمہ داری سب پر ہے عورت پر بھی اورمرد پر بھی، ہرکوئی اپنے اعتبار سے اپنے امکان بھر اسے اداکرے گا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ کیا عورت گھر کے باہر کی کوئی ذمہ داری لے سکتی ہے یا نہیں لے سکتی ہے، اس میں کوئی شک نہیں اسلامی نقطہ نظرسے یہ قطعاً ممنوع نہیں ہے، سوال یہ ہے کہ گھریلوماحول سے باہرعورت کے لئے جتنی بھی پسندیدہ، شیریں اوردلچسپ چیزیں تصورکی جاسکتی ہیں کیا عورت کو حق ہے کہ وہ ان متصورہ چیزوں کے لئے اپنے گھر کے اندرکے کردارکوپامال کردے، ماں کے کردارکو؟ بیوی کے کردارکو؟ اسے یہ حق ہے یا نہیں؟ ہماری تاکید اس کردار پر ہے میں کہتا ہوں کہ علم وتحقیق اورمعنویت کی کسی بھی سطح پرایک عورت جواہم ترین کردار ادا کرسکتی ہے وہ وہی کردار ہے جسے وہ ماں اوربیوی کے بطوراداکرپائے گی یہ اس کے کسی بھی دوسرے کام سے زیادہ اہم ہے یہ ایسا کام ہے جسے عورت کے بغیر کوئی نہیں کرسکتا مانتاہوں کہ عورت کوئی دوسری اہم ذمہ داری بھی سنبھال لے لیکن گھرکے اندر کی ذمہ داری کواپنی پہلی اوراصلی ذمہ داری سمجھے ، بنی نوع انسانی کی بقاء اوراس کی پوشیدہ صلاحیتوں کا نکھاراسی پرمنحصرہے سماج کی نفسیاتی صحت اسی سے وابستہ ہے بے چینی وبے قراری کے مقابلہ میں سکون واطمینان اسی سے وابستہ ہے اسے ہمیں بھولنا نہیں چاہئے۔

کمال یہ نہیں ہے کہ عورت مردانہ کام کرے جی نہیں! خود عورت کا جوزنانہ کام ہے اس کی اہمیت مرد کے ہر کام سے زیادہ ہے دنیا میں اس وقت اقدارمخالف لہرچل رہی ہے جس کے پیچھے نہایت مشکوک ہاتھ ہیں اوریہ ہر جگہ ہے ہمارے ملک میں بھی افسوس کے ساتھ کہیں کہیں یہ صورت دکھائی دیتی ہے اور وہ یہ کہ عورت مرد میں بدل جائے اسے عورت کی کسرشان سمجھتے ہیں کہ کوئی کام مرد تو کرے عورت نہ کرے کیا یہ کسرشان ہے؟ اس بات کو اس رخ سے دیکھنا ہی غلط ہے اس پر اعتراض کرتے ہیں کہ آپ کیوں کہتے ہیں کہ مرد مرد ہے اورعورت عورت ہے اچھا توایسا نہیں ہے کیا؟ آپ چاہتے ہیں کہ ہم عورت کوبھی مرد کہیں تووہ بناوٹی مردہوگی، مرد کی فوٹوکاپی بن جائےگی۔ تواس میں عورت کے لئے کون سی فخر کی بات ہے؟ عورت کے لئے کمال یہ ہے کہ وہ ایک عورت ہو مکمل عورت! مکمل مؤنث! اگرمقام اوردرجہ کا تعین کرنا ہے توایک مکمل عورت ایک مکمل مردسے کم توہے ہی نہیں، بعض مواقع پر یقیناً مردسے آگے اوراس سے بہتر ہے ہم ان چیزوں کوکیوں برباد کریں؟

البتہ کچھ ذمہ داریاں جیسا کہ ہم نے کہا مشترکہ ہیں سماج میں حاضری، سماج کے رنج وغم کو درک کرنا اوران عمومی دردوں کے خاتمہ کی کوشش مردیا عورت سے مخصوص نہیں ہے عورتیں بھی اس ذمہ داری سے خود کو مبرا نہیں سمجھ سکتیں اس ضمن میں اگر عورتیں کوئی کام کرنا چاہتی ہیں اورکرنا چاہئے تو اس میں کوئی پابندی بھی نہیں ہے لیکن مخصوص ذمہ داریاں جو خداوند متعال نے عورت کی فطرت کے مطابق اس کے لئے رکھی ہیں وہ زیادہ اہم ہیں۔

بہرحال آپ ملک کی ممتاز خواتین ہیں ابتدائی مرحلہ میں ہیں ، طالبہ ہیں ، ابھی شروعات کی ہے یا کئی سال کام کرچکی ہیں زحمت اٹھا چکی ہیں یہ سمجھ لیجئے کہ اس وقت ہمارے ملک میں خواتین پرسنگین ذمہ داریاں عائد ہیں آپ پردوہری ذمہ داری یہ عائد ہوتی ہے کہ عورت ومرد کے سلسلہ میں غلط نقطہ نظرکی اصلاح کیجئے مغربی دنیا مردوعورت کے سلسلہ میں جو نظریہ القاء کرنا چاہتی ہے وہ ایک غلط اورباطل نظریہ ہے اوراس کا انجام سماج میں بہت ساری قدروں کی پامالی ہے جس کے کچھ پہلوخاص طورسے ہمارے معاشروں میں دکھائے جارہے ہیں اوردکھائی دے رہے ہیں اس نقطہ نظرکی اصلاح کیجئے یہ بھی عرض کردوں کہ مغربی نظریات اورنعرے گھر اورگھرکے باہر عورت پر ہونے والے ظلم کا سد باب نہیں کرسکے ہیں جو اب بھی ہورہا ہے، کسی معاشرہ سے عورت کی مظلومیت کا خاتمہ تبھی مفروض ہے جب مرداخلاق، قانون اورتہذیب کے دائرہ میں آجائے۔لیکن مغرب میں یہ چیزیں مفقود ہیں مغرب میں عورتوں کو جو طرح طرح کی ذہنی وجسمانی ایذائیں دی جارہی ہیں اس کے اعدادوشمار جو ہمارے پاس آئے ہیں وہ ہمارے ملک اوردیگر جن ملکوں کی ہمیں خبر ہے ان کے اعدادوشمار سے کہیں زیادہ ہیں لہذا یہ مسئلہ بھی حل نہیں کرپائے اوردیگرمشکلات بھی کھڑی کردیں۔

عورت سے متعلق ہماراایک جامع نطقہ نظرہونا چاہئے اورجامع نقطہ نظراسلام میں ہے اصل عورت ہونے کو قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے عورت ہونا عورت کے لئے بہت قیمتی بات ہے اصل یہی ہے مردوں سے تشبیہ کسی بھی صورت میں عورت کا کمال شمارنہیں کیا جا سکتا ہرایک کا اپنی جگہ اپنا کردارہے ، اپنا مقام ہے اوراپنی فطرت ہے، تخلیق الہی کے حکمت پرمبنی ہونےکےتحت دونوں کی ساخت الگ ہونے کا ایک مقصد ہے وہ مقصد پورا ہونا چاہئے اہم بات یہ ہے۔

اس وقت آپ خواتین اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرسکتی ہیں تحقیق کیجئے، لکھئے، رواج دیجئے اورعمل کرکے دکھائے۔ یہ میں بارہا عرض کرچکا ہوں آج پھر کہہ رہا ہوں کہ ہمارے معاشرہ میں بھی یعنی اسلامی معاشرے اوراپنے ایرانی معاشرہ میں افسوس کہ مغربی معاشرہ کی طرح مردوعورت کے گھریلو روابط میں ایک طرح کی نا انصافی ہورہی ہے جو زیادہ ترگھرکے اندرسے مربوط ہے اس کا سد باب ہونا چاہئے کہیں پرنصیحت وموعظہ سے یہ کام ممکن ہے اورکہیں پرموعظہ کارفرما نہیں وہاں قانونی کاروائی کی ضرورت ہے عورتیں مظلوم واقع ہوتی ہیں مرد کے پاس چونکہ جسمانی اوردیگرخصوصیات کےلحاظ سے طاقت وتوانائی زیادہ ہے لہذا وہ بعض مواقع پر اس طاقت سے غلط فائدہ اٹھاتا اورداداگیری کرتا ہے اس کا سد باب ہونا چاہئے اس کے لئے قانون کا سہارا لینا پڑے گا البتہ جیسا کہ ہم نے عرض کیا مردوں کی تہذیب نفس اوراخلاقی تربیت سے بھی یہ کام ممکن ہے۔

اسلامی اخلاقی اوراسلامی قانون کے مطابق مردوعورت کے آپسی برتاؤ کے طریقہ کارپربھی ہماری نظرمیں مزید کام ہونا چاہئے کچھ لوگ دیندار ہیں لیکن چونکہ اسلامی تعلیمات سے زیادہ آشنا نہیں ہیں، اسلام میں مردوعورت کے آپسی اخلاق کے بارے میں صحیح سے نہیں جانتے ہیں لہذا ان کی دینداری بھی انہیں تحکم آمیز برتاؤ اورداداگیری سے نہیں روک پاتی، نہیں! دیندار بھی ہیں اورتحکم آمیز رویہ بھی اپنائے ہوئے ہیں اس کی بھی اصلاح ہونی چاہئے مردوعورت کے روابط میں اسلامی اخلاق پرخاص طورسے گھرکے اندرتوجہ دی جانی چاہئے البتہ پردہ بھی بہت اہم ہے میں پردہ کو واقعاً اہم سمجھتا ہوں پردہ کی اہمیت بالواسطہ طورپر کہیں نہ کہیں سامنے آجاتی ہے مثلاًگھرخاندان کے باب میں اس کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔

بہرحال آج کی یہ نشست ہمارے لئے خوش قسمتی کی دلیل ہے خداکا شکرکہ یہ ساری اچھی بہنیں بحمد اللہ مختلف شعبوں میں سرگرم عمل ہیں صاحب فکر اورکام کرنے والی ہیں .

خداوند متعال سےدعا ہے کہ وہ آپ کی توفیقات میں روز بروز اضافہ فرمائے!

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ