رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج ، صدر جمہوریہ ، انکی حکومت کے اراکین، مختلف صوبوں کے گورنروں اور دیگر اعلی حکام سے ملاقات میں اپنے اہم اورقیمتی بیانات سے مستفیض کیا۔
رہبر معظم نے موجودہ حکومت کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہوئےفرمایا: انقلاب اسلامی کے اصلی شعار (عدالت) کی پائبندی و پاسداری ، داخلی و خارجی سیاست میں شجاعت، ملک کی ترقی و پیشرفت کے لئے انتھک کاوشوں ، خدمت خلق کے قوی محرک ، مختلف صوبوں کے سفر اور وہاں کی مشکلات سے آگاہی ، مختلف شعبوں میں ماہر اور کارآمد افراد کی تعیناتی کو موجودہ حکومت کے اہم اقدامات قراردیتے ہوئے فرمایا: آج ملک مختلف شعبوں میں آگے کی سمت تیزی سے بڑھ رہا ہے ، لہذا ہمیں بیس سالہ ترقیاتی منصوبہ کو ملحوظ نظر رکھ کر ترقی کی منصوبہ بندی کرنا چاہئے ، ترجیحات کا تعین بھی لازمی امر ہے اور با استعداد جوانوں کی خدمات حاصل کرتے ہوئے ملک کو ترقی و پیشرفت کی شاہراہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حکومت کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والے اعلی حکام سے نشست کو ایک بے مثال امر قراردیا اور مستقبل میں اس طرح کے جلسات کی تشکیل پر زور دیتے ہوئے فرمایا: چونکہ موجودہ حکومت کی منصوبہ بندی اور حکمت عملی کا محور و مرکز سماج میں عدالت کا اجراء ہے اور یہی نعرہ لے کر بر سر اقتدار آئی ہے ، در حقیقت یہ شعار اور نعرہ انقلاب اسلامی کا شعار اور نعرہ ہے ، لہذا ملک کی موجودہ شرائط استثنائی و غیر معمول ہیں ، لوگوں نے ایک ایسی حکومت کا انتخاب کیا ہے جس میں انقلاب اسلامی کےمفاہیم و مباحث جاری و ساری ہیں ۔
رہبر معظم نے موجودہ فرصت کو عوام کی خدمت کے لئے غنیمت قراردیتے ہوئے فرمایا:گذشتہ برسوں میں بعض لوگ حتی انقلاب اسلامی کے بعض مخلص افراد بھی یہ تصور کررہے تھے کہ اسلامی انقلاب کے اصلی شعار مثلا اسلام کی سرافرازی، عدالت کا نفاذ، استکبار سے پیکار ، غربت و محرومیت کے خاتمہ کے لئے کوشش ، اپنا مقام کھو بیٹھے ہیں اور انکا زمانہ ختم ہوچکا ہے یہانتک کہ بعض افراد نے ان کا مذاق اڑانے سے بھی گریز نہیں کیا ، لیکن لوگوں کے انتخاب نے اور موجودہ حکومت کے بر سر اقتدار آنے سے انقلاب اسلامی کے مفاہیم میں دوبارہ روح پڑگئی ہے۔
رہبر معظم نے ماضی میں قاچاری اور پہلوی استبدادی حکومتوں کے ذریعہ ملت ایران پر روا رکھے گئے ظلم و تشدد اور ان جابرحکومتوں کے باعث معرض وجود میں آنے والی مشکلات اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد بعض احتمالی غلط اقدامات و اشتباہات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: موجودہ حالات میں جب ایک طرف تو ملک ترقی و پیشرفت کے لئے انتھک کوششوں کا محتاج ہے اور دوسری طرف خدمت خلق کے جذبہ سے سرشار، با استعداد و قابل افراد کی کمی نہیں ہے ، لہذا موجودہ شرائط میں ملک کی مشکلات کو دور کرنے کے لئے شجاعت پر مبنی اقدامات کی ضرورت ہے البتہ یہ اقدامات تدبیر و منصوبہ بندی پر مبنی ہونے چاہییں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے میدان عمل میں شجاعت کو موجودہ حکومت کے امتیازات میں شمار کرتے ہوئےفرمایا: پٹرول کا مسئلہ ان امور میں سے ہے جہاں حکومت نے فیصلہ کرنے میں شجاعت سے کام لیا اور تمام جوانب کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے اسے عملی جامہ پہنایا ، اور اس میں مکمل تحقیق و چھان بین کے بعد اس فیصلہ کو برقرار رکھا جائے۔
رہبر معظم نے تیل و پٹرولیم کے شعبہ میں جکومت کی طرف سے دی جانے والی 40 ہزار ارب تومان کی مالی مراعات (سبسڈی) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر بتدریج اتنی بڑی اور خطیر رقم میں کٹوتی کی جائے تو یقینا بے روزگاری ، مختلف شعبوں میں سرمایہ گزاری ، مدارس و سڑکوں کی تعمیر اور عوام کی روزمرہ زندگی کے دیگر مسائل کے حل پر صرف ہوگی ۔
رہبر معظم نے اس سلسلہ میں فرمایا:موجودہ حکومت پر بعض افراد کی تنقید میں ، دلسوزی اور ہمدردی پائی جاتی ہےجو شفاف و صحیح اطلاع رسانی کے ذریعہ دور کی جا سکتی ہے۔
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے موجودہ حکومت پر زور دیا کہ عوام تک شفاف و صحیح اطلاعات پہونچانے کے لئے زیادہ سے زیادہ کوشش کرنے اور اس کمی کو پورا کرنے کے لئے اپنے تمام وسائل بروئے کار لائے اور حکومت رابطہ عامہ کےمختلف شعبوں کو فعال بنائے ، ٹیلیویژن اور اخبارات کے ذریعہ مؤثر و قابل فہم زبان میں لوگوں تک اطلاعات پہنچانے کی کوشش کرے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض افراد کی تنقید کو غیر منصفانہ قراردیتے ہوئے فرمایا: ہر معاشرے میں ہمیشہ بعض ایسے عناصر پائے جاتے ہیں کہ اگر کوئی کام انجام دیا جائے تو سوال کرتے ہیں کہ کیوں انجام دیا؟ اور اگر انجام نہ دیا جائے تو پوچھتے ہیں کہ کیوں انجام نہیں دیا؟ایسے افراد کی تنقید پر کان دھر نے اور اسے اہمیت دینے کی ضرورت نہیں۔
رہبر معظم نے صدر جمہوریہ اور انکی کابینہ کے وزراء کے مختلف صوبوں کے سفر کو انتہائی مستحسن و مفید قدم قراردیتے ہوئے فرمایا: انسان کو حیرت ہوتی ہے کہ کیسے بعض لوگ اس مفید و قابل تحسین اقدام پر اعتراض کرتے ہیں حالانکہ مختلف صوبوں کا دورہ کرنے سے حکومت نزدیک سے وہاں کی مشکلات سے آشنا ہوتی ہے ۔
رہبر معظم نے نزدیک سے مسائل و مشکلات کے مشاہدہ اور مکتوب گزارشات کے ذریعہ حاصل ہونے والی اطلاعات کے درمیان پائے جانے والے واضح فرق کی طرف اشارہ کرتے ہوئےفرمایا: اس نکتہ کی طرف توجہ مبذول کرنا چاہیے کہ بعض شہروں کے لوگوں نے آج تک کسی ادارہ کے سربراہ تک کی صورت نہیں دیکھی ، جب ملک کے صدرکو اپنے درمیان پاتے ہیں تو یہ لمحہ انکی زندگی کا یادگار لمحہ ہوتا ہے اور بذات خود ایک انتہائی مفید و مستحسن امر ہے ۔ لہذا اس مبارک کام کو آخر تک بر قرار رہنا چاہئے تا کہ لوگ اس کے نتائج کو محسوس کرسکیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مختلف صوبوں کے دورے کے دوران حکومت کے ذریعہ پاس کئے گئے مختلف منصوبوں پر عمل درآمد کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے گورنروں اور مربوطہ حکام و منتظمین کو اس سلسلہ میں عملی اقدام کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے فرمایا: اگر حکومت محسوس کرے کہ بعض منصوبوں پر عمل درآمد ممکن نہیں تو اسے اس مطلب کو عوام سامنے صاف کہنا چاہیئے اور اسکے عوامل و اسباب بھی بیان کرنا چاہیئے تا کہ عوام میں حکومت کی لیاقت ، سعی و کوشش اور توانائی پر سوال نہ اٹھے اور عوام حکومت سے بدگمان نہ ہو۔
رہبر معظم نے مختلف صوبوں اور شہروں کے اعلی حکام کو مختلف مناطق کے عوام سے قریبی رابطہ رکھنے کی ہدایت فرمائی۔
رہبر معظم نے لوگوں کی مادی و معیشتی ضروریات کو پورا کرنے کی ذمہ داری کے علاوہ ، سماج کی ثقافتی ، علمی ، اخلاقی پیشرفت پر توجہ دینے کی ذمہ داری بھی حکومت پر عائد کرتے ہوئے فرمایا: حکومت کو سماج میں صحیح فکر اور بہترین اخلاق کے رواج کے لئے مناسب قدم اٹھانا چاہیے، یہی وجہ ہے کہ ایک کارآمد حکومت میں وزارت ثقافت و ارشاد اسلامی ، وزارت تعلیم و ٹیکنالوجی، وزارت صحت کا شمار نہایت اہم اور حساس وزارتوں میں ہوتاہے ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی ممالک کے جوانوں کو علمی میدانوں میں پیشرفت سے روکتے اور انہیں بیہودہ و ناچیز مادی مسائل میں سرگرم رکھنے کو صیہونی طاقتوں اور انکے حکومتی اہلکاروں کا ایجینڈا قراردیتے ہوئے فرمایا، ان منصوبوں کو طشت از بام کرنا اگر چہ ایک ثقافتی کام ہے مگر حکومت پر بھی اسکی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ، حکومت کو چاہیے کہ اسکے سد باب کے لئے شجاعت پر مبنی سیاسی تحریک چلائے۔
رہبر معظم نے سماج میں "اخلاقی و سماجی سلامتی " نامی منصوبے کے اجرا کو اسی سلسلہ میں اٹھائے گئے ایک قدم سے تعبیر کرتے ہوئے فرمایا: مذکورہ منصوبہ پر عمل درآمد دور حاضر کی ایک اہم ضرورت ہے ، کسی شورو غل پر توجہ کئے بغیر اس فریضہ کو انجام دیا جائے۔
رہبر معظم نے مالی و اقتصادی بد عنوانیوں کے ساتھ مقابلہ کو حکومت کی ایک اہم ذمہ داری قراردیتے ہوئے فرمایا: بد عنوان عناصر کے خلاف حکومت کا اقدام عدلیہ کی کارروائی سے زیادہ موثر ہے چونکہ حکومت کی ذمہ داری، اقتصادی و مالی بدعنوانیوں کی روک تھام ہے ۔
رہبر معظم نے فرمایا: مالی بے قاعدگیوں اور اقتصادی بدعنوانیوں سے پیکار کا لازمہ یہ ہے کہ اس منصوبے پر عمل کروانے والے افراد ایسی لعنت سے پاک ہوں ، چونکہ فساد و بد عنوانیوں سے جنگ صحیح کردارو فکر کی طالب ہے اور اگر اس سلسلہ میں کہیں کوئی ضعف پایا جاتا ہو تو اس لعنت سے حقیقی نجات حاصل کرنا ممکن نہیں ہوگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے حکومت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: حکومت اپنے تمام منصوبوںمیں ، بیس سالہ ترقیاتی منصوبہ کو مد نظر رکھے ، آپ نے مزید فرمایا، مختلف منصوبوں میں ثابت قدمی و پائداری ، کامیابی کی ضامن ہے ، پانچ سالہ ترقیاتی منصوبوں کو بھی بیس سالہ ترقیاتی منصوبہ کو ملحوظ نظر کر عملی جامہ پہنانے کی ضرورت ہے ۔
رہبر معظم نے موجودہ حکومت کی سرگرم و فعال پالیسی کو اس حکومت کا ایک اور قوی نقطہ قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کی خارجہ پالیسی ہمیشہ سے ہی ہجومی رہی ہے اور اس پالیسی کو دفاعی پالیسی میں تبدیل کرنا ایک غلط قدم ہے کہ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ماضی میں حکومتیں بعض مواقع پر اسکا شکاررہی ہیں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس بات پر تاکید کی کہ " ہجومی موقف" کا مطلب دنیا سے جنگ کی سیاست ہرگز نہیں ہے ، ہجومی مؤقف یعنی ایسی سیاست جو بعض مسائل میں دنیا کو للکا رر ہی ہو اور اہل دنیا سے جواب طلب کررہی ہو ، آج کی دنیا بہت سے مسائل میں جمہوری اسلامی ایران کی مقروض ہے ۔
رہبر معظم نے فرمایا: آچ جمہوری اسلامی ایران آج کی ماڈرن دنیا سے استکباری پالیسی ، خواتین کے مسائل ، داخلی جنگوں اور ہتھیاروں کی دوڑ ، وسیع تباہی پھیلانے والے اسلحوں ، جھوٹا پروپیگنڈا کرنے کے بارے میں سوال پوچھ رہا ہے کہ کیا جمہوریت، آزادی و حقوق بشر اسی کا نام ہے ؟!
رہبر معظم نے فرمایا : یہ وہ سوالات ہیں جو دنیا کی ایک زندہ قوم ، غلط سیاست کی ترویج کرنے والوں اور حقایق کو چھپانے والی حکومتوں سے پوچھ رہی ہے۔
رہبر معظم نے ایران کیپالیسی اور حکمت عملی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے واضح کیا کہ بہت سے مسائل میں جمہوری اسلامی ایران کی سیاست " ہجومی موقف " پر مبنی ہے ۔
رہبر معظم نے دنیائے استکبار کی موجودہ گستاخانہ اور حقایق کو پنہان کرنے کی غلط سیاست کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: موجودہ حالات میں جبکہ امریکی حکومت اسلامی دنیا میں نہایت منفوربن چکی ہے اور اسی نفرت و مخالفت کی بنا پر امریکی حکومت عراق میں شکست و ہزیمت سے دچار ہے ، امریکی حکومت اس شکست کی ذمہ داری اب دوسروں کے سرپر عائد کرنے کی کوشش میں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ کی طرف سے عراق ، افغانستان ، اور فلسطین کے مسائل میں ایرانی حکومت کو مورد الزام ٹھہرانے کو انہیں کوششوں کا نتیجہ قراردیتے ہوئے فرمایا: امریکی حکومت اپنی شکست کے اصلی عامل (مسلمانان عالم کی امریکہ سے نفرت اور بیزارری اور اس سے تعاون نہ کرنے کی پالیسی ) پر توجہ دینے کے بجائے اس کا الزام اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت پر عائد کرتی ہے جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ امریکی حکومت کے حکام بالا اپنے منصوبوں اور اپنی پالیسی میں اشتباہ سے دوچار ہیں اور بے بنیاد پروپیگنڈوں میں مشغول ہیں۔
رہبر معظم نے اس سلسلہ میں مزید فرمایا : البتہ ایرانی حکومت و عوام کی امریکی حکومت سے نفرت اور بیزاری ڈھکی چپھی بات نہیں ہے لیکن امریکہ کی موجودہ مشکلات کی جڑیں کہیں اور ہیں ؟
حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایٹمی توانائی کے مسئلہ کے بارے میں ایرانی قوم کے مؤقف کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا : ایرانی عوام جس راہ کو حق سمجھتے ہیں اسے جاری رکھیں گے اور اس سلسلہ میں کوئی پروپیگنڈہ مؤثرثابت نہیں ہوگا۔
رہبر معظم نےفرمایا: اسلامی انقلاب کی تاریخ گواہ ہے کہ ایرانی عوام ہمیشہ استقامت و پائداری و وفاداری کے ہر میدان میں اپنی حکومت کے شانہ بشانہ موجود رہے ہیں اگر حکومت صحیح راستے کا انتخاب کرے تو قوم اس کا ساتھ ہرگز نہیں چھڑے گی ۔
رہبر معظم نے حکومت کے عہدیداروں کو مختلف سیاسی محاذوں کے درمیان رائج چپقلشوں اور تکراری و غیر معمولی باتوں میں اپنا قیمتی وقت ضایع نہ کرنے کی ہدایت کرتے ہوئےفرمایا : اب جبکہ آپ کو ملک وعوام کی خدمت کا موقع نصیب ہوا ہے نہ صرف ملک ایران بلکہ اسلامی دنیا کی تقدیر و سرنوشت آپکے ہاتھوں میں ہے لہذا اس فرصت کو غنیمت جانئے اور دل و جان سے اسلام و جمہوریہ اسلامی ایران کی خدمت کیجیئے ۔ اگر آپ لوگ خدائی نیت اور خدمت خلق کے جذبہ سے کام کریں تو یہ آپکی آخرت کے ليے ذخیرہ قرار پائے گا۔
اس ملاقات کے آغاز پر صدر جمہوریہ ایران جناب احمدی نژاد نے اپنی حکومت کے گزشتہ ایک سال اور دس مہینہ کی کارکردگی کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے عدل و انصاف کےنفاذکو موجود حکومت کا محوری و مرکزی شعار قراردیا اور اسے ملک کی مادی و معنوی ترقی کا عامل بتایا اور اس بات پر زور دیا کہ انکی حکومت اس حقیقت کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش میں ہے کہ ملک ، اسلامی و ایرانی اصولوں و اقدار کے مطابق بھی چلایا جاسکتا ہے ۔
صدر جمہوریہ نے حکومت کی طرف سےعدالت کے اجراء کے لئے اٹھائےگئے اقدامات کی تشریح کرتے ہوئےمندرجہ ذیل امور کی طرف اشارہ کیا:
1- ملک کے مالی وسائل کو مختلف صوبوں اور مناطق میں عادلانہ طور پر تقسیم کرنا
2- بینکوں کے مالی منافع و شرح سود میں کمی
3- بڑی صنعتوں کے ساتھ ساتھ چھوٹی صنعتوں پر خصوصی توجہ
4- محتاج و نیاز مند طبقہ کے لئے مکان کی فراہمی
5۔ حکومت کے ملازمین کے درمیان تنخواہوں کے فاصلہ میں کمی
6۔ افراط زر کو قابو کرنے کی کوشش
7۔ قانون اساسی کی دفعہ 44 کا اجراء اور عدالت شیئرز کو نیاز مندوں میں تقسیم کرنا
8۔ نجکاری کی سیاست پر عمل درآمد اور عمومی ثروت میں اضافہ کرنا
9۔ زراعت کے شعبہ کی طرف خصوصی توجہ دینا
جناب احمدی نژاد نے تیل کے علاوہ دیگر وسائل سے ہونے والی آمدنی کے اضافہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے درآمدات و برآمدات کا موازنہ کیا اور یاددلایا کہ تیل و پیٹرولیم کے مصرف پر کنٹرول ان اقدامات میں سے ہے جو حکومت نے پارلیمنٹ کی منظوری کے بعد اٹھایا ہے اور اس سلسلہ میں صارفین کے لئے پیٹرول کے کوٹے کا تعین کیا ہےاور اگر یہ کام اپنے سرانجام تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے تو نہ صرف یہ کہ لاکھوں لیٹر پیٹرول کی بچت ہوگی بلکہ دسیوں ارب ڈالر بھی قومی خزانہ میں جمع ہونگے جنہیں ملک کی ترقی و پیشرفت اور لوگوں کی مشکلات کو دور کرنے میں صرف کیا جائے گا ۔
صدر جمہوریہ نے اپنی حکومت کے مختلف صوبوں کے سفر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہمدردی و ہمدلی کی فضا فراہم کرنا ، حکام و عوام کے درمیان نزدیکی روابط برقرار کرنے کو اس سفر کا ہدف بتایا اور ملک کی ترقی و پیشرفت میں اسلامی و ایرانی توسعہ کو مد نظر رکھنے کی ضرورت پر زور دیا اور اس سلسلہ میں بینک اور بیمہ کے نظام میں اصلاحات پر تاکید کی اور اسی سلسلہ میں حکومت کے توسط سے اٹھائے گئے بعض اقدامات کی طرف توجہ مبذول کروائی۔
صدر جمہوریہ نے موجود خارجہ پالیسی کو عزت ، حکمت اور مصلحت پر مبنی قراردیا اور ایٹمی توانائی کے مسئلہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئےکہا: میری حکومت اپنی پوری طاقت کے ساتھ ایرانی عوام کے اس حق کا دفاع کرے گی اور اس سلسلہ میں کسی دھمکی اور نفسیاتی جنگ کی پرواہ کئے بغیر اپنا راستہ جاری رکھے گی۔