ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم انقلاب اسلامی :

اللہ تعالی کے فضل اور عظیم الشان قوم کی ہوشیاری، شجاعت، استقامت ،تدبیر اور اتحاد کے سائے میں دشمن اسلامی نظام کو چوٹ پہنچانے پر قادر نہیں ہونگے

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے بہار کے آغاز اور نئے سال کے پہلے دن ثامن الحجج حضرت علی بن موسی الرضا(ع) کے حرم مبارک میں زائرین اور مجاورین کے عظیم اجتماع میں نئے سال کے نعرے " دوچنداں ہمت اور کام " کے مختلف شعبوں اور میدانوں میں محقق ہونے اور عشرہ عدل و انصاف و پیشرفت کے عوامل و ضروریات کی تشریح کی اور انتخابات کے بعد رونما ہونے والے حوادث میں دشمنوں کے مقابلے میں قوم کے اتحاد و یکجہتی کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی کے فضل سے اس کے بعد بھی ملک و قوم کا مقدر پیشرفت و کامیابی پر استوار ہوگا اور شکست و ناتوانی دشمن کا مقدر بنےگی۔

مشہد مقدس میں موسم خراب  ہونے کی وجہ سے یہ اجتماع  حرم رضوی کے امام خمینی (رہ)حال میں منعقد ہوا رہبر معظم نے نئے سال اور عید نوروز کی مناسبت سے دوبارہ مبارک باد پیش کی  اور اللہ تعالی پر ایمان اور انبیاء(ع) کی تعالیم کو اسلامی جمہوریہ ایران کی اساس و بنیاد اور عمدہ معیار قراردیا اور قرآن کریم کی مختلف آیات کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی پر ایمان، اسلامی تعلیمات پر عمل ،روحی آرام و سکون کاباعث اور معنوی پیشرفت کے ساتھ انسان کی مادی اور دنیوی سعادت کے امکانات کو بھی فراہم کرتا اور انسانی معاشرے کو ترقی و فلاح وبہبودکی منزل تک پہنچاتا ہے اور اسی وجہ سے اسلامی نظام کے اصول اسی اصلی معیار پرقائم و استوار ہیں۔

رہبر معظم نے سال 1389 کو " دوچنداں ہمت اور کام " کا سال موسوم کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ہر سال کی نامگذاری کوئی تشریفاتی ، نمائشی اور تکلفی نہیں ، قدرتی طور پر یہ نام تمام مشکلات کو حل بھی نہیں کرسکتے بلکہ یہ انگلی کے ایک  اشارہ کی مانند ہیں جو راستے اور طریقہ کا پتہ بتاتے ہیں اس سال بھی ملک و قوم کے بلند و بالا اہداف کے پیش نظر بلند ہمتی سےکام لیکر سنجیدہ طورپر زیادہ سے زیادہ کاموں کو انجام دینا چاہیے۔

رہبر معظم نے گذشتہ سال حکام کی جانب سے درست استعمال کی جانب عملی قدم کے سلسلے میں بعض اقدامات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس ہدف تک پہنچنے کے لئے بہت فاصلہ باقی ہے لیکن اہم بات یہ ہے کہ اس بنیادی نعرے پر عمل کرنے کے لئے حرکت کریں کیونکہ جب تک مصرف کے استعمال میں اصلاح نہیں ہوگی مشکلات جوں کی توں باقی رہیں گی۔

رہبر معظم نے علم و ریسرچ کو اس سال کے نعرے کا سب سے اہم عملی مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: تمام شعبوں میں یونیورسٹیوں اور تحقیقاتی مراکز کو بلند و اعلی اہداف کومد نظر رکھنا چاہیے اور بلند ہمت و پیہم جد وجہد کے ساتھ ان اعلی  اہداف کی جانب قدم بڑھانا چاہیے تاکہ ایران چند عشرے گذرنے کے بعد دنیا کے اہم علمی مراکز میں تبدیل ہوسکے۔

رہبر معظم نے دوچنداں ہمت و کام  اور موجودہ امکانات  و وسائل سے درست استفادہ کو قوم کی فلاح و بہبود میں رونق کا باعث قراردیا اور اس سلسلے میں سبسڈي کو با مقصد بنانے کے عمل کو بہت ہی اہم قراردیا۔

رہبر معظم نے اس اہم مسئلہ میں تینوں قوا کے درمیان تعاون پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ایک طرف اس عظیم ہدف کو نافذ کرنے کا بوجھ حکومت کے دوش پر ہے لہذا تمام اداروں منجملہ قوہ مقننہ کو حکومت کے ساتھ تعاون کرنا چاہیے اور دوسری طرف حکومت کو بھی قانون کے مطابق عمل کرنا چاہیے تاکہ قوا کے باہمی تعاون و ہمدلی کے سائے میں اللہ تعالی کی مدد بھی شامل حال رہے۔

رہبر معظم  نےداخلی محصولات کی کیفیت کو بہتر بنانے اور بیرونی اشیاء کے ساتھ ان کی رقابت نیزعوامی سلامت پر خصوصی توجہ کومختلف پروگراموں منجملہ پانچسالہ منصوبہ کا حصہ قراردیتے ہوئے اس سال کے نعرے کے مختلف پہلوؤں کی وضاحت کی۔

رہبر معظم نے عمومی سلامت کے بارے میں ورزش کی ہمہ گیری کو بلند ہمتی اور سعی پیہم کے ساتھ معاشرے کے لئے نشاط بخش اور فردی و اجتماعی پیشرفت و تلاش و کوشش کے لئے اہم قراردیا۔

رہبر معظم نے سرمایہ کاری و کام فراہم کرنے کو نئے سال کے نعرے کے محقق ہونےکا ایک اور پہلو قراردیتے ہوئے فرمایا: وہ لوگ جن کے پاس سرمایہ اورامکانات موجود ہیں وہ اسراف سے پرہیز کرتے ہوئے بلند ہمت کے ساتھ اپنے سرمائے کو کام فراہم کرنے اور سرمایہ کاری کے شعبہ میں استعمال کریں۔

رہبر معظم نے فکری بلوغ ، مطالعہ اور عامی معلومات میں اضافہ کو نئے سال کےنعرے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اہم قراردیا اور اس سلسلے میں دوچنداں ہمت اور کام و تلاش کی اہمیت کو اجاگر کیا۔

رہبر معظم نے اسی سلسلے میں فرمایا: حوزات علمیہ اور یونیورسٹیوں میں آزاد فکر پر مبنی کرسیوں کی تشکیل کے ذریعہ معاشرے میں بہت ہی مفید و گرانقدر نظریات پیداکئےجاسکتے ہیں۔

رہبر معظم نے ناانصافی اور فقر و فساد کے ساتھ مقابلہ کے لئے بلند ہمتی و سعی پیہم و مسلسل تلاش و کوشش کو اس بنیادی ہدف کو عملی شکلدینے کے لئے ضروری  اور اہمقراردیا۔

رہبر معظم نے 22 خرداد سے لیکر 22 بہمن تک ان آٹھ مہینوں میں رونما ہونے والے واقعات میں قوم کی آگاہی ورشد و نمو کو ان کی بصیرت میں تازہ ترین فصل قراردیتے ہوئے فرمایا: یہ فصل باعث فخر ، عبرت آموز اور بہت ہی اہم ہے جس کی بنیاد پردو چنداں ہمت اور مسلسل تلاش و کوشش کے ساتھ حرکت کی جاسکتی ہے۔

رہبر معظم نے سال 88 میں انتخابات کے بعد رونما ہونے والے واقعات میںقوم کی ہوشیاری و بیداری کے باعث اس سال کو قوم کی درخشاں فتح و ظفر اور کامیابی کا سال قراردیتے ہوئے فرمایا: انتخابات میں 80 فیصد سے زائد اور 40 ملین افراد کی ولولہ انگیز شرکت ایک بہت بڑا تاریخی حادثہ اور اسلامی نظام کی مشروعیت کا مظہرتھا اور عالمی تجزیہ کار اور سیاستمدار بظاہراگر اس درخشاں حقیقت کا کتمان بھی کریں اس کے باوجود وہ سمجھ جائیں گے کہ ایرانی قوم تیس برس گذرنے کے بعد بھی اسلامی نظام کے اصولوں پر اسی طرح پائدار اور استوارکھڑی ہے۔

رہبر معظم نے اسلامیت و جمہوریت کو نظام کا اٹوٹ حصہ قراردیا اور انتخابات کے بعد رونما ہونے والے واقعات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: میں کسی پر الزام عائد نہیں کرتا ہوں لیکن دشمن کی ریشہ دوانیوں کو بھی اچھی طرح جانتا اورپہچانتا ہوں اورجیسا کہ عوام اور تیز ہوش ، صادق اورمستقل تجزیہ نگاروں نے بھی  ان حوادث کے طور و طریقہ کو دیکھ کر انھیں بیرونی عوامل کی طرف منسوب کیا ہے۔

رہبر معظم نے اغیار کی طرف سے اس کے مشابہ نقشوں کو دیگر ممالک میں عملی جامہ پہنانے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ واضح حقیقت ہے کہ جب سامراجی طاقتیں کسی ملک سے ناراض ہوتی ہیں تو وہ انتخابات کا انتظار کرتی ہیں تاکہ جن افراد کو وہ پسند نہیں کرتیں ان کی کامیابی کی صورت میں کچھ لوگوں کو سڑکوں پر لے آئیں اور بحران و تشدد ایجاد کریںحتی ضرورت کے موقع پر آشوب، تشدد اور بلوؤں کے ذریعہ قانونی انتخابات کے نتائج پر اثر انداز ہونے اور انھیں تبدیل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔

رہبر معظم نے انتخابات کے بعد رونما ہونے والے حوادث کے عظیم امتحان میں قوم کی کامیابی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: تشدد ، بلوؤں اور بحران کے ذریعہ انتخابات کے نتیجے کو بدلنے کی کوشش قانون اور شرع کے خلاف تھی  اور ان حوادث میں قوم کی ہوشمندانہ کامیابی  بہت زیادہ سبق آموز اور عبرت آموز ہے ۔

رہبر معظم نے اغیار کی جانب سے واضح طور پر قوم کو اقلیت و اکثریت کے دو گروہوں میں تقسیم کرنے ،کامیاب و ناکام قراردینےاور قوم کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کے شوم نقشہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اس عرصہ میں بعض بلوائی بھی میدان میں پہنچ گئے تاکہ دشمن کے منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اندرونی جنگ چھیڑ سکیں لیکن قوم ہوشیار تھی اور اس نے دشمن کے شوم منصوبہ کو ناکام بنادیا۔

رہبر معظم نے فرمایا: انتخابات کے دن عوام 14 ملین اور 24 ملین کے دو گروہوں میں بٹ گئے اور ہر شخص نے اپنے پسندیدہ نمائندے کو ووٹ دیا لیکن ان دونوں گروہوں نے کچھ عرصہ کے بعد جب دشمن کے شوم نقشہ کو مشاہدہ کیا تو باہم متحد ہوگئے اور پوری قوم دشمنوں اور بلوائیوں کے مقابلے میں میدان میں اتر آئی۔

رہبر معظم نے اسلام اور ایران کے دشمنوں کی جانب سے بلوائیوں کی حمایت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اگر امریکہ ، برطانیہ اور اسرائیل کے اندر اتنی طاقت و توانائی ہوتی تو وہ تہران کی سڑکوں پر اپنی فوج کو بھی بھیج دیتے اور یقینا وہ ایسا کرتےلیکن وہ جانتے تھے کہ ایسا کرنا ان کے لئے باعث ضرر ہوگا لہذا وہ صرف سیاسی اور تبلیغاتی میدان میں ہی اترے اور اس طرح انھوں نے اندرونی اور بیرونی سطح پر رائے عامہ کو منحرف کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا لیکن انھیں اس میں بھی ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

رہبر معظم نے 9 دی اور 22 بہمن کو قومی اتحاد و بصیرت کو قوم کی اغیار پر آخری ، قوی اور مضبوط ضرب قراردیتے ہوئے فرمایا: ان دو عظیم مواقع پر جن افراد نے مختلف نمائندوں کو ووٹ دیئےتھے وہ سبھی ایک آواز ہوکر میدان میں حاضر ہوگئے اور انقلاب اسلامی کے راستے پر گامزن رہنے کے لئے قومی اتحاد و کامیابی کے شاندار جلوے  پیش کئے۔

رہبر معظم نے حرم رضوی میں زائرین اور مجاورین کے اجتماع سے اپنے خطاب کے دوسرے حصہ میں انقلاب اسلامی کے چوتھے عشرے یعنی عشرہ  پیشرفت و عدل و انصاف کی ضروریات و لوازمات کا دوبارہ جائزہ لینے پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ملک کے حقائق  اور بنیادی تعمیراتی ڈھانچے کے اسباب فراہم ہونےکے پیش نظر یہ عشرہ  ان دو تاریخی اور بنیادی اصولوں کو عملی جامہ پہنانے اور مؤثر قدم اٹھانے کا بہترین ، شانداراور مناسب موقع ہے۔

رہبر معظم نے حکام کے تمام پروگراموں اور اقدامات میں " پیشرفت و عدالت " پر توجہ کو ضروری قراردیتے ہوئے فرمایا: اقتصادی، ارتباطاتی اور مواصلاتی شعبوں میں ترقی ، سائنس و ٹیکنالوجی کے بعض شعبوں میں ایران کی حیرت انگیز پیشرفت نے ملک کو دنیا کے 10 یا 8 پیشرفتہ ممالک کی صف میں کھڑاکردیا ہے جس کی بدولت علاقائی و عالمی سطح پر ایران کے اقتدار، اعتبار اور مؤثر کردارمیں مزیداضافہ ہوا ہے،ملک کی خدمات و مدیریت کا تیس سالہ تجربہ اور بیس سالہ منصوبہ  کی گرانقدر دستاویز منجملہ وہ بنیادی ڈھانچےہیں جن کی بدولت عدل وانصاف اور پیشرفت کی عظیم حرکت کے لئے امکانات اور وسائل فراہم ہوگئے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تعلیم یافتہ ، ولولہ انگیز ، بانشاط  اور خوداعتمادی سے سرشار نوجوان نسل کو عدالت و پیشرفت کی سمت ملک کی حرکت کے لئے عظیم سرمایہ قراردیتے ہوئے فرمایا: آج ایرانی جوان توانائی کا احساس کرتا ہے اور یہ قومی خود اعتمادی کی علامت ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں ایرانی قوم کے سامنے موجود رکاوٹوں کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : دیگر ممالک کی مانند اسلامی مملکت ایران کے بھی کچھ دشمن ہیں لیکن امریکی حکومت کے برخلاف جسے قوموں کی نفرت اور دشمنی کا سامنا ہے، اسلامی جمہوریہ ایران کو سامراجی اور توسیع پسند، حکومتوں صیہونی سرمایہ داروں اور انسانیت کے دشمنوں کی مخالفت کا سامنا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تدبر اور شجاعت کو قوم کے دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لئے دو اہم ترین ضرورتیں قرار دیتے ہوئےفرمایا :  اگر شجاعت نہ ہو اور حکام، سامراجی طاقتوں کے وحشتناک چہروں اور اقدامات کو دیکھ کر ہراساں و حواس باختہ ہو جائیں تو ملک کی شکست یقینی ہو جائے گی، اسی طرح اگر تدبر اور ہوشیاری سے کام نہ لیا جائے تو ممکن ہے کہ دشمن فریب اور حیلہ گری کے ذریعہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دشمن کے اصلی منصوبوں سے واقفیت و آشنائی اور اغیار کی سازشوں اور کارروائیوں کے جواب میں موقع اور بر وقت فیصلہ کرنے کو تدبر کا حقیقی مفہوم قرار دیتے ہوئےفرمایا: صیہونی عناصر، امریکہ اور قوم کے دوسرے دشمن کبھی بھیڑئے تو کبھی لومڑی کی شکل میں ظاہر ہوتے ہیں، کبھی تشدد تو کبھی مکر و فریب کے روپ میں سامنے آتے ہیں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گذشتہ سال (1388 ہجری شمسی) کے پہلے دن کی اپنی تقریر میں بیان کی گئی باتوں کی یاددہانی کراتے ہوئے فرمایا : جیسا کہ پہلے بھی  بیان کیا گیاہے کہ حکام نے نئے امریکی صدر کے بظاہر دوستی کے آگے بڑھے ہوئے ہاتھ پر دانشمندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے گہری نظر رکھی تاکہ یہ پتہ چل جائے کہ اس نرم وملائم دستانے کے اندر دشمنی کا آہنی پنجہ تو پوشیدہ نہیں ہے اوربعد میں یہی چیز سامنے آئی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ انصاف پسندانہ تعلقات قائم کرنے سے متعلق امریکی حکومت کے آشکارا و پنہاں دعوؤں اور پیغامات و خطوط بھیجنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:  یہ سارے دعوے عملی میدان میں بالکل غلط بےبنیاد اورالٹے ثابت ہوئے اور امریکی صدر نے انتخابات کے بعد کے واقعات کے سلسلے میں بد ترین موقف اختیار کیا اور عوام پر حملہ کرنے والوں اور بلوائیوں کے حملوں کو عوامی تحریک سے تعبیر کیا اور نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے ناپاک عزائم کی قلعی کھول دی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے جمہوریت اور شہری حقوق کی حمایت پر مبنی امریکی حکومت کے جھوٹے دعوؤں پر شدید تنقید کرتے ہوئےفرمایا: امریکی حکومت انتخابات میں ملت ایران کے عظیم کارنامے اور مختلف مواقع پر عوام کے متحدہ نعروں کو نظر انداز کر دیتی ہے، عراق اور افغانستان کے عوام کا قتل عام جاری رکھے ہوئے ہے اور غزہ میں بچوں کے قاتلوں کی حمایت جاری رکھے ہوئےہے اور اس کے بعد انسانی حقوق کی حمایت کا دعوی بھی کرتی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا:حقائق نے ثابت کر دیا ہے کہ امریکی حکومت  ابتدا ہی سے جمہوریت اور انسانی حقوق کی حمایت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتی اور نہ ہی ان کے بارے میں بات کرنے کی مجاز ہے ۔
رہبر معظم نے فرمایا: ہم ان تمام حکومتوں کو جو سامراجی عزائم و مقاصد کے ساتھ اسلامی جمہوریہ ایران  اور ایرانی قوم کے مد مقابل آنا چاہتی ہیں، ان پر واضح کردینا چاہتے ہیں کہ ایرانی عوام اور حکام کے سامنے ان کی کوئی وقعت و حیثیت نہیں ہے اور ان کی حقیقت کو خواہ وہ کسی بھی لباس میں ہوں پہچانتے ہیں اور ایرانی حکام ملک اور قوم کے مفادات ، پیشرفت و ترقی کی ہر لحاظ سے پاسداری اور حفاظت کریں گے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اللہ تعالی کے فضل و کرم  اور ایران کی عظیم الشان قوم کی استقامت، یکجہتی، شجاعت، ذہانت ، دانشمندی اور ہوشیاری کے نتیجے میں دشمن اسلامی نظام پر ضرب لگانے اور عوام کو نظام سے الگ کرنے پر ہزگز قادر نہیں ہو سکے گا اور اس ملک اور اس قوم کا مستقبل ترقی و کامیابی کا آئینہ بنے گا۔
اس خطاب سے قبل آستان قدس رضوی کے متولی اور نمائندہ ولی فقیہ آیت اللہ واعظ طبسی نے رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای کو خوش آمدید پیش کرتے ہوئےکہا :

رہبر معظم انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے خطاب سے قبل ولی امر مسلمین کے نمائندے آيت اللہ واعظ طبسی نے ولی امر مسلمین، قائد انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ رہبر معظم  انقلاب اسلامی کی قیادت و  راہنمائی ، حکام کی مدبرانہ صلاحیتوں اور عوام کے مقتدرانہ تعاون کے نتیجے میں اسلامی نظام اپنے اعلی اہداف کی جانب گامزن رہےگا ۔

700 /