بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم
الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ والسّلام علیّ سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفیٰ محمّد وعلیٰ آلہ الاطیبین الاطھرین المنتجبین الھداۃ المھدیّین المعصومین المکرّمین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین ۔
میں دل کی گہرائیوں سے خداوندمتعال کا شکر گزار ہوں کہ جس نے گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی ، سال کے پہلے دن ، حضرت ابی الحسن علی بن موسی الرّضا صلوات اللہ وسلامہ علیہ کے روضہ اقدس کی زیارت ،اور اس پاک و مقدّس سرزمین کے زائروں اور مجاوروں اور آپ بھائیوں اور بہنوں کی ملاقات کا شرف بخشا اور اس دن کی معنوی برکات اور آپ بھائیوں اور بہنوں کے دیدارسے مستفیض ہونے کی توفیق عطا کی ۔ سب سے پہلے نئے سال کی آمد اور عید نوروز کی مناسبت سے پوری ایرانی قوم اور آپ بھائیوں اور بہنوں کو مبارکباد پیش کرتا ہوں ، میں اس مناسبت سے بھی کچھ مطالب آپ کے سامنے پیش کروں گا ۔
سب سے پہلا مطلب جو میرے پیش نظر ہے اور یہاں اسے پیش کرنا چاہتا ہوں وہ اسلامی جمہوری نظام کے قیام کے تیس برس گزرنے کی مناسبت سے ، اسلامی حکومت اور اس مقدّس اسلامی نظام کی ایک قرآنی تعریف ہے ۔ حکومت اسلامی کی بنیاد اور اس کی اصلی پہچان و شناخت ، قوّت ایمان کا ثبات ؛ پروردگار عالم پر ایمان ؛ انبیائے کرام کی تعلیمات اور ان کے بتائے ہوئے صراط مستقیم پر چلنا ہے ۔ اس نظام کی بنیاد ، ایمان پر استوار ہے ۔ پوری تاریخ میں ، انبیائے کرام کی بعثت ، انسانوں کی ہدایت ، دینی اور الٰہی معاشروں کو وجود میں لانے کا سب سے بڑا مقصد اور ہدف یہی تھا کہ ان کے اندر " ایمان " کا جذبہ پیدا کیا جاسکے ۔ یہی وجہ ہے کہ ارشاد ربّ العزّت ہو رہا ہے : " انّا ارسلناک شاھدا ومبشّرا و نذیرا ۔ لتؤمنواباللہ و رسولہ و تعزّروہ و توقّروہ و تسبّحوا بکرۃ واصیلا " ۔ (۱) (پیغمبر ہم نے آپ کو گواہی دینے والا ،بشارت دینے والااور عذاب الٰہی سے ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے ۔ تاکہ تم سب اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ اور اس کی مدد کرو اور اس کا احترام کرواور صبح و شام اللہ کی تسبیح کرتے رہو ) ان آیات کا مفہوم یہ ہے کہ انبیائے الٰہی کی بعثت کا ہدف اور مقصد یہ ہے کہ پروردگار عالم پر ایمان ، اس کی ذات اور راستے ، اور انبیائے الٰہی کی تعلیمات سے والہانہ لگاؤ تمام انسانوں میں پیدا کیا جاسکے ۔یہ دوآیتیں ، سورہ " فتح " میں ہیں ۔سورہ احزاب میں ارشاد ہو رہا ہے : " انّا ارسلناک شاھدا ومبشّرا ونذیرا۔ و داعیا الی اللہ " ۔ (۲) (اے پیغمبر(ص) ہم نے آپ کو گواہ ، بشارت دینے والا ، عذاب الٰہی سے ڈرانے والا ، اور خدا کی طرف دعوت دینے والا بنا کر بھیجا ہے ) پیغمبر اسلام (ص) کی رسالت کا اصلی مقصد و ہدف ، خدا کی طرف دعوت دینا ہے ، یہ کام بنیادی نوعیّت کا ہے ۔خداوند متعال ، عالم غیب اور اس صراط مستقیم پر ایمان کا مسئلہ جو انسانوں کی دنیا وآخرت کی سعادت و خوشبختی کا ضامن ہے ، وہ طرّہ امتیاز ہے جو اسلامی نظام اور اسلامی معاشرے کو دنیا کے دیگرانسانی معاشروں سے جدا کرتا ہے ۔ اگر آج ، دنیا کے مختلف نظاموں کے مقابلے میں اسلامی جمہوری نظام کے پاس ، کہنے کے لئے کچھ ہے ، اگر آج ، دنیا کے مادی نظاموں کو چیلینج کرنے کے لئے اسلامی جمہوری نظام کے پاس کوئی طاقت ہے تو وہ یہی اس کی ایمانی شناخت و پہچان ہے ۔ آج کا انسان اپنی بے ایمانی ،کفر والحاد کی وجہ سے زندگی کی مختلف مشکلات کے بھنور میں گرفتار ہے ۔لہٰذا سب سے بڑا معیار ''ایمان '' ہے ۔ خدا، راہ خدااور راہ انبیاء (ع) پر ایمان(جس کے بعد ان کی تعلیمات پر عمل کا مرحلہ آتا ہے ) کا ثمرہ ، صرف معنویّت میں اضافہ تک محدود نہیں ہے ۔اگر چہ ان تعلیمات کا سب سے بڑا فائدہ ، انسانی اور اخلاقی کمال کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ؛ چونکہ دنیا ، آخرت کی کھیتی ہے ۔ اسی دنیا کی زندگی کے ذریعہ ، انسان، اخلاقی ترقّی و کمال کے زینے طے کرتا ہے اور نقطہ عروج تک پہنچتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مادی زندگی بھی خداپرایمان کی مرہون منّت ہے ۔خدا پر ایمان نہ صرف معنوی سعادت کا باعث بنتا ہے بلکہ مادی سعادت کا موجب بھی بنتا ہے ۔ایمان باللہ ، کے ذریعہ انسان اپنی مادی زندگی کی ضرورت کی ہر چیز حاصل کر سکتا ہے ۔ " ولوانّھم اقاموالتّوراۃوالانجیل وما انزل الیھم من رّبھم لاکلوامن فوقھم ومن تحت ارجلھم ؛ ( اگر یہ اہل کتاب توریت و انجیل اور ان کے رب کی طرف سے نازل شدہ دیگر تعلیمات کو قائم رکھتے تو وہ اپنے اوپرکی (آسمانی برکات ) اور نیچے کی طرف (زمینی برکات ) سے مالا مال ہوتے ) (۳) ؛ ۔ اگر معاشرے میں دین کی حکمرانی ہو ، دینی تعلیمات کو عملی جامہ پہنایا جائے تو ایسے معاشرے کے افراد ، فلاح و بہبود کے اس مرتبے تک پہنچ جاتے ہیں جہاں ان کی ہر ضرورت پوری ہو سکتی ہے ۔ معنوی اور نفسیاتی سکون ، سلامتی اور آرام و چين کے احساس میں بھی " ایمان '' کا کردار انتہائی اہمیّت کا حامل ہے ، قرآن مجید نے ان الفاظ میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے " قدجائکم من اللہ نور و کتاب مبین یھدی بہ اللہ من اتّبع رضوانہ سبل السّلام '' ؛ ( تحقیق تمہارے پاس اللہ کی طرف سے نور اور روشن کتاب آچکی ہے جس کے ذریعہ اللہ ان لوگوں کو امن و سلامتی کی راہیں دکھاتا ہے ) ۔ (۴ ) قرآن ، انسان کو امن و سلامتی ، اور نفسیاتی سکون کے راستے کی تعلیم دیتا ہے ؛ یہی وہ راستہ ہے جو انسان کو نفسیاتی سکون عطا کرتا ہے ؛ جس کے فقدان کی وجہ سے عالم انسانیّت پر اضطراب کی کیفیّت طاری ہے ۔ آج کی دنیا میں مادی ترقّی پائی جاتی ہے ، سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی اس نے نمایاں ترقّی کی ہے ، مختلف ممالک دولت و ثروت سے سرشار ہیں لیکن ان سب کے باوجود ، امن و سلامتی ، ذہنی و نفسیاتی سکون ناپید ہے ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ آج کے انسان کی زندگی سے ایک اساسی عنصر غائب ہے جس کانام " ایمان " ہے ۔ قرآنی تعلیمات سے اس بات کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انسانی زندگی میں " ایمان " کی کتنی زیادہ اہمیّت ہے ۔ مجھے اور آپ کو ، اس مملکت کی ہر فرد اورہر جوان کو جو اس ملک ، اپنے اور اپنی اولاد کے مستقبل اور سعادت کے بارے میں کوشاں ہے اسے اس بات پر پوری توجّہ دینا چاہیے ۔ اسلامی نظام کا محور " ایمان " ہے ۔ ہمیں اس ایمان کو اپنے اندر پیدا کرنا چاہیے ، یہ ایمان صرف دل تک محدود نہ ہو بلکہ عمل و کردار ، منصوبہ بندی و اقدامات میں بھی دکھائی دینا چاہیے ۔
جمہوری اسلامی کے نظام کی تشکیل کا یہ بتّیسواں سال ہے ؛یعنی یہ اس عشرے کا دوسرا سال ہے جسے " ترقّی و انصاف " کے عشرے سے موسوم کیا گیا ہے ۔ ترقّی و انصاف کا نعرہ ایک محوری اور بنیادی نعرہ ہے ، یہ نعرہ وقت کی ضرورت ہے ۔ اس مرحلے پر " ترقّی و انصاف " کو ہی ہماری عزیز قوم اور ملکی حکام کا اصلی ہدف و مقصد ہونا چاہیے ۔ ترقّی و انصاف دو ایسے مطالبے ہیں کہ انسان جن کا ہمیشہ سے ہی محتاج رہا ہے ۔ پیشرفت کا مطلب یہ ہے کہ انسان ، علم و عمل اور سماج کی دنیوی ضرورتوں کے اعتبار سے مطلوبہ اہداف و مقاصد تک پہنچ جائے ۔ انصاف کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں کے درمیان ، امتیازی سلوک نہ پایا جاتا ہو ، ناانصافی اور ظلم و ستم نہ ہو۔ یہ دونوں مطالبے ، یہ دونوں خواہشیں ، ہمیشہ سے ہی عالم بشریّت کی بنیادی اور اصلی خواہشیں رہی ہیں ۔ جب سے انسانی تاریخ کا آغاز ہوا ہے یہ دو مطالبے ( ترقّی و انصاف ) ہمیشہ سے ہی انسانوں کے بنیادی مطالبے رہے ہیں ؛ ان دو چیزوں کا نعرہ لگانا بہت آسان ہے لیکن اس سے کہیں زیادہ اہمیّت ان نعروں پر عمل درآمد کی ہے ۔ جمہوری اسلامی نظام کا چوتھا عشرہ ان دو نعروں پر عمل درآمد کا ایک سنہرا موقع ہے۔ ترقّی و پیشرفت کو حقیقی معنیٰ میں حاصل کیا جاسکتا ہے اور ہمارے معاشرے کے شعور، اس کی آگاہی و بصیرت کے پیش نظر ، انصاف و عدالت کا قیام بھی کوئی مشکل کام نہیں ہے ، آج ہمارے عوام ، اہداف و مقاصد سے آگاہ ہیں، رکاوٹوں کو بھی جانتے ہیں ، آج ہمارے جوان ، دوست و دشمن کو خوب پہچانتے ہیں ، اس ماحول میں اگر کوئی ذمّہ دار شخص ، عدالت و انصاف کے نفاذ کے لئے کوشاں ہو تو وہ اس ملک میں مکمل عدل و انصاف کے قیام کے مقدّمات فراہم کر سکتا ہے ۔ البتہ اس کے لئے ایک طویل عرصہ درکار ہے ۔ مختصر عرصے میں اس کو علمی جامہ نہیں پہنایا جاسکتا ۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ عشرے کو " ترقّی و انصاف'' کے عشرے سے موسوم کیا گیاہے ۔ ہر منصوبہ بندی اور ہر اقدام میں ان دو عناصر ( ترقّی و انصاف ) کو پیش نظر رکھا جائے ؛ہر اقدام ،ہر منصوبہ، معاشرے کی ترقّی اور اس میں انصاف کے قیام کا آئینہ دار ہونا چاہیے ۔
ہمارا ملک ہر لحاظ سے آمادہ ہے ۔ میرے عزیزو!ہمارے ملک و ملّت نے ان تیس برسوں میں ہر شعبے میں نمایاں ترقّی حاصل کی ہے ۔ ایک ایسی تعمیری اور قابل احساس عظیم ترقّیاتی تحریک کا موقع فراہم ہے جس کے اثرات کو عوامی زندگی میں دیکھا جاسکے ۔ ہم نے اقتصادی بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں بھی کافی پیشرفت کی ہے ۔ٹیلی مواصلات اور دیگر ذرائع ابلاغ کے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں بھی عظیم کام انجام دیے ہیں۔ آپ حضرات کچھ عرصے سے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی برق رفتار ترقّی و پیشرفت کا مشاہدہ کر رہے ہیں ؛ علمی میدان میں ہمارے جوانوں ، ہمارے دانشوروں اور اہل یونیورسٹی نے ان مراحل کو طے کیا ہے جو ایک ایسے ملک کے لئے بہت عجیب چیز ہے جو سائنس و ٹیکنالوجی اور خلاقیت کے اعتبار سے بہت پسماندہ تھا اور ترقّی یافتہ دنیا سے اس کا فاصلہ بہت زیادہ تھا ۔
عزیزجوانو! آج آپ کے ملک میں ایسے سائنسی شعبے کم نہیں ہیں جن میں آپ کا ملک دنیا کا آٹھواں یا دسواں ملک شمار ہوتا ہے ۔ مختلف سائنسی علوم میں، علم الحیات کے مختلف شعبوں میں، نانوٹیکنالوجی ،فضائی علوم اور دیگر علوم میں ملکی سائنسدانوں ( جو عام طور سے انہیں شوق و نشاط سے سرشار جوانوں پر مشتمل ہیں )نے ملک کو اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ بعض سائنسی شعبوں میں آج ہمارا ملک دنیا کا آٹھواں ملک شمار ہوتا ہے؛ بعض دیگر سائنسی میدانوں میں ہمارے ملک کا شمار دنیا کے صف اوّل کے دس ممالک میں ہوتا ہے ؛ یہ بہت بڑی کامیابی ہے ، یہ ہمارے ملک کے عالمی اور علاقائی اعتبار و اقتدار کے لئے بہت اہم مقام ہے ، مختلف ممالک کی نگاہوں میں ، اسلامی جمہوری نظام کووہ اہمیّت و عظمت ، وہ شان و شوکت حاصل ہے کہ ہمارے دشمن بھی اس بات کے اعتراف پر مجبور ہیں کہ عالمی اعتبار سے ہمارا ملک اپنی سطح کے دیگر ممالک کے مقابلے میں ایک ممتاز مقام رکھتا ہے اور ان ممالک میں سے ہے جو عالمی مسائل پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ ہم یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران ، عالمی اور اس خطے کے سیاسی مسائل کے اعتبارسے پہلی پوزیشن پر ہے۔ اسے بعض افراد کی کوتاہ اندیشی ، کم فکری ہی کہیے کہ جب وہ یہ دیکھتے ہیں کہ کسی مستکبرمغربی ملک کا کوئی سربراہ ، کوئی وزیر خارجہ یا کسی بین الاقوامی ادارے کا کوئی اہلکار ، ایران کے بارے میں بد گوئی کرتا ہے ، اس پر الزام تراشی کرتا ہے ، تو وہ اسے اسلامی جمہوری نظام کی بے اعتباری کی دلیل سجمھ بیٹھتے ہیں ؛ یہ سوچ سراسر غلط ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ عصر حاضر میں ، مختلف قوموں اور حکومتوں ، حتّیٰ اس نظام کے دشمنوں کی نگاہ میں بھی ، اسلامی جمہوریہ ایران ، اعتبار و اقتدار کا حامل ہے ؛ ایک مؤثر حکومت ہے ۔ عالمی مسائل پر اسلامی جمہوریہ ایران کی تاثیر روزروشن کی طرح عیاں ہے ؛ اس کی اس اثر اندازی کا موازنہ ہر گزان ممالک سے نہیں کیا جاسکتا جو اقتصادی اور مالی وسائل کے لحاظ سے ایران کے ہم پلّہ ہیں ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایران ، علاقائی سیاسی مسائل میں تاثیر کے اعتبار سے ان ممالک سے بہت آگے ہے جو اقتصادی و مالی وسائل کے اعتبار سے ایران سے بڑھ کر ہیں یا اس کے ہم پلّہ ہیں ۔
یہ اسلامی جمہوریہ ایران کے لئے ایک سنہرا موقع ہے ؛ آج ، اسلامی جمہوریہ ایران کے حکام کے پاس ، عوامی خدمت اور انتظامی امور کا تیس سالہ گرانقدر تجربہ بھی ہے ۔ اس نظام کی راہ میں سفر کو جاری رکھنے ، اور اسلامی جمہوری نظام کے ثبات کی یہ اہمیّت رہی ہے، اور اس نے یہ عظیم اثر چھوڑا ہے کہ عالمی اور علاقائی مسائل کا سامنا کرنے کے لئے ہمارے ملک کے پاس تجربات کا بیش بہا خزانہ موجود ہے ؛ یہ بات اپنے آپ میں ایک سنہرا موقع ہے ، یہ ایک قابل توجّہ بنیادی ڈھانچہ ہے ۔
ملکی ترقّی کی ایک واضح و شفاف تصویر ہمارے سامنے ہے ، اس سے مراد ، ملک کا بیس سالہ ترقّیاتی منصوبہ ہے ۔ یہ ایک انتہائی قیمتی سند ہے ۔ عوامی انتخاب کے ذریعہ ، یکے بعد دیگرے برسر اقتدار آنے والی حکومتیں ، اس تصویر کو اپنے سامنے رکھ کر اپنے اہداف و مقاصد کا تعیّن کرسکتی ہیں ؛ ان میں سے ہر کوئی اس راستے کی کچھ منزلیں طے کرے اور بعد کی منزلوں کو آنے والی حکومت کو سونپ دے ۔ اس بیس سالہ ترقیاتی منصوبے نے اسلامی جمہوری نظام کے لئے ایک انتہائی قیمتی موقع فراہم کیا ہے ۔
یہ نظام ، شوق و نشاط ، عزم و ہمت سے سرشار تعلیم یافتہ جوانوں کی نعمت سے آراستہ ہے ۔ یہ جوان تعلیم یافتہ ہیں، عزم و ہمت سے سرشار ہیں ، مختلف شعبوں میں قسم قسم کے مسائل کے فہم و ادراک میں کوشاں ہیں ، ان میں خود اعتمادی جلوہ گر ہے ۔ ہم یہ بات محسوس کر رہے ہیں کہ ہمارے آج کے جوانوں میں وہ خود اعتمادی پائی جاتی ہے جو ماضی میں نہیں تھی ، دوسری قوموں میں اس کی نظیر کم ہی ملتی ہے ۔جب ہم ان محقق جوانوں کے سامنے مختلف اقتصادی مسائل ، فنّی ، سیاسی ، سماجی اور ان مسائل کو پیش کرتے ہیں جن کے حل کے لئے علم و مہارت ضروری ہوتی ہے ، تو یہ جوان نہایت پر اعتماد لہجے میں جواب دیتے ہیں کہ ہم ان مسائل کو حل کرسکتے ہیں۔ ان میں ناتوانی اور بے بسی کا احساس نہیں پایا جاتا ؛ ان کے اندر ، توانائی کا احساس موجزن ہے ۔ہماری قوم میں اس " خود اعتمادی " کا وجود ایک بہت بڑی نعمت ہے ؛ چونکہ سالہاسال سے مسلسل ہماری قوم کے دل و دماغ میں یہ بات کوٹ کوٹ کر بھری جارہی تھی کہ یہ کام آپ کے بس کا نہیں ہے ۔آپ میں یہ استعداد و لیاقت ہی نہیں پائی جاتی ۔ ہمارے ملک کے وہ سیاستدان ، اور ظالم و جابر حکمران جو اس ملک پر مسلّط تھے ، وہ غالبا اس قوم کے دشمنوں سے ہاتھ ملائے ہوئے تھے ، یہ حکام ، عام طور سے ہمارے ملک، ہماری قوم اور ہمارے جوانوں کو یہ تلقین کر رہے تھے کہ آپ یہ کام نہیں کرسکتے ؛ اپنے آپ کو بلاوجہ زحمت میں نہ ڈالیں ۔ یعنی ہمیں ہاتھ پر ہاتھ دھرے تماشائی بنے بیٹھا رہنا چاہیے ، دوسرے لوگ علمی اور سائنسی میدان میں ریسرچ و تحقیق کریں اور ترقّی کریں ، اور ہم ان کے سامنے ہاتھ پھیلائیں ، ان سے بھیک مانگیں ، ان سے اس ٹیکنالوجی کو حاصل کریں ؛ ہم اپنے طور پر یہ کام نہیں کر سکتے ۔ یہ چیز ہمارے ملک ، ہمارے جوانوں اور ہماری نسل کے ذہنوں میں کوٹ کوٹ کر بھری جاری تھی اور اس قوم کے مسلّمہ عقائد کا حصّہ تھی ۔
ہمارے جوانی کے دور میں یہ چیز بالکل واضح و آشکار تھی ، اور یہ احساس پایا جاتا تھا کہ ایرانی سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں پیشرفت نہیں کر سکتے ، ہمیں اہل مغرب ، یورپ اور امریکہ والوں کا انتظار کرنا چاہیے کہ وہ کوئی سائنسی پیشرفت کریں ، تب ہمیں ان کے پیچھے پیچھے چلنا چاہیے اور ان سے سیکھنا چاہیے ۔ ہماری قوم کے لئے یہ بات ناقابل یقین تھی کہ ہم بھی کوئی راستہ کھول سکتے ہیں ، کسی علمی تحریک کا آغاز کر سکتے ہیں ، زندگی کے اہم میدانوں میں سے کسی میدان کو فتح کر سکتے ہیں ۔ لیکن موجودہ دور میں ، صورت حال اس کے بالکل مختلف ہے ۔ آج کے دور میں کوئی بھی اہم سائنسی شعبہ ایسا نہیں ہے جس کے بارے میں ہمارے جوانوں کے سامنےبات کی جائے اور وہ ان میں ناتوانی و عاجزی کا احساس پایا جاتا ہو ۔ جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ علمی ، سیاسی ، فنّی مسائل میں سے جس بھی مسئلہ کو ہمارے محققّین اور ماہرین ( جن میں سے اکثر جوان ہیں ) کے سامنے پیش کیا جاتا ہے ، جب مختلف امور اور طرح طرح کی پیشرفتوں کی بات آتی ہے تو ایرانی جوان کا احساس توانائی سامنے آتا ہے ۔ یہ خود اعتمادی بہت اہم چیز ہے ۔علمی اور سائنسی مراکز میں پائی جانے والی یہ خود اعتمادی ، قومی خود اعتمادی پر استوار ہے ؛ وہی چیز جس کی طرف میں نے چند سال قبل اشارہ کیا تھا کہ ہماری قوم کو " خود اعتمادی " کے مرحلے تک پہنچنا چاہیے ؛ یعنی ہماری قوم میں یہ احساس بیدار ہونا چاہیے کہ تمام بڑے بڑے سائنسی و علمی پروجیکٹوں کو بلند عزم و ارادے کے ذریعہ عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے۔ ہم کسی بھی کام کو انجام دینے سے عاجز نہیں ہیں ۔ملک میں ترقّی و پیشرفت کے مواقع میسّر ہیں ۔ ہم نے اس سال کو " دو چنداں ہمّت اور دو چنداں محنت " کا سال قرار دیا ہے ؛ یعنی یہ سال بلند ہمّت اور کثرت عمل کا سال ہے ۔ مضاعف (دوچندان ) کی تعبیر کو بعنوان مثال پیش کیا ہے ۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم دگنی ہمت اور محنت پر ہی اکتفا کر لیں ۔ بلکہ تین برابر ، چاربرابر ، دس برابر ۔۔۔جہاں تک ممکن ہو ہمیں ہمّت اور محنت سے کام لینا چاہیے ۔ ایسا نہیں ہے کہ اگر ہم کسی شعبے میں دوبرابر کام نہ کر سکیں تو ہم پر مایوسی و اداسی چھا جائے ؛ سب سے زیادہ اہمیّت اس بات کی ہے کہ ہم ماضی کے مقابلے میں زیادہ ہمّت و محنت سے کام لیں ۔ یہ اس سال کا " شعار " ہے ۔ یہ شعار کوئی نمائشی اور ظاہری دکھاوے کا عمل نہیں ہے ، اور اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم یہ تصوّر کر بیٹھیں کہ یہ شعار ،اس سال ملک کی تمام مشکلات کو حل کر دے گا ؛ یہ شعار ، محض ایک نمائشی اور رسمی کاروائی نہیں ہے ؛ بلکہ یہ شعار اور نعرہ ، ہمارے لئے ایک چراغ راہ ہے جو ہمارے راستے کا تعیّن کرتا ہے ۔
ہم نے گزشتہ برس بھی " درست استعمال کی جانب عملی قدم " کے سال کے سلسلے میں عرض کیا تھا : کہ یہ کام ایک سال کے اندر امکان پذیر نہیں ہے ۔ ہم نے گزشتہ سال کے پہلے ہی دن اس بات کی وضاحت کر دی تھی ۔ ہم نے گزشتہ برس کے بارے میں کہا تھا کہ یہ سال درست استعمال کی جانب عملی اقدام کے سفر کا آغاز ہے ۔ یہ سفر شروع ہو چکا ہے ۔ میں یہ دعویٰ نہیں کرتا کہ گزشتہ سال کے اندر " استعمال اور مصرف کے معیار کی اصلاح ہو گئی ، بلکہ ابھی بھی ہم اس ہدف سے بہت دور ہیں ۔ جب تک پانی ، بجلی ، روٹی اور پیسے کے صارفین کو ان کے درست مصرف و استعمال کا طریقہ کار معلوم نہیں ہوگا یہ مشکلات اپنی حالت پر باقی رہیں گی ۔ ہمیں استعمال کے معیار کی اصلاح کے سفر کو جاری رکھنا چاہیے ۔ سنہ ۸۸ ھ ۔ ش کے سال میں ملکی حکام نے اس سلسلے میں کچھ اقدامات کئے ، انہوں نے اس سلسلے میں منصوبہ بندی کی ، کچھ تحقیقات انجام دیں ۔ لیکن اس کام کو ہر گز متوقّف نہیں ہونا چاہیے ۔ اس شعار نے ہمیں راستہ دکھایا ۔ سنہ ۸۸ ھ ۔ش میں سبھی کو معلوم ہوگیا کہ " مصرف و استعمال کے معیار کی اصلاح " ایک بنیادی اور اساسی مسئلہ ہے جسے جاری رکھنا چاہیے ۔ اس سال بھی یہ سفر جاری رکھئیے ۔ اس سال ہم جو دو چنداں ہمّت پر زور دے رہے ہیں یہ کام فقط اس سال سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اسے راستے کی رہنمائی کرنے والی علامت کے طور پر ہمیں ہمیشہ اپنی نگاہوں کے سامنے رکھنا چاہیے ؛ ہمیں اپنی ہمّت اور حوصلے کو کم نہیں کرنا چاہیے چونکہ ہمارے سامنے بڑے بڑے کام ہیں ، ہمیں بلند و بالا اہداف و مقاصد کو حاصل کرنا ہے ؛ ہمیں ان اہداف و مقاصد کے حصول کے لئے بلند ہمت کا مظاہرہ کرنا ہوگا ۔ ان اہداف و مقاصد کے حصول کے لئے ، دن رات محنت کرنا ہوگی ۔
البتّہ گزشتہ سال ہمارے ملک کے لئے ایک بہت اہم سال تھا ۔ جیسا کہ میں نے اپنے پیغام نوروز میں بھی عرض کیا کہ میری نگاہ میں سنہ ۸۸ ھ ۔ ش ایرانی قوم کا سال تھا ؛ ایرانی قوم کی کامیابی کا سال تھا ؛ ہمارے ملک کے اسلامی نظام کی زندگی کے مختلف میدانوں میں ایرانی قوم کی نمایاں شرکت کا سال تھا ۔ ۲۲ خرداد ( ۱۲ جون سنہ ۲۰۰۹ ) کے دن صدارتی انتخابات میں چالیس ملین یعنی ۸۵ فیصد رائے دہندگان کی شرکت بہت اہم اور غیر معمولی واقعہ تھا ۔ یقینا کسی بھی نظام حکومت کے قانونی ہونے میں عوام کی شراکت کا بہت اہم کردار ہوتا ہے ۔ سرزمین مغرب میں جو لوگ اپنے قانونی جواز کو صرف و صرف عوامی مقبولیت کا مرہون منّت سمجھتے ہیں اور دوسرے کسی بھی عامل کو اس میں دخیل نہیں جانتے ان کے ممالک میں بھی اس درجہ عوامی شراکت نہیں پائی جاتی ۔ ہمارے صدارتی الیکشن کے انعقاد کے قریب قریب برطانیہ میں بھی انتخابات منعقد ہوئے لیکن ان انتخابات میں ووٹ دینے کے اہل افراد میں سے محض تیس فیصدلوگوں نے حصّہ لیا ۔پچاسی فیصد کہاں اور تیس فیصد کہاں ؟!اتنی زیادہ عوامی شراکت کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ دنیا کے سیاسی تجزیہ کار اور مبصّرین ان چیزوں سے آسانی سے چشم پوشی نہیں کرتے ، عین ممکن ہے کہ ان مسائل کو اپنے اخبارات و جرائد میں منعکس نہ کریں ، عین ممکن ہے کہ یہ سیاستدان اپنی سیاسی گفتگو میں اس حقیقت کو زبان پر نہ لائیں اور اس کی پردہ پوشی کریں ؛ لیکن ان کے دل پر اس کے گہرے اثرات مرتّب ہوئے ہیں ، وہ اسے بخوبی جانتے ہیں۔
یہ قوم اپنے موقف پر اٹل ہے ۔ یہ ہماری قوم کا ایک عظیم کارنامہ تھا جسے ہماری قوم نے اس ملک کی تاریخ میں سنہرے حروف میں تحریر کیا کہ اسلامی نظام کے قیام کو تیس برس گزر نے کے باوجود ، یہ قوم اس نظام کے اصول و اساس کی اس قدر پابند ہے کہ اس کے صدارتی الیکشن میں اس جوش و خروش ، اس شان و شوکت سے حصّہ لیتی ہے ۔ یہ نظام دو ستونوں ( جمہوریت و اسلامیت ) پر استوار ہے ان دو ستونوں کو ایک دوسرے سے جد ا نہیں کیا جاسکتا ، وہ لوگ جو ان دو رکنوں کے درمیان جدائی ڈالنا چاہتے ہیں انہوں نے جمہوری اسلامی کو اچھی طرح نہیں پہچانا ۔ یہ ایک عظیم عوامی کارنامہ تھا ۔ اس کے مقابلے میں ایرانی قوم کے دشمنوں نے بھی مختلف نقشے اور سازشیں تیّار کر رکھی تھیں ؛ انہوں نے ان سازشوں کو عملی جامہ پہنانا شروع کر دیا ۔ اگر آپ نے سنہ ۸۸ کی بائیس خرداد (۱۲ جون سنہ ۲۰۰۹ ) کے صدارتی الیکشن میں اس قدر بڑھ چڑھ کر حصّہ نہ لیا ہوتا ، اگر چالیس ملین کے بجائے مثلا تیس ملین افراد نے حصّہ لیا ہوتا تو اس بات کا قوی احتمال تھا کہ دشمن اپنی سازشوں میں کامیاب ہو جاتے۔ انہوں نے الیکشن کے انعقاد سے بہت پہلے سے سازشیں تیّار کررکھی تھیں ۔ میں کسی بھی شخص کو مورد الزام نہیں ٹھہرانا چاہتا ؛ لیکن دشمن کی سازشوں سے بخوبی آگاہ ہوں ، انہیں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں ، انہیں اچھی طرح پہچانتا ہوں ؛ میں ان سے انکار نہیں کر سکتا ۔ ہمارے دشمنوں کے منصوبے بالکل واضح و آشکار تھے ۔ انہوں نے دنیا کے بعض دیگر ممالک میں ان منصوبوں کو جامہ عمل پہنایا ہے ۔ جب عالمی استکباری طاقتیں کسی نظام حکومت سے خفا و ناراض ہوتی ہیں تو اس نظام حکومت کو اپنے راستے سے ہٹانے کے لئے ان کے پاس سب سے بڑا حربہ یہ ہوتا ہے کہ وہ اس ملک میں کسی الیکشن کے انعقاد کی منتظر رہتی ہیں ۔ اگر اس الیکشن میں ان کے منظور نظر افراد کو کامیابی نہ ملے اور ایسے افراد کامیاب ہوں جنہیں وہ پسند نہیں کرتیں تو وہ ایک نمائشی عوامی تحریک کے ذریعہ ، حالات کو بدل دیتی ہیں۔ کچھ نعروں کے ذریعہ عوام کو سڑکوں پر لے آتی ہیں تاکہ ان مظاہروں کے ذریعہ قانونی حکومت پر دباؤ ڈالا جاسکے اور اس سے اپنے ناجائز مطالبات کو منوایا جاسکے ۔ یہ ایک جانا پہچانا نقشہ ہے ۔آپ یہ ملاحظہ کررہے ہیں کہ صدارتی الیکشن کے بعد رونما ہونے والے واقعات کو ، ہمارے عوام ، سچے ومنصف مزاج افراد اور صاحب بصیرت تجزیہ کار، غیر ملکی عناصر سے منسوب کر رہے ہیں تو اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ناقابل تردید حقیقت ہے ۔ اگر کسی شخص کو ان واقعات کے پس پردہ عوامل کے بارے میں کوئی علم نہ ہو ، اسے ان اطلاعات کی بھی کوئی خبر نہ ہو جو صاحبان اطلاعات تک پہنچتی رہتی ہیں، لیکن جب وہ ان واقعات کی ظاہری شکل پر نظر دوڑاتا ہے تو فورا سمجھ جاتا ہے کہ یہ اس قوم کے دشمنوں کا کام ہے ، یہ اغیار کا کام ہے ۔ ایک الیکشن منعقد ہوتا ہے، ایک قانونی عمل انجام پاتا ہے ، کچھ لوگ تشدد اور بلوؤں کے سہارے اس کے نتیجے کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں ۔ عوام کو سڑکوں پر نکلنے کی دعوت دیتے ہیں ، تاکہ اگر ضروری ہوا تو الیکشن کے قانونی نتیجے کو تبدیل کرنے کے لئے تشدد سے کام لیں ، گاڑیوں اور بینکوں کو آگ لگائیں ۔ ان کا یہ عمل شریعت اور قانون دونوں کے منافی ہے ۔ یہ ظاہر ہے کہ ان کی یہ تحریک ، اغیار کی طرف سے تیّار کردہ منصوبہ ہے ۔ وہ ہمارے ملک میں بھی اسی منصوبے پر عمل کرنا چاہتے تھے ۔
یہ واقعہ ہمارے ملک کے لئے ایک اہم امتحان تھا ۔ میں آپ سے عرض کرنا چاہتا ہوں کہ یہ واقعہ ایک انتہائی اہم امتحان تھا ؛ اس میں بہت زیادہ عبرتیں پائی جاتی ہیں ، یہ واقعہ بہت سبق آموز واقعہ تھا ؛ اس امتحان میں ایرانی قوم کامیاب ہوئی ۔ ہمارے دشمن ایرانی قوم کو اقلیّت و اکثریّت میں تقسیم کرنا چاہتے تھے۔ وہ الیکشن میں کامیاب ہونے والے گروہ اور اس میں ناکام ہونے والے گروہ کو ایک دوسرے کے خلاف صف آرا کرنا چاہتے تھے ۔ وہ قوم کی صفوں میں رخنہ اندازی کرنا چاہتے تھے ؛ ان کا ہدف یہ تھا کہ اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ بلوائیوں کو لوگوں کی صفوں میں داخل کیا جائے تاکہ ان بلوؤں کے ذریعہ ملک کو داخلی انتشار و جنگ سے دوچار کیا جاسکے ؛ وہ اس بات کی امّید لگائے بیٹھے تھے ۔ لیکن ایرانی قوم نے اپنی ہوشیاری و بیداری کا ثبوت دیا ۔ آپ نے دیکھا کہ وہی ایرانی قوم جو الیکشن کے دن ، تیرہ ، چودہ ملین اور پچیس ملین کے دو گروہوں میں بٹ چکی تھی ، الیکشن کے انعقاد کے تھوڑے ہی عرصے بعد آپس میں متحد ہو گئی اس نے مل جل کر بلوائیوں اور تخریب کار عناصر کا مقابلہ کیا ۔ اسی چیز سے قوم کی بیداری کو سمجھا جاسکتا ہے ۔ وہ لوگوں کے درمیان شورش بپا کرنا چاہتے تھے ۔ اس انقلاب کے بد خواہ اور دشمن عناصر نے گزشتہ تیس برس میں اس نقلاب اور اس قوم کی مخالفت اور عداوت میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی ، ان سے جو بھی بن پڑا انہوں نے اسے انجام دیا ، انہوں نے ہر موقع کو غنیمت سمجھا اور اپنے جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعہ میدان میں کود پڑے ۔ وہ اس سے زیادہ کر بھی کیا سکتے تھے ۔ اگر امریکہ ، برطانیہ اور اسرائیل اپنے افراد کو تہران کی سڑکوں پر اتارنے پر قادر ہوتے تو یقین جانئے کہ وہ ایسا کرنے سے ہرگز گریز نہ کرتے ۔ اگر وہ اپنے بیرونی زر خرید عناصر کے ذریعہ اس شورش کو اپنے من پسند مقاصد و اہداف تک پہنچانے پر قادر ہوتے تو وہ ایسا ضرور کرتے لیکن انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ اس کام سے خود انہیں ہی نقصان پہنچے گا ۔ وہ صرف اتنا ہی کر سکتے تھے کہ اپنی پروپیگنڈہ مشینری میں ، اور عالمی سیاست کے میدان میں ان بلوؤں اور بلوائیوں کی حمایت کریں ، ایسے بلوائیوں کی حمایت کریں جو مسلح انداز میں ،تخریب کاری اور آتش زدگی کی وارداتوں کے ذریعہ اپنے وجود کو پہچنوا رہے تھے ، انہوں نے ان شر پسند عناصر کو ایرانی قوم کا نام دیا ؛ تاکہ عالمی رائے عامہ کو اپنے اہداف و مقاصد کے حصو ل کی خاطر گمراہ کر سکیں ؛ لیکن انہیں اس مقصد میں بھی شکست ہوئی ۔
ایرانی قوم نے ۹ دی (تیس دسمبر ۲۰۰۹ ) اور بائیس بہمن ( گیارہ فروری ۲۰۱۰ ) کے دن ، اپنے دشمنوں پر سب سے کاری اور آخری وار کیا ۔ بائیس بہمن اور ۹ دی کے دن ایرانی قوم نے ایک عظیم کارنامہ انجام دیا ۔ ان ریلیوں سے ایرانی قوم کا اتحاد سب پر عیاں ہوگیا ۔ وہ سبھی لوگ جنہوں نے سیاسی میدان میں جس کسی بھی امّیداوار کو ووٹ دیا تھا ، جب انہوں نے دیکھا کہ دشمن میدان میں موجود ہے ، جب انہوں نے دشمن کے ناپاک عزائم کو دیکھا ،تو اس سے پہلے وہ جن افراد کے بارے میں خوش فہمی میں مبتلا تھے ان کے تئیں اپنے رویّے کے بارے میں نظر ثانی کی ؛ انہوں نے انقلاب کے راستے کو اچھی طرح سمجھ لیا ؛ انہوں نے راہ راست کو پہچان لیا۔ بائیس بہمن کے دن ، پوری قوم ایک ہی نعرے کے ساتھ میدان میں وارد ہوئی ۔ ہمارے دشمنوں نے ایرانی قوم کے اتّحاد میں رخنہ اندازی کی سر توڑ کوشش کی لیکن انہیں منہ کی کھانا پڑی ۔ ایرانی قوم نے ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا، یہ اس قوم کی بہت بڑی کامیابی تھی ۔ ۲۲ خرداد سے بائیس بہمن تک کا یہ آٹھ ماہہ عرصہ ایرانی قوم کے لئے باعث فخر اور عبرتناک باب ہے ؛ یہ عرصہ ایک سبق آموز عرصہ قرار پایا ، ایک نئی آگاہی پیدا ہوئی ، ایرانی قوم کی بصیرت میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا ۔ اس واقعہ نے بھی ہمارے لئے ایک سنہرا موقع فراہم کیا ہے ، ہمیں اسی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہیے ۔
اب ، بلند ہمّت اور سعی پیہم ، دگنی ہمّت اور دگنی محنت کو اس بنیاد پر انجام پانا چاہیے ۔ اس کے مختلف میدان ہیں ۔ ایسا نہ ہو کہ وقت ہاتھ سے نکل جائے ۔ انقلاب کے بعد کا ہر سال ، ہر مہینہ ، ہر دن ، ہر لمحہ انتہائی قیمتی ہے اسے ہاتھ سے نہ جانے دیجئیے ۔ممکن ہے کہ سنہ ۸۸ کی ان فتنہ پروریوں نے بعض ذہنوں کو اپنی طرف متوجّہ کیا ہو جس کی وجہ سے کچھ کام ادھورے رہ گئے ہوں ؛ ان کو پایہ تکمیل تک پہنچائیے ۔ برق رفتاری سے کام لیجئیے ۔ اوّلین ترجیح ، علم و تحقیق کو حاصل ہے ، ہماری یونیورسٹیوں اور ریسرچ سینٹروں کو سائنس اور انسانی علوم اور ملک کی ضرورت کے دیگر تمام شعبوں میں ریسرچ و تحقیق کے لئے اپنی ہمّت کو بلند رکھنا چاہیے ؛ ان کی نگاہیں بلند و بالا اہداف و مقاصد پر مرکوز ہونا چاہیے ؛ انہیں لگاتار کوشش کرنا چاہیے ۔
میں نے عرض کیا کہ ہمارے جوانوں کا عزم و ارادہ یہ ہو کہ دو، ایک عشرے گزرنے کے بعد وہ اپنے ملک کو ، دنیا کے سائنسدانوں اور دانشوروں کے لئے ایک " مرجع " ملک میں تبدیل کر دیں ۔ علم و تحقیق نیز ملکی وسائل سے بہترین استفادے کے میدان میں ، دگنی ہمّت اور محنت کا مطلب یہی ہے ۔ ہر اس چیز سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کیا جائے جو ملک کے مستقبل کی تعمیر اور عام لوگوں کی ضروریات زندگی کی فراہمی میں مؤثر ثابت ہو سکتی ہے ؛ اس کا ایک رکن ، مصرف کے معیار کی اصلاح ہے ۔ ملک میں پانی کا درست مصرف ہونا چاہیے ۔ آج ہم پانی کا درست استعمال نہیں کر رہے ہیں ۔ گزشتہ برس جب ہم نے درست استعمال کے معیار کا مسئلہ اٹھایا تو ہمارے ملک کے محققّین نے تحقیق کی اور ہمیں اس سے باخبر کیا کہ اگر ملک میں استعمال ہونے والے پانی میں دس فیصد بچت کی جائے تو یہ دس فیصد اس تمام پانی کے برابر ہے جو آج صنعتی میدان ، اور پینے کے لئے استعمال ہو رہا ہے ۔ موجودہ دور میں نوّے فیصد پانی زراعت کے میدان میں خرچ ہو رہا ہے جو ایک اسراف آمیز اور غلط مصرف ہے ، صرف دس فیصد پانی ، گھریلو اور دیگر صنعتی مصارف میں استعمال ہو رہا ہے ۔ اگر ہم زراعت اور کھیتی باڑی میں خرچ ہونے والے پانی کے دس فیصد کی بچت کریں ، تو پینے اور دیگر صنعتی امور میں استعمال ہونے والے پانی کے ذخائر میں دگنا اضافہ ہو سکتا ہے ؛ یہ مسئلہ اس قدر اہم ہے ، بجلی اور گیس کے مصرف کا مسئلہ بھی بہت اہم ہے ۔ انہیں مسائل کی بنیادپر ، حکومت کے مالی تعاون (سبسڈی ) کو بامقصد بنانے کا منصوبہ پیش کیا گیا ہے ، یہ منصوبہ انتہائی اہمیّت کا حامل ہے ۔
میں اس مقام پر اپنے عزیز عوام ، حکومت اور پارلیمنٹ سے یہ گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ اس اہم مسئلہ میں باہمی تعاون سے کام لیں ؛ ایک دوسرے کی مدد کریں ۔ اس مسئلہ کا ایک پہلو حکومت سے مربوط ہے ، حکومت کا کام اقدام ، نفاذاور اجراء ہے ؛ دیگر ملکی اداروں منجملہ قانون ساز ادارے کو بھی اس سلسلے میں حکومت کا ہر ممکن تعاون کرنا چاہیے ۔ حکومت کو چاہیے کہ جو چیز اپنے قانونی مراحل کو طے کر چکی ہے اسے معتبر سمجھے اور اس کے مطابق عمل کرے ۔ لہٰذا اس سلسلے میں حکومت اور پارلیمنٹ کو ایک دوسرے کے دوش بدوش چلنا چاہیے ، ایک دوسرے کے ساتھ اتحاد و تعاون کا مظاہرہ کرنا چاہیے ، " ید اللہ مع الجماعۃ " ۔ اگر یہ دونوں ادارے ، اتحاد کا مظاہرہ کریں گے تو خداوندعالم بھی ان کی مدد کرے گا ۔ لہٰذا ملکی وسائل سے بہترین استفادہ اور ان میں کفایت شعاری بہت اہم ہے ؛ ہم جس کفایت شعاری کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس سے کہیں زیادہ کفایت شعاری سے کام لینا چاہیے ، صد افسوس کہ ہمارے بہت سے ملکی وسائل اسراف وفضول خرچی کی نذر ہورہے ہیں ۔
ہمیں داخلی مصنوعات کی کیفیت کو بہتر بنانے میں ، دگنی ہمّت و محنت سے کام لینا چاہیے ، یہ ایک بنیادی اور اساسی کام ہے ۔ آج زراعت اور صنعت کے میدان میں ہماری داخلی مصنوعات کی تعداد کافی زیادہ ہے ، ہمیں ان مصنوعات کی کیفیت کو اہمیت دینا چاہیے ، ان کی کیفیت کو بہتر بنایئے ۔ان کی کوالٹی اس درجہ بہتر کیجئیے کہ ہمارے صارفین کو یہ احساس ہو کہ ان کے ملک میں تیّار ہونی والے مصنوعات ،کیفیت کے اعتبار سے بیرون ملک سے درآمد کی جانے والی مصنوعات سے یا تو بہتر ہیں یا کم از کم ان کے برابر ہیں ۔
صحت و سلامتی کے میدان میں بھی دگنی ہمّت و محنت لازم ہے ۔ پانچویں ترقّیاتی منصوبے میں اس مسئلہ پر خصوصی توجّہ دی جائے ، مختلف اداروں کے مختلف شعبوں میں اس امر کو اہمیت دی جائے ۔ حفظان صحت سے متعلّق ایک اہم مسئلہ " ورزش کو عام " کرنے کا مسئلہ ہے ؛ میں نے بارہا اس کی سفارش کی ہے ، ایک بار پھر اس کی سفارش کر رہا ہوں کہ ورزش سبھی کے لئے لازم و ضروری ہے ۔ نشاط ، سلامتی ، کام کرنے کا حوصلہ ، یہ سبھی چیزیں ورزش کے زیر سایہ پروان چڑھتی ہیں ۔ سرمایہ کاری اور روزگار کی فراہمی کے میدان میں بھی عزم و عمل کی ضرورت ہے۔ بہت سے ایسے افراد جو سرمایہ دار ہیں ، ثروتمند ہیں، جن کی آمدنی بہت زیادہ ہے ، بسا اوقات انہیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ اس سرمائے کو کہاں لگائیں ۔ یہاں دوبارہ وہی مصرف و استعمال کی اصلاح کا مسئلہ سامنے آتا ہے ، یہ لوگ اس پیسے کو مفید سرمایہ کاری کے بجائے زندگی کی زرق برق اور رعنائیوں میں خرچ کرتے ہیں ۔وہ اپنی دولت کو بیھودہ اور لاحاصل بیرونی سفروں میں لٹاتے ہیں یہ سفر عام طور پر گناہ و معصیت کا باعث بنتے ہیں، وہ اپنے سرمائے کوگھریلو اور روز مرّہ کے استعمال کی چیزوں کو بدلنے میں خرچ کرتے ہیں ، ان کا یہ اقدام ان کی دولت کے تئیں فضول خرچی شمار ہوتا ہے ۔ حالانکہ اسی پیسے اور آمدنی کو سرمایہ کاری میں لگایا جاسکتا ہے ۔ عصر حاضر میں اس کے بہت سے مواقع فراہم ہیں۔ ملک میں ،متعدّد اسٹاک ایکسچینج (Stock exchange) فعّال ہیں ، ان میں سرمایہ کاری کی جاسکتی ہے ۔ سبھی لوگ ان میں سرمایہ کاری کر سکتے ہیں۔
ایک اہم مسئلہ جس کے لئے دگنی ہمّت و محنت درکار ہے " جدید فکر اور نئے نظریات کی تولید"کا مسئلہ ہے ؛ مطالعے اور مختلف شعبوں میں معلومات عامہ میں اضافے کا مسئلہ ہے ۔ہم نے یونیورسٹی اور حوزہ علمیہ میں آزاد ی خیال و فکر کی کرسیوں کی تشکیل کی جو تجویز پیش کی ہے یہ عمل ہمارے معاشرے میں ایک انتہائی اہم فکری انقلاب لا سکتا ہے ۔ اس سے بڑھ کر ، مالی بدعنوانیوں ، فقر و فساد اور ناانصافی سے پیکار میں دگنی ہمت و محنت کا مسئلہ ہے ۔ یہ وہ مسائل ہیں جو ہمارے سامنے ہیں ۔ ان کو حل کرنے کے لئے ، ہماری قوم ، حکومت اور ملکی حکام کو مل جل کر کوشش کرنا چاہیے ۔ البتہ ہمیں مختلف چیلینجوں کا سامنا ہے ، ہمارے سامنے بہت سی مشکلات اور رکاوٹیں ہیں ۔ ہم کوئی ایسی قوم نہیں ہیں جس کا دنیا میں کوئی دشمن نہ ہو ۔صرف اسی قوم کا کوئی دشمن نہیں ہوا کرتا جس کی کوئی حیثیّت و اعتبار نہ ہو ۔ وہ قوم جو کسی ہدف و مقصد کی راہ میں کوشاں ہو ، جی جان سے اس ہدف کی راہ میں مصروف عمل ہو ، ایسی قوم کے دشمن بھی ہوتے ہیں ۔ البتّہ دشمنوں میں واضح فرق ہے ، امریکی حکومت کے دشمن بھی دنیا میں کم نہیں ہیں ؛ لیکن سوال یہ ہے کہ امریکی حکومت کے دشمن کون ہیں ؟ مختلف قومیں امریکی حکومت کی دشمن ہیں ۔ یہ اقوام عالم ہیں جو امریکہ سے متنفّر ہیں ، اس سے بیزار ہیں ، انہیں امریکہ برالگتا ہے ۔ آخر ایسا کیوں ہے ؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ پچاس ، ساٹھ برس سے لیکر آج تک ، مختلف ممالک پر چڑھائی اور غاصبانہ تسلط امریکی حکومت کے کارنامے میں درج ہے ۔گزشتہ پچاس برس کے عرصے میں امریکہ نے تقریبا ساٹھ ممالک پرفوجی حملہ کیا ہے ؛ کیا یہ کوئی مذاق ہے ؟ کیا یہ کوئی معمولی بات ہے ؟ پس امریکہ کے بھی دشمن پائے جاتے ہیں اور اسلامی جمہوریہ ایران کے بھی دشمن موجود ہیں ۔ اسلامی جمہوری نظام کے دشمن کون لوگ ہیں ؟ استکباری حکومتیں، سرمایہ دار صیہونی لابی ، انسانیّت کے دشمن ، سفّا ک و خونخوار ، بدنام زمانہ خفیہ ایجنسیاں ، اس اسلامی نظام کی دشمن ہیں ۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے دشمن گھات لگائے بیٹھے ہیں ؛ اور ہر روز نت نئی سازشوں میں مشغول ہیں ، ہماری قوم اور ملکی حکام کو ہوشیار و بیدار رہنا چاہیے ؛ ان عداوتوں کا صحیح اندازہ لگائیں اور ان کے مقابلے کے لئے تدبیر و شجاعت سے کام لیں ۔ تدبیر و شجاعت دونوں ہی ضروری ہیں ۔ اگر شجاعت نہ پائی جاتی ہو تو استکباری حکومتوں کی ہیبت ، شان و شوکت اور ان کی دھمکیوں کے سامنے اگر کسی شخص پر لرزہ طاری ہوجائے تو یقینا ایسا شخص شکست خوردہ ہے ۔ ڈانٹ ڈپٹ ، دھمکی ، ترش روئی اور حق کو ناحق کرنا ان اسکتباری حکومتوں کے حربے ہیں ۔ اگر ان معاندانہ نمائشی حرکتوں کامقابلہ کرنے کے لئے ہمارے ملک کے حکام میں شجاعت نہ پائی جاتی ہو تو یقینا انہیں ہزیمت اٹھانا پڑے گی ، خود بھی شکست کھائیں گے اور قوم کو بھی شکست سے دوچار کریں گے ۔ لہٰذاشجاعت بہت ضروری ہے ۔
تدبیر بھی لازم ہے ۔ تدبیر کا مطلب یہ ہے کہ ہمیں دشمن کے منصوبوں کا علم ہو اور ہم ان کے مقابلے کے لئے صحیح اور بجا فیصلہ کر سکیں ۔ دشمن مختلف شکلوں اور صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے ۔ آج آپ ملاحظہ کر رہے ہیں کہ ایرانی قوم اور اسلامی نظام کے مقابلے میں امریکی حکومت ا و ر اسرائیل صف آراء ہیں ؛ کبھی تو یہ بھیڑئیے کے لباس میں نظر آتے ہیں اور کبھی لومڑ ی کا لباس زیب تن کرتے ہیں؛ کبھی ترش روئی اور خصومت سے کام لیتے ہیں اور کبھی اپنا پر فریب چہرا ظاہر کرتے ہیں ؛ ہمیں اس سلسلے میں ہوشیار رہنا چاہیے ۔ میں نے گزشتہ برس ، سال کے پہلے دن آپ کے عظیم اجتماع میں یہ بات کہی تھی ، کہ ہم امریکی صدر کی دوستی کی تجویز کا بغور جائزہ لیں گے ۔ ہم یہ دیکھیں گے کہ کیا یہ حقیقت میں دوستی کا ہاتھ ہے ؟ کیا یہ تجویز سچی نیت پر مبنی ہے یا محض ایک ظاہری دکھاوا ہے ؟ یہ چیز ہمارے لئے بہت اہم ہے ۔ میں نے گزشتہ برس اس بات کی وضاحت کی تھی کہ اگر ان ریشمی دستانوں کے نیچے فولادی و آہنی پنچے ہوں تو ہم ان کی طرف دوستی کا ہاتھ ہرگز نہیں بڑھائیں گے ؛ ہمیں ایسی دوستی قبول نہیں ہے ۔ اگر ظاہری مسکراہٹ کے پیچھے وہ اپنی پشت پر خنجر چھپائے ہوئے ہوں تو یہ جان لیں کہ ہم پوری طرح چوکنّا ہیں ۔ افسوس ! وہی چیز رونما ہوئی جس کا ہم نے خدشہ ظاہر کیا تھا۔امریکی حکومت اور اس کی جدید تشکیلات ، نئے صدر نےایران کے ساتھ ، عادلانہ اور درست روابط کی برقراری کی خواہش ظاہر کی ، انہوں نے ہمیں خط لکھا ، پیغام بھیجا اور کھلے عام اس خواہش کا اظہار کیا کہ ہم ایران کے ساتھ اپنے تعلّقات کو معمول پر لانا چاہتے ہیں۔ لیکن صد افسوس! کہ ان دعوؤں کے باوجود انہوں نے عملی میدان میں اس کے برخلاف عمل کیا ۔ صدارتی الیکشن کے بعد رونما ہونے والے واقعات میں انہوں نے بدترین مؤقف اختیار کیا ۔ امریکی صدر نے ان بلوائیوں اور سڑکوں پر توڑ پھوڑ کرنے والے شر پسند عناصر کو " مدنی تحریک " کے طور پر متعارف کرایا! کیا گاڑیوں کو آگ لگانا، بے گناہ راہگیروں کی مار پٹائی ، حجاب کی بنا پر شہید کی ماں ، بہن کی مار پٹائی ، داڑھی رکھنے والے جوان کے موٹر سیکل کو آگ لگانا ، یہ کہاں کی " مدنی تحریک " ہے ؟!تم انسانی حقوق کی حمایت کا دعویٰ کرتے ہو، تم جمہوریت کی حمایت کا دم بھرتےہولیکن اس کے باوجود ، الیکشن میں عوام کی اس بڑے پیمانے پر شراکت کو نظر انداز کر رہے ہو ، عوام کی موجودگی سے چشم پوشی کر رہے ہو لیکن چند انگشت شمار شر پسند عناصر کی حمایت پر کمر کسے ہوئے ہو ؟! اس کو " مدنی تحریک کا نام دیتے ہو؟! تم کو شرم نہیں آتی ؟!تم یہ بے بنیاد دعویٰ کرتے ہو کہ ہم انسانی حقوق کے حامی ہیں ان کے تئیں احساس ذمّہ داری کرتے ہیں ! تم انسانی حقوق کے بارے میں کسی سے بھی بحث کرنے کے اہل نہیں ہو ۔ تم نے ان چند برسوں میں اپنے کس اقدام میں ماضی کے مقابلے میں اپنے رویّے کو بدلا ہے ؟ کیا تم نے سرزمین افغانستان میں اپنی خونریزی و بربریّت میں کمی کی ہے ؟ کیا تم نے عراق کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کردی ہے ؟ کیا تم نے سرزمین غزہ کے بچّوں اور عام لوگوں کے بہیمانہ قتل کی حمایت نہیں کی جو اب انسانی حقوق کی طرفداری کی بات کر رہے ہو؟
میں آج ایک بار پھر اس عزم کا اعادہ کرنا چاہتا ہوں کہ وہ حکومتیں جو اپنی استکباری خصلت اور رویّے کے ساتھ ایرانی قوم اور اس ملک کے حکام کے ساتھ پیش آنا چاہتی ہیں تو یہ بات کان کھول کر اچھی طرح سن لیں کہ ایسی حکومتیں ، ایرانی قوم اور اس کے حکام کی نگاہ میں مردود ومذموم ہیں ۔ تم ایک طرف تو صلح و دوستی کی بات کر رہے ہو لیکن اندر ہی اندر ، سازشوں اور فتنہ پروری میں مشغول ہو ؛ اور اپنے خیال خام میں اسلامی جمہوری نظام کو نقصان پہنچانا چاہتے ہو ۔ تم صلح و دوستی کا دم کیسے بھر سکتے ہو۔
ہماری قوم بیدار ہے ۔ ملک کے حکام بھی بیدار ہیں ۔ تدبیر کا مطلب یہ ہے کہ ہم دشمن کی معاندانہ پالیسیوں پر نظر رکھیں ، اور یہ دیکھیں کہ وہ کیا کھیل کھیلنا چاہتا ہے ، خواہ وہ بھیڑیے کا لباس پہن کر آئے یا لومڑی کا ، ایرانی قوم کی نظر سے اس کا کو ئی بھی قدم پوشیدہ نہ رہے ۔ایرانی قوم کو نہایت ہوشیاری سے فیصلہ کرنا چاہیے ، ہم بھی توفیق الٰہی کے زیر سایہ انتہائی ہوشیاری سے فیصلہ کرتے ہیں ۔ ہم دشمن کی گیدڑ بھبکیوں سے ہرگز مرعوب نہیں ہوں گے ۔ اس قوم کی ترقّی و پیشرفت کے لئے جو بھی اقدام ضروری ہوا ہم اسے اٹھائیں گے اور ہمیں یقین و اطمینان ہے کہ آئندہ بھی کامیابی اس قوم کے قدم چومےگی ؛ جیساکہ گزشتہ تیس برسوں میں یہ قوم ہمیشہ ہی سرفراز اور کامیاب رہی ہے۔ ایرانی قوم کے دشمنوں نے گزشتہ تیس برسوں میں اس قوم کے خلاف نت نئی سازشیں کیں لیکن انہیں ان میں ناکامی ہوئی ، اور وہ اسلامی نظام پر کو ئی ضرب نہیں لگا سکے ؛ وہ عوام کو اس نظام سے الگ کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ۔ اس کے بعد بھی وہ اپنے اس ناجائز مقصد میں کامیاب نہیں ہوں گے ۔ اس کے بعد بھی پروردگار عالم کی عنایت اور لطف وکرم کے زیر سایہ ، ترقّی اور کامیابی اس قوم کا مقدّر بنے گی ، اس قوم کے دشمنوں کا مقدر ، شکست و ہزیمت ہی ہے ۔
اے اللہ! ہمیں صراط مستقیم ،قرآن ، اور دین مقدس اسلام پر ایمان کے ہمراہ ثابت قدم رکھ ۔ خدایا! ہمارے دلوں کو اپنی بارگاہ میں خضوع و خشوع اور گریہ و زاری سے غافل نہ فرما ۔ اے خدا !ہمیں امام زمانہ (عج) کی دعا سے محروم نہ فرما ۔خدایا!اس قوم، ان جوانوں ، ان شوق و نشاط سے لبریز دلوں کو ہمیشہ ہی اپنے لطف و کرم سے نواز ۔ خدایا!اس قوم اور دیگر مسلمان قوموں کے اتحاد اور بھائی چارے میں روز افزوں اضافہ فرما ؛ دشمنوں کی سازشوں کو ناکام فرما ۔
والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) سورہ فتح : آیت نمبر ۸ ، ۹
(۲)سورہ احزاب : آیت نمبر ۴۵ ،۴۶
(۳) سورہ مائدہ : آیت نمبر ۶۶
(۴) سورہ مائدہ : آیت نمبر ۱۵ ، ۱۶