ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم انقلاب اسلامی

ایران کے خلاف فوجی جارحیت کی صورت میں ایرانی قوم کی دفاعی کارروائی علاقائی حدود تک محدود نہیں رہےگی

رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج سہ پہر کو اعلی سول اور فوجی حکام اور اہلکاروں سے ملاقات میں داخلی اور خارجی اہم مسائل میں اسلامی جمہوریہ ایران کی پالیسیوں کی تشریح کی اور رمضان المبارک کے مہینے کو سیاسی اور سماجی پہلوؤں پر توجہ ،خلوص، طہارت  ، پاکیزگی اور توبہ و انابہ کا اہم مہینہ قراردیا اور باہمی ہمدردی و اتحاد کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: حکام کے درمیان اتحاد و یکجہتی ایک اہم فریضہ اور سنگین ذمہ داری ہے جان بوجھ کر اتحاد و یکجہتی کو پارہ پارہ کرنا غیر شرعی عمل ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ماہ رمضان المبارک کو تضرع و زاری ، توبہ و انابہ ، اللہ تعالی کے حکم کے سامنے دل و جاں سے تسلیم ہونے، طہارت و پاکیزگي ، آلودگیوں سے دور اور پاک و صاف رہنے کا مہینہ قراردیتے ہوئے فرمایا: رمضان المبارک ہر سال کی طرح، شب و روز میں نمازیں ادا کرنے، بیدار رہنے اور اللہ تعالی کے ساتھ راز و نیاز کرنے اور دل و جاں میں نورانیت و درخشندگی  پیدا کرنے کے لحاظ سے ایک اہم اور بے نظیر موقع ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے  رمضان المبارک کی خصوصیات میں توبہ و انابہ کو  ایک اہم خصوصیت قراردیا اور اس سلسلے میں اعلی حکام اور اہلکاروں کی سنگین ذمہ داری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اللہ تعالی کی بارگاہ میں توبہ و انابہ نیز غلط راستے پلٹنے اور غلط فکر و نظر سے باز گشت کے لئے ضروری ہے کہ انسان سب سے پہلے غلطیوں، غفلتوں اور خطاؤں کو اچھی طرح پہچان لے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انفرادی اور اجتماعی تمام شعبوں میں توبہ اور باز گشت کے دائرے کو بہت بڑا اور وسیع قراردیتے ہوئے فررمایا: وہ تمام افراد جو معاشرے کے مختلف میدانوں میں کسی نہ کسی وجہ سے  اثر و رسوخ رکھتے ہیں انھیں چاہیے کہ وہ اپنی رفتار اور گفتار اور اپنے زیر نظر اہلکاروں ، اداروں کی رفتار اور عمل پر اچھی طرح نظر رکھیں کیونکہ اگر زیر نظر اہلکاروں اور اداروں کی خطائیں اور غلطیاں متعلقہ افسر کی رفتار و گفتار کی روشنی میں ہوں تو یہ غلطیاں اس افسر اور ا س ذمہ دار فرد کے نامہ اعمال میں درج ہونگی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے  توبہ اور عمل و فکر کی تصحیح کا اصلی مقصد و ہدف ،تقوی الہی قراردیتے ہوئے فرمایا: تقوی کا انفرادی پہلو یہ ہے کہ انسان محرمات کو ترک کرے اور واجبات کو انجام دے لیکن تقوی کے اس سے اہم پہلو بھی ہیں جن کے بارے میں اکثر غفلت کی جاتی ہے۔۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے صحیفہ سجادیہ کی دعائے شریفہ مکارم الاخلاق کی روشنی میں عدل و انصاف کے فروغ ، غیظ و غضب اور غصہ پر کنٹرول ، اصلاح ذات البین ، اتحاد و یکجہتی اور معاشرے میں پائے جانے والے بحران کو ختم کرنے کے سلسلے میں کوشش، ایکدوسرے سے کسی وجہ سے دور  ہوجانے والےمؤمن بھائیوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے کے سلسلےمیں تلاش و کوشش جیسے امور کو تقوی کے اہم امور قراردیتے ہوئے فرمایا: آج ہمارے سیاسی مسائل بھی اسی قسم کے ہیں۔۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تمام شعبوں اور حصوں میں عدل و انصاف کے فروغ کو تقوی کا سب سے اعلی اور اہم پہلو قراردیتے ہوئے فرومایا:  اجرائی، قضائی اور اجتماعی شعبوں میں عدل وانصاف، وسائل اور مواقع کی تقسیم میں عدل و انصاف، افراد کے انتخاب میں عدل و انصاف ، حقیقی معنی و مفہوم میں عدل وانصاف کے مصادیق ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے  عمل و فکر کو منحرف کرنے والے غصہ اور غیظ و غضب کو قابو میں رکھنے کو تقوی کا ایک اور پہلو قراردیا اور اختلاف پھیلانے کی کوششوں کا مقابلہ کرنے کی اہمیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: کچھ لوگ سیاسی گروہوں اور ان سے وابستہ افراد کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے اور تفرقہ پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں اور دشمن کی ان حرکتوں کا مقابلہ الہی تقوی کے روشن اور بارز مصادیق میں شامل ہے۔۔

 

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے  ایک بار پھر زیادہ سے زیادہ افراد کو جذب کرنے اور کم سے کم افراد کو دور کرنے کی پالیسی کو بنیادی اور اصولی پالیسی قراردیتے ہوئے فرمایا: انقلاب اسلامی کےگرانقدر و گراں سنگ اصول و اقدار اس پالیسی کا اصلی معیار اور میزان ہیں لیکن اس بات کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے کہ ہر شخص اور ہر انسان کے ایمانی درجات مختلف اور متفاوت ہیں ،جو لوگ اس مجموعہ کا حصہ اور جزو تھے اور وہ کسی غلطی اور اشتباہ کی بنا پر الگ تھلگ اور دور ہوگئے ہیں انھیں پند و نصیحت کے ذریعہ واپس لانا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے روزہ کو ایک اجتماعی عمل قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر تمام لوگ جو رمضان المبارک کے پربرکت دسترخوان پر جمع ہوئے ہیں یعنی ایرانی قوم اور تمام مسلمان قومیں جو رمضان المبارک کے دسترخوان پر اس وقت جمع ہیں انھیں توبہ اور انابہ اور اللہ تعالی کی طرف باز گشت کے لئے اس غنیمت موقع سے بھر پور استفادہ کرنا چاہیے، کیونکہ یقینی طور پر اس ماہ کی برکت کے نتیجہ میں ملک کے اندرونی مسائل حل ہوجائیں گےاور امت اسلامی کو درپیش مشکلات بھی برطرف ہوجائیں گی۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے دوسرے حصہ میں  اندرونی اور بیرونی مسائل کے صحیح اور درست تجزیہ و تحلیل کے لئے ایرانی قوم اور سامراجی محاذ کے درمیان موجود حقائق پر توجہ کو اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: اس محاذ آرائی کے 32 سالہ دور پر غور و فکر کرنے کے بعد صاف طور پر واضح ہوجائے گا کہ ایرانی عوام اور اسلامی جمہوریہ ایران حضرت امام (رہ) اور انقلاب اسلامی کے اہداف اور اصولوں پر ہی گامزن رہے ہیں لیکن ا؛رانی عوام کےمد مقابل اور دشمن محاذ کے اندر اس عرصہ میں کئی بنیادی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی عوام کے دشمنوں کے محاذ میں ضعف و کمزوری اور اسلامی جمہوریہ ایران کی برق رفتاری سے پیشرفت کو دوسری قابل توجہ حقیقت قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کے مد مقابل محاذ اگر چہ اپنے آپ کو جھوٹ اور غلط پروپیگنڈہ کے ذریعہ عالمی برادری قراردیتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ دشمن محاذ میں صرف امریکہ اور اسرائیل ہی اصلی محور ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس حقیقت کی وضاحت کے سلسلے میں اصلی مخالفت اور سطحی مخالفت کے دو مفاہیم کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اسلامی جمہوریہ ایران کے ساتھ اسرائيل اور امریکہ کی مخالفت در حقیقت اصلی اور حقیقی مخالفت ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں مزید فرمایا:  اصلی اور حقیقی مخالفت در حقیقت کسی کے وجود کی مخالفت ہے لہذا جس طرح ہم اسرائيل کی حکومت کو غاصب ، جعلی اور اس کے نابود ہونے پر یقین رکھتے ہیں اسی طرح اسرائیل بھی اسلامی جمہوری نظام کے وجود کا مخالف ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ اور ایران کے درمیان اصلی اور حقیقی مخالفت کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا: ہمارے بارے میں امریکہ کا نقطہ نظر یہ ہے کہ وہ اسلامی جمہوریہ ایران کی رفتار کو تبدیل کرنے کی تلاش و کوشش میں ہے اور اس سلسلے میں امریکیوں کی تمام باتوں کے پیش نظر ان کا نقطہ نظر، اسلامی نظام کے وجود کے خلاف ہے امریکہ اسلامی نظام کا مخالف ہے ہم بھی امریکہ کی سامراجی طاقت  کے خلاف ہیں اور اس کو مردود اور ملعون سمجھتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایرانی عوام کے مخالف محاذ کے ضعف و کمزوری کی تشریح اور عالمی سطح پر امریکہ اور اسرائیل کو عوامی حمایت نہ ملنے کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: عراق، فلسطین اور افغانستان میں حالیہ امریکی اور اسرائیلی فوجی کارروائیوں کی وجہ سے عالمی سطح پر لوگوں کے دلوں میں امریکہ اور اسرائیل کے بارے میں شدید نفرت پائی جاتی ہے امریکہ اور اسرائیل کو سنگین اقتصادی بحران کا سامنا ہے مشرق وسطی، شام ، لبنان اور فلسطین کے بارے میں امریکی پالیسیوں کی ناکامی، اسرائیلی اور امریکی حکام کے اندر خود اعتمادی کا فقدان اور عراق و افغانستان سے انخلاء یا عدم انخلاء کے بارے میں امریکیوں کی ناتوانی ایسے واضح علائم اور شواہد ہیں جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایران کے مخالف محاذ میں تزلزل اور کمزوری پیدا ہوگئی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مختلف علمی اورسائنس و ٹیکنالوجی کے شعبوں میں اسلامی جمہوریہ ایران کی ترقی اور پیشرفت کے دلائل کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی عوام مختلف شعبوں میں درخشاں ترقی اور پیشرفت کے علاوہ  معنوی اور اجتماعی لحاظ سے بھی عظیم قومی جذبہ سے سرشار ہے اور گذشتہ برس کے انتخابات میں 40 ملین افراد کی شرکت ملک میں سیاسی و اجتماعی شوق و نشاط کا مظہر ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی جمہوریہ ایران کے بارے میں مسلمانوں کے درمیان پائی جانے والی عظیم حمایت کی جانب اشارہ فرمایا اور گذشتہ تین دہائیوں میں مسلمانوں کی طرف سے اسلامی جمہوریہ ایران کے اعلی حکام کے والہانہ استقبال کی جانب توجہ مبذول کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم مشرق وسطی اور دیگر ممالک میں اپنے کامیاب سیاسی تجربات اور امید افزا مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے اپنی پیشرفت کو جاری رکھےگی اور یہ حقائق اسلامی جمہوریہ ایران کی صعودی حرکت و پیشرفت کی واضح علامت ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دشمن محاذ کا مقابلہ کرنے کے لئے غور و فکر ، تدبیر اور صحیح منصوبہ مرتب کرنے کی ضرورت پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: دشمن بھی ہمارا مقابلہ کرنے کے لئے پالیسی وضع کررہا ہے نت نئےمنصوبے بنا رہا ہے ہمیں بھی اس میدان میں  باہمی تعاون و ہمدردی و ہمدلی کے ساتھ ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دیکر ، شجاعت ،استقامت اور عقل و خرد کے ذریعہ اسی طرح آگے کی جانب رواں دواں رہنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اغیار کی جانب سے اقتصادی دباؤ، فوجی دھمکی، نفسیاتی جنگ اور ملک کے اندر سیاسی خلل اور بحران پیدا کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: امریکہ ان تمام شوم منصوبوں یعنی اقتصادی پابندیوں ، فوجی دھمکیوں اور ایران مخالف قراردادیں منظور کروانے کے بعد مذاکرات کے لئے بھی اپنی آمادگی ظاہر کرتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ کی طرف سے گذشتہ تین دہائیوں کے دوران ان تمام روشوں اور طریقوں سے استفادہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایران کے خلاف تیس سال تک اقتصادی پابندیاں، امریکہ کے مختلف صدور کی طرف سے صدارت کے دوران مسلسل دھمکیوں ، امریکہ کی طرف سے حضرت امام خمینی(رہ) اور ایرانی عوام کے بارے میں لگاتار زہریلا پروپیگنڈہ اور گذشتہ برسوں میں بعض اندرونی عناصر کے ذریعہ ملک میں بحران اور آشوب برپا کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ ایرانی عوام کے مقابلہ میں آج بھی اپنی انہی قدیمی روشوں سے استفادہ کررہا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ کی طرف سے مذاکرات کے لئے آمادگی کو تکراری قراردیا اور دھمکی و طاقت کے سائے میں مذاکرات کو رد کرتے ہوئے فرمایا: البتہ ہم نےدو موضوعات پر امریکہ کے ساتھ مذاکرات کئے ہیں جن میں عراق کے علاوہ ایک اور مسئلہ بھی شامل ہےجسے وہ اہم قراردیتے تھے لیکن امریکہ کے ساتھ مذاکرات سے یہی پتہ چلتا ہے کہ جب بھی وہ مذاکرات کی میز پر منطق اور استلال کے سامنے رہ جاتے ہیں تو پھر منہ زوری پر اتر آتے ہیں اور مذاکرات کو یکطرفہ طور پر ختم کردیتے ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ہم نے امریکہ کے ساتھ واضح دلائل کی روشنی میں مذاکرات کو رد کیا ہے کیونکہ ہم رعب و دبدبہ اور دھونس و دھمکی کے سائے میں ہونے والے مذاکرات کو مذاکرات تصور نہیں کرتے ہیں اور جیسا کہ ملک کے اعلی حکام نے کہا ہے اسی بنا پر ہم مذاکرات کے حامی اور طرفدار ہیں لیکن امریکہ کے ساتھ مذاکرات کے قائل نہیں کیونکہ امریکہ اقتصادی پابندیوں ، رعب و دبدبہ اور دھونس کے سائے میں مذاکرات کرنا چاہتا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: قدرتی بات ہے کہ اگر وہ پرانی اوربوسیدہ سامراجی سیڑھی سے نیچے اتر آئیں اور دھونس و دھمکی کی پالیسی ترک کردیں اور مذاکرات کے لئے اپنا پسندیدہ ہدف اور مقصد مقرر نہ کریں تو ہم مذاکرات کے لئے آمادہ ہیں جیسا کہ ہم پہلے بھی اس بارے میں بیان کرچکے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ امریکہ مذاکرات کا حامی اور طرفدار نہیں ہے وہ صرف اپنی منہ زوری دکھنا چاہتاہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں مزیدفرمایا: امریکیوں کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ وہ دوسروں کی طرح ایران پر دباؤ نہیں ڈال سکتے کیونکہ ایران ہرگز کسی کے دباؤ کو قبول نہیں کرےگا اور اپنی صلاحیتوں کی بنیاد پر ہرقسم کے دباؤ کا جواب دےگا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایٹمی معاملے میں ایٹمی ایندھن کی پیداوار کو ایران کا قدرتی اور مسلّم حق قراردیتے ہوئے فرمایا: ایرانی قوم اور ایرانی حکام اس حق سے ایک اینچ بھی پیچھے نہیں ہٹیں گے اور انشاء اللہ ملک کے اندرایٹمی پلانٹ کی تعمیر اور ایٹمی ایندھن تیار کرنے کے ساتھ اپنے حقوق کا پیچھا جاری رکھیں گے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایٹمی ایندھن کے بارے میں امریکیوں کے بعض بیانات کو مہمل اور غیر معتبر قراردیا اور تہران کے ریئکٹر کے لئے 20 فیصد ایندھن فراہم کرنے کے بارے میں اغیار کی عدم صداقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ہم نے تہران ریئکٹر کے لئے تقریبا دو عشرے قبل بین الاقوامی قوانین کی بنیاد پر ایندھن خریدا تھا لیکن جب انھوں نے یہ محسوس کیا کہ ہمیں 20 فیصد ایٹمی ایندھن کی دوبارہ ضرورت ہے تو انھوں نے غلط کھیل شروع کردیا البتہ امریکہ اور مغربی ممالک کا یہ اشتباہ خود ان کے نقصان میں تمام ہوا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ اور ایٹمی ایندھن پیدا کرنے والے دوسرےممالک کےناقابل اعتماد ہونے کی وجہ سے خود ایران کی طرف سے 20 فیصد ایٹمی ایندھن تیار کرنے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: یہ مسئلہ تمام قوموں کے لئے واضح ہوگیا ہےکہ امریکہ اور ایٹمی ایندھن تیار کرنے والے ممالک قابل اعتماد نہیں ہیں۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے امریکہ کی فوجی دھمکی کی طرف بھی اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: بہت بعید ہے کہ وہ اس قسم کی حماقت کرے لیکن سب جان لیں اگر انھوں نے اس دھمکی کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کی تو اس صورت میں ایرانی عوام کی دفاعی کارروائی اس خطے تک محدود نہیں رہےگی اور مقابلہ کا میدان بہت وسیع ہوجائے گا۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ایران میں انسانی حقوق کے بارے میں امریکی پروپیگنڈہ کو مضحکہ خیز قراردیتے ہوئے فرمایا: عراق ، فلسطین اور افغانستان میں امریکیوں نے ثابت کردیا ہے کہ ان کے نزدیک انسانی جانوں کی کوئی قدر وقیمت نہیں ہے عراق و افغانستان اور فلسطین میں انسانیت سوز مظالم ڈھانے کے باوجود امریکہ بے شرمی کے ساتھ ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی بات کررہا ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دشمن کی طرف سے اقتصادی پابندیوں اور اس کے دیگر شوم منصوبوں کے بارے میں ایرانی حکام کی دفاعی تدابیر اورآمادگی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ایرانی حکام نے بھی ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں کے سلسلے میں منظور ہونے والی قرارداد اور امریکہ و یورپ کی جانب سے یکطرفہ پابندیوں کے پیش نظر اچھے اقدامات اٹھانے کا فیصلہ کیا ہےاور انشاء اللہ ان تدابیر کے ذریعہ اور باہمی ہمدردی و ہمدلی اور اتحاد کے سائے میں اقتصادی پابندیوں کو بہترین فرصت میں بدل دیں گے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےدشمن کے شوم اور گھناؤنے منصوبہ کا مقابلہ کرنے کے لئے قومی پیداوار کے ارتقاء اور اضافہ کو بہت ہی اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: درآمدات کے سلسلے میں صحیح اور درست مدیریت ہونی چاہیے اور اگر اس سلسلے میں قوانین میں اصلاح کی ضرورت ہو تو پارلیمنٹ کو یہ کام انجام دینا چاہیے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دشمن کے شوم منصوبوں کو ناکام بنانے کے لئے عقلمندی،تدبیر، شجاعت ، پختہ عزم و ارادہ اور استقامت کو بہت ہی اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: ہمیں عقلمندی ، دلیری ،شجاعت ، استقامت و پائداری اور پختہ عزم کے ساتھ تابناک اور روشن مستقبل پر نظر رکھتے ہوئے اپنے راستہ پر گامزن رہنا چاہیے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نےاتحاد و یکجہتی اور ہمدلی کو انقلاب اسلامی کی مقتدرانہ حرکت کو جاری رکھنے کے لئے قوم اور اسلامی نظام کا اصلی نقطہ نگاہ قراردیا اور اس موضوع کی اہمیت کی وضاحت کرتےہوئے فرمایا: ملکی حکام کے درمیان اتحاد ویکجہتی اور ہمدلی و ہمدردی ایک فریضہ ہے اور اعلی سطح پراس کی جان بوجھ کر مخالفت شرع کے خلاف ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دشمنوں کی جانب سے چھوٹے اختلافات کو بڑے مسائل میں تبدیل کرنے کی سازش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حکومت اور پارلیمنٹ کے درمیان اختلاف المیہ نہیں ہے بلکہ اس معمولی اختلاف کو بہت بڑی خلیج  اور ناقابل علاج زخموں میں بدلنا بہت بڑی خطا اور عظیم غلطی ہے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسی سلسلے میں فرمایا: ہم نے کچھ عرصہ پہلے گارڈین کونسل سے کہا تھا کہ حکومت اور پارلیمنٹ کے درمیان جن موارد میں اختلاف اور تامل ہے ان کو واضح کرے تاکہ حدود و اختیارات اور وظائف مشخص ہونے کے بعد مسائل کا حل پیدا کیا جائے تاکہ قوا کی تفکیک مشخص ہوجائےجو بنیادی آئین کا حصہ ہے ۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اصول سے مسلسل تمسک اور اصول کی حفاظت پر تاکید اور دشمن کی زمین میں کھیل نہ کیھلنے پر زور دیتے ہوئے فرمایا: دشمن عوام اورحکام کے درمیان عدم اطمینان اور بدگمانی کی فضا پھیلانے کی تلاش و کوشش میں مصروف ہے اور کسی کو بھی ایسی کوئی بات نہیں کرنی چاہیے جس کی وجہ سے عوام کے درمیان حکومت ، عدلیہ اور پارلیمنٹ کے بارے میں بد گمانی اور عدم اعتماد پیدا ہو۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بعض اداروں کی طرف غیر ضروری اعداد و شمار پیش کرنے پر شدید تنقید کرتے ہوئے فرمایا: عوام میں عدم اعتماد پیدا کرنے والے کاموں سے پرہیز کرنا چاہیے۔

رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے اختتام پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: یہ تمام عوامل اور تدبیریں جو بیان کی گئی ہیں اسی وقت کامیاب اورکارساز ہوسکتی ہیں جب انسان اللہ تعالی پر اعتماد کرے اس کی ذات پربھروسہ کرے اور اس کے ساتھ توسل برقرار رکھے۔ایرانی عوام اور اعلی حکام انقلاب اسلامی کےدرخشاں راستہ پر فخر و مباہات کے ساتھ گامزن رہیں گے۔

اس ملاقات میں  صدر احمدی نژاد نے اقتصادی، ثقافتی،سائنس و ٹیکنالوجی ، تعمیر و عمران، صنعت و معدن ، اداری ڈھانچے کی اصلاح ، خارجہ پالیسی اور اندرونی مدیریت کے مختلف شعبوں میں حکومت کی فعالیت اور تلاش و کوشش کے بارے میں رپورٹ پیش کی۔

صدر احمدی نژاد نے ثقافتی شعبہ میں حکومت کی توجہ اور اہتمام اور انقلاب اسلامی کے ثقافتی اہداف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:حکومت نے ثقافتی شعبہ کےبجٹ میں تین گنا اضافہ کیا ہے اور صوبائی سفر کے دوران ثقافتی کمیٹیوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی تمام سرگرمیوں کو اسلامی اقدار کے احیاء اور فروغ کے لئے صرف کریں۔

صدر احمدی نژاد نے سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبہ میں حکومت کے اقدامات اور علمی اصول کی بنیاد پر کمپنیوں کی تاسیس و تشکیل، تحقیقاتی بجٹ میں اضافہ ، وزارت تعلیم کے نظام میں اصلاح و تحول، انسانی علوم میں تغییر و تبدیلی اور میڈيکل تعلیم و صحت کے شعبہ میں نمایاں پیشرفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اسلامی جمہوریہ ایران نےفضائی شعبہ میں بھی نمایاں ترقی اور پیشرفت حاصل کی ہے اور عنقریب ایران نیا سٹلائٹ فضا میں روانہ کرےگا۔

صدر احمدی نژاد نے ملک کو ایک بہت بڑے تعمیری کارخانہ سے تشبیہ دی،اور ملک میں بجلی پلانٹس کے اضافہ، سیکڑوں ڈیموں کی تعمیر، تیل کے ضروری وسائل کو مقامی طور پر تیارکرنے،شہروں اور دیہاتوں میں گیس پہنچانے، پارس جنوبی کے باقی ماندہ مراحل کو ملکی سرمایہ کاری اور داخلی ٹھیکداروں کے ذریعہ پایہ تکمیل تک پہنچانے ، کیمیکل اشیاء کی پیداوار اور برآمدات میں اضافہ، اور آزمائیشی طور پرپٹرول کی پیداوار میں اضافہ کی طرف اشارہ کیا۔

صدر احمدی نژاد نے ہاؤسنگ اور گھروں کی تعمیر بالخصوص مہر مسکن کے شعبہ میں ہونے والے اقدامات ،صنعتی اور معدنی برآمدات ، صنعتی کمپنیوں کی تاسیس، مثبت اقتصادی رشد،مہنگائی میں کمی،عدالت حصص کی ادائیگی ،اسٹاک ایکسچینج اور بازار کی بہتر حالت اور تیل کے علاوہ دیگر اشیاء کی برآمدات کے بارے میں رپورٹ پیش کرتے ہوئے کہا: حکومت کا سب سے اہم کام سبسیڈی کو بامقصد بنانا ہے اور اس کام کو صحیح اور درست انجام دینے کے لئے تلاش و کوشش جاری ہے۔

صدر احمدی نژاد نے ملک کی اندرونی فضا، حکام کے درمیان اتحاد و یکجہتی، عوام میں شوق و نشاط اور اسلامی نظام کے ساتھ ان کے والہانہ لگاؤ کو اعلی سطح پر قراردیا اور ایرانی عوام کے دشمنوں اور تسلط پسند طاقتوں کی طرف سے نئے اقتصادی دباؤ کی مذموم کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: اللہ تعالی کے فضل و کرم سے ایرانی عوام دشمنوں کی اس بد اخلاقی کو اقتصادی شعبہ میں بنیادی اصلاحات اور قومی پیداوار کے ارتقاء کے لئے ایک فرصت میں تبدیل کردے گی۔

صدر احمدی نژاد نےایرانی عوام کے خلاف قرارداد کی منظوری کی جانب اشارہ کرتے ہوئےکہا: یہ قرارداد تسلط پسند طاقتوں کی طرف سے تعطل سے نکلنے اور ان کی ناکامی کا مظہر ہے البتہ ایرانی عوام کے دشمنوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ فرسودہ اور بے معنی قراردادیں منظور کرنے سے انھیں نجات نہیں ملےگي عنقریب انھیں اپنے اس اقدام پر پشیمان ہونا پڑےگا۔

صدر احمدی نژاد نے ایرانی عوام کو عدل و انصاف کے دائرے میں رہ کر گفتگو اور مذاکرات کا سب سے بڑا حامی قراردیتے ہوئے کہا: ایرانی قوم عدل و انصاف پر مبنی گفتگو کا خیر مقدم کرتی ہے لیکن وہ اپنے حقوق سے ایک اینچ برابر بھی پیچھے نہیں ہٹے گی۔

 

700 /