رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے آج صبح خبرگان کونسل کے سربراہ اور نمائندوں سے ملاقات میں استکباری اورسامراجی محاذ کی روزافزوں درماندگی ، شکست ، کمزوری و ناتوانی نیز اسلام اور اسلامی نظام کی روزافزوں قدرت ، طاقت ،استحکام اوراسلامی جمہوری نظام کےاندرونی اور بین الاقوامی شرائط پر دقیق اور جامع تجزیہ پیش کیا اورانھیں گذشتہ تین دہائیوں میں اسلامی نظام کے قابل فخر ، مایہ ناز اور ممتاز نکات قراردیتے ہوئے فرمایا: حوزات علمیہ اور یونیورسٹیوں کی ممتاز شخصیات اور معاشرے کے مؤثر افراد کی سب سے اہم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ عوام میں امید کے جذبہ کو مضبوط بنائیں، حکام کے بارے میں عدم اعتماد اور بد ظنی کی فضا قائم کرنے سے پرہیز کریں ، دشمن کے شوم منصوبوں کے بارے میں آگاہ اور ہوشیار رہیں ، اصلی اور فرعی مسائل کے بارے میں صحیح شناخت پیدا کریں ، قومی خود اعتمادی کے جذبہ پر توجہ رکھیں ، ملک میں حیرت انگيز ترقیاتی امور اور تلاش و کوشش کو مد نظر رکھیں اور قومی اتحاد اور اسلامی انسجام کو فروغ دینے کے لئے عملی اور ٹھوس اقدام عمل میں لائیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں اسلامی نظام کے بین الاقوامی شرائط کی تشریح اور استکباری نظام کی رفتار کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا: آج استکباری نظام میں عدم شعور اور ادراک کے فقدان کی ایسی بیماری موجود ہے جس کی بنا پر استکباری طاقتیں بغیر ہدف اور مقصد کے تلاش و کوشش میں مصروف اور سرگرم عمل ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےاسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں ، قراردادوں کی منظوری ، الزام تراشی، پروپیگنڈہ ، اندرونی مخالفین کی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے سلسلے میں اغیار کا تعاون اور تمام سیاسی ، ثقافتی، ، اقتصادی اور تبلیغاتی وسائل سے استفادہ کو اسلامی نظام کے خلاف استکباری نظام کی وسیع سرگرمیوں کا واضح مصداق قراردیتے ہوئے فرمایا: ان تمام حرکتوں اور سرگرمیوں میں سراسیمگی بھی پائي جاتی ہے جو گذشتہ تیس برس کے بعد اسلامی محاذ کی قدرت، طاقت ، تجربہ اور روز افزوں آگاہی کا مظہر ہے کیونکہ اگر اسلامی محاذ میں کوئی ضعف اور کمزوری موجود ہوتی تو پھر دشمن کی ان تمام سرگرمیوں اور شوم نقشوں کا کوئی فائدہ نہ ہوتا ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے بین الاقوامی سطح حتی استکباری طاقتوں کے زیر تسلط ممالک میں بھی مغربی ممالک کی پوزیشن کو کمزور اور متزلزل قراردیتے ہوئے فرمایا: مغربی ممالک کی کمزوری درحقیقت اسلامی بیداری کے روز افزوں فروغ کا نتیجہ ہے جس کے باعث علاقہ میں مغربی ممالک کے بعض اتحادی بھی اسلام کی بڑھتی ہوئی موج سے رہائی کے لئے اپنے بعض نظریات میں نظر ثانی کرنے پر مجبور ہوئے لیکن اس سے بھی انھیں کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوا لہذا استکباری محاذ کو آج اس متزلزل صورت حال کا سامنا ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ایران کے خلاف قرارداد کی منظوری، اسلامی نظام کے خلاف مؤقف، سن 1388 میں انتخابات کے بعد فتنہ پروری، جس میں دشمن کا ہاتھ نمایاں تھا اور قرآن مجید کی توہین اور بے حرمتی استکباری محاذ کے ایسے اقدامات ہیں جن سے استکباری محاذ کی درماندگی ، ناتوانی اور کمزوری کا پتہ چلتا ہے اور استکباری محاذ کے رہنما اب واضح طور پر اسلامی محاذ کی طاقت و قدرت کا اعتراف کرتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: اگر چہ دشمن کے یہ اقدامات اسلامی نظام کے مزید استحکام کا موجب بنے ہیں لیکن اس کے باوجود ہمیں خواب غفلت ، تکبر اور غرور سے پرہیز کرنا چاہیے اور دشمن کے ناپاک اور مذموم عزائم کے بارے میں ہوشیار رہنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دائمی اصلاح کو خواب غفلت میں مبتلا نہ ہونے کا واحد راستہ قراردیتے ہوئے فرمایا: عوام اور معاشرے کی اصلاح سے قبل اپنی اندرونی اصلاح ضروری ہے اور اگر ممتاز و مؤثر افراد اپنے اور خداوند متعال کے درمیان رابطہ کی اصلاح کریں تو عوام اور جوانوں میں اثرات مرتب کرنے کی راہیں بہت زيادہ ہموار ہیں کیونکہ عوام نے مختلف مواقع پر اپنی ذمہ داریوں پر عمل کیا ہے اور عمل کررہے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اندرونی جذبہ کی تقویت کو علماء اور حکام کے لئے اہم ذمہ داری قراردیا اور معاشرے میں اتحاد و اتفاق کے موضوع کی مسلسل تکرار کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: اتحاد و وحدت کا مطلب صرف اس کے بارے میں گفبتگو اور بات چیت کرنا نہیں ہےبلکہ معاشرے میں یہ اتحاد و اتفاق عملی طور پر محقق ہونا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ خامنہ ای نے فرمایا: اتحاد و انسجام کا مطلب یہ ہے کہ ہم مشترکات کو مضبوط اور قوی بنائیں اور انھیں عوام کے سامنے ممتاز بنا کر پیش کریں اور بعض افراد سے اپنی ذاتی ناراضگیوں کو اپنی تمام رفتار پر حکمفرما ہونےکی اجازت نہ دیں اور اسی طرح اصلی اور مشترکہ مسائل کے بجائے فرعی، جزوی اور ملکی مفادات کے خلاف مسائل کو بیان نہ کریں ۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اسلامی نظام کے ساتھ مقابلہ کے سلسلے میں دشمن کے منصوبوں اور طریقوں کی شناخت کو بہت ہی اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: دشمن نے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے دو چیزوں پر توجہ مبذول کررکھی ہے جن میں اسلامی نظام سے عوام کی جدائی اور عوام بالخصوص جوانوں کے دینی اعتقادات میں سستی اور تزلزل پیدا کرنا شامل ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام کو انقلاب اسلامی کا اصلی حامی ، مددگار اور پشتپناہ قراردیتے ہوئے فرمایا: دشمن اسی وجہ سے اپنی تبلیغات اور پروپیگنڈہ میں عوام کو اسلامی نظام اور حکام کی نسبت بدگماں کرنے کی کوشش کررہا ہے اور حکام کے ہر اچھے، مناسب اور صحیح عمل کو غلط ، غیر صحیح اور مفادات کے خلاف بنا کر پیش کرنے کی جد و جہد میں مصروف ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گذشتہ تیس برسوں میں عوام کو اسلامی نظام کے اہلکاروں سے بے اعتماد اور بد گماں کرنے کے سلسلے میں دشمن کی کوششوں اور منصوبوں کو یاد دلایا اوردشمن کے ان منصوبوں کا مقابلہ کرنے کے سلسلے میں حضرت امام خمینی (رہ) کی سیرت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: حضرت امام خمینی (رہ) نے حکومت میں اپنی رہبری کے دس سالہ دور میں اس دور کےحکام پر بعض اعتراضات کے باوجود ، ہمیشہ ان کا دفاع اور حمایت کی البتہ حضرت امام (رہ) کے اس مؤقف کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ حکام کے تمام جزوی مسائل کا بھی دفاع کرتے تھے لیکن حضرت امام (رہ) کا اس بات پر اصرار تھا کہ حکام کے بارے میں عوام کے اعتماد کو ٹھیس نہیں پہنچنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: گذشتہ بیس سال میں رہبری نے بھی، امام خمینی (رہ) کی سیرت کے مطابق حکومتوں کی حمایت اور دفاع کیا ہے اور اس کے بعد بھی دفاع کرےگی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ملک کی پیشرفت اور ترقیاتی عمل کو حکام کی مخلصانہ، مؤمنانہ اور پیہم تلاش و کوشش کا نتیجہ قراردیتے ہوئے فرمایا: کسی ایک عمل یا معمولی کام کی وجہ سے ، حکومت اور دیگر قوا کا اعتبار عوام کی نظر میں ختم نہیں کرنا چاہیے، جو لوگ بعض مطالب بیان کرتے ہیں وہ حق اور حقیقت کے خلاف ہیں اور یہ وہی کام ہے جس کے پیچھےدشمن بھی اپنی تلاش و کوشش جاری رکھے ہوئے ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: ہمیں اس بات پو توجہ رکھنی چاہیے کہ کہیں دشمن کی آواز اور ہماری آواز میں ہم آہنگی پیدا نہ ہوجائے ، کہیں دشمن کا جدول پر نہ کرنے لگیں اور ملک کے اندر اس کی تبلیغ نہ کرنے لگیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے عوام اور ان کے دینی اعتقادات ، دینی احکام اور شرعی حدود کے درمیان فاصلہ ڈالنے کی دشمن کی کوششوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: دینی اور اخلاقی نظم کے خلاف ہونے والی اس قسم کی سازشوں کا تدبیر اور حکمت کے ساتھ مقابلہ کرنا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اعتقادی اور دینی مسائل کے سلسلے میں تلاش و کوشش کو تمام حکام ، منجملہ حکومت کی اہم ذمہ داری قراردیتے ہوئے فرمایا: البتہ اس سلسلے میں حوزات علمیہ، یونیورسٹیوں اور علماء و طلباء کی ذمہ داریاں دوسروں سے کہیں زيادہ ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: عوام کے مذہبی اور دینی عقائد و اعتقادات کو مضبوط بنانے کے لئے مذہبی موادکی فراہمی اور اس سلسلے میں عملی کام انجام دینا اور دشمنوں کی منصوبہ بند سازشوں کا مقابلہ کرنا حوزات علمیہ اور یونیورسٹیوں کی ممتاز شخصیتوں کی ذمہ داری ہے اور آج مختلف ثقافتی شعبوں میں علمی اور عملی ہدایت کے سلسلے میں عظیم علمی و دینی شخصیات کی جگہ خالی نظر آرہی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ثقافتی اور ہنری اداروں کو قالب، سانچہ اورفریم قراردیتے ہوئے فرمایا: حوزات علمیہ اور یونیورسٹیوں میں مختلف فکری کمیٹیاں تشکیل پانی چاہییں جن میں اس قالب ، سانچہ اور فریم کے لئے مواد فراہم ہونا چاہیےتا کہ ایک اچھے دینی اور ہنری اثر کو بنانے کی راہیں ہموار ہوجائیں کیونکہ اگر ایسا نہ ہوا تو یہ قالب اور فریم اصلی اور صحیح مواد سے خالی رہ جائیں گے اور ثقافتی و ہنری اداروں کی بعض تخلیقات پر اشکالات کی اصل وجہ بھی یہی ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے دوسرے حصہ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اندرونی شرائط کی تشریح کی اور اسلامی و انقلابی اصول و اقدار پر عوام کی استقامت و پائداری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: گذشتہ تیس برسوں میں عوام کو انقلاب اسلامی کے تشخص اور اسلامی اقدار کی نسبت منحرف اور بدگماں کرنے کے سلسلے میں دشمن کی طرف سے بہت زیادہ حملے اور اقدامات انجام دیئے گئے ہیں لیکن اللہ تعالی کے فضل و کرم سے دشمن کی تمام کوششیں اس سلسلے میں شکست اور ناکامی سے دوچار ہوئی ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مزید فرمایا: دشمن کی ان تمام کوششوں کے باوجود ایران کی مؤمن قوم اور حکام نے باہمی اعتماد اور اتحاد کے ساتھ استقامت کا مظہرہ کیا اورخاطر خواہ پیشرفت حاصل کی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے گذشتہ سال کے انتخابات کو اصول اور اقدار پر عوام کی اسقامت اور پائداری کا ایک اور اعلی نمونہ اور مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: عوام نے ان انتخابات میں غیر مذہبی اور غیر اسلامی رنگ و بو والے نعروں اور پروگراموں کو رائے نہیں دی بلکہ اسلامی نعروں اور عدل و انصاف پر مبنی پروگراموں اور زرق و برق سے عاری پروگراموں کے حق میں رائے دی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: عوام کی حکام کے ساتھ محبت اور ہمدردی در حقیقت اسلام کے ساتھ ان کی والہانہ محبت کا آئینہ دار ہے۔اور اگر ہم ایک لمحہ کے لئے بھی اسلام اور انقلاب کے راستے سے الگ اور جدا ہوجائیں تو عوام قطعی طور پر ہم سے دور اور متنفر ہوجائیں گے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: آج انقلاب اسلامی کے نعرے زندہ ہیں اور حضرت امام خمینی (رہ) کی فکر ، نظریہ اوران کے خطابات رائج سکہ ہیں، اور حتی وہ لوگ جوپہلے حضرت امام خمینی (رہ) کی مخالفت کا اظہار کیا کرتے تھے اور واضح طور پر انقلاب کے دفن ہونے کی بات کرتے تھے آج وہی لوگ عوام کی رائے حاصل کرنے کے لئےحضرت امام (رہ) کی باتوں کو دھراتے اور تکرار کرتے ہیں اور انقلاب کے حامی ہونے کا دم بھرتے ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےسال 88 کے فتنہ میں عوام کی طرف سے انقلاب اسلامی کے اصول اور اقدار پر استقامت و پائداری کو ایک اور نمونہ قراردیتے ہوئے فرمایا: اس فتنہ میں بھی جن لوگوں نے منتخب فرد کے علاوہ دوسرے فرد کو رائے دی ، لیکن جب فتنہ پروروں کے چہرے سے نقاب الٹ گئی تو وہ بھی اصول اور اقدار پر ڈٹ گئے اور ہم نے 9 دی اور 22 بہمن کو مشاہدہ کیا کہ سب لوگ سڑکوں پر آگئے اور فتنہ پرور لوگ معدود اقلیت میں رہ گئے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اس حصہ میں اپنے خطاب کو سمیٹتے ہوئے فرمایا: ملک میں آج حضرت امام خمینی (رہ) کی راہ و روش مقبول راہ و روش ہے اور یہ ایک بہت بڑا ثمرہ اورنتیجہ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اندرونی اور داخلی شرائط کی وضاحت نیز سائنس اور صنعت و ٹیکنالوجی کے شعبہ میں حیرت انگيز پیشرفت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: ان ترقیات کا پس منظر بہت ہی حسین ، دلکش ، قابل فخر اور مایہ ناز ہے جسے میڈيا بیان کرنے سے قاصر ہے کیونکہ ان ترقیاتی امور کے پیچھے ملک کے ماہر جوانوں کی قومی خود اعتمادی کا جذبہ کارفرما ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے رمضان المبارک میں حکام ، صنعت گروں ، طلباء اور یونیورسٹی کے اہلکاروں اورديگرمختلف طبقات کے ساتھ اپنی متعدد ملاقاتوں میں قومی خود اعتمادی کے جذبہ کو ان ملاقاتوں کا سب سے اہم مظہر قراردیتے ہوئے فرمایا: خود اعتمادی کا جذبہ عظیم کوششوں کا نتیجہ ہے اور اس کی حفاظت اور اسے قوی اور مضبوط بنانا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: خود اعتمادی کا یہ جذبہ وہی جذبہ ہے جسےحضرت امام خمینی (رہ) عوام اور نوجوانوں میں زندہ کرنے کی تلاش میں تھے خود اعتمادی کا جذبہ بہت ہی اہم ، شیریں اور قابل فخر جذبہ ہے وہ لوگ جو ہمیشہ ضعف و کمزوری اور تلخیوں کی باتیں کرتے ہیں انھیں خود اعتمادی سے حاصل ہونے والےنتائج پر بھی اپنی توجہ مبذول کرنی چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اصلی مسئلہ ملک کی پیشرفت اور ترقی کے انجن اور موٹر کا مسئلہ ہے اور اللہ کے لطف و کرم سے ملک کی حرکت ترقی اور پیشرفت کی سمت جاری و ساری ہے اور ملک امید کے ساتھ صحیح ہدف کی جانب گامزن ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: ملک میں آج تعمیر و تلاش و کوشش کا سلسلہ جاری ہے اور بہت اہم کام انجام پا چکے ہیں اور یہ مرحلہ بہت ہی عمدہ اور قابل فخر مرحلہ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: دشمن کی طرف سے شدید دباؤ اور گذشتہ تین دہائیوں کے سخت شرائط نے عوام اور حکام کو بہت ہی قوی اور مضبوط بنا دیا ہے اور دشمن کی طرف سے دباؤ کا نیا سلسلہ بھی قطعی طور پرعوام اور حکام کے مزيد مضبوط اور قوی ہونے کا سبب بنےگا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے دشمن کے اس دباؤ کو بھی شکست و ناکامی سے دوچار قراردیتے ہوئےفرمایا: اللہ تعالی کی طرف سے دین اسلام کی نصرت و یاری کرنے والوں کی مدد اور نصرت پر مبنی وعدے کے علاوہ انقلاب کے مختلف دور کے تجربات سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ عوام کی استقامت و پائداری کے ذریعہ یہ دباؤ بھی شکست و ناکامی سے دوچار ہوجائے گا۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےاس دور میں جنگ کو عزم و ارادوں کی جنگ قرار دیتے ہوئے فرمایا: اگر انقلاب اسلامی کو شکست کھانا ہوتی تو اسے پہلے عشرے میں ہی شکست ہوجاتی کیونکہ اس وقت انقلاب اسلامی کے پاس کوئی خاص تجربہ نہیں تھا لیکن اب انقلاب اسلامی کی قدرت و طاقت اور اس کا تجربہ انقلاب کےپہلے سالوں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے انقلاب کے پہلے عشرے کی نسبت عوام کے جذبات کو بھی مزید عمدہ اور نمایاں قراردیتے ہوئے فرمایا: موجود جوان نسل کی ہمت اور ایمان اگر انقلاب کی پہلی نسل سے زیادہ نہ ہو تو اس سے کم بھی نہیں ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نےگذشتہ تیس برسوں میں اسلامی نظام اور انقلاب اسلامی کی فتح اور کامیابی میں عوام کی موجودگی کو سب سے اہم اور اصلی عنصر قراردیتے ہوئے فرمایا: عوام کی میدان میں موجود امید کی بنا پر رہی ہے لہذا اس امید کو عوام میں زندہ رکھنا چاہیے اور ہر ایسے قدم سے پرہیز اور اجتناب کرنا چاہیےجس کی وجہ سے عوام میں مایوسی اور نا امیدی پیدا ہو۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای نےاندرونی مسائل کے سلسلے میں اصلی اور فرعی مسائل کی شناخت اور پہچان پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا: اصلی مسائل کی صحیح شناخت کے ذریعہ، فرعی مسائل کو اصلی مسائل میں تبدیل نہیں کرنا چاہیے لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ فرعی مسائل کو بالکل بیان ہی نہ کیا جائے بلکہ فرعی مسائل کو اصلی مسائل میں تبدیل کرکے مخالفت اور موافقت کا معیار قرارنہیں دینا چاہیے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: حق کے راستہ پر چلنا، اسلام کے راستہ پر حرکت، انقلاب کے اصولوں کی حفاظت ، امام خمینی (رہ) کے اہداف اور مستکبر اور ظالم وجابر طاقتوں کے ساتھ مقابلہ انقلاب اسلامی کےاصلی ملاک و معیار ہیں۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے دوسرے حصہ میں ثقافتی مسائل کو اقتصادی اور سیاسی مسائل سے اہم قراردیتے ہوئے فرمایا: اگر انسان کی زندگی میں ثقافت اعتقادات، درک و شعور اور جذبات ایک قوم کی ثقافت کا حصہ ہیں تو یہ صحیح ثقافت ہے جو قطعی طور پر معاشرے کی عملی زندگی میں نمایاں اور جلوہ گر ہوگی۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے ثقافتی مسائل کے مصادیق بیان کرتے ہوئے فرمایا: ذمہ داری کا احساس، فداکاری، کام کرنے کا جذبہ، نظم و انضباط، سماجی تعاون، سماجی الفت و محبت، اسراف سے پرہیز، درست وصحیح استعمال ، قناعت کا جذبہ، اندرونی پیداوار میں استحکام، درست کام انجام دینا ، امام خمینی (رہ) کی افکار اور انقلاب اسلامی کی اقدار کو زندہ رکھنا ، اسلامی اتحاد وانسجام کے جذبہ کو مضبوط بنانا،عفاف و حجاب، اور سادہ زندگی بسر کرنا منجملہ ثقافتی مسائل کے اہم مصادیق میں شامل ہیں اور اس سلسلے میں میڈيا کا نقش و کرداربہت ہی اہم ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فرمایا: البتہ ثقافتی مسائل کے مواد اور مضامین کی فراہمی حوزات علمیہ اور علماء کی ذمہ داری ہے۔
اس ملاقات کے آغاز میں خبرگان کونسل کے سربراہ آیت اللہ ہاشمی رفسنجانی نے خبرگان کونسل کے دو روزہ اجلاس میں بیان کئے گئے موضوعات کو بہت ہی اچھا اور کامیاب قراردیا ۔
خبرگان کونسل کے نائب سربراہ آيت یزدی نے بھی خبرگان کونسل کے اجلاس میں بیان ہونے والے موضوعات کے بارے میں تفصیلی رپورٹ پیش کی۔