ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظّم انقلاب اسلامی کا خبرگان کونسل کے سربراہ اور اراکین سے خطاب

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ والسّلام علیٰ سیّدنا محمّد وآلہ الطّاھرین ولعنۃ اللہ علیٰ اعدائھم اجمعین

قال اللہ الحکیم فی کتابہ :

ھوالّذی انزل السّکینۃ فی قلوب المؤمنین لیزدادواایمانا مع ایمانھم وللّہ جنود السّموٰات و الارض وکان اللہ علیما حکیما ۔ لیدخل المؤمنین و المؤمنات جنّات تجری من تحتھا الانھار خالدین فیھا و یکفّر عنھم سیّئاتھم وکان ذٰلک عند اللہ فوزا عظیما ۔ویعذّب المنافقین و المنافقات و المشرکین والمشرکات الظّانّین باللہ ظنّ السّوء  علیھم دائرۃ السّوء وغضب اللہ علیھم و لعنھم و اعدّ لھم جھنّم و ساءت مصیرا ۔ و للہ جنود السّمٰوات و الارض و کان اللہ عزیزا حکیما"(۱)

صدق اللہ العلیّ العظیم

ہم  اسلامی جمہوریۂ ایران کی اس عظیم کونسل کے سبھی اراکین اور آپ محترم حضرات و مکرّم بھائیوں کے تہہ دل سے مشکور ہیں جنہوں نے اس نشست کا اہتمام کیا اور اہم مسائل کو پیش کیا ، ہم  اس کونسل کے سربراہ اور نائب سربراہ کے بھی شکر گذارہیں جنہوں نے مذکورہ کونسل کے اجلاس میں اٹھائے جانے والے مسائل سے ہمیں اجمالی طور پر آگاہ کیا ۔

اس مرتبہ اس اجلاس کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ آپ کا یہ اجلاس ماہِ رمضان کے قریب منعقد ہوا ہے ، رمضان کا مہینہ ، عبودیت و بندگی، اخلاص ، عظمت و طاقت کے عظیم خزانہ سے متّصل ہونے، نیز ذکرِ الٰہی کے ذریعہ حاصل ہونے والے سکون و اطمینان کا مہینہ ہے جس کے بارہ میں ارشادِ ربّ العزت ہے " الا بذکر اللہ تطمئن القلوب " (۲ ) ہمارے لئے اس مہینہ کی سب سے بڑی سوغات  یہ ہونا چاہیے کہ ہمارے دل سے وہ تشویش و اضطراب دور ہو جانا چاہیے جو ہمارے دلوں پر حکم فرما ہو کر ہمیں ادھر ادھر لے جاتا ہے ، ہمارے دلوں میں سکون کی کیفیت طاری ہونا چاہیے ، اگر پروردگارِ عالم ہمیں یہ سکون عطا کرے گا تو اس کے نتیجہ میں ہم  " لیزدادواایمانا مع ایمانھم " کی منزل  سے ہمکنار ہوں گے ، ہمارے دلوں میں پروردگارِ عالم کے عشق و محبّت ، اس پر ایمان و اعتقاد میں اضافہ ہوگا ۔

 زہے نصیب کہ ہمارے عوام نے اس مہینہ سے ، اس عیدِ فطر سے بھرپور استفادہ کیا ، ہم نے خود بھی مشاہدہ کیا ،اور جو مستند اور تصویری رپورٹیں ہمیں پورے ملک سے موصول ہوئیں وہ سبھی ہمارے عوام کے الٰہی جذبہ کی غمّاز تھیں ، ہمارے عوام  بالخصوص ہمارے جوانوں نے شبہائے قدر ، عالمی یومِ قدس ، اور ماہِ رمضان کے  ہر لمحہ سے بھر پور استفادہ کیا ، اس مہینہ کی  معنویّت کی تابناک کرنوں نے دلوں کو اپنے نور سے منوّر کیا ، اس کی معنویّت ابرِ کرم بن کر لوگوں کے دلوں پر نازل ہوئی ، اس اعتبار سے یہ مہینہ بہت اچھا مہینہ تھا ۔ خداکرےکہ ہم اس قافلہ سے پیچھے نہ رہے ہوں اور ہم نے بھی اس مبارک مہنیہ سے بہترین استفادہ کیا ہو ۔

البتّہ ہم جس عمومی لگاؤ اور پروردگارِ عالم کے قسم قسم کے لطف و کرم کے مظاہر کا مشاہدہ کررہے ہیں ، جسے ہم عام لوگوں کی گفتگو ، ان کے رہن سہن اور اظہارِ خیال سے نزدیک سے دیکھ رہے ہیں ، یہ چیزیں  ہمیں غافل نہ کردیں ، انہیں دیکھ کا خوشی ہوتی ہے ، الحمد للہ  ملک کی مجموعی حالت مسرّت بخش ہے لیکن ہمیں الٰہی مکر سے کبھی بھی غافل نہیں ہونا چاہیے ، ہمیں پروردگارِ عالم کے اس  عقاب سے ہر وقت خائف رہنا چاہیے جو غفلت و کفرانِ نعمت کی وجہ سے کسی بھی امّت کے دامنگیر ہو سکتا ہے ، یہ بہت بڑا خطرہ ہے ۔

خوش قسمتی سے کچھ ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں اور آج بھی رونما ہو رہے ہیں جو ہماری بیداری کا باعث ہیں ، یہ مختلف حوادث، اسلام کے خلاف مختلف حملے ، امریکہ میں قرآن سوزی کے شرمناک اور توہین آمیز واقعہ نے عالمِ اسلام میں بیداری پیدا کی ہے ، یہ خطرے کی وہ گھنٹیاں ہیں جو انسان کو خوابِ غفلت کا شکار نہیں ہونے دیتیں ، اس پر نیند کا غلبہ نہیں ہونے دیتیں ، اسے اپنے اردگرد کے حوادث و واقعات سے غفلت نہیں برتنے دیتیں ، یہ بہت بڑی نعمت ہے ، تاریخ اور انقلاب میں ایسے بہت سے واقعات رونما ہوئے ہیں جن سے صاحبانِ بصیرت و ایمان نے بھر پور استفادہ کیا ہے ، دشمنوں کی دشمنی سے استفادہ کیا ہے ۔

یہ بات مشہور و معروف ہے ، مجھے یاد نہیں ہے کہ میں نے اسے کہیں پڑھا ہے یا نہیں لیکن قدیم الایّام سے یہ بات زبانوں پر جاری ہے کہ احمد امین مصری نے " فجر الاسلام " نامی کتاب تحریر کی جس میں اس نے شیعوں پر بہت سی تہمتین لگائیں اور ان پر الزام تراشیاں کیں ، اس کے بعد اس نے " ضحی الاسلام" ظھرالاسلام" اور " عصر الاسلام" نامی کتابیں لکھیں جن میں انہیں تہمتوں اور الزام تراشیوں کا اعادہ کیا گیا ، جب یہ کتابیں منظرِعام پر آئیں تو حوزۂ علمیہ نجف کے چند روشن خیال اور بزرگ علمائے دین نے اس کا  دنداں شکن علمی جواب دینےکا مصمّم ارادہ کیا، جس کے نتیجہ میں مرحوم شیخ آقا  بزرگ تہرانی نے " الذّریعہ" نامی کتاب تحریر فرمائی ، مرحوم سیّد محسن عاملی نے شیعہ  علماء کے حالات ِ زندگی  کے سلسلہ میں " اعیان الشّیعہ " نامی کتاب تالیف کی ، مرحوم صدر نے " تاسیس الشّیعہ لفنون الاسلام " تصنیف کی، ان علماء نے مذہبِ شیعہ کا بھر پور عملی  دفاع کیا۔ تین ، چار سو صفحات پر مشتمل " فجرالاسلام" نامی کتاب  اس بات کا باعث  بنی کہ عالمِ شیعت میں کئی دائرۃ المعارف ( انسائیکلوپیڈیا ) منصّہ ظہور میں آئے ، یہ اس دور میں شیعہ علماء کے لئے ایک خطرے کی گھنٹی تھی جس نے اپنا اثر دکھایا جس کی بنا پر شیعہ علماء بیدار ہوگئے اور انہیں جو کام انجام دینا چاہیے تھا وہ انہوں نے وہ انجام دیا ۔

ماضی میں بھی یہی صورتِ حال تھی ، آپ شیخ طوسی  (رضوان اللہ علیہ ) کی کتاب " مبسوط" کو ملاحظہ کیجئے جسے موصوف نے اپنی بابرکت زندگی کے آخری ایّام میں تحریر کیا ، موصوف رقمطراز ہیں کہ" ہم نے بہت سنا ہے کہ ہمارے مخالف ہماری فقہ کو حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں " یستحقرونہ ویستنزونہ" یعنی اسے کم و حقیر جانتے ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ آپ کی فقہ کی فروع بہت کم ہیں ، اسی کے جواب میں ، میں نے یہ کتاب تحریر کی ہے ، اس عظیم اور مفصّل کتاب کے بارے میں شیخ خود رقمطراز ہیں کہ میں نے آج تک کسی بھی اسلامی مذہب میں تمام فقہی ابواب پر مشتمل اتنی مفصّل کتاب نہیں دیکھی ، شیخ نے اپنی کتاب کی ابتدا ء میں اسے بیان کیا ہے ۔ کبھی کبھی ایک طعنہ و کنایہ ، ایک توہین اتنے بڑے اور شیرین واقعہ کے وجود میں آنے کا سبب بنتی ہے ۔

شیخ نجاشی کی کتاب"رجال" گزشتہ ایک ہزار سال کے دوران راویانِ حدیث کے بارہ میں تحریر شدہ کتابوں میں سے سب سے اہم اور بنیادی کتاب ہے ، یہ کتاب آج بھی باقی ہے ، مرحوم نجاشی اس کے آغاز میں تحریر فرماتے ہیں کہ میں نے سنا ہے کہ سیّدِ شریف(بظاہر سیّد مرتضیٰ مراد ہیں)نے فرمایا" ہمارے مخالفین ہم پر الزام لگاتے ہیں کہ " انّ لا سلف لکم" تمہارے کوئی اسلاف نہیں ہیں ، "ولامصنِّف " یا" لامصنَّف " تمہارے یہاں صاحبانِ تالیف و تصنیف یا کتابوں کی کمی ہے ، تمہارا کوئی ماضی نہیں ہے ۔ میں نے اس کتاب کو تحریر کیا تاکہ ان پر یہ حقیقت عیاں ہو جائے کہ ہمارے پاس ان سب چیزوں کا ایک بیش بہا خزانہ موجود ہے ۔

آپ ملاحظہ کیجئے کہ ہمارے بزرگوں نے ان واقعات سے کس طرح استفادہ کیا، میری نظر میں ہمیں بھی تلخ و ناگوار  واقعات کو اسی نگاہ سے دیکھنا چاہیے ، قرآن کی توہین کا واقعہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے ، ایک بہت بڑا واقعہ ہے ، بہت برا اور قابلِ مذمّت واقعہ ہے ، انتہائی شرمناک واقعہ ہے ، لیکن یہی واقعہ ہمیں خوابِ غفلت سے جگانے کی گھنٹی ہے ، ہمیں اپنے ہوش و حواس کو جمع کرنا چاہیے اور اس بات کو اچھی طرح سمجھنا چاہیے کہ " من نام لم ینم عنہ" کہ اگر اس محاذ پر ہمارے اوپر نیند طاری ہو جائے تو یہ معلوم نہیں کہ دشمن بھی اپنے مورچہ میں سو رہا ہو گا ، ہمارا دشمن بیدار ہے اور ہمارے خلاف نت نئی سازشیں رچےگا۔

میری نگاہ میں سنہ ۱۳۸۸ ھ ۔ ش کا فتنہ اسی نوعیّت کا حامل تھا، وہ فتنہ ہمارے لئیے خطرے کی گھنٹی تھا ، ہمیں خوابِ غفلت سے جگانے کا الارم تھا ، گزشتہ برس کے صدارتی الیکشن میں چالیس ملین افراد کی شرکت سے سبھی خوش تھے ، اور رات گئے تک جشن منا رہے تھے کہ اس الیکشن میں رائے دہندگان کی ایک بہت بڑی تعداد نے اپنے حق کا استعمال کیا اور رات گئے تک ووٹ ڈالتے رہے ، اگر چہ ابھی رسمی طور پر الیکشن میں حصّہ لینے والے افراد کے اعداد و شمار کا اعلان نہیں ہوا تھا لیکن ہر طرف خوشی کا سماں تھا، اچانک کسی کونے سے فتنہ کی چنگاری نے آگ بھڑکائی اور ہمیں خبردار کیا کہ خوابِ غفلت کا شکار نہ بنو ،تمہارے سامنے مشکلوں اور خطروں کی آندھی کھڑی ہے ،میری نگاہ میں ، ہمیں ان واقعات کو اس نظر سے دیکھنا چاہیے ۔

اس جلسہ میں ہم  اپنے ملک سے متعلّق عالمی اور داخلی مسائل پر ایک نگاہ ڈالیں گے تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ ان مسائل سے کون سے نکات کا استنباط کیا جاسکتا ہے اور ملکی اور عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات سے ہم کیا سبق حاصل کر سکتے ہیں ۔

عالمی مسائل میں جو چیز سب سے زیادہ واضح و آشکار ہے وہ ہمارے مدِّ مقابل محاذ کی حد درجہ فعّالیت و سرگرمی ہے ۔ حد سے زیادہ سرگرمی و فعّالیت ایک ایسی بیماری ہے جو عام طور سے بچوں اور نوجوانوں میں پائی جاتی ہے ، حد سے زیادہ فعّالیت کا مطلب یہ ہے کہ بچّوں اور نوجوانوں میں بہت زیادہ تحرّک پایا جاتا ہے اور مختلف  کام انجام بھی دیتے ہیں لیکن ان میں تمرکز اور مقصد ناپید ہوتا ہے ، وہ دربدر کی ٹھوکریں کھاتے ہیں ، حد درجہ فعّالیت دکھاتے ہیں لیکن ان کی سرگرمی عام طور سے بے مقصد ہوتی ہیں اور انہیں غالبا ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے ، ہم اس حالت کو حد سے زیادہ فعالیت سے تعبیر کرتے ہیں ۔آج ہمیں اپنے مدِّ مقابل دشمن کے محاذ میں یہی حالت دکھائی دے رہی ہے ، وہ اسلامی نظام کے خلاف پابندیوں، الزام تراشیوں ، قراردادوں، اور داخلی مخالفین  کی تقویت  جیسی متعدّد سرگرمیوں میں مصروف ہے ،اہلِ ورزش کی اصطلاح میں وہ اپنے داخلی زر خرید عناصر کو وقتا فوقتا طاقت بڑھانے والا انجکشن لگاتے رہتے ہیں ،لیکن  اس کا اثر صرف ظاہری حد تک محدود رہتا ہے  ، اس پر کوئی حقیقی اثر مرتّب نہیں ہوتا ۔

جیسا کہ آپ نے سن رکھا ہے کہ گذشتہ برس  فتنہ کے ابرآلود ماحول میں اس نظام کا مخالف ایک انٹرنیٹ نٹ ورک جو یہاں کی خبریں بیرونِ ملک پہنچاتا تھا اور وہاں کے احکام و فرامین کو یہاں پہنچاتا تھا تا کہ یہاں ہلّڑ ہنگامہ مچایا جا سکے ، یہاں کے ماحول کو خراب کیا جاسکے ، یہ نٹ ورک کچھ ضروری تعمیرات کے لئے وقتی طور پر  کچھ دن کے لئے اپنی سرگرمیوں کو بند کرنا چاہتا تھا لیکن امریکی حکومت نے اسے اجازت نہیں دی اور اس کے ذمہ داروں سے کہا کہ اگر آپ اس موقع پر(وقتی طور پر ہی سہی ) اپنی فعّالیت کو بند کریں گے تو اس سے ایران کے اندر  اسلامی نظام کے مخالفوں کو عظیم نقصان پہنچے گا ، امریکی حکومت اس نٹ ورک کے بند ہونے کی راہ میں رکاوٹ بنی اور اسے وقتی طور پر بھی بند نہیں ہونے دیا ، اس کی ہر قسم کی مالی و غیرِ مالی اعانت کی ۔

آج بھی وہ اپنے تمام تر سیاسی، اطّلاع رسانی ، ثقافتی اور اقتصادی وسائل کو بروئے کار لارہے ہیں تاکہ ایران پر اقتصادی پابندیوں کا مسئلہ ماند نہ پڑے اور راستہ کے درمیان اپنا اثر نہ کھو بیٹھے ۔ امریکی حکومت نے اپنے ایک بلندپایہ  اقتصادی و مالی کارکن کو اس بات پر مامور کر رکھا ہے اور اس کی ذمّہ داری یہ ہے کہ وہ دنیا کے کونے کونے میں مختلف وفود روانہ کرے تاکہ وہ وہاں کے سربراہانِ مملکت سے رابطہ قائم کریں اور انہیں اسلامی جمہوریۂ ایران کے خلاف ورغلائیں ، یہ اس دور میں اسلامی جمہوریۂ ایران کے خلاف سامراجی محاذ کی زبردست کوشش  کا واضح و آشکار نمونہ ہے ۔

ہم اس واقعہ سے چند نکتوں کا استفادہ کر سکتے ہیں ، سب سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ دشمن کی یہ سراسیمگی وپریشانی اسلامی بیداری  کی روزافزوں طاقت کا ثمرہ ہے ، اگر ہم یہ دیکھ رہے ہیں کہ ہمارا حریف اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا ہے ، بے مقصد کوششوں میں مشغول ہے ، در در کی ٹھوکریں کھا رہاہے ، پریشان و سراسیمہ ہے ، مختلف سرگرمیوں میں مشغول ہے ، مختلف افراد سے ملاقات کر رہا ہے ،اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس کے مدِّ مقابل محاذکی طاقت میں اضافہ ہوا ہے جس کی بنا پر وہ اس قدر سراسیمہ و مرعوب ہے ، جس نے  اس پر خوف و سراسیمگی طاری کر رکھی ہے ، اگر ہم کمزور ہوتے ، اگر ہم پر وہ چوٹ وارد کرسکتے، اگر وہ ایک وار کے ذریعہ ہمیں سرِ تسلیم خم کرنے پر مجبور کرنے پر قادر ہوتے تو انہیں اس قدر فعّالیت و سرگرمی کی کوئی ضرورت نہیں تھی ، ان کی یہ کاوشیں ان کے مدِّ مقابل کے اقتدار و طاقت کی علامت ہے ، حقیقت بھی یہی ہے ، اب میں اس کی طرف اشارہ کرنا چاہتا ہوں ۔

 عصرِ حاضر میں گزشتہ تین عشروں کے مقابلہ ہمارا محاذ زیادہ طاقتور ہو چکا ہے ، اس کی آگاہی میں اضافہ ہوا ہے ، اس کے وسائل میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے ، اس کے بر عکس ہمارا دشمن روزبروز کمزور ہوتا گیا ہے ، ایک دور میں تمام سامراجی دنیا ایران کے خلاف جمع تھی ، ہمارے آرام و آسائش کے لئے کوئی جگہ موجود نہیں تھی ، انقلاب کی کامیابی کے پہلے عشرہ میں یہی صورتِ حال حکم فرما تھی ، اس دور میں سوویت یونین کی حکومت بھی ہمارے خلاف تھی ، جو ایک بہت بڑی طاقت تھی ، اس دور کا روس محض ایک ملک نہیں تھا بلکہ چند بڑے بڑے ممالک کا مجموعہ تھا جس کا مرکز موجودہ روس تھا ، مشرقی یورپ  پر اس کا تسلّط تھا، افریقی اور لاطینی امریکہ کے ممالک عام طور پر سوویت یونین کے زیرِ اثر تھے ، ایشیاء کے بہت سے ممالک بھی اس کے تابع و فرمانبردار تھے ۔ اس دور میں ہم ایک معمولی سا ہتھیار حاصل کرنے کے لئے کہیں بھی رجوع نہیں کر سکتے تھے ، کوئی بھی ملک ہمیں بیس یا تیس ٹینک بیچنے پر راضی نہیں تھا ،میں نے  اپنے دورِ صدارت  میں یوگو سلاویہ کا سفر کیا ، انہوں نے ظاہری طور پر ہمارا نہایت پرتپاک استقبال کیا، ہمارا انتہائی احترام کیا لیکن اس کے باوجود ہمارے شدید اصرار پر بھی وہ ہمیں اس دور کا معمولی و رائج اسلحہ دینے پر راضی نہیں ہوئے حالانکہ یوگوسلاویہ اس دور میں ایک مستقل ملک تھا جو نہ تو مغربی بلاک کا حصّہ تھا اور نہ ہی مشرقی بلاک سے وابستہ تھا، جب اس کا یہ عالم تھا تو بقیہ ممالک کا آپ خود اندازہ لگا سکتے ہیں ۔

اس دور میں ہمارےمدِّ مقابل مغرب کا پورا بلاک تھا، امریکہ تھا ، یورپ تھا ، یہی فرانس جو آج ہمارے خلاف مختلف پروپیگنڈے کر رہا ہے ، بیان بازی میں مشغول ہے اس دور میں ہمارے خلاف  اپنے " میراج " اور " سپر اٹینڈرڈ" جنگی طیّارے صدّام کو دے رہا تھا ، آج کے دور کے مقابلہ میں اس دور میں وہ ہمارے خلاف زیادہ شدید حملہ کر رہے تھے ، بعنوانِ مثال آج جرمنی کی چانسلر ہمارے خلاف پروپیگنڈہ اور بیان بازی میں مشغول ہے لیکن اس دور میں یہی حکومت  صدّام کو کیمیاوی اسلحہ دے رہی تھی ، اس کے لئے کیمیاوی کارخانے لگا رہی تھی ، اس دور میں دشمنی زیادہ عملی اور فعّال تھی ۔

لیکن آج ایسی  کوئی بات نہیں ہے ، آّج وہ ہمارا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ نجیب و شریف یا پہلے سے بہتر  ہوگئے ہیں بلکہ وہ بے بس و لاچار ہیں وہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے بس میں کچھ نہیں ہے ، اسلامی جمہوریۂ ایران روزبروز مضبوط و طاقتور ہوتا جا رہا ہے ، یہ بہت اہم نکتہ ہے ، انہیں یہ محسوس ہو رہا ہے کہ عالمِ اسلام پر ان کے سابقہ تسلّط و اجارہ داری کی بنیادیں متزلزل ہو چکی ہیں ، وہ اسلامی و عرب ممالک میں بلا روک ٹوک دھندناتے پھر رہے تھے اورآگے کی جانب قدم بڑھا رہے تھے لیکن آج وہ دیکھ رہے ہیں کہ ایسا ممکن نہیں ہے وہ اس رویّہ کو جاری نہیں رکھ سکتے ، اس اسلامی لہر نے انہیں اپنے رویّہ پر نظرِ ثانی پر مجبور کر دیا ہے ، یہ نظرِ ثانی بھی ان کے لئے بہت مشکل ہے ، وہ ایسے ممالک سے اپنے روابط پر نظرِ ثانی کرنے کی فکر میں ہیں جو ان سے وابستہ ہیں  حالانکہ ان ممالک کے عوام ان کی امریکہ و مغربی ممالک سے وابستگی سے ناراض ہیں، وہ اس کے ذریعہ اپنے لئے حالات سازگار بنانے کی تگ و دو میں مصروف ہیں لیکن وہ ایسا کرنے پر قادر نہیں ہیں، ان کے تمام راستے مسدود ہیں ، آج مغربی دنیا ایک ایسے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے ۔مغربی دنیا کی اسی کمزوری و زبوں حالی کا ثمرہ ہے کہ وہ ایران کے خلاف قرادادوں اور ان جیسے دیگر ہتھکنڈوں کا سہارا لیں ،اور ایران کے خلاف جس قدر قرادادیں پاس کروا سکتے ہوں پاس کروائیں، ایسی قراردادیں جن کی اقوامِ عالم  بلکہ حکومتوں کے دل میں بھی کوئی جگہ نہیں ہے ، ہمیں معلوم ہے کہ بعض وہ حکومتیں جو سلامتی کونسل کی رکن ہیں اور ان قرارداودں پر دستخط کرتی ہیں وہ بھی ان پابندیوں پر راضی نہیں ہیں ، ان کے لئے یہ عمل ایک دکھاوا، ریاکاری ،زورزبردستی اور سیاسی پاس و لحاظ کا عمل ہے ، صورتِ حال یہ ہے ۔

ماضی میں رونما ہونے والے واقعات ، خواہ وہ سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر ۱۹۲۹ ہو یا قرآنِ مجید کی توہین کا مسئلہ ہو یا اسلامی جمہوریۂ ایران کے خلاف ان کی کھلّم کھلّا بیان بازی ہو ، یا سنہ ۱۳۸۸ میں رونما ہونے والے واقعات کی بات ہو(ان واقعات کے پسِ پردہ سامراجی دشمن کا ہاتھ عیاں ہے ) ان سبھی چیزوں کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے ، اس کی اصل وجہ ہے کہ ہمارے دشمن کو ہماری طاقت کا اندازہ ہو چکا ہے جس سے وہ خائف و ہراساں ہے ، ان کے بیانات میں اسے  بخوبی دیکھا جا سکتا ہے وہ آج بھی اس بات کا اعتراف کر رہے ہیں کہ اگر ہم یہ نہ کریں تو ایران مشرقِ وسطیٰ کی سب سے بڑی طاقت بن جائے گا، اگر ہم یہ نہ کریں تو مشرقِ وسطیٰ میں ایران کانفوذ بڑھ جائے گا ، وہ مسلسل ان باتوں کی رٹ لگائے ہوئے ہیں ، سب سے پہلا نکتہ یہ ہے ۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ان واقعات کو ہماری بیداری کا باعث بننا چاہیے ، اونگھ اور نیند سے ہماری نجات کا سبب بننا چاہیے ، یہ ہمارے لئے بہت بڑا خطرہ ہے کہ ہم  اسلامی جمہوریہ ایران کے روزافزوں اقتدارو طاقت سے مطمئن ہو کر ، غرورو غفلت کا شکار ہوجائیں ، ہمیں خطرہ کی اس گھنٹی کو ہمیشہ اپنی نظروں کے سامنے رکھنا ہوگا ۔ اس کے لئے ہمیں سب سے پہلے اپنی اصلاح کرنا ہو گی ، دائمی اصلاح ہمارے دائمی  فرائض کا حصّہ ہے ، ہم اندرونی اصلاح کیسے کریں ؟ سب سے پہلے اپنے آپ سے شروع کریں ، یہ حقیر وگنہگار اپنی اصلاح سے شروع کرے ، دوسرے افراد بھی اپنی اصلاح سے شروع کریں ،سب سے پہلے ہم پروردِگارِ عالم سے اپنے رابطہ کی اصلاح کریں ، ہر اس چیز پر غورو فکر کریں جس کے بارہ میں خدا ہم سے سوال کرے گا " واستعملنی بماتسالنی غداعنہ" (۴)یہ وہ چیز ہے جو ہمیشہ ہمارے ذہن میں رہنی چاہیے ، میں یہ نہیں کہتا کہ ہم جب تک مکمّل طور پر اپنی اصلاح نہ کر لیں ، دوسروں کی اصلاح کے بارہ میں نہ سوچیں ، چونکہ اصلاح ایک ایسا عمل ہے جو اتنی آسانی سے حاصل نہیں ہو سکتا ، جب ہم اپنی اصلاح کے لئے قدم اٹھائیں گے تو معاشرہ کی اصلاح بھی آسان ہوتی جائے گی ، معاشرہ کی اصلاح ، نفس کی اصلاح سے زیادہ آسان ہے ۔آج ہمیں ایران کے عظیم سماج میں ہر طرف آمادہ دل، منطق پذیر دل دکھائی رہے ہیں ، ہر طبقہ کے لوگ ، دورافتادہ مقامات کے مرد وزن ، پڑھے لکھے اور ممتاز   افراد سے لے کر عام لوگوں تک الغرض سبھی لوگ آپ کی بات سننے کوآمادہ ہیں ، اگر ہم ان سے کچھ کہنا چاہیں تو وہ ہمہ تن گوش ہیں ، ایسی صورت میں اس بات کا قوی احتمال ہے کہ ہماری گفتگو کا اثر ان کے کرداروعمل میں ظاہر ہو ، لہٰذا اصلاح ِ نفس کا مسئلہ بہت اہم مسئلہ ہے ۔

اندرونی جذبہ کی تقویت ایک انتہائی اہم مسئلہ ہے اگر میری تقریر زیادہ لمبی نہ ہوئی اور آپ کے مزاج پر بار نہ بنی تو اس سلسلہ میں بھی کچھ باتیں آپ کے سامنے پیش کروں گا ، یہ چیز ہمارے فرائض کا حصہ ہے ، خواہ حکام کی حیثیت سے خواہ عالم دین اور صاحب عمامہ و عبا و قبا کی حیثیت سے  یہ ہمارے اصلی فرائض کا حصّہ ہے ، یہ ایسی چیز ہے جسے کسی بھی حالت میں فراموش نہیں ہونا چاہیے ۔

حقیقی اتحاد وہ چیز ہے جس پر آپ بھی زور دے رہے ہیں اور ہم بھی تاکید کر رہے ہیں ، سبھی لوگ اتّحاد و وحدت کی بات کر رہے ہیں ، ہمیں اس کا عملی مظاہرہ کرنا چاہیے ، وحدت واتحاد کا مطلب یہ ہےکہ ہم اپنے ان مشترکات  کی تقویت کریں جو ہمارے درمیان تفریق و جدائی پیدا کرنے والی چیزوں سے کہیں زیادہ ہیں ، ان مشترکات کو ہمیشہ مدِّ نظر رکھیں ، ایسا نہ ہو کسی شخص سے ہماری ناراضگی، ہمیں کسی ایسی رفتارو گفتار یا اقدام پر اکسائے جو ملک کی مصلحت کے خلاف ہو، کبھی کبھی  یہ بات بھی مشاہدہ میں آتی ہے! کہ کسی شخص سے ذاتی رنجش یا اس کی کسی بات یا عمل سے ہم  کبیدہ خاطر ہو جاتے ہیں جو ہمارے تمام اعمال پر سایہ فگن ہو جاتی ہے ، یہ درست نہیں ہے ، ہمیں اپنی مشترکہ چیزوں کو پیشِ نظر رکھنا چاہیے ، اصلی نکات کو تلاش کرنا چاہیے ، ہم جن مسائل کو پیش کرتے ہیں ، انہیں اہمیت دیتے ہیں ، ان میں سے بعض مسائل اصلی مسائل نہیں ہوا کرتے ، یہ ،مسائل اصولی نوعیت کے مسائل نہیں ہیں ، ان سے بھی زیادہ اصولی و اہم مسائل موجود ہیں جن کو اہمیت دینا چاہیے ۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ دشمن کن چیزوں کو نشانہ بنا رہا ہے ، اس کی طرف بھی اشارہ کروں گا۔

تیسرا نکتہ جسے ہم موجودہ حالات سے استنباط کر سکتے ہیں یہ ہے کہ ہمیں دشمن اور اس کے حربوں اور حیلوں سے واقف ہو نا چاہیے ، ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ دشمن اس وقت ہمارے خلاف کیا سازش کر رہا ہے ؟ موجودہ دور میں دشمن ہمارے خلاف دو بڑی سازشیں رچ رہا ہے  ، سب سے پہلی سازش یہ ہے کہ عوام کو اس اسلامی نظام سے دور کیا جائے ، اس کی دوسری سازش یہ ہے کہ عوام کو دینِ اسلام کے اصول و احکام اور دیگر ضروریاتِ دین سے جدا کیا جائے ، وہ اس وقت ان دو چیزوں پر کام کر رہا ہے ، اس نے  اس حقیقت کو بخوبی سمجھ لیا ہے ، وہ  اچھی طرح جانتا ہے کہ اس نظام کو عوام کی پشت پناہی حاصل ہے اگر عوام کو اس نظام سے جدا کر دیا جائے تووہ کھوکھلا ہو جائے گا یہی وجہ ہے کہ وہ عوام کو اس نظام سے علٰیحدہ کرنے کی بھر پور کوشش کر رہا ہے ، اس کام کے لئے وہ عوام کو اس نظام سے بد گمان کرنے کی سازش کررہا ہے ، وہ اس نظام سے عوام کا اعتمادو بھروسہ ختم کرنے کے درپے ہے ، ملک کے اعلیٰ حکا م کے بارہ میں عوام میں بد گمانی پھیلا رہا ہے ، ملک کے حکّام جو بھی اچھّا کام کرتے ہیں ، جو بھی فعّالیت انجام دیتے ہیں ، اغیار کے میڈیا ، ریڈیو اور پروپیگنڈوں میں اسے غلط انداز میں پیش کیا جاتا ہے ، آج ہم اسے واضح و آشکار طور پر دیکھ رہے ہیں ، البتّہ ہمیشہ سے ہی یہی صورتِ حال رہی ہے ، دشمن کی ہمیشہ سے ہی یہ کوشش رہی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقہ سے عوام کو ملک کے حکام اور ذمّہ داروں سے جدا کرے ، امامِ امّت کی رحلت کے اکیس ، بائیس سالہ دور میں اور ان کی با برکت زندگی میں  دشمن ہمیشہ ہی اسی پالیسی پر گامزن رہا ہے یہی وجہ کہ اس دور میں بعض حکّام اور عہدیداروں کی کارکردگی پر اعتراضات کے باوجود امام (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ ) ہمیشہ ہی ان کا دفاع کیا کرتے تھے ، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ امام (رہ) ان کے تمام چھوٹے بڑے کاموں کا دفاع کیا کرتے تھے ، ایسا نہیں تھا، لیکن امام (رہ) ہر جگہ سینہ سپر ہو جاتے ۔ اگر کوئی شخص ملک کے حکام اور اعلیٰ عہدیداوں پر کیچڑ اچھالتا تو امام (رہ) ان کا دفاع کرتے چونکہ اس عمل سے عوام میں ملکی حکام کے بارہ میں بد گمانیاں پیدا ہو سکتی تھیں ، میں بھی اسی پالیسی پر قائم ہوں ، میں نے بھی اسی اعتبار سے تمام حکومتوں کا دفاع کیا ہے ، اس کے بعد بھی اسے جاری رکھوں گا، کسی کونے میں کسی خراب کارکردگی کی بنا پر عوام کی آنکھوں میں حکومت ، عدلیہ اور پارلیمان کے اعتبار کو ختم نہیں کرنا چاہیے ، چونکہ اگر لوگ یہ محسوس کریں کہ حکومت ان کے اعتماد و بھروسہ کے لائق نہیں ہے تو ان کی امّیدوں پر پانی پھر جائے گا، ہمیں اس کا خیال رکھنا چاہیے ، یہ چیز حقیقت کے خلاف بھی ہے ، حکومت کے سلسلہ میں بعض اوقات کچھ ایسی چیزیں کہی جاتی ہیں جو حقیقت کے خلاف ہیں ، ہم ملک کے حالات اور حقائق سے واقف ہیں ، حکومت دن رات کام میں مشغول ہے ، جذبۂ ایمانی اور اخلاص کی بنیاد پر کام کر رہی ہے ، ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ، ہم ملک میں جس ترقّی و پیشرفت کا مشاہدہ کر رہے ہیں وہ گھر کے کسی کونے میں بیٹھ کر محض ترقّی کا راگ الاپنے اور حکام کے نکمّہ پن  سے حاصل نہیں ہوتی، اس کے لئے ملکی حکّام کی دن رات کی محنت درکار ہے، اس کے لئے  سرتوڑ کوشش جاری ہے ، دشمن اس حالت کو ختم کرنا چاہتا ہے ، دشمن ، ملک کے حکّام پر عوام کے اعتماد و بھروسہ کو ٹھیس پہنچانا چاہتا ہے تاکہ عوام میں یہ احساس پیدا ہو کہ وہ حکومت پر بھروسہ نہیں کر سکتے ، وہ عدلیہ اور پارلیمان پر اعتماد نہیں کر سکتے ، وہ عوام کی نگاہوں میں ان اداروں کے وقار کو گرانا چاہتے ہیں ۔ یہ بہت غلط چیز ہے ، یہ دشمن کا کام ہے ہمیں اس بات کو سمجھنا چاہیے ، ہمیں دشمن کی ہاں میں ہاں نہیں ملانا چاہیے ، ہمیں دشمن کے معمّہ کو حل نہیں کرنا چاہیے ، اس کی آواز کو ملک میں نہیں پھیلانا چاہیے ، ہمیں اس کا خیال رکھنا چاہیے ۔

ایک دوسرا اہم مسئلہ دین، مذہبی عقائد اور اسلامی انقلاب کے ناقابلِ تردید اصولوں کا مسئلہ ہے ،جن کا دائرہ  توحید، نبوّت ، امامت وولایت جیسے مسائل سے لے کر  شرعی احکام ، پردہ اور دیگر شرعی حدود تک پھیلا ہوا ہے ، ان مسائل کے بارہ میں مسلسل شبہات پیدا کئے جا رہے ہیں ، ہمیں دشمن کی اس چال سے ہوشیار رہنا چاہیے ، اس کے مقابلہ کی تدبیر کرنا چاہیے ، اس سلسلہ میں کام کرنا چاہیے ۔ اس دور میں بعض سائٹیں اور افراد، دین و اخلاق کے خلاف جو زہر افشانی کر رہے ہیں اور آئے دن نئے نئے مذہبی فرقے تشکیل دے رہے ہیں ہمارے معاشرہ کے تمام افراد کی ذمّہ داری ہے کہ وہ ان   شبہات ، دینی  ، اخلاقی اور سماجی اقدار کی پامالی  اور فرقہ سازی کا بھر پور مقابلہ کریں ، ایسا نہیں ہے کہ ہمارا بیرونی دشمن یہ سبھی کام انجام دے رہا ہو بلکہ کچھ اندرونی عناصر  بھی اس میں ملوّث ہیں ،دشمن ان عناصر کی تقویّت کر رہا ہے ، ان کی راہنمائی کر رہا ہے ، ان کی مالی اعانت کر رہا ہے انہیں آگے کی سمت دھکّا دے رہا ہے ، وہ اس صورتِ حال سے بہت خوش ہے ، ہمیں اس سلسلہ میں ہوشیار رہنا چاہیے اور اس پر کڑی نظر رکھنا چاہیے ۔یہ کس کی ذمّہ داری ہے ؟ کیا یہ صرف حکومت کی ذمّہ داری ہے ؟ ہرگز ایسا نہیں ہے ، البتّہ حکومت کے بھی کچھ اپنے فرائض ہیں ، میں نے خود بھی مختلف ادوار میں انقلاب اسلامی کی  ثقافتی کونسل سے بارہا کہا ہے کہ لوگوں کی دینداری کے تئیں آپ پر جو ذمّہ داری عائد ہوتی ہے آپ اس سے کنارہ کش نہیں ہو سکتے ، کچھ لوگ اس کے مخالف تھے ، بد اخلاق گروہ اس کے مخالف تھے وہ یہ الزام لگا رہے تھے کہ اس طریقہ سے دین حکومتی ہو جائے گا ، میرا عقیدہ ہے کہ اس سلسلہ میں حکومت پر بھی ذمّہ داری عائد ہوتی ہے ۔ لیکن حکومت کی ذمّہ داری کیا ہے ؟ کیا حکومت کی ذمّہ داری یہ ہے کہ وہ لوگوں کے عقائد کی اصلاح کرے ؟ ایسا نہیں ہے ، حکومت کا فریضہ یہ ہے کہ وہ اس سلسلہ میں سازگار ماحول فراہم کرے ،لوگوں کے عقائد کی اصلاح کی اصل ذمّہ داری علمائے دین پر عائد ہوتی ہے ، یہ ذمّہ داری  حوزۂ علمیہ اور یونیورسٹی کے دانشوروں اور ممتاز اسکالروں  کی ہے کہ وہ میدانِ عمل میں آگے آئیں ، آج بہت سی جگہوں پر اس دینی و علمی مجموعہ سے میدان خالی د کھائی دیتا ہے ۔

ہم جب کبھی بھی اپنے میڈیا پر اعتراض کرتے ہیں اور وہ اس اعتراض کے دباؤ میں آکر اس سلسلہ میں کوئی اقدام کرتا ہے تو اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ ان کے اس اقدام سے خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہیں ہوتا ، ان کے اقدام کا مضمون ناقص ہوا کرتا ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ان میں اس علمی صلاحیت و استعداد کا فقدان ہے جو علمائے دین سے مخصوص ہے ۔

ریڈیو و ٹیلویژن کے سلسلہ میں  حوزۂ علمیہ کا کردار بس اس حد تک محدود نہیں ہے کہ کوئی بہترین لب و لہجہ سے سرشار واعظ وہاں سے لوگوں کو  نصیحت کرے ، بلکہ حوزہ ٔ علمیہ کو اس سلسلہ میں مختلف کمیٹیاں بنانا چاہیے ، مختلف گروہ تشکیل دینا چاہیے جو دینی مسائل پر غور و فکر کریں ، مختلف مسائل کے بارہ میں لکھیں ، ان پر بحث و گفتگو کریں ، ان کا تحلیل و تجزیہ کریں ، ان کے بارہ میں تحقیق کریں  ، تحقیق کے نتائج کو شائع کریں ، جب دینداری کے لئے سازگار ماحول فراہم ہوگا تو اپنا اثر چھوڑے گا ، ہمارے اداکاروں کی ایکٹینگ  پر بھی اس کا اثر دکھائے دے گا ۔

کچھ عرصہ پہلے دو، تین سو افراد پر مشتمل  ملک کے مشہور ومعروف اداکار ملاقات کےلئے آئے تھے ، اس ملاقات میں انہوں نے بھی اپنی تجاویز وآراء پیش کیں اور ہم نے بھی کچھ باتیں ان کے سامنے رکھیں ، اسی نشست میں ایک نکتہ میرے ذہن میں آیا ، جسے میں نے ان کے گوش گزار کردیا، میں نے ان سے کہا کہ آپ حضرات جن میں سے کچھ فلمی ڈائریکٹر ہیں کچھ اداکار و ہدایت کار ہیں ، اگر آپ مجھ سے یہ سوال کریں کہ ہم مذہبی فلم بنانا چاہتے ہیں ، ہم کس موضوع پر فلم بنائیں ؟ اس فلم کی داستان کیا ہو ؟ فرض کیجئے کہ ہم حجاب کے موضوع پر فلم بنانا چاہتے ہیں ، اس کا مضمون کیسا ہو ، کہاں سے شروع کریں ، لوگوں سے کیا بیان کریں ؟ ہم توحید، نبوّت ، ولایت ، ولایت ِ فقیہ یا امامِ امّت (رہ) کے بارہ میں لوگوں کے عقائد کی تقویت کرنا چاہتے ہیں ، اس کے لئے ہماری فلم کا موضوع کیا ہو اس کی داستان کیاہو؟ وہ انسان جو دینی ماحول کا پروردہ نہ ہو، جو علمِ دین سے آشنا نہ ہو، ان میں سے بعض تو قرآن سے بھی آشنا نہیں ہیں ، نھج البلاغہ اور حدیث سے آشنا نہیں ہیں  ، انہیں کیا معلوم کہ ان فلموں کا مضمون کیسا ہونا چاہیے۔ لیکن ہم تو جانتے ہیں ، ہمیں ایسے افراد کی ٹریننگ وتربیت کا بندو بست کرنا چاہیے ، اگر ہم اس فکر کو منظّم ومرتّب  کرنے میں کامیاب ہو جائٰیں  ، اسے منطقی شکل دینے ،عام فہم اور  ، قابلِ یقین  بنانے میں کامیاب ہو جائیں تو اس فلم کے اداکار پر بھی اس کا اثر دکھائی دے گا ،ناظرین بھی اس سے متاثر ہوں گے ۔ یہی وجہ ہے  کہ جب کوئی ایسا اداکار اس میدان میں قدم رکھتا ہے  جو مذہبی ودینی سابقہ رکھتا ہو تو اس کی فلم  ایک عمدہ فلم کی صورت میں سامنے آتی ہے البتّہ ایسے اداکار و فنکار  شاذو نادر ہی دکھائی دیتے ہیں ، لہٰذا یہ ہمارا کام ہے ، یہ ہماری ذمّہ داری ہے کہ ہم ان نقائص کا ازالہ کریں ۔

یہ چند نکات ، خارجی مسائل کے بارہ میں تھے جنہیں ہم نے آپ کے گوش گزار کیا ، ان میں سے سب سے اہم مسئلہ ہمارے خلاف  دشمن کی سرتوڑ کوشش کا مسئلہ ہے ، اس سلسلہ میں کہنے کو بہت کچھ ہے اگر ہم اس پر مزید گفتگو کرنا چاہیں تو کر سکتے ہیں۔

اب ہم اسلامی جمہوریہ ایران کی اندرونی و بیرونی صورتِ حال کا جائزہ لینا چاہتے ہیں ، اسلامی نظام ِحکومت کے قابلِ فخر تین عشروں میں ہمارے اوپر متعدّد حملے کئے گئے ، ان حملوں میں نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کی کوشش کی گئی ، اسلامی اور انقلابی شناخت کو نشانہ بنایا گیا ، انقلاب کی روح کو نابود کرنے کی کوشش کی گئی ، گزشتہ تیس سال میں ہمارے اوپر حملوں کی بھرمار کی گئی ، ہمارے اصلی نعروں کو تحریف کا نشانہ بنایا گیا ، ان کے غلط معنیٰ کئے گئے ، عوام کو انقلاب سے منحرف کرنے کی منصوبہ بند کوششیں کی گئیں ، ماضیٔ قریب میں متعدّد مرتبہ  قانون شکنی کی گئی ، ان قانون شکنیوں کے لئے قسم قسم کے جواز اور بہانے تراشے گئے ، مختلف سازشیں رچی گئیں لیکن اس کے باوجود انقلاب و  عوام ثابت قدم رہے، انقلاب ثابت قدم رہا، عوام ثابت قدم رہے ، ملک کے حکاّم اور اعلیٰ عہدیدار جو اس عظیم مجموعہ کا حصّہ ہیں انہوں نے بھی سرگرم کردار اداکیا ، ثابت قدمی دکھائی ، عوام کو حالات سے آگاہ کیا ، جس کے نتیجہ میں انقلاب اپنی منزل کی طرف آگے بڑھتا رہا اور ہمارے دشمن  اپنے ناپاک عزائم میں کامیاب نہیں ہوسکے، یہی وجہ ہے کہ گزشتہ صدارتی الیکشن میں ہمارے عوام نے غیرِ اسلامی اور غیر مذہبی نعروں کو یکسر مسترد کر دیا ، یہ بہت اہم چیز ہے ، لوگوں  نے اس شخص کی آواز پر لبّیک  کہا جو اسلامی اور مذہبی نعرہ لگا رہا تھا ، جو نوکرشاہی کے خلاف نعرہ لگا رہا تھا، جو اجتماعی عدل و انصاف کی بات کر رہا تھا ، اس سے ہمارے عوام کی بیداری ظاہر ہوتی ہے ، عوام کو ان نعروں سے والہانہ لگاؤ ہے ، عوام ، ہمارا احترام کرتے ہیں چونکہ وہ اسلام کو دوست رکھتے ہیں ، ہمیں اسلام کا مظہر و مبلّغ سمجھتے ہیں ۔

یہ ہمارے عوام کی سب سے بڑی خصوصیت ہے ، اس کی بہت اہمیت ہے ، گزشتہ تیس برس میں انقلاب کو مسلسل نشانہ بنایا گیاہے اس کے باوجود ہمارے عوام آج بھی ثابت قدم ہیں ، آج بھی انقلاب کے نعرے زندہ ہیں ، آج بھی ہمارے سماج میں امامِ امّت(رہ)  کے خیالات جاری و ساری ہیں ، امام کا سکّہ آج بھی چل رہا ہے ، جو لوگ عوام میں مقبولیت کے خواہاں ہیں وہ امام کی باتوں کو دہرا رہے ہیں ، وہ اپنے آپ کو امام (رہ) سے نسبت دے رہے ہیں ، ابھی ماضیٔ قریب کی بات ہے کہ معاملہ اس کے بالکل برعکس تھا جب کچھ لوگ امام (رہ) کی مخالفت کا راگ الاپ رہے تھےاور انہوں نے یہ نعرہ لگایا تھا کہ انقلاب دفن ہو چکا ہے ! انہوں نے واشگاف لفظوں میں اس کا اظہار کیا ، ان میں سے بعض تو اس حد تک بڑھ گئے  اور کہنے لگے کہ ہمیں لوگوں کو خدا سے جدا کرنا چاہیے ! وہ مائیک پر اس کا کھلم کھلّا اعلان کر رہے تھے ، لیکن آج ان میں یہ باتیں دہرانے کی جرات و  جسارت نہیں  پائی جاتی ۔ آج بھی جو لوگ عوام سے کوئی بات کرنے پر قادر ہیں ، جن کے پاس کوئی اسٹیج یا اپنی بات پہنچانے کا کوئی دوسرا ذریعہ ہے وہ امامِ امّت (رہ) ، انقلاب اور امام کے نعروں کی حمایت کا دم بھرتے ہیں، البتّہ انہوں نے اس کے لئے اپنے مخصوص طریقے اپنا رکھے ہیں ، یہ بہت اہم ہے ، یہ اس بات کی علامت ہے کہ آج بھی ہمارے ملک میں امام (رہ) اور انقلاب کی روش و طریقہ کو خاص و عام میں مقبولیت حاصل ہے اور آج بھی ان کا سکّہ چلتا ہے ، یہ بہت بڑی چیز ہے ۔

جیسا کہ ہم نے کہا کہ عوام نے مختلف حملوں کا بھر پور مقابلہ کیا ، جس کی ایک مثال سنہ ۱۳۸۸ ھ۔ش (۲۰۰۹ ع) میں رونما والا فتنہ  ہے ، عوام نے اس کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ، جن لوگوں  نے کسی دوسرے صدارتی امیدوار کو ووٹ دیا تھا وہ بھی میدان میں کود پڑے اور اس فتنہ کا مقابلہ کیا ، جیسا کہ آپ نے مشاہدہ کیا ۹ دی اور بائیس بہمن کے دن سبھی نے ان عظیم ریلیوں میں بھر پور شرکت کی ، یہ اس بات کی علامت ہے کہ فتنہ برپا کرنے والے افراد کی تعداد بہت کم ہے ، لیکن انہوں نے جھوٹ سے کام لیا اور عوام کو اپنے ساتھ ملانے کی ناکام کوشش کی ، ابتداء میں انہیں اس مقصد میں کچھ کامیابی بھی ملی لیکن جب ان کے چہرے سے نقاب الٹی ، ان کی رفتار و گفتار سے ان کی حقیقت عیاں ہوئی تو عوام نے ان کی حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا، ہمارے عوام نے انتہائی ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ، ملک کی صورتِ حال کے بارہ میں یہ ایک اہم نکتہ ہے  جس کی طرف میں نے اشارہ کیا ۔

ایک دوسرا نکتہ ملک کی ترقّی و پیشرفت کے متعلّق ہے ، سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ملکی ترقّی سے سبھی واقف ہیں ، ہم نے بھی متعدّد بار اسے بیان کیا ہے ، دوسروں نے بھی اس پر روشنی ڈالی اور آپ بھی اس سے بخوبی آشنا ہیں ،  بلا شبہ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ہمارے ملک نے حیرت انگیز ترقّی کی ہے۔ بعض چیزوں کو ٹیلیویژن پر یوں ہی سرسری انداز میں بیان کر دیا جاتا ہے کہ ہمارے ملک نے فلاں سائنسی میدان میں پیشرفت کی ہے یا فلاں سائنسی پروجیکٹ کا افتتاح ہوا ہے ، لیکن جب ہم اس کے پسِ پردہ کارفرما عوامل پر نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں اس کام کی عظمت کا اندازہ ہوتا ہے ، اور ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ اس کی کتنی زیادہ اہمیت ہے ، اس کے لئے کتنی علمی استعداد و کاوش درکار ہے ، جو آج ہمارے سامنے کسی نئی ایجاد کی صورت میں ظاہر ہوئی ہے ،سائنس و ٹیکنالوجی اور صنعت کے مختلف میدانوں میں آج یہ برق رفتار ترقّی جاری و ساری ہے ۔ یہ تو اپنی جگہ مسلّم ہے لیکن میری نظر میں  سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہماری قوم میں خود اعتمادی اور توانائی کا احساس بیدار ہو چکا ہے ، اس میں یہ جذبہ جاگ اٹھا ہے ۔

ماہِ رمضان میں منعقد ہونے والی نشستیں میرے لئے بہت بڑی توفیق تھیں  ، ان نشستوں میں یونیورسٹی کے طلبہ ، اساتذہ ، ممتاز دانشور، ملک کے اعلیٰ حکّام اوراہلکار، اہلِ صنعت اور ملک کے دیگر سرگرم شعبوں سے تعلّق رکھنے والے افراد شامل تھے ، کوئی ان سے یہ نہیں کہتا تھا کہ وہ یہاں کیا بیان کریں ، بلکہ ان سے کہا جاتا تھا کہ وہ اپنے دل کی بات کہیں ، ان کی باتیں ، ان کا اظہارِ خیال  خود اعتمادی کے جذبہ سے سرشار تھا ، ان کی باتیں اس بات کی غمّاز تھیں کہ ملک کی ترقّی کے سلسلہ میں جو بھی کام انہوں نے انجام دئیے ہیں وہ ان سے کئی گنا زیادہ کام کر سکتے ہیں  ، یہ بہت اہم چیز ہے ، یہ وہی جذبہ ہے جسے امامِ امّت (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ) ہمارے اندر پیدا کرنا چاہتے تھے ، آج ہماری قوم میں یہ جذبہ جاگ اٹھا ہے ، آج ہمارے جوان ترقّی و پیشرفت کی بات کر رہے ہیں ، ایک نوجوان نے یہاں پر کچھ گفتگو کی اور کہا کہ میں نے ملک کی سائنسی وعلمی ترقّی کا ایک جامع منصوبہ تدوین کیا ہے جسے میں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ، وہ منصوبہ جسے ملک کی اعلیٰ ثقافتی کونسل نے تیّار کیا ہے اس میں نقائص پائے جاتے ہیں ۔ یہ خود اعتمادی کی ایک اعلیٰ مثال ہے ، میں اس  کے جذبۂ خود اعتمادی سے بہت محظوظ ہوا ، عین ممکن ہے کہ اس کا منصوبہ ہمارے لئے سو فیصد قابلِ قبول نہ ہو ، لیکن یہ بہت اہم بات ہے کہ ملک کا ایک عام طالب علم اپنے دو ، تین ساتھیوں کے تعاون سے ملک کا ایک  جامع علمی منصوبہ تدوین کرے اور اسے کسی طاقچہ کی زینت بنانے کے بجائے کھلے عام مجھے دے، آج ہمارے ملک کے جوانوں،  مؤمن  اور اچھے اساتذہ پر ایسے جذبات حکم فرما ہیں ، یہ بہت اہم چیز ہے ۔

اگر ہم نقائص ، مشکلات ، ناکامیوں کو دیکھتے ہیں تو ہمیں ان کے ساتھ ساتھ ان چیزوں کو بھی دیکھنا چاہیے ، یہ چیزیں بہت اہم ہیں ، یہ وہ چیزیں ہیں جو ہماری سمت و سو اور اہداف کا تعیّن کرتی ہیں ، ورنہ کس دور میں ہمارے درمیان کچھ برے قانون شکن  اور ضعیف النفس عناصر موجود نہیں  تھے ، کس دور میں ہمارے مخالف اور ہم پر جملے کسنے والے افراد موجود نہیں تھے ؟ ہر دور میں ایسے افراد رہے ہیں ، لیکن "انجن" کی اہمیت سب سے زیادہ ہے اور وہی اس ملک کی پیشرفت کا سب سے بڑا عامل ہے  ، ممکن ہے اس ٹرین میں کچھ لوگ ایک دوسرے کے دست و گریبان ہوں ، ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالیں ، ٹرین کو گندہ کریں ، لیکن اس سے ٹرین کی رفتار پر کوئی اثر نہیں پڑتا وہ پوری برق رفتاری سے اپنی منزل کی طر ف رواں دواں ہے ، یہ اختلافات پائے جاتے ہیں ، ان میں کوئی قباحت نہیں ، بد اعمالی بھی ہے ، کوئی اس ٹرین میں نافلۂ شب ، نمازِ جعفرِ طیّار میں مشغول ہے اور کوئی کسی نازیبا حرکت کا ارتکاب کر رہا ہے ہر قسم کے لوگ پائے جاتے ہیں ، لیکن آگے کی سمت پیش قدمی ، منزل و ہدف کی سمت حرکت ، امّید ، ہدف و مقصد کے ساتھ منزل کی طرف پیش قدمی  یہ سب چیزیں بھی ہیں ، ہمیں ان پر نگاہ رکھنا چاہیے ۔ آج ہمارے ملک میں روزگار ، تعمیر و ترقّی کے بے شمار مواقع ہیں ،  ایجادات  ہیں ، جذبۂ خود اعتمادی موجود  ہے ، ہم ان چیزوں کا مشاہدہ کر رہے ہیں ، بہت سے اہم کام انجام پائے ہیں جو میری نگاہ میں بہت قیمتی و اہم ہیں ، جیسا کہ مجھے معلوم ہوا ہے  کہ ملک میں بہت سے اچھے اور مفید پروجیکٹوں پر کام جاری ہے  ۔

ملک  کی مجموعی صورتِ حال کے بارہ میں میرا تجزیہ و تحلیل یہ ہے جسے میں نے آپ کے سامنے بیان کیا ، میں ملک کے تمام حالات سے باخبر ہوں ، میں ان مسائل سے بھی آگاہ ہوں جو عام طور سے بیان کئے جاتے ہیں ، اس کے علاوہ میں مسائل کی تفصیلات سے بھی واقف ہوں ، ملک کے حالات کے بارہ میں ، میں نے تو تجزیہ پیش کیا اس پر چند نکات  مترتّب ہو تے ہیں ۔

سب سے پہلا نکتہ یہ ہے کہ دشمن کے دباؤ اور مشکلات نے ہمیں کمزور نہیں کیا ، گزشتہ تیس برس کی سختیوں اور مشکلات  نے ہمیں کمزور نہیں کیا بلکہ ہمیں زیادہ مضبوط و طاقتور بنایا ہے ، امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السّلام  کا ارشادِ گرامی ہے " الاو انّ الشجرۃ البرّیّۃ اصلب عودا۔۔۔۔واقویٰ وقودا"(۵) جنگل کے درختوں کی لکڑی زیادہ مضبوط ہوتی ہے ، صحرائی جھاڑکا ایندھن زیادہ بھڑکتا بھی ہے اور اس کے شعلے دیر میں بجھتے  بھی ہیں ، سخت حالات کی خاصیت یہی ہوا کرتی ہے ، مشکلات اور سخت و دشوار حالات ، قوموں میں ثباتِ قدم پیدا کرتے ہیں ، ملک کے حکّام ،اعلیٰ اہلکاروں اور  رہبروں کو مضبوط و طاقتور بناتے ہیں، بالکل ویسے ہی ہے جیسے کوئی سخت ریاضت و ورزش کسی کھلاڑی کی تقویت میں مفید ثابت ہوتی ہے، یہ سخت و دشوار حالات ان کی طاقت میں اضافہ کرتے ہیں ، ان کے عزم و حوصلہ کو دوچنداں کرتے ہیں ، وہ عظیم معرکوں کو سر کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، الحمد للہ ہمارے ملک میں یہی چیز رونما ہوئی ہے ، یہ پہلا نکتہ ہے ۔

دوسرا نکتہ یہ ہے کہ ہم پر جو بھی دباؤ ڈالا جا رہا ہے اس کا انجام شکست و ناکامی کی صورت میں ظاہر ہوگا، آج تک کا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے ، اس کے علاوہ خدا نے بھی نصرت کا وعدہ کیا ہے " ولینصرنّ اللہ من ینصرہ "(۶) جو خدا کی مدد کرے گا خدا بھی یقینا اس کی مدد  کرے گا ،اس کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات میں اس حقیقت کو بیان کیا گیا ہے ،دباؤ کانتیجہ غالبا الٹا نکلتا ہے، وہ کچھ مدّت کے لئے اپنے مدِّ مقابل پر دباؤ ڈالتے ہیں لیکن جب ثابت قدمی دکھائی دیتی ہے تو یہ دباؤ خود بخود ختم ہو جاتا ہے ، آج کی جنگ ، عزم و ارادہ کی جنگ ہے ، جس کا عزم پختہ ہو ، جو عزمِ راسخ کا حامل ہو وہی اس میدان میں کامیاب ہوگا ، ہمارے دشمنوں کو شکست ہوگی ، اگر اس دباؤ کی وجہ سے اسلامی نظام کی شکست ممکن ہوتی تو انقلاب کے پہلے عشرہ میں اسے شکست ہو چکی ہوتی ، جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ اس دور میں ہمارا دشمن آج کے مقابلہ میں زیادہ طاقتور تھا اور ہم بہت کمزور تھے ، ہماری توانائی و استعداد بھی کم تھی ، ہمارے وسائل بھی بہت محدود تھے ، ہم ابھی باقی دنیا کو نہیں پہچانتے تھے ، ہمارے پاس تجربہ کی بھی کمی تھی ، الحمد للہ آج ان خامیوں اور نقائص کا ازالہ ہو چکا  ہے ، اس دور کے بہت سے نقائص کو دور کر دیا گیا ہے ، عوام کا جذبہ بھی بہت اچھا ہے ، آج ہمارے عوام عزم و ولولہ سے سرشار ہیں ، خدانخواستہ اگر آج بھی کوئی جنگ چھڑ جائے تو آپ دیکھیں گے کہ موجودہ نسل جو انقلاب کی تیسری نسل کہلاتی ہے اس کا جذبۂ ایثار و قربانی پہلی نسل سے کسی درجہ کم نہیں  ہے ، شاید اس دور کی نسل سے زیادہ ہو ، آج ہمارے ملک پر یہ حالت حکم فرما ہے ، لہٰذا یہ پابندیاں شکست سے دوچار ہوں گی ، لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم بیدار رہیں ، سب سے بڑی شرط یہ ہے کہ ہم بیدار رہیں ، ہم خوابِ غفلت کا شکار نہ ہوں ، یہ خطرے کے الارم ہمیں بیدار رکھیں ، سب سے بڑی شرط یہ ہے ۔

تیسرا نکتہ جو ایک بنیادی نکتہ ہے وہ یہ ہے کہ ہم عوام میں امّید اور اعتماد کا چراغ جلائے رکھیں ، یہ وہ کام ہے جو ہماری اورآپ کی ذمّہ داری ہے ، ہم صاحبانِ عمامہ و عباو قبا، ہم حکام ، آئمّہ جمعہ و جماعات کی سب سے بڑی ذمّہ داری یہ ہے کہ وہ لوگوں میں  امّیدقائم رکھیں، انہیں اطمینان دلائیں ، اگر عوام مایوس ہو جائیں بدگمانی کا شکار ہوئیں تو ایسی صورت میں ہماری شکست یقینی ہے ، امّید ہی وہ چیز ہے جو کسی جانباز سپاہی کو محاذ پر باقی رکھتی ہے ، اس کے اندر  کامیابی کی امّید ہونا چاہیے تاکہ وہ محاذِ جنگ پر قدم جمائے رکھے۔ ہماری کامیابی کا اصلی راز مختلف میدانوں میں عوام کی موجودگی میں مضمر ہے ، عوام کی میدان میں موجودگی ، امّید اور ملکی حکّام پر اطمینان اور اعتماد کی مرہونِ منّت ہے ، ہمیں اس امّید اوراطمینان کی تقویت کرنا چاہیے، عوام کو خائف و ہراساں نہیں کرنا چاہیے ، عوام میں بد گمانی نہیں پیدا کرنی چاہیے ،  قرآن ِ مجید کو ملاحظہ کیجئے ارشادِ ربّ العزّت ہے " الّذین قال لھم النّاس انّ النّاس قد جمعوا لکم فاخشوھم " (۷)(یہ وہ ایمان والے ہیں کہ جب ان سے بعض لوگوں نے کہا کہ لوگوں نے تمہارے لئے عظیم لشکر جمع کر لیا ہے لہٰذا ان سے ڈرو) ڈرانے کی پالیسی دشمن کی پالیسی ہے ، دشمن کہہ رہا ہے " قد جمعوا لکم فاخشوھم " انہوں نے تمہارے لئے عظیم لشکر جمع کر لیا ہے لہٰذا ان سے ڈرو، ایک دوسری آیت میں ڈرانے  کو شیطان سے  منسوب کیا گیا ہے " انّما ذٰلکم الشّیطان یخوّف اولیائہ " (۸)(یہ شیطان صرف اپنے چاہنے والوں کو ڈراتا ہے ) ۔ ایک دوسری آیت میں ارشاد ہوتا ہے " لئن لم ینتہ المنافقون و الّذین فی قلوبھم فرض والمرجفون فی المدینۃ لنغرینّک بھم " (۹)(پھر اگر منافقین اور جن کے دلوں میں بیماری  ہے اور مدینہ میں افواہ پھیلانے والے اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے تو ہم آپ کو ان پر مسلّط کر دیں گے )مذکورہ آیات میں لوگوں کو  ڈرانے  انہیں مایوس  اور بد گمان کرنے کی مذمّت کی گئی ہے۔اس کے برخلاف  کچھ دیگر آیات میں صبر و پائداری ؛ ایک دوسرے کو حق کی پیروی کی نصیحت  کی تعریف کی گئی ہے " والعصر ، انّ الانسان لفی خسر، الّا الّذین آمنو ا و عملوا الصالحات و تواصوا بالحقّ و تواصوا بالصبر " (۱۰) (قسم ہے عصر کی ، بے شک انسان خسارہ میں ہے ، علاوہ ان لوگوں کے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے  اور ایک دوسرے کو حق وصبر کی نصیحت و وصیت کی )مؤمن ایک دوسرے کے ولی و مددگار ہیں " والمؤمنون و المؤمنات بعضھم اولیاء بعض "(۱۱) مؤمن مرد اور مؤمن عورتیں آپس میں سب  ایک دوسرے کے ولی و مدد گار ہیں ،یہ ہمارا فریضہ ہے ، لہٰذا ہمیں امّید و اعتماد پر خصوصی توجّہ دینا چاہیے ۔

اصلی اور بنیادی نوعیت کے مسائل کو فرعی مسائل سے جدا کرنا چاہیے ، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ فرعی مسائل کو پیش نہ کیا جائے ، تمام مسائل کو ان کی تفصیلات و جزئیات کے ساتھ پیش  کیا جانا چاہیے ، لیکن ان مسائل کو اصلی مسائل سے مخلوط نہیں ہونا چاہیے اور ان مسائل کو مخالفت و حمایت کا معیار نہیں بننا چاہیے ،مخالفت و حمایت کا اصلی معیار ، حق و  صراطِ مستقیم ہے ، شریعت ہے ، دینداری ہے ، اسلامی انقلاب کے اصول کی پابندی ہے ، امام (رہ) کے اہداف و مقاصد کی پابندی ہے ، سامراج کا مقابلہ ہے ، سامراجی طاقتوں سے بد گمانی ہے ۔ یعنی ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ ہمارا دشمن کون ہے ؟ ایسا نہ ہوکہ ہم اپنے اس دوست سے جو ہماری بغل میں بیٹھا ہو کینہ رکھتے ہوں اور ہمارا دل بے شرم سامراجی طاقتوں کے ساتھ ہو ، ہم ان سے مدد مانگ رہے ہوں ، ان پر بھروسہ کرتے ہوں ، ایسا  نہیں ہونا چاہیے ۔

ایک اہم مسئلہ جو ہمیشہ ہی میرے ذہن میں رہتا ہے ، آپ نے بھی یہاں اس کا ذکر کیا ، سبھی کو اس کی تشویش ہے ،ثقافت کا مسئلہ ہے ، ثقافت کا مسئلہ ، اقتصاد سے بھی زیادہ اہم ہے ، سیاسی مسائل سے بھی زیادہ اہم ہے ، ثقافت کیا ہے ؟ ثقافت ایک جامع عنوان ہے جو ہمارے ادراک و فہم ، عقائد و ایمان ، جذبات اور اخلاقیات  پر محیط ہے ، یہی چیزیں انسان  کو کام و فعّالیت پر آمادہ کرتی ہیں ، اگر کسی ملک پر فرض شناسی کی ثقافت حکم فرما ہو تو یہ ثقافت وہاں کے عوام کو اپنے فرائض کی ادائیگی پر آمادہ کرے گی ، اس کے بر عکس اگر یہ ثقافت حاکم نہ ہو تو وہاں کے عوام ، اس ملک میں رونما ہونے والے واقعات ، اپنے دوست و دشمن  کے تئیں کوئی ذمّہ داری محسوس نہیں کریں گے ۔

لوگوں میں فرض شناسی کا جذبہ پیدا کرنا ، ان کی  فکر و روح میں اس جذبہ کا پھونکنا ، یہ ثقافت کی تقویت ہے ، فرض شناسی ، نظم و ضبط ، ایک دوسرے کا تعاون ، اسراف و فضول خرچی سے اجتناب ، مصرف کے معیار کی اصلاح ، جذبۂ ایثار و قربانی ، جذبۂ قناعت و کفایت شعاری ، ملکی مصنوعات میں استحکام پیدا کرنا یہ سبھی چیزیں ثقافت کے زمرے میں آتی ہیں ، ہمیں ان کی تقویت کرنا چاہیے ، اس کے علاوہ حسنِ عمل ، امام (رہ) اور انقلاب کے نظریات کو زندہ رکھنا، اسلامی اتّحاد و وحدت (جو قرآن کا حکم ہے اور ہماری عقل بھی اسی کا تقاضا کرتی ہے ) پر کاربند رہنا، اپنے اہل وطن اور امّت مسلمہ سے اتّحاد و یکجہتی کا مظاہرہ کرنا ، ایک دوسرے کی عزّت و ناموس کے بارہ میں تعصّب رکھنا ، یہ چیزیں بھی ثقافت کا حصّہ ہیں ، البتّہ سادہ زندگی بسر کرنا اور پاک دامنی  کی رعایت کرنا بھی ثقافت کے دائرہ میں آتا ہے ۔

یہ کام کسی کی ذمّہ داری ہے ؟ اس سلسلہ میں میڈیا بہت اہم کردار ادا کر سکتا ہے لیکن میڈیا تو محض ایک ڈھانچہ ہے ، اس میں رنگ ہمیں بھرنا ہے ، یہ ایک مفصّل موضوع ہے  جس پر یہاں بحث نہیں کی جاسکتی ، انشاء اللہ مناسب موقع پر میں اس سلسلہ میں گفتگو کروں گا ، ہمارے اوپر اور حوزۂ علمیہ پر  بہت ہی اہم ذمّہ داریاں عائد ہوتی ہیں ، ہمیں انشاء اللہ ان  امور کو انجام دینا چاہیے ، ہماری گفتگو بہت طویل ہو چکی ہے اس لئے اسی پر اکتفا کرتا ہوں ۔

خدایا! ہم سب کو امام (رہ) اور انقلاب کے راستہ پر باقی رکھ ، ہماری زندگی کو اسلام کے لئے وقف کر دے ، ہماری موت و حیات کو اپنی راہ میں قرار دے ، ہماری رفتار و گفتار، اعمال و کردار میں  اخلاص عطا فرما ۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) سورہ فتح، آیت ۴۔۔۔۷ ترجمہ : وہی خدا ہے جس نے مؤمنین کے دلوں میں سکون نازل کیا ہے تاکہ ان کے ایمان میں مزید اضافہ ہوجائے اور اللہ ہی کے لئے زمین و آسمان کے سارے لشکر ہیں اور وہی تمام باتوں کا جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے ، تاکہ مؤمن مرد اور مؤمنہ عورتوں کو ان جنّتوں میں داخل کر دے جن کے نیچے نہریں  جاری ہیں ، وہ انہیں میں ہمیشہ رہیں اور ان کی برائیوں کو ان سے دور کر دے اور یہی اللہ کے نزدیک عظیم ترین کامیابی ہے ، اور منافق مرد ، منافق عورتیں ، اور مشرک مرد و عورت جو خدا کے بارہ میں بر ے برے خیالات رکھتے ہیں ان سب پر عذاب نازل کرے ، ان کے سر عذاب کی گردش ہے اور ان پر اللہ کا غضب ہے خدا نے ان پر لعنت کی ہے اور ان کے لئے جہنّم کو مہیّا کیا ہے جو بدترین انجام ہے ، اور اللہ ہی کے لئے زمین و آسمان کے سارے لشکر ہیں اور وہ صاحب ِ عزّت بھی ہے اور صاحبِ حکمت بھی ہے ۔

(۲)سورہ رعد ، آیت ۳۸

(۳) نھج البلاغہ ، مکتوب ۶۲

(۴) صحیفۂ سجّادیہ ، دعا ۲۰

(۵)نہج البلاغہ ، مکتوب ، ۴۵

(۶) سورۂ حج ، آیت ۴۰

(۷)آلِ عمران ، آیت ، ۱۷۳

 (۸)سورۂ آل عمران ، آیت ۱۷۵

 (۹) سورۂ احزاب ، آیت ۶۰

(۱۰) سورہ والعصر ، آیت ۱۔۔۔۔۳

(۱۱) سورہ توبہ ، آیت ۷۱