ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

ملک کے نامور دانشوروں اور ممتاز علمی حلقے سے ملاقات میں خطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

و الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی‌ القاسم المصطفی محمّد و علی آلہ الطّیّبین الطّاھرین المعصومین سیّما بقیّۃ اللہ فی الارضین۔(1)

آپکو خوش آمدید عرض ہے. مجھے واقعی خوشی ہے کہ مجھے ملک کے نامور دانشوروں سے ملنے کا موقع ملا ہے۔ ان نشستوں کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ معزز احباب نے جو یہاں بیان کیا اس کے لیے میں شکر گزار ہوں۔ اہم نکات کی وضاحت کی۔ قابل ذکر نکات کو ذکر کیا۔ تاہم، میں احباب کی باتوں کے بارے میں دو نکات بیان کرنا چاہوں گا۔

ایک یہ کہ تقریباً تمام مسائل، ایک یا دو استثناء کے ساتھ، انتظامی مسائل ہیں۔ انتظامی اداروں کو اجرائی معاملات کو دیکھنا چاہئے۔ یقیناً ہم اس پر بھی نظر رکھیں گے۔ میں درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ جن چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے ان کو نوٹ کیا جائے، شاید اس کا خلاصہ یا جائزہ لینے کی ضرورت ہو، پھر ہم اسے ایگزیکٹو حکام تک پہنچائیں گے۔ البتہ ملک کی انتظامی برانچ کے عہدیداروں کے ساتھ آپ اپنی ملاقاتوں میں، الحمد للہ وہ بھی متحرک ہیں، ان کے سامنے رکھیں، تاکہ ان کی پیروی کی جاسکے۔ یہ ایک نقطہ ہے۔

ایک اور نکتہ یہ ہے کہ ایسے ادوار تھے جب علمی حلقوں اور سرکاری حلقوں کے درمیان کافی فاصلہ تھا۔ لیکن آج ایسا نہیں ہے۔ آج آپ جیسے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد حکومت کے انتظامی شعبے کا حصہ ہے۔ حتیٰ کہ وزارت کی سطح پر، سیکرٹریٹ کی سطح پر، حتیٰ کہ درمیانی سطح کے افسران کی صفوں میں بھی۔ یہ چیزیں وہاں کیوں نہیں پہنچائی جا رہی ہیں؟ وہی لوگ جو یہاں کھڑے ہو کر آپ کی طرح اپنے خیالات کا اظہار کرتے تھے آج ملک کے انتظامی ڈھانچے کا حصہ ہیں۔ وہ ابھی تک جوان ہیں، بوڑھے اور ادھیڑ عمر بھی نہیں ہیں ۔ آپ جیسے نوجوان ہیں۔ یہ آپس میں کیوں نہیں مربوط ہوتے؟ زنجیر کیوں نہیں بنتی اور ان چیزوں کو منتقل کیوں نہیں کیا جاتا؟ ملک کے مختلف اداروں میں اس کام کے بارے میں سوچیں۔ مثال کے طور پر گاڑیوں کا موضوع اٹھایا گیا۔ اس وقت وزارت صنعت، معدنیات اور تجارت میں ممتاز صلاحیت کے حامل محنتی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد موجود ہے۔ وہاں گاڑیوں کا موضوع سامنے لائیں، بحث کریں۔ یا یہاں پر جو دیگر مباحث ہوئے ان میں محروم علاقوں کی بحث بھی شامل تھی۔ حکومت نے پسماندہ علاقوں کے لیے ایک شعبہ مختص کیا ہے۔ (2) نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ یہاں تک کہ مجھے لگتا ہے کہ ان میں سے کچھ اب بھی پڑھ رہے ہیں، لیکن وہاں کام بھی کر رہے ہیں۔ ان چیزوں کو انکے سامنے رکھیں، ان کی پیروی کریں۔ یہ باتین یہاں صرف تقریر کرنے کے لیے نہیں ہونی چاہیے۔ بہرحال جو چیزیں پیش کی گئیں وہ بہت اچھی تھیں، انشاء اللہ ہم دیکھیں گے، میں کہوں گا کہ ان پر توجہ دیں، ان کی پیروی کریں۔ میں خود صدر سے ان میں سے کچھ موضوعات پر بات کر سکتا ہوں۔ تاہم، میری نظر میں، آپ کو ان معاملات میں زیادہ عملی انداز میں قدم رکھنا چاہیے۔

میں نے ممتاز علمی قابلیت، ممتاز افراد اور سائنسی ترقی کے بارے میں دو یا تین نکات لکھے کیے ہیں جو میں عرض کروں گا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ ملک میں علمی و سائنسی تحریک دو دہائی یا اس سے زیادہ پہلے شروع ہوئی۔ ایک زبردست آغاز، یعنی یہ ایک تحریک میں بدل گیا ہے۔ طلباء اور یونیورسٹیوں کے اندر چند نعرے لگنے لگے، جیسے کہ 'ملک کی سائنسی سرحدوں کو عبور کرنا ہے' اور 'سافٹ ویئر موومنٹ' کچھ ایسے نعرے ہیں جو ان دنوں مقبول ہوئے اور ان کا بہت اثر ہوا۔ دوسرے لفظوں میں یونیورسٹیوں کے اندر ایک مہم اور تحریک وجود میں آئی اور الحمدللہ یہ سلسلہ جاری رہا۔ یعنی یہ کوئی ایسی چیز نہیں تھی جو اچانک اٹھی اور ختم ہو گئی بلکہ جاری رہی۔ دراصل ملک میں علم کے ایجاد کی تحریک شروع ہو چکی ہے۔ یہ حقیقت ہے. علمی اور سائنسی ترقی، سائنس اور ٹیکنالوجی کے محاذ پر آگے بڑھنا وغیرہ جیسے کچھ نعرے یونیورسٹیوں میں آئے تو واقعی ایک جدوجہد شروع ہو گئی۔ یہاں تک کہ اس وقت سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں منصف کے طور پر کام کرنے والے مراکز نے کہا کہ ملک کی سائنسی ترقی کی رفتار دنیا کی سائنسی ترقی کی اوسط رفتار سے تیرہ یا بارہ گنا زیادہ ہے! یہ بہت اہم ہے۔ یہ انجام پایا۔ اس کے ساتھ ہی، یعنی چند سال پہلے، میں نے علمی ملاقاتوں اور یونیورسٹی نشستوں وغیرہ میں ایک بات کی تھی (3) اور وہ یہ تھی کہ میں نے کہا کہ یہ کہا جا رہا ہے کہ ہماری سائنسی ترقی کی شرح زیادہ ہے۔ لیکن ہمیں کسی وہم کا شکار نہیں ہونا چاہیے کہ ہماری ترقی کی شرح اب تک اتنی زیادہ رہی ہے۔ کیونکہ ترقی کی اس رفتار کے باوجود ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں ابھی تک پیچھے ہیں۔ ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کی دنیا کے مقابلے میں پیچھے ہیں، سائنسی اعتبار سے پیچھے ہیں۔ میں نے بعض مواقع پر یہ بھی بتایا تھا کہ ہم کس طرح پیچھے ہیں۔ اب اسے دہرانا نہیں چاہتا۔ اگر ہم پیچھے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک طویل عرصے میں طاغوتی حکومتوں اور جابر و ظالم سلطانوں کے ادوار میں، خواہ وہ پہلوی ہوں یا قاجار، یہ ملک جس کا سائنسی اور ثقافتی ماضی ہے، علم و سائنس اور علم و فن کا یہ ملک ہے۔ ہماری عالمی درجہ بندی بہت نیچے تک پہنچ گئی تھی۔ اس ملک کے پاس کچھ نہیں تھا، کچھ بھی نہیں تھا۔

میں آج یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ ہمیں جدید علمی تحریک کے ایک نئے میدان میں داخل ہونے کے لیے خود کو تیار کرنا چاہیے۔ یعنی یہ سچ ہے کہ علمی اور سائنسی تحقیق کے میدان میں کامیابی ہوئی ہے، سائنسی ترقی اچھی ہوئی ہے، بعض شعبوں میں بہت اہم سائنسی مقام حاصل کیا گیا ہے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے حوالے سے دنیا میں ہماری پوزیشن نسبتاً بہتر ہے۔ یہ سب سچ ہے لیکن آج ہمیں ملک کی جامعات کی جانب سے ایک تخلیقی اور اختراعی تحریک کی ضرورت ہے تاکہ وہ پیچھے رہ جانے سے بچ سکیں۔ ہم آگے بڑھے لیکن دوسرے اور بھی آگے بڑھ گئے۔ حتیٰ کہ خطے کے بعض ممالک کو ایران کی ترقی دیکھ کر آگے بڑھنے کا حوصلہ ملا۔ اگرچہ وہ پیچھے تھے لیکن آج جب ہم اعداد و شمار پر نظر ڈالتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی بہت آگے نکل چکے ہیں۔ خوف اس بات کا ہے کہ کہیں ہم دنیا کی اس سائنسی دوڑ میں پیچھے نہ رہ جائیں۔ یہ خوف حقیقی ہے۔ آپ جانتے ہیں، میں نے بارہا کہا ہے کہ "العلم سلطان" (4) علم طاقت ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک دنیا کے ممالک کو درپیش مشترکہ مسائل سے محفوظ رہے تو سب سے پہلے سائنسی ترقی کی ضرورت ہے۔ اگر ہم پیچھے رہ گئے تو ہم کمزور ہوں گے۔ ہمیں کوشش کرنی چاہیے کہ پیچھے نہ رہ جائیں۔ میں جن کوششوں کی بات کر رہا ہوں تاکہ ہم پیچھے نہ رہیں، سب سے پہلے اس میں سرمایہ کاری کرنا ہے۔ یعنی حکومت سائنسی میدان میں، علم کے شعبے میں سرمایہ کاری کرے۔ ہم نے بارہا کہا ہے کہ یہ کوئی خرچہ نہیں ہے، یہ ایک سرمایہ کاری ہے۔ دراصل ہم ایک سے زیادہ آمدنی، دوہری آمدنی، ایک سے زیادہ توانائی کے لیے راہ ہموار کررہے ہیں۔ اس طرح ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبے میں نجی شعبے کی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، اس کی راہ ہموار کرتے ہیں۔ پس مادی وسائل میں سرمایہ کاری بھی ضروری ہے اور سائنسی ایجادات اور اختراعات میں سرمایہ کاری بھی ضروری ہے۔ یعنی علمی اور سائنسی اداروں کو جدت، اختراع اور تیزی سے منزل تک پہنچانے کے راستے تلاش کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اپنی تمام کوششیں اس پر مرکوز رکھیں۔ دو طرفہ سرمایہ کاری، یعنی مادی سرمایہ کاری اور روحانی سرمایہ کاری دونوں ضروری ہیں۔ لہٰذا میرا پہلا نکتہ یہ ہے کہ ملک کی علمی حلقے اور دانشوروں کو ایک نئی سائنسی اور علمی تحریک شروع کرنے کی ضرورت ہے، یہ تحریک اس حکومت کے تعاون اور حکومت کے اندر موجود نوجوان عہدیداروں کے تعاون سے اور خود آپ ممتاز علمی صلاحیت کے حامل افراد کے ذریعے، جس طبقے کا ایک نمائندہ گروہ یہاں اس وقت موجود ہے، شروع ہونا چاہئے۔ یہ پہلا نکتہ ہے۔

دوسرا مضمون، دوسرا نکتہ، ہمارے ملک کے موجودہ مواقع کے بارے میں ہے۔ جی ہاں، ایک باصلاحیت قوم ترقی کر سکتی ہے، لیکن ایسا نہیں کہ اسے ہمیشہ بڑھنے کا موقع ملے۔ میں نہیں چاہتا کہ مستقبل کے بارے میں کوئی غلط فہمی پیدا ہو۔ نہیں، میری رائے میں، مستقبل ایک روشن اور امید افزا مستقبل ہے، افق ایک روشن افق ہے۔ لیکن ہمارے اپنے تجربات اور ماضی بتاتے ہیں کہ ہمیں حال سے استفادہ حاصل کرنا چاہیے، ہمیں موجودہ حالات اور دستیاب مواقع سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانا چاہیے۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی قوم کی راہ میں‘ کسی حصے میں‘۔ سیاسی حصے، سماجی حصے، سائنسی حصحصے میں - بلند چٹانیں ہوتی ہیں جہاں ان چٹانوں پر جانے اور چڑھنے کی خواہش تو ہوتی ہے، لیکن صلاحیت نہیں۔ کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے، کیونکہ انفراسٹرکچر ہونا چاہیے جو وہاں نہیں ہے، ایسی سہولیات ہونی چاہئیں جو وہاں نہیں ہیں۔ قوت ارادی ہے مگر طاقت نہیں۔ کبھی کبھی ارادہ بھی نہیں ہوتا۔ مایوسی کی وجہ سے، اپنی صلاحیت پر شک کی وجہ سے، اپنی قابلیت پر بھروسہ نہ ہونے یا صورت حال کا علم نہ ہونے کی وجہ سے۔ لہذا، بعض اوقات ایسے معاملات ہوتے ہیں جہاں ترقی کرنے کی کوئی خواہش بھی نہیں ہوتی. یہاں تک کہ بعض اوقات، طاغوت کے دور کی طرح، لوگ ترقی یا اس بلند چوٹی پر چڑھنا بالکل ناممکن سمجھتے ہیں! درحقیقت ہمارے ماضی کے ادوار میں ایسے واقعات ہوئے ہیں جہاں انہوں نے کہا کہ یہ بالکل ممکن نہیں ہے۔ آپ نے شاہ کے دور میں وزیر اعظم لولہنگ کی داستان سنی ہو گی۔ جب تیل کی صنعت اور ملک کی تیل کی آزادی اور تیل کی صنعت کو قومیانے کی بات آئی - اس سے پہلے کہ مصدق برسرکار پر آئے؛ یہ میرے بچپن کے زمانے کا ہے، لیکن مجھے یاد ہے - اس وقت، اس دن [قومی] پارلیمنٹ میں ایک اقلیت موجود تھی، جس کی قیادت ڈاکٹر مصدق کر رہے تھے، جس کا اصرار تھا کہ ہمیں تیل کی صنعت کو قومیانا چاہیے۔ ہمارا تیل انگریزوں کے ہاتھ میں تھا، وہ کہتے تھے اس کو قومیانا چاہیے۔ اس دن کے وزیراعظم نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ جو کہتے ہیں کہ ہمیں تیل کی صنعت کو قومیانا چاہیے یہ کیا کہہ رہے ہیں ۔ کیا ایرانی قوم خود تیل کا انتظام کر سکتی ہے؟ "ہم مٹی کی ٹونٹی ٹھیک سے نہیں بنا سکتے۔" کیا آپ جانتے ہیں کہ لولھنگ کیا ہے؟ لولھنگ ایک مٹی سے بننے والی ٹونٹی ہے۔ میں نے دیکھا تھا؛ ان پرانے زمانے میں، کچھ دیہاتوں میں، وہ ٹونٹی بناتے تھے، تانبے یا مثال کے طور پر، ٹن وغیرہ سے نہیں، جو عام تھے، [بلکہ] مٹی سے۔ وہ کہتے تھے، "ہم مٹی کی ٹونٹی کی سطح پر ہی ہیں، لولھنگ کی سطح پر ہیں؛ کیا ایران تیل کی دیکھ بھال سکتا ہے؟" یہ بات اس وقت مشہور ہوئی۔ اس دن کا تیل کیا تھا جس کا انتظام کیا جانا تھا۔ یہ آبادان ریفائنری؛ جس چیز کا انتظام ہونا چاہیے تھا وہ آبادان ریفائنری تھی۔ کہنے لگے کہ ایرانی ریفائنری نہیں چلا سکتا! یعنی یہ عقیدہ تھا۔ خیر، یہ چیزیں پیش آتی ہیں؛ البتہ اب اتنی شدت کے ساتھ نہیں، لیکن مختلف مراحل میں ترقی کرنے کی قوت ارادی کمزور پڑجاتی ہے۔

آج جب میں ملک کی طرف دیکھتا ہوں، ملک کی عمومی صورت حال پر نظر ڈالتا ہوں تو اللہ کا شکر ہے، میں دیکھتا ہوں کہ یہ مسائل موجود نہیں ہیں؛ اس کا مطلب ہے کہ حرکت کرنے کی قوت اور حرکت کرنے کی صلاحیت دونوں موجود ہیں۔ یہ "صلاحیت" جو میں کہتا ہوں صرف نعرہ نہیں، حقیقت ہے۔ کتنے کروڑ - ان اعدادوشمار پر توجہ دیں! اعداد و شمار واضح ہیں - ہمارے پاس ایسے نوجوان ہیں جنہوں نے تعلیم حاصل کی ہے یا پڑھ رہے ہیں، ہمارے پاس طلباء ہیں۔ کتنے کروڑ! کیا یہ سرمایہ چھوٹی چیز ہے؟ اور اب، اگر سب نہیں، تو بہت سے [ان میں سے] خواہش رکھتے ہیں، ملک میں ایک انقلابی جذبہ ہے، یہ راسخ ہے۔ یہاں پر ان بعض عزیز نوجوانوں نے جو بات کی ہے کہ "ہم تیار ہیں، ہمارے پاس منصوبہ ہے"، یہ بہت قیمتی ہیں۔ تو ارادہ بھی ہے، حوصلہ بھی ہے، ترقی کرنے کا عزم بھی ہے، صلاحیت بھی ہے۔ ہمیں اس کا استعمال کرنا چاہیے. اگر ہم "خواہش اور قابل ہونے" کے باوجود اس موقع کو استعمال نہیں کرتے - جو آج ہے - ہم نے ناانصافی کی ہے۔ اس موقع سے کس کو فائدہ اٹھانا چاہیے؟ حکام کو بھی اس سے اٹھانا چاہیے، خود ممتاز طبقے کو بھی، اور خود سائنسی مراکز کو بھی اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے  چاہیے۔ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا تو ہم نے ظلم کیا ہے۔ ہم نے اپنے ملک پر ظلم کیا، ہم نے اپنی تاریخ پر ظلم کیا۔ ہم سب ذمہ دار ہیں۔ میں بھی ذمہ دار ہوں، حکومتی اور انتظامی حکام بھی ذمہ دار ہیں، آپ نوجوان بھی ذمہ دار ہیں، سائنسی اداروں کے معزز وزراء اور متعلقہ سائنسی مراکز جو عہدیدار ہیں وہ بھی ذمہ دار ہیں۔ ہم سب کو اس سائنسی تحریک کو ایجاد کرنے کی کوشش کرنی چاہیے، اس نئی چیز کی جس کی میں توقع کرتا ہوں - یعنی ایک اختراعی تحریک، مختصر راہوں پر مشتمل، نیا تحرک، نیا عروج انجام پائے۔ یہ ذمہ داری ہم سب پر ہے۔

ذمہ داری کے بیان کے موقع پر میں نے ایک تیسرا نکتہ وضاحت کرنے کے لیے لکھا ہے اور وہ نکتہ یہ ہے کہ سائنس دیگر تمام اثاثوں کی طرح، تمام سرمایوں کی طرح ذمہ داری بھی لاتی ہے۔ سرمایہ ذمہ داری لاتا ہے؛ فکری سرمایہ، مالی سرمایہ، طاقت کا سرمایہ، یہ سب ذمہ داری لاتے ہیں۔ ہر وہ اثاثہ جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو دیا ہے، اس کے لیے اس نے ایک ذمہ داری بھی متعین کی ہے۔ سائنس ان قیمتی اثاثوں میں سے ایک ہے۔ [آپ جو] علم رکھتے ہیں، یہ علم آپ پر ذمہ داری عائد کرتا ہے۔ "ذمہ داری عائد کرنے" کا کیا مطلب ہے؟ یعنی آپ اپنے علم کو لوگوں کے فائدے کے لیے استعمال کریں اور اس سائنس نے آپ کو جو مقام دیا ہے اسے لوگوں کے فائدے کے لیے استعمال کریں۔ بعض اوقات ایک سائنس دان اپنے سائنس اور تخصص کے اپنے شعبے کے علاوہ کسی اور شعبے میں معاشرے میں اپنے موجود مقام کو لوگوں کے فائدے کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔ یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ اگر آپ جوہری علم، طبی علم، طبیعیات، انتظامی یا کسی دوسرے علم میں سائنسی درجہ حاصل کرتے ہیں، تو یہ قدرتی طور پر آپ کے لیے دونوں سمتوں میں ذمہ داری عائد کرتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ علم کو لوگوں کی خدمت کرنے میں صرف کیا جائے اور اس علم کی وجہ سے جو مقام آپ کو ملے اسے بھی۔ اس تناظر میں امیر المومنین علیہ السلام کا یہ مشہور جملہ قصہ کو مکمل کرتا ہے: وَ ما اَخَذَ اللهُ عَلَی العُلَماءِ اَلّا یُقِرّوا عَلیٰ کِظَّةِ ظالِمٍ وَ لا سَغَبِ مَظلوم؛(۶) یعنی خدائے واحد نے علماء سے عہد لیا ہے کہ اس معاملے میں "ظالم کا ظلم" اور "مظلوم کا غصہ" تحمل نہ کریں۔ وہ ظالم کی پرخوری اور مظلوم کی بھوک برداشت نہ کریں۔  اَلّا یُقِرّوا۔ ردعمل کا اظہار کرنا چاہیے۔ آج غزہ کے معاملے میں ردعمل کا یہ [فریضہ] ہم سب پر ہے۔ ہمیں ردعمل ظاہر کرنا چاہیے؛ کوئی بھوکا ہے، کوئی بمباری کی زد پر ہے، سینکڑوں کی تعداد میں لوگ شہید ہورہی ہیں۔ ان متعدد محاذوں میں جو عالمی سطح پر موجود ہیں، ملکی سطح پر، ایک عالم کو - چاہے وہ یونیورسٹی کا اسکالر ہو یا حوزہ کا - سب سے پہلے سچ کو جاننے، سچ کو پہچاننے، سچ کے ساتھ کھڑے ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔ بے اعتنائی، لاتعلقی سے دیکھنا، عالم کے لیے جائز نہیں۔

اگلا نکتہ اس مروجہ طرزعمل کے بارے میں ہے جس کے بارے میں میں کئی بار بات کر چکا ہوں اور وہ سائنسی مضامین کا مسئلہ ہے۔ میں اس موضوع پر اب تک دو تین بار بات کر چکا ہوں۔(7) میں نے سوچا کہ جو تاکید پہلے کی گئی تھیں، وہ کافی ہیں، یعنی کام درست ہوگیا ہوگا، [لیکن] سنا ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ سائنسی مضمون کو فیکلٹی کے درجے میں اضافے کے لیے معیار قرار دینا، میری رائے میں، اسکی کوئی منطق نہیں ہے۔ یعنی انسان واقعی اس بات کو ہضم نہیں کر سکتا۔ مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں دنیا کی سائنسی دوڑ میں حصہ لینا چاہیے۔ لیکن ہمیں اپنے ملک کی یونیورسٹیوں کے اپنے تمام پروفیسرز اور فیکلٹی ممبران کو ہدایت کرنی چاہیے کہ اگر آپ پروموٹ ہونا چاہتے ہیں تو آپ کو امتحان دینے کے لیے دنیا کے کسی مشہور میگزین یا سائنسی مرکز میں جانا چاہیے۔ یعنی یہ طے کیا جائے کہ ایک خاص مرکز کے مطابق آپ کا سائنسی درجہ کیا ہے - باہرحال مضمون نگاری سے یہی مراد ہے، مجھے یہ بات منطقی نہیں لگتی۔ جی ہاں، مضمون نگاری اچھی چیز ہے؛ میں اس بات سے پوری طرح اتفاق کرتا ہوں کہ ملک کے کئی نامور پروفیسرز کو اپنے مخصوص شعبوں میں تحقیق کرنی چاہیے اور دنیا کے نامور پریس اور سائنسی مراکز میں قابلِ ذکر مقالات شائع کرنے چاہئیں، ایسا ہونا چاہیے۔ لیکن ہمارے ہاں مضمون کو پروموشن کی شرط بنانا، یعنی اسے تمام [پروفیسرز] کے لیے معیار بنانا، میری رائے میں یہ کوئی منطقی بات نہیں ہے۔ یقیناً اچھے مضامین ملک کی ساکھ اور سائنسی اعتبار کو بڑھا سکتے ہیں۔ یہ بالکل ہے. مناسب طریقے تلاش کرنے چاہئیں اور ملک کے سائنسی انتظامی اداروں کو ایسے طریقے تلاش کرنے چاہییں کہ ملک کی سائنسی ساکھ اور عالمی درجہ بندی کو نقصان نہ پہنچے۔

مقالات اور مقالوں کے بارے میں میں نے کئی بار کہا ہے (8) کہ سائنسی مضامین، تحقیقی مضامین اور مقالوں کا مقصد ملکی مسائل میں مدد کرنا ہونا چاہیے۔ یہ بنیادی مقصد ہے۔ اس نکتے کو فراموش نہ کریں جو میں نے چند لمحے پہلے کہا تھا: بین الاقوامی سائنسی مقابلوں میں حصہ لینا ضروری ہے، لیکن اصل ہدف یہ ہے کہ ان مضامین کے ذریعے ملک کے مسائل میں سے ایک کو اس سائنسی تحقیق سے حل کیا جائے۔ وہی مسائل جو اب یہاں کہے اور اٹھائے گئے ہیں - ماحولیات کا مسئلہ، مشرقی طب کا مسئلہ، گاڑیوں کا مسئلہ - یہ ملک کے مسائل ہیں اور ایسے سینکڑوں مسائل ہیں؛ اگر ہم ان مسائل کو سائنس کے ذریعے، سائنسی اور علمی طریقہ سے حل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان مضامین اور تحقیقوں کی ضرورت ہے۔ اس لیے ہمارے مضامین، ہمارے طلبہ کے مقالے، ان مسائل پر توجہ مرکوز کرکے ان کا حل نکالیں۔ واقعی تمام شعبوں، صحت و سلامتی، رہائش، ملکی سلامتی، غذائیت، گھرانہ، ماحولیات سے لے کر حکومتی ڈھانچے کی اصلاح تک - حکومتی ڈھانچے کی اصلاح! یہ موضوعات میں سے ایک ہے - بین الاقوامی روابط تک، یہ علمی کام کے لئے ایک میدان ہے؛ سائنسی کام، سائنسی تحقیق، اس طرح ہو۔ ہمیں اخباری کام تک محدود نہیں رہنا چاہیے - فرنگی اصطلاح میں "جرنلسٹک" - جہاں ایک شخص اخبار میں ایک مضمون لکھتا ہے، مثال کے طور پر بین الاقوامی تعلقات، سیاسی مسائل وغیرہ کے بارے میں؛ ان پر انحصار نہ کریں۔ مناسب سائنسی کام کیا جانا چاہئے۔

اس باب میں آخری نکتہ حکام کے فرائض ہیں۔ خوش قسمتی سے یہاں معزز وزراء اور نائب صدور اور مختلف عہدیداران موجود ہیں۔ اس سلسلے میں میں مختصراً یہ کہہ سکتا ہوں: حکام کو چاہیے کہ وہ کچھ ایسا کریں جو ممتاز طبقے کو کارآمد محسوس ہو۔ ان بیرون ملک روانگیوں کی ایک وجہ جو زبانوں اور اخباروں میں زیر بحث ہے - اور کچھ اس سلسلے میں مبالغہ آرائی کر رہے ہیں - یہ ہے کہ اس ممتاز طبقے کو لگتا ہے کہ اس کا یہاں کوئی کام نہیں ہے۔ میں نے پچھلے بیانات (9) میں کہا تھا کہ ایک ممتاز علمی فرد کو ملکی انتظامیہ سے دو توقعات ہوتی ہیں: ایک نوکری، مصروف رہنا، کام کرنا اور دوسرا پڑھائی اور تحقیق جاری رکھنے کے قابل ہونا۔ ممتاز طبقے کو باہر جانے کی طرف راغب کرنے والی چیزوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہاں تحقیق اور پیشرفت کا امکان موجود ہے۔ آئیے انہیں یہ موقع اور روزگار یہاں فراہم کریں۔ میں آج کہنا چاہتا ہوں کہ اگر ہم ممتاز طبقے کی توقعات کا خلاصہ کریں تو یہ ہے کہ ممتاز طبقہ یہ احساس چاہتا ہے کہ وہ ملک میں کارآمد ہے۔

ایسا کرنے کے طریقے ہیں۔ آج، خوش قسمتی سے، ان علم محور کمپنیوں کے بارے میں دو تین بار بات ہوئی، میں نے بھی یہی لکھا ہے؛ ممتاز طبقے کے لیے کارآمد محسوس کرنے کا ایک بہترین طریقہ علم محور کمپنیوں کی تشکیل ہے۔ علم محور کمپنیاں ملک کو معاشی ترقی فراہم کرتی ہیں، ملک میں تازگی پیدا کرتی ہیں، ملک کو سائنسی ترقی فراہم کرتی ہیں، ممتاز طبقے کو بھی محفوظ رکھتی ہیں اور ان کا وجود ملک کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ لہذا، میں علم محور کمپنیوں کو فروغ دینے پر زور دیتا ہوں۔ اور اسے مضبوط کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ اب ان کمپنیوں کی مصنوعات کو بیرون ملک سے درآمد نہیں کیآ جانا چاہیے۔ حال ہی میں، مجھے کئی شکایتیں موصول ہوئی ہیں کہ علم محور کمپنی کہتی ہے، "ہم اس چیز کو تیار کرتے ہیں، فلاں انتظامیہ، جو اس چیز کی صارف ہے، اسے بیرون ملک سے درآمد کرتی ہے"؛ کیوں؟ ہمیں مقامی مصنوعات کو خریدنے اور استعمال کرنے کی عادت ڈالنی ہے - خاص طور پر سرکاری ادارے جو اکثر ان مصنوعات کے اہم صارفین میں سے ہوتی ہیں۔ یہ مسئلہ جو اس وقت دہرایا جاتا ہے، سب سے پہلے سامعین ہم ہیں، یعنی حکام، سرکاری ادارے، حکومتی ادارے؛ انہیں مقامی مصنوعات اور بنیادی طور پر علم محور کمپنیوں کی یہ مصنوعات استعمال کرنی چاہئیں۔

خیر، ہماری باتیں ختم ہوچکی ہیں. میں فلسطین اور غزہ کے موجودہ مسائل کے بارے میں ایک مختصر جملہ، کچھ الفاظ بیان کرنا چاہتا ہوں۔ فلسطین کے معاملے میں جو ساری دنیا کی نظروں کے سامنے ہے وہ غاصب حکومت کا نسل کشی ہے۔ یہ ساری دنیا دیکھ رہی ہے۔ بعض ممالک کے حکام نے ہمارے ملک کے حکام سے غاصب صیہونی حکومت کے دفاع میں بات کی، ان کا اعتراض یہ تھا کہ فلسطینیوں نے شہریوں کو کیوں قتل کیا۔ سب سے پہلے، یہ بیان حقیقت کے خلاف ہے؛ یعنی کہ جو لوگ ان بستیوں میں بسے ہیں اور ان جیسے لوگ بالکل بھی عام شہری نہیں ہیں، وہ سب مسلح ہیں۔ اب ہم مان بھی لیں کہ عام شہری ہیں۔ کتنے شہری مارے گئے؟ یہ غاصب حکومت سو گنا زیادہ عورتوں، بچوں، بوڑھوں اور جوان شہریوں کو قتل کر رہی ہے۔ غزہ کی ان عمارتوں کے اندر جہاں فوجی نہیں رہتے - فوجی اپنی جگہ پر ہیں، وہ جانتے ہیں - یہ عام لوگ ہیں۔ وہ پرہجوم مراکز کا انتخاب کرتے ہیں اور ان پر حملہ کرتے ہیں۔ غزہ میں فلسطینیوں کے ان چند دنوں میں کئی ہزار [لوگوں] کو قتل ہوئے! یہ جرم تمام دنیا والوں کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ ان کو کٹہرے میں لانا ضروری ہے۔ آج غاصب صیہونی حکومت کا ضرور محاکمہ کیا جانا چاہیے۔ ان پر مقدمہ چلنا چاہیے، امریکی حکومت کو بھی اس معاملے میں اپنی ذمہ داری کو پہچاننا چاہیے۔

جیسا کہ بہت سے ذرائع ہمیں بتاتے ہیں، ان دنوں کی موجودہ سیاست، یعنی صیہونی حکومت کے اندر یہ آخری ہفتہ، امریکیوں کے ذریعے کنٹرول کی جارہی ہے۔ یعنی وہ پالیسی ساز ہیں اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں وہ امریکیوں کی پالیسی ہے۔ امریکیوں کو اپنی ذمہ داری پر توجہ دینی چاہیے۔ وہ ذمہ دار ہیں! بمباری فوری بند کی جائے۔ مسلمان قومیں ناراض ہیں، بہت ناراض ہیں؛ آپ اس کی علامات دیکھ سکتے ہیں: عوامی گروہوں کا اجتماع، نہ صرف اسلامی ممالک میں، [بلکہ] لاس اینجلس میں، ہالینڈ میں، فرانس میں، یورپی ممالک میں؛ مغربی ممالک میں، لوگ اجتماعات منعقد کررہے ہیں - دونوں مسلم اور غیر مسلم - ممالک میں، جو واضح ہے۔ لوگ غصے میں ہیں۔ اگر یہ جرائم جاری رہے تو مسلمان بے صبر ہو جائیں گے، مزاحمتی قوتیں بے صبر ہو جائیں گی، پھر انہیں کوئی نہیں روک سکے گا۔ یہ جان لیں۔ [پھر] وہ کسی سے امید نہ رکھیں کہ "کسی مخصوص گروہ کو کوئی خاص کام کرنے نہ دیں"؛ جب وہ بے صبرے ہو جائیں تو انہیں کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ ایک حقیقت ہے جو موجود ہے۔ البتہ صیہونی حکومت چاہے کچھ بھی کرے، وہ اس معاملے میں ہونے والی ذلت آمیز ناکامی کا ازالہ نہیں کر سکے گی۔(10) چلیں آخری جملہ تو آپ نے خود ہی بیان کردیا۔ بہت شکریہ۔

والسّلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ 

1- اس اجلاس کے آغاز میں ممتاز علمی صلاحیت کے حامل سات افراد نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور اپنے نکات بیان کئے۔ اسی طرح نائب صدر برائے سائنس، ٹیکنالوجی و نالج بیسڈ اکانومی اور نیشنل ایلیٹ فاؤنڈیشن کے سربراہ روح اللہ دہقانی فیروزآبادی نے رپورٹ پیش کی۔
2- ملک کے دیہی اور محروم علاقوں کی ترقی کے لیے ادارہ
3- یونیورسٹیوں اور تعلیمی اور تکنیکی مراکز کے عہدیداروں سے خطاب (11/11/2015)
4- شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، جلد 20، صفحہ 319
5- پہلوی حکومت کے وزیر اعظم، حاج علی رضامرہ نے پارلیمنٹ کے بعض ارکان کے تیل کی صنعت کو قومیانے کے مطالبے کا جواب انتہائی طنزیہ انداز میں دیا تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ ایرانی قوم اپنے تیل کے ذخائر کو سنبھالنے میں  کی اہلیت نہیں رکھتی۔ جس قوم میں مٹی کی ٹونٹی بنانے کی صلاحیت نہیں وہ تیل کی صنعت کیسے چلا سکتی ہے؟
6- الشریعہ، جلد 1، صفحہ 151
7- منجملہ، ملک کے نامور دانشوروں کے ساتھ ایک اجلاس سے خطاب (18/9/2017)
8- یونیورسٹیوں اور تعلیمی اور تکنیکی مراکز کے عہدیداروں سے خطاب (10/6/2018)
9- منجملہ، ملک کے نامور دانشوروں کے ساتھ ایک اجلاس سے خطاب (19/10/2022)
10- سامعین نے ’’مرگ بر امریکہ‘‘ کے نعرے لگائے