ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

علامہ طباطبائی انٹرنیشنل کانگریس کے منتظمین کے ساتھ ملاقات میں خطاب

بسم اللہ الرحمان الرحیم

و الحمد للّہ ربّ العالمین والصّلاۃ والسّلام علیٰ سیّدنا محمّد و علیٰ آلہ الطّاھرین سیّما بقیۃ اللّہ فی الارضین. (1)

 

آپ برادران اور خواہران کو خوش آمدید عرض ہے۔میں آپ سب کا دل کی گہرائیوں سے شکر گزار ہوں کہ آپ نے اس عظیم کام کو انجام دیا ہے ۔ ایک اہم کام جسے کرنا چاہیے تھا خداتعالیٰ نے آپ لوگوں کے دل میں اس بات کو ڈالا اور آپ نے ہمت کی اور وہ اس عظیم شخصیت کے نام پر اس پروگرام کو منعقد کرنا جو تاریخ اسلام اور تاریخ علماء میں برجستہ ترین ہے۔

 

مرحوم علامہ طباطبائی رہ حوزہ علمیہ کے نادر مظاہر میں سے ہیں۔ واقعی ایک کم نظیر شخصیت ہیں۔ علامہ طباطبائی رہ کی چند خصوصیات ہیں۔میں خلاصہ کرکے عرض کرتا ہوں ۔ یہ خصوصیات سب کی سب انسانی برجستہ صفات میں سے ہیں۔ وہ تمام عناصر جنہوں نے ملکر اس ھستی کی شخصیت کو تشکیل دیا ہے سب کے سب انسانی فضائل اور کمالات میں سے ہیں۔ یہ خصوصیات کچھ اس طرح کی ہیں، میں نے ان میں سے چند کو نوٹ کیا ہے۔ علم، تقوی وپرہیزگاری، راسخ اخلاقی خصوصیات کا حامل ہونا، ذوق و ہنر، پاکیزگی و رفاقت اور بہت سارے خصوصیات جنہیں میں ذکر نہیں کررہا ۔۔سب نے ملکر اس ہستی کی شخصیت کو تشکیل دیا ہے۔ یہ ساری وہ خصوصیات ہیں جو انسان کے لیے فضائل اور کمالات ہیں۔

علامہ طباطبائی رہ کی علمی پہلو سے متعلق چند مطالب تحریر کرکے لایا ہوں تاکہ آپ کے سامنے عرض کروں۔ آپ عزیزاں توجہ فرمایے۔ ایک تو اس شخصیت کا وسیع سطح پر علم و دانش کا حامل ہونا ہے۔ یہ شخصیت تاریخ بھر کے ان نادر افراد میں سے ہیں جن کی علم و دانش کو تمام علوم پر چیرہ دستی حاصل رہی۔ تاریخ میں انگشت شمار افراد رہے ہیں جیسے شیخ طوسی رہ ،علامہ حلی رہ جن میں علمی تنوع پایا جاتا تھا۔ لیکن ہمارے زمانے میں، میں کسی دوسری شخصیت کو نہیں پہچانتا جو اس سطح کی علمی تنوع کا حامل ہو۔ علامہ طباطبائی رہ ۔۔۔فقیہ تھے، فلسفی تھے، اصولی تھے۔ عرفان نظری میں غیر معمولی گہرائی رکھنے والے، ریاضی اور علم ھیت پر مسلط عالم تھے۔ علم تفسیر اور علوم قرآنی کے برجستہ ترین عالم تھے۔ شاعر تھے۔ شاعر و ادیب تھے۔ علم انساب کے ماہر عالم تھے اور بہت فعال ہستی تھے۔ علم نسب رکھتے تھے۔ یعنی ان کے علم فلسفہ کے ساتھ یا آقائے طباطبائی کے علم عرفان کے ساتھ انسان کو علم انساب بھی نظر آتا ہے۔ انھوں نے ایک شجرہ تیار کیا تھا جس میں قاضی طباطبائی خاندان کا تعارف موجود ہے۔یہ تاریخی شجرہ ہے۔ میری نظر میں یہ اعلیٰ درجے کا ہنر ہے۔ یہ شجرہ باقاعدہ کتاب کی صورت چھپ چکا ہے۔ لوگوں کی عمومی دسترس میں موجود ہے ۔ میرے والد بزرگوار ۔۔جو کہ نجف اشرف میں علامہ طباطبائی رہ کے دوست تھے۔ انہوں نے خود مجھے بتایا ۔ انہوں نے علامہ طباطبائی رہ کو خط لکھا اور تقاضا کیا کہ آپ ہمارے شجرہ نامہ کو قم میں موجود فلان ۔۔شجرہ شناس سے پوچھے اور مجھے بھیج دیجیے۔ علامہ طباطبائی رہ جواب میں لکھتے ہیں کہ میں خود ہی ان کے جتنا یا ان سے زیادہ جانتا ہوں، ان دونوں میں سے کوئی ایک بات انہوں نے کہی تھی جو اب مجھے پوری طرح یاد نہیں ہے۔ اور انھوں نے ہمارے خاندانی شجرہ نامہ ترتیب دیکر بھیج دیا۔ اسوقت ہمارے پاس موجود خاندانی شجرہ نامہ علامہ طباطبائی رہ کا ترتیب دیا ہوا ہے۔ یعنی انسان، علامہ طباطبائی رہ کے اندر غیر معمولی علمی تنوع مشاہدہ کرتا ہے۔ علم ریاضی اور جیومیٹری میں اس حد تک انکا تسلط تھا کہ مدرسہ حجتیہ کا نقشہ علامہ طباطبائی رہ نے تدوین کیا ہے۔ ایک غیر معمولی معمار تھے۔ یہ علامہ طباطبائی رہ کے علمی متعدد گوشوں میں سے مخصوص گوشہ ہے۔

دوسری خصوصیت علامہ طباطبائی رہ کا فکری اور علمی گہرایی کا مالک ہونا ہے۔ وہ ان علوم میں، جن کے بارے میں ہم جانتے ہیں اور ہمیں اطلاع ہے، بہت زیادہ گہرائي رکھتے ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ وہ اصول فقہ میں صاحب رائے ہیں۔ یعنی علم اصول میں باقاعدہ  نظریہ پرداز تھے۔ کفایہ پر انکے حاشیہ (۲) سے اندازہ ہوتا ہے۔ علم فلسفہ میں علامہ طباطبائی رہ اختراعی فلسفی تھے۔کبھی علم فلسفہ میں جدید نظریات پیش کرتے ہیں اس کا مظہر علامہ طباطبائی رہ کی کتاب اصول فلسفہ و روش ریالسیم ہے۔ اور وہ دو کتابیں  جنھیں عمر کے آخری حصے میں بدایہ (۴) اور نھایہ (۵) کے عنوان سے لکھ کر منشر کیا۔

 

تفسیر کی بات کی جائے تو وہ حیرت زدہ کر دینے والے مفسر ہیں، میری نظر میں انکی تفسیر حیران کن تفسیر ہے۔۔اگر کویی تفسیر المیزان کا مطالعہ کرے واقعا تفسیر المیزان ،حیران کن تفسیر ہے۔ جدید نکات ،علمی گہرایی اور اور کثرت مطالب کے لحاظ سے، بعد میں اس نکتے پر چند مطالب بیان کروں گا ۔

علامہ طباطبائی رہ کا ایک اور پہلو انکی شاگرد پروری ہے۔ علامہ طباطبائی رہ کی شاگردی پروری ایک غیر معمولی چیز ہے۔ یہ ہر عالم کا ایک ہنر ہوتا ہے، علماء کے درمیان ایسے لوگ کافی زیادہ ہیں جو شاگردوں کی تربیت اور پرورش کرتے ہیں اور ان کے شاگردوں کی تعداد زیادہ ہے، متاخر زمانے کے ایرانی  فلاسفرز جنکا مرکز تہران تھا۔ ملا عبداللہ زنوزی رہ ،انکے فرزند آغا علی حکیم رہ،مرزا جلوہ رہ،اسدالللہ قمشہ ای رہ۔۔وہ افراد جو حکمت اور عرفان میں برجستہ تھے۔ بعض دوسرے جیسے مرحوم حاجی سبزواری رہ اور دو تین افراد قم میں ،ایک دو افراد اصفہان اور ایک آدھ مشہد میں یہ سب کے سب فلسفہ کے برجستہ ترین افراد میں سے ہیں ۔ان میں سے کسی کے بھی علامہ طباطبائی رہ کی مانند برجستہ شاگرد نہیں ہیں ۔انکے فلسفی شاگرد نہیں ہیں ۔ جی ہاں! حاجی سبزواری رہ کے بہت زیادہ شاگرد ہیں جو انکے پاس درس پڑھتے، اخوند خراسانی رہ صاحب کفایہ بھی انکے شاگرد ہیں ۔لیکن اخوند خراسانی رہ فلسفی نہیں ہیں۔ایک حد تک فلسفہ پڑھا ہے۔ فقیہ ہیں۔ علامہ طباطبائی رہ کے شاگرد جیسے شہید مطہری رہ ،جیسے شہید بھشتی رہ جیسے مرحوم مصباح رہ اور چند بزرگان جو اس وقت زندہ ہیں۔ ایسی شاگرد پروری جس کی مجھے اور کسی کے بارے میں اطلاع نہیں ہے۔ شاگرد پروری کے پہلو میں مجھے کسی اور کا علم نہیں۔ ہمارے زمانے میں مرحوم حاج احمد آشتیانی، مرحوم مہدی آشتیانی رہ ، آقا آملی رہ (۶) ان سب کے شاگرد تھے۔ لیکن علامہ طباطبائی رہ جتنی شاگردی پروری کسی کا بھی نہیں ہے۔ علامہ طباطبائی رہ نے فلسفہ کو زندہ کیا اور فیلسوف سازی کی۔

اب یہاں ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے شاگرد، علامہ طباطبائی رہ کے بے شمار شاگردوں کا انقلاب اسلامی کی تشکیل میں اہم کردار رہا ہے، مجلس خبرگان میں قانون اساسی کو لکھنے میں ایک بڑی تعداد میں علامہ طباطبائی رہ کے شاگردوں کا کردار رہا ہے۔ مجلس خبرگان میں لکھے جانے سے قبل قانون اساسی کو لکھنے والوں میں شہید مطہری رہ  وغیرہ۔۔۔ سب کے سب علامہ طباطبائی رہ کے شاگرد ہیں ۔ اسی طرح، ایک بڑی تعداد میں انقلاب اسلامی کے شہداء ہیں جو علامہ طباطبائی رہ کے شاگرد تھے۔شہید مطہری ،شہید بہشتی شہید قدوسی ،شہید علی نہاوندی،۔۔۔۔برجستہ شہداء علامہ طباطبائی رہ کے شاگرد ہیں ۔ بعض شاگرد الحمد الله قید حیات میں ہیں جنکا وجود باعث برکت اور خیر کثیر ہے۔

علم کے سلسلے میں ان کی ایک دوسری خصوصیت یہ ہے کہ انکے علمی آثار انکے زندگی میں ہی شایع ہوئے۔ انکے علمی آثار کے برکات انہی کے زندگی میں دیکھی گئیں۔ آپکی زندگی میں ہی جتنی تفسیر المیزان کی شہرت تھی اتنی علامہ طباطبائی رہ کی شہرت نہیں تھی۔ یعنی وہ تو بالکل ہی خودنمائي کرنے والے انسان نہیں تھے لیکن ان کی کتابیں ہر جگہ مشہور تھیں۔ انکی فلسفی کتابیں مشہور تھیں ۔وہ خود اتنے مشہور نہیں تھے۔ انکی کتابیں۔۔۔بدایہ ،نہایہ،اصول فلسفہ و روش ریالسیم ،شیعہ در اسلام ،شیعہ در قرآن۔۔۔اور متعدد توحیدی مقالات انکے زندگی میں ہی شایع ہوکر منظر عام پر آگئے تھے۔ تو یہ مرحوم علامہ طباطبائي کے علمی پہلو کی کچھ منفرد خصوصیات تھیں جنھیں ہم نے عرض کیا۔

انکا تقوی ،پرہیزگاری ،اہلبیت ع سے عقیدت اور اس طرح کی دوسری خصوصیات، جن کے بارے میں بہت کچھ کہا گيا ہے اور ہم نے سنا ہے اور آپ جانتے ہیں میں تکرار کرنا نہیں چاہتا۔ وہ اس میدان میں بھی غیر معمولی تھے۔ اور حقیقت میں وہ ان چیزوں میں ایک نمایاں اور غیر معمولی انسان تھے، واقعی متقی و پرہیزگار تھے۔ البتہ ان میں سے دو خصوصیت جس نے مجھے بے حد متاثر کیا اور میں یہاں تاکید سے بیان کرنا چاہوں گا۔

ایک خصوصیت درآمد شدہ اور بیرونی افکار کی یلغار، حقیقی معنی میں یلغار کے عروج کے دوران علامہ طباطبائي کا عدیم المثال فکری جہاد ہے۔ انہوں نے فکری میدان میں اٹھنے والی متلاطم امواج ۔۔۔جسے آج کی نئی نسل جنہوں نے درک نہیں کیا انہیں اسکا احساس نہیں ہوگا۔ اسلئے انہیں اندازہ نہیں ہوگا کہ جوانوں کے افکار پر ایک خطرناک فکری یلغار تھی۔ حقیقی معنی میں ایک حملہ ہو رہا تھا، مارکسزم جیسے کتنے ہی درآمد شدہ نظریاتی اور مسلکی افکار تھے، کتنے شبہے پیدا کیے جا رہے تھے، ایسا نہیں تھا کہ کسی مکتب کو پیش کیا جا رہا ہو بلکہ صرف شبہے پیدا کیے جا رہے تھے، علامہ طباطبائي نے جو کام کیا، مرحوم شہید مطہری رحمت اللہ علیہ نے وہی کام کیا تھا اور اس طرح کے شبہوں کے مقابلے کے لیے کمر ہمت کس لی تھی۔ ان کی زیادہ طرح کتابیں اس وقت پائے جانے والے شبہات کے جواب میں لکھی گئي ہیں۔ اس طرح کے فکری ،نظریاتی پُر متلاطم یلغار کے زمانے میں علامہ طباطبائی رہ نے ایک مضبوط و مستحکم فکری و نظریاتی بنیاد تشکیل دی۔ انکے افکار سے آشنایی رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں ۔مارکسیزم اور دوسرے نظریاتی یلغار کے مقابلے میں علامہ طباطبائی رہ کا فکری و نظریاتی ردعمل ،دفاعی نہیں بلکہ تھاجمی تھا۔ انکا ایک نمونہ شہید رہ مطہری رہ کی کتب ہیں ۔اس میدان اور مضبوط مورچے کو علامہ طباطبائی رہ نے قائم کیا تھا۔ اصول و فلسفہ و روش ریالسیم اور تفسیر المیزان کے زریعے یہ کام انجام دیا۔ تفسیر المیزان معارف و علم کا ایک ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہے جس میں سیاسی ،سماجی، اعتقادی،نظریاتی،عرفانی مفاہیم موجود ہیں۔ اور تفسیر سے متعلق مخصوص ابحاث کے علاوہ سیاسی اور سماجی اور ثقافتی مسائل کو بھی گہرائی میں بحث کیا گیا ہے۔ اس زمانے میں تفسیر میں سیاسی اور سماجی و ثقافتی مسایل زیر بحث لانے کا رواج نہیں تھا۔لیکن علامہ طباطبائی رہ نے ان مطالب کو مفصل بیان کیا ہے۔ آج بھی ہہی مطالب آج کے مسایل کو سلجھانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ ٹھوس و ناقابل تسخیر نظریاتی قلعہ علامہ طباطبائی رہ نے قایم کیا ہے۔ میری نظر می ہمیں علامہ طباطبائی رح سے اس کام کو سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایسا بنیادی اور مؤثر کام جو خلاء کو پر کریں اور ایسے معارف جو نہ صرف دفاعی نوعیت کے ہوں بلکہ تہاجمی نوعیت کے حامل ہوں۔ یہ خصوصیت میرے خیال میں بڑی جاذب نظر ہے۔

علامہ طباطبائی رہ کی دوسری برجستہ خصوصیت ۔۔معارف توحیدی میں گہرایی اس حد تک تھی کہ فقط نظریاتی مطالب کے بیان پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ توحیدی معارف کو اپنے پاکیزہ نفس اور پاکیزہ دل میں اتارا۔ علامہ طباطبائی رح نے حقیقی معنی میں معارف کو اپنے نفس میں جاگزین کیا۔ علامہ اس آیت شریفہ کا مصداق کامل تھے۔ اِلَیہ یَصعَدُ الکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ العَمَلُ الصّالِحُ یَرفعہ (۸) کلمہ طیبہ اس ہستی کے اندر متحقق ہوگیا۔ ان کے برجستہ اخلاقی صفات اور ہوی و ہوس سے عاری ہونا، انکا حلم و بردباری اور تواضع و انکساری، سب کے سب انکے نفس میں موجود معارف سے پھوٹا ہے۔ انہوں نے خود اپنی تہذیب نفس کی، خود کو ان انسانی و معرفتی بلندیوں پر پہنچانے میں کامیاب ہوئے۔ یہی وجہ تھی کہ ہمیشہ عوام الناس کے درمیان رہتے ہوئے بھی اللہ کی بارگاہ سے متصل رہتے تھے۔ ان سے مل کے انسان واقعی یہ محسوس کرتا تھا کہ وہ خود کو رتی برابر بھی اہمیت نہیں دیتے۔ بڑے بردبار تھے، بڑی نرم خوئی سے پیش آتے تھے۔ اس حد تک حلیم النفس تھے کہ جو افراد علامہ رح سے کج خلقی سے پیش آتے تھے ان سے بھی حلم کے ساتھ برتاؤ کرتے تھے۔ اس حد تک متواضع تھے اتنے کہ بعض اوقات تعجب ہوتا تھا۔ میں اس بارے میں ایک واقعہ ذکر کرتا ہوں۔ مرحوم علامہ سمنانی رح، ایک سن رسیدہ جید عالم دین تھے جو سمنان میں رہائش پذیر تھے۔ بڑے معزز اور معروف انسان تھے۔ وہ قم آئے۔ علما ان سے ملاقات کے لئے جا رہے تھے۔ ان کے مکان پر کافی آمد و رفت تھی۔ ایک دن میں کمرے میں بیٹھا ہوا تھا۔ ایک دوست جو علامہ طباطبایی رہ کا ارادت مند تھا عاشق تھا انتہایی جذباتی انداز میں کمرے میں داخل ہوا اور کہا:

بہ حُسن خُلق و وفا کس بہ یار ما نرسد۔ (حسن اخلاق اور وفاداری میں کوئی ہمارے معشوق کی گرد کو بھی نہیں پا سکتا۔) (۱۰)

میں نے سوال کیا کہ ماجرا کیا ہے۔ کہنے لگے کہ ہم لوگ علامہ سمنانی رح (۹) کے مکان پر تھے۔ علامہ سمنانی رح کے گھر میں علامہ طباطبائی رہ اور امام خمینی رہ بھی موجود تھے۔ علامہ سمنانی رہ نے امام خمینی رہ کی طرف رخ کرکے کہا کہ آپکی تفسیر المیزان بہترین ہے۔ ہم نے اس سے بھرپور استفادہ  حاصل کیا۔ تفسیر المیزان کی تعریفیں شروع کر دیں، یہ خیال کرتے ہوئے کہ آقائے طباطبائی وہی ہیں! آقائے خمینی بھی ایسے انسان تو ہیں نہیں کہ اس قسم کے حالات میں گھبرا جائیں۔ خاموش بیٹھے رہے کچھ بولے نہیں۔ آقائے طباطبائی دوسری جانب بیٹھے ہوئے تھے۔ اسوقت علامہ طباطبائی رح پیچھے سے آغا سمنانی رہ کو فرمانے لگے کہ میں طباطبائی ہوں اور یہ میرے استاد آقا خمینی ہیں۔

اس نے پھر کہا: بہ حُسن خُلق و وفا کس بہ یار ما نرسد۔

اس منظر نے اس جوان کو شدید متاثر کیا تھا۔ علامہ طباطبائی رح ان تمام علمی، سلوکی، عرفانی خصوصیات کے باوجود لطیف اور دلچسپ شخصیت شخصیت کے حامل تھے۔ ان کی شخصیت اور زبان شیرین تھی۔ دلنشیں باتیں کرتے تھے، انکے درس باذوق ہوتے تھے۔ دوستانہ نشستوں میں وہ ایسے انسان ہوتے تھے کہ عمومی نشستوں، علمی و درسی بحثوں کے وقت ان کے یہاں جو سکوت کی حالت نظر آتی تھے اس سے بالکل الگ دکھائی دیتے تھے۔ بڑی گرمجوشی، اپنائیت بھرا انداز ہوتا تھا، شیریں سخن اور خوش گفتار تھے۔  جب کوئي واقعہ بیان کرتے تھے تو تفصیلات کے ساتھ بڑے دلچسپ انداز میں بیان کرتے تھے۔ ایک ایسی شخصیت کے مالک تھے۔ خشک نہیں تھے۔ انتہائی باذوق تھے ۔اہل شعر و ادب تھے۔ ان تمام اعلی صفات کے مالک جن کی ایک لائق و برجستہ ہستی حامل ہوتی ہے۔

 

میرے نزدیک یہ دو خصوصیات جو میں نے ذکر کیں،  خلاء کو پر کرنا  اور توحیدی معارف کو نفس میں عملی طور سے ڈھالنا انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔  وَ أَفْئِدَةَ الْعَارِفِينَ مِنْكَ فَازِعَةٌ... (۱۱) عرفان جاننا اور ہے جبکہ انہی باتوں کو دل اور نفس میں اتارنا اور بات ہے... اَفئِدَۃ العارِفینَ‌ مِنکَ‌ فازِعَۃ کی منزل الگ ہے۔ ہم میں سے ہر ایک کو ان دو نکات کے حوالے سے کوشش کرنی چاہیے۔ جو بھی اس راہ پر گامزن ہو اسے چاہئے کہ ان کا اتباع کرے۔

امید کرتا ہوں کہ ان شاء اللہ خداوند عالم مرحوم کے درجات کو عالی کرے۔ ہمیں ان کے قدردانوں میں قرار دے۔ الحمد للہ ان کے تعلق سے برکات الہیہ ایسی ہیں کہ آج آقائے طباطبائی اپنے زمانہ حیات سے کہیں زیادہ شناختہ شدہ ہیں۔ اپنی زندگی میں وہ شاید اس کا دسواں حصہ بھی شناختہ شدہ نہیں تھے۔ اب الحمد للہ آپ ملک کی سطح پر، علمی مراکز کی سطح پر، عالمی سطح پر کافی حد تک شناختہ شدہ ہیں۔ ان شاء اللہ آقائے طباطبائی کی شناخت اس سے بھی زیادہ بڑھے گی۔

والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ

 

۱۔ ملاقات کے آغاز میں کانفرنس کے صدر حجت الاسلام و المسلمین غلام رضا فیاضی، کانفرنس کے اکیڈمک سکریٹری حجت الاسلام و المسلمین حمید پارسانیا، کانفرنس کے اجرائی سکریٹری محمد باقر خراسانی نے اپنی رپورٹیں پیش کیں۔

۲۔ حاشیہ الکفایۃ

[۴. بدایۃ الحکمۃ

[۵. نھایۃ الحکمۃ

[۶. آیت‌اللہ محمّدتقی آملی

[۸. سوره‌ فاطر، آيت نمبر ۱۰؛...پاکیزہ باتیں اس کی جانب بلند ہوتی ہیں اور شائستہ کام اسے رفعت عطا کرتا ہے۔ ...»

[۹. آیت‌اللہ محمّدصالح حائری مازندرانی معروف بہ علّامہ سمنانی

[10. حافظ. دیوان اشعار، غزلیّات؛ بہ حُسن خُلق و وفا کس بہ یار ما نرسد / تو را در این سخن انکارِ کارِ ما نرسد»

[11. کامل‌الزّیارات، صفحہ ۴۰ (زیارت امین‌اللہ)؛  اور عارفین کے دل تجھ سے خائف رہتے ہیں۔ »