بسم الله الرّحمن الرّحیم
الحمد لله ربّ العالمین و الصّلاة و السّلام علی سیّدنا محمّد و آله الطّاهرین سیّما بقیّة الله فی الارضین.
قم کے علمی حلقے کی ایک انتہائی پسندیدہ اور قابلِ تحسین کاوش یہی یادگاری کانفرنسیں ہیں جن کی واقعی طویل عرصے سے جگہ خالی محسوس کی جا رہی تھی۔ مرحوم جناب نائینی نے ایک زمانے میں نجف کے ماحول کو اپنے افکار اور کلمات سے بھر دیا تھا، لیکن بعد ازاں ان کی علمی سرگرمیاں اور شہرت تقریباً نظر انداز کر دی گئی اور کم ہی ان پر توجہ دی گئی۔ خیر، قم میں، ہم نے دیکھا کہ قم کے بزرگان اور ان کے شاگرد جو نجف میں مرجع تھے ان کی تجلیل کرتے تھے، لیکن خود مرحوم نائینی (رحمت اللہ علیہ) کی وہ خصوصیات زیادہ اجاگر نہیں ہوئیں۔ آپ لوگ اب اس جانب توجہ دے رہے ہیں؛ ان شاء اللہ ان کی علمی، عملی اور سیاسی جہتیں واضح ہوں گی۔
مرحوم جناب نائینی بلا شبہ نجف کے قدیم علمی حلقے کے ایک بلند پایہ ستون تھے۔ نجف کا یہ حلقہ، جس کی عمر تقریباً ہزار سال ہے، اتار چڑھاؤ سے گزرا؛ کبھی وہاں بڑے علماء موجود تھے، کبھی خلوت رہی، اور بعض اوقات نجف میں بہت ممتاز شخصیات موجود نہیں تھیں، حلّہ اور کچھ دیگر مقامات کے مقابلے میں؛ لیکن تقریباً دو سو سال قبل سے، یعنی مرحوم آقا باقر بہبہانی کے شاگردوں کے زمانے سے، جیسے مرحوم بحر العلوم اور مرحوم کاشف الغطاء جو نجف میں تھے — خود مرحوم بہبہانی کربلا میں مقیم تھے، لیکن ان کے یہ بڑے شاگرد نجف میں موجود تھے اور ان کا مرکز نجف تھا — نجف کے حلقے نے زیادہ علمی حیات اور نشاط حاصل کی اور کچھ انتہائی ممتاز شخصیات پیدا کیں جو ہمارے فقہ اور اصول کی تاریخ میں نایاب یا کمنظیر ہیں؛ جیسے شیخ انصاری، مرحوم صاحب جواہر(۲)، مرحوم آخوند(۳) (رحمت اللہ علیہ) اور اس نوعیت کے دیگر بزرگان۔ مرحوم نائینی انہی شخصیات میں شامل ہیں؛ یعنی وہ ان ممتاز اور برجستہ افراد میں شمار ہوتے ہیں۔
ان کی اہم خصوصیت، جو ان کی تخصصی جہت سے متعلق ہے، یعنی فقہ اور بالخصوص اصول، «ساخت سازی» ہے؛ یعنی وہ اصولی مبانی کو ایک نئی ساخت، نئے فکر اور نئے نظم کے ساتھ بیان کرتے ہیں، ہر مسئلے کے بارے میں مقدمات فراہم کرتے ہیں۔ یہ پیش رفت پہلے فقہا اور اصولی علماء کی کتابوں اور آثار میں کم ہی دیکھی گئی؛ یعنی مجھے یاد نہیں آتا کہ کوئی اس طرح منظم اور مرتب بیان ہو؛ مثال کے طور پر، جب وہ کسی مسئلے میں داخل ہوتے ہیں، تو وہ اس مسئلے کو مقدمات کے ساتھ، ایک ترتیب اور نظم کے مطابق پیش کرتے ہیں اور مکمل کرتے ہیں؛ یعنی بالکل صاف شفاف انداز۔ شاید یہی وجہ تھی کہ طلبہ و فضلا کی بڑی تعداد ان کے درس میں آتی تھی، جو مرحوم آخوند کے بعد نجف کا اعلیٰ درجے کا درس تھا، یہی ان کے فکری نظم، علمی ترتیب اور روشن بیان کی بدولت تھا۔ اور اگرچہ وہ نجف میں اصولِ فقہ کو فارسی زبان میں پڑھاتے تھے — نجف کے ماحول میں درس عربی میں ہوتا تھا، وہ فارسی پڑھاتے تھے — پھر بھی بہت سے عرب طلبہ ان کے درس میں حاضر ہوتے تھے۔ البتہ مجھے خود دیکھنے کا موقع نہیں ملا، لیکن سنا ہے کہ مرحوم شیخ حسین حلّی (رحمت اللہ علیہ)، جو کہ مکمل عرب تھے، نے اصول کا درس فارسی میں دیا کیونکہ استاد سے انہوں نے فارسی میں سنا تھا! یعنی ان میں ایک نادر بیان اور واضح فکر موجود تھی۔
حقاً و انصافاً، ان کی اصولی مبانی میں جدت بے پناہ اور بے حد ہے۔ اصول کے مختلف مباحث میں ان کی جدیدیت کی تعداد کمیتی لحاظ سے بہت زیادہ ہے؛ مرحوم شیخ انصاری کے جو نکات انہوں نے بیان اور واضح کیے، اور جو مسائل انہوں نے خود بیان کیے، وہ علمی بحث کے لائق ہیں۔ یہ ایک پہلو ہے۔
میرے خیال میں مرحوم آقا نائینی کی ایک اہم خصوصیت شاگردوں کی تربیت ہے۔ میں کم ہی ایسی مثال جانتا ہوں۔ اب اس معاصر دور کے بزرگوں میں مرحوم آخوند خراسانی کے بے شمار شاگرد تھے — نہ کہ تعداد کے لحاظ سے بلکہ اُن شاگردوں میں جو برجستہ تھے — اور مرحوم آقا نائینی بھی اسی سطح کے تھے؛ اُن کے بہت سے شاگرد نمایاں اور برجستہ ہیں؛ یعنی ایک ممتاز شاگرد تربیت کرنا واقعی ایک اہم شے ہے۔ ان سالوں میں جو میرے ذہن میں ہیں، اندازاً ۷۷ ہجری کے لگ بھگ، میرے خیال میں اُس وقت نجف کے تقریباً تمام موجودہ مرجعین ان کے شاگرد تھے؛ جیسے آقا خویی(۴)، مرحوم آقا حکیم(۵)، مرحوم سیّد عبدالہادی(۶) اور وہ دیگر جو اُس زمانے میں تھے، مثلاً مرحوم آقا میرزا باقر زنجانی، یا آقا شیخ حسین حلّی، مرحوم آقا میرزا حسن بجنوردی وغیرہ — یہ تمام عظیم اور برجستہ شخصیات مرحوم آقا نائینی کے شاگرد تھیں۔ البتہ بعض اوقات ان کے علمی شجرہ ہونے میں بعض دیگر بزرگان کا بھی نام لیا جاتا تھا، مثلاً مرحوم آقا حکیم کو بعض اوقات آقا ضیاء کے برجستہ شاگردوں میں بھی شمار کیا جاتا ہے، مگر عمومی طور پر یہ بڑے علما، مراجع اور وہ شخصیات مرحوم آقا نائینی کے شاگرد ہی تھے۔ شاگردوں کی یہ تربیت اور بہت سے ممتاز شاگردوں کی کثرت ان کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ یہ ان کے علمی امور کے بارے میں وہ بات تھی جو مختصراً عرض کی گئی۔
اور مگر ان میں ایک استثنائی شخصیتی نکتہ بھی ہے جو ہمارے حالیہ مراجع میں سے کسی کے پاس نہیں — اور ماضی کے مراجع میں بھی مجھے یاد نہیں آتا — اور وہ سیاسی مسئلہ ہے؛ اصطلاحاً اُن کا "سیاسی تفکر" ہے۔ سیاسی تفکر سیاسی رجحان سے مختلف چیز ہے۔ بعض لوگ سیاسی رجحان رکھتے تھے۔ مرحوم آقا آخوند، مرحوم آشیخ عبداللہ مازندرانی اور دیگر میں سیاسی میل پایا جاتا تھا۔ اُس زمانے میں یہاں تک کہ طلاب میں بھی سیاسی رجحان موجود تھا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ مصر اور شام کے مطبوعات وغیرہ نجف کی کتب خانوں تک پہنچتے تھے، اور وہ مطبوعات سید جمال اور محمد عبده وغیرہ کے تحت اثر تھیں اور نئی آراء پیش کرتی تھیں۔ مرحوم آقا نجفی قوچانی اپنی یادداشتوں میں نقل کرتے ہیں کہ وہاں طلاب میں سیاسی رجحان رکھنے والے کثرت سے تھے۔ علماء میں بھی ایسے افراد تھے جن میں سیاسی رغبت تھی، مگر سیاسی میل، سیاسی رغبت یا حتیٰ کہ سیاسی گفتگو ایک چیز ہے، اور سیاسی تفکر ایک بالکل مختلف، گہری بات ہے۔ آقا نائینی کے پاس سیاسی سوچ اور سیاسی فکر موجود تھی۔ ان کی کتابِ «تنبیه الامّة» واقعی مظلوم رہی۔ خدا مرحوم طالقانی(۷) پر رحمت کرے کہ انہوں نے اس کتاب کو تجدیدِ طبع کیا، ورنہ پچھلا مطبوعہ نسخہ — جیسا کہ سنا گیا ہے — ایک بہت ہی منحط اور پسماندہ طبع تھی۔ انہوں نے اسے شائع کیا، حواشی تحریر کیے اور اس پر کام کیا۔ پھر بھی آج تک یہ کتاب نسبتاً مغفول ہے جبکہ یہ ایک اہم کتاب ہے۔ اب میں اس کتاب میں ان کے بعض امور کی طرف مختصراً اشارہ کروں گا۔
اولاً، وہ حکومتِ اسلامی کے قیام کے قائل تھے؛ یعنی یہ خود ایک فکر ہے کہ حکومتِ اسلامی قائم ہونی چاہیے۔ البتہ انہوں نے حکومت کا بالکل مخصوص قالب معین نہیں کیا، مگر «تنبیه الامّة» میں انہوں نے واضح طور پر تحریر کیا کہ حکومتِ اسلامی کا قیام ضروری ہے۔ یہ ایک نہایت اہم نکتہ ہے۔
دوماً، اس حکومتِ اسلامی کا بنیادی محور مسئلۂ «ولایت» ہے؛ وہ اسے «حکومتِ ولائیّه» کے طور پر تعبیر کرتے ہیں، «ملکیّتِ استبدادیّه» کے مقابلے پر؛ میری نظر میں اُن کی یہ تعبیر قابلِ غور ہے کہ وہ استبدادی ملکیت و استبدادی حکومت کے مقابلے میں «حکومتِ ولائیّه»، یعنی «حکومتِ اسلامیِ ولائیّه» پیش کرتے ہیں؛ یعنی حکومت کی شکل، مغز اور جوہر «ولایت» ہے، اور یہ خود ایک بہت اہم مسئلہ ہے جس پر کثیر گفت و شنید ہو سکتی ہے؛ انہوں نے اس پر تصریح کی ہے۔ یہ اگلا نکتہ تھا۔
ایک اور بہت اہم نکتہ «نظارتِ ملی» کا ہے۔ وہ اس بات کے قائل تھے کہ حکومت کو نگران ہونا چاہیے؛ تمام ذمہ داران جوابدہ ہیں اور انہیں نگران کے تابع ہونا چاہیے۔ تو پھر یہ نگرانی کون کرے؟ ان کے بقول «مجلسِ نمائندہ» جو قانون ساز ہوگا۔ فطری طور سے «مجلسِ نمائندہ» کا نعم البدل مجلسِ شورا یا اس جیسی کوئی جماعت ہو سکتی ہے۔ مجلسِ نمائندہ کون بنائے گا؟ عوام بنائیں گے؛ یعنی لوگ انتخابات کریں گے اور مجلسِ نمائندہ قائم ہوگی؛ پھر مجلسِ نمائندہ قانون سازی کرے گا، مگر ان قوانین کی شمولیت اسی وقت تک معتبر نہیں کہ جب تک کہ وہ برجستہ دینی علما کی توثیق حاصل نہ کر لیں؛ یعنی بالکلمہ وہ ایک ایسا بندوبست کرتے ہیں جس میں قانون سازی کے بعد فقہا و علماءِ دین کی منظوری ضروری ہے۔
تو یہ مجلسِ نمائندہ عوام کے انتخاب سے قائم ہوگی؛ وہ فرماتے ہیں کہ عوامی انتخابات واجب ہیں، اس کو وہ «مقدّمہ واجب» کی مناسبت سے تعبیر کرتے ہیں؛ یعنی کہتے ہیں کہ چونکہ یہ ایک مقدّمۂ واجب ہے، لہٰذا انتخاب واجب ہے۔ اور وہ امرِ بمعروف و نہی از منکر، احتساب، مکمل ذمہ داری وغیرہ پر زور دیتے ہیں۔
یعنی آپ غور کریں کہ وہ ایک حکومت کا خاکہ پیش کرتے ہیں، اور اصطلاحاً اسے سیاسی فکر کے طور پر پیش کرتے ہیں، جس کے تین بنیادی نکات ہیں: اوّل حکومت، یعنی طاقت؛ دوم یہ کہ یہ عوام سے ماخوذ ہوتی ہے، لوگ اس کا انتخاب کرتے ہیں؛ ثالثاً یہ دینی احکام اور شرعی اصولوں کے مطابق ہے، یعنی بغیر اس کے کوئی معنی نہیں رکھتی۔ یعنی ایک اسلامی اور عوامی حکومت۔ اگر ہم آج کے انداز میں اسے بیان کریں تو یہ بن جاتی ہے "جمهوری اسلامی"۔ "جمهوری" یعنی عوامی، اور "اسلامی" یعنی اسلامی۔ البتہ وہ اس طرح کے اصطلاحی الفاظ استعمال نہیں کرتے، لیکن ان کا مقصد یہی ہے: ایک حکومت قائم ہوگی جو متدیّن اور صالح لوگوں پر مشتمل ہوگی، عوام کے انتخاب اور عوام کی سخت نگرانی کے تحت ہوگی؛ ہر شعبے کے ذمہ داران معین ہوں گے جو جوابدہ ہیں، اور وہ قوانین بنائیں گے، مگر یہ قوانین بغیر علما کے تصدیق کے معتبر نہیں ہوں گے۔ یہی ان کی بات ہے، اور یہ ایک نہایت اہم مسئلہ ہے۔
ہم مرحوم آقا نائینی کی عظیم تقریرات پڑھتے ہیں، ان سے استفادہ کرتے ہیں، اور ان کی تدریس کرتے ہیں، لیکن اکثر ان کے فقہی مبانی پر توجہ نہیں دیتے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ کسی بھی طرح حرّافی نہیں کرتے، بلکہ فقیہانہ انداز میں بحث کرتے ہیں؛ یعنی وہ تمام مسائل کو فقہی مبانی کے مطابق، فقیہ کی طرح بیان اور ثابت کرتے ہیں، جس میں متن کے دلالتوں اور دینی منابع کے ساتھ عرفی ملاحظات کو بھی مدنظر رکھتے ہیں۔ یہ وہی رویہ ہے جو عام فقہ میں معمول ہے، اور وہ اسی طریقے سے اس سیاسی مسئلے پر بھی عمل کرتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ ایک استثنا ہے؛ ہمارے علما میں ایسے کوئی مثال نہیں ملتی۔ مرحوم آقا آخوند نے بھی اس کتاب پر تقریظ لکھی، اور اسکی مکمل طور پر تصدیق کی۔ آخوند بھی چھوٹے انسان نہیں تھے، اور انہوں نے کتاب کا مطالعہ کیا اور اس سے استفادہ کیا۔ ہماری نظر میں کتاب «تنبیه الامّة» ایک نہایت اہم کتاب ہے۔
اب مسئلہ آتا ہے ان لوگوں کا جنہوں نے اس کتاب کو جمع کروانے میں کردار ادا کیا۔ بظاہر یہ کام ہوا، کیونکہ ہم نے صرف افواہوں کے علاوہ، نجف میں موجود لوگوں اور مرحوم والدِ(۸) کے رفقاء سے جو نجفی تہے اور آنا جانا رکھتے تھے سنا کہ یہ کتاب مرحوم نائینی خود بے انتہا سنجیدگی سے جمع کرتے تھے؛ ہر کسی سے خریدتے تاکہ قابل دسترس نہ ہو۔ اس کی وجہ یہ سوچنا بہت سادگی ہے کہ ایک فقیہ جس کی فقہی قدرت اور استدلال اتنی مضبوط ہے، اپنی کتاب لکھنے کے بعد اچانک اپنی رائے کو واپس لے لے، یہ بالکل معنی نہیں رکھتا۔ فقہاء کے فقہی نظریات بدل سکتے ہیں، مگر کتاب جمع کرنا ایک اور سبب رکھتا ہے۔
یہ سبب یہ تھا کہ مشروطیت کا جو چہرہ نجف میں منعکس ہوا تھا اور مرحوم آخوند نے اپنی ساری حیثیت اس پر داو پر لگادی — یا مرحوم آشیخ عبداللہ مازندرانی اور کچھ دیگر نے اسی طرح — وہ حقیقت میں وہ نہیں تھی جو واقع ہوئی۔ اصل میں نام "مشروطه" بھی اہم نہیں تھا؛ وہ جس کا پیچھا کر رہے تھے وہ حکومتِ عدل، استبداد کا خاتمہ، استبداد کے خلاف جدوجہد تھی۔ لفظ "مشروطه" اور اس جیسے دیگر اصطلاحات انگریزوں نے متعارف کرائے؛ نہ صرف نام بلکہ رویہ بھی انگریزوں نے تشکیل دیا۔ اور معلوم ہے کہ جو کچھ انگریزوں کرتے ہیں اسکا نتیجہ کیا ہوتا ہے، وہ نتیجتاً اختلافات اور جھگڑوں کی طرف جاتا ہے، یہاں تک کہ شیخ فضلالله نوری کی پہانسی تک بات چلی جاتی ہے، مرحوم آقا سیّد عبداللہ بہبہانی کی شہادت، اور ستّار خان و باقر خان جیسے افراد کو اس طرح ٹھکانے لگایا گیا۔ ستار خان کو ایک طرح باقر خان کو دوسری طرح۔ جب یہ احوال سب نجف میں پہنچا، تو وہ اس عمل کی حمایت سے پشیمان ہوگئے۔ میری نظر میں، مرحوم نائینی کو یہ دیکھ کر احساس ہوا کہ ان کی علمی فقہی کتاب نے اُس چیز کی مدد کی جسے وہ قبول نہیں کرتے، لہذا اس کا مقابلہ کیا جانا چاہیے اور وہ وہی مشروطہ تھا یعنی انگریزوں کی ایران میں قائم کردہ مجلس اور اس کے نتیجے میں ہونے والے واقعات جیسے مرحوم شیخ فضل اللہ کی شہادت۔
میرے خیال میں وہ ایک غیر معمولی فقیہ تھے، ایک عظیم ملا؛ علمی لحاظ سے وہ انتہائی بلند سطح پر تھے۔ عملی امور کا بیان ہوا، اشارہ کیا گیا معارفی امور اور زہد اور ان سے متعلق دیگر حالت کی طرف۔ سنا گیا ہے کہ ان کا مرحوم آخوند ملّاحسینقلی سے بھی رابطہ تھا؛ جب وہ سامرّا سے نجف آتے، مرحوم آخوند ملّاحسینقلی سے ملاقات کرتے۔ مرحوم ملّافتح علی سے بھی رابطہ تھا، جو سامرّا میں تھے اور الگ نوعیت کے تھے، باہرحال اس طرح کے بزرگان سے رابطہ تھا۔ اسی طرح اصفهان میں بھی مرحوم جهانگیر خان وغیرہ سے رابطہ تھا؛ بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے جھانگیر خان کے پاس فلسفہ کی بھی تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ اہلِ معنا تھے۔
چند دن قبل کسی سے سنا کہ بعض بزرگوں کے بقول انکی نماز تہجد غیر معمولی تھی، اور مرحوم آقا نجفی، دامادِ مرحوم نائینی، جو ہمدان میں تھے اور گھر میں ہونے کے باعث دیکھ چکے تھے، نقل کرتے ہیں کہ نماز شب میں ان کی حالت، تضرّع اور مناجات کس قدر غیر معمولی تھی۔ یہ سب یقینا ان کی راہ درست تلاش کرنے اور صحیح طریقے سے حرکت کرنے اور مقاصد حاصل کرنے میں مددگار تھے۔
ہم امید کرتے ہیں کہ انشاء اللہ آپ کا یہ بہت ہی لایق تحسین اجتماع قم، نجف یا مشہد میں بخوبی منعقد ہوگا۔ آپ نے مشہد میں بھی اچھا کام کیا۔ جناب میلانی مرحوم نے مشہد میں جناب نائینی کے نام کو کافی حد تک زندہ کیا۔ کیونکہ مشہد میں جو کچھ زیادہ عام تھا، آغازادہ مرحوم کی موجودگی کی وجہ سے - آخوند مرحوم کے فرزند - آخوند کے افکار زیادہ عام تھے۔ البتہ مرحوم امیرزا مہدی اصفہانی جو کہ مرزا مرحوم کے ممتاز شاگردوں میں سے ہیں، انکے مشہد تشریف لانے کے بعد آخوند کے افکار کے غلبے کی موجودہ فضا کو جناب نائینی کے کلام سے کمزور کر دیا؛ نئے افکار، نئے نظریات، نئے دلائل۔ ہمارے والد مرحوم جنہوں نے جناب آغازادہ کے درس اور آقا میرزا مہدی مرحوم کے درس دونوں سے برسوں تک استفادہ کیا تھا، کہا کہ جب آقا میرزا مہدی مشہد میں آئے تو مشہد کا بنیادی ماحول جہاں [مرحوم اخوند] کے نظریات عام تھے، بالکل بدل گیا۔ لیکن مرحوم آقامیرزا مہدی کے بعد جناب نائینی کا مزید زیادہ تذکرہ نہیں ہوا۔ جناب میلانی مرحوم جناب نائینی کے نظریات کا حوالہ دیتے، ان پر بحث کرتے، شاید کبھی ان پر تنقید کرتے اور اکثر ان کی تصدیق کرتے۔ بہر حال، آپ نے مشہد اور نجف میں بھی تقاریب منعقد کرکے اچھا کیا۔ ہم امید کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو کامیابی اور نصرت عطا فرمائے گا، انشاء اللہ۔
والسّلام علیکم و رحمةالله و برکاته
۱) در ابتدای این دیدار، حجّتالاسلام والمسلمین علیرضا اعرافی (مدیر حوزههای علمیّهی کشور) گزارشی ارائه کرد.
۲) آیتالله شیخ محمّدحسن نجفی (مؤلّف کتاب «جواهرالکلام»)
۳) آیتالله ملّا محمّدکاظم خراسانی (معروف به «آخوند خراسانی»)
۴) آیتالله سیّدابوالقاسم خویی
۵) آیتالله سیّدمحسن حکیم
۶) آیتالله سیّدعبدالهادی شیرازی
۷) پست، فرومایه، بیارزش، بسیار ضعیف
۸) آیتالله سیّدجواد حسینی خامنهای
