بسم الله الرّحمن الرّحیم
الحمد للہ ربّ العالمین و الصّلاۃ و السّلام علی سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفی محمّد و آلہ الطّیّبین الطّاھرین المعصومین سیّما بقیّۃ الله فی الارضین.
میں ملتِ عزیزِ ایران کو سلام عرض کرتا ہوں۔ یہ ایام بسیج سے متعلق ایام ہیں۔ میں بسیج کے مسئلے کے بارے میں ایک دو نکات عرض کرنا چاہتا تھا؛ میری خواہش تھی کہ یہ باتیں بسیجیوں کے مجمع میں کہوں، لیکن افسوس کہ یہ توفیق حاصل نہ ہو سکی، اس لیے اب انہیں ملتِ عزیزِ ایران کے سامنے رکھتا ہوں۔ اس کے علاوہ مغربی ایشیا کے حالات اور اندرونی مسائل کے بارے میں بھی ایک دو باتیں عرض کروں گا۔
بسیج کے حوالے سے جو پہلا نکتہ میں پیش کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ آخر کیوں ملک کے ذمہ داران اس بات کے پابند ہوتے ہیں کہ ہر سال ان ایام میں بسیجی تحریک کو خراج تحسین پیش کریں اور بسیج کی یاد اور اس کی تمجید کو اپنے پروگرام کا حصہ بنائیں؟ اس کی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ بسیج کو نسل در نسل جاری رہنا چاہیے اور مسلسل آگے بڑھنا چاہیے۔ بسیج ایک قیمتی قومی تحریک ہے۔ بسیج کی تحریک میں الٰہی محرکات بھی شامل ہیں، فطری محرکات بھی، اور یہ غیرت مندی اور اعتمادِ نفس سے بھی جنم لیتی ہے۔ آج بحمد اللہ بسیجی طبقہ انہی خصوصیات کے ساتھ ملک کے ہر گوشے میں پھیلا ہوا ہے، اور بسیج کی چوتھی نسل—یعنی یہی نوخیز نوجوان—تحرک، کوشش اور عملی میدان میں اترنے کی تیاری میں مصروف ہے، جن کی تفصیل میں بعد میں عرض کروں گا۔ یہ ملک کے لیے ایک عظیم دولت ہے؛ اسے ضائع نہیں ہونا چاہیے؛ یہ دولت نسل در نسل ملک میں باقی رہنی چاہیے۔
دنیا کے ہر خطے اور ہر ملک میں اگر ایسی کوئی چیز موجود ہو تو وہ ان کے لیے قیمتی، نہایت اہم، مفید اور ضروری سمجھی جاتی ہے؛ بالخصوص ہمارے جیسے ملک میں، جو کھلم کھلا عالمی استکبار، غنڈہ صفت طاقتوں اور دراصل بین الاقوامی غنڈوں کے مقابل سینہ سپر ہو کر کھڑا ہے اور جس نے “محاذِ مقاومت” کے نام سے ایک واضح محاذ قائم کر رکھا ہے، ایسے ملک کو بسیج کی ضرورت دنیا کے تمام ملکوں سے کہیں زیادہ ہے۔
دشمنیاں بہت ہیں، لالچ اور طمع بے شمار ہے، طاقتور قوتوں کی مداخلتیں مختلف ملکوں میں عام ہیں، اور ان تمام ظلموں، زیادتیوں اور حد سے بڑھی ہوئی خواہشات کے مقابل ایک عنصرِ مقاومت کا دنیا میں موجود ہونا ضروری ہے۔ آج یہ عنصر—یعنی مقاومت کا عنصر—جو ایران میں قائم ہوا اور پروان چڑھا، اب پھیل چکا ہے، نشوونما پا چکا ہے اور موجود ہے۔ آپ دیکھ رہے ہیں کہ آج مغربی ممالک—یورپی ملکوں میں حتیٰ خود امریکہ میں—مقاومت کے حق میں نعرے لگائے جا رہے ہیں؛ غزہ کی مقاومت اور فلسطین کی مقاومت کے حق میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔ یعنی یہ عظیم اور قیمتی تحریک، جو ایران سے شروع ہوئی تھی، آج بتدریج دنیا کے ایک بڑے حصے میں پھیل چکی ہے؛ یہ ایک ناگزیر حقیقت ہے اور اسے باقی رہنا چاہیے۔
یہ مبارک رجحان، یعنی بسیج کا یہ رجحان، مقاومت کی یہ تحریک، اپنے اصل مولد یعنی اسلامی ایران میں برقرار رہنی چاہیے؛ اسے نسل در نسل منتقل ہونا چاہیے، آگے بڑھنا چاہیے اور انشاءاللہ روز بروز زیادہ مضبوط اور کامل تر ہونا چاہیے۔ اسی بنا پر ہمیں ہر سال پچھلے سال سے بڑھ کر بسیج کی تمجید کرنی چاہیے، اس کی تکریم اور قدردانی کرنی چاہیے اور اپنے ملک کے نوجوانوں، بالخصوص آمادہ نوجوانوں کے درمیان اسے فروغ دینا چاہیے۔ بسیج کے زندہ رہنے سے مقاومت زندہ رہتی ہے۔ اگر بسیج متحرک، توانا، با نشاط اور زندہ ہو تو دنیا کے غنڈوں اور ظالموں کے مقابل مقاومت کا وہ مظہر بھی زندہ رہے گا، ترقی کرے گا اور دنیا کے مستضعفین کو حوصلہ اور پشت پناہی کا احساس ہوگا؛ وہ محسوس کریں گے کہ ایک قوت موجود ہے جو ان کی حمایت کرتی ہے، ان کا دفاع کرتی ہے اور ان کی آواز دنیا تک پہنچاتی ہے۔ یہ پہلا نکتہ تھا۔
دوسرا نکتہ بسیج کی شناخت کے بارے میں ہے؛ بسیج سے مراد کیا ہے؟ بسیج کیا چیز ہے؟ یہ نہایت اہم سوال ہے۔ بسیج کا ایک ظاہری اور تنظیمی چہرہ ہے جو سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی کا حصہ ہے؛ یہ چہرہ ایک طرف باوقار، مضبوط اور باصلابت ہے اور دوسری طرف خدمت گزار بھی ہے۔ جہاں دشمن کے مقابل آتا ہے، وہاں حقیقی معنوں میں دشمن شکن اور طاقت ور ہوتا ہے؛ اور جہاں عوام کے سامنے آتا ہے، وہاں سراپا خدمت بن جاتا ہے۔ زلزلوں میں، سیلابوں میں، قدرتی آفات میں اور مختلف مشکلات کے مواقع پر آپ بسیج کو عوام کی خدمت میں مصروف دیکھتے ہیں۔ یہ بسیج کا وہ رسمی اور نمایاں چہرہ ہے جو سپاہِ پاسدارانِ انقلابِ اسلامی کا ایک حصہ اور اس کی ایک قوت ہے۔
لیکن اس رسمی اور ظاہری چہرے کے پیچھے ایک نہایت وسیع اور ہمہ گیر پس منظر موجود ہے جو ملک کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ ملک میں موجود ہر غیرت مند، تیار بہ کار اور پُرانگیز فرد اور ہر ایسا مجموعہ دراصل اسی بسیجی مجموعے کا حصہ ہے جو اس نمایاں اور تنظیمی بسیج کی پشت پناہی کرتا ہے۔ جو لوگ مختلف میدانوں میں سرگرم ہیں، محنتی اور پُرعزم ہیں—علم میں، صنعت میں، معیشت میں، یونیورسٹی میں، حوزۂ علمیہ میں، کاروباری ماحول میں، پیداوار کے میدان میں—ہر وہ شخص جو ایمان، جذبے، ہمت اور امید کے ساتھ کام کر رہا ہے، حقیقت میں اسی عظیم اور وسیع بسیج کا ایک جز ہے جس سے الحمدللہ پورا ملک بہرہ مند ہے۔
ایسا مجموعہ جو آج بحمداللہ موجود ہے اور جسے برقرار رہنا چاہیے، دشمن کے منصوبوں کے مقابل ڈٹ سکتا ہے اور اپنی جہادی محنت کے ذریعے دشمن کی سازشوں کو ناکام بنا سکتا ہے؛ خواہ وہ فوجی میدان ہو، اقتصادی شعبہ ہو، پیداوار کا میدان ہو، علم کی پیداوار ہو یا ٹیکنالوجی کی ترقی اور اس جیسے دیگر شعبے ہوں۔
اس بارہ روزہ جنگ میں شہید ہونے والے سائنس دان سب کے سب بسیجی تھے؛ وہ دراصل بسیج ہی کا کام انجام دے رہے تھے۔ اگرچہ وہ تنظیمی طور پر بسیج کے رکن نہیں تھے، لیکن حقیقی معنوں میں بسیجی تھے اور انہیں ایک خالص اور قیمتی بسیجی سمجھا جانا چاہیے۔ فوجی آلات بنانے والے بسیجی ہیں؛ جو میزائل یا دیگر عسکری سازوسامان ڈیزائن کرتا ہے، جو اسے تیار کرتا ہے، جو اسے داغتا ہے اور جو اس سے وابستہ درجنوں معاون خدمات انجام دیتا ہے، یہ سب بسیجی ہیں؛ اگرچہ وہ تنظیمی طور پر بسیج کے رکن نہ ہوں، مگر حقیقت میں بسیجی ہیں۔
وہ شخص جو مضبوط منطق، واضح بیان اور گویا زبان رکھتا ہے اور دشمن کے پھیلائے ہوئے شبہات، افواہوں اور وسوسوں کے مقابل کھڑا ہو کر روشنگری کرتا ہے، وہ بسیجی ہے۔ وہ ڈاکٹر یا نرس جو جنگ کے ایام میں اسپتال کو نہیں چھوڑتا اور زخمیوں کی خدمت میں لگا رہتا ہے، وہ بسیجی ہے۔ وہ کھیلوں کا ہیرو جو بین الاقوامی میدانوں میں لاکھوں انسانوں کی نظروں کے سامنے اپنے خدا، اپنے دین، اپنی ملت اور اپنے ملک سے وابستگی اور عقیدت کا اظہار کرتا ہے، وہ بسیجی ہے۔ درحقیقت بسیجی کی وسیع تعریف ان سب کو اپنے اندر سموئے ہوئے ہے۔ وہ ہمہ گیر بسیج جس کے قیام کے لیے امام کوشاں تھے، یہی بسیج ہے جو آج موجود ہے اور جس پر امام خود فخر کرتے تھے کہ وہ بسیجی ہیں۔
یہ بسیج کسی خاص طبقے سے مخصوص نہ تھا اور نہ ہے؛ تمام اقوام، مختلف افراد، تمام پیشے اور ملک کے تمام طبقات اس بسیج کا حصہ ہیں۔ اس بیان سے جو نتیجہ میں اخذ کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ قومی طاقت میں اضافے کے لیے بسیج کی قدر کرنی چاہیے، بسیج کو مضبوط بنانا چاہیے اور اسے آنے والی نسلوں تک منتقل کرنا چاہیے تاکہ سب اس کی برکتوں سے فائدہ اٹھا سکیں۔ میری ہمیشہ سے سرکاری اداروں کو یہی نصیحت رہی ہے کہ بسیجی انداز میں کام کریں، اپنی ذمہ داریوں کو بسیجی جذبے سے ادا کریں؛ حقیقی معنوں میں بسیجی طرزِ عمل اپنائیں، یعنی ایمان، جذبے، ہمت اور غیرت کے ساتھ عمل کریں۔ یہ بسیج سے متعلق نکات تھے۔
اب میں خطے کے مسائل کے بارے میں دو تین باتیں عرض کرنا چاہتا ہوں، جن کی خبریں آپ روزانہ ٹیلی وژن پر سنتے اور دیکھتے ہیں۔
پہلا نکتہ یہ ہے کہ بارہ روزہ جنگ میں ملتِ ایران نے بلا شبہ امریکہ کو بھی شکست دی اور صہیونیوں کو بھی شکست دی۔ وہ آئے، شرارت کی، مار کھائی اور خالی ہاتھ واپس لوٹ گئے؛ حقیقی معنوں میں شکست اسی کو کہتے ہیں۔ ہاں، انہوں نے شرارت کی، مگر اپنے کسی بھی مقصد میں کامیاب نہ ہو سکے۔ بعض کے بقول صہیونی حکومت نے اس جنگ کے لیے بیس سال تک منصوبہ بندی اور تیاری کی تھی۔ بیس سال کی منصوبہ بندی اس لیے کی گئی تھی کہ ایران میں ایسی جنگ بھڑکے جس میں عوام کو بھڑکا کر نظام کے خلاف کھڑا کیا جا سکے؛ مگر نتیجہ اس کے بالکل برعکس نکلا۔ وہ ناکام لوٹے، حتیٰ کہ وہ لوگ بھی جو نظام سے فاصلہ رکھتے تھے، نظام کے ساتھ آ کھڑے ہوئے اور ملک میں ایک عمومی اتحاد پیدا ہوا، جس کی قدر کرنی چاہیے اور اسے محفوظ رکھنا چاہیے۔
یقیناً ہمیں بھی نقصانات اٹھانے پڑے، ہماری عزیز جانیں ضائع ہوئیں؛ اس میں کوئی شک نہیں۔ مگر یہ جنگ کی فطرت ہے؛ قرآنِ کریم میں ارشاد ہوتا ہے: «فَیَقتُلونَ وَ یُقتَلون»۔ جنگ کی نوعیت ہی یہی ہے۔ تاہم جمہوری اسلامی نے یہ ثابت کر دیا کہ وہ “ارادے” اور “قدرت” کا مرکز ہے؛ وہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، طاقت کے ساتھ ڈٹ سکتی ہے اور کسی کے ہنگامے برپا کرنے سے مرعوب نہیں ہوتی۔ دشمن کو پہنچنے والے مادی نقصانات ہمارے نقصانات سے کہیں زیادہ تھے؛ اگرچہ ہمیں بھی نقصان ہوا، لیکن جس نے حملہ شروع کیا، وہ ہم سے زیادہ خسارے میں رہا۔
دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس بارہ روزہ جنگ میں امریکہ کو شدید نقصان اٹھانا پڑا۔ اس نے حملے اور دفاع دونوں میں اپنی جدید ترین اور آخری درجے کی جنگی ٹیکنالوجی استعمال کی؛ اپنی آبدوزوں سے فائدہ اٹھایا، جنگی طیاروں کو بروئے کار لایا اور اپنے سب سے جدید دفاعی نظام کو میدان میں اتارا، لیکن اس کے باوجود وہ اپنے مطلوبہ اہداف حاصل نہ کر سکا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ملتِ ایران کو فریب دے، انہیں اپنے پیچھے لگائے، مگر معاملہ اس کے بالکل برعکس ہو گیا۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا، امریکہ کے مقابل ملتِ ایران کا اتحاد مزید مضبوط ہوا اور انہوں نے حقیقی معنوں میں اسے ناکام بنا دیا۔
غزہ کے اس المیے میں، جو آج ہمارے خطے کی تاریخ کے اہم ترین سانحات میں شمار ہوتا ہے، صہیونی حکومت شدت سے بے آبرو اور بدنام ہو کر رہ گئی، اور امریکہ بھی اس ظالم اور غاصب حکومت کے ساتھ کھڑا ہو کر اسی بدنامی اور رسوائی میں شریک ہوا اور خود بھی بری طرح نقصان اٹھا بیٹھا۔ دنیا کے لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ اگر امریکہ کی پشت پناہی نہ ہوتی تو صہیونی حکومت اس قدر تباہ کن جرائم کی ہرگز صلاحیت نہ رکھتی۔ آج دنیا کا سب سے زیادہ نفرت کیا جانے والا شخص صہیونی حکومت کا سربراہ ہے؛ آج وہی دنیا کا سب سے منفور انسان ہے، اور دنیا کی سب سے منفور تنظیم اور حاکم ٹولہ صہیونی رژیم ہے۔ چونکہ امریکہ اسی کے پہلو میں کھڑا ہے، اس لیے اس نفرت اور ناپسندیدگی کا اثر لازماً امریکہ تک بھی منتقل ہوا ہے۔
دنیا کے مختلف خطوں میں امریکہ کی مداخلتیں بھی ان عوامل میں سے ہیں جو روز بروز اسے عالمی سطح پر مزید تنہا کر رہی ہیں۔ چاہے بعض ملکوں کے حکمران اس کی خوشامد ہی کیوں نہ کریں، لیکن اقوام کے درمیان امریکہ کی نفرت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ جہاں کہیں بھی اس نے مداخلت کی ہے، وہاں یا تو جنگ بھڑکی ہے، یا نسل کشی ہوئی ہے، یا تباہی اور دربدری نے جنم لیا ہے؛ یہی امریکہ کی مداخلتوں کے نتائج ہیں۔ یوکرین کی پُرخسارت اور بے نتیجہ جنگ بھی امریکہ ہی نے شروع کروائی، مگر وہ کسی انجام تک نہ پہنچ سکی۔ امریکہ کا موجودہ صدر یہ دعویٰ کرتا تھا کہ وہ اس مسئلے کو تین دن میں حل کر دے گا، مگر آج تقریباً ایک سال گزر جانے کے بعد وہ اسی ملک پر، جسے اس نے خود جنگ میں جھونکا، اٹھائیس نکاتی منصوبہ زبردستی مسلط کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
لبنان پر صہیونی حکومت کے حملے، شام پر جارحیت، مغربی کنارے اور غزہ میں اس کے جرائم—جن کی دردناک صورتِ حال پوری دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے—یہ سب امریکہ کی پشت پناہی سے انجام پا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں امریکہ کو حقیقی معنوں میں نقصان پہنچا ہے اور وہ عالمی نفرت کا نشانہ بنا ہے۔ البتہ اس دوران بعض افواہیں بھی گھڑی جا رہی ہیں کہ ایران کی حکومت نے فلاں ملک کے ذریعے امریکہ کو کوئی پیغام بھیجا ہے؛ یہ سراسر جھوٹ ہے اور ایسی کوئی بات قطعاً وجود نہیں رکھتی۔
امریکی اپنے دوستوں سے بھی وفاداری نہیں کرتے بلکہ اپنے نام نہاد دوستوں سے بھی خیانت کے مرتکب ہوتے ہیں۔ وہ فلسطین پر قابض صہیونی مجرم ٹولے کی حمایت کرتے ہیں اور تیل اور زیرِ زمین وسائل کی خاطر دنیا کے کسی بھی حصے میں جنگ بھڑکانے پر آمادہ ہو جاتے ہیں، حتیٰ کہ آج یہ جنگ افروزی لاطینی امریکہ تک بھی جا پہنچی ہے۔ یقیناً ایسی حکومت اس لائق نہیں کہ جمہوری اسلامی جیسی ریاست اس کے ساتھ تعلقات یا تعاون کی خواہاں ہو۔
اور اب چند جملے بطور نصیحت، اپنے فرزندوں سے ملتِ عزیزِ ایران سے عرض کرتا ہوں:
دشمن کے مقابلے میں سب ایک ساتھ رہیں۔ مختلف طبقات کے درمیان یا مختلف سیاسی دھڑوں میں اختلافات موجود ہیں، اختلافات رہیں بھی؛ لیکن دشمن کے مقابل، بالخصوص بارہ روزہ جنگ کے زمانے کی طرح، سب کو ایک صف میں کھڑا ہونا چاہیے۔ یہ ہمارے عزیز ملک کی قومی طاقت اور اقتدار کے لیے ایک نہایت اہم عامل ہے۔
اگلی تاکید یہ ہے کہ معزز صدرِ مملکت اور خدمت گزار حکومت کی حمایت کی جائے۔ انہوں نے اچھے کام شروع کیے ہیں؛ بعض وہ منصوبے جو شہید رئیسی نے آغاز کیے تھے اور ادھورے رہ گئے تھے، انہیں آگے بڑھایا جا رہا ہے۔ یہ کام انجام پا رہے ہیں اور ان شاء اللہ آئندہ ان کے نتائج عوام اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے۔ حکومت کی حمایت ضروری ہے، کیونکہ اس کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری ہے؛ ملک کا انتظام چلانا کوئی آسان کام نہیں، یہ ایک سخت اور مشکل فریضہ ہے، اور یہ ذمہ داری حکومت ہی کے ذمے ہے۔
اگلی تاکید یہ ہے کہ ہم سب فضول خرچی سے بچیں؛ پانی میں فضول خرچی، روٹی میں فضول خرچی، گیس میں فضول خرچی، پیٹرول میں فضول خرچی، اور روزمرہ خوراک اور ضروری اشیائے خورد و نوش میں فضول خرچی۔ فضول خرچی سے پرہیز کرنا چاہیے، کیونکہ یہ ملک اور گھرانوں کے لیے سب سے بڑے نقصانات اور خطرات میں سے ایک ہے۔ اگر یہ فضول خرچیاں نہ ہوں، اگر زندگی کی ان ضروری چیزوں کو یوں ضائع نہ کیا جائے، تو بلا شک و شبہ ملک کے حالات موجودہ صورت سے کہیں بہتر ہو سکتے ہیں۔
اور میری آخری نصیحت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اپنا تعلق مضبوط کریں؛ بارش کے لیے، امن کے لیے، عافیت کے لیے، ہر چیز کے لیے اللہ تعالیٰ سے مدد مانگیں؛ اللہ سے گفتگو کریں، اس سے دعا کریں، عاجزی اور تضرع کے ساتھ اس کے حضور رجوع کریں۔ ان شاء اللہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے تمام امور کی اصلاح کے اسباب فراہم کردے گا۔
والسلام علیکم و رحمۃ الله و برکاتہ
۱) صحیفہ امام، جلد ۲۱، صفحہ ۱۹۴؛ ملت ایران اور بسیجیوں کے نام پیغام 23 نومبر 1988
۲) سورہ توبہ، آیت ۱۱۱ کا حصہ؛.. وہ لوگ جو اللہ کی راہ میں جنگ کرتے ہیں اور مارے جاتے ہیں..
۳) صیہونی وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو
۴) امریکی صدر کے ونزویلا کے تیل پر قبضے سے متعلق بیان کا حوالہ
۵) ڈاکٹر مسعود پزشکیان
