بسم اللہ الرحمن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سیدناونبیناابی القاسم المصطفی محمدوعلی الہ الاطیبین الاطھرین الھداۃ المھدیین سیما بقیۃ اللہ فی الارضین۔
خداوند متعال کا شکرگذار ہوں کہ اس نے مجھےشہرابرکوہ میں وفاداراور انقلابی مومن بھائیوں اور بہنوں کے درمیان آنے کی توفیق عطا فرمائی ۔ یہ ایک قدیمی اور بہت پرانا شہر ہے شہر تو پرانا ہے لیکن یہاں کے لوگوں کی فکر بڑی جوان اور نئی ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ یہاں کے ہرشخص کےدل میں اصل اسلامی فکراوراسلامی جمہوری نظام کے لئے الہی جذبات زندہ ہیں۔ جس قوم کے دل جوش اورجذبات سے مملو اور ولولہ انگیزہوں وہ جوان اور زندہ قوم ہوا کرتی ہے، خدا کی توفیق اور انقلاب کی برکت سے ہماری قوم میں یہ الہی عطیہ موجود ہے اس کے علاوہ مردم شماری کے حساب سے ملک کی اکثر یت، خودابرکوہ کی اکثریت جوانوں پر مشتمل ہے ایک جوان شہر، ایک جوان معاشرہ اورایک جوان ملک اپنے مستقبل کے بارے میں پر امید ہوسکتا ہے وہ اسطرح کہ جوان ہمتیں مستقبل سازی کریں گی اور جوانی کی طاقت معاشرہ کو آگے کی سمت لے جائے گی۔
آپ کے شہر کے محترم امام جمعہ نےابرکوہ میں پانی کی قلت کی جانب مختصراًاشارہ کیا۔ میں نے بھی یہاں آنے سے قبل جب تمام صوبہ جات خصوصاً یہاں سے آئی رپورٹوں پر نظر دوڑائی چونکہ یہاں آنے کا خواہشمند تھا تودیکھا کہ ان میں بھی باربار پانی کی قلت کی شکایت کی گئی ہےیہ شہر اور یزد صوبہ کا ایک علاقہ زراعت پر انحصار کرتا ہے اور زراعت کے لئے پانی کی ضرورت ہے لیکن اس پورے صوبہ میں پانی کی قلت ہے اس ضلع میں بھی پانی کی قلت ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مشکل بھی حکومتی کوششوں اور عوام و حکام کے تعاون سے دیگر ساری مشکلات کی طرح حل ہو جائے گی مہم یہ ہے کہ قوم کچھ مانگے تو حکام خدمت گزاروں کی مثل کمر ہمت باندھ کر عوام کی مشکلات رفع کرنے کا تہیہ کر لیں۔
انقلاب سے سالہا قبل بلکہ انقلاب سے قبل قوم دو مشکلوں سے دوچار تھی: ایک صاحبان اقتدار کے اندر ذمہ داری کااحساس نہ ہونا۔ حکام کوعوام کے سامنے اپنی کسی ذمہ داری کا احساس نہیں تھا ملک کے سربراہ ملک کو اپنی جائداد سمجھتے تھے اور اپنی جائداد سے فائدہ اٹھانے کے لئے یہ دیکھتے تھے کہ کہاں کس کام میں ان کا زیادہ فائدہ ہے عوام کا فائدہ ان کے لئے اہمیت نہیں رکھتا تھا "دورافتادہ" اور"نزدیکی علاقہ" کی اصطلاح وہیں سے وجود میں آئی فلاں شہر دور افتادہ ہے یعنی ملک کے دارالحکومت سے دور ہے، تہران سے دور ہے اور یہ دور ہونا ہی اس علاقہ کی پسماندگی کی لئے کافی تھا چونکہ ان کی نظریں بس اپنے آس پاس کے علاقوں پر ہی مرکوزرہتی تھیں ان کی توجہ ان کاموں، ان مراکز اور ان علاقوں پر رہتی تھی جہاں سے انہیں فائدہ پہونچے، عوام کے لئےکوئی کام نہیں ہوتا تھا، انقلاب نے یہ طریقہ کار بدلا ،انقلاب نے ملک کےحکام کےدرمیان دورونزدیک کی منطق ختم کی، اسی لئے آپ دیکھ رہے ہیں کہ ملکی حکام، کابینہ اور صدرجمہوریہ ملک بھر کا دورہ کرتے ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ حکام کی نظر، جذبے اور ہمتیں ملک کے تمام شہروں کے بیچ تقسیم ہونی چاہئیں ایسا نہ ہو کہ جو شہر اور جو علاقہ دور ہے وہ حکام کے ہمت و ارادہ سے محروم رہے جی نہیں دورو نزدیک کا کوئی تصور نہیں ہے آج اس ملک میں دوردرازعلاقوں اور چھوٹے شہروں کے لوگ ملک کے حکام یعنی صدر، حکومت اور وزراء کو نزدیک سے دیکھ لیتے ہیں انہیں خط دیتے ہیں براہ راست انہی کے حلقوم و زبان سے ان کی باتیں سنتے ہیں گذشتہ پوری تاریخ میں انہیں اتنی بھی امید نہیں تھی کہ کوئی تیسرے درجہ کا سرکاری افسر ان کے پاس آئے گا۔ تو آج ملکی حکام اورسربراہان کے اندر ذمہ داری کا احساس ہے۔
دوسری چیز عوام کی ہمت اور خود اعتمادی ہے جو لوگ، جو قوم، جس شہر کی آبادی اپنی اہمیت کی قائل نہ ہو وہ انسانی معاشروں کی ہردوڑ میں ہمیشہ پیچھے ہی رہے گی۔ علاقائی ممالک اورہمارے ملک پر سامراجی تسلط کے دورمیں ان کا ایک خطرناک پروپگینڈہ یہ تھاکہ ہماری قوم کے مردوعورت کو یہ باور کرادیں کہ تم مغربی اور یوروپی اقوام کے مقابلہ میں پسماندہ اور دوسرے درجہ کے ہو، پھر یہ دوسرا درجہ بھی ہر علاقہ کو برابر سے نہیں دیا جاتا تھا کچھ علاقوں کو زیادہ اہمیت دیتے تھے اور کچھ علاقے بھی ان سے زیادہ توقعات رکھتے تھے انقلاب اسلامی نے ایک طوفان کی مثل اس پوری آلودہ اور گندی فضا کا صفایا کر دیا۔
آج ہماری قوم اپنی درخشاں تاریخ کے سہارے، اپنی اندرونی صلاحیتوں کے طفیل، اسلام و ایمان کی بدولت، کہ جس کے پاس اس وقت انسانیت کے لئے نئی بات ہے، خود کو پسماندہ نہیں سمجھتی، خود پر یقین رکھتی ہے اسی چیز سےقوم کی ہمتیں بلند ہوتی ہیں، لوگ ترقی کی بلندیوں تک جانا چاہتے ہیں، ان کی تشویق ہوتی ہے آپ بھائیوں اور بہنوں سے میری گزارش ہے کہ اپنے اندر سے ان شیریں امیدوں کو زائل نہ ہونے دیجئے گا۔
اس ملک کو ناحق پسماندہ رکھا گیا ہم نے خوب ترقی کی ہے لیکن یہ ترقی ایرانی قوم کی شان و منزلت کے لحاظ سے کم ہے اسلام کی برکت سے ایرانی قوم ایک دور میں علمی، مادی اورمعنوی برتری کی حامل تھی آج ہم نے پھر سے اسلام کو پا لیا ہے اسلام کے لئے اپنی گودیاں پھیلا دی ہیں ہم نے اسلام کو دنیا کے سامنے زمانہ اور زمانہ کی ترقی سے ہم آہنگ انداز سے پیش کیا ہے آج اسلام کا سیاسی نظریہ، اسلام کا سماجی نظریہ، اسلام کا عرفانی نظریہ، افراد معاشرہ کے آپسی اور اندرونی تعلقات کے بارے میں اسلامی نظریہ دنیا میں ایک دستورالعمل اور ایک آئیڈیل کے بطور پیش ہو سکتا ہے یہ صرف میں یہاں پر نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ دنیا کے انصاف پسند مفکرین آج یہی کہہ رہے ہیں اور ایرانی قوم کوبھی یہ چیز آسانی سےدستیاب نہیں ہوئی ہے آپ نے شہید دیئے، ابرکوہ سے بھی عزیز شہداء ہیں، یہاں بھی فداکار لوگ ہیں، وہ مائیں ہیں جنہوں نے اپنے بچے انقلاب کے دوران، انقلاب کےدفاع کے لئے اور مقدس دفاع کے دوران ملک کی سرحدوں کی حفاظت کے لئے محاذ جنگ پر روانہ کئے ان چیزوں نے انقلاب کی حفاظت کی ہے، پرچم انقلاب سر بلند رکھا اور ایرانی قوم کو عزت دلائی ہے۔
آج جو آپ دیکھ رہے ہیں کہ بین الاقوامی سطح پرایران سر بلند ہے اور ایک قابل فخرحیثیت رکھتا ہے ایران کے بارے میں ایسے تصور کی ایجاد میں پوری قوم اور ہر علاقہ کے لو گ شریک ہیں سب نے کوشش کی زحمت اٹھائی۔! تو ان دو چیزوں کی ضرورت ہے عوام کی ضروریات کے بارے میں اپنے احساس ذمہ داری میں روز بروز اضافہ کریں اور میں آپ سے یہ عرض کر سکتا ہوں کہ خوش قسمتی سے ہمارے موجودہ حکام، وزرا، صدر اور اور دیگر اعلی عہدہ داروں میں احساس ذمہ داری پایا جاتا ہے بینی و بین اللہ انسان دیکھتا ہے کہ احساس ذمہ داری کے سلسلہ میں ان کے یہاں کوئی کمی نہیں ہے کام بھی خوب کر رہے ہیں انصافاً بے حد کوششیں کر رہے ہیں آبادکاری، مادی خدمات اورعوامی امور کی انجام دہی کے علاوہ یہ لوگ جو ایک بہت بڑی خدمت کررہے ہیں وہ یہ ہے کہ انہوں نے انقلابی نعرے اور انقلابی اقدار اپنائی ہیں اور اس بات پر فخر کرتے ہیں یہ بہت اہم ہے ہمارے لوگوں کے درمیان کچھ ایسے افراد پہلے بھی تھے اور آج بھی ہیں جنہیں ان نعروں کی قدرو قیمت کا پتہ نہیں تھا انہیں ان نعروں پر فخر کرنا چاہئے تھا لیکن فخر نہیں کرتے تھے۔
خوش قسمتی سے ملک کے اعلی حکام کو ہمیشہ سے انقلابی نعروں اور انقلابی اقدار پر فخر رہا ہے تو قوم مطمئن رہےکہ یہ بنیادی چیز موجود ہےیعنی ملک کے حکام اورعہدہ دار ملک بھر میں فلاح و بہبود کے لئے مستعد ہیں۔
تو آپ جب اپنے مسائل مثلاً پانی کا مسئلہ، زراعت کا مسئلہ، سڑک کا مسئلہ یا روزگار کا مسئلہ ان کے سامنے رکھتے ہیں تو ان کے سامنے ملک بھر کے بہت سے مسائل ہوتے ہیں اورحکام کو ان سب کو نپٹانا ہوتا ہے اس کے لئے انہیں منصوبہ سازی کرنا پڑتی ہے حساب لگانا پڑتا ہے ملکی وسائل مد نظر رکھنا پڑتے ہیں خوش قسمتی سے ہمارے پاس وسائل کی بھی کمی نہیں ہے کارآمد فیلڈ ورکر بھی کم نہیں ہیں تو انہیں آگے بڑھنے کے لئے منصوبہ بنانا پڑتا ہے۔ اب تک ہم نے ترقی کی ہے ایرانی قوم ملک کی آبادکاری میں انقلاب سے پہلے کے پچاس سالوں میں عوام کے حقوق سے لا پرواہ ظالم اور ستم پیشہ طاغوتی حکومت میں جتنا آگے بڑھ سکتی تھی اس سے کئی گنا زیادہ ان ستائیس اٹھائیس سالوں میں آگے بڑھی ہے ان لوگوں میں عوام کی ضروریات سے متعلق احساس ذمہ داری کا فقدان تھا جو کام کرتے تھے یا تو انہیں خود اس کی ضرورت ہوتی تھی، یا دکھاوا ہوتا تھا، یا کسی دباؤ کے تحت کرتے تھے یا یہ کہ عوام کے شدیدمطالبات انہیں اس کام کے لئے مجبور کر دیتے تھے بصورت دیگر کچھ نہیں کرتے تھے صوبہ یزد، جہاں کے لوگ بڑے پاک صاف ہیں اس پران علاقوں کی بنسبت کم توجہ دیتے تھے جہاں سے ردعمل کا خطرہ ہوتا تھا تو یہ سب کچھ تھا۔ احساس ذمہ داری نہیں تھا۔
آج بحمداللہ حکام میں حد درجہ کا احساس ذمہ داری ہےلوگ اس بات پر مطمئن رہ سکتے ہیں کہ حکام اپنے لئے کچھ نہیں چاہتے انکی کوششیں انکا کام ان کی مستقل زحمات صرف لوگوں کے لئے ہیں۔
دوسری چیز جس کی میں ہمیشہ تاکید کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ جوان کبھی بھی اپنی ہمتیں پست نہ ہونے دیں، ہمتیں بلند رکھیں، آپ پڑھائی میں مصروف ہوں، ٹیکنیکل کام میں لگے ہوں، زراعت کررہے ہوں یا کسی اورپیشہ سے منسلک ہوں یہ خیال رکھئے کہ اس ملک کی ترقی میں آپ کا بھی حصہ ہے آپ کی بھی کچھ ذمہ داری ہے اور پھر اپنے حصہ کی ذمہ داری اپنی حد تک نبھائیے، خوش قسمتی سے ہماری قوم کو اس بات احساس ہے آپ کی ہر جگہ موجودگی اور اس جوش وولولہ کا سب سے پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ عالمی سطح پر ایرانی قوم کو شکست دینے کی سازشیں کرنے والے مایوس ہوجاتے ہیں دشمن کو پیچھے دھکیلنے کا سب سے بہترین طریقہ اپنی آمادگی کا اعلان ہے۔
جو قوم ہر میدان میں اپنی آمادگی، اپنی موجودگی اور اپنےعزم راسخ کا اعلان کرتی ہے دشمن اس قوم میں دراندازی کرنے اور اس پر قابو پانے سے مایوس ہو جاتا ہے عالمی افکار کے مقا بل ایرانی قوم کسی بھی میدان میں اپنی کمزوری اور عقب نشینی کا اعلان نہ کرے آپ دیکھ رہے ہیں کہ جوہری توانائی کے حصول پر حکام کا اصرار ہے اس کی وجہ سب سے پہلے تو یہ ہے کہ یہ ایک ضرورت ہے پرسوں میں نے طلبہ اور جوانوں کے اجتماع میں اس کی وضاحت کی ہے یہ قومی ضرورت ہے اگر آج ہم نے اس پر کام شروع نہ کیا تو دس سال بعد پندرہ سال بعد قوم کو اس کا نقصان اٹھانا پڑے گا اور اگر آج سے اس پر کام شروع کر لیا تو جب ہمیں اس کی ضرورت ہوگی ہم اپنی محنتوں کا پھل حاصل کر لیں گے اگر آج ہم کام شروع نہ کریں تو پیچھے رہ جائیں گے پہلی وجہ تو یہ ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر اس مقام پر ہم دشمن کے مقابل پسپائی اختیار کر لیں گے تو اس کی ہمت بڑھ جائے گی وہ کچھ اور منوانا چاہے گا ایک قدم اور آگے بڑھے گا یہی وجہ ہے کہ ایرانی قوم اپنے مؤقف پر ڈٹی ہوئی ہے اورڈٹے رہنا ہی صحیح طریقہ کا رہے، جیسا کہ ملک کے حکام اور سرکاری عہدہ داروں نے بارہا کہا ہے اور لوگوں نے بھی اس کا مثبت جواب دیا ہے واقعاً اس سائنسی طاقت اور توانائی کا حصول ایرانی قوم کا مسلّم الثبوت حق ہے۔
یہ تو ایک نمونہ ہے ایرانی قوم کے جملہ اہداف و مقاصد کا خلاصہ اسی میں نہیں ہے ابھی ہمیں ایک طولانی راستہ طے کرنا ہے ملک کی آبادکاری کے ساتھ ساتھ، بین الاقوامی اورخارجہ تعقات میں اپنا اصلی مقام حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اخلاقی اور روحانی اعتبار سے بھی بہت سارے کام کرنے باقی ہیں اور اس سب کے لئے حکام کی جدوجہد اورملت عزیز کے تعاون کی ضرورت ہے حکام کی طرف سے کوششیں جاری ہیں اور لوگ بھی بحمداللہ جس جس شہر میں ہم جاتے ہیں اور اپنی عزیزعوام سے سامنا ہوتا ہے تو ہمیں ان میں بھی آمادگی اور ولولہ دکھائی دیتا ہےملک کے معروف اور اپنی ایک پہچان رکھنے والے ابر کوہ کے اس صحرائی علاقہ میں بھی انسان کو یہاں کے لوگوں، جوانوں اور عوام میں اسی قسم کے جذبات نظر آتے ہیں۔
مستقبل قریب میں پھر سےانتخابات در پیش ہیں عوام کی انتخابات میں شرکت بھی قوم کے مصمم ارادہ، طاقت اورعزم راسخ کا اظہار ہے ہمیشہ سے کوششیں کی گئی ہیں کہ انتخابات کوغیر ضروری دکھایا جائے تاکہ لوگ اس میں حصہ نہ لیں، پولنگ بوتھ تک نہ جائیں دشمن یہی چاہتا ہے لیکن جب ہم اسلامی پارلیمنٹ کی تاریخ پر نگاہ دوڑاتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہمارے پیارے عوام نے ہمیشہ دشمن کی مرضی کے بالکل بر خلاف عمل کیا ہے۔
ہرالیکشن میں لوگوں کی شرکت، توجہ اور احساس ذمہ داری سابقہ انتخابات سے زیادہ رہی ہے ہر الیکشن میں اس کی نشانیاں دیکھی جا سکتی ہیں امید ہے کہ اگلے الیکشن میں بھی یہی چیز دیکھنے میں آئے گی ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ اس ذمہ داری کی ادائیگی میں حصہ لیں انتخابی رقابت ایک مثبت رقابت ہے یہ ان رقابتوں میںسے ہے جن سے لوگوں کو فائدہ پہنچتا ہےاور جیسا کہ میں نےیزد میں بھی کہا ہے یہاں پھر کہہ رہا ہوں کہ انتخابی بے ضابطگیوں سے پوری طرح پرہیزکیا جائے بدگوئی، الزام تراشی، توہین، خود کو یا اپنے امیدوار کو اونچا دکھانےکے لئے دوسروں اور حریفوں کو لوگوں کی نظروں میں خوار کرنا صحیح اور اسلامی طریقہ کار نہیں ہے رقابت ہونی چاہئے مثبت اور پر جوش رقابت ہونی چاہئے لیکن ضابطہ اخلاق کی رعایت کے ساتھ۔
امید ہے کہ خدا اس الیکشن میں بھی عوام کو اپنی ذمہ داری پر عمل کرنے کی توفیق دے گا! خداوند متعال ایرانی عوام کی عزت و آبرو میں روز بروز اضافہ فرمائے! اپنا فضل و کرم آپ سب کے شامل حال کرے۔
مجھ پرآپ کی آمد، اکٹھا ہونے اور پرخلوص جذبات کا شکریہ ادا کرنا لازم ہے اس بات پر معذرت چاہتے ہیں کہ ہم ابرکوہ پہنچنے کے اپنے معینہ وقت سے ایک گھنٹہ تاخیر سے پہونچے اور وجہ یہ تھی کہ راستہ میں برف اور کہرتھا لہذا مجبوراً آہستہ آہستہ آنا پڑااوردیر ہوگئی اگرچہ ہم یزد سے صحیح وقت پر چلے تھے تاکہ صحیح وقت پر یہاں پہنچ جائیںلیکن راستے میں برف جمی ہوئی تھی اور کہرا پڑا ہوا تھا۔ ج کی وجہ سے دیر ہو گئی۔
پروردگارا! تجھے تیری عزت و کرم کی قسم ان لوگوں پر اپنی رحمت اور لطف و کرم کی برسات نازل فرما۔ پرودگارا! ان لوگوں کی دنیا و آخرت ہر روز پہلے سے زیادہ آباد فرما۔ اس شہر اور اس علاقہ کے شہدا کواپنے اولیاء کے ساتھ محشور فرما۔ پروردگارا! امام راحل (رہ) کی روح کو اپنے انبیا (ع) اوراولیاء کے ساتھ محشورفرما۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ