ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا ملک بھرکی یونیورسٹیوں کے ہزاروںرضاکار طلبہ سےخطاب

بسم اللہ الرحمن الرحیم

یہ عظیم الشان جلسہ ہےآپ عزیز نوجوان اس بندہ حقیر کےلئے خدا کی شیریں ترین نعمتیں ہیں حقیقی معنی میں اسلام وانقلاب کی خدمت پرکمربستہ تازہ دم، ہوشیاراورفوج کے مانند سرگرم عمل رضاکارطلبہ، ہرعہدہ داربلکہ ملک کے مستقبل سے محبت رکھنے والے ہر شخص کے لئے لائق صد شکراورقابل فخرہیں۔

کچھ عزيز بھائیوں اور بہنوں نے اپنے خیالات کا اظہارکیا ہے اے کاش میرے اورحاضرین کے لئے ممکن ہوتا توہم ترجیح دیتے کہ اس دوسرے گھنٹے میں بھی ہم آپ کے خیالات سنتے رہتے بہرحال آپ حضرات آئے اوراپنے خیالات کا اظہار کیا یہی ہمارے لئے خوشی کا باعث ہے جس چیز کی مجھے ہمیشہ آرزورہی ہےجس کے لئے میں خدا سے دعا اور خود بھی کوشش کرتا رہا ہوں اس کے جلوے رضاکارطلبہ کے بیانات میں مجھے دکھائی دیئے ہیں اوروہ ملکی وعالمی مسائل پرگہری نظراوران کے بارے میں شفاف ذہنیت ہے! خودرضاکاروں کی اہمیت نیزعلمی اورسیاسی میدانوں میں نوجوانون کی شرکت کی اہمیت! جن باتوںپرمیں ہمیشہ جوانوں سے توجہ دینے اوران کے ذیل میں آگے بڑھنے کے لئے کہتا تھا وہ مجھے مجموعی طور پر جملہ مقررین کے بیانات میں نظرآئی ہیں مجھے یقن ہے کہ اگرمزید تقریریں ہوتیں تو ہمارے اس یقین اوراحساس میں مزید اضافہ ہی ہوتا۔

سب سے پہلے میں برادران وخواہران کی زبانی بیان کردہ نکات کی جانب ایک اشارہ کرتا چلوں اس کے بعد چند جملے رضاکاروں اور طلبہ رضا کاروں کے مسائل کے ساتھ ساتھ ملک کی عمومی مشکلات ومسائل کاخلاصۃً عرض کروں گا۔

سب سے پہلی بات یہ کہ رضاکار نوجوان کا یہ کہنا میرے لئے باعث خوشی ہے کہ " بہتر ہے کہ حکومت طلبہ کی مشکلات جوآسانی سے حل ہوسکتی ہیں، حل کردے" یا یہ شکوہ کہ " رضاکاروں کی علمی کاوشوں کی ضروری حد تک حمایت اورپشتپناہی نہیں کی جاتی" یہ میری خوشی کا باعث ہے رضاکاروں سے ہمیں یہی توقع ہے رضا کار یعنی وہ دردمند شخص جو ملک کو اپنا اورملکی مستقبل کو اپنی کوششوں پر منحصرسمجھتا ہے چونکہ گھر کا مالک ہے اس لئے پریشان ہوجاتا ہے گھر کا کوئی شیشہ ٹوٹ جائے توممکن ہے مہمان اورآنے جانے والے اس پرتوجہ ہی نہ دیں لیکن گھر کے مالک کے لئے یہ اہم نہیں ہوتا کہ شیشہ کس کمرہ کا تھا چونکہ پورا گھراسی کا ہے لہذا پریشان ہوجاتا ہے آپ رضاکارنوجوانوں میں اس قسم کی پریشانی میرے لئے قابل قدرہے۔

سیاست میں وارد ہونے پر گفتگو کی گئی ہے میں اس ضمن کچھ عرض کرنا چاہوں گا امید ہے کہ بات واضح ہوجائے گی میرے خیال سے یہ پوچھنے کی ضرورت ہی نہیں ہے، کیا یہ ہوسکتا ہے کہ رضاکار اوروہ بھی انقلابی رضا کار اورانقلابی طالب علم ملک کے سیاسی مسائل سے بے خبرہو اوراس ضمن میں اس کا کوئی موقف اورکوئی نقطہ نظرنہ ہو؟ کیا ایسا کچھ ممکن ہے؟ میں آپ رضا کار طلبہ کو تاکید کرنا چاہوں گا کہ قدامت پسندی اختیار نہ کیجئے اورہمیشہ مثبت معنی میں پرجوش طالب علم اوررضاکار بنے رہئے "قدامت پسندی اختیار نہ کیجئے" بلکہ ہمیشہ " ہوشیاررہئے" پوری طرح ہوشیاررہئے آپ نعرہ لگاتے ہیں کہ "طالب علم بیدارہے" جی ہاں ہمیں آپ سے یہی توقع ہے میں عرض کرنا چاہوں گا کہ بیداررہئے لیکن بیداررہنے کا مطلب صرف امریکہ سے بیزاری نہیں ہے امریکہ کیا ہے؟ جس امریکہ سے ہم بیزارہیں کیا وہ ایک جغرافیائی خطہ اورایک ملک کا نام ہے؟ جی نہیں یہ ایک ثقافتی، انتظامی، حفاظتی اورسیاسی شناخت اورسسٹم کا نام ہےجوظاہری آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتا ایسا سسٹم جسے بھاری مالی پشتپناہی حاصل ہے اورجسے پروپیگنڈہ اورنفسیاتی وارکا پرانا تجربہ ہے اس سے نفرت وبیزاری کے لئے دوگنی بیداری کی ضرورت ہے فوجی جنگ کی بیداری یہاں کافی نہیں ہے کہ آپ مورچہ میں چوکس رہیں اوردشمن کی معمولی سی حرکت پر اسے گولیوں کا نشانہ بنا لیں ثقافتی، سیاسی اورحفاظتی جنگ میں دشمن کی حرکات وسکنات ٹھیک سے دکھائی نہیں پڑتیں کبھی دشمن کی پالیسی کسی شخص کی زبان سے کوئی حق بات کہلوانا ہوتی ہے، دشمن توباطل پرہے پھروہ حق بات کسی شخص سے کیوں کہلوانا چاہتا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ وہ اپنا جدول بھرنا چاہتا ہے اس پازل میں سویا دوسو الگ الگ ٹکڑے بھرنا تھے جن میں سے ایک ٹکڑاوہی حق بات ہے جووہ اس شخص سے کہلوانا چاہتا ہے تاکہ جدول پورا بھرجائےتوایسے موقع پر حق بات نہیں کہنا چاہئے دشمن کے خاکہ میں رنگ نہیں بھرنا چاہئے۔اس حد تک ہوشیاری کی ضرورت ہے سیاست میں وارد ہوئیے سیاست پرغوروفکرکیجئے لیکن بہت ہوشیاری سے! دشمن آپ کی کسی بھی حرکت وسکون، کسی بھی بیان اورکسی بھی موقف سے فائدہ نہ اٹھا سکے! یہ اولین بنیاد اورایک سرخ علامت ہے۔

دشمن کو کیونکرپہچانا جائے؟ اس کی سازشوں سے کیونکرآگاہ ہوا جائے؟ کیسے سمجھیں گے کہ فلاں کام دشمن کے نفع یا نقصان میں ہے؟ یہی وہ بنیادی نقطہ ہے یہی وہ مقام ہے جہاں پوری ہمت، عدم غفلت اورپوری ہوشیاری وبیداری کی ضرورت ہے جہاں کہیں ابہام ہووہاں آگے نہیں بڑھنا چاہئے جہاں زمین مضبوط محسوس ہو وہیں قدم رکھئے اگرمشکوک لگے توہرگزقدم آگے نہ بڑھائیے لہذا قدامت پسندی اختیار نہ کیجئے لیکن ہوشیاررہئے یہی وہ سیاسی راہ ہے جوکہ سخت ہے آسان نہیں ہے لیکن آپ سختیوں سے کھیلنے والے ہیں رضا کارہیں لہذا اس سخت کام کواپنے ذمہ لے لیجئے۔

ممکن ہے کوئی دوسری طلبہ تنظیم اس بات کو سننے تک کی پوزیشن میں نہ ہولیکن آپ میںرضا کارہونے کی وجہ سے اسے کرسکنے کی طاقت ہونی چاہئے آپ میں اوردوسروں میں اتنا فرق ہے! تبریز کے ہمارے عزیز طالب علم نے بڑی اچھی اورجامع باتیں کہی ہیں اسی ذہنیت اورسیاسی رجحانات اورسیاسی پارٹیوں سے اوپر اٹھ کے جامع انداز میں سوچنے ہی کی ہمیں رضاکارطلبہ سے توقع ہے۔

طلبہ کی جہادی سیروسیاحت بہت اچھی بات ہے جوحکومت کے لئے بھی مددگارثابت ہوگی اس پر بعد میں روشنی ڈالوں گا یہ سوال بھی میرے لئے حیرانگی کا باعث ہے کہ رضاکار سائنسی میدان میں شمولیت کریں یا نہ؟ کیوں نہ کریں رضاکارتوسب سے پہلے سائنسی میدان میں ہونا چاہئے آپ کو سائنس، ٹیکنالوجی، جدیدسائنسی ایجادات اورسائنس کی ناشناس دنیا قدم رکھنا چاہئے البتہ بغیرپڑھے لکھے اوربغیر تحقیق وریسرچ کے تویہ نہیں ہوسکتا اس کا بھی ایک خاص راستہ ہے جسے بعد میں عرض کروں گا۔

ایک بات جس کا ہمارے بعض عزیزوں نے تذکرہ کیا ہے اس کی ذرا وضاحت کرنا چاہوں گا طلبہ رضاکار ایک ایسا ادارہ ہے جس کے دورخ ہیں اس کا ایک سرا یونیورسٹی اورطلبہ سے منسلک ہے اوردوسرا "سپاہ " سے، سپاہ کیا ہے؟ کیا یہ صرف ایک فوجی ادارہ ہے؟ جی نہیں یہ فوج انقلابی اورشجاعانہ مزاحمت کی علامت ہے یہ کبھی نہ بھولئے یہ مت سوچئے کہ سپاہ محض ایک فوجی شعبہ ہے تاکہ کچھ لوگوں کو کہنے کا موقع مل جائے کہ سپاہ فوجی شعبہ ہے اورہم توفوجی ہیں نہیں جی نہیں سپاہ پاسداران انقلاب ایک فوجی ادارہ سے بڑھ کرہے۔

سپاہ مزاحمت ومجاہدت کا ادارہ ہے اس کے اہداف ومقاصد وہی ہیں جن کے لئے آپ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کررہے ہیں یہ پودا میدان مجاہدت میں انقلاب کی زرخیز زمین پراگا ہے اس کا نام ہے "سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی" کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ اس میں بے مثال اورغیرمعمولی حد تک ترقی ہوگی اس فوج کے بنیادی اراکین آپ ہی کے عمر کے جوان تھے کچھ تو آپ سے بھی چھوٹے تھے جیسے ہی انہوں نے سنا کہ دشمن نے حملہ کردیا ہے امتحان، کلاس، استاد، گھر، آرام دہ زندگی وغیرہ سب چھوڑکرمحاذجنگ پرروانہ ہوگئے "فمنھم من قضی نحبہ ومنھم من ینتظر" کچھ شہید ہوئے کچھ زخمی ہوئے اورکچھ سلامت لوٹ آئے انہیں سے یہ فوج تشکیل پائی البتہ انجام کارہی اچھائی اور برائی کی بنیاد ہے ہم یہ نہیں کہتے کہ جتنے بھی لوگ محاذ جنگ پر گئے اورجس نے بھی فوجی وردی پہنی وہ سب کے سب فرشتہ ہیں جی نہیں انہیں فرشتوں میں سے بعد میں بہت سارے شیطان بن گئے انسان کی خاصیت ہی یہی ہے کہ اگرخودپرنگرانی نہ رکھے اورمقام ملائکہ تک ہی کیوں نہ پہونچ گیا ہو تووہاں سے بھی گرکرتباہ ہونے کا امکان ہے ایسے ہی بہت سارے گرگئے یہ لوگ سپاہ بنانے والے نہیں تھے یہ فوج جس طرح بنی وہ میں نے آپ کے سامنے عرض کردیا ہاں اس کے اندر لوگ اپنا اپنا مقام رکھتے ہیں۔

توآپ کا ایک سرا یونیورسٹی اورطالب علمی کے ماحول، کلاس، تعلیم، تحقیق اورعلمی بحث سے منسلک ہے اوردوسرا سراسپاہ سے، آپ کی یہ ایک اہم خصوصیت ہے! تواب آپ کو کیا کہا جائے فوجی، طالب علم یا طلبہ تنظیم کےاراکین؟ یہ ایک اہم سوال ہے اس کا جواب یہ ہے کہ آپ فوجی نہیں ہیں آپ طلبہ اورایک طلبہ تنظیم کے رکن ہیں البتہ یہ تنظیم مزاحمت کی علامت اورایک مضبوط سہارے یعنی سپاہ سے وابستہ ہے لیکن اس وابستگی سے نہ ان کی سرگرمیاں محدودہوتی ہیں، نہ ان کے ہاتھ پیر بندھے رہتے ہیں نہ علمی سرگرمیاں محدود ہوتی ہیں اورنہ ہی وہ فوج کا حصہ بنتے ہیں اس کے برعکس یہ وابستگی جہادی تجربات اوران تجربات سے حاصل شدہ نظم وضبط ان کے حوالہ کرتی ہے ایسے میں ایک طلبہ تنظیم کا فائدہ ہی فائدہ ہے آپ کوبغیر فوج میں گئے فوج کی خوبیاں حاصل ہوجاتی ہیں۔

لیکن میں بلافاصلہ کہوں گا کہ فوجی ہونا کوئی نقص نہیں ہے فوجی ہونا قابل فخر ہے لیکن بہرحال طالب علمی کے ماحول میں آپ اس فخرسے محروم رہیں گے ہاں دوسرے افتخارات آپ کو حاصل ہیں لیکن یہ افتخار فوجی ماحول سے مخصوص ہے یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی رضاکار طالبعلم فعال یا خصوصی رضا کاربن کرفوجی مشقوں میں بھی شریک ہواوردوسرے فوجی کام بھی کرے اوراس طرح فوجی افتخار بھی حاصل کرلے اس میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن "طلبہ رضاکارتنظیم" کا ڈھانچہ فوجی نہیں ہے یہ طلبہ تنظیم کی ساری خصوصیات کے ساتھ ایک طلبہ تنظیم ہی ہے لہذامیری نصیحت ہے کہ طالب علم رہئے اور سپاہ سے وابستہ ہونے پر فخر کیجئے آپ فوجی نہیں ہیں فوجی ہونا فخرکی بات ہے اوروہ بھی جب کوئی اس فوج کی عسکری شاخ کا جزہو! ہاں جب کوئی فوجی بن جائے گا تویہ اس کے لئے فخر کی بات ہوگی اورکوئی نہ بننا چاہے توکوئی زبردستی بھی نہیں ہے۔

اس تنظیم اوربقیہ تنظیموں میں فرق کیا ہے اور بھی بہت ساری تنظیمیں مومن اورانقلابی ہیں اس میں اور بقیہ میں فرق یہ ہے کہ رضا کارکا مطلب ہے وہ شخص یا وہ اشخاص جوہروقت ہرطرح کی انقلابی ضروریات پورا کرنے کے لئے آمادہ وتیار ہیں رضا کا رکا یہ مطلب ہے اب اس نام سے ایک تنظیم بنی ہے اورآپ اس کا حصہ ہیں لیکن دوسراکوئی کسی بھی تنظیم سے وابستہ ہواگراس میں بھی آپ ہی والے احساسات ہیں تووہ بھی رضا کار ہے ہاں رسمی طورسے آپ کی تنظیم کا ممبرنہیں ہے جیسے کہ کسی کارخانہ میں کام کرنے والا اگر انہیں احساسات کا مالک ہے تووہ بھی رضاکارہے، حوزہ علمیہ اوردینی طلبہ میں سےجس کسی میں اس طرح کے احساسات ہیں وہ رضاکارہے، بازارہویا دفتر! گاؤں ہویا شہرجہاں بھی کوئی اس طرح کے احساسات رکھتا ہے وہ رضاکارہے وہی احساسات کہ جن کی بنا پرکوئی شخص ہروقت ہراس جگہ حاضری کے لئے تیار ہو جہاں اس کی ضرورت ہے۔

عرض کرنے کا مقصد یہ ہےکہ میرے لئے بھی فخر کی بات ہے کہ رضاکاربن جاؤں میں نے اس طرح کا بننے کی کوشش کی ہے صدارتی دور کے آخر میں جب اس کے ختم ہونے میں دو تین مہینے رہ گئے تھے تومیں ایک یونیورسٹی میں تقریرکررہاتھا اورسوالات کے جواب دے رہا تھا ایک سوال یہ تھا کہ عہدہ صدارت سے ہٹنے کے بعد آپ کیا کرنا اورکون سا پیشہ اختیار کرنا چاہیں گے؟ میں نے جواب دیا کہ اگر امام (رہ)مجھ سے کہیں گے کہ تم ملک کے جنوب مشرق میں فلاں آخری سرحدی چوکی پرعقیدتی سیاسی شعبہ کے سربراہ تعینات ہوجاؤ تومیں فخرسے وہاں جاکرکام شروع کردوں گا اگرمجھ سے یہ ہوسکتا ہے اورمجھ سے یہی چاہا گیا ہے تومیں وہاں جانے کے لئے تیار ہوں، اپنی تعریف کردی، یہ بات اس وجہ سے میں آپ سے کہہ رہاہوں چونکہ آپ میرے بچے ہیں یہ باپ بیٹے کے درمیان کی بات ہے ورنہ اپنی تعریف کرنا مقصد نہیں ہے جب اورجہاں آپ کی ضرورت ہے وہاں حاضر ہوجائیے یہ ہوتا ہے رضاکار! رضاکار کا یہ مطلب ہے البتہ کچھ سوفیصد رضاکارہیں اورکچھ سوفیصد نہیں ہیں کچھ نوے فیصد ہیں کچھ اسی فیصد ہیں وغیرہ وغیرہ بہرحال ہمارے ملک اور نظام کوایسے افراد کی ضرورت ہے اورالحمدللہ اس کے پاس ایسے افراد موجود ہیں ہماری استقامت کا راز بھی یہی لوگ ہیں، ہماری مستقبل کی امیدیں بھی انہیں سےوابستہ ہیں انہیں کی وجہ سے ہمارے طویل المیعاد بیس سالہ منصوبہ میں کہیں کوئی تاریکی نہیں ہے۔

اس وقت ہمارا نظام سیاست و اقتصاد کی پرپیچ وخم دنیا میں ہماری جدید تخلیق ہے اس حقیقت کو صحیح سے عیاں نہیں ہونے دیتے اسلامی جمہوریہ ایرانی قوم کی ایک معرکۃ الآراء اوربا اثرتخلیق ہے میں کئی بار کہہ چکا ہوں کہ دنیائے سیاست بے شمارہنگامہ آرائیوں اورجھڑپوں کے بعد دنیائے تسلط میں بدل چکی ہے یعنی دنیا تسلط پسند اورتسلط پذیرمیں بٹی ہوئی ہے کچھ ممالک تسلط پسند اوربقیہ تسلط پذیرہیں اورممالک کے اندربھی ایک معدودگروہ تسلط پسند اورباقی لوگ تسلط پذیرہیں یعنی دنیا ایک ایسا ہرم ہے جونیچے سے چھوٹا ہونا شروع ہوتا ہے اورتیزی سے اوپر کی طرف چھوٹا ہوتا چلا جاتا ہے اورسب سے اوپرایک چھوٹی سی چوٹی ہے جوپوری دنیا پر حکومت کررہی ہے یہ دنیائے تسلط ہے سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد یہ چوٹی اوربھی چھوٹی ہوکرایک طاقت اورایک حکومت میں منحصر ہوگئی ہے جس کا نام امریکہ ہے، امریکہ پھربھی قانع نہیں ہے روس نے اس کے سامنے ہار مان لی اس کے باوجود امریکہ مطمئن نہیں ہے اورویسے ہی پیش قدمی کرتا جا رہا ہے ابھی آپ یوروپ میں نیٹوکے ماتحت میزائل ڈپو کا مشاہدہ کیجئے یہ ان ساری حرکتوں کا ایک نمونہ ہے! اسی طرح قفقاز میں امریکی موجودگی کوملاحظہ کیجئے قفقاز کسی دورمیں روس کی آرام گاہ تھی! امریکہ اسی طرح روس کو بھی چاروں طرف سے گھیرتا جا رہا ہے۔

اب اس دنیائے تسلط میں جہاں اس طاقتورخاندان کا حصہ ہونے کے باوجود یوروپی حکومتیں امریکہ کے آگے زیادہ بولنے کی ہمت نہیں رکھتیں بس کبھی کبھی کڑھتی رہتی ہیں تووہاں درمیانی اورنچلی سطح کی حکومتیں کیا کرسکتی ہیں؟! ایسی دنیا میں ایک قوم نے اٹھ کرسپرپاورکے تمام مسلمہ اصولوں پرسوالیہ نشان لگا دیا ہے سپرپاورکے تمام سیاسی اصولوں پر سوال اٹھنے لگے، سوال اٹھنا اپنی جگہ کوئی بہت بڑی چیز نہیں ، لیکن امریکہ کواس سے پریشانی یہ ہے کہ اس سیاسی اکھاڑے کے تماشائی بہت ہیں کون ہیں یہ تماشائی؟ اقوام عالم جو دیکھ اورمشاہدہ کررہی ہیں۔ ان کے ذہنوں پراس معرکہ کا جواثرہوتا ہے وہ امریکہ کے لئے ہرقسم کے زہرسے کڑواہے اس وقت انہیں ملکوں کی قومیں جہاں کی حکومتوں پرامریکی تسلط ہے یعنی ایشیا، افریقہ، مشرق وسطی اورلاطینی امریکہ کی قومیں دنیا میں سب سے زیادہ امریکی حکومت سے متنفر ہیں یہ اپنے آپ نہیں ہواہے یہ اتفاق نہیں ہے۔

اپنے جنگی شہداء کی قدرکیجئے، ان مظلومانہ مزاحمتوں کی قدرپہچانئے، مرحوم امام (رہ)کی فولاد سے زیادہ مضبوط ثابت قدمی کی قدرپہچانئے فلسطین، لبنان، لاطینی امریکہ، جنوبی افریقہ، مشرق وسطی اوربہت سے عرب ممالک کی اقوام کوجن کی حکومتیں امریکہ سے وابستہ ہے انہیں چیزوں نے کسی نہ کسی طرح متأثرکیا ہے اہم یہ ہے کہ ایرانی جوان کو پتہ ہونا چاہئے کہ اس محاذ پر ایران کی کیا پوزیشن ہے؟ دنیا میں ایک عظیم جنگ اورایک سخت جھڑپ چل رہی ہے یہ بندوق اور ٹینک کی جنگ نہیں بلکہ عزم وارادہ اورسیاست وتدبیرکی جنگ ہے اس جنگ میں ایران کہاں کھڑا ہے؟ اس جنگی محاذپرایران مرکزی کمان اپنے ہاتھ میں لئے ہوئےہے اورمحاذ کی فوج اقوام عالم ہیں اسے معمولی نہ سمجھیں کہ ہمارےصدرانڈونیشیا جاتے ہیں تونماز جمعہ میں ان کے حق میں نعرے لگتے ہیں، یونیورسٹی میں نعرے لگائے جاتے ہیں، اساتذہ ان کے حق میں نعرے لگاتے ہیں اوراگراجازت ہوتی توکوچہ وبازارمیں ان کے حق میں نعرے لگتے ہیں یہ اہم چیزیں ہیں۔

صدراتی دورمیں حقیرنے جب پاکستان کا دورہ کیا تواتنے استقبالیہ مظاہرے ہوئے کہ میرے بعد امریکی صدرریگن کوپاکستان جانا تھا تواس نے اپنا دورہ ہی منسوخ کردیا اورنہیں گیا اس لئے کہ اس میں اس کی بے عزتی تھی کیونکہ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدرکے عوامی استقبال کی جوصورتحال تھی وہ اس کی آمدپرنہ ہوتی اس وقت کسی بھی مشرقی اسلامی یا حتی غیراسلامی ممالک کے لوگوں سے کہا جائے کہ اسلامی جمہوریہ ایران کے صدران کے ملک کا دورہ کرنا چاہتے ہیں تورد عمل میں ان کا شوق وذوق، محبت اورحمایت وطرفداری نظرآتی ہے اس کے برخلاف ان میں سے کسی بھی ملک کے عوام سے کہا جائے کہ امریکی صدران کے ملک میں آرہاہے تواس کا فوٹوجلاتے ہیں، امریکی پرچم نذرآتش کرتے ہیں یہ ہے صورتحال! اس وقت دنیا کا سیاسی محاذ اورعزم وارادہ اورتدبیرکی جنگ کا یہ نقشہ ہے اس محاذآرائی کی یہ کیفیت ہے۔

اس طرف کے محاذ کی کمان ایران کے ہاتھ میں ہے عزم وہمت والا حزب اللہی ایران! جوخالی ہاتھ ہے اسے سوسال سے خائن پہلوی وقاجاری سلاطین لوٹتے اور غارت کرتے رہے ہیں اب اس نے صفرسے آغاز کیاہے اورمدمقابل وہ ہے جودوسو سال سے اپنے اندرونی اورباہرسے لوٹے ہوئے وسائل سے اپنی تعمیر کررہا ہے سائنسی اوراقتصادی لحاظ سے اس کے دونوں ہاتھ بھرے ہوئے ہیں اس طرف ظاہری پشتپناہی اورمادی یعنی پیسہ اوراسلحہ کے لحاظ سے بے سروسامانی ہے لیکن اس کے باوجود دنیا کو ترازوکےدونوں پلڑے برابر اوربعض دفعہ حزب اللہی پلڑابھاری نظرآتاہے۔

ہماراپلڑاکیوں بھاری نظرآتا ہے؟ ہمارے پاس کیا ہے؟ صرف واضح عوامی تعاون، ہماری قوم انقلاب میں مدغم اورانقلاب سے جوش میں آئی ہے اس قوم کے افراد کی اپنی اپنی حیثیت سہی لیکن اکثریت کے حوصلے ایسے ہیں کہ جب اورجہاں ضرورت ہووہاں سینہ سپرہوکرمیدان میں کودپڑتے ہیں یہی ہماری طاقت ہے یہ کیسے حاصل ہوئی ہے؟ ایمان، انقلابی حوصلہ اوردینی جذبہ سے! اسی حقیقت کو اہل دنیا نہ سمجھ پائے وہ نہ سمجھ سکے کہ دین کی طاقت ایک قوم اورایک نظام کوکس قدرمضبوط کردیتی ہے اسلامی جمہوریہ کی فطری راہ ہی یہی تھی اوریہی قرارپائی یعنی ایمانی راہ! اب اس مرکزی کمان کے خیمہ میں آپ طلبہ رضاکارکس مقام پرہیں یہ آپ خود طے کیجئے اوراس پرغورکیجئے لیکن اسی حساب سے جس حساب سے ہم نے عرض کیا ہے۔

طالب علم طبقہ خاص طورسے اگررضاکارجذبوں کا مالک ہوتووہ اس عظیم تحریک کی پیشرفت میں ایسے بے مثال اورلاجواب کردارکا مالک ہے جس کی قیمت کا اندازہ ہی نہیں لگایا جاسکتا۔

میں نے سال کے شروع میں مشہد میں کہا تھا کہ دشمن اپنی پالیسیوں کے مطابق تین مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے پہلا یہ کہ ملک اقتصادی لحاظ سے پیچھے کردیا جائے تاکہ اس طرح اسلامی اقدار کی پابند اوراصول پسند حکومت کوناکام ثابت کیا جاسکے اصل مقصد یہ ہے، لہذا اقتصادی لحاظ سے ملک کو پیچھے کرنا دشمن کی پالیسیوں میں شامل ہے دوسرے یہ کہ ملک کوسائنسی لحاظ سے پیچھے کردیا جائے اس لئے کہ سائنسی ترقی کے ذریعہ ہی ملک کا مستقبل سنوارا جا سکتا ہے لہذا ایرانی قوم کے پاس سائنسی بنیادوں کی مضبوطی اورعلمی پیشرفت کے سوا کوئی راستہ نہیں ہے خدانے اسے صلاحیت بھی عطا کی ہے تیسرے یہ کہ ایرانی قوم کے اندر نیز ایران اوردیگرمسلم اقوام کے درمیان اتحاد ویکجہتی کی فضا کو ختم کردیاجائے اسی لئے ہم نے"قومی اتحاد اوراسلامی یکجہتی" کا نعرہ دیاہے۔

حکومت کی افادیت برقراررکھنے کے لئے آپ مذکورہ تینوں لحاظ سے معاون ثابت ہوسکتے ہیں اس کا طریقہ کیا ہوگا یہ میری طرف سے یہاں بتانا ضروری نہیں کچھ دوستوں نے کہا کہ یہ یکطرفہ ہوگا یا دوطرفہ جیسا بھی ہویہ آپ خود تلاش کیجئے آپ رضاکار ہیں اگرآپ کا نظم وانتظام مفید ہو جوکہ مفید ہونا ہی چاہئے اوراگربعض وزراء بھی آپ کے ساتھ تعاون کریں اوریقیناً کریں گے اس لئے کہ زاہدی صاحب اورلنکرانی صاحب دونوں رضاکار ہیں توآپ تعاون کے راستے ڈھونڈھ سکتے ہیں آپ پتہ لگائیے کہ حکومت، ملک اورخدمت پرآمادہ ان باصلاحیت مومن جوانوں کی اتنی بڑی تعدادسے ملک کے مختلف شعبوں میں ترقی کےلئےکیا خدمات لی جا سکتی ہیں سائنسی ترقی ہو یا اقتصادی وجہادی امورمیں پیشرفت!

البتہ جوانوں کے ذہن میں رہے کہ میں کبھی یہ نہیں کہتا کہ آپ پڑھ لکھ کے پہلے کوئی پوسٹ مثلاً کسی ادارہ کا اہم رکن یا کسی وزیر کے مشاور وغیرہ بن جائیے اس کے بعد اس ذیل میں کام شروع کیجئے میں یہ کبھی نہیں مانتا ایسا ٹائٹل جو انسان کا لحاظ تو بڑھا دے لیکن اس میں واقعیت نہ ہو اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے اقتصادی، انتظامی اورملک کی دیگر بے شمار سرگرمیوں میں جہاں بھی ممکن ہو وہاں ایک پیچ ہی کس دیجئے! اس عظیم کارخانہ میں ایک بھی پیچ اگر ڈھیلا ہوگا تومصنوعات خراب ہوجائیں گی پیداواری لائن میں آپ نے دیکھا ہوگا کہ محنت کش کس طرح ایک صف میں کھڑے رہتے ہیں جن کا کام صرف پیچ کسنا یا دیگر اس طرح کے چھوٹے موٹے کام کرنا ہوتا ہے یہی چھوٹے چھوٹے کام اس پورے کارخانہ کی مجموعی کارکردگی پراثرانداز ہوتے ہیں۔ اس طرح سے کام ہونا چاہئے۔

طلبہ رضاکاروں کی بہت سی بنیادی اصلی اوراہم ضروریات ہیں سب سے پہلے تفکر، تجزیہ وتحلیل اوربصیرت کی ضرورت ہے اسلامی، انقلابی، بین الاقوامی اورروزمرہ مسائل کا تجزیہ یاآپ کے بقول تھیوریک کام کی اتنی ضرورت ہے کہ رضاکار طالب علم کسی بھی طلبہ گروہ کے بیچ سب سے زیادہ بصیرت، صاف گواورخلاق ہو جیسا کہ میں نے عرض کیا حقائق کو سیاسی پارٹیوں سے اوپر اٹھ کے دیکھئے، محاذکواوپرسے دیکھئے مثال کے طورپرایک سوکیلومیٹرلمبے محاذ کے مختلف حصے ہیں ایک حصہ میں موجود شخص صرف اپنے آپ کو دیکھتا ہے لیکن جو شخص ہیلی کاپٹر لے کے وہاں سے گذرتا ہے وہ ان سارے حصوں کے مجموعی جنگی نقشہ کا مشاہدہ کرتا ہے لہذا اوپر سے ملکی حالات کا مشاہدہ کیجئے پھرآپ کو اندازہ ہوگا کہ خود آپ کوکس مقام پر کھڑا ہونا چاہئے، کیا کرنا چاہئے، کس معاملہ میں تشویش کا اظہار کیجئے کس میں نہ کیجئے جیسا کہ میں نے کہا بعض اوقات حق بات بھی نہیں کہنا چاہئے اس لئے کہ اس سے دشمن کے خاکوں میں رنگ بھرجانے کا خدشہ ہے احتیاط کیجئے کسی بھی معاملہ میں آپ دشمن کا جدول نہ بھریں۔

علمی جہاد بھی ایک ضروت ہے، علمی جہاد آپ کے لئے ضروری ہے سائنسی میدانوں میں اترئے وزارتوں اورتحقیقاتی اداروں کوبھی اس ضمن میں آپ کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے نیزوزارتوں اوریونیورسٹیوں کے مالی اداروں کوآپ کے ساتھ مالی تعاون بھی کرنا چاہئے خود رضاکارمزاحمتی ادارہ کوبھی مختلف شعبوں میں آپ کی پشتپناہی کرنی چاہئے۔

آپ کی ایک اوربنیادی ضرورت اخلاق اورمعنویت ہے آپ اچھے نوجوان ہیں میں بغیر کسی تکلف کے کہنا چاہوں گا کہ ہمارے رضا کارنوجوان انصافاً اچھے ہیں لیکن اچھا ہونے کے بھی درجے ہیں کبھی اچھا ہونے اوراچھا رہنے کی کسی حدوحصر کے قائل مت بنیئے، مسلسل آگے بڑھتے رہئیے آپ کی کوشش یہ ہونی چاہئے کہ گناہ نہ کیجئے، واجبات کوشوق اورذوق سے انجام دیجئے، خداکی یاد سے غافل مت رہیئے، قرآن سے انس پیدا کیجئے، جہاں کہیں بھی ساتھ میں ہیں کوشش کیجئے کہ دینداری اورمعنویت میں ایک دوسرے کی مدد کیجئے، اگرکسی ساتھی سے کوئی لغزش ہوجاتی ہے تو اسے برادرانہ شفقت سے اس کام سے منع کیجئے! میرے عزیزو! اخلاقی لحاظ سے اپنی تعمیرکیجئے انسان مشق کرکے خاص طورسے جوانی میں اپنے کوکسی بھی کام اورخلق وخو کا عادی بنا سکتا ہے ہماری عمر میں بڑھاپے میں محال تو نہیں ہے لیکن بہت سخت ہے لیکن آپ کی عمر میں بہت آسان ہے اگرآپ کے پاس نظم وضبط نہیں ہے اوراپنےکو نظم وضبط کا پابند بنانا چاہتے ہیں توبنا سکتے ہیں اگربخل رکھتے ہیں اوراپنے اندرسخاوت لانا چاہتے ہیں تویہ کام آسانی سے کرسکتے ہیں، اگربداخلاق، غصیلے اوربہانہ تراش ہیں لیکن اپنے اندرخوش اخلاقی لانا چاہتے ہیں توآسانی سے یہ کام کرلیں گے، اگرغیبت اورایک دوسرے کی خامیوں کا ذکرآپ کی عادت بن چکی ہے لیکن اسے چھوڑنا چاہتے ہیں توآسانی یہ کام بھی کرسکتے ہیں، مشق سے یقناًآپ بلندیوں کی سمت پرواز کرسکتے ہیں اس کی ضرورت ہے جونوجوان شروع شروع میں یونیورسٹی میں آتے ہیں عمدتاً پاک دل ہوتے ہیں ان کا دل چاہتا ہے کہ کسی معنوی مرکز سے وابستہ ہوجائیں اس سلسلہ میں رضاکار تنظیم ہی ان کے مد نظراوراسی سے توقع ہوتی ہے ایک لحاظ آپ بھی دینی طلبہ کی مثل ہیں جس طرح دینی طلبہ سے لوگوں کی توقعات زیادہ ہوتی ہیں اسی طرح آپ سے بھی انکی توقعات زیادہ ہیں تواخلاق اورمعنویت بھی آپ کی بنیادی ضروریات میں سے ایک ہے اپنے درمیان اخلاقی کلاسیں رکھئے اخلاق کے اساتذہ کی خدمات لیجئے البتہ احتیاط کی ضرورت ہے اس ذیل میں کہیں دنیاداردکانداروں کے عنکبوتی جال میں نہ پھنس جائیے گا آج کل یہ سب بھی خوب ہورہا ہے کچھ اپنی دکانداری چمکانے کے لئے مثلاً کسی امام کی زیارت اوراس طرح کی چیزوں کا دعوی کرتے ہیں جس میں کوئی سچائی نہیں ہوتی خیال رکھئے گا کہیں اس طرح کے افراد کے جال میں نہ پھنس جائیے گا۔

آپ کی ایک اورضرورت ایک فکری شعبہ کی تشکیل ہے میرادل چاہتا ہے کہ ہم باہری اصطلاحات کی فوٹوکاپی کرنا کم سے کم کردیں فکری کمرہ(اتاق فکر) بعینہ انگریزی سے ترجمہ ہے میں نہیں چاہتا کہ میں اس لفظ کا استعمال کروں لیکن کوئی چارہ بھی نہیں ہے توآپ ایک ٹھیک ٹھاک فکری شعبہ قائم کیجئے اپنے مراکز میں وہی "فکری کمرہ" قائم کیجئے جہاں یہ لوگ بیٹھ کرفکر کریں بلند وبالا فکر! اس ضمن میں خوش فکر اورمطمئن افراد کی خدمات لیجئے، رضا کار طلبہ کی نشریات اس قدر پرمایہ اورغنی ہونی چاہئیں کہ یونیورسٹی ماحول سے باہرجوبھی استاد اورطالبعلم اسے دیکھے اپنے لئے مفید پائے یہ بھی آپ کی ضروریات کا حصہ ہے۔

ایک اورضرورت اس عظیم ادارہ کے مختلف شعبوں میں باصلاحیت افراد کا انتخاب ہے امام (رضوان اللہ تعالی علیھ) سب کوخاص طورسے طلبہ کونصیحت کرتے تھے کہ بااثرلوگوں سے بچو! حقیقت بھی یہی تھی شروعات میں چاپلوسی میں ماہرکچھ لوگ "ماس پارٹی" کے رکن تھے جوچاپلوسی اورریاکاری سے اندرتک گھس آتے تھے بعد میں ان سے سیکھ کراوربھی کئی لوگ اسلامی نظام کے مختلف شعبوں اوراداروں میں گھس آئے تھے اوربات یہاں تک آن پہنچی کہ یہی لوگ دوحکومتوں کے دعوے کرنے لگے آپ کو تو یاد ہوگا چارپانچ سال پہلے کی بات ہے دوحکومتیں! تقسیم اوروہ بھی حکومت کی! بڑی عجیب بات ہے! تویہاں تک آپہنچے تھے یادرکھئے کہ تقسیم ہونا بہت خطرناک چیز ہے اپنے طرز تفکر کی وجہ سے کچھ لوگ کسی شعبہ، ادارہ یا تنظیم سے الگ ہوجائیں پھران میں بھی پارٹ ہوجائیں درحالیکہ ممکن ہے یہ ساری افکار صحیح ہوں لیکن اتنی اہم نہ ہوں کہ ان کی بنا پرآدمی اپنی یکجہتی کو پارہ پارہ کردے میں نے عرض کیا تھا قومی اتحاد! قومی اتحاد آپ رضاکاراپنے اندرسے شروع کیجئے آپ میں انتظامی اورادارتی اتحاد ہونا چاہئے خود کو ٹکڑے ٹکڑے کرنے کا کسی کو موقع نہ دیجئے۔

میری ایک اورنصیحت جس کی آپ کو ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ اگرچہ آپ رضاکار ہیں اورآپ میں کافی جوش وولولہ ہے کوشش کیجئے اس جوش وولولہ کو محفوظ رکھئے اوراپنے اندرسستی اورکاہلی نہ آنے دیجئے آرام طلبی سے پرہیز بہت ضروری ہے۔

امید ہے کہ میری یہ نصیحتیں اورآپ کے اپنےاندرموجود روشن خیالی اوردیگرخوبیاںجن کا جلوہ ہمیں آپ کی تقاریرمیں نظرآیا ہے انشا اللہ ملک کے مستقبل کےلئے ماضی سے بھی زیادہ مفید واقع ہوں گی میں محسوس کررہا ہوں کہ رضاکاروں خاص طورسے طلبہ رضاکاروں کی توفیقات میں مستقبل میں مزید اضافہ ہوگا۔

بہرحال ہمیں آپ سے بہت سی باتیں کہنا ہوتی ہیں اورآپ کو بھی ہم سے بہت ساری باتیں کرنا ہوتی ہیں لیکن کیا کیا جائے افسوس کہ وقت ہمیشہ کم ہوتا ہے لہذااب آپ کوخداحافظ کہتے ہیں۔

پروردگارا! ان پاک دلوں کواپنے لطف اورنورمعرفت سے منورفرما! پانے والے! ہمیں بھی ان جوانوں کی نورانیت کی برکت سے نورانیت عطا فرما، پالنے والے! ہمیں مشکل جہاد فی سبیل اللہ میں کامیاب فرما! ہمارے عزم وارادہ اورہماری نیتوں کو قائم ودائم رکھ! ایرانی قوم اوراسلامی انقلاب کے دشمنوں کونیست ونابود فرما۔ ایرانی قوم کواپنی بلند آرزووں تک پہنچا دے! ہمارے عزیز اورعظیم المرتبت امام (رہ)اورہمارے شہداء کی ارواح طیبہ کو آئمہ طاہرین(علیھم السلام) اورصدراسلام کے شہداء کی ارواح طیبہ کے ساتھ محشورفرما، حضرت ولی عصر(عجل اللھ تعالی فرجھ الشریف) کے قلب مقدس کوہم سے راضی وخوشنود فرما۔

والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتھ