بسم اللہ الرحمن الرحیم
سب سے پہلے میں آپ تمام اساتید بھائیوں اور بہنوں کو خوش آمدید کہتا ہوں،آپ نےاس پرخلوص اورشیریں نشست کے اہتمام میں اپنا قیمتی تعاون پیش کیا۔
سال بھر کے بعض ایام کے جونام رکھے گئے ہیں ان میں میرے خیال سے یوم استادکا ایک الگ امتیاز اوراہمیت ہے اس اہمیت کی وجہ خود استاد کی اہمیت ہے جب استاد کے بارے میں بات ہوتی ہے تواس سے استاد کے عمومی معنی مراد لئے جاتے ہیں اوریہ معنی بہت ہی اہم اورعظیم ہیں استاد وہ ہوتا ہے جوکسی دل میں چراغ جلاتا اوراس کی جہالت سے علم کی جانب رہنمائی کرتا ہے استاد کا یہ مطلب ہے انسانی زندگی میں جوکچھ بھی تصور کیا جا سکتا ہے اس میں سب سےافضل یہی امر ہے۔
اس کی ایک مثال ہمارے عزیزشہید استادمطہری ہیں جنہوں نے اپنے علم اور اپنی قوی اورعمیق فکر کے ذریعہ بہت سے اسلامی مسائل پرغوروخوض اورتحقیق کرکے انہیںواضح کیا اوردسیوں قیمیتی کتابوں کی شکل میں اپنی محنت ہمارے حوالہ کردی اگر ہم اندازہ لگائیں کہ شہید مطہری نے کون سے موضوعات پرعالمانہ قلم فرسائی کی اورانہیں ہمارے حوالہ کیا تو پتہ چلتا ہے کہ اس عظیم شخصیت نے ہمارے دلوں میں چراغ روشن کیا ہے اس کا کس بات سے تقابل کیا جا سکتا ہے؟ یہ تھی استاد کے معنی پر ایک نظر۔
ہمارے عظیم امام (رہ)نے جو فرمایا اورخود ہم نے بھی بارہا کہا اورسنا ہے کہ تعلیم دینا انبیاء(ع) کا کام ہے"یعلمھم الکتاب والحکمۃ" بلکہ یہ خود ذات باری تعالی کا کام ہے" علم الانسان ما لم یعلم" اس کے بعد انسانوں کی منزل ہے جو ایک دوسرے کو تعلیم دیتے ہیں کوئی معلم ہے تو کوئی متعلم، آپ سمیت ہر وہ شخص جوشعبہ تعلیم وتربیت (بورڈآف اسکول ایجوکیشن)، یونیورسٹی یا کسی دوسرے تعلیمی ادارہ میں لوگوں کو کچھ سکھاتا ہے انہیں کسی اہم حقیقت سے آشنا کرتا ہے لوگوں کے علم میں اضافہ کرتا ہے وہ یہی استاد کے جیسی عظمت رکھتا ہے یہ بہت گراں قیمت، معتبراورقابل احترام مقام ہے۔
اس ملاقات میں جس دوسرے موضوع پر میں آپ حضرات سے گفتگو کرنا چاہتا ہوں وہ استاد بہ معنائے اسکول ٹیچر ہے اس استاد اور دوسرے اساتذہ میں فرق ہے ہر استاد محترم ہے لیکن اسکول ٹیچرایسے غیرمعمولی کردار کا مالک ہے جس میں اس کی برابری نہ گھر کے اندر کے اساتذہ یعنی ماں باپ کرسکتےہیں اورنہ ہی وہ بڑے اوردانشور اساتذہ جوانسان کو علمی سربلندیاں عطا کرتے ہیں اسکول ٹیچرکی ایک الگ اہمیت ہے۔
اس غیرمعمولی اہمیت کی وجہ کیا ہے؟ بورڈ اوراسکول (بارہ سال کے لئے پری پرائمری سے لے کر انٹرتک) سماج کی ہر فرد کے لئے ایک جنرل تعلیمی ورکشاپ ہے جیسے ایک قرنطینہ ہو جس میں سماج کا ہرشخص ایک طرف سے داخل ہوکر دوسری طرف سے باہرنکل جائے اوروہ بھی عمر کے کس حصہ میں؟ علم حاصل کرنے اورسیکھنے کے لحاظ سے عمر کا وہ حصہ کہ انسان کی سترسال اسی سال اور سو سال کی عمر کا کوئی بھی دور اس کی برابری نہیں کرسکتا ، سیکھنے کا سنہرا دور یعنی چھ سے اٹھارہ سال کی عمرتک(ہرشخص شعبہ تعلیم وتربیت کے زیرانتظام ہوتا ہے) بورڈآف اسکول ایجوکیشن اوراسکول کو اس لحاظ سے دیکھئے ایک قوم کے کروڑوں لوگ اپنی سیکھنے کی بہترین عمر یعنی مذکورہ بارہ سال ایک عظیم ورکشاپ میں گذارتے ہیں جس کا نام بورڈ آف اسکول ایجوکیشن(شعبہ تعلیم وتربیت) ہے اس میں بچوں کا تعلق کس سے رہتا ہے اسکول ٹیچر سے، لہذا بارہ سال کے اس عظیم ورکشاپ میں اسکول ٹیچرہی اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اب آپ کسی ملک کو مد نظر رکھئے آپ ایک انسان ایک ناظم ایک سربراہ اورایک ہمدرد شخص ہیں آپ ایک ایسا ملک چاہتے ہیں جس کے عوام کی صلاحیتیں ممتاز اوربرجستہ ہوں ان کا اخلاق پاک وپاکیزہ ہو کوئی اقدام اٹھانے میں وہ بہادر ہوں فکری لحاظ سے مدبرہوں اس ملک کے لوگ مستقل، صاحب فکروخلاقیت، تخلیق کار، پرہیزگار، پاکدامن، ڈسپلن پسند، قانون کے پابند، اہم قدم اٹھانے والے اوراپنے اہداف ومقاصد تک پہونچنے کے لئے کوشاں ہوں اس قسم کے ملک اور سماج کی آپ تعمیر کرنا چاہتے ہیں دنیا میں کون ایسا شخص ہوگا جس کی یہ آرزو نہ ہو کہ اس کے ملک کے لوگ انہیں صفات وخصوصیات کے مالک ہوں اپنی صلاحیتیں بروئے کار لاتے ہوں، کوئی اقدام کرنے کی شجاعت وہمت رکھتے ہوں، اپنے بلند و بالااہداف تک پہوچنا چاہتے ہوں، تھکتے نہ ہوں جوش وخروش رکھتے ہوں، نظم وضبط کے مالک ہوں، ان میں غفلت ، بدنظمی اورآرام طلبی وغیرہ نہ ہو۔
ہم ان خصوصیات کے مالک ملک کی تعمیر کرنا چاہتے ہیں آپ ملاحظہ کیجئے کہ اس قسم کے انسانوں کی تربیت گاہ کیا ہوسکتی ہے؟ پیدائش سے موت تک کون سی جگہ اورکون سا ماحول اس قسم کے انسانوں کی تربیت کے لئے بورڈ آف اسکول ایجوکیشن سے بہتر ہے؟ یہی بارہ سالہ قرنطینہ ہی ان مثبت خصوصیات کے مالک انسانوں کی تربیت کر سکتا ہے اگر تعلیم وتربیت کا یہ کارخانہ اچھی طرح اپنے فرائض پر عمل کرے، صحیح رخ اختیار کرے، اس کا ہررکن فعال ہو، اس کی انتظامیہ اورمنصوبہ ساز شعبہ اپنی ذمہ داریاں اچھی طرح نبھائے تو ملک جس مقام پر بھی کھڑا ہوگا بیس پچیس سال بعد بلا شک وتردید اس مقام تک پہنچ جائے گا جہاں اس کے عوام انہیں مذکورہ خصوصیات کے مالک ہوں گے بورڈآف اسکول ایجوکیشن کا یہ کردار ہے۔ اسکول ٹیچرکے اس اہم کردار کوکم نہیں سمجھا جا سکتا اس شعبہ کے علاوہ ملک کا ایسا کون سا شعبہ ہے جسے یہ فخرحاصل ہےکہ اتنے انسان اپنی عمرکا بہترین حصہ مستقل بارہ سال تک ان کے زیرانتظام گذارتے ہیں بورڈآف اسکول ایجوکیشن کی یہ اہمیت ہے۔ ہم جواستادکے احترام کے قائل ہیں میں جوحقیقی معنی میں استاد کا احترام کرتا ہوں یہ کوئی تکلف میں نہیں کرتا یہ کسی کو خوش کرنے کی کوشش نہیں ہے یہ حقیقت ہے اور اس کا فلسفہ یہی ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے استاد کی بہت بڑي اہمیت ہے اوروہ ایسے حساس مقام پر کھڑاہے۔
بورڈآف اسکول ایجوکیشن کی اہمیت ہم نے عرض کردی اس ادارہ میں دفتری کام کرنے والے لوگ بھی ہیں، منصوبہ ساز بھی ہیں، مفکر بھی ہیں، نصابی کتابیں تیار کرنے والے بھی ہیں سب کی اہمیت یہی ہے لیکن اس میدان کے شہسوارکا نام استادہے ساری منصوبہ سازی اسی غرض سے ہوتی ہے کہ استاد اپنے فرائض اچھے ڈھنگ سے انجام دے، میدان کا شہسوار استادہے استاد اگلے مورچوں پرکھڑاہے باقی سب اس کے امدادی اور حمایتی لوگ ہیں تاکہ بچوں اورنوجوانوں کی صورت میں جو طبیعی مواد اس کے حوالہ کیا گیا ہے اسے اپنی ہنرمندی، جد وجہد، ہمدردی اورمہارت سے ایک قیمتی مواد میں بدل دے اوراس کی قیمت افزودہ کردے یہ افزودہ قیمت کسی بھی دوسری شئی اورکسی بھی قسم کی مصنوعات سے قابل موازنہ نہیں ہے اگرہم مٹی سے سونا بنادیں تب بھی اس کی قیمت اس سے کم ہی ہوگی اگریورینیم افزودہ کرکے ہم جوہری توانائی حاصل کرلیں تب بھی اس کی قیمت اس سے کم ہی رہے گی آپ انسان تربیت کرتے اوربناتے ہیں وہ بھی ان خصوصیات کا مالک انسانتیار کرتے ہیں۔
اب اگر کسی ملک کے اساتذہ اس کے بر عکس عمل کریں یعنی بہادر انسان کے بجائے بزدل انسان تیار کریں مستقل انسان کے بجائے وابستہ اورکمزور انسان تخلیق کریں اپنے ملک اوراس کی مایہ ناز شخصیات پر فخرکرنے والے انسان کے بجائے اغیار سے وابستہ انسان تیار کریں، پاکدامن، پرہیزگار اورمومن انسان کے بجائے لاابالی، بے دین اوربے ایمان انسان تربیت کریں، با صلاحیت اور خوداعتماد انسانوں کے بجائے دوسروں کی علمی وغیرعلمی طاقت پر مبہوت اوران کے دلدادہ انسان تیار کریں توآپ اندازہ لگائیے کہ ملک پر کیا قیامت آجائے گی طاغوتی حکمرانوں کے دور میں یعنی جب رضا خان کے دور میں جدید بورڈآف اسکول ایجوکیشن تشکیل پایا تواس کی پالیسیاں اسی دوسری قسم پر مشتمل تھیں انتظامیہ کے لوگوں کوچاہے براہ راست خود بھی پتہ نہ رہا ہو کہ وہ کیا کر رہے ہیں لیکن مقصد یہی تھا پالیسی یہی تھی ان کے تربیت کردہ لوگ بھی کم وبیش اسی طرح کے بن گئے ہاں بورڈآف اسکول کے بہت سے اساتذہ اورملازم دیندار، مومن، پاکدامن اوراستقلال پسند تھے ان کی تعداد کم بھی نہیں تھی انہوں نے بھی اپنا کام کیا لیکن پالیسی یہی تھی۔
اسلامی نظام کی پالیسی اس کے بالکل برعکس ہے اب پالیسی یہ ہے کہ اس عظیم کارخانہ میں ان خصوصیات کے مالک انسان تیار ہوں جن کا ہم نے پہلے تذکرہ کیا تھا جوان کے بالغ ہونے کا دورآپ کے زیرانتظام آتاہے انسان کی بلوغت کا دوراس کی ہمیشہ کی شخصیت بننے کا دور ہوتا ہے اس دورمیں طالب علم استاد کے اختیار میں ہوتا ہے استاد کی صرف تدریس کا ہی نہیں بلکہ اس کی شخصیت کا بھی طالب علم پر اثرپڑتا ہے استاد اگرعقلمند، عالم، خوددار، با اثر، خوش فکر، مستقبل سے پرامید اورمل کے کام کرنے پریقین رکھنے والا ہوگا تواس کا شاگرد بھی ایسا ہی بنے گا لیکن استاد اگرغصہ والا اورتھکا ماندہ ہوگا توطالب علم بھی اسی طرح کا بنے گا سبق چاہے جو بھی ہو لہذاتعلیم وتربیت اوراستاد کو اہمیت دینا اسلامی نظام کی اولین ترجیحات میں شامل ہے۔
اساتذہ کو پتہ ہونا چاہئے کہ وہ کس حساس مقام پر کھڑے ہیں آپ دیگرپیشوں کی طرح کے ایک پیشہ سے وابستہ نہیں ہیں آپ اسے صرف پیشہ نہ سمجھئے کہ ایک کام مل گیا ہے اوراس سے گھر کی روٹی کا انتظام ہورہا ہے یہ صحیح ہے کہ روٹی کا بھی انتظام ہورہا ہے یہ بھی ایک ذریعہ معاش شمار کیا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ استاد کواپنی اس سنگین ذمہ داری کا بھی احساس ہونا چاہئے جس کا ہم نے مختصراً تذکرہ کیا ہے معلم کو یہ احساس ہونا چاہئے کہ وہ کہاں اورکس حساس جگہ پر کھڑا ہے اگر معقول کی محسوس سے تشبیہ دینا چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ ایک ریلوے مین کی اہمیت ممکن ہے کم دکھائی دے لیکن ریل گاڑی میں بیٹھے مسافروں کی زندگی وموت اس ریلوے مین کے کام اوراس کی چوکسی پرمنحصرہے اس کی غفلت صرف اس کے پیشہ سے غفلت نہ شمار ہوگی بلکہ کچھ زندگیاں اس سے وابستہ ہیں استاد کا کردار بھی اسی طرح کا ہے اساتذہ کو اس طرف متوجہ رہنا چاہئے۔
ہمارے ملک میں استاد طبقہ کافی پسندیدہ ہے میں یہ اپنی معلومات کی بنا پر عرض کررہا ہوں ملک بھر میں استاد طبقہ پاک وپاکیزہ، پاکدامن، پابنددین، محنتی، صابراورعام طور سے اپنے پیشہ سے محبت رکھنے والا ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ ہم نے ملک میں ہر حساس موقع پر خاص طور سے مقدس دفاع اورمسلط کردہ جنگ کے دوران دیکھا ہے کہ اساتذہ کس طرح طلبہ کوصحیح سمت دکھاتے ہیں۔
اس دوران پچیس سال پہلے جب میں نے صدارت کے ذمہ داری سنبھالی تھی یا جب میں ثقافتی انقلاب کی اعلی کونسل میں کام کر رہا تھا تومیں سب کچھ نزدیک سے دیکھ رہا تھا دشمن کا ایک نشانہ اساتذہ تھے۔ میں نے اس سال کے آغاز پر کہا تھا کہ دشمن تین مقاصد کے درپے ہے سائنسی پسماندگی، معاشی پسماندگی اور قومی اتحاد کو پارہ پارہ کرنا، اس کے لئے ڈالرخرچ کررہا ہے اپنے ایجنٹ بنا رہا اوراپنی خفیہ ایجنسیوں کے تجربہ کار اورماہرافراد کوہمارے ملک میں ان تین مقاصد کے حصول کے لئے مامور کررہا ہے یعنی ہم معاشی لحاظ سے پیچھے رہ جائیں اورشکست کھا جا ئیں، سائنسی لحاظ سے ہم نے جس پیشرفت کا آغاز کیا ہے اسے روک دیں، قومی اتحاد پارہ پارہ کرکے ایک دوسرے کےخون کے پیاسے ہو جائیں، دشمن ان تین اہداف کے پیچھے ہے ان میں سے دواہداف کے سلسلہ میں اس کا نشانہ اساتذہ ہیں سائنسی ترقی میں بھی اورقومی اتحاد میں بھی، البتہ اس وقت دشمن کی سرگرمیاں عروج پر ہیں لیکن بیس پچیس سال قبل بھی یہ سازشیں تھیں جومیں خود دیکھ رہا تھا اس سنگین سازش کے مقابلہ کے لئے اساتذہ پہاڑکی مثل ڈٹے ہوئے ہیں ہم نے جو عرض کیا کہ ہمارے اساتذہ پاک وپاکیزہ ہیں اس کی بڑی دلیل یہی ہے دشمنوں نے اساتذہ کے ذریعہ قوم کے اندرایک بڑاشگاف ڈالنے کی بہت کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکے اب بھی کامیاب نہ ہوں گے اساتذہ ثابت قدم ہیں۔
برادران وخواہران عزیز! ملک سائنسی، سیاسی، فوجی میدان میں آگے بڑھ رہاہےاورمعاشی بنیادیں مضبوط کررہا ہے۔ اسلامی نظام عملاً ثابت کررہا ہے کہ یہ ایک پائدار، بااثراوراپنے بل بوتے پرکھڑانظام ہے ہمارے یہاں کا اقتدارکچھ بے بس ممالک اوربدبخت سیاستدانوں کی مثل نہیں ہے جہاں حکومت دوسری طاقتوں کی حمایت سے چلتی ہے اسلامی جمہوریہ کا سیاسی نظام اپنے بل بوتے پر قائم ہے اس کی مثال اس پہاڑ جیسی ہے جو ظاہرمیں دکھائی دینے والے حصہ سے زیادہ زمین کے اندر ہوتا ہے اسلامی نظام اپنی اس خصوصیت کا ثبوت فراہم کر رہا اورروز بروز اس ذیل میں آگے بڑھ رہا ہے ہم آگے کی جانب دھیرے دھیرے نہیں بلکہ تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔
دنیا کے تانا شاہوں کویہ ثابت قدمی پسند نہیں ہے البتہ ان تانا شاہوں میں کسی دورافتادہ ملک کا کوئی بادشاہ شامل نہیں ہے دنیا کے سب سے بڑے تاناشاہ وہ ہیں جوعالمی استکبارکےکرتادھرتا ہیں ان کے ممالک میں ظاہراً تو جمہوریت قائم ہے (حقیقت میں جمہوریت ان کے اپنے ملک میں بھی نہیں ہے) لیکن بین الاقوامی سطح پر ان کے طور طریقےایک سخت تاناشاہ جیسے ہیں انہیں یہ پسند نہیں ہے کہ کوئی قوم اس طرح کا کوئی سیاسی نطام قائم کر لے جو ان کی للچائی نظروں اوران کی طرف سےاندرونی معاملات میں مداخلت کرنے میں رکاوٹ بن جائے لیکن وہ دیکھ رہے ہیں کہ دوسری مسلمان قوموں پربھی ایران میں اٹھی اس مضبوط اسلامی تحریک کا گہرااثرپڑاہے۔
آپ ملاحظہ کیجئے کہ جب ہمارے صدرمملکت یا کوئی اوراعلی عہدہ دارکسی اسلامی ملک کا دورہ کرتا ہے اوروہاں اسے عوام کے درمیان جانے موقع ملتا ہے تواس کی حمایت میں لوگ پرجوش انداز میں اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟ جب بھی ہمارے ملک کے صدور نے کسی ملک کا دورہ کیا ہے اوروہاں انہیں عوام کے درمیان جانے کا موقع ملا ہے تولوگوں نے اپنی پسندیدہ شخصیات سے کہیں زیادہ انہیں محبت دی ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کیوجہ یہ ہے کہ ایرانی قوم کی عظیم تحریک نے عالم اسلام کی رائے عامہ پر اپنے اثرات مرتب کر دئے ہیں جو اب ظاہر ہو رہے ہیں شجاعت، ثابت قدمی، قربانی اورقول وفعل میں یکسانیت کا اثرپڑتا ہے ان چیزوں کے فطری آثارہیں ممکن ہے بہت سے ممالک کے سربراہان اورسیاسی قائدین اسلامی جمہوریہ کے جانی دشمن ہوں لیکن ان کے عوام سوفیصد اسلامی جمہوریہ نظام کے حامی ہیں ہمیں اپنے آس پاس اوراسی حساس خطہ میں جس میں ہم خود ہیں اس طرح کے ممالک کی خبرہے عالمی استکبار بھی یہ دیکھ رہا ہے ہم اس طرح ترقی کر رہے ہیں کہ ہمارایہ روحانی اثرورسوخ بھی ساتھ ساتھ ہے ایسی صورت میں اگر ہم نے عقل، شجاعت، حدا پرتوکل اوراجتماعی احساس ذمہ داری کے ساتھ اپنی اس تحریک کو جاری نہ رکھا توہمیں نقصان ہوگا تعلیم وتربیت میں بھی اوردوسرے شعبوں میں بھی۔
شعبہ تعلیم وتربیت(بورڈآف اسکول ایجوکیشن) خود کوروزبروزاپنے نہایت اہم اوراعلی اہداف سے مزیدہم آہنگ کرنے کی کوشش کرے جن میں سے بعض کا ہم نے تذکرہ کیا ہے تعلیم وتربیت کے نظام میں اس لحاظ سے بنیادی تبدیلی لانے کی ضرورت ہے اس وقت خوب کام ہورہا ہے اورہمیں آپ تعلیم وتربیت سے وابستہ حضرات سے کوئی شکایت نہیں ہے لیکن یہ ہم مانتے ہیں کہ تبدیلی کے لئے قدم اٹھانے کی ضرورت ہے منصوبہ ساز مفکرین اوردانشورحضرات تعلیمی ماحول، کلاس اورنصاب کی تنظیم وترتیب نیز اساتذہ کی تربیت اوراس شعبہ کی اہم اورواضح پالیسیاں وضع کرنے کے لئے اہم اورانقلابی قدم اٹھائیں اس میں البتہ تعلیم وتربیت کے عملہ کا تعاون بھی درکار ہے باہرسے اس شعبہ کے لئے زیادہ کچھ کیا نہیں جا سکتا اس شعبہ کے اندرخود برجستہ اورباصلاحیت شخصیات بہت ہیں اس شعبہ کی ترقی اوراس کی خامیاں دور کرنے میں ان کی خدمات لی جا سکتی ہیں۔
مجھے تعلیم وتربیت کا مستقبل روشن نظرآرہا ہے بنیادی اورقابل بھروسہ بات یہی آپ کی ہمدردی، دینداری اورملکی مفادات سے لگاؤہے بنیادی شئی یہی ہے ان جذبوں سے بہت سی برکتیں ہاتھ آتی ہیں اوردشمن بھی کچھ نہیں کرسکتا انشا اللہ خداکی مدد، حضرت ولی عصر(ارواحنا فداہ) کی دعا اورہمارے عزیزشہداکی ارواح طیبہ اورعظیم امام (رہ)کی روح مطہر کی برکت سے شعبہ تعلیم وتربیت زیادہ سے زیادہ اپنے کمال کی جانب بڑھے گا۔ امید ہے کہ مستقبل قریب میں ہمیں اس شعبہ کی وہی پوزیشن نظرآئے گی جو فی الواقع عصری ترقی اوراسلامی جمہوریہ نظام کی ضروریات کے عین مطابق ہوگی۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ