بسم اللہ الرحمن الرحیم
میرے لئے یہ دن بڑی خوشی اور مسرت کا دن ہے میں ان ممتاز اور منتخب نوجوانوں کے درمیان ہوں جو ملک کے تابناک مستقبل کی امیدوں کا سرچشمہ ہیں۔ میرے لئے بڑی خوشی کا مقام ہے کہ میں اس اجتماع میں ملک کے ایک بہت ہی اہم اور بنیادی موضوع یعنی علمی ترقی کے بارے میں بحث و گفتگو میں شرکت کروں۔ آپ میں سےجن عزیز بھائیوں اور بہنوں نے بھی اس اجتماع میں آکر جو مسائل اور نکات بیان کئےہیں ان سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ نوجوانوں میں تعمیری افکار کی ترویج اور ممتاز و با استعداد نوجوانوں کی پرورش کی مہم کامیابی سے آگے کی سمت گامزن ہے اس سلسلے میں پیشرفت ہو رہی ہے اور ہمیں اچھے مستقبل کے آثار صاف نظر آنے لگے ہیں۔ گذشتہ سال بھی عزیزوں نے جو کچھ بیان کیا تھا ان میں سے بھی کچھ باتیں کم و بیش مجھے یاد ہیں۔ ہمارے ممتاز و منتخب جوانوں کے ذہن میں جو باتیں آتی ہیں اور وہ یہاں بیان کرتے ہیں وہ ہمارے لئے معیار قرار پاتی ہیں۔ آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ علمی ترقی و پیشرفت کے لئے جوش و خروش میں اضافہ ہوا ہے اور لوگوں میں علم و دانش کی قدر و منزلت اور اس پرتوجہ میں اضافہ ہوا ہے اور اس کے نتیجے میں لوگوں کے افکار اسلامی نظام کے اہداف سے اور بھی ہم آہنگ ہو گئے ہیں۔
اب میں آپ کی توجہ ایک بات کی طرف مبذول کرنا چاہتاہوں شاید وہ اس میں ان عزیزوں کے سوال کا جواب بھی ہو جنھوں نے جلسہ کے آخر میں سوال کیا تھا۔ علم انسانی معاشرے کے لئے ایک الہی عطیہ ہے۔ خواہ وہ عرفانی علوم ہوں یہ علم کی وہ شاخیں جن کی مدد سے انسان اس عظیم اور محیر العقول کائنات میں ان خزانوں سے بہتر طریقہ سے استفادہ کرتا ہے جو اللہ تعالی نے اس عالم خلقت میں پنہاں کر رکھے ہیں۔ انسان جب سے دنیا میں آیا ہے کائنات کے سربستہ رازوں سے آشنائی کی مسلسل کوشش میں لگا ہوا ہے ۔ اسلام اوردیگر ادیان اس کوشش کی حمایت و تائید کرتےہیں۔ آپ کسی بھی دین بالخصوص دین اسلام میں ایک جملہ بھی نہیں پائيں گے جس میں ان دنیوی علوم کو بے فائدہ یا انھیں مضر قرار دیا گیا ہو اور ان کے حصول کی ممانعت کی گئی ہو۔ یہی نہیں بلکہ تمام علوم جو آج رائج ہیں وہ اس چیز کا وسیلہ ہیں کہ انسان اس کائنات سے بہتر استفادہ کر سکے اور اس کی نعمتوں سے اچھی طرح بہرہ مند ہو سکے۔ اسی طرح وہ علمی رموز جن سے انسان اب تک آشنا نہیں ہو سکا ہے اور ممکن ہے کہ مستقبل میں اس پر ان بے شمار حقائق کے راز کھل جائیں یہ سارے علوم اسلام کے نزدیک بہت اہم اور قابل قدرہیں۔
علم ایک بہت ہی قیمتی گوہر ہے۔ ہاں بعض عناصر ایسے ہیں جو اس کی عظمت کو کم کرسکتے ہیں اور علم کو بشریت کے مفادات کے خلاف استعمال کرسکتےہیں اور اسے مفید کے بجائے خطرناک بنا دیتے ہیں۔ لیکن علم بذات خود ایک قیمتی اور گرانبہا گوہر ہے۔ علم کی مدد سے اللہ کی معرفت بھی آسان ہو جاتی ہے۔ جو افراد نور علم سے بہرہ مند ہیں وہ پیغمبروں اور اسلام کے پیغام کو بہتر طریقے سے سمجھ سکتے ہیں۔ علم کو شہوانی خواہشات، خود غرضی اور تنگ نظری سے آلودہ نہیں کرنا چاہئے۔ علم کو خود غرضی اور نفسانی خواہشات کے لئے غلط طریقے سے استعمال کرنا برا ہے خود علم میں کوئی برائی نہیں ہے۔ لہذا علم کی بہت بڑی قدر وقیمت ہے اس میں کسی شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ عرفانی علوم، حقائق سے بحث کرنے والے علوم جیسے فلسفہ وغیرہ اسی طرح فقہ اور اس کے مانند دیگر علوم کی جتنی اہمیت ہے، اس سے علوم کی اہمیت ذرہ برابر کم نہیں ہے جن کی مدد سے دنیا کے حقائق سے پردہ اسرار ہٹایا جاتا ہے ۔ جن کے ذریعہ انسان دنیا کے اس عظیم خزانے سے بھرپور استفادہ کر سکتا ہے۔
یہ دنیا جو ہمارے سامنے ہے، یہ زمین جو ہمارے پاس ہے۔ یہ مختلف مادے جو ہمارے ارد گرد ہیں یہ جتنے انسان کے کام آج آرہے ہیں شائد اس سے لاکھوں اور کروڑوں گنا زیادہ انسان کے کام آسکتے ہوں۔ اسی پانی، اسی مٹی، انہی اشیاء ، اسی ہوا، انہی زمین دوز مادوں اور ہمارے اختیار میں قرار دی جانے والی چیزوں سے ممکن ہے مستقبل میں انسان کئی گنا زیادہ فائدہ اٹھائے۔ آج ہم تیل کو ایندھن کے طور پر استعمال کر رہے ہیں، شائد مستقبل میں تیل کے ایسے مصرف اور استعمال دریافت کر لئے جائیں کہ انسان اسے ایندھن کے طور پر استعمال کرنے کو غیر دانشمندی قرار دے اور اسے کہیں بہتر اور اہم اہداف کے لئے استعمال کرے۔ آپ دیکھئے کہ اسی کچرے اور فضلے کو دوبارہ استعمال کیا جاتا ہے۔ جب کوڑے کا یہ حال ہے تو ممکن ہے بہت سی ایسی چیزیں ہوں جن سے انسان کہیں بہتر استفادہ کرے۔ استعمال کے لئےنئے مقام کیسے معلوم ہو سکتے ہیں۔ کائنات کے عمیق اور گہرے رازوں کو کیسے سمجھا جا سکتا ہے؟ ظاہر ہے کہ اس علم ہی کے ذریعہ۔ یہ جو پیغمبر اسلام (ص) کا ارشاد گرامی ہے کہ "اطلبوا العلم و لو بالصین" علم حاصل کرو چاہے چین ہی کیوں نہ جانا پڑے تو یہ مراد نہیں ہے کہ چین جاکر فلسفہ اور فقہ کا درس پڑھا جائے بلکہ مراد یہ ہے کہ جتنے بھی علوم اور ان کے اثرات ہیں ان کا احاطہ کرنے کی کوشش کیجئے۔ یہ لازم و ضروری ہے۔ تو یہ چند جملے بالکل بدیہی نکتے سے متعلق تھے۔ میں آپ جیسے منتخب اور ممتاز طلبا کے درمیان تصور بھی نہیں کر سکتا کہ کسی کو علم کی شان و منزلت کے بارے میں ذرہ برابر بھی شک و شبہ ہو اور یہ نہ معلوم ہو کہ اس سلسلے میں اسلام کیا کہتا ہے۔ ہمارا ترقیاتی منصوبہ بھی مغربی نقطہ نگاہ کا نچوڑ نہیں ہے ہم نے اپنی سمت بدل دی ہے۔ آپ نوجوانوں کی توجہ اس نکتے پر مبذول ہونی چاہیے کہ بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کا پیرایا اور ظاہری شکل بے عیب اور قابل قبول ہے لیکن اس کی سمت درست نہیں ہے۔ اسلام میں بھی ایسی چیزیں آپ کو مل جائیں گی۔ یہی حج و عمرہ جس سے آپ مشرف ہوتے ہیں اور ہماری نوجوان نسل کے پاکیزہ قلوب اس کی نورانیت سے منور ہوتے ہیں۔ یہ حج زمانہ جاہلیت کی ایک رسم تھی۔ اسلام سے قبل دور جاہلیت میں اس کا رواج تھا۔ یہی طواف جو آج آپ کرتے ہیں زمانہ جاہلیت میں کفار و مشرکین بھی کرتے تھے۔ حج کا موسم جب آتا تھا تو سعودی عرب کے اطراف سے لوگ رخت سفر باندھ کر مکہ پہنچتے تھے اور کعبہ کا طواف کرتے تھے۔ تو عمل کی ظاہری شکل وہی تھی جو آج ہے لیکن اس کا مضمون اور اس کی سمت اور رخ بالکل بر عکس تھا۔ آج جب آپ کعبہ کے گرد طواف کرتے ہیں تو اپنے اس عمل کے ذریعہ توحید اور وحدانیت پروردگار کو مجسم کرتے ہیں خالق حقیقی کے محور کے گرد عالم کائنات کی یہ عظیم حرکت ایک علامتی عمل ہے جو اسلام میں توحید کا مظہر ہے اور حج عالم اسلام کے اتحاد کے لئے بہترین وسیلہ ہے۔ آج اس عمل کی سمت اور رخ یہ ہے جو دور جاہلیت میں انجام پانے والے اس عمل کی سمت سے ایک سو اسی درجہ مختلف ہے۔ اس زمانے کے لوگوں نے کعبہ کے اندر اور باہر بہت سے بت آویزاں کر رکھے تھے۔ جو لوگ اس دور میں کعبہ کا طواف کرتے تھے وہ در حقیقت ان بتوں سے اپنی عقیدت کا اظہارکرتے تھے انہیں خدائے وحدہ لا شریک لہ کے بارے میں کوئی علم نہیں تھا۔ طواف کا یہ عمل بھی نہ صرف یہ کہ ان کے درمیان اتحاد کا موجب نہیں بنتا تھا بلکہ ان کی نفرتوں کو ہوا دیتا تھا کیونکہ ان کی قلبی وابستگی کے مرکز و محور الگ الگ تھے۔ کوئی کسی ایک بت کے لئے کعبہ کا طواف کرتا تھا تو دوسرے کسی دوسرے بت کے لئے۔ یہ سارے بت کعبہ میں جمع کئے گئے تھے۔ پیغمبر اسلام(ص) نے حج و طواف و سعی کے پیرائے میں کوئی تبدیلی نہیں کی لیکن اس کے رخ اور سمت کو سو فیصد تبدیل کر دیا۔ جو عمل شرک و بت پرستی، خرافات و دشمنی اور جہالت و لا علمی کا مظہر تھا وہی توحید و وحدانیت، اخلاص و محبت اور ذات اقدس الہی کی الفت و معرفت کا مظہر بن گیا۔
ظاہری قالب و شکل و صورت میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ ایٹمی ٹیکنالوجی میں کوئی برائی نہیں ہے۔ برائی کے ذمہ دار وہ عناصر ہیں جنہوں نے اس کا رخ تخریبی مقاصد و اہداف کی جانب موڑ دیا۔ اسی طرح نینو ٹیکنالوجی یا الیکٹرانک صنعت و ایرو ڈینامک اور دیگر ٹیکنالوجیوں میں کوئی برائی نہیں ہے یہ تو انسان کی مدد کرتی ہیں کہ وہ قدرتی وسائل و ذخائر سے اچھی طرح استفادہ کرے۔ غلطی تو ان افراد کی ہے جو اس خداداد نعمت سے انسانیت کے مفادات کے خلاف استفادہ کرتے اور دوسروں کے حقوق پائمال کرتے ہیں۔ آپ کے پاس تو مضبوط بنیادیں ہیں، آپ تو خدا پر اعتقاد رکھتے ہیں آپ تو ایمان کی دولت سے مالامال ہیں، آپ انسانی وقار و احترام کے قائل ہیں، آپ ظلم و ستم اور جبر و استبداد کے مخالف ہیں، آپ سامراج اور نفسانی خواہشات پر استوار حکومتوں کی مذمت کرنے والے ہیں، آپ کو چاہئے کہ ان علوم اور ٹیکنالوجیوں کو حاصل کر یں تاکہ آپ اپنی اقدار کی دنیا میں ترویج کر سکیں اور اپنے علوم کو دنیا میں عام کرسکیں۔ ایک شخص ہوائی جہاز میں سوار ہوتا ہے اور عیاشی و غیر اخلاقی حرکتوں کے لئے کبھی اس شہر تو کبھی اس شہر جاتا ہے جبکہ دوسرا شخص بھی ہے جو ہوائی جہاز پر بیٹھ کر خانہ کعبہ کی زیارت کرنےجاتا ہے۔ دونوں کی سمتیں الگ الگ ہیں لیکن اس میں ہوائی جہاز کا کوئی قصور نہیں ہے۔ آپ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنے جھنڈے گاڑئے اور ترقی کے بام عروج تک پہنچنے کے لئے اپنی مخصوص ذہانت سے استفادہ کیجئے۔جس کے متعلق میں چند جملے عرض کروں گا۔ آپ نام نہاد قدروں، نفسانی خواہشات، خود غرضی، اخلاقی انحطاط اور تسلط و ظلم و استبداد کی جگہ حقیقی اعلی اقدار کی ترویج کے لئے علم و دانش کا استعمال کیجئے۔
اس وقت دنیا میں دو ارب افراد فقر و تنگدستی کا شکار ہیں! کیا یہ کوئی مذاق ہے؟ آج کچھ قومیں سونے کی کانوں کے اوپر رفت و آمد کرتی ہیں لیکن ان کے پاس کھانے کے لئے غذا نہیں ہے۔ دنیا پر تسلط پسندانہ نظام حکمفرما ہے۔ سامراج کا راج ہے۔ ظلم کا راج ہے۔ امریکہ کیسے اس پوزیشن میں پہنچا ہے؟ وہ کیسے پوری دنیا پر تسلط قائم کئے ہوئے ہے؟ اس طرح کہ اس کے پاس سائنس و ٹیکنالوجی ہے اور اس نے اس کا خوب استعمال کیا ہے۔ مغربی ممالک نےاس عالمی مقابلے سے غلط استفادہ کیا بے ۔
آپ تاریخ ملاحظہ کریں تو علم قوموں کے درمیان گردش کرتا اور ایک قوم سے دوسری قوم کے پاس منتقل ہوتا دکھائی دے گا۔ آپ کو کوئی بھی ایسی قوم نظر نہیں آئے گی جو ابتدا سے انتہا تک ہمیشہ علم و دانش کی مالک رہی ہو۔ یہ سنت الہی ہے۔ قوموں کے درمیان ہمیشہ مقابلہ آرائی رہی ہے۔ علم کے میدان میں کبھی مشرق کا بول بالا تھا تو کبھی مسلم ممالک سب سے آگے نظر آئے۔ ایک زمانہ تھا جب ایران کا لوہا پوری دنیا میں مانا جاتا تھا۔ جس طرح آج مغربی ممالک سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں دوسروں سے آگےہیں کسی زمانے میں آپ کا ملک ان سے آگے تھا اور مشرقی و مغربی ممالک سب ایران کی علمی پشرفت کے معترف تھے۔ ایران اس زمانے کی ٹیکنالوجی کے میدان میں ساری دنیا سے آگے تھا۔ ایک زمانہ ایسا بھی تھا۔ موجودہ زمانے میں مغربی ممالک آگے نکل گئے ہیں۔
یہاں ایک اہم نکتہ قابل ذکر ہے کہ جب سے مغربی ممالک علمی و سائنسی میدانوں میں آگے بڑھےہیں انہوں نے اس علمی برتری کو سیاسی و اقتصادی مفادات کے لئے تسلط پسندانہ انداز میں استعمال کیا ہے جس کےنتیجے میں سامراج معرض وجود میں آیا۔ اس سے قبل سامراج کا وجود نہیں تھا۔ سامراج کے معنی یہ ہیں کہ ہزاروں کلومیٹر کے فاصلے پر واقع کوئی ملک اس مسافت کو طے کرکے کسی دوسرےملک کی دولت اور ذخائر پر قابض ہو جائے مثلا بر صغیر ہند کو جدید ہتھیاروں کے ذریعہ فتح کر لے۔ آپ اچھی طرح واقف ہیں کہ برطانیہ سمندر سے گھرا ہوا ہے اور چونکہ برطانیہ کے رہنے والے افراد جہازرانی میں بڑے ماہر ہو گئے تھے اس لئے انہوں نے اسے وسعت دی رنج اٹھایا اور ہندوستان پر قابض ہو گئے۔ اس قبضہ کے بعد سے انہوں نے اپنی علمی برتری سے سیاسی فائدہ اٹھایا۔ یہ ایسا کام تھا جو اس وقت تک علمی برتری رکھنے والے کسی بھی ملک نے نہیں کیا تھا۔ برطانیہ ہی نہیں بلکہ بیلجئم اور ہالینڈ وغیرہ نے بھی استعمار اور سامراج کی بنیاد ڈالی اورمشرقی ممالک اور بر صغیر ہند کے خطے میں داخل ہوئے ۔ اسی طرح بعد میں افریقی ممالک پر قبضہ کر لینے والے ملکوں جیسے پرتگال وغیرہ نے بھی اپنی علمی صلاحیتوں سے سیاسی فائدے اٹھائے یعنی استعمار اور سامراج کو مضبوط کیا۔ جب سامراج معرض وجود میں آ گیا تو نشانہ بننے والے ممالک کی تقدیر کا فیصلہ سامراجی ملکوں کے اختیار میں چلا گیا۔ انہوں نے اس صورت حال کا خوب فائدہ اٹھایا۔ مقبوضہ ممالک کو جہالت کی تاریکیوں میں سرگرداں کئے رکھا اور جہاں تک ان کے بس میں تھا ان کے قدرتی وسائل کو لوٹا اورسائنس و ٹیکنالوجی پر اپنی اجارہ داری قائم رکھی۔
یہ کام ماضی میں کیا گیا ہے۔ علم سے غلط استفادہ اٹھایا گيا ہےتھا۔ دنیا میں تبدیلی و تحولات کا سلسلہ جاری ہے۔ انسان کسی خاص حد تک محدود نہیں رہنا چاہتا اسے طویل عرصے تک مقید نہیں رکھا جا سکتا۔ علمی شعبہ ہو یا سیاسی، انسانی صلاحیتیں بالآخر جوش مار کر سامنے آ جاتی ہیں اور اپنا کام کر جاتی ہیں۔ دنیا کے مختلف خطوں میں متعدد تحریکیں شروع ہوئیں۔ آج دنیا کا یہ عالم ہے کہ جن ملکوں کے پاس ٹیکنالوجی ہے وہ اس پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ آپ اچھی طرح واقف ہیں کہ مغربی ممالک کے پاس سائنس و ٹیکنالوجی کی کچھ ایسی شاخیں بھی ہیں جو ان ملکوں کے دائرے سے ہرگز باہر نہیں نکلنے دی جاتیں۔ یعنی علم و دانش کی یہ شاخیں انہوں نے اپنے لئے مختص کر لی ہیں۔ جس طرح ان کے ہاں یہ قانون ہے کہ جب دستاویزات کہنہ ہو جاتی ہیں تو انہیں منظر عام پر لے آتے ہیں اسی طرح کوئی بھی ٹیکنالوجی اسی وقت دوسروں کی دسترس میں قرار دی جاتی جب اس کی اہمیت ان مغربی ملکوں کی نظر میں کم ہوچکی ہو یعنی جب ان کے پاس اس سے کہیں زیادہ جدید اور پیشرفتہ ٹکنالوجی آ جاتی ہے تب وہ پرانی ٹیکنالوجی کو دوسروں کے حوالے کردیتے ہیں۔
جب تسلط پسندی کا یہ عالم ہے تو اسے ختم کرنے کے لئے ایک علمی مہم اور تحریک کی ضرورت ہے۔ ایران کا اسلامی نظام جو اپنی اقدار اور طور طریقوں میں مغربی تسلط پسند طاقتوں کے اہداف کے بالکل مد مقابل ہے اور اپنے اس موقف میں اس نے کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں۔ اس نے سیاسی میدان میں کامیابی حاصل کرکے خود کو تسلیم کروا لیا ہے۔ تیس سال سے جاری سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا ہے۔ مختلف شعبوں میں کامیابی کے ساتھ پیش قدمی کرکے اپنے اہداف و مقاصد کی تکمیل کو یقینی بنایا ہے۔ یہ اہداف اعلی انسانی اہداف و اقدار ہیں جنہیں ہر انسان دل سے قبول کرتا ہے۔ اس نظام کو علمی میدان میں بھی بہت آگے جانا چاہئے یہی وجہ ہے کہ میں نے عرض کیا ہے اس وقت ہمارے ملک کا سب سے اہم مؤقف اور نعرہ سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں پیش رفت پر مبنی ہونا چاہئے۔ اس میں کسی قسم کی پس وپیش اور ہچکچاہٹ کی گنجائش نہیں ہے۔ اگر ہم علمی ترقی، علمی توانائي اور علمی طاقت کے لئے بھر پور محنت نہیں کریں گے اور اگر ہم اپنی مادی زندگی کی علمی سطح کو بلند نہیں کریں گے تو ان بڑی طاقتوں سے مقابلہ کر پانا ہمارے بس سے باہر ہو جائےگا۔ جو پرچم اسلامی جمہوری نظام نے بلند کیا ہے وہ اسی صورت میں ہمیشہ بلند رہے گا جب علمی میدان میں ہماری کوششیں مسلسل جاری رہیں گي۔
غور کیجئے، جہاں تک علم و دانش کا تعلق ہے تو یہ طاقت و ثروت کا سرچشمہ بھی ہے۔ اگر آپ کا ملک اور یہ اسلامی جمہوری نظام چاہتا ہے کہ یہ طاقت و توانائی حاصل کرے تاکہ اپنا دفاع کر سکے اپنی قوم کو تحفظ فراہم کرسکے، طاقت دوسروں کو دھونس اور دھمکیاں دینے کے لئے نہیں بلکہ دفاع کے لئے ہوتی ہے ، اور اگر ملک چاہتا ہے کہ اس طاقت کے ساتھ ہی گوناگوں مسائل کے حل کے لئے ثروت بھی حاصل ہو جائے تو اسے چاہئے کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی کی منزلیں طے کرے۔ کسی بھی قوم کے لئے سائنس و ٹیکنالوجی اور علم و دانش اعلی قومی اقتدار اور قومی سرمائے کی ضمانت ہے۔
خوش قسمتی سے اس میدان میں ہمارے پاس کافی وسائل بھی موجود ہیں۔ اگر صحیح طور پر اندازہ لگایا جائے تو شاید یہ نتیجہ نکلے گا کہ ایرانی عوام کو ڈیڑھ سو سال تک ترقی کےکارواں سے الگ تھلگ رکھا گیا ہے۔ یہ عمدہ صلاحیتں جو آج آپ دیکھ رہے ہیں موجودہ دور سے مختص نہیں ہیں بلکہ یہ صلاحیتیں ہمیشہ ایرانی نسلوں میں رہی ہیں لیکن مختلف وجوہات کی بنا پر انہیں دبا دیا گيا تھا۔ تمام ادوار میں سب سے بڑی رکاوٹ بر سر اقتدار آنے والی جابر ومستبد حکومتیں تھیں۔ تو یہ پسماندگی تلخ حقیقت کی شکل میں ہمارے سامنے ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ ایرانی قوم کی استعداد درمیانہ سطح کی نہیں بلکہ بلند اور اونچی سطح کی ہے۔ یہ بات میں بارہا کہہ چکا ہوں۔ بعض افراد سمجھتے تھے کہ اس طرح کی باتیں بس ہم ہی کرتے ہیں لیکن اب وہ خود بھی دیکھ رہے ہیں کہ عالمی سطح پر بھی بتدریج اس کی بازگشت سنائی دینے لگی ہے۔ ایرانی صلاحیتوں کےبارے میں دنیا والوں کے اعتراف مختلف مواقع پر بار بار نظر آنے لگے ہیں۔ امریکی جرائد میں بھی اس کے تذکرے ہو رہے ہیں اور ہماری یونیورسٹیوں کے نام لئے جا رہے ہیں۔ البتہ یونیورسٹیوں کے ناموں کے تذکرے میں بھی ان کی عیاری پوشیدہ ہے کیونکہ جس یونیورسٹی کا وہ نام لیتے ہیں خواہ وہ اصفہان کی ہو یا تہران کی، وہ اہم یونیورسٹیاں ہیں اس میں کوئی دو رای نہیں لیکن وہ نام بھی لیتے ہیں تو بڑی چالاکی کے ساتھ۔ یونیورسٹی کی اہمیت اس کے اساتذہ، طلبا اور انتظامیہ کی صلاحیتوں کی بنیاد پرہوتی ہے اور یہ سب ایرانی قوم کا جز ہیں لہذا یہ صلاحیتیں اس پوری قوم میں موجزن ہیں صرف کسی ایک دو یونیورسٹیوں تک محدود نہیں ہیں۔ جہاں بھی صلاحیتوں کو کام میں لایا جائے گا دنیا اس کا لوہا ماننے پر مجبور ہوگی جیسا کہ ہم دیکھتے بھی ہیں کہ بسا اوقات مغربی ممالک اس کا اعتراف کرتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے پاس بے پناہ انسانی صلاحیتیں موجود ہیں اور ہماری ذہانت درمیانہ سطح سے کہیں بلند و بالا ہے۔
یہ خصوصیت ہماری علمی پسماندگی کو ختم کر سکتی ہے۔ ان چند برسوں کے دوران جن میں آپ نے علمی مہم شروع کی اور اس میدان میں محنت سے کام کیا بہت بڑے پیمانے پر ہمیں کامیابیاں ملی ہیں۔ دس بارہ سال قبل کی بات ہے کہ ملک میں سافٹ ویئر اور سائنس و ٹیکنالوجی کی مہم و تحریک کا آغاز ہوا اورآج ہم بہت سے شعبوں میں ترقی دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں ان ترقیاتی امور کی قدر کرنا چاہئے۔
البتہ میں ہر گزاس کام کو کافی نہیں سمجھتا ہوں ۔ میں یہ نہیں سمجھتا کہ ہم اپنی آخری منزل پر پہنچ چکے ہیں۔ ابھی تو بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ اس طویل تاریخی پسماندگی سے نجات حاصل کرنے کے لئے طویل سفر طے کرنا ہے۔ ہم اس سفر میں تنہا ہیں۔ کوئی بھی اسلامی نظام اور اس کے اسلامی افکار و نظریات کی حمایت کرنے کو تیار نہیں ہے۔ یہ چینی جن کی صلاحیتوں کی ایک ہلکی سی جھلک آپ نے بیجنگ اولمپکس کے دوران دیکھی، علمی میدان میں بہت ترقی کر چکے ہیں۔ سن انیس سو اڑتالیس میں کمیونسٹ بننے سے قبل تک ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا جبکہ سابق سوویت یونین کا عالم یہ تھا کہ سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت آگے تھا۔ اس کے پاس جو کچھ تھا اس نے چین کو مہیا کرایا۔ وہ اسٹالن کا زمانہ تھا۔ وجہ یہ تھی کہ چین جیسے عظیم ملک کی حمایت و تعاون جو آبادی کے لحاظ سے اس وقت آج کی طرح تو نہیں تھا لیکن پھر بھی ایک بڑا ملک شمار کیا جاتا تھا، اس دور کے کمیونسٹ سوویت یونین کے لئے بہت اہم تھا۔ نتیجے میں اس کے پاس جو کچھ تھا اس نے چین کو فراہم کیا۔ ایٹمی توانائی تک دی۔ ہمارے نوجوانوں نے شب و روز کی محنت سے ایٹمی ٹیکنالوجی حاصل کی ہے۔ چینیوں کو یہ ٹکنالوجی تحفہ میں روس سے مل گئی۔ اسی طرح شمالی کوریا کو یہ ٹیکنالوجی چینیوں نے بھی فراہم کی ہے اور روس نے بھی مدد کی ہے۔ تو اگر آپ مشاہدہ کریں گے تو یہ بات درک کرلیں گے کہ چین جیسے ملک کی پیشرفت و ترقی میں دیگر ممالک کی غیر معمولی مدد و تعاون کا اہم کردار رہا ہے۔ ہندوستان کا بھی یہی عالم ہے۔ البتہ اس کی صورت حال کچھ مختلف ہے۔ جب روس اور چین کے درمیان اختلافات پیدا ہو گئے۔ اسٹالن کے زمانے کے کئی برسوں بعد ان دونوں کمیونسٹ ممالک کے درمیان گہرے اختلافات پیدا ہو گئے۔ اور یہ اختلافات مشرق و مغرب کے اختلافات سے بھی کہیں زیادہ شدید تھے۔ ان اختلافات کی وجہ سے روس نے ہندوستان کی مدد شروع کر دی جو چین کا پڑوسی ملک تھا۔ چین نے پاکستان کی مدد شروع کر دی جو ہندوستان کا روایتی حریف تھا۔ یعنی سیاسی وجوہات نے اس دوستی و تعاون میں بنیادی کردار ادا کیا۔ چین نے ایٹمی ٹیکنالوجی پاکستان کو دی اور روس سے یہ ٹکنالوجی ہندوستان کو ملی اس طرح ہندوستان اور پاکستان کو دوسروں سے بڑی مدد ملی۔
میں جب غور کرتا ہوں تو اسی تیجہ پر پہنچتا ہوں کہ ہمارے ملک کی طرح کسی بھی ملک نےعلمی ٹیکنالوجی کے میدان میں ترقی نہیں کی ۔ ان تمام دشمنوں کے درمیان مشرق کی اشتراکیت اور مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کی عداوتوں اور یورپ کے عدم تعاون کی فضا میں ہم نے یک و تنہا یہ سفر طے کیا ہے۔ بہت بڑے کارنامے انجام دئے گئے ہیں جو ہمارے لئے بہت امید بخش ہیں۔ آپ مستقبل میں بھی یہ سلسلہ جاری رکھ سکتے ہیں۔ اسی وجہ سے میں مستقبل کے سلسلے میں بہت پر امید ہوں۔ موجودہ صورت حال قابل قدر و لائق تحسین ہے لیکن میری نظر میں صرف اس پر قانع ہو جانا جائز نہیں۔ نہ حکومت کے لئے، نہ آپ نوجوانوں کے لئے اور نہ اساتذہ کے لئے۔ ابھی ہمیں بہت آگے جانا ہے۔ بہت محنت سے قدم بڑھانا ہے۔ ترقی کے بلند ترین نقطہ پہنچنا ہے یہ بڑا لمبا اور صولانی سفر ہے ابھی ہمارا فاصلہ بہت زیادہ ہے۔ ہمیں مسافت طے کرکے یہ فاصلہ مٹانا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ اس کے لئے سرمائے کی ضرورت ہے تو سرمایہ بھی اسی راستے سے حاصل کیا جانا چاہئے۔ جس دن ہم سائنس و ٹیکنالوجی کے ذریعہ دولت و سرمایہ حاصل کرنے میں کامیاب اور تیل کی آمدنی سے بے نیاز ہو گئے وہ دن ہمارے لئے مسرت کا دن ہوگا۔ اس وقت تو ہم اپنے ذخائر سے اپنا خرچ چلا رہے ہیں۔ ملک کا بیشتر بجٹ تیل کی آمدنی سے فراہم کیا جاتا ہے۔ تیل تو ہمارا سرمایہ اور ذخیرہ ہے۔ ہم اپنا خزانہ خرچ کر رہے ہیں۔ کیونکہ اس کے لئے مجبور ہیں۔ ہمیں اس مقام پر پہنچنا ہے جہاں ہمارا بجٹ ہماری ٹیکنالوجی کی آمدنی سے حاصل ہو اور قوم اپنی ٹیکنالوجی سے دولت سرمایہ تیار کرے۔ ایسی صورت میں یہ سرمایہ سائنسی ترقی میں بھی مددگار ثابت ہوگا۔ دونوں چیزوں سے ایک دوسرے کی مدد ہوگی۔ سائنس مال ودولت پیدا کرے گی اور دولت سائنس و ٹکنالوجی کی ترقی میں کام آئے گی۔ دونوں سے ایک دوسرے میں اضافہ ہوگا۔ ہمیں اس مقام پر خود کو پہنچانا ہے۔
البتہ اس کے لئے جس سمت کا تعین کیا جائے وہ معنوی و الہی ہونی چاہئے۔جیسا کہ بعض عزیز جوانوں نے بھی اپنے اطہارات میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے عزیز جوانوں کے درمیان اس قسم کے رجحانات حقیقت میں انسان کے دل کو جلاء بخشتے اور خوشحال کرتے ہیں اچھے نکات بیان کئے گئے ہیں میرے ذہن میں بھی یہ نکات تھے میں بھی انھیں پر تاکید کرنا چاہتا ہوں ممتاز ادارے اور ڈاکٹر واعظ زادہ الحمد للہ کافی سرگرم ہیںمجھے بڑی خوشی ہے انھوں نے حرکت کا آغاز کیا ہے لیکن اس سلسلے میں جو کمزوریاں ہیں ان پر بھی توجہ رہنی چاہیے اور ضعف کو مسلسل بر طرف کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
ایک ضعف و کمزوری عدم ہم آہنگی ہے۔ سائنس و ٹیکنالوجی کے شعبے میں مکمل ہم آہنگی ہونی چاہئے۔ ہم نے صنعت اور یونیورسٹی کے رابطے کا موضوع اٹھایا۔ خدا کا شکر ہے کہ اس سمت میں کام ہو رہا ہے اور مزید بہت کچھ کیا جائے گا۔ متعلقہ حکام نے اسی طرح تحقیقاتی مراکز اور صنعتوں سے غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل محققین اور طلبا کے رابطے کی تجویز پیش کی ہے جو واقعی بہت امید بخش ہے اور مناسب موقع پر اس سلسلے میں آپ کو مطلع کیا جائے گا لیکن خود تحقیقاتی مراکز کے درمیان بھی ہم آہنگی بہت ضروری ہے۔ یعنی وزارت تعلیم، صدر مملکت کے سائنس و ٹیکنالوجی کے مشیر، سائنسی و صنعتی تحقیقاتی ادارے اور ممتاز علمی شخصیات کےادارے کے درمیان مسلسل رابطہ اور تعاون برقرار رہنا چاہئے۔ یہ ادارے ایک دوسرے کے ممد و معاون بنیں ایک ادارے سے دوسرے ادارے کے لئے مشکلات پیدا نہ ہوں۔
ایک اہم نکتہ ممتاز علمی شخصیات اور صلاحیت مند افراد کے احترام اور قدردانی کا ہے۔ اس سلسلے میں میں ذرائع ابلاغ بالخصوص ریڈیو اور ٹی وی کے ادارے سے کہنا چاہوں گا کہ جس طرح وہ اپنے پروگراموں میں اداکاروں اور فنکاروں کے بارے میں تبصرے کرتے ہیں اور انہیں منظر عام پر لاتے ہیں سوالات وغیرہ کا اہتمام کرتے ہیں جس میں بہت سے سوالات فلموں اور اداکاروں کے بارے میں ہوتے ہیں۔ اسی طرح کھیل کے شعبے سے متعلق افراد کے بارے میں پروگرام پیش کئے جاتے ہیں۔ تو جیسے فلموں اور کھیلوں کی جانب توجہ دی جاتی ہے، علمی میدان کی ممتاز شخصیات اور کارہائے نمایاں انجام دینے والے افراد کا بھی اسی طرح قدر دا ں ہونا چاہیے۔ میں کھیل کے شعبے میں با صلاحیت افراد پر نظر رکھنے اور انہیں منظر عام پر لانے کا حامی ہوں ان کی مدد سے ملک کا نام دنیا میں روشن ہوتا ہے، ملک کا پرچم لہرایا جاتا ہے۔ لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ جس طرح ان کی قدردانی کی جاتی ہے اسی طرح علمی شخصیات کی قدردانی بھی کی جانی چاہیے۔
میں مرحوم کاظمی آشتیانی کو بطور مثال پیش کرتا ہوں ہم نے متعدد بار ان کا نام لیا ہے اور وہ دنیا سے بھی انتقال کرچکے ہیں یا یہی عزیز جوان جن کا ڈاکٹر وعظ زادہ نے تذکرہ کیا ہے کہ وہ گذشتہ سال اس اجتماع میں موجود تھے لیکن اس سال نہیں ہیں مرحوم ہوچکے ہیں ان کی تجلیل اور قدردانی ہونی چاہیے ان کی پہچان ہونی چاہیے ہم اپنی ممتاز علمی تاریخی شخصیات کی بھی ترویج نہیں کرتے ہیں؛ ہمارے ملک کے عوام بزرگ علماء اور مختلف شعبوں کے عظیم دانشوروں کو نہیں پہچانتے ہیں۔ نہ صرف فقہ ، فلسفہ یا علوم دینی بلکہ دنیا کے رائج علوم فیزیکس ، ریاضی کیمیکل ،صنعت کے شعبوں میں عظیم کارنامہ انجام دینے والے دانشوروں کو بھی نہیں پہچانتے ہیں جن کی بعض اختراعات سے آج بھی استفادہ کیا جاتا ہے نہ ہمارے جوان ان کا نام جانتے ہیں اور نہ ہی ان کی ترویج کی جاتی ہے نہ ان کی یاد منائی جاتی ہے یہ بہت بڑا عیب ہے اس کی اصلاح ہونی چاہیے۔
دوسرے مختلف نکات بھی ہیں بعض کا دوستوں نے بھی تذکرہ کیا ہے جن میں علمی پراجیکٹوں کا تجارتی بازار میں تعارف اور مصرف بھی شامل ہے یہ بہت ہی اہم مسئلہ ہے اس سلسلے میں حکومت کو بھی مدد فراہم کرنا چاہیے اور حکومت مدد فراہم کرےگی مجھے معلوم ہے کہ حکومت نے علمی ٹیکنالوجی کو بازار میں متعارف کرانے کے سلسلے میں کچھ اہم اقدامات انجام بھی دیئے ہیں۔
ظہر کی اذان کا وقت قریب ہے آخری بات یہ عرض کرنا ہے کہ علمی میدان میں ملک کی خدمت کے موقع کی آپ قدر کیجئے۔ مختلف طریقوں سے ملک کی خدمت کی جا سکتی ہے لیکن سائنس و ٹیکنالوجی کے ذریعہ ملک کی خدمت بہت اہم ہے۔ سیاستداں بھی ملک کی خدمت کرتے ہیں، مجاہدین راہ خدا اور میدان جنگ کے جوان بھی ملک کی خدمت کرتے ہیں لیکن ملک کی خدمت کا ایک بہترین طریقہ سائنس و ٹیکنالوجی ہے۔ کیونکہ جیسا کہ پہلے بھی میں نے عرض کیا ہے کہ علم اور سائنس و ٹیکنالوجی قومی قوت و اقتدار، ملکی قدرت و وقار، اقتصادی و معاشی آسودگی و توانائی اور سربلندی و سرفرازی کی ضمانت ہے۔ تعلیم حاصل کرنے اور اعلی علمی مدارج پر فائز ہونے کے اس سفر میں اگر آپ کی نیت یہ ہو تو آپ کا یہ کام عبادت ہے۔ یعنی انسان کا ایک ہی کام دو مختلف نیتوں کی بنا پر دو مختلف حالتوں میں تبدیل ہوسکتا ہے کبھی وہی کام عبادت ہو سکتا ہے اور کبھی وہی کام معصیت و گناہ میں تبدیل ہو سکتا ہے۔ نماز اگر قرب الہی کی نیت سے پڑھی جائے اور نمازی کی تمام توجہات کا مرکز اللہ تعالی ہو تو یہ عظیم عبادت ہے لیکن اگر یہی نماز ریاکاری کے لئے پڑھی جائے تو معصیت و گناہ میں تبدیل ہو جائے گی کیونکہ ریاکاری گناہ کبیرہ ہے۔ تو نیت اتنی اہم اور اس کا اثر اتنا زیادہ ہے۔ لہذا اگر آپ علمی کاوشیں اور اعلی علمی مدارج تک پہنچنے کے لئے دن رات محنت کرکےملک اور عوام کی خدمت اور اسلامی نظام کی ترقی و سربلندی کے اسباب فراہم کریں گے تو بیشک آپ کی یہ زحمتیں نیکیوں میں شمار ہوں گی۔
امید کرتا ہوں کہ انشاء اللہ خداوند متعال آپ کی توفیقات میں اضافہ اور آپ کی مدد فرمائے اور انشاء اللہ ہم ملک میں علم و دانش کی روز افزوں ترقی کا مشاہدہ کریں اورہمارے مومن و نیک خصلت نوجوان اس عظیم مقابلے میں سب سے آگے نظر آئیں۔ انشاء اللہ خدا وند متعال آپ سب کو محفوظ رکھے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ