بسم اللہ الرحمن الرحیم
یہاں گفتگوکرنے والے تمام دوستوں کا میں تہ دل سے مشکورہوں بعض نے اپنی تنظیموں کی جانب سے گفتگوکی ہے اوربعض نے اپنے ذاتی خیالات کا اظہار کیا ہے سبھی بیانات مفید ہیں اوربعض باتیں تومیرے لئے قابل غورہیں جن کے مطابق شاید مستقبل میں کوئی قدم بھی اٹھایا جائے لیکن سب سے دلچسپ پہلو یہ ہے کہ ہمارے طلبہ اورنوجوان گوناگوں سیاسی، سماجی اوریونیورسٹیوں سے متعلقہ مسائل میں اپنے نظریات، مطالبات اوراپنا ایک نقطہ نظررکھتے ہیں یہ میری دلچسپی کا باعث ہے میں بارہا کہتا رہا ہوں کہ اس دن سے ڈرنا چاہئے جس دن ہمارے یونیورسٹی طلبہ کے اندرسے کوئی بحث چھیڑنے، سوال اٹھانے اوراپنے مطالبات سامنے لانے کا حوصلہ ختم ہوجائے ہماری پوری کوشش ہونی چاہئے تاکہ اپنے مطالبات سامنے لانے، کسی چیز کی درخواست کرنے اورمختلف مسائل میں اپنا نقطہ نظربیان کرنے کا یہ حوصلہ ہمارے ملک کی نوجوان نسل خاص طورسے پڑھے لکھے جوانوں میں مزید بیدارہوتا رہے ایسا جب ہوجائے گا تو ممکن ہے سارے مطالبات پورےکرنا ممکن نہ ہوخاص طورسے جب وقت مختصرہوتوایسا ہی ہوتا ہے مختصر مدت میں یقیناً سارے مطالبات پورے نہیں کئے جاسکتے، اس لئے کہ بہرحال وسائل محدودہیں لیکن طلبہ اورنوجوانوں کی طرف سے اپنےمطالبات سامنے رکھنے کی وجہ سے ایک واضح ہدف اوراچھا مستقبل ہمارے پیش نظررہےگا۔
نوجوانوں کومطالبہ کرنا چاہئے ساتھ ہی انہیں یہ احساس ہونا چاہئے کہ ان کا مطالبہ مفید اور ثمر بخش ہے مطالبہ کرنے پرنوجوان کی تشویق ہونی چاہئے البتہ اسے یہ احساس بھی ہونا چاہئے کہ اس کا کام صرف سوال اٹھانا اورنعرہ لگا دینا نہیں ہے کہ بس "ہماراکام ختم ہوگیا" جی نہیں بلکہ اس کا م کا پیچھا کرنا ، اس کاجائزہ لینا، اس مسئلہ پرغوروفکرکرنا، اسے پختہ کرنا، اسے عملی جامہ پہنانے کا طریقہ کارتلاش کرنا، اس طریقہ کارکومتعلقہ اداروں کے سامنے رکھنا، سرگرم رہنا اورآخرکارخودعملی میدان میں قدم رکھ لینا وغیرہ بھی ہمارے جوانوں کی ذمہ داریوں کا حصہ ہے اپنے مطالبات پیش کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں ان ذمہ داریوں کا بھی احساس ہونا چاہئے۔
ایک اہم بات جسے سب سے پہلے عرض کردینا ضروری سمجھتا ہوں جس کا ہمارے ایک عزیز نےبھی تذکرہ کیا ہے اوروہ قیادت اورعوام کی ملاقاتوں سے متعلق ادھر ادھرکہی جانے والی باتیں ہیں یہاں نشست میں جو بات کہی گئی ہے وہ معیار نہیں ہے مختلف تاویلیں اورمن گھڑہت مفہوم نکالنا وغیرہ یہ سب صحیح نہیں ہے میری باتوں میں حقیقت وہی ہوتی ہے جو میں کہہ رہا ہوتا ہوں ملکی مفاد اورنظام کی مصلحت کے پیش نظرجوبات نہیں کہنی چاہئے وہ نہیں کہتا ہوں لیکن اس کا الٹا بھی نہیں کہتا تاکہ بعد میں کسی خصوصی نشست کے دوران اس خلاف بات کی اصلاح کردوں جی نہیں ہم ایسا نہیں کرتے، البتہ بہت ساری باتیں ہیں جنہیں ملاء عام میں بیان کرنا ملکی حکام کے لئے حرام ہے ہرگزانہیں وہ باتیں نہیں کہنی چاہئیں ہم اگر جوکچھ جانتے ہیں سب آپ کے سامنے بیان کردیں تو ہماری گفتگو صرف آپ تھوڑی سن رہے ہیں آپ کے دشمن بھی سن رہے ہیں یہاں نشست میں جوبات کہی گئی ہے ایسا ہرگز نہیں ہے ہاں کچھ باتیں یقیناً نہیں کہنی چاہئیں لیکن نہیں کہنی چاہئیں کا مطلب ہے کہ وہ باتیں نہ کہی جائیں یہ مطلب نہیں ہے کہ اس کے برعکس دوسری بات کہی جائے جس سے لوگوں کے ذہن میں شکوک وشبہات جنم لے لیں توسب سے پہلے یہ بات طے ہوجانی چاہئے کہ ہماری بات وہی ہوتی ہے جوآپ ہماری زبان سے سنتے ہیں چاہے وہ نماز جمعہ کا خطبہ ہو، عوامی اجتماع سے خطاب ہویا پھرطلبہ کے ساتھ نشست یا کسی دوسری خصوصی نشست کے دوران ہماری گفتگوہو۔
دوسری گذارش یہ ہے کہ جن ممتاز طلبہ نے یہاں گفتگوکی ہے ان کی باتیں تو اچھی تھیں لیکن بہت جلدی جلدی بول رہے تھے جس کی وجہ سے میں ساری تفصیلات نہیں سن سکا میں نے یہ بات آپ سے کہنے کے لئے نوٹ کرلی تھی میری گذارش ہے کہ آپ کے ذہن میں جوکچھ ہے اسے اپنی تجاویز کے ہمراہ ایک کاغذ پرلکھ لیا کیجئے اس طرح وہ چیز آپ کے ذہن میں مزید واضح اورمرتب ہوجائے گی پھروہ نوشتہ ہمیں دے دیجئے تاکہ اگراسے عملی شکل دینا ہوتوہم انشا اللہ اس کی کوشش کرسکیں۔
طلبہ کو ہماری یہی نصیحت ہے جو ہم نے عرض کردی یعنی سیاسی، سماجی اورعلمی امورنیزیونیورسٹی کے خصوصی مسائل پرغوروفکر کے ساتھ ساتھ کچھ مطالبہ کرنا اوراپنی مانگ سامنے رکھنا؛ آغازانقلاب سے اب تک یہاں تک کہ اس دور میں بھی جب کچھ غیرمناسب حرکتیں کی جارہی تھیں میں تہران یونیورسٹی میں آتا اورنوجوانوں سے خطاب کرتا تھا توہمیشہ میں یہی کہتا تھا کہ طالب علم کوافراط اورتفریط دونوں سے پرہیز کرنا چاہئے میں کسی جگہ کسی بھی طرح کی زیادہ روی کے حق میں نہیں ہوں اعتدال پسندی اور صحیح اورمنطقی انداز سے کسی مسئلہ کا حل تلاش کیجئے اوریہ یاد رکھئے کہ آپ کی کوشش اورمحنت اثررکھتی ہے آپ کے ذہن میں کبھی یہ تصوربھی نہیں آنا چاہئے کہ "کیا فائدہ ہوگا" جی نہیں؛ بالکل فائدہ ہوگا مثلاً حکام میں سے کسی نے انصاف پسندی کا نعرہ دیا ہے تواگرسماج میں کوئی بھی اس پرکان نہ دھرتا تویادرکھئےکہ یہ وہیں ختم ہوجاتا اورانصاف پسندی کا موجودہ اصول اورموجودہ انصاف پسند حکومت ہرگزوجود میں نہ آتی میں کسی خاص گروہ کا نام نہیں لینا چاہتا لیکن تحریک انصاف چھیڑکےیا انصاف پسندی کا نظریہ پیش کرکےیہ کام آپ نے کیا ہے یہ آپ جوانوں کا کارنامہ ہے یونیورسٹی میں مومن، پابند دین اوراحساس ذمہ داری رکھنے والے جوانوں نے اسے پیش کیا پھراسے دہرایا گیا اورنتیجہ میں یہ ایک عمومی اصول بن گیا جس کا ثمرہ اورفائدہ عوام کے ترجیحات، ان کی طرف سے اپنی منزل کے تعین، ان کے نعروں اوران کے انتخاب کی صورت میں سامنے آرہا ہے توآپ ایک قدم آگے بڑھے ہیں میں دیکھ رہا ہوں کہ اس نشست میں یا اس سے پہلے مجھ سی کسی ملاقات کے دوران عدل وانصاف کے قیام، امتیازی سلوک کے خاتمہ اوربدعنوانی سے جنگ سے متعلق بعض طلبہ دوستوں کے ذہن میں کچھ سوال اٹھے ہیں تویہ نہ سوچیں کہ آپ مستقل کہتے رہے تو کیا ہوگیا؟! جی ہاں آپ کہتے رہے تو اس نے عملی شکل اختیارکرلی ہاں یہ امید پوری ہونا ممکن نہیں کہ جو کچھ ہم چاہتے ہیں وہ مختصر مدت میں حاصل ہوجائے کسی بھی صورت میں بڑے اہداف مختصر وقت میں حاصل نہیں ہوتے بڑے اہداف کے حصول کے لئے محنت ولگن کی ضرورت ہوتی ہے لگن کے ساتھ محنت کرنی چاہئے اورکبھی مایوس نہیں ہونا چاہئے تاکہ نتیجہ تک پہنچا جا سکے۔
طلبہ کاماحول رواں ہوتاہے آج آپ طالب علم ہیں آج سے پانچ سال بعد آپ کی اکثریت طالب علم نہیں ہوگی آپ کی جگہ دوسرے لوگ طالب علم ہوں گے تواپنے ماحول کوقائم رکھنے کے لئے دو چیزیں ضروری ہیں ایک تو خود آپ ہیں یونیورسٹی سے فارغ ہوتے ہی آپ یہ بھول نہ جائیے گا کہ آپ طالب علمی کے دورمیں، کلاس کے اندریا اس طرح کی نشستوں میں کیا کہا کرتے تھے کیا چاہتے تھے اور کس چیز کو آخری مقصد قرار دیا کرتے تھے یہ سب ہرگز فراموش نہ کیجئے انہیں محفوظ رکھئے یہ ایک بات ہوئی ؛ ہماری ایک پریشانی یہی ہے کہ کچھ لوگ ایک ماحول میں رہتے رہتے وہاں کا رنگ وروپ دھار لیتے ہیں اس کے بعد جب اس ماحول سے دور ہوجاتے ہیں تو ان کا حال بھٹی سے نکلے لوہے کی مانند ہوجاتا ہے کہ جب تک وہ بھٹی کے اندر تھا سرخ تھا باہر نکلنے کے بعد آہستہ آہستہ سیاہ ہوتاجارہا ہے آپ اس طرح کے مت بنیے اندرسے جوش میں آئیے اپنے دل میں ان افکارکی جڑیں مضبوط کیجئے۔
یہاں یہ بھی عرض کردوں ان افکار کو محفوظ رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ انہیں اپنے ایمان اورعقائد سے منسلک کردیجئے جب ایسا ہوگا تو خدائی فرض کی بنا پر آپ خود کو کبھی فارغ البال محسوس نہیں کریں گے جنہوں نے جنگ کی ہے، جوثابت قدم رہے ہیں جومشکلات کے مقابل سینہ سپررہے ہیں انہوں نے یہی نسخہ اپنایا ہے وگرنہ آج آپ طالب علم ہیں یونیورسٹی ماحول میں ہیں جوانی کا دورہے عدل وانصاف کے قیام اوراپنے مقاصد تک پہنچنے کا جوش ہے کل جب آپ اس ماحول سے دور ہو جائیں توسب کچھ دفعتاً یا آہستہ آہستہ بھول جائیں تویہ صحیح نہیں ہے توافکار باقی رکھنے کا ایک محور ومرکز خود آپ ہیں۔
دوسرا مرکز خود یونیورسٹی ہے آج آپ طالب علم ہیں آپ کے اندر بہت اچھے حوصلے ہیں کل پانچ چھ سال بعد آپ طالب علم نہ ہونگے آپ کی جگہ جو لوگ آئیں گے ان کے لئے آپ کیا چھوڑ کے جائیں گے یا دوسرے لفظوں کہا جائے کہ نئے آنے والے کس طرح یہ ماحول بنائیں گے؟ تواس کے لئے جوکچھ کرنا ہے اس میں بہت سارا کام خود آپ کے کندھوں پر ہے ایک بات جو میں نے اس نشست میں آپ سے عرض کرنے کے لئے نوٹ کر رکھی ہے وہ یہ ہے کہ اس سے پہلے میں نے علمی ممتاز شخصیات تیار کرنے کی بات کی تھی آج میں سیاسی ممتاز شخصیات تیار کرنے کی تاکید کررہا ہوں اس بات سے میں اتفاق رکھتا ہوں کہ میڈیا اورریڈیو ٹی، وی کے ذریعہ سیاسی اورسماجی ممتاز شخصیات کا تعارف کرایا جانا چاہئے ایک عزیز نے یہی کہا ہے جو بالکل صحیح ہے میں اس کی تائید کرتا ہوں یہ کام انشا اللہ ہونا چاہئیے ممتاز شخصیات کی تربیت میں آپ کا بھی حصہ ہے مطلب یہ کہ آپ طلبہ تنظیموں کے اندرممتاز سیاسی شخصیات کی تربیت کیجئیے اس کے لئے ماحول بنائے یہ یونیورسٹی سے باہر حکومت وغیرہ کا کام نہیں ہے یہ خود آپ کا کام ہے ذہن وفکر سے فائدہ اٹھائیے آپ یہ دیکھئیے کہ اپنے بعد آنے والوں کے درمیان بحث واستدلال کا ماحول بنانے، ان کی فکری تربیت کرنے، ان کی امیدیں اورحوصلے بڑھانے نیزان کی سیاسی فکرکی بنیادیں مضبوط کرنے کے لئے آپ کیا پروگرام ترتیب دے سکتے ہیں تاکہ ہم مطمئن رہیں کہ آپ کے بعد آنے والے طلبہ پھران کے بعد آنے والے طلبہ انہیں بلند اہداف اورانہیں اچھے مقاصد کی سمت آگے بڑھیں گے لیکن ہرموڑ پر نظررکھئے ہرانحراف پر توجہ دیجئے اوراس کی شناخت کیجئے۔
طلبہ کی طرف سے اپنے مطالبات پیش کرنے کے ضمن میں ایک بات یہ عرض کرنا چاہوں گا کہ مطالبات سامنے رکھنے اوردشمنی کرنے میں فرق ہے ہم نے کہا تھا کہ ملکی حکام کے ساتھ ٹکراؤ نہیں ہونا چاہئے آج بھی ہماری تاکید یہی ہے ٹکراؤ نہیں ہونا چاہئیے اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ان سے کوئی مطالبہ بھی نہ کیا جائے، ان پر کوئی تنقید بھی نہ کی جائے رہبرکے سلسلہ میں بھی یہی ہے ہمارے برادرعزیز نے کہا ہے کہ "ولایت فقیہ مخالف کا تعارف کرادیجئے" مخالفت کا مطلب واضح ہے مخالفت کا مطلب ہے لڑائی، دشمنی؛مخالفت کے معنی معتقد نہ ہونے کے نہیں ہیں میں اگرآپ کا معتقد نہیں ہوں تواس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں آپ کا مخالف ہوں ہوسکتا ہے کوئی کسی کا معتقد نہ ہو ولایت فقیہ مخالف کے عنوان سے مروجہ اصطلاح کوئی آسمان سے اتری آیت نہیں ہے جس کی تاویل وتفسیر کی جائے اوراس کے حدود اربعہ کا تعین کیا جائے یہ عرف عام میں استعمال ہونے والی بس ایک اصطلاح ہے دفعہ چوالیس کی پالیسیوں کی مخالفت ولایت فقیہ کی مخالفت نہیں ہے رہبر کے کسی خاص نظریہ پراعتراض اصل رہبری پراعتراض نہیں ہے دشمنی نہیں ہونی چاہئیے دودینی طالب علم ایک ساتھ بیٹھتے اٹھتے ہیں آپس میں دوست ہیں ایک دوسرے سے محبت رکھتے ہیں ایک ساتھ پڑھتے ہیں لیکن جب علمی مباحثہ کرنے بیٹھتے ہیں توایک دوسرے کی بات مسترد کرتے ہیں یہ اس کی بات مسترد کرتا ہے وہ اس کی؛ بات مسترد کرنا مخالفت کے معنی میں نہیں ہے ان دونوں مفاہیم کوایک دوسرے سے الگ رکھنا چاہئیے میں اس سے پہلے کی حکومتوں کی بھی حمایت کرتا رہا ہوں اس حکومت کی بھی حمایت کرتا ہوں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہےکہ اس حکومت کے ہرہرکام کو میری تائید حاصل ہے یا مجھے سارے کاموں کی خبر ہے نہیں ایسا کوئی ضروری نہیں ہے رہبرکا بس ان امور اورواقعات سے با خبررہنا ضروری ہے جن کا تعلق اس کے اپنے فیصلوں سے ہو، جن کا تعلق اسکے اپنےفرائض اورانکی انجام دہی سے ہوایسا نہیں ہے کہ حکومت جوکچھ کررہی ہے یا مختلف وزارتیں جوکررہی ہیں اس سب کی رہبرکوخبرہونی چاہئیے ایسا نہ تو ضروری ہے اورنہ ہی ممکن ؛ حکومت کے اندر ممکن ہے کچھ افراد یا حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے کچھ اقدامات پرہم سوفیصد راضی ہوں لیکن ہم ان کی تائید نہ کریں اس لئے کہ رہبرکا عملدرآمدی اداروں میں مداخلت کرنا بلاجواز ہے اس لئے کہ ہرایک کی ذمہ داری معین ہے ہرعہدہ دار، ہروزیر اورہرثقافتی یا معاشی ادارے کے سربراہ کواپنے فرائض انجام دینا چاہئیں لہذا ہم کسی بھی صورت میں تنقید کو مخالفت قرار نہیں دیتے ہیں محترم حکام اور موجودہ حکومت واقعاً خادم قوم اورباعظمت ہے واقعاً ایسا ہی ہے جو کام ہورہے ہیں وہ بھی آپ دیکھ رہے ہیں سب کچھ آنکھوں کے سامنے ہے آدمی ناانصافی پر ہی کمر باندھ لے تب ان کاموں کی اہمیت کا منکر ہوسکتا ہے کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ ہم جو اس حکومت کی حمایت کررہے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ تنقید نہیں ہونی چاہئیے یا یہ کہ میری طرف سے حکومت پر کوئی اعتراض نہیں ہے نہیں؛ ممکن ہے مجھے بھی بعض موارد پر اعتراض ہو۔
بہرحال طلبہ سے ہمیں جو امیدیں ہیں وہ یہی ہیں اورآپ اطمینان رکھئیے یقیناً ایسا ہی ہوگا اس لئے کہ انسانی تحرک کا مجموعی رخ جو کہ فطری سنت ہے دکھائی دے رہا ہے جہاں بھی ایمان ہواوراس کے ساتھ ساتھ جد وجہد بھی ہو تو کامیابی یقینی ہوجاتی ہے میں دیکھ رہا ہوں کہ ایسا ہی ہوگا۔
سائنسی ترقی، سیاسی افکار میں پیشرفت، ایمان اوردینی افکارمیں گہرائی، عمیق دینی معرفت اوردینی روشن فکری، طلبہ طبقہ کی جانب سے علم، سیاست اوردینی معرفت کے ذیل میں جدید افق پرکمند ڈالنا یہی وہ چیزیں ہیں جن کی ہمیں طلبہ سے توقع ہے لیکن جوبھی کیجئیے متعقلہ شعبہ کے رہنما کے تعاون سے کیجئیے علمی کام کرنا ہے تو اس میں آپ کا کوئی استاد ہونا چاہئیے دینی معرفت اورسیاست کے سلسلہ میں بھی آپ کا کوئی استاد ہونا چاہئیے کام آپ کریں گے لیکن رہنمائی اس کی ہوگی ہماری یونیورسٹی نیز طلبہ کو ان تمام شعبوں میں واقعی اورجاذب نظرترقی کرنا چاہئیے انشا اللہ ترقی ہوگی۔
پروردگار! میں ان جوانوں کو جو کہ میرے فرزند ہیں تیرے حوالہ کرتا ہوں پالنے والے! ان سب پراپنی ہدایت، حمایت اورلطف وکرم کا سایہ قائم رکھ! پالنے والے! ہمارے ملک کی جوان نسل کو اس ملک کے مستقبل کا ایسامعمار بنا دے جس کی اسے آرزو ہے، پالنے والے! تو ان کو اوران کے اعمال، سرگرمیوں اوراقدامات کو اپنی رضا وخوشنودی کا باعث قراردے، پروردگارا! ہمارے جوانوں کو بامقصد اورمفید علم یعنی علم باعمل کی توفیق دے، پالنے والے! حضرت ولی عصر(ارواحنا فداہ) کے قلب مقدس کو ہم سے راضی وخوشنود فرما، ہمارے عزیز شہداء کی ارواح طیبہ اورامام 0رہ)کی روح مطہر کو ہم سے راضی وخوشنود فرما، ایران اوراسلامی جمہوریہ کی عزت وسربلندی میں روزبروز اضافہ فرما۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ