ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کا مرحوم ابن میثم بحرانی کے دوسرے سمینار کے شرکاء سے خطاب

بسم اللہ الرّحمٰن الّرحیم

میں اس سمینار میں شریک ہونے والے ایرانی اور غیر ایرانی سبھی عزیز میہمانوں کو خوش آمدید کہتا ہوں ، یہ ایک مبارک اجتماع ہے ، ہماری نگاہیں ہمیشہ اس اتحاد اور یکجہتی پر مرکوز رہتی ہیں جسے ان اجتماعات سے وجود میں آنا چاہئیے ۔

علّامہ ابن میثم بحرانی کے سلسلے میں ایک جملہ عرض کرتا چلوں ؛ ساتویں صدی ھجری کی یہ ممتاز شخصیّت ،فقیہ بھی ہے ، متکلّم بھی اور امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام کی نہج البلاغہ کے بلند وبالا مضامین و مطالب کے انمول خزانے پر مسلّط بھی ۔ میں انقلاب کی کامیابی سے بہت پہلے جب جوانوں اور یونیورسٹی طلباء کے درمیان اس کتاب کی تدریس میں مصروف تھا اور نہج البلاغہ کی مختلف شروح کی طرف رجوع کیا کرتا تھا تو اس وقت میں نے محسوس کیا کہ دوسری شرحوں کے مقابلے میں ابن میثم بحرانی کی شرح ، امیر المؤ منین حضرت علی علیہ السّلام کی مراد اور مقصود کو پہنچانے میں ایک ممتاز مقام رکھتی ہے ۔ بجا طور پر تمام مسلمانوں کی طرف سے اس عظیم علمی شخصیّت کو خراج تحسین پیش کیا جا نا اس شخصیّت کا حق ہے ؛ چونکہ نہج البلاغہ ، کسی خاص فرقے کی کتاب نہیں بلکہ اس کا تعلّق سبھی مسلمانوں سے ہے اور یہی وجہ ہے کہ آپ ملاحظہ کرتے ہیں کہ گذشتہ صدیوں میں ، نامور شیعہ اور سنّی دونوں فرقوں کے نامور علماء نے یکساں طور پر اس کتاب پر شرحیں تحریر کی ہیں ۔اس سلسلے میں اگر ماضی قریب میں جھانکیں تو شیخ محمّد عبدہ پر نظر جاتی ہے ، جنہوں نے اس کتاب کی تعریف و تمجید کی اور اس پر شرح تحریر کی ہے ۔ نہج البلاغہ بلا کسی امتیاز کے سبھی مسلمانوں کی کتاب ہے ۔

دوسرا نکتہ جو زیادہ اہمیّت کا حامل ہے وہ ہے عصر حاضر میں مسلمانوں کے مابین ''اتحاد اور یکجہتی'' کا مسئلہ ۔ہم ،اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بہت پہلے سے اس اتحاد کی اہمیّت کو اجاگر کرنے اور شیعوں اور سنّیوں کے دلوں کو ایک دوسرے کے قریب لانے میں مصروف عمل تھے ۔ انقلاب کی کامیابی کے برسوں قبل جب میں صوبہ بلوچستان میں جلا وطن تھا ، میں نے وہاں کے ممتاز سنّی عالم دین مولوی شھداد کو پیغام بھیجا کہ آئیے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، شیعہ سنّی حقیقی اور عملی اتحاد اور یگانگت کے لئیے رہنما اصول وضع کریں ، مولوی شہداد سے بلوچی حضرات بخوبی واقف ہیں ، عالم و فاضل شخص تھے ، اس وقت میں ایرانشہر میں تھا اور وہ سروان میں ، موصوف نے بھی گرم جوشی سے اس تجویز کا استقبال کیا ؛ لیکن اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد دوسری مصروفیّات کی وجہ سے اس پر کام نہیں ہو سکا ، البتّہ انقلاب کی کامیابی کے بعد نماز جمعہ کے بارے میں منعقد ہونے والی پہلی کانفرنس میں اس سلسلے میں تبادلہ خیال ہو ا اس کانفرنس میں موصوف کے علاوہ کچھ دیگر سنّی علماء بھی شریک تھے ۔

دونوں عقیدوں کے ماننے والوں کے درمیان ، مذہبی تعصبات کی بنا پر پایا جانے والا اختلاف ایک فطری اور طبیعی چیز ہے ، اور یہ شیعوں اور سنّیوں سے مخصوص نہیں ہے ، بلکہ یہ اختلاف مختلف شیعہ فرقوں اور سنّی فرقوں کے مابین بھی ہے اور ہمیشہ سے چلا آیا ہے ، تاریخ پر نظر دوڑائیے ، آپ ملاحظہ کریں گے کہ جس طرح اہل سنّت کے مختلف فقہی اور کلامی فرقوں کے مابین اختلاف نظر پایا جاتا ہے جیسے اشاعرہ اور معتزلہ ، حنبلیوں ،حنفیوں اور شافعیو ں کے مابین پایا جانے والا اختلاف ،بالکل ویسے ہیں شیعوں کے مختلف فرقوں کے مابین بھی اختلاف پایا جا تا ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے، لیکن جب یہ اختلاف نچلی سطح ، عوام النّاس کی سطح پر نمودار ہوتا ہے تو بھیانک اور خطرناک صورت اختیار کر لیتا ہے ، اور دونوں عقیدوں کے ماننے والے ایک دوسرے سے دست و گریبان ہو جاتے ہیں ۔ علماء تو آپس میں مل بیٹھ کر ، علمی بحث و گفتگو کرتے ہیں ، لیکن جب ایسے افراد کی نوبت آتی ہے جو علمی اسلحے سے عاری ہوں تو وہ جذبات اور احساسات اور مادی اسلحے کے استعمال پر اتر آتے ہیں ،اور یہ اختلاف انتہائی خطرناک صور ت اختیار کر لیتا ہے ۔ یہ اختلاف ہمیشہ سے رہا ہے ؛ مؤمنین اور خیر خواہوں کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ اس کی روک تھام کریں ، علماء اور ممتازشخصیّات ، کی ہمیشہ یہی کوشش رہی ہے کہ یہ اختلافات عوامی سطح پر نزاع و جھگڑے کا باعث نہ بنیں ؛ کچھ عرصے سے اس داستان میں سامراج اور استعمار کا عنصر بھی شامل ہو گیا ہے ۔ ہم یہ نہیں کہنا چاہتے کہ شیعہ سنّی اختلاف ہمیشہ سے استعمار کی دین رہا ہے ، بلکہ ، ان کے اپنے احساسات ، بھی اس میں دخیل رہے ہیں ؛ بعض نادانیاں ، بے جا تعصّب اور غلط فہمیاں بھی ان اختلافات کو ہوا دینے میں مؤثر واقع ہوئی ہیں ، لیکن جب سے استعمار نے اس میدان میں قدم رکھّا ہے اس نے اس ہتھیار سے بہت زیادہ فائدہ اٹھایا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آپ ملاحظہ کرتے ہیں ، جو ممتاز شخصیّات ماضی میں سامراج اور استکبار سے بر سر پیکار رہی ہیں انہوں نے امت اسلامیّہ کے اتحاد و یکجہتی پر بہت زیادہ زور دیا ہے ۔ آپ ملا حظہ کیجئیے کہ سیّد جمال الدّین اسد آبادی معروف بہ افغانی ، ان کے شاگرد شیخ محمّد عبدہ اور بعض دیگر سنّی علماء نے ، شیعہ علماء میں سے مرحوم شرف الدّین اور بہت سے دیگر بزرگوں نے اس سلسلے میں اپنی طرف سے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا تاکہ سامراج ،شیعہ سنّی مذہبی اختلاف کو ، اسلامی دنیا میں رخنہ ڈالنے کے لئیے ایک آسان حربے کے طور پر استعمال نہ کر سکے ۔ ہمارے امام امّت ،شروع سے ہی اسلامی اتحاد اور وحدت پر زور دیتے رہے ، سامراج نے اپنی تمام تر توجّہ اسی نکتہ پر مرکوز کی اور اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا ۔

میں یہاں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کے بوڑھے سامراج برطانیہ کو اس سلسلے میں ہمارے دیگر سامراجی دشمنوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ مہارت حاصل ہے ، چونکہ انگریز سالہاسال ، ایران ، ترکی ، عرب ممالک اور بر صغیر میں زندگی بسر کر چکے ہیں اور اس کام کے اسرار و رموز سے بخوبی آشنا ہیں ، انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ کسی سنّی کو شیعہ کے خلاف کیوں کر اکسایا جا سکتا ہے اور کسی شیعہ کو سنّی کے خلاف کس طرح بھڑکایا جا سکتا ہے ؛یہ لوگ اس کام سے بخوبی آشنا ہیں اور اس کا عملی تجربہ بھی کر چکے ہیں ۔انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد اس سامراجی تحریک میں شدّت پیدا ہوئی ہے ؛ ہم نے اسے اچھی طرح بھانپ لیا تھا ، ہمیں انقلاب کےآغاز سے اس کے واضح آثار دکھائی دے رہے تھے اور ہم مسلسل اس سے خبردار بھی کرتے رہے ہیں ۔ چونکہ پچھلے کچھ عرصے میں اسلامی جمہوریہ ایران نے ایک عظیم معرکہ سر کیا ہے اور وہ ہے''اسلامی دنیا کی بیداری ''لہٰذا اختلاف پیدا کرنے والوں اور استکباری محاذ میں ، مسلمانوں میں اختلاف ڈالنے کے جذبے میں بھی شدّت اور قوّت دیکھی جا سکتی ہے اور سبھی ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں ۔

آج عراق میں شیعہ اور سنّی کو ایک دوسرے سے لڑانے کے در پئے ہیں ،پاکستان میں بھی یہی صورت حال پیدا کرنا چاہتے ہیں ، اگر ان کے بس میں ہو تو افغانستان میں بھی یہی تاریخ دہرانا چاہتے ہیں ، ایران اور جہاں کہیں بھی ممکن ہو اپنے ان ناپاک عزائم کو عملی جامہ پہنانے میں ذرّہ برابر بھی تردید سے کام نہیں لیتے ؛جہاں تک ہمیں خبر ملی ہے انہوں نے لبنان میں بھی ،شیعہ سنّی اختلاف ڈالنے کی کوشش کی اور آج بھی اسی کوشش میں مصروف ہیں ۔

مسلمانوں کے اتحاد میں رخنہ ڈالنے والے یہ عناصر نہ تو شیعہ ہیں نہ سنّی ، انہیں نہ تو شیعہ حضرات سے کوئی لگاؤ ہے اور نہ اہل سنّت سے ، یہ لوگ نہ شیعوں کے مقدّسات کو مانتے ہیں اور نہ ہی اہل سنّت کے عقائد کا احترام کرتے ہیں ، چند دن قبل امریکہ کے صدر بش نے اپنی تقریر میں امام ہادی اور امام عسکری علیہما السّلام کے روضہ اقدس کے انہدام کے دلسوز واقعہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس کی ذمّہ داری شدت پسند سلفیوں پر عائد کی، امریکیوں نے شیعوں کے جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کی اور انہیں اس میں کامیابی بھی ملی ، لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ یہ کام خود ان کی آنکھوں کے سامنے انجام پایا !اس مقدّس مقام کو ایک ایسے شہر میں نشانہ بنایا گیا جو امریکی انتظامیہ کے کنٹرول میں تھا اور امریکی فوجی اس شہر کے گلی کوچوں میں گھوم رہے تھے ؛ یہ کیسے ممکن ہے کہ یہ کام ان کی پیشگی اطّلاع اور اجازت کے بغیر انجام پایا ہو؟!یہ کام خود امریکیوں کا ہے ۔

القاعدہ اور سلفی عناصر کو دہشت گردوں کے طور پر پیش کرتے ہیں ، حالانکہ یہ امریکی ہی ہیں جو انہیں ان کاروائیوں پر اکساتے ہیں ، عراق کے پرانے بعثی عناصر کو اسرائیل اور امریکہ کی خفیہ ایجینسیاں ، مختلف مقامات پر دھماکے کر نے پر اکسا رہی ہیں ۔

بغداد اور بعض دیگر ایسے شہروں میں امن و امان کی صورت حال انتہائی ابتر ہے جہاں کے انتظامی امور کی بھاگ دوڑ امریکیوں کے ہاتھ میں ہے ، ورنہ عراق کے بعض دیگر مقامات میں امن و امان کی صورت حال کافی بہتر ہے جہاں کی انتظامیہ عراقی حکومت کے کنٹرول میں ہے ، خود امریکی،ناامنی کا حقیقی عامل ہیں ۔خود ان کے اندر، ناامنی کا محرّک پایا جاتا ہے ۔

ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کےبعد انہوں نے ایک نیا منصوبہ تیّار کیا تا کہ اس انقلاب کواسلامی دنیا میں ایک "شیعی انقلاب " کے طور پر پیش کر سکیں ؛ حالانکہ یہ انقلاب ، حقیقی معنا میں ایک اسلامی انقلاب ہے ، ایک قرآنی انقلاب ہے ، اس انقلاب نے دنیا میں اسلام کا پرچم لہرایا ، اس انقلاب کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ اس نے دنیا میں، اسلامی قدروں ، توحید و وحدانیّت ،الٰہی احکام اور اسلام کی معنوی قدروں کو روشناس کرایا اور اس سلسلے میں نمایاں کامیابی حاصل کی ۔

تمام دشمنیوں اور عداوتوں کے باوجود ہمیں کامیابی نصیب ہوئی ، اس انقلاب نے مسلمانوں میں، اسلامی غرور اور فخر و افتخار کی روح کو نئی زندگی عطا کی ، اس انقلاب سے دشمنی کی اصلی وجہ یہی ہے ، ورنہ اگر حقیقت میں ہمارا انقلاب ایک شیعی انقلاب ہوتا اور ہم اسلامی دنیا سے جدا ہو جاتے اور ہمیں اس سے کوئی سر وکار نہ ہوتا تو یقینا انہیں ہم سے کوئی مطلب نہ ہوتا ، وہ اس انقلاب کے دشمن نہ ہوتے ، لیکن جب انہوں نے دیکھا کہ یہ انقلاب ،ایک اسلامی انقلاب ہے انہیں اس سے خطرہ محسوس ہوا اور اس کے خلاف سازشیں رچنے لگے ۔

فلسطین کا حقیقی دفاع ، اسلامی انقلاب نے کیا ہے ۔ کسی بھی ملک و قوم نے ایرانی قوم اور حکومت کی طرح کھل کر فلسطین اور وہاں کے مظلوم عوام کی تحریک آزادی کی جد و جہد کا دفاع نہیں کیا ، ہم سے جو بن پڑا ہم نے دریغ نہیں کیا ، اب تک ان کی مادی اور معنوی مدد کرتے آئے ہیں ۔جب سوویت یونین نے افغانستان پر چڑھائی کی اور اس خطّے کی تمام مسلمان حکومتوں نے مختلف مصلحتوں کے مد نظر چپّ سادھ رکھّی تھی ، امام خمینی (رضوان اللہ تعالیٌٰ علیہ) نے سوویت یونین کو واضح پیغام دیا '' تمہیں افغانستان سے نکل جانا چاہئیے ''میں خود ایک بین الاقوامی اجلاس میں شریک تھا جہاں ناوابستہ تحریک اور بہت سے اسلامی ممالک کے سربراہان مملکت موجود تھے ، میں نے مشاہدہ کیا کہ وہاں کسی نے سوویت یونین کے افغانستان پر حملے کا تذکرہ تک نہیں کیا ، چونکہ اس اجلاس میں بعض سوشلیسٹ ، بائیں محاذ اور روس نواز ممالک شریک تھے ، ان کے پاس و لحاظ میں اسلامی ممالک نے ایک حرف تک منہ سے نہیں نکالا ، میں وہ واحد شخص تھا جس نے اپنی تقریر میں اس پر شدید اعتراض کیا ، ہم نے بلا کسی امتیاز کے امریکہ اور سوویت یونین دونوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ؛ وہ اس سے خفا ہیں ۔ چونکہ یہ انقلاب ایک اسلامی انقلاب ہے ، لہٰذا یہ نہیں دیکھتا کہ فلسطینی قوم شیعہ ہے یا سنّی ؛اس کا لحاظ کئیے بغیر ان کا دفاع کرتا ہے ، اہل لبنان کی عظیم تحریک کا دفاع کرتا ہے ، یہی نہیں بلکہ مسلمانوں کی ہر اس تحریک کی حمایت کرتا ہے جو اسلام کی سربلندی کا باعث ہو ، وہ اس سے خفا ہیں ۔ چونکہ یہ انقلاب ایک اسلامی انقلاب ہے اس لئیے ناراض ہیں ، ورنہ اگر ہم نے ملکی سرحدوں کو سیل کر دیا ہوتا اور یہ نعرہ بلند کیا ہوتا کہ سنّی ممالک سے ہمارا کوئی تعلّق نہیں ہے ، سنّی گروہوں سے ہمارا کوئی ربط نہیں ہے تو امریکہ ، اسرائیل اور برطانیہ کو ہم سے کوئی دشمنی نہ ہوتی ،یہ لوگ ،اسلامی جمہوریہ کے مخالف ہیں ، چونکہ اسلامی جمہوریہ ، اسلام کے لئیے ہے ، امت اسلامیہ کے لئیے ہے ۔ جب سے اسلامی جمہوریہ کا قیام عمل میں آیا ہے ،سامراج کی جانب سے شیعوں اور سنّیوں کے مابین اختلاف و تفرقہ ڈالنے کی کوششوں میں مزید اضافہ ہوا ہے ۔

ہمیں ، بیدار اور ہوشیار رہنا چاہئیے ، شیعوں اور سنّیوں ، دونوں کو بیدار رہنے کی ضرورت ہے ، بالخصوص علماء کو ہوشیار رہنا چاہئیے ،ممکن ہے عوام ، غلط فہمی اور بد گمانی کا شکار ہو جائیں ، علماء کرام یہ کہہ کر اپنا دامن نہیں چھڑا سکتے کہ ہم سے کیا مطلب ؟ عوام تو عوام ہیں ، ہم ا س میں ملوّث نہیں ہیں ، یہ طرز فکر بالکل غلط ہے ، علماء کو اپنی ذمّہ داری محسوس کرنا چاہئیے ، آج اسلامی بیداری کی لہر پھیل رہی ہے ، اسلامی عزت عیاں ہو چکی ہے ، مختلف میدانوں میں دشمن کی پسپائی اور ہزیمت ،روز افزوں بڑھ رہی ہے ، استکبار کو فلسطین میں شکست ہوئی ، لبنان ،عراق ، اور افغانستان میں منہ کی کھانا پڑی ، ان میں سے کسی ملک میں بھی اسے اپنے ناپاک عزائم میں کامیابی نہیں حاصل ہوئی۔

اسلامی جمہوریہ ایران دن بدن آگے کی سمت بڑھ رہا ہے ، ہم نے گذشتہ ۲۷ سال میں مختلف علمی ۔ صنعتی اور سماجی میدانوں میں نمایاں ترقّی حاصل کی ہے ، موجودہ نظام حکومت سے عوام کا رشتہ مزید مستحکم ہوا ہے ، یہ بات ہمارے دشمنوں کے مزاج پر گراں گزری ہے اور انہیں رد عمل پر مجبور کر رہی ہے ۔

آج ہمیں بہت زیادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے تا کہ دشمن ،اسلامی دنیا کے اس کمزور پہلو سے فائدہ اٹھانے میں کامیاب نہ ہو سکے ۔

ہمارے دوستوں نے بجا کہا کہ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ شیعہ اور سنّی ایک دوسرے کے عقائد کو مان لیں ، بلکہ ہر کوئی اپنے عقیدے پر باقی رہے ، دلیل و منطق کی بنا پر اس نے جو بھی عقیدہ قبول کیا ہے وہ صحیح ہے ۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ مختلف عقائد کے ماننے والے دشمنوں کی سازشوں پر کان نہ دھریں ، ایک دوسرے سے لڑائی جھگڑا نہ کریں ، ایک دوسرے سے دشمنی کا برتاؤ نہ کریں ایک دوسرے سے بد گمانی نہ رکھیں ۔ ہمارے دشمنوں کو جو حربے معلوم ہیں وہ ایک دوسرے کو سکھا رہے ہیں ، انگریز، امریکیوں کو سکھا رہے ہیں اور اسرائیلی ان دونوں کو سکھا رہے ہیں ''یوحون بعضہم الی بعض زخرف القول غرورا''۔

عوام کو اس سلسلے میں آگاہ اور ہوشیار کرنے کی ضرورت ہے ، خود بھی ہوشیار رہئیے ، وہ لوگ جو تقوا اور حقیقت فہمی سے عاری ہیں اور مسلمانوں کی ایک عظیم جمعیّت کو دین سے خارج سمجھتے ہیں اور اس پر کفر کا الزام لگاتے ہیں، یہ نادان تکفیری گروہ ،جہالت کا شکار ہیں ، ان کی سب سے اہم خصوصیّت جہالت ہے اگرچہ ان میں خباثت بھی پائی جاتی ہے ۔ جہاں تک ممکن ہو ان کی ھدایت اور رہنمائی کیجئیے ؛لوگوں کو ان کے ناپاک عزائم سے آگاہ کیجئیے ، بعض لوگ ،ایمان کی کمزوری یا ان کی صحیح معرفت نہ ہونے کی بنا پر ان کے بہکاوے میں آجاتے ہیں "و لتصغیٰ الیہ افئدۃالذین لا یؤمنون بالآخرۃ و لیرضوہ و لیقترفواما ھم مقترفون"۔

ہمیں ہوشیار رہنا چاہئیے ، علماء کی ذمّہ داری نہایت سنگین ہے ، اسلامی دنیا کا اتحاد اور یکجہتی ،موجودہ دور میں اسلامی دنیا کا سب سے بڑا ہدف ہے اور اگر یہ مقصد حاصل ہو جائے تو اس وقت اسلامی دنیا اپنا کھویا ہو ا وقار دوبارہ حاصل کر سکتی ہے ، اس مقصد کے حصول کے لئیے ،عوام اور حکومتوں میں آپسی تعاون بہت ضروری ہے ۔ حکومتوں کو بھی مسلمانوں کے درمیان اتحاد اور یکجہتی پیدا کرنے کے لئیے اپنا کردار ادا کرنا چاہئیے ، اگر امت اسلامیہ کو اس کا حقیقی مقام حاصل ہو جائے تو وہ ان حکومتوں کی پشتیبان ہو گی اور اسلامی حکومتیں اپنی کمزوری اور خوف کی وجہ سے امریکہ اور برطانیہ کی آغوش میں پناہ لینے پر مجبور نہیں ہوں گی۔

ہمیں امّید ہے کہ خداوند متعال اس راہ میں ہماری راہنمائی اور نصرت فرمائے گا تا کہ انشاءاللہ ہم عصر حاضر کی سنگین ذمّہ داریوں سے عہدہ برآہو سکیں اور انہیں بخوبی انجام دے سکیں ۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ