بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم
سب سے پہلے میں آپ خواتین و حضرات کو خوش آمدیدکہتا ہوں جنہوں نے آج اس حسینیہ میں اس پر جوش ، بامعنا اور دوستانہ جلسے کا انعقاد کیا ہے ۔ میں ، ثانئ زہرا حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی روح اقدس پر بھی درود و سلام بھیجتا ہوں، آج کی تین مناسبتوں( یوم معلّم ، طبّی اہلکاروں کا دن ، یوم مزدور )میں سے ایک مناسبت یعنی یوم تیمار دارآپ کی ذات گرامی سے منسوب ہے ۔ اس طرح ہم اپنے عزیز شہید مرحوم آیۃ اللہ مطہّری کی روح پر فتوح کے درجات کی بلندی کے لئیے بھی دعا گو ہیں ، موصوف کا یوم شہادت(جو یوم معلّم کے نام سے جانا جاتا ہے ) بھی اس جلسے کے انعقاد کا ایک دوسرا بہانہ ہے ۔
یہاں جمع ہونے والےتینوں طبقات میں جس قدر بھی غور و فکر کرتا ہوں اسی نتیجہ پر پہنچتا ہوں کہ آپ ہمارے معاشرے کے سب سے اہم اور مؤ ثر طبقات شمار ہوتے ہیں ۔ آپ میں سے کچھ حضرات شعبہ تعلیم و تربیّت سے منسلک ہیں ۔ آپ سالہا سال سے اس قوم کے بچّوں کے امین رہے ہیں ؛ آپ ہی وہ لوگ ہیں جو ہمارے اور ہمارے بچّوں کے ذہنوں کی سفید تختی پر اچھّا یا برا تحریر کر سکتے ہیں : پیشے کے اعتبار سے معلّمی (معلّم کا جو مفہوم ہمارے زمانے میں رائج ہے ، یعنی پرائمری کلاس کا معلّم ، مڈل کلاس اور اعلیٰ تعلیم کا معلّم )کے پیشے کا نقش و کردار ، ہمارے معاشرے کے دیگر پیشوں کے کردار سے کہیں زیادہ اہم اور مؤثر ہے ۔ اعلی ٰ تعلیمی اداروں (خواہ ان کا تعلّق حوزے سے ہو یا یونیورسٹی سے )میں درس و تدریس کے فرائض انجام دینے والےسبھی اساتذہ لائق احترام ہیں لیکن ابتدائی تعلیم کے اساتذہ استثنائی نقش و کرادر کے حامل ہیں اور ان کا اپنا ایک منفرد مقام ہے۔ہمارے بچّوں کی شخصیّت کو بنانے اور سنوارنے میں گھریلو تربیّت کے ساتھ ساتھ اس معلّم کا کردار بہت زیادہ اہم ہوا کرتا ہے جو بارہ برس کی عمر تک ہمارے بچّوں کی تعلیم و تربیّت کی ذمّہ داری ادا کرتا ہے ، میں جس قدر غور و فکر کرتا ہوں اس مقام کی عظمت کے نئے نئے گوشے سامنے آتے ہیں ؛ البتّہ اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ ، ہماری قوم ، ہماری حکومت اور مسؤولین ، معلّم کے مقام کی قدر و قیمت کو پہچانیں اور اس بات کو اچھی طرح سمجھیں کہ اس نگاہ سے اس پیشے کی بہت زیادہ اہمیّت ہے ، اساتذہ کو بھی اپنے نقش و کردار کی اہمیّت کو محسوس کرنا چاہئیے اور اس ذمّہ داری کو خدائی تحفہ سمجھنا چاہئیےاور اس بات کو ملحوظ نظر رکھنا چاہئیے کہ خداوندمتعال کے اذن و ارادے سے ان کے ہاتھوں کیا عظیم کام انجام پارہا ہے ۔
ایک دوسرے زاویہ نگاہ سے نرسوں اور طبّی امدادی عملے کا طبقہ بھی ایک انتہائی اہم اور مؤثر طبقہ ہے ۔ ملک کی صحّت عامہ کے نظام میں نرسوں اور طبّی امدادی عملے اور اسی طر ح دائیوں کا کردار بہت اہم ہے ، ان دونوں کا نقش بہت عظیم ہے ۔ اگر بیمار کے سرہانے ، مہربان اور ہمدرد نرس اور طبّی امدادی عملے کی کوئی فرد نہ ہو تو اس بات کا بہت زیادہ امکان ہے کہ ڈاکٹر کا علاج معالجہ مؤ ثر نہ ہو ۔ نرس اور طبّی امدادی عملے کے افراد وہ فرشتہ صفت عناصر ہیں جو بیماری کے طولانی اور سخت دور کو بسر کرنے میں بیمار کی مدد کرتے ہیں ۔ہم میں سے ہروہ شخص جو کبھی بیمار ہو ا ہو یا اسے آپریشن کا سامنا کرنا پڑا ہو وہ میری بات کی تصدیق کرے گا ۔ خود میری آنکھوں نے دیکھا ہے اور محسوس کیا ہے ۔ نرس اور طبّی امدادی عملے کے افراد کا کردار ایک حیات بخش اور زندگی عطا کرنے والا کردار ہے ۔ زچے اور بچے کی صحّت و سلامتی میں دائی کا کردار بھی اسی اہمیّت کا حامل ہے ۔میں یہاں طبّی امدادی عملے کے ملازمین (خواہ ان کا تعلّق خواتین سے ہو یا مردوں سے ) اور دائیوں سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ وہ اپنی اس عظیم خدمت اور نعمت کی قدر پہچانیں ؛ اور جس طرح ، عام لوگ انہیں عزّت و احترام کی نگاہ سے دیکھتے ہیں وہ بھی اپنے پیشے کو عزّت کی نگاہ سے دیکھیں ۔ یہ احترام اور قدرو قیمت ، ہر طبقے کے افراد کے کام کی کیفیّت میں بہت مؤثر کردار ادا کرتا ہے ۔
مزدور کا کردار بھی ان کرداروں میں سے ہے جو آج کی دنیا میں کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے ۔ اگر چہ آج بھی دنیا کے بہت سے حصّوں میں مزدوروں کے حقوق پائمال ہو رہے ہیں؛ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مزدور کسی بھی سماج کی فعّالیت کا مرکزی عنصر شمار ہوتا ہے ، مزدور وہ شخص ہے جو اپنے ہاتھ ، آنکھ ، دماغ اور دیگر مہارتوں کو بروے کار لا کر مختلف کام انجام دیتا ہے ، مختلف چیزیں بناتا ہے اور ان کے ذریعہ معاشرے کی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے ۔ہم جس قدر غور و فکر کرتے ہیں اسی قدر ہمارے اوپر ان تینوں طبقات کی اہمیّت عیاں ہوتی ہے ۔ البتّہ مزدوری اور کام کا مسئلہ ایک دو طرفہ مسئلہ ہے :جس کی ایک طرف مزدور ہے تو دوسری طرف مزدوری کرانے والے اور سرمایہ لگانے والے عناصرہیں ۔ یہ دونوں عناصر اشیاء کی تیّاری اور مختلف منصوبہ جات کو عملی جامہ پہنانے میں مؤثر ہیں ۔
جیسا کہ میں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا کہ ان تینوں طبقات سے منسلک افراد کو اپنی قدر وقیمت اور کرامت و شرافت کو محسوس کرنا چاہئیے ، میری نگاہ میں یہ ایک بہت اہم نکتہ ہے ۔ اگر کسی شخص کو اپنے کام کی اہمیّت معلوم ہو تو وہ کبھی بھی آنا کانی اور اغماض سے کام نہیں لے گا ۔ اس پر مایوسی طاری نہیں ہوگی ۔ اگر ہمارے اندر یہ احساس بیدار ہو جائے کہ ہمارا کام ، ہمارے ملک اور سماج کی زندگی کے لئیے کس قد ر اہم ہے تو ہمارے اندر کام کرنے کی ایک ایسی طاقت خود بخود پیدا ہو جاتی ہےجو تمام بیرونی رکاوٹوں پر غلبہ حاصل کر لیتی ہے ۔
میری آپ سب حضرات سے سب سے پہلی گزارش یہ ہے کہ جو بھی کام آپ کے سپرد کیا گیا ہے خواہ آپ نے اپنی ذاتی دلچسپی کی بنا پر اسے اختیا ر کیا ہو یا حالات کی مجبوری کی بنا پر آپ نے یہ پیشہ اختیار کیا ہو ، اس کام کوشوق و اشتیاق اور رغبت سے انجام دیجئیے ، اس کی قدر و منزلت کو پہچانئیے ، اسے خاطر خواہ اہمیّت دیجئیے اور صحیح ڈھنگ سے انجام دیجئیے ۔ ہم نے بارہا پیغمبر اسلام (ص)کا یہ قول نقل کیا ہے کہ آنحضرت (ص)نے فرمایا " رحم اللہ امراعمل عملا فاتقنہ "؛ خدا رحم کرے اس بندے پر جو جب کسی کام کوانجام دیتا ہے تو اسے ٹھوس اور مضبوط انداز میں انجام دیتا ہے ۔ یہ حدیث ، میرے ، آپ ، معلّموں ، مزدوروں اور طبّی امدادی عملے ، اور دیگر صاحبان حرفہ وہنر کی ہرفرد پر صادق آتی ہے ۔ ہم نے جس کام کی ذمّہ داری لے رکھی ہے اسے ٹھوس طریقے سے انجام دیں اور پایہ تکمیل تک پہنچائیں ۔
وہ چیز جس پر میں ہمیشہ ہی زور دیتا رہاہوں اور آج بھی اس پر تاکید کرنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ ہمیں اپنی ملکی ثقافت میں داخلی مصنوعات کی ترویج و اشاعت پر توجّہ مرکوز کرنی چاہئیے؛ صارفین کو ملک کے اندر تیّار کی جانے والی اشیاء کی طرف راغب کرنا چاہئیے ؛ یہ بہت اہم چیز ہے ۔ ماضی میں ایک لمبے عرصے تک ہماری قوم میں اس ثقافت کو پھیلایا جاتا رہا ہے کہ ہم ہمیشہ بیرون ملک تیّار کی جانے والی اشیاء کی تلاش میں رہیں ۔ جب کسی چیز پر کسی دوسرے ملک سے درآمد ہونے کا نشان چسپاں ہوتا تھا تو اسے اس کے مرغوب اور بہتر ہونے کی سب سے بڑی اور اہم دلیل سمجھا جاتا تھا ۔اس ثقافت کو تبدیل ہونا چاہئیے ۔ البتہ ملکی مصنوعات کی کیفیّت بھی اس مسئلے میں مؤثر ہے ، بیرون ملک تیّار ہونے والی مصنوعات کی بے جا اور بے رویّہ تشہیر نہ کرنا بھی مؤثر ہے ۔ داخلی سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی بھی مؤثر ہے ، عام مزدوروں اور انجینئیروں کااحساس ذمّہ داری بھی اس میں مؤثر ہے ، حکومت ، مسؤولین ، مزدوروں اور سرمایہ کاروں اور اس تاجر کا بھی اس میں اہم نقش ہے جو بیرون ملک سے مختلف مصنوعات در آمد کرتا ہے ۔ ان سبھی افراد کو ایک دوسرے کا بھر پور تعاون کرنا چاہیے تا کہ ملکی مصنوعات کو فروغ حاصل ہو سکے ، ان کی اہمیّت سبھی پر اجاگر ہو اور ہمارے اذہان اور معاشرے پر ایک ایسی ثقافت حکم فرما ہو سکے جس سے ہماری داخلی مصنوعات کے استعمال کی حوصلہ افزائی ہو ۔ ہم جب کسی درآمد شدہ چیز کو خریدتے ہیں تو جہاں ایک طرف کسی دوسرے ملک کے مزدور کو روزگار فراہم کرتے ہیں ، دوسری طرف اپنے ہی ملک کے ایک مزدور سے روزگار چھیننے کا باعث بنتے ہیں ۔ملک کے سبھی حکام ، حکومت ، سرمایہ کاروں ، تبلیغاتی مشینری ، پالیسی ساز اداروں ،مزدوروں اور اس شعبے سے وابستہ تمام افراد کو اس نکتے پر خصوصی توجّہ دینی چاہئیے ۔
خوش نصیبی سے آج ہمارے ملک میں تیّار ہونے والی بہت سی مصنوعات کا معیار ، بیرون ملک تیّار ہونے والی ان جیسی مصنوعات سے کہیں اونچا ہے ۔ ہم بلا وجہ اپنی مصنوعات کے تئیں اس قدر غفلت و لاپرواہی کا مظاہرہ کیوں کریں ؟وہ دور گزر گیا جب اس ملک کے مسند اقتدار سےوابستہ افراد اپنے اقدامات اور زہریلے بیانات کے ذریعہ اس بات کی تلقین کر رہے تھے کہ ایرانی قوم کے بس میں کچھ نہیں ، وہ کسی چیز کی ساخت پر قادر نہیں ہے ۔انہوں نے جان بوجھ کر ایرانی قوم کو پسماندگی کا شکار بنایا۔ انہوں نے ملک میں خلاقیت اور کام کے جذبے کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ۔ انقلاب آیا اور اس نے اس صورت حال کو بالکل بدل ڈالا۔ آج ہمارے جوان انتہائی پیچیدہ کاموں کو بخوبی انجام دے رہے ہیں ، آج ملک میں بڑے بڑے منصوبوں کی تکمیل کا بنیادی ڈھانچہ موجود ہے ، آج ، ملک میں بے شمار پیچیدہ فنی کام ، ایرانی جوانوں کی خلاقیت اور ذہنی صلاحیتوں کے ذریعہ انجام پا رہے ہیں ، مسؤولین بھی اس مقصد کے حصول کے لئیے محنت سے لگے ہوئے ہیں ۔ آج ہم سب کو ملکی مصنوعات کی طرف راغب ہونا چاہئیے ، اور اسے ایک ثقافت کے طور پر اپنانا چاہئیے ۔ البتہ اس کا ایک اہم حصّہ ، مزدوروں کے پیشے کی سلامتی سے مربوط ہے ، جس پر خصوصی توجّہ دینے کی ضرورت ہے ؛ مزدور کو فارغ البال ہونا چاہئیے ؛ اسے اپنی روزگار کے سلسلے میں مطمئن ہونا چاہئیے ، اسے اپنےپیشے ، نوکری اور کام سے مطمئن ہونا چاہئیے ۔مالک اور نوکر ، سرمایہ کار اور مزدور ، کارخانے کے منتظم اور مزدورکو کام آگے بڑھانے کے لئیے ایک دوسرے سے تال میل اور بھائی چارگی کا سلوک کرنا چاہئیے۔یہ یوم مزدور کے سلسلے میں میری کچھ گزارشات تھیں جو میں نے آپ کے سامنے رکھّیں ۔
تعلیم و تربیت کے شعبے میں ، جس چیز پر میں سب سے زیادہ زور دینا چاہتا ہوں وہ ملکی نظام تعلیم میں تبدیلی اور تحوّل کا مسئلہ ہے ؛ وہی چیز جس کی طرف محترم وزیر تعلیم نے بھی اشارہ کیا ، ہم نے ماضی میں بھی اس اس بات پر بارہا زور دیا ہے ۔ ہمار ا تعلیمی نظام ایک تقلیدی اور قدیمی نظام تعلیم ہے ؛ اس نظام تعلیم میں دو بڑی خامیاں پائی جاتی ہیں : سب سے پہلی خامی یہ ہے کہ جب پہلوی دور حکومت اور اس سے کچھ پہلے اس نظام کی بنیاد رکھی گئی تو اس میں ملکی ضرورتوں اور ایرانی تہذیب و تمدّن کو سراسر نظر انداز کیا گیا ۔ اس نظام کی بنیاد ملکی ضرورتوں اور اس کی تہذیب و تمدّن پر استوار ہونی چاہئیے ، دوسروں کے تجربات سے بھی زیادہ سے زیادہ استفادہ کیجئیے لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم کسی مغربی ملک کے نظام تعلیم کو جسے اس ملک کی ضرورتوں اور تہذیب و تمدّن کے پیش نظر مرتّب کیا گیا ہے اور جس میں طرح طرح کی خامیاں بھی ہیں ، اسے اس کی موجودہ شکل میں اپنے ملک میں رائج کریں ۔ افسوس ، کہ ماضی میں یہ کام بڑے شد و مد سے انجام پایا ہے ، مغربی ممالک کی اندھی تقلید کی گئی ؛ موجودہ نظام تعلیم کی دوسری بڑی خامی یہ ہے کہ یہ نظام قدیم و فرسودہ ہو چکا ہے ۔ خود وہ لوگ اس نظام کو خیر آباد کہہ چکے ہیں جو کسی دور میں اس سلسلے میں ہمارے ملک کے مسؤولین کے مرجع تقلید تھے ، انہوں نے بھی اپنے تعلیمی نظام کو نئے طریقوں پر استوار کیا ہے لیکن ہم آج بھی اسی فرسودہ نظام سے چپکے ہوئے ہیں !اس نظام میں تبدیلی و تحوّل ایک لازمی امر ہے ۔
خوش نصیبی سے آج ہمارے ملک میں اس کا بہترین موقع فراہم ہے ؛ ہمارے ملک پر اندرونی ثبات حکمفرما ہے ؛ ہر طرف امن و امان کا دور دورہ ہے ؛ بہت سے ترقّیاتی منصوبوں پر کام چل رہا ہے ۔ اس پر آشوب دور میں ایرانی قوم نے اپنی عزّت و وقار کو قائم رکھا ہے ۔ ان کاموں میں مشغول ہونے کا یہ ایک بہترین موقع ہے ۔ جیسا کہ وزیر تعلیم نے اشارہ کیا کہ ہم نے اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر بہت غور کیا ہے ، کام کیا ہے ، یہ بہت اچھی بات ہے اور لایق تحسین عمل ہے ؛ لیکن اس کا نفاذ اور اس پر عمل درآمد بہت ضروری ہے ، اس کام کو آگے بڑھائیے اور عملی مرحلے تک پہنچائیے ؛اس کے لئیے شجاعت اور عملی اقدام ضروری ہے، خلاقیت اور اچھی سوچ ضروری ہے ۔بہر حال ایک اہم مسئلہ ، نظام تعلیم و تربیت میں بنیادی تبدیلی اور تحوّل کا مسئلہ ہے جس پر میں نےمختصر انداز میں روشنی ڈالی ۔
ایک دوسرا نکتہ جو اہمیت کا حامل ہے وہ نظام تربیت کو اہمیت دینے کا مسئلہ ہے ۔ کچھ افراد نے نظام تربیت کو سراسر نظر انداز کرتے ہوئے اس عمارت کو جس کی بنیاد انقلاب کے آغاز میں رکھی گئی تھی اسے ملک کے تعلیمی نظام سے بالکل الگ تھلگ کر دیا ہے اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ رفتہ رفتہ تقریبا نظام تعلیم سے اس کو ہٹا دیا گیا ہے ۔ چونکہ آپ تربیت پر پورا یقین رکھتے ہیں لہٰذا اس کے نفاذ کی کوشش کیجئیے ؛ اسے قابل عمل بنائیے ۔ تربیت کی اہمیت اگر تعلیم سے زیادہ نہ ہو تو اس سے کم بھی نہیں ہے ۔ہمارے بچّوں اور شاگردوں کے ذہن کی سفید تختی پر محض چند لکیروں کا کھینچنا کافی نہیں ہے بلکہ ان کے ذہن کو بنانا اور سنوارنا بھی ضروری ہے ، اسی بنانے اور سنوارنے کو تربیّت کہتے ہیں ۔تربیّت کے مسئلے کو اہمیّت دینا بہت ضروری ہے ، میں تربیت کے طریقہ کار کے بارے میں اظہار خیال نہیں کرنا چاہتا ، آپ جیسا مناسب سمجھیں وہ طریقہ کار اختیار کریں لیکن اس پر عمل در آمد کو یقینی بنائیے ۔درسی نصاب ، معلّم کے انتخاب اور تعلیمی منصوبہ بندی میں ضرورتوں کو مدّ نظر رکھئیے ، وزارت تعلیم کو اپنی تمام تر توجّہ تعلیمی معیار کے ارتقاء پر مرکوز کرنا چاہئیے اور مقدار اور تعداد کو بڑھانے سے اجتناب کرنا چاہئیے ، وزارت تعلیم کی سب سے پہلی ترجیح یہ ہونا چاہئیے کہ وہ تعلیمی معیار کو بڑھا سکے ۔ البتہ جتنے اسکولوں اور اساتذہ کی ضرورت ہے اسے پورا کیجئیے ، لیکن ترجیح ، کیفیت اور کوالٹی کو حاصل ہے ۔ اساتذہ کے تعلیمی معیار میں ارتقاء ، تجربہ ، علم ، ثقافت یہ وہ چیزیں ہیں جو شعبہ تعلیم و تربیّت میں اہمیّت کی حامل ہیں ۔
ہمیں امّید ہے کہ انشاء اللہ خداوندمتعال ہمیں اس کی توفیق عنایت فرمائے گا ۔ الحمد للہ آپ بھی مصروف عمل ہیں ، اور اپنی کاوشوں کو جاری رکھے ہوئے ہیں ۔ ہمیں ان زحمتوں کا قدردان ہونا چاہئیے۔ صحّت عامہ ، تعلیم و تربیّت اور مزدوری کے شعبوں میں جو نمایاں ترقیات حاصل ہوئی ہیں اور وزراء محترم نے ان کی طرف اشارہ کیا یہ اس نظام حکومت کے قابل فخر کارنامے ہیں ؛ یہ ہمارا نظام حکومت ہے جو اپنی توانائیوں کا اظہار کررہا ہے ۔ مجھے نہیں معلوم کہ کچھ لوگ بلا وجہ ان حقائق کو ماننے سے گریزاں کیوں ہیں اور کن وجوہات کی بنا پر ان کی تصدیق کرنے کو تیّا ر نہیں ہیں ۔ ان حقائق میں جس قد ر اضافہ ہو گا ، دنیا میں ایرانی قوم اور اسلامی جمہوریہ کا سر فخر سے اتنا ہی بلند ہو گا ۔
میں یہاں پر پیشوں اور حرفوں کے مسائل سے ہٹ کر انتخابا ت کے مسئلے پر گفتگو کرنا چاہتا ہوں جو پوری ایرانی قوم سے مربوط ہے اور دور حاضر کا سب سے اہم مسئلہ ہے ۔میرے عزیزو!طول تاریخ میں چند صدیوں تک ہماری قوم اس ملک کے نظم و نسق اور مدیریّت کے سلسلے میں ایک غیر مؤثر عنصر میں تبدیل ہو چکی تھی ، آخر ایسا کیوں تھا ؟ مطلق العنانی اور ڈکٹیٹر شپ کی خصوصیت یہی ہوا کرتی ہے ، بادشاہت کا خاصہ یہی ہے ، اس نظام حکومت میں عوام کی کوئی حیثیت نہیں ہوتی ۔ایسے میں قوم کی کیا درگت بنتی ہے ؟ یہ تخت پر بیٹھنے والے کے انصاف اور رحم وکرم پر منحصر ہوا کرتا ہے ۔ اگر قوم کی قسمت اچھی ہو تو ایک ایسا ڈکٹیٹر بر سر اقتدار آتا ہے جس کے دل میں کسی حد تک انصاف اور رحم و کرم پایا جاتا ہو جیسا کہ ہماری تاریخ میں کریم خان زند کا نام لیا جاتا ہے ، اس صورت میں عوام کو کسی حد تک آرام کی سانس لینے کا موقع مل جاتا ہے لیکن اگر رضا خان ، ناصر الدّین شاہ جیسے سلاطین تخت حکومت پر قابض ہوں تو ایسے افراد ملک کو اپنی ذاتی ملکیّت سمجھتے ہیں اور عوام کو اپنی رعیّت ۔ اپنی تاریخ پر ایک نگاہ ڈالئیے ، زیادہ پیچھے جانے کی ضرورت نہیں ہے ، مشروطیّت کی تحریک کے بعد کے دور کو ملاحظہ کیجئیے (مشروطیّت کی تحریک صرف نام کے اعتبار سے ایک عوامی تحریک تھی )؛ لیکن جب سے پہلوی حکومت بر سر اقتدار آئی انتخابات کو محض ایک نمائشی اور دکھاوے کے اقدام کے طور پر دیکھا جاتا تھا ؛ایک مختصر عرصے (تقریبا دو سال جب قومی تحریک کے دوران کسی حد تک ملک کے حالات سازگار تھے )کو چھوڑ کر بقیہ مدّت میں قومی اسمبلی کو معطّل رکھا گیا ، پا رلیمنٹ کے اختیارات کو حکومت کے سپرد کیا گیا اور یہ کام مصدّق کے دور میں انجام پایا ،اس کے علاوہ بقیہ تمام انتخابات محض ایک نمائشی اقدام تھے ،جہاں تک مجھے اور میرے ہم سن افراد کو یاد ہے ہمارے ملک میں کبھی بھی عوام کے حق رائے دہی کے احترام کے لئیے انتخابات منعقد نہیں ہوئے ، شاہی دربار اور بادشاہ کے منظور نظر افراد کو الیکشن میں حصّہ لینے کی اجازت دی جاتی تھی اور ان میں رقابت کا ڈھونگ رچایا جاتا تھا ، ان میں مار پٹائی بھی ہوا کرتی تھی ،اور ایسے افراد کو پارلیمنٹ میں بٹھایا جاتا تھا جو شاہی دربار کے سامنے مطیع محض ہو ں ، اس کے مفادات کے پاسبان ہوں جو اس کے غاصبانہ مالی حقوق کا دفاع کر سکیں ۔ایسے افراد کو پارلیمنٹ کی سیٹوں پر بٹھایا جاتا تھا ، اس دوران شاید ہی کسی نے اس غرض سے حق رائے دہی کا استعمال کیا ہو کہ وہ اس کے ذریعہ ملک کی انتظامیہ پر اثرانداز ہونے جا رہا ہے ۔ ایسا کوئی تصوّر ہی نہیں پایا جاتاتھا ، ہم ، صرف اخبارات میں انتخابات کے بارے میں پڑھاکرتے تھے ، ہم نہیں جانتے تھے کہ الیکشن کس تاریخ کو ہونے والا ہے ، عوام کو الیکشن کے دن پولنگ بوتھوں اور بیلٹ بکسوں کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں ہوا کرتا تھا ، وہ لوگ آپس میں تھوڑی بہت بحث و گفتگو اور شور شرابہ کیا کرتے تھے ، جو دل چاہتا انجام دیتے ، اور دیکھتے ہی دیکھتے الیکشن اپنے اختتام کو پہنچ جاتا ، عوام کا ان انتخابا ت میں کوئی کردار نہیں ہوتا تھا ۔
انقلاب نے اس صورت حال کو سراسر تبدیل کر دیا اور عوام کو اپنی تقدیر رقم کرنے کا موقع فراہم کیا ؛ نہ صرف پارلیمنٹ کے انتخابات میں ، بلکہ صدر جمہوریہ ، خبرگان کونسل اوربلدیاتی و شہری کونسلوں کے انتخابات میں بھی ، عوام کی رائے کو حرف آخر قرار دیا گیا اور ملک کے قانون اساسی کو اسی بنیاد پر مرتب کیا گیا ، میں آپ سے عرض کردوں کہ آج بھی جب کہ انقلاب کی کامیابی کے بعد تیس سال کا عرصہ گزر چکا ہے ، یہ کام پورے زور و شور سے جاری ہے ۔
انقلاب سے پہلے ایران ، اغیار کی چرا گاہ تھا ۔ یہاں کے تیل ، یہاں کے بازار ، یہاں کی مصنوعات ، یہاں کے لوگوں ، یہاں کی ہر جیز پر تسلط پسند طاقتوں کا کنٹرول تھا ؛ اس ملک پر کبھی برطانیہ اور کبھی امریکہ اور اسرائیل کا سیاسی تسلط تھا ۔ جب انقلاب کامیاب ہوا اور اس ملک کی زمام حکومت عوام کے ہاتھ میں آئی تو ان کے مفادات کا خاتمہ ہوگيا ، اس نظام سے ان کی عداوت ایک طبیعی بات ہے جیسا کہ وہ گزشتہ تیس سال سے اس کا اظہار بھی کر رہے ہیں ۔ اس دشمنی کی ایک علامت یہ ہے کہ وہ اپنے پروپیگنڈے کے ذریعہ ، ملک کے انتظام و انصرام میں عوام کی موجودگی اور ان کی نقش آفرینی جیسی اہم چیزکو یا تو نظر انداز کردیتے ہیں یا سرے سے انکار کر دیتے ہیں ۔ انہوں نے بارہا ، بہ طور کنایہ یا کھلے عام ہمارے ملک کے انتخابات پر شک کی انگلی اٹھائی ہے ۔ ان کی الزام تراشیاں بے بنیاد ہیں ، ہمارے ملک کے انتخابات ، جمہوریت کے جھوٹے دعویدارممالک کے اکثر انتخابا ت کے مقابلے میں زیادہ آزاد اور پر جوش ہوتے ہیں ۔ ان انتخابات میں عوام کی دلچسپی بھی زیادہ ہوتی ہے ۔ ہمار ا دشمن ، ہمارے پرجوش ، صاف و شفاف اور آزادانہ انتخابا ت پر انگلی اٹھا رہا ہے ۔ البتہ دشمن سے دشمنی کے سوا کوئی اور امّید نہیں ہے ؛ ہم ان سے کیاتوقع کر سکتے ہیں ؟لیکن ہمیں دوستوں سے ہر گز یہ توقّع نہیں تھی کہ وہ بھی دشمن کی آواز میں اپنی آواز ملائیں گے ؛ ہمیں ان لوگوں سے یہ امّید نہیں تھی جو اس قوم کا حصّہ ہیں اور حقائق کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ؛ وہ اپنی آنکھوں سے انتخابات کی شفافیت کو دیکھ رہے ہیں ، اس کے باوجود دشمن کی باتوں کو دہرا رہے ہیں !مجھے یہ توقّع ہے : جو لوگ ایرانی قوم کے ساتھ ہیں ، ایرانی قوم کا حصّہ ہیں اور اس قوم کی توجّہ اپنی طرف مبذول کرنا چاہتے ہیں ، کم از کم یہ لوگ تو ایرانی قوم کی مخالفت نہ کریں اور اس کے انتخابات پر سوالیہ نشان نہ لگائیں ، ان انتخابا ت کے آزادانہ اور شفاف نہ ہونے کی رٹ نہ لگائیں ، اور یہ نہ کہیں کہ جناب !یہ الیکشن تو الیکشن ہی نہیں ہے ۔ یہ لوگ کیوں جھوٹ کا سہارا لے رہے ہیں ؟ ناانصافی کے مرتکب کیوں ہو رے ہیں ؟ حقائق کا کس بنا پر انکار کر رہے ہیں ؟ آخر کیوں ، اس قوم اور حکومت کی سالہاسال کی محنت پر پانی پھیر رہے ہیں ؟ آخر کیوں ناشکری کر رہے ہیں ؟
گزشتہ انتخابات بھی آزادانہ اور منصفانہ رہے ہیں ، جہاں کہیں بھی کسی قسم کا شک و شبہ پایا جاتا تھا ہم نے فورا اس کی چھان بین کے لئیے کچھ افراد کو مامور کیا ، انہوں نے چھان بین کی ۔ ماضی میں منعقد ہونے والے قومی اسمبلی کے انتخابات میں سے ایک انتخاب کے بارے میں کچھ افواہیں ادھر ادھر گردش کر رہی تھیں ، کچھ لوگوں نے دلائل بھی پیش کئیے ، ان انتخابا ت کے غیر شفاف ہونے کی باتیں کیں ، انہیں یہ امّید تھی کہ ملک کے اہم شہروں( جن میں تہران بھی شامل تھا ) کے انتخابات کو کالعدم قرار دیا جائے ۔ ہم نے ماہرین کی ایک ٹیم روانہ کی ، جس نے معاملے کی چھان بین کی ،اس کے مختلف پہلووں کا جائزہ لیا اور اس نتیجہ پر پہنچی کہ الیکشن میں کسی قسم کی کوئی گڑ بڑ نہیں ہوئی ہے ۔ ہزاروں بیلٹ بکسوں کے درمیان عین ممکن ہے کہ دو، چار بیلٹ بکسوں کے بارے میں اس طرح کے شکوک و شبہات پیدا ہو جائیں لیکن اس سے انتخابات کی شفافیت پر کوئی حرف نہیں آتا ۔ اور ایسا بھی ہمیشہ نہیں ہوتا ، شاذو نادر ہی یہ صورت حال پیش آتی ہے ۔آپ نے بارہا مشاہدہ کیا ہے کہ ملک میں کسی خاص سیاسی رجحان (ملک کے سیاسی رجحانات اور احزاب سے آپ بخوبی واقف ہیں )کی حکومت کے بر سر اقتدار ہوتے ہوئے حزب مخالف نے انتخابات جیت لئے اور حزب اقتدار کو شکست کا سامنا ہوا، یہ تاریخ کئی مرتبہ دہرائی جا چکی ہے ، پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص ان انتخابات کے آزادانہ اور منصفانہ ہونے پر انگلی اٹھائے؟ ۔۔۔ (۱) اچھا، اگر آپ تیّار ہیں تو انشاء اللہ انتخابات میں بھر پور انداز میں شرکت کیجئیے ، پوری ایرانی قوم آئندہ صدارتی انتخاب میں اپنے پورے جوش و ولولے اور دلچسپی کے ساتھ ، پولنگ بوتھوں میں حاضر ہوگی اور ایسا انتخاب رقم کرے گی جس سے دشمن کے غیظ و غضب میں مزید اضافہ ہو گا ۔
پروردگارا! اس قوم پر اپنا فضل و کرم نازل فرما ۔ پروردگارا ! اس قوم کی توفیقات میں روز افزوں اضافہ فرما ۔ پروردگارا! اس قوم کو راہ کمال میں روز بہ روز ثبات قدم عطا فرما ۔ امام امّت(رہ) اور شہداء گرانقدر کی روحوں کو بلندو بالا درجات عطا فرما۔
والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ