ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبر معظم کاجماران بحری دفاعی جہازتیار کرنے والے فوجی ماہرین سےخطاب

بسم اللہ الّرحمٰن الرّحیم

آج کا دن میرے لئیے انتہائی شیرین اور اچھا دن تھا ؛ نہ صرف اس لئیے کہ آج  کے دن ایرانی بحری بیڑے میں ایک بحری جنگی جہاز کااضافہ ہوا ہے ، البتّہ یہ بھی اپنے آپ میں بہت اہم اوربڑی کامیابی ہے ، لیکن اس سے بھی بڑھ کر مجھے اس بات کی خوشی ہو رہی ہے کہ ہماری بحریہ کے جوان اور اس کے ذہین اور محنتی ، دانشور اور عملے کے افراد ، اپنی امید ، خود اعتمادی اور توکّل کا ثمرہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ، یہ چیز ان کے اندر اس بھی بڑے بڑے قدم اٹھانے کا عزم و حوصلہ پیدا کرے گی ؛ اصل اہمیت اس بات کی ہے ۔ بنیادی کام یہ ہے کہ ہمارے جوان  ، اپنی اور  اپنی توانائیوں کی قدر و قیمت کوسمجھیں اوران  کو پہچانیں ۔اور اپنی خداداد صلاحیتوں کو میدان میں عملی جامہ پہنائیں اور بڑے بڑے معرکے سر کرنے سے خائف و ہراساں نہ ہوں ۔جناب ایڈمیرل سیاری نے جو طویل المیعاد منصوبہ پیش کیا ہے ممکن ہے کہ وہ ابتداء میں بلند پروازانہ معلوم ہو ، میں ان جیسے نظریات اور خیالات سے سو فیصد متفق ہوں ۔ اپنے ملک و قوم کی عزت و آبرو کے دفاع کے لئیے ، پوری دنیا پر اپنے اقتدار و شجاعت کو واضح کر دیجئیے ۔البتّہ اس کے لئیے کچھ تمہیدی اقدامات لازم ہیں جنہیں انجام دینا چاہیے ۔ جب ہم موجودہ حقائق پر نگاہ ڈالتے ہیں تو عین ممکن ہے کہ ان میں سے بعض امور ہمیں ناممکن اور محال معلوم ہوں ؛ لیکن میرا عقیدہ یہ ہے کہ ہمیں اس راستے پر چلنا چاہیے اور آگے کی سمت بڑھنا چاہیے ، ہم جوں جوں آگے بڑھیں گے منزل آسان ہوتی جائے گی ۔

ایک دور میں جب اسی" عباس بندرگاہ" میں واقع بحریہ کی فیکٹریوں میں ایک ایسے بحری جنگی جہاز کوتیار کرنے کی بات آئی جو بحر عمان و ہند میں ہماری ضرورتوں کو پورا کرے اور مناسب وسائل سے بھی  لیس ہو، جیسا کہ مجھے یاد ہے اسی ملاقات میں کچھ افراد ایسے بھی تھے جن کی نظر میں یہ کام محال و ناممکن تھا ۔ لیکن آپ نے دیکھا کہ یہ کام نہ صرف یہ کہ ممکن تھا بلکہ آپ کے اندر موجودہ دور میں جو عزم و حوصلہ پایا جاتا ہے اس کے سامنے  یہ کوئی بہت بڑا کام نہیں ہے ۔عصر حاضر میں آپ کے اندر بڑے بڑے کاموں کا عزم و حوصلہ اس سے کہیں زیادہ ہے جو ہمیں " جماران بحری جنگی جہاز " کی صورت میں دکھائی دیتا ہے ۔ حالانکہ اس جہاز کی ساخت میں بے پناہ زحمتیں ، مشقتیں ، دن رات کی محنت ، ذہانت اور استعداد وغیرہ کا بیش بہا خزانہ صرف کیا گیا ہے ۔ اس کے باوجود آپ کی موجودہ استعداد و صلاحیت کے مقابلے میں کوئی بہت بڑا کارنامہ نہیں ہے ؛ آپ کے مستقبل کے منصوبے اس سے کہیں اہم ہیں ۔ یقینا آپ کے آئندہ کے اقدامات اس سے کہیں بڑھ کر ہوں گے ۔ موج ۲ ، موج ۳، اور موج ۴ پروجیکٹ اس سے کہیں زیادہ بہتر ثابت ہوں گے ۔ آپ اس سے کہیں بہتر بحری جہاز کو ڈیزائن کریں گے جو حجم اور کوالٹی کے لحاظ سے اس سے بہت بہتر ہوگا  ، یقینا ایسا ہی ہو گا ۔

سب سے پہلے میں آپ حضرات کا شکریہ ادا کرنا چاہتاہوں ۔ آج ، آپ کے پاس تجربات کا بیش بہا خزانہ ہے ، آپ ان تجربات سے استفادہ کر سکتے ہیں ۔ اگر چہ اس ملاقات اور جہاز کے معائنہ میں کافی وقت صرف ہو چکا ہے لیکن جیساکہ میں نے پہلے بھی اشارہ کیا کہ آج کا دن میرے لئیے ایک انتہائی مسرت بخش اور مبارک دن ہے ، جس دن میں  آپ کی زحمتوں اور کاوشوں کا ثمرہ دیکھ رہاہوں ۔

ہم سات ، آٹھ صدیوں پر محیط ، سمندری سفر کی تاریخ رکھتے ہیں ۔ ایک دور تھا جب ہماری بندرگاہوں سے ، ایشیا کے دور دراز ممالک کے لئیے کشتیاں روانہ ہوا کرتی تھیں ، آج کے دور میں جن ممالک نے سمندری سفر میں مہارت اور شہرت پیدا کی ہے ، ان میں سے اکثر ممالک اس دور میں کسی زمرے میں نہیں آتے تھے ۔ ہماری قوم اور جوانوں کی اس درخشاں تاریخ ، اس استعداد و صلاحیت ، اس خلّاق ذہن اور ہنر مند بازوؤں کے ہوتے ہوئے ہم اس قدر پیچھے کیوں رہ گئے کہ آج اس کامیابی پر خوشی سے  پھولے نہیں سما رہے ہیں  ؟

گذشتہ صدیوں کے دوران ہماری قوم سے زیادتی کی گئی ہے ۔اس ظلم و ناانصافی کا ارتکاب کس نے کیا ؟ کیا بیرونی طاقتوں نے ہمیں ان مظالم کا نشانہ بنایا ہے ؟ ایسا ہر گز نہیں ہے ، یہ ہمارے فاسد حکمرانوں کی کارستانی ہے ۔ مجھے پرتگال ، ہالینڈ اور برطانیہ والوں سے کوئی شکوہ و شکایت نہیں ہے جنہوں نے ہمارے ساحلوں اور جزیروں پر قبضہ کر لیا تھا چونکہ یہ حکومتیں ہمیشہ ہی اپنے مفادات کے تعاقب میں رہتی ہیں ،  مادی طاقتیں اکثر و بیشتر یہی کام کرتی ہیں ، وہ اپنے ممالک سے ہزاروں کیلو میٹر دور سرزمینوں پر حملہ آور ہوتی ہیں ؛ کیا ان طاقتوں نے بر صغیر (ھند و پاکستان ۔۔۔) پر قبضہ نہیں کیا ؟ کیا ان سامراجی طاقتوں نے دیگردور دراز مشرقی ممالک پر تسلّط نہیں جمایا ؟ کیا آج بھی استعمار ، دنیا میں اسی کام میں مشغول نہیں ہے ؟ مجھے ان سے کوئی شکوہ و شکایت نہیں ہے ، مجھے اپنے فاسد ، مطلق العنان ، بے ارادہ اور عیّاش حکمرانوں سے شکایت ہے جنہوں نے ملک ایران اور ایرانی قوم کی عزت و آبرو کی پاسداری نہیں کی ، جس کی وجہ سے ہمارے دشمنوں نے مختلف ادوار میں   بندرگاہ عباس  ، جزیرہ ھرمز ، جزیرہ قشم اور ملک کے دیگر جزائر پر قبضہ کر لیا اور ان پر اپنا دعویٰ بھی کر دیا ، اور اس بات  کادعوی ٰ کرنے لگے کہ ان جزائر پر ایران کا کوئی حق نہیں ہے ۔

اگر جمہوری اسلامی نے صرف یہ کارنامہ انجام دیا ہو کہ اس ملک و ملت کی خود اعتمادی ، عزّت و قومی تشخّص کی کھوئی ہوئی روح کو اس ملک و قوم میں دوبارہ زندہ کیا ہو تو ہمیں اس نعمت کے لئیے سالہا سال شکر بجا لانا چاہیے ۔ میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتاہوں کہ دین اسلام ، اسلامی طرز فکر اور قرآنی ایمان پر استوار روح ہمیں اس بات کی ہرگز اجازت نہیں دیتی کہ کسی قوم کی توانائیوں اور صلاحیتوں کو اس طریقے سے روندا جائے ، اور اس کی ذاتی صلاحیتوں کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے وہ قوم مدہوشی کا شکار ہوجائے اور اغیار اس کی تقدیر کو اپنے ہاتھوں میں لے لیں ، دین اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا ، جمہوری اسلامی بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتی ۔ یہ جو آپ ملاحظہ کر رہے ہیں کہ دنیا کے مستکبرافراد ، منہ زور اور توسیع پسند طاقتیں ، ہاتھ منہ دھو کر اسلامی جمہوریہ ایران کے پیچھے پڑی ہیں ، اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے : چونکہ انہیں اس لاوارث دسترخوان سے اپنی مرضی کے مطابق استفادہ کرنے کی بری لت پڑ چکی تھی ، لیکن اب جب کہ وہ یہ دیکھ رہے ہیں کہ اس سرزمین کےحقیقی وارث یعنی ایرانی عوام ، بیدار ہو چکے ہیں اور وہ انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتے تو ان کا غیظ و غضب ایک فطری بات ہے؛ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف جو سازشیں رچی جارہی ہیں اس کی بنیاد یہی ہے ۔ جمہوری اسلامی اوراس  قوم ( جو اس جمہوری اور دین اسلام کی شیفتہ ہے اور آج تک اسی راستے پر گامزن ہے  ) کا گناہ بس اتنا ہے کہ وہ  اپنی توہین و ذلت اوراپنے اوپر کسی غیر کے تسلّط کو ہر گز برداشت نہیں کرسکتی ۔البتّہ یہ بھی تاریخ کے لئیے بہت بڑا امتحان ہے تاکہ تاریخ اور ہماری آئندہ کی نسلیں یہ جان لیں کہ اگر کوئی قوم اپنی شناخت اور ذاتی طاقت پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی تمام تر طاقتوں ، علمی ، صنعتی ، ایمانی ( جو سب سے بڑی طاقت ہے ) اور دیگر طاقتوں کو لے کر اپنے جسم وجان کے ساتھ  میدان میں داخل ہوتی ہے تو دنیا کی کوئی بھی طاقت اس کے عزم و حوصلے، اور ارادے پر غالب نہیں آسکتی ؛ اس کے دشمنوں کو شکست ہو گی ، وہ آج تک شکست کھاتے آئے ہیں اور آئندہ بھی شکست وہزیمت ان کا مقدّر بنے گی۔

آپ جس قدر ، اپنی توانائیوں ، مزاحمت اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کریں گے اسی قدر ان کے غیظ و غضب میں اضافہ ہوتا جائے گا ۔ اگر ان کا بس چلا تو وہ عملی طور پر اس غصّے کا اظہار کریں گے ورنہ دل پر پتھّر رکھ کر آپ کی پیشرفت و ترقّی کے نظارے پر مجبور ہیں ؛ اور انشاء اللہ ایسا ہی ہوگا ۔ اس سال بائیس بھمن ( ۱۱ فروری )  کے دن منعقد ہونے والی امریکہ مخالف ریلیوں سے پہلے ہمارے دشمنوں نے ایران، ایرانی قوم ، اسلامی انقلاب کے بارے میں کچھ اور ہی سوچ رکھا تھا لیکن ان عظیم عوامی ریلیوں کے بعد ان میں مایوسی کی لہر دوڑ گئی ، ایک بار پھر آپ کے اس عظیم اقدام نے ان کے منصوبوں پر پانی پھیر دیا ۔ امریکی صدر سے لے کر مختلف وزارتوں کے ترجمانوں تک ، اوپر سے لے کر نیچے تک امریکی اور بعض دیگر مغربی ممالک کے حکام  جو باتیں زبان پر لا رہے ہیں وہ ان کے غیظ و غضب کی غماز ہیں ، وہ غصے سے آگ بگولا ہیں ، وہ ناامید و مایوس ہیں ، وہ حیران و پریشان ہیں کہ آخر  کریں تو کیا کریں ، وہ کبھی دھمکیاں دیتے ہیں تو کبھی ان دھمکیوں کو واپس لے لیتے ہیں ، کبھی اپنے الفاظ میں رد و بدل کرتے ہیں ، کبھی ادھر ادھر الزام تراشیوں میں مصروف نظر آتے  ہیں ۔

     وہ دوبارہ وہی پرانا اور بے بنیاد دعویٰ دہرا رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران ایٹم بم بنا رہا ہے ان کا یہ بے معنا دعویٰ ، ان کی  پروپیگنڈہ مشینری کی انتہائی  بے بسی اور عاجزی کی دلیل ہے ۔ ہمیں اس بات پر کوئی اصرار نہیں ہے کہ ہم اپنے دفاع میں اس سلسلے میں جذبات کی رو میں بہہ جائیں ؛ ہمیں ایٹم بم کی قطعا کوئی ضرورت نہیں ہے ؛ اور نہ ہمارے عقیدے میں ایٹمی اسلحے کے لئیے کوئی جگہ ہے ۔ ہم ہرگز ایٹمی اسلحے کے حصول کی کوشش نہیں کریں گے ۔  چونکہ ہمارے  دینی اور اعتقادی نظریےاور اصول کے مطابق اس وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا استعمال ممنوع و حرام ہے ؛ یہ عمل ، کھیتی اور نسلوں کو برباد کرنے کے مترادف ہے جس سے قرآن مجید نے سخت الفاظ میں منع کیا ہے ؛ ہم ہرگز ایٹمی ہتھیاروں کے حصول کی دوڑ میں شامل نہیں ہوں گے ۔ ہم ایک ایسی چیز کے لئیے کوشاں ہیں کہ جس سے توسیع پسند طاقتوں کو حقیقت میں خائف ہونا چاہیے اور میری ذاتی رائے یہ ہے کہ وہ آج بھی اسی سے خائف و ہراساں ہیں ۔ اور وہ چیز پورے عالم اسلام میں '' اسلامی عزت و جذبہ مزاحمت '' کی روح کی بیداری ہے ۔ وہ اچھی طرح کان کھول کر سن لیں کہ ہم یہ کام ضرور کریں گے ۔

اسے حسن اتفاق ہی کہیے کہ اسلامی ممالک  جغرافیائی ، فوجی اور قدرتی وسائل کے اعتبار سے دنیا کے ایک انتہائی حساس اور اہم خطے میں واقع ہوئے ہیں ۔ ان کی مرضی کے بر خلاف ان کا استحصال کیا جا رہا ہے ۔ ہمارافریضہ یہ ہے کہ ہم عالم اسلام کو اس سے آگاہ کریں ۔ انہیں وارننگ دیں ، ہمارایہ انتباہ ، مؤثر ثابت  ہوا ہے  ۔ آپ ملاحظہ کر رہے ہیں کہ  عالم اسلام میں ہر جگہ ان تسلّط پسند اور توسیع پسند طاقتوں بالخصوص امریکہ سے نفرت و بیزاری دن بدن بڑھتی جارہی ہے ۔ یہ لوگ  ہمارے خطے میں یہ جھوٹا پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ ایران اپنے پڑوسی ممالک کے لئیے خطرہ ہے ؛ ایسا ہرگز نہیں ، ہمارے پڑوسی ممالک بھی اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ انہیں اسلامی جمہوریہ ایران سے کوئی خطرہ لاحق نہیں ہے ۔ اگر اسلامی انقلاب کی کامیابی کے آغاز کے کچھ برسوں میں بعض خلیجی اور ہمارے ہمسایہ ممالک اس غلط فہمی میں مبتلا تھے اور یہ تصوّر کر رہے تھے کہ جمہوری اسلامی ان کی مخالف ہے ، لیکن وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ اس بات کو سمجھ چکے ہیں کہ ایسا نہیں ہے ۔ وہ ہمارے بھائی ہیں ، وہ ہمارے پڑوسی ہیں ۔ یہ خلیجی ممالک  ، عقل و تدبیر پر مبنی ایک ایسی  پالیسی کے ذریعہ اپنے ممالک کا نظم و نسق بحسن و خوبی چلا سکتے ہیں جو سبھی کے مفاد میں ہو ۔ لیکن اس خطے میں اغیار کی موجودگی خاص کر امریکہ کی موجودگی ، اس معقول اور منطقی راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے ؛ اس خطے کی سلامتی کو اس خطے کے ممالک سے نہیں بلکہ امریکہ سے خطرہ لاحق ہے ۔ بیرونی طاقتیں اور امریکہ اس خطے میں ناامنی پھیلا رہے ہیں ؛ اس خطے کے ممالک کے مابین اختلافات بھڑکا رہے ہیں ؛ اس خطے کے ممالک کے درمیان اختلاف ان کی دلی تمنّا ہے ۔ اور اس مقصد کے لئیے ہر حربہ استعمال کر رہے ہیں کبھی تو وہ اپنے ان پلید مقاصد میں کامیاب ہو جاتے ہیں اوراکثر اوقات انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا ہے ۔ انشاء اللہ اس کے بعد بھی انہیں ناکامی ہو گی ، وہ ان سازشوں کے ذریعہ ، مشرق وسطیٰ اور خلیج فارس کے ممالک اور حسّاس مراکز کی توجّہ ان کے اصلی اور حقیقی دشمن سے ہٹانا چاہتے ہیں ؛ اس خطے کے اصلی و حقیقی دشمن ، امریکہ و اسرائیل ہیں ؛ دونوں کی دشمنی کی اپنی وجوہات ہیں ۔ وہ عالمی رائے عامہ کی توجّہ ہٹانا چاہتے ہیں ، وہ اصلی دشمن سے توجّہ ہٹانے کے لئیے بلاوجہ بکواس کر رہے ہیں ۔

جمہوری اسلامی کو کروڑوں دلوں کی پشت پناہی حاصل ہے ، جب دسیوں ملین افراد کے منہ سے ایک ہی آواز نکلتی ہے تو ایسی آواز کو مٹایا نہیں جاسکتا ؛ اس آواز کی لہریں ہمیشہ کے لئیے باقی رہ جاتی ہیں ، یہ کوئی مذاق نہیں ہے کہ دسیوں ملین افراد ، ایک آواز ہو کر ، عالمی استکبار اور اس کے توسیع پسندانہ عزائم کے خلاف نفرت و بیزاری کا اظہار کریں اور قومی عزّت و وقار اور اسلامی ایمان پر ثابت قدمی اور استقامت کا مظاہرہ کریں ؛ ہماری قوم نے دو ایک بار اس کا مظاہرہ نہیں کیا بلکہ گزشتہ اکتیس سال سے مسلسل یہ آواز بلند کر رہی ہے ، یہ آواز کبھی بھی مٹ نہیں سکتی ۔ اتنے دلوں اور زبانوں سے نکلنے والی ہم اّہنگ آواز ہمیشہ باقی رہنے کے قابل ہے ۔ یہ قدرت اور تاریخ کا حتمی قانون ہے ؛ اس کی مثال قانون جاذبہ جیسی ہے ؛ دیگر مسلمہ قدرتی قوانین کی طرح ہے جو اٹل ہیں ۔ یہ آواز تاریخ میں ہمیشہ باقی رہے گی ۔ اس کی سب سے بڑی شرط یہ ہے کہ ہم میں سے ہر کوئی اپنے فریضے کو درست انداز میں بجا لائے ۔ میں نے بارہا اپنے مخاطبین کے سامنے  پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی اس حدیث کو نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : " رحم اللہ امرء عمل عملا فاتقنہ "؛ خدا رحمت نازل کرے اس بندے پر جو جب کسی کام کو انجام دیتا ہے تو اسے مضبوط و مستحکم انداز میں انجام دیتا ہے ۔ ہر کام کو بہترین انداز میں انجام دینا چاہیے ۔

اس بحری جنگی جہاز کی ساخت ، محض ایک جنگی جہاز کی ساخت کا مسئلہ نہیں ہے ؛ بلکہ یہ ہمارے ملک کے اسلحہ سازی کے کارخانوں میں ،بحری جہازوں کی تیاری اور ڈیزائننگ کی سمت پہلا قدم ہے ۔ اس کی ساخت میں ہماری یونیورسٹیوں ، امام خمینی یونیورسٹی ، ایرانی بحریہ اور وزارت دفاع نے ایک دوسرے سے بھر پور تعاون کیا ہے  ۔ ذہنی صلاحیتوں اور دیگر الیکٹرانک شعبوں کو بروئے کار لایا گیا ، یہ ورزشی اور عقلی تمرین ، اپنے آپ میں ایک بہت بڑی کامیابی ہے جس کی اہمیت اس بحری جہاز سے کم نہیں ہے ۔ اس کی بہت بڑی اہمیت ہے ، اس کو باقی رکھئیے ، اس علمی اور صنعتی راستے کو متوقّف نہ ہونے دیجیے ، خلّاقیت اور عمل کے سلسلے کو جاری رکھیے ۔

 ہم نے گزشتہ برسوں میں بحر عمان کے طویل و عریض ساحلوں سے زیادہ استفادہ نہیں کیا ہے ۔ ہماری ساری توجّہ ، خلیج فارس پر مرکوز تھی ، ہم نے بحر عمان کی اہمیت کو سراسر نظر انداز کر دیا ہے ۔بحر عمان کے بارے میں اس نئے زاویہ نگاہ کی بنا پر اسلامی جمہوریہ ایران کی فوج بہت بڑے بڑے کام انجام دے سکتی ہے ۔ یہ ہمارے ملک کے جنوب مشرقی منطقے کے لئیے ایک الٰہی تحفہ ہے ۔ اس لئیے حکومت اور وزارت دفاع اور دیگر وزارتوں کو اس مشن کو آگے بڑھانے میں اپنا بھر پور کردار ادا کرنا چاہیے ۔ یہ کام ، امکان پذیر ہے اور اس پر انشاء اللہ عمل درآمد ہوگا ۔ لیکن میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ جناب سیاری نے تو تجاویز یہاں پیش کیں اور جنہیں میری تائید وحمایت بھی حاصل ہے اگر کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر ان پر عمل درآمد ممکن نہ ہو توبھی یہ کام آگے بڑھنا چاہیے ،  اس کام کو بہر حال انجام پانا چاہیے ۔ مختلف منصبوں پر کام کرنے کے بعد یہ  میرا تیس سالہ تجربہ ہے کہ افرادی قوت ، کے ذریعہ بہت سی خامیوں کو پورا کیا جاسکتا ہے، اگر کسی جگہ وسائل و سرمایے  کی کمی ہو تو اسے مدیریت کی کیفیت کے ذریعہ پورا کیا جاسکتا ہے ، پہلی نظر میں یہ کام شاید محال اور ناممکن معلوم ہو ، لیکن یہ کام دائرہ امکان میں ہے اس پر عمل درآمد ہو سکتا ہے ؛ ہم نے بارہا اس کا تجربہ کیا ہے ؛ ہم نے جنگ میں بھی  اس کا تجربہ کیا ہے ، اس کے علاوہ ملک کے مختلف شعبوں کے دیگر مسائل  میں بھی ہم نے اس کا تجربہ کیا  ہے ۔ اگر ہم بہت سے مسائل کے بارے میں وہی پہلی نظر برقرار رکھتے تو بہت سی چیزیں ہمیں ناممکن نظر آتیں لیکن جب ہم میدان میں داخل ہوئے تو ہم نے دیکھا کہ یہ امور امکان پذیر ہیں ان پر عمل درآمد ہوسکتا ہے ۔ اگر بجٹ یا پیسے کی کمی ہے ، اگر وسائل کی کمی ہے تو اس مسئلہ پر  تدبیر و حکمت ، کفایت شعاری اور صحیح ایڈمنسٹریشن کے ذریعہ قابو پایا جاسکتا ہے ۔ بسا اوقات ہماری آنکھوں کے سامنے کچھ وسائل موجود ہوتے ہیں لیکن ہم ان سے غافل رہ جاتے ہیں اور دوسرے وسائل سے استفادہ کرتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ وسائل ہماری  پہنچ  سے باہر ہوجاتے ہیں تو یہی وسائل ہمارے کام آتے ہیں جنہیں ہم نے اس سے پہلے نظر انداز کر رکھا تھا ،ہم  ان سے استفادہ کرتے ہیں ۔ لہٰذا اس راستے کو جاری رکھیے، یہاں، شمال اور ملک کے مختلف حصوں میں اسی پالیسی پر عمل کیجئیے ۔

ان مشینریوں  میں ہم آہنگی بہت زیادہ ضروری ہے جو اس مسئلہ  سے جڑی ہوئی کڑی کا حصّہ ہیں ۔وزارت دفاع سے ہم آہنگی ضروری ہے ، وزیر دفاع بھی یہاں تشریف فرما ہیں ؛ اس نکتے پر خصوصی توجّہ دی جائے ۔ بعض اوقات کچھ لوگ میر ے پاس یہ شکایت لے کر آتے ہیں کہ ہم سے جو وعدے کیے جاتے ہیں ، ان پر بر وقت عمل نہیں کیا جاتا ۔ عین ممکن ہے کہ یہ بات حقیقت بر مبنی ہو ۔ آپ اس کا جائزہ لیجیے ،منجملہ موج ۲ پروجیکٹ میں عدم پیشرفت کے بارے میں چھان بین کیجئیے ۔ البتّہ کچھ دن پہلے فوج نے اس سلسلے میں، ہمیں ایک تجویز پیش کی ہے ہم نے اس کی چھان بین کا حکم دیا ہے تاکہ اس ضعف کو دور کیا جاسکے ۔ بعض موٹروں کو تعمیر کے لئیے بھیجا گیا ہے جو اب تک واپس نہیں ہوئیں ، بعض لوگ اس سلسلے میں شاکی ہیں ۔ آپ کو ایک دوسرے سے شکوہ و شکایت نہیں ہونا چاہیے ، آپ ایک ہی مرکز سے تعلّق رکھتے ہیں ، ایک دوسرے سے قریب ہیں ایک ہی مجموعہ کا حصّہ ہیں ، باہمی تعاون کے ذریعہ ان مشکلات کا ازالہ کیجئیے ۔البتّہ مسلح افواج کی مشترکہ کمیٹی کو باہمی ہم آہنگی اور مسلح افواج کو ایک دوسرے سے قریب لانے میں اپنا کردار ادا کرنا چاہیے ۔

میں آپ سے ایک گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ آپ اس اہم تعمیر کوفاضل پرزوں کی تولید کے ذریعہ پایہ تکمیل تک پہنچائیں ۔ آج جو رپورٹیں پیش کی گئیں شاید ان میں سے ایک رپورٹ میں اس جہاز کے پرزوں کی ساخت کے آغاز کا ذکر ہوا ، اگر ایسا نہیں ہے تو میں اس بات پر زور دیتا ہوں کہ ان پرزوں کی تولید کا مسئلہ بہت اہم ہے ۔ ہم اس بات کی اجازت نہ دیں کہ ضرورت پڑنے پر ہم ان پرزوں کی ساخت  کے بارے میں غور و فکر کریں ، ہمیں آج سے ہی اس مسئلہ پر توجّہ مرکوز کرنا چاہیے ، ہمیں ابھی سے اس مسئلہ پر مستقل انداز میں غور و فکر کرنا چاہیے؛ اس کام کے بہت سے فائدے اور برکتیں ہیں ۔

 میں یہاں پر آب دوز بحری جہازوں کی ساخت پر بھی زور دینا چاہتا ہوں ۔ ہماری بحریہ کا ایک اہم ہدف  ، آب دوز بحری جہازوں کی تیاری ہونا چاہیے  ۔ جیسا کہ ہم نے پہلے بھی عرض کیا کہ آج کی دنیا میں دفاعی اعتبار سے بحریہ کوایک ممتاز مقام حاصل ہے اور ملک کے دفاع میں اس کا ناقابل تردید کردار ہے ۔ اس لئیے  آپ کوآبدوز کشتیوں کے ذریعہ اس پورے خطے کی نبض  کو اپنے  اختیار میں لینا چاہیے ۔

ایک دوسرا مسئلہ ، الیکٹرانک جنگ کا مسئلہ ہے ۔ میں نے ایرانی فضائیہ اور بحریہ کے جوانوں اور اعلیٰ عہدیداروں سے اپنی گزشتہ ملاقاتوں میں ہمیشہ ہی " الیکٹرانک جنگ " پر زور دیا ہے ۔ آج ایک بار پھر اس مسئلہ پر زور دے رہا ہوں ۔ موجودہ دور میں آپ کے دشمنوں نے اپنی پوری توجّہ ، جنگی سازو سامان میں الیکٹرانک توانائی پر مرکوز کر رکھی ہے اور سالہا سال سے اس پر کام کر رہے ہیں ۔ الیکٹرانک دفاع ، ہمارے لئیے بہت اہم ہے ۔ الیکٹرانک مسائل پر کام کیجئیے ۔ خوش قسمتی سے اس سلسلے میں مواقع فراہم ہیں : ہماری الیکٹرانک صنعت کافی پیشرفتہ ہے ، اچھے اور قابل دانشور اور سائنسدان بھی موجود ہیں ،  ہمارے پاس اس سلسلے میں ایک عظیم اور کبھی تمام نہ ہونے والا سرمایہ یعنی ہمارے جوان بھی موجود ہیں ۔ پر وردگار عالم آپ سبھی کی حفاظت فرمائے ، میں آپ کے لئیے دست بدعا ہوں اور مجھے پوری امید ہے کہ آپ ایرانی بحریہ کے جوان ایک دن ایک ایسی بحریہ تشکیل دیں گے جو اس قوم کے شایان شان ہو ۔

یہاں یہ الفاظ استعمال کئے گئے کہ ہمارا ملک ایک سمندری ملک ہے ۔ حقیقت بھی یہی ہے ۔ ہمارا ملک بحر ہند ، عمان اور خلیج  فارس سے متّصل ہے جو اس خطے کے انتہائی اہم اور حساس مراکز شمار ہوتے ہیں ۔ اس سمندری ملک کو ایک برجستہ و ممتاز بحری فوج کی ضرورت ہے ، یہ خواب ایک نہ ایک دن ضرور شرمندہ تعبیر ہوگا اور آپ عزیز جوان  اس کو عملی جامہ پہنائیں گے ۔

پروردگار عالم آپ کی حفاظت فرمائے ، آپ کوامام زمانہ (عج ) کی دعاوؤں میں شریک قرار دے، عالم ملکوت میں اما م امت(رہ) اور ہمارے شہیدوں کی ارواح طیبہ ہمارے لئیے دعاگوہوں ۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ برکاتہ ۔