بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم
ہم تمام محترم حاضرین جلسہ ، عزیز مہمانوں اور ایران کی عظیم قوم کو اس عید سعید مناسبت سے مبارک باداور تہنیت پیش کرتے ہیں ؛ اسی طرح ہم تمام اہل اسلام ، امت مسلمہ اور دنیا کے حرّیت پسندوں اور راہ حق کی تلاش وجستجو کرنے والوں کو بھی مبارکباد پیش کرتے ہیں ، سترہ ربیع الاوّل کا دن تاریخ بشریت کا ایک بہت بڑا دن ہے ۔ یہی دن ، تاریخ بشریت کی ایک بے مثال شخصیت کا یوم ولادت قرار پایا جو انسانوں میں سب سے افضل و اعلیٰ ، خدا کے نیک بندوں میں سب سے ممتاز اور تمام انسانی فضائل و کمالات کا مجموعہ ہے ۔ اس کے علاوہ یہ دن امام جعفر صادق علیہ السّلام کی ولادت باسعادت کا دن بھی ہے جو پیغمبر اسلام (ص) کے وصی برحق ہیں اور ان کے افکار و نظریات اور حقیقی اسلام کے ناشر ہیں۔
یہ دن عالم اسلام کے لئیے ایک انتہائی مبارک دن ہے ؛جس دور میں اس مقدّس وجود نے عالم ہستی میں قد م رکھا تھا ، یہ مبارک وجود اس دور کی تاریکیوں اور ظلمتوں کے درمیان ، نور کی کرن شمار ہوتا تھا ، اس دور میں ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا؛ " ظلمات بعضھا فوق بعض " ۔(۱ ) امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السّلام اس دور کے حالات کی وضاحت اور عالم انسانیت کی تاریکی کی منظر کشی کرتے ہوئے فرماتے ہیں : " والدّنیاء کاسفۃ النّور ظاھرۃالغرور '' ۔ ( ۲ ) (دنیا کی روشنی کجلائی ہوئی تھی اور اس کا فریب واضح تھا )اس دور کے انسانوں اور معاشروں کے دل سے چراغ انسانیت گل ہو چکا تھا ؛ نہ صرف ، سرزمین عرب و حجاز ، بلکہ اس دور کی بڑی بڑی سلطنتیں ، متمدن اور تہذیب یافتہ حکومتیں (سلطنت ایران و روم ) بھی حقیقت کے فہم و ادراک میں غلطی اور غرور کا شکار تھیں ۔ اور یہ بات زندگی کے ہر پہلو میں نمایاں تھی ۔ اس دور کے انسان اپنے راستے کو نہیں پہچانتے تھے ، انہیں اپنے ہدف و مقصد کی کوئی خبر نہیں تھی ۔ لیکن اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں ہے کہ اس دور میں سبھی افراد گناہ گار اور خاطی تھے ، اس زمانے میں بھی کچھ ایسے صاحب ایمان افراد موجود تھے جو سیدھے راستے پر گامزن تھے ۔ دنیا پر گناہ و معصیت حکم فرما تھی ۔دنیامیں تاریکی وظلمت ، ظلم وستم اور انسانی اقدار کی فراموشی کا دور دورہ تھا ۔ ایک ایسے ماحول میں پروردگار عالم کے ارادے کی بدولت ، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا وجود مبارک ضوفشاں ہوا ۔ یہ دن ، عالم انسانیت کے لئیے ایک ناقابل فراموش دن ہے ۔ اس دن کی یاد منانے کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ہم دنیا میں اس کے اثرات و نقوش کا اعادہ کرنا چاہتے ہیں ۔ خواہ نخواہ اس عظیم اور حیرت انگیز واقعہ نے تایخ بشریت پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ۔ اگر آج کے دور میں بھی کہیں انسانی شرافت ، اخلاقی محاسن اور انسانی اقدار کا بول بالا دکھائی دیتا ہے تو یہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ذات والا صفات کی دین ہے ؛ اسی بعثت کا ثمرہ ہے جو تمام انبیائے کرام (ص)کی بعثتوں کا نقطہ عروج اور سارے انبیاء کے فضائل و کمالات کا مجموعہ ہے ۔
عالم اسلام کو اس واقعہ کو اپنے لئیے ایک سبق قرار دینا چاہیے ۔ دوسروں کے بارے میں سوچنے سے پہلے ہمیں اپنی فکر کرنا چاہیے ۔ عصر حاضر میں ، امت مسلمہ کو اسلامی حقائق و تعلیمات کو دوبارہ زندہ کرنے کی اشد ضرورت ہے ؛ اسلامی دنیا کو ان حیرت انگیز واقعات کو دوبارہ معرض وجود میں لانے کی شدید ضرورت ہے ۔ آج کے دور میں عالم اسلام کو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے وجود مقدّس کے چراغ ہدایت کی بہت زیادہ ضرورت ہے ۔آبادی کی اعتبار سے امت مسلمہ ، دنیا کا ایک بہت بڑا حصّہ شمار ہوتی ہے ، دنیا کے مختلف ممالک میں تقریبا ڈیڑھ ارب مسلمان آبادہیں ۔ اکثر اسلامی ممالک ، جغرافیائی ، قدرتی ، مادی اور انسانی وسائل کے اعتبار سے دنیا کے سب سے اہم اور حساس خطے میں واقع ہوئے ہیں ؛افرادی قوّت اور قدرتی وسائل سے مالا مال ہونے کے باوجود یہ امت مسلمہ عام طور پر ، ایک حیران و پریشان حال مجموعے کی طرح ہے ، اس پریشاں حالی کی سب سے بڑی وجہ (جیسا کہ آپ مشاہدہ کر رہے ہیں ) یہ ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی مشکلات و مسائل عموما انہیں مسلم ممالک میں پائے جاتے ہیں ۔ فقر و ناداری ، امت مسلمہ میں پائی جاتی ہے ، ظلم و ناانصافی کا شکار بھی یہی امت ہے ، امت مسلمہ ، سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں بھی پسماندگی کا شکار ہے ، اس طرح ، یہ امت ، ثقافتی پسپائی اور کمزوری سے دوچار ہے ۔ عالمی طاقتیں ، روز روشن میں انتہائی آسانی سے اس کے حقوق پر ڈاکہ ڈال رہی ہیں اور ان کے سامنے امت مسلمہ بالکل بے بس و ناچار ہے ، وہ اپنے حقو ق کا دفاع بھی نہیں کرسکتی ۔
آپ، آج فلسطین کی خستہ حالی کو ہی دیکھ لیجئیے ؛ فلسطین تو اس سلسلے کی محض ایک مثال ہے ۔ البتّہ ایک بہت اہم مثال ہے ، لیکن یہ خستہ حالی صرف فلسطین سے مخصوص نہیں ہے ۔ فلسطین پر نظر دوڑائیے اور مشاہدہ کیجئیے کہ مسئلہ فلسطین اور اس کی تاریخی اور مقدّس سرزمین کی شکل میں ، امت مسلمہ کے جسم میں ایک بہت بڑا اور کاری زخم پیوست ہے ۔ دشمنوں نے اس سرزمین پر کیا قیامت ڈھائی ہے ؟ ملت فلسطین پر کیا کیا مظالم کے پہاڑ توڑے ہیں ؟ اس کے مظلوم عوام سے کتنا برا برتاؤ کر رہے ہیں ؟ کیا غزہ کا واقعہ ، قابل فراموش ہے ؟ کیا یہ واقعہ امت مسلمہ کے صفحہ ذہن سے کبھی مٹ سکتا ہے ؟بائیس روزہ جنگ ( جس میں غاصب صیہونی حکومت کو منہ کی کھانا پڑی اور وہ اپنے اہداف و مقاصد کے حصول میں بری طرح ناکام ہوئی )کے بعد سے لیکر آج تک ، غزہ کے مظلوم عوام کو، اقتصادی ناکہ بندی ، ظلم و ستم اور بربریت کا مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے اور امت مسلمہ اس کا دفاع کرنے سے عاجز ہے ۔ عالم اسلام نے اس واقعہ پر اس قدر خاموشی اختیارکر رکھی ہے کہ گویا اس واقعہ سے اس کا کوئی تعلّق نہیں ہے ، اس کا حق غصب نہیں ہوا ہے ، اس پر ظلم نہیں ہوا ہے ۔ ہم یہ رویّہ کیوں اپنائے ہوئے ہیں ؟ امت مسلمہ اس صورت حال سے کیوں دوچار ہے ؟ اسلام اور امت مسلمہ کے دشمنوں کے ہاتھوں ، اس خطے میں ایک خطرناک اور جان لیوا کینسر یعنی اسرائیل کی خود ساختہ اور جعلی حکومت کا قیام عمل میں آیا ۔ اس غاصب حکومت کے حامی جو اس حکومت کے ہر چھوٹے بڑے ظلم میں برابر کے شریک ہیں ،آج بھی اس حکومت کی پشت پناہی اور حمایت کر رہے ہیں اور امت مسلمہ ان کے مقابلے میں اپنے دفاع پر قادر نہیں ہے ۔ یہ ہماری کمزوری ہے ۔ ہمیں آغوش اسلام میں پناہ لینے اور پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کو محور قرار دینے کے ذریعہ ، اس کمزور ی کا ازالہ کرنا چاہیے ۔
عصر حاضر کی سب سے بڑی ضرورت ، امت مسلمہ کا اتحاد و یکجہتی ہے ، ہمیں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرنا چاہیے ؛ ہمیں اپنے دل و زبان میں ہم آہنگی پیدا کرنا چاہیے ؛ یہ ہرا س شخص کا فریضہ ہے جو امت مسلمہ پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اسلامی حکومتوں ، روشن خیال افراد ، علمائے دین ، سیاسی و سماجی میدان میں فعّال و سرگرم افراد ، ان میں سے جو کوئی بھی جس کسی بھی اسلامی ملک میں ہے اس کا یہ فریضہ ہے کہ امت مسلمہ کو بیدار کرے اور انہیں ان حقائق سے روشناس کرائے ؛ اور ان کے سامنےاس تلخ حقیقت کو بیان کرے جو دشمنان اسلام نے پیدا کی ہے ؛ اور انہیں اپنے فرائض کی انجام دہی کی دعوت دے ؛ یہ ہم سبھی کا فریضہ ہے ۔
میرے عزیز بھائیواور بہنو!آپ جہاں کہیں بھی ہیں اور جس بھی فرقے یا مذہب سے تعلّق رکھتے ہیں ، یہ بات اچھی طرح جان لیں کہ عصر حاضر میں اسلام اور مسلم مخالف قوّتوں کی توجّہ کا مرکز امت مسلمہ میں " اختلاف اور تفرقہ ڈالنا " ہے ۔ وہ دلوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے کی اجازت نہیں دیتے ؛ چونکہ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ اگر امت مسلمہ میں اتحاد و یکجہتی پیدا ہوگئی اور اس کے دل ایک دوسرے سے قریب ہوگئے تو امت مسلمہ اپنی بڑی بڑی مشکلات کے حل پر غور و فکر کرے گی ۔ امت مسلمہ کے بہت سے مسائل و مشکلات ( ان مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ ، مسئلہ فلسطین ہے ایک دوسری بڑی مشکل غاصب و جعلی صیہونی حکومت ہے ) کا سرچشمہ اور بنیادی عامل ، یہی عالمی طاقتیں ہیں ۔ دشمن کو بخوبی علم ہے کہ اتحاد کی صورت میں ہم متحد ہو کر اپنے پوری طاقت کو بروئے کار لائیں گے تاکہ اس واضح و آشکار ، تجاوز کا مقابلہ کر سکیں ؛ یہی وجہ ہے کہ ہمارا دشمن ، ہمارے اتحاد کی راہ میں روڑے اٹکا رہا ہے اور ہمارے دلوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے کی اجازت نہیں دیتا ۔
عصر حاضر میں تفرقہ اندازی کی فریاد ، دشمنان اسلام کے خیمے سے اٹھ رہی ہے ۔ آج کے دور میں شیعہ و سنّی کے مسئلے کو ، امریکہ اور برطانیہ ابھار رہے ہیں ؛ یہ ہمارے لئیے شرم کی بات ہے ۔ امریکہ ، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کے تجزیہ کار جن مسائل پر بحث و گفتگواور مطالعہ کر رہے ہیں ان میں سے ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ " سنی اسلام " اور " شیعہ اسلام " کو ایک دوسرے سے جد ا کردیا جائے اور ان کے درمیان اختلاف ڈالا جائے ۔ دشمن اس منصوبے پر کام کر رہا ہے ؛ پوری تاریخ میں ہمیشہ سے ہی یہی صورت حال رہی ہے ۔ عالم اسلام کے دشمن ، ہمیشہ سے ہی اس بات کے لئے کوشاں رہے ہیں کہ وہ عالم اسلام کے مذہبی ، قومی ، جغرافیائی اور علاقائي اختلافات سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کریں ۔ دور حاضر میں اس مقصد کے حصول کی خاطر ، موجودہ دور کے انتہائی ماڈرن اور پیچیدہ آلات کو استعمال کر رہے ہیں ؛ ہمیں ہوشیار و بیدار رہنا چاہیے ؛وہ اصلی نقطے سے ہماری توجّہ کو ہٹانے کے لئیے ہمیں آپس میں لڑانے کے درپے ہیں ۔ وہ مختلف مسلم قوموں اور مذاہب (شیعہ و سنی ) کو آپس میں لڑانا چاہتے ہیں تاکہ اسرائیل کا مسئلہ فراموشی کی نذر ہوجائے ۔ فلسطین کے غصب ہونے کو ہماری قربتوں کا باعث بننا چاہیے تھا مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ ہمارے دشمن اسی مسئلہ کو ہمارے درمیان دوریاں پید ا کرنے کے لئیے استعمال کر رہے ہیں ۔ مسئلہ فلسطین کو عالم اسلام میں اختلاف و تفرقہ اندازی کے لئیے استعمال کیا جا رہا ہے ؛ اسلامی حکومتوں کو ایک دوسرے کے مد مقابل کھڑا کیا جارہا ہے ۔ مسئلہ فلسطین ایک واضح و شفاف مسئلہ ہے ۔ تما م مذاہب اسلامی اس بات پر متفق ہیں کہ اگر کسی اسلامی سرزمین پر کو ئی دشمن حملہ آور ہو تو تمام مسلمانوں پر اس کا دفاع واجب ہے ۔ تمام اسلامی مذاہب و مکاتب کا اس پر اتفاق ہے ؛ یہ کوئی اختلافی مسئلہ نہیں ہے ۔ لیکن اس کے باوجود ، عالم اسلام کے دشمن اس متفقہ مسئلہ کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کر رہے ہیں ۔ مسلمانوں کو مختلف گروہوں میں بانٹ رہے ہیں ، ان کے دلوں میں مذہب و قبیلہ کے بے جا تعصّبات کی آگ کو بھڑکا رہے ہیں تاکہ کسی روک ٹوک کے بغیر اپنے اہداف و مقاصد کے حصول میں مگن رہیں ۔
ہمیں بیدار رہنا چاہیے؛ جمہوری اسلامی کا موقف یہ ہے ۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اپنی تشکیل کے آغاز سے ہی دو چیزوں کو اپنے ہدف و مقصد کے طور پر جلی حروف میں تحریر کیا ہے : ایک اتحاد بین المسلمین اور مسلمانوں کے دلوں کو ایک دوسرے سے قریب لانے کا مسئلہ ہے اور دوسرا اہم مقصد " مسئلہ فلسطین " ہے ۔
مرحوم امام امت (رضوان اللہ تعالیٰ علیہ ) کے بیانات میں دو چیزوں پر بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے : ان میں سے ایک اہم نکتہ ، تمام موضوعات میں اتحاد بین المسلمین ، اختلافات کو ختم کرنے اور انہیں پھیکا کرنے ، فکری ، فقہی اور کلامی اختلافات کو دشمنی و عداوت میں تبدیل ہونے سے روکنا ، یہ وہ اہداف و مقاصد ہیں جو ہمیشہ ہی مرحوم کے پیش نظر تھے ۔ ایک دوسرا مسئلہ جسے امام امت (رہ) کے بیانات میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے وہ " مسئلہ فلسطین " ہے ۔
اسلامی جمہوریہ ایران آج بھی اپنے اس موقف پر قائم ہے ۔ ہم نے ماضی میں بھی اس کی قیمت ادا کی ہے اور آج بھی اس کی قیمت ادا کر رہے ہیں ۔ ہماری قوم اس مسئلہ کو اپنے ایک شرعی اور دینی فریضہ کی نگاہ سے دیکھتی ہے اور اچھی طرح جانتی ہے کہ اگر اسلامی معاشر ے کے جسم سے اس مہلک اور جان لیوا سرطانی غدود کو نکا ل دیا جائے تو عالم اسلام کی بہت سی مشکلات خود بخود حل ہو جائیں گی اور اس میں باہمی تعاون کا ماحول پیدا ہو جائے گا ۔
دور حاضر میں اسلامی ممالک کی ایک بہت بڑی تعداد ہے جوباہمی تعاون کے ذریعہ ، سائنس و ٹیکنالوجی ، اقتصادی ، ثقافتی اور دیگر میدانوں میں اپنے تجربات کا تبادلہ کر سکتے ہیں اور اپنے آپ کو نقطہ عروج پر پہنچا سکتے ہیں ۔
عالمی سامراج نے اسلامی ممالک کے بیچوں بیچ یہ "سرطانی غدود " قرار دیا ہے تاکہ اسلامی ممالک ایک دوسرے سے قریب نہ ہونے پائیں ۔ البتہ ، مسلم قوموں کو ایک دوسرے سے کوئی نفرت نہیں ہے لیکن افسوس کہ مسلم حکام بعض اوقات کوتاہی کا ارتکاب کرتے ہیں ۔
ہمیں عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ و سلّم کے مبارک موقع پر ، اس اہم نکتے کو ایک سبق ، یاد دہانی اور اہم تذکّر کے طور پر اپنے ذہن میں محفوظ کر لینا چاہیے ، اس سے سبق حاصل کرنا چاہیے ، اس سے عبر ت لینا چاہیے ، اور ایک دوسرے سے نزدیک آنا چاہیے ۔ جیسا کہ ہم ایک دوسرے کے قریب آئے بھی ہیں ۔ ہماری خوش قسمتی سے ، عصر حاضر میں مختلف ممالک اور مختلف اقوام میں اتحاد بین المسلمین اور امت مسلمہ کی بیداری کی آواز گو نج رہی ہے اور وہ مؤثّر ثابت ہو رہی ہے ۔ پروردگار عالم ، سچی بات اور حرف حق میں برکت عطا کرتا ہے ؛ اور سرزمین حق میں اگنے والے ہر پودے کو پروان چڑھاتا ہے ،آج ، دنیا میں اسلامی جمہوریہ ایران کے اس'' حرف حق ''کو مقبولیت حاصل ہو رہی ہے اور اس کی آواز پر ہر طرف سے لبیک کی صدائیں گونج رہی ہیں ۔ ان بنیادی اور اصولی مسائل کے سلسلے میں ہماری حکومت ، عوام اور اعلی حکام کا موقف یکساں ہے ، ان کی آواز بھی ایک ہے ۔ اس سلسلے میں اسلامی جمہوریہ ایران کا موقف بالکل واضح و آشکا ر ہے اور خدا کا شکر کہ اس کی بات منعکس بھی ہو رہی ہے ۔
ہم پروردگار عالم کی بارگاہ میں دست بدعا ہیں کہ وہ امت مسلمہ کی دستگیری کرے تاکہ اس کے رشد و سربلندی اور پیشرفت و ترقی میں روز افزوں اضافہ ہو ؛ پروردگار عالم امت مسلمہ کے اتحاد و یکجہتی کو دن بدن استحکام عطا فرمائے ، ہم دست بدعا ہیں کہ آپ سبھی کو پروردگار عالم کی تائید و نصرت حاصل ہو اور امام زمانہ (عج ) کی دعائیں آپ کے شامل حال ہوں ۔
والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) سورہ نور، آیت ۴۰
(۲) نہج البلاغہ ، خطبہ نمبر ۸۹