بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہمیں اللہ تعالی کا شکر وسپاس ادا کرنا چاہیےجس نے ہمیں یہ موقع فراہم کیا اور مہلت عطا کی تاکہ ہم مزید ایک سال تک زندہ رہنے اور زندگی بسرکرنے کے سخت و دشوار امتحان کے میدان میں باقی رہیں اور اللہ تعالی کی امید و رضا ، اس کی توفیق اور اس کے فضل و کرم سے ایک سال کے اختتام پر پارلیمنٹ کے عزيز بھائیوں اور بہنوں سے پارلیمنٹ کی تشکیل اور انتخاب کی سالگرہ کی مناسبت سے پھر ملاقات کریں۔
سب سے پہلے میں آپ تمام محترم نمائندوں اور پارلیمنٹ کے محترم اسپیکر کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جنھوں نے آج بھی اپنے اہم اور تسلی بخش بیانات کے ذریعہ بعض اہم و مفید اور اچھےمطالب پیش کئے پارلیمنٹ کے محترم نمائند وں نےقانون وضع کرنے، نگرانی اور دیگر وظائف کے سلسلے میں تلاش و کوشش کے علاوہ جو ذمہ داریاں انجام دیں ان کے متعلق آج محترم اسپیکر نے رپورٹ پیش کی، کل بھی ایک اجلاس منعقد ہوا ، جس میں محترم اسپیکر نے مزید تفصیلات کے ساتھ بعض مسائل پر روشنی ڈالی، آپ نے ملک کے اہم اندرونی، بیرونی اور سیاسی میدانوں میں بہترین نقش آفرینی اور عمدہ کردار ادا کیا جس پر ہمیں دل کی گہرائی سے شکریہ ادا کرتا چاہیےآپ نے بین الاقوامی سطح پر اسلامی نظام کے معاندین، مخالفین اور دشمنوں کے وسیع محاذ کے ساتھ مقابلہ کیا اسلامی نظام کے دشمنوں نےگوناں گوں اور مختلف مواقع پر اپنی موذیانہ خصلت کو نمایاں کیا ، لیکن ہم نے مشاہدہ کیا کہ پارلیمنٹ نے بھی ایک زندہ، فعال اور سرگرم رکن کی حیثیت سے اپنا ٹھوس اور واضح مؤقف آشکار اور ظاہرکیا؛ فلسطین کے بارے میں ، ایٹمی پروگرام کے بارے میں ، مختلف اور گوناں گوں مسائل کے متعلق اپنی ذمہ داری کو حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیا ؛ اندرونی مسائل میں بھی اپنا اہم کردار ادا کیا بعض فتنوں اور بد اخلاقیوں کو مہار کرنے کے سلسلے میں بھی نمائندوں نےاچھا اور فعال کردار ادا کیا اور یہ عمل قابل قدر اورلائق تحسین عمل ہے۔
جب انسان پارلیمنٹ کی تشکیل و ترتیب کو ملاحظہ کرتا ہےتو احزاب کے سیاسی سلیقوں اور نظریاتی جہات میں اختلاف جو ایک طبیعی اور قدرتی امر ہے اس کے باوجودپارلیمنٹ کا مجموعہ مؤمن، شاداب اور احساس ذمہ داری دوش پر لئے ہوئے نظر آتا ہے پارلیمنٹ کے لئے یہی بات عمدہ اور سزاواربھی ہے۔
آج آپ کے ملک یا دوسرے الفاظ اوربہتر انداز میں یوں عرض کروں کہ آج آپ کی تاریخ کی میری اور آپ کی رفتار اور عمل پر گہری نظراور عمیق توجہ ہے تاریخی لحاظ سے ہم آج حساس پوزیشن میں زندگی بسر کررہے ہیں، ہمارا نقش ، ہمارا فیصلہ، ہمارا کام کرنا یا نہ کرنا ملک کی سرنوشت اور آئندہ آنے والی نسلوں کے لئے مؤثر ثابت ہوگا؛ اگر چہ انقلاب کا پورا دور اسی طرح کا رہا ہے یہ تیس برس ایسے تیس برس ہیں جو ہماری مستقبل کی تاریخی سرنوشت پر اثر انداز ہونگے؛ لیکن مجھے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہ دور اور حالیہ چندبرسوں کے شرائط خصوصی اہمیت کے حامل ہیں۔
دنیا کی صورتحال بدل رہی ہے دنیا کے سیاسی شرائط اور سیاسی حالات اور طاقت و قدرت کے توازن میں نمایاں تبدیلی رونما ہورہی ہے آچ انسان ایک نئی تشکیل کو مشاہدہ کررہا ہے آپ حضرات سیاسی میدان میں ہیں اور آپ اچھی طرح جانتے ہیں کہ ان شرائط میں وہ تمام افراد وعناصر جو میدان میں حاضر ہیں وہ اپنےمفادات ، منافع اور اعلی اہداف و مقاصد کےلئے بھرپور استفادہ کرسکتے ہیں یا پھربیکار اور غفلت کا شکار بھی ہو سکتے ہیں عالمی سطح پرجو تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں جب وہ رونما ہوجائیں گی تو بیکار اور غافل رہنے والا شخص دنیا کے سیاسی افق پررونما ہونی والی تبدیلیوں میں اپنا کمزور اور ناتواں نقش ایفا کرےگا اور وہ عناصر جو فعال ہیں، سرگرم ہیں، آگاہ ہیں، بیدار ہیں وہ دنیا کے نئے سیاسی افق پر اپنا فعال کردار ادا کریں گے اور ان شرائط پرحاکم ہونگے دنیا کے فعل و انفعالات پر وہ نظر رکھیں گے پیشنگوئیاں وہ کریں گے اور وہی دنیا کی جدید صورتحال میں اپنا مقام مضبوط و مستحکم بنا ئيں گے اور شرائط کواپنے اہداف و اصولوں کے قریب تر کریں گے یہ ہیں آج کے شرائط ۔
اسی اپنے خطہ اورعلاقہ کو ملاحظہ کیجئے اسی مشرق وسطی کو دیکھ لیجئے آج مشرق وسطی اور مسئلہ فلسطین کے سلسلے میں جو واقعات اور مسائل رونما ہورہے ہیں ماضی میں ان کی کوئی مثال نہیں ملتی؛ اس سے قبل اس قسم کے مسائل کبھی سامنے نہیں آئے؛ یہ واقعات کبھی رونما نہیں ہوئے ، یہ اس بات کی علامت و دلیل ہے کہ کوئی تبدیلی ضرور رونما ہونی والی ہے حالات بدلنے والے ہیں ، عالمی سطح پر بھی ذرا نظر اٹھا کر دیکھیں – امریکہ کا مقام، بعض یورپی ممالک کا مقام ، دنیا میں ان کے اثرات میں کمی، دنیا میں ان کی نقش آفرینی اور کردار میں کمی – آپ ملاحظہ کریں دنیا میں بہت بڑی تبدیلی رونما ہونے والی ہے تیس سال کے عرصہ میں ہم نے اس قسم کے بعض موارد کو مشاہدہ کیا ہےان میں سے ایک مورد میرے ذہن میں ہے لیکن آج اس تبدیلی کو انسان واضح طور پر محسوس کررہا ہے۔
اگر آج ہم ان شرائط میں نقش ایفا کریں تو یقینی طور پر یہ نقش آفرینی ہماری تاریخ ، ہمارے ملک اور ہمارے نظام کے لئے بہتر، مؤثراور مفید ثابت ہوگی، اس نقش آفرینی کا دار ومدار اس بات پر منحصر ہے کہ داخلی و اندرونی سطح پرہم میں باہمی اتحاد و انسجام اور اقتدارموجود ہو آپس میں گہرا اور صمیمی تعاون اور جوش و جذبہ موجود ہو۔ ملک کے مسائل ، قانون وضع کرنے کے مسائل، حکومت اور پارلیمنٹ کے درمیان رابطہ ، مختلف داخلی اور خارجی مسائل کے بارے میںٹھوس اقدامات پر اس زاویہ نگاہ سے دیکھنا چاہیے؛تمام مسائل کو اسی نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیے؛ تو اس صورت میں بہت سی ایسی چیزوں کی اہمیت ہماری نظروں میں کم ہوجائے گی جواس وقت ہماری نظروں میں اہمیت کی حامل ہیں لہذا میرا اس بات پر یقین ہے کہ موجودہ پارلیمنٹ جس کی ترکیب بحمد اللہ بہت ہی اچھی ترکیب ہے جس میں سبھی نمائندے مؤمن ہیں ،سبھی انقلابی ہیں اور مسائل کے بارے میں اچھی طرح آشنا ہیں آپ کے درمیان بڑی تعداد میں پڑھے لکھے افراد موجود ہیں؛ ملک کے مسائل بھی بہت ہی حساس مسائل ہیں- پارلیمنٹ کی دوسالہ باقی مدت جو رہ گئی ہے اس میں تمام مواقع سےبھر پور استفادہ کیجئے اور جوبات مناسب ہےجو شئی موزوں ہے جو امرحق ہے جو قدم شائستہ اور سزاوار ہے اسے اس پارلیمنٹ کے ذریعہ عملی جامہ پہنانا چاہیے۔
ملک کے عوام نے خوش قسمتی سے اسلامی نظام کے دشمنوں ، مخالفین اور معاندین کی امید کے خلاف عمل کیا اورحق و انصاف یہ ہے کہ عوام نے اپنی تمام ذمہ داریوں کو حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیا ہے عوام نےاچھے عمل اور عمدہ کردارکا مظاہرہ کیا ہے، عوام نے ثابت کردیا ہے کہ امام (رہ) کے ساتھ ان کی والہانہ محبت کا سلسلہ جاری ہے اور جو اعداد و شمار ہر سال ہمیں دیئے جاتے ہیں ان کے مطابق اس سال عوام کا حضور گذشتہ برسوں کی نسبت کہیں زیادہ رہا ہے اچھا ،اس کا مطلب کیا ہے؟ اتنی بڑی تعداد میں لوگ تہران اور دیگر شہروں سے یہاں گرم ہوا میں جمع ہوئے، کئی گھنٹوں تک آفتاب کی تمازت میں کھڑے رہے جہاں ہم تھے وہاں کچھ نہ کچھ سایہ ، سائبان اورچھت کا کچھ حصہ تھا اور حرم کے ان بڑے بڑے ہالوں ، صحنوں، اطراف کی سڑکوں ، اوربہشت زہرا میں بچے بوڑھے، مرد اور عورتیں سات ، آٹھ گھنٹوں تک آفتاب میں کھڑے اور بیٹھے رہے لوگوں کا یہ عزم و حوصلہ لائق ستائش اورقابل قدر ہے میں اس موقع پر عزیز قوم کی اس وفاداری ، ولولہ انگیز جوش و خروش ، ان کے جذبات ، والہانہ محبت ، ان کے عظیم حضور پر ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔
یہ چیزیں بہت ہی اہم چیزیں ہیں امام (رہ) کی رحلت کو اکیس سال گذر چکے ہیں اور لوگ آچ بھی امام (رہ) کے ساتھ دل بستہ ہیں اس لئے کہ امام (رہ) مظہر انقلاب ہیں، امام (رہ) مظہر دین ہیں،امام(رہ) ان اصولوں کے مظہر ہیں جن کی طرف انھوں نے لوگوں کو دعوت دی اور پہلی بار ان اصولوں سے ہمیں آشنا کیا، اور ہمیں ان اصولوں کی سمت ہدایت فرمائی؛ امام (رہ) ایسے انسان تھے جوکمال اور اعلی مدارج کو طے کرنے کے لئے قوم کی توانائی کے منادی تھے جب لوگ اس خصوصیت کے حامل عظیم انسان کا احترام ادا کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ لوگ ان کے اصولوں کا احترام کرتے ہیں اور یہ اصول بھی وہی اصول ہیں جو ایک قوم کی سعادت اور خوشحالی کے اسباب فراہم کرتے ہیں جو قوم با نشاط اور با ایمان ہو جو قوم اسلام کو دل کی گہرايوں سے عزیز رکھتی اور قبول کرتی ہو جس قوم کو اپنے اوپر اعتماد ہو اوروہ اللہ تعالی کی ذات پر توکل اور بھروسہ رکھتی ہو، دنیا کی کوئی طاقت اسے سعادت و کمال کا راستہ طے کرنے سے روک نہیں سکتی، یہ بہت اہم باتیں ہیں ، آپ ایک ایسی قوم کے نمائندے ہیں، اس قوم کا وسیع پیمانے پر حضور، امام (رہ) کے ساتھ اس کے معنوی ،جذباتی ، عقلائی اور عاطفی رابطہ کا عکاس ہے ادھر گذشتہ برس کےانتخابات میں 40 ملین افراد کی وسیع پیمانے پر شرکت، یہ تمام چیزیں قابل قدراور قابل تعریف ہیں یہ حضور با معنی اور با مقصد حضور ہے ہم اور آپ در حقیقت ایک ایسی قوم کے خدمت گذار ہیں، کچھ قومیں کبھی عدم توجہ کا شکار ہوتی ہیں بعض قوموں میں کام کا جوش و جذبہ نہیں پایا جاتا لہذا ان کے تقاضے کچھ اور ہیں، لیکن کبھی ایک قوم جوفعال و متحرک اور سرگرم عمل اور جوش و جذبہ سے سرشار اور فہیم و فراست کی مالک ہوتی ہے تو اس کے تقاضے کچھ اور ہوتے ہیں۔
آپ کی اور میری عظیم ذمہ داری ہے؛ حکومت اور سبھی حکومتی اہلکاروں کی اہم ذمہ داری ہے جیسا کہ میں نے اس دن امام (رہ) کے حرم میں بھی عرض کیا تھا کہ معنوی محاسبات کو بھی شامل کرنا چاہیےصرف ایسا نہیں ہے کہ عقلائی لحاظ سے ہم یہ کہیں کہ ہمیں کام کرنا چاہیے بلکہ اس کے معنوی اثرات کو بھی مد نظر رکھنا چاہیے اللہ تعالی بھی ہم سے سوال کرے ان وسائل و امکانات اور نعمتوں کے بارے میں جو اس نے ہمیں دی ہیں ان کے مطابق ہم سے پوچھ گجھ ، مؤاخذہ اور سوال کیا جائےگا۔
انشاءاللہ ہمیں ایسا کام کرنا چاہیے تاکہ اللہ تعالی کے سامنے ہم سربلند ، سرافراز اور سرخرو ہوسکیں اور اس وقت یہی آیات جو محترم قاری نے تلاوت کی ہیں ۔" لایحزنھم الفزع الاکبرو تتلقیھم الملائکۃ" (1) یہ آيات ہمارے شامل حال ہوں، فزع اکبر؛ اگر اللہ تعالی کی ذات ایک چیز کو کبیر بلکہ اکبر کہے تو وہ چیز اس کے مقابلے میں بڑی ہیبت ناک اور خوفناک ہوگی لیکن جو لوگ عمل کرتے ہیں ، تلاش و جد وجہد کرتے ہیں، اپنے وظائف پر عمل کرتے ہیں وہاں ان کے لئے آسودگی اور راحت کا سامان فراہم ہے ان چیزوں پر یقین اور ایمان رکھنا چاہیے۔
پارلیمنٹ کے بارے میں بہت کچھ بیان کیا گیا ہے- پارلیمنٹ کے اندر ، پارلیمنٹ کے باہر - یاد دہانی بھی کرائی گئی ہے ہم نے بھی مطالب بیان کئے ہیں لیکن کچھ مطلب مزيد عرض کروں گا شاید ان میں سے بعض تکراری بھی ہوں۔
ملک کے مسائل پر قوہ مقننہ کی حیثیت سے آپ کی ذمہ داری اور توجہ دو خصوصیات" اصول پسندی اور حقیقت پسندی " پر مرکوز ہونی چاہیے ، آپ کی نظر اصول پسند نظر ہونی چاہیے ، اصولوں سے ہٹ کر نہ سوچئے ، اصولوں سے نیچے نہ آیئے۔ آپ کی نگاہ اصولی نگاہ ہونی چاہیے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ حقائق پر بھی توجہ رہنی چاہیے جو مقدار ہم معین کرتے ہیں اس کو حقیقت کے تناظر میں دیکھنا چاہیے جو تکلیف ہم اپنے لئے ، حکومت کے لئے ، یا دیگر حکام کے لئے معین کریں ،اس میں ہمیں حقائق کو مد نظر رکھنا چاہیے البتہ یہ قدم ان اصولوں کی پیشرفت اور ان کو مضبوط اور مستحکم بنانے کی غرض سے اٹھانا چاہیے، ایسی حقیقت پسندی جو اصول پسندی کے مد مقابل قرارپائے یہ حقیقت پسندی مطلوب اور پسندیدہ نہیں ہے ملاک و معیار یہ ہے کہ ہم ان اصولوں تک پہنچنا چاہتے ہیں لیکن وہاں تک پہنچنے کے لئے حقائق پر توجہ بھی لازمی ہے؛ وہم و گمان میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے کبھی ممکن ہے کہ انسان عمل کرنے کے سلسلے میں وہم و گمان کا شکار ہوجائے یہ بھی اشتباہ اور غلط ہے، اصولوں کو مد نظر رکھنا چاہیے حقائق کی بنیاد پر سیڑھی کے زینوں کو یکے بعد دیگرے تعمیر کرنا چاہیے اور اپنے ان اصولوں کی جانب گامزن رہنا چاہیے یہ ایک اہم نکتہ ہے۔
دوسرا نکتہ یہ ہے کہ جو ہمیشہ محل بحث اور محل کلام رہا ہےہم نے بھی بیان کیا ہے آپ بھی کہتے ہیں حکومت بھی کہتی ہے اور وہ نکتہ اور مسئلہ پارلیمنٹ اور حکومت کے درمیان باہمی تعاون کا مسئلہ ہے اور اس مسئلہ کو محقق ہونا چاہیے اگر پارلیمنٹ یہ کہے کہ ہم نے اپنا کام انجام دیدیا ہے اب حکومت کو آگے بڑھ کر اس پر عمل کرنا چاہیے، دوسری طرف حکومت بھی یہی کہے کہ ہم نے اپنی طرف سے تمام امور کو انجام دیدیا ہے اب پارلیمنٹ کی ذمہ داری ہے اور اسے یہ کام کرنا چاہیے، اس طرح کام نہیں چلے گا ، تعاون صمیمانہ ہونا چاہیے۔ بنیادی آئین میں حکومت اور پارلیمنٹ دونوں کے وظائف و ذمہ داریاں واضح اور مشخص ہیں البتہ بعض قوانین میں ابہامات بھی موجود ہیں ان میں سے بعض خطوط واضح اور معیاری خطوط نہیں ہیں یہ ہمارے قوانین کا عیب ہے جسے دور کرنا چاہیے؛ ہمیں ان خطوط کوواضح اور مشخص کرنا چاہیے، آج ملک کو تعاون کی ضرورت ہے یعنی نہ حکومت کے اندر پارلیمنٹ کے قوانین سے انحراف اورعدول کرنے کا جذبہ پیدا ہونا چاہیے اور نہ ہی پارلیمنٹ کو ایسا قدم اٹھانا چاہیے جس کی وجہ سے حکومت کے امور معطل ہوجائیں اور اس کا سارا نظام درہم و برہم ہوجائے۔لہذا دونوں قوا کو صمیقی طور پر اور حقیقی معنی میں ایک دوسرے کے مقام کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک دوسرے کا تعاون کرنا چاہیے یہ ایک بہت بڑی اور اہم ذمہ داری ہے۔
مثال کے طور پرقانون کے مسئلہ میں، جو اس وقت محل بحث بھی ہے دونوں قوا ایک دوسرے سے بات چیت کریں ایک فریق کی یہ بات درست اور صحیح ہے کہ حکومت کو قانون پر عمل کرنا چاہیے یعنی وہ امر جس نےقانونی شکل اختیار کرلی ہے اس پر عمل کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، دوسری طرف قانون گذار کو بھی حکومت کے اجرائی نقش و کردار کو مد نظر رکھنا چاہیےقانون کا نفاذ و اجرا بہت مشکل کام ہے آپ میں سے بعض افراد خود قوہ مجریہ میں رہے ہیں وزیر رہے ہیں یا مختلف اجرائی شعبوں میں مشغول اور سرگرم عمل رہے ہیں؛ قانون وضع کرنے اور قانون کو اجراء یا نافذ کرنے میں بہت بڑا فاصلہ ہے، قانون کو اسی نقشہ اور دستاویز کے مطابق اجرا کیا جاتا ہے لہذا اس سلسلے میں حقائق پر توجہ رکھنی چاہیے حکومت میدان کے وسط میں موجود ایک عنصر ہےجوکام انجام دینا چاہتی ہے، ہمیں حکومت کے کام میں سہولت فراہم کرنی چاہیے ، ہمیں حکومت کے کام کو مد نظر رکھنا چاہیے اس کو مدد فراہم کرنی چاہیے، یہ بات بھی درست اور صحیح ہے کہ حکومت کو قانون پر عمل کرنا چاہیے لیکن یہ بھی درست ہے کہ پارلیمنٹ کو ایسے قوانین وضع کرنے چاہییں تا کہ حکومت قانون پر عمل کرسکے؛ ورنہ اگر ہم یہ تصور کریں کہ ہم نے ایک ذمہ داری حکومت کے دوش پر ڈال دی ہے اور اس کے اجراء کے لئے ضروری بجٹ منظور نہ کریں یہ نہیں ہوسکتا اس سے مشکلات پیدا ہونگی۔یا مثال کے طور پر حکومت ایک لائحہ کو پارلیمنٹ میں پیش کرتی ہے جبکہ حکومت نے اس لائحہ کو اپنے وسائل ، اپنی طاقت و قدرت کے پیش نظر، ملک میں موجود سرمایہ کے پیش نظر اور دیگر وسائل کے پیش نظر اس لائحہ کو مرتب کیا ہے اور پارلیمنٹ اس میں تصرف کرکے اس کی ماہیت و حقیقت کو بالکل بدل دے اور اس کو ایک دوسری چیز میں بدل دے تو اس سے مشکل پیدا ہوتی ہے ، اکثر حکومتی اہلکار اس سلسلے میں شکوہ کرتے ہیں میں بھی اس کام سے آشنا ہوں، میں نےحکومت اور پارلیمنٹ دونوں میں کام کیا ہے مجھے معلوم ہے کہ کس طرح عمل کیا جاتا ہے اور کس طرح اسے صحیح کیا جاتا ہے اور کیسے کسی دوسرے زاویہ نگاہ سے اس پرعمل کیا جاتا ہے ان نکات پر توجہ مبذول کرنی چاہیے۔
حقیقت میں مخلصانہ انداز اورصمیمانہ طور پر عمل کرنا چاہیے اس عمل کا سیاسی نظریات اور خطوط سے بھی کوئی تعلق نہیں ہونا چاہیے میں جو بات عرض کررہا ہوں اس کا تعلق اس گروپ سے نہیں ہے جو سیاسی لحاظ سےحکومت کی حمایت کرتا ہے اوراس گروپ سے بھی اس کا کوئی ربط و ضبط نہیں ہے جو حکومت کے مد مقابل ہے، وہ بھی مؤمن اور مسلمان بھائی ہیں انقلابی لوگ ہیں، بحث انقلاب کے بارے میں ہے بحث ملک کے مفادات کے بارے میں ہے سب کو اس کی فکر ہونی چاہیے۔ ادھر قانون کو اس طرح مرتب کرنا چاہیے ادھرحکومت کو اس قانون پر عمل کرنا چاہیےاسے نافذ کرنا چاہیے اس طرح حکومت کو عملی طور پر قانون پر عمل کرنےکا پابند بنایا جاسکتا ہے۔ یہ تعاون دونوں طرف سے فراہم ہونا چاہیے۔
ایک اور نکتہ جسے پیش کرنا چاہتا ہوں جس کو پارلیمنٹ کے سابق اور صاحب نظر افراد کی تائيد بھی حاصل ہے اور وہ یہ ہے کہ کمیشنوں کا پارلیمنٹ میں بہت ہی اہم اور کلیدی کردار ہوتا ہے کمیشنوں کو بہت کام اور جد وجہد کرنی چاہیے پارلیمنٹ کا عام اجلاس فیصلہ کی جگہ ہے لیکن بنیادی کام کمیشنوں میں انجام پاتا ہے؛ بلکہ پارلیمنٹ کے اس طولانی دور میں ہم نے بعض افراد کو مشاہدہ کیا ہے کہ وہ کسی مسئلہ کو کمیشن میں بیان کرنے سے پہلے خود اس کا دقیق مطالعہ کرتے تھے اس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے تھے یہ طریقہ کام کرنےکا اچھا طریقہ ہے، جب آپ پارلیمنٹ کے اجلاس میں پہنچیں گے جب قانون کا مسودہ پیش ہوگا اس کے حق میں یا مخالفت میں نمائندے خطاب کریں گےتو ان کا ہر مطلب آپ کی توجہ کا مرکز قرار پائے گا، ایسا نہ ہو کہ انسان خالی ذہن پارلیمنٹ میں حاضر ہو،اور مخالف و موافق کی بات کو سمجھ ہی نہ پائے کہ کیا کہہ رہے ہیں تو ایسے شخص کا فیصلہ حجت اوردلیل کی بنیاد پر نہیں ہوگا؛ چاہے قانون کے متعلق ہو یا دیگر امور کے متعلق ہو؛ جب انسان مطالعہ کے ذریعہ کسی وزیر یا کسی دوسرے شخص کے حق میں یا مخالفت میں رائے دے گا تو وہ رائےمطالعہ، علم و دلیل کی بنیاد پر ہوگی ؛ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دس افراد مخالفت کرتے ہیں فضا مخالفت کی فضا ہے لیکن آپ تو موافق ہیں آپ کے پاس استدلال ہے آپ کے پاس حجت و دلیل ہے آپ اس فہم و ادراک و اجتہاد کے مطابق عمل کریں جو آپ کے پاس موجود ہے یہ طریقہ درست طریقہ ہے یعنی میں اپنے بھائیوں اور بہنوں کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ کمیشنوں بلکہ کمیشنوں سے بھی پہلے عمل کے جائزہ کو سنجید گی سے لیں ، لہذا کمیشنوں میں حضوربہت ضروری ہے بروقت اور مسلسل حضور مزید اہمیت کا حامل ہے۔
ایک اور نکتہ پارلیمنٹ کی نظارتی شان اور ذمہ داری کے بارے میں ہے آپ جانتے ہیں کہ پارلیمنٹ کی شان ملک کے تمام اجرائی اداروں پر نظارتی شان ہے جو ایک بہت بڑااور اہم امر بھی ہے لیکن خود پارلیمنٹ اورتمام پارلیمانی نمائندوں پربھی نظارت کا طریقہ کار وضع کریں پارلیمنٹ میں آپ کی نمائندگی کےابھی دو سال باقی ہیں اگلے مرحلے میں شاید آپ کو موقع ملے یا نہ ملے ممکن ہے آپ کو پھر کبھی پارلیمنٹ میں آنے کا موقع نہ ملے؛ لیکن سیکڑوں اور ہزاروں افراد اس جگہ سے عبور کریں گے؛ دوسرے لوگ آئیں گے اوروہ ان کرسیوں پر بیٹھیں گےاگر آپ نمائندوں پرکنٹرول کرنے کا آج ایسا مضبوط و محکم ، جامع اور مفید طریقہ کار وضع کریں گے؛ تو جب تک یہ ادارہ صحیح کام کرتا رہےگا تو اس کا اجر و ثواب آپ کو ملتا رہےگا؛ الہی اجر و ثواب بھی آپ کو ملے گا ۔دوسری طرف بھی معاملہ کچھ اسی قسم کا ہے۔ آچ جو قدرت اللہ تعالی نے آپ کو نمائندگي کی عطا کی ہے آپ اس کے ذریعہ نمائندوں کی کارکردگی کو کنٹرول کرنے کا طریقہ وضع کرسکتے ہیں اس کام کو انجام دیں اسے ترک نہ کریں۔ آپ سے سوال کیا جائے گا قیامت کے دن اللہ تعالی آپ سے سوال کرےگا، پوچھےگا وہاں یہ تصور نہیں ہے جو ہم خیال کرتے ہیں کہ ہمارے پاس عدالت کو قانع کرنے کے دلائل موجود ہیں یا نہیں ان دنیاوی عدالتوں کی کوئی وقعت نہیں ہےانسانی عدالتوں کی تو کوئی اہمیت نہیں ہے، اللہ تعالی کی عدالت بڑی اہمیت کی حامل عدالت ہے" یعلم خائنۃالاعین وما تخفی الصدور" (2) اللہ تعالی ہماری دل کی گہرائیوں سے واقف ہے، اگر ہم نے کوئی کام اپنی طاقت و توانائی سے زیادہ انجام دیا ،کوئی اس کو نہیں سمجھتا، کوئی اس پر شکریہ ادا نہیں کرتا؛ لیکن اللہ تعالی اس کو سمجھتا ہےکرام الکاتبین اس کو لکھتے ہیں اور خدا وند متعال شکریہ ادا کرتا ہے، اگر ہم نے کوئی کوتاہی اور غفلت کی ، اس کو بھی کوئی نہیں سمجھتا، ہم نے اس پر پردہ ڈالدیا اور دوسروں کو یقین دلا دیا کہ ہم نے بہت ہی اچھا اور بہترین کا م انجام دیا ہے ؛ جبکہ باطن میں ہم نے غفلت اور کوتاہی کی ہے کوئی شخص نہیں سمجھتا، کوئی ہماری ملامت و برائی نہیں کرتا؛ لیکن کرام الکاتبین دیکھ رہے ہیں؛ اللہ تعالی اس پر مؤاخذہ کرےگا؛ میری نظر میں یہ بہت ہی اہم بات ہے۔
نمائندے بھی ہم سب کی طرح اس قسم کی لغزشوں کا شکار ہوسکتے ہیں؛ مال ، فتنہ ہے، یہ بات میری نہیں بلکہ امام سجاد علیہ السلام کا کلام ہے، "المال الفتون" مال فتنہ ہے ، پیسہ فتنہ ہے دلوں کو راستہ سے منحرف کردیتا ہے، بہت سے افراد کے قدموں میں لغزش پیدا کردیتا ہے ایسے لوگ جن کے پاؤں میں لغزش کا انسان تصور بھی نہیں کرسکتا ان کے پاؤں بھی ڈگمگاجاتے ہیں، طاقت و قدرت کا بھی یہی نقش ہے، مقابلوں کابھی یہی نقش ہے، محبتوں کے بھی یہی اثرات ہیں دشمنیوں کے اثرات بھی ایسے ہی ہیں؛ یہ چیزيں ہمارے پاؤں میں لغزش پیدا کرسکتی ہیں کسی ایک جگہ اس کام پر نگرانی ہونی چاہیے،خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کہ آپ حضرات و خواتین آگآہ وبیدار دل کے ساتھ اس مسئلہ کا خیر مقدم کریں گے۔
آخری نکتہ توسیع کےپانچویں منصوبہ سے متعلق ہے؛ یہ منصوبہ بہت ہی اہم منصوبہ ہے یہ منصوبہ پارلیمنٹ میں موجود ہے اور آپ بھی اس کا جائزہ لینے میں مشغول ہیں میرے خیال میں اس منصوبہ کا جائزہ لینے کے لئے اس طرح عمل کریں تاکہ وہ اشکال پیش نہ آئیں جو میں نے پہلے بیان کئے ہیں یعنی جو لائحہ پارلیمنٹ میں پیش کیا ہے اس کی ماہیت بالکل تبدیل نہیں ہونی چاہیے اس میں اصلاحات انجام دیں اس کو مکمل کریں لیکن اسے تبدیل نہ کریں ؛ اس میں حکومت اور پارلیمنٹ کا باہمی تعاون لازمی ہے میرے خیال میں حکومت کا بھی اس سلسلے میں اہم کردار ہے اور پارلیمنٹ کا بھی اس بارے میں اہم نقش ہے۔
عزیز بھائیو! عزیز بہنو!آپ کو اس تحریک کی قدر وقیمت جاننا چاہیے۔یہ جو آپ عوام کے انتخاب کے ذریعہ پارلیمنٹ میں پہنچے ہیں اور ملک کی اچھائی و بھلائی اور امر و نہی میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں یہ بہت بڑا غنیمت اور عظیم موقع ہے، یہ بہت بڑی نعمت ہے، آپ کو دن رات خدا کا شکر ادا کرنا چاہیے۔
یہ ملک عوام کے ہاتھ میں نہیں تھا،عوامی نمائندوں کے ہاتھ میں نہیں تھا، اس ملک میں عوام کا کوئی کردار نہیں تھا اس ملک میں پہلے مشروطیت ، رائے اور قانون و پارلیمان درست ہوئی اوائل میں پہلی ایک دو پارلیمان کے علاوہ باقی پارلیمان کا وجود ہی اس ملک میں ختم ہوگیا پارلیمان نہیں تو عوام بھی نہیں تھے،ملک کے اعلی حکام عوام کے منتخب نمائندے نہیں تھے نہ قانون گذار عوام کے منتخب نمائندے تھےنہ عوام کا اس میں کوئی کردار تھا؛اس ملک کی شکل وصورت کچھ اور تھی ۔انقلاب کی برکت سے موجود صورتحال پیدا ہوئی؛ اس کی بہت زیادہ قدر کرنی چاہیےاس کو غنیمت جاننا چاہیے؛ انسان کو دن را ت اس عظیم نعمت پر اللہ تعالی کا شکر اداکرنا چاہیے۔
انشا اللہ امید ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو شکرادا کرنے اور خدمت انجام دینے کی توفیق مرحمت فرمائے ، امید ہے کہ اللہ تعالی امام (رہ) کی روح کو شاد و خوشحال اور ان کے درجات کو بلند فرمائے جو اس عظیم فتح کےعظیم فاتح ہیں، امید ہےکہ اللہ تعالی شہدائے عزیز اور ان محنت کشوں و جد جہد کرنے والوں کے درجات کو بلند و بالا قرمائے جنھوں نے گذشتہ اکتیس برس میں اس درخت کو مضبوط و مستحکم بنانے کے سلسلے میں جد وجہد و تلاش و کوشش کی،اللہ تعالی تمام خدمتگذاروں کو اجر و ثواب نصیب فرمائے؛اللہ تعالی آپ بھائیوں اور بہنوں کو بھی اجر و ثوب مرحمت فرمائے۔
والسلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1) انبیاء: 103 "عظیم خوف و ڈر انھیں غمگین نہیں بنائے گا اور فرشتے ان کا استقبال کریں گے۔۔۔ "
2) غافر: 19" اللہ تعالی ان کے دلوں میں چھپےہوئے راز کو بھی دیکھ رہا ہے"
3) صحیفہ سجادیہ: 27 دعا