بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم
میں اپنے عزیز دوستوں کا انتہائی مشکور ہوں جنہوں نے اس جلسہ کا انعقاد کیا اور بندہ کو رمضان المبارک کے مہینہ کے ان آخری ایّام میں سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کے اس قابلِ احترام اور عزیز اجتماع سے ملاقات اور ان کے مفید مطالب سے استفادہ کرنے کا موقع عطا کیا ، مجھے یقین ہے کہ آپ کے پاس اپنے متعلّقہ شعبہ کے بارہ میں کہنے کو بہت کچھ ہے ، آپ میں سے ہر کوئی اپنے شعبہ کے متعلّق نئی نئی تجاویز وآراء کے ساتھ یہاں حاضر ہوا ہے ، بلاشبہ آپ یہاں ایسی خوشخبریاں لے کر آئے ہیں جو ہمارے ملک و قوم کے لئے مسرّت بخش ہیں ،بعض دوستوں نے جو مطالب یہاں پیش کئے وہ یقینا ہماری عزیز قوم کےلئے مسرّت بخش ہیں ، آپ کو بعض چیزوں پر اعتراض ہے ، یہ سبھی مطالبے اور تقاضے بجا و درست ہیں ۔
دو دن پہلے اہلِ علم سے ہماری نشست ہوئی تھی آج کی نشست اہلِ عمل سے ہے اگرچہ آپ میں سے بہت سے افراد صاحبِ علم بھی ہیں جنہوں نے اپنے اندر علم و عمل کو جمع کر رکھا ہے ، جیسا کہ ایک حدیث میں وارد ہوا ہے " العلم یھتف بالعمل فان اجاب و الّا ارتحل " (۱) علم ، عمل کا تقاضا کرتا ہے ، عمل کی دعوت دیتا ہے ، اگر علم کے ساتھ ساتھ عمل بھی پایا جاتا ہو تو ایسا علم باقی رہتا ہے بلکہ وہ مزید پھلتا پھولتا ہے ، اگر علم پر عمل نہ کیا جائے تو ایسا علم رخصت ہوجاتا ہے " والّا فارتحل" ، اگر عمل نہ ہو تو علم بھی رخصت ہو جاتا ہے ، اس حدیث سے عمل کی اہمیت کو بخوبی سمجھا جاسکتا ہے ، کام کی اہمیت کو یہاں سے درک کیا جاسکتا ہے ، علم کے بغیر عمل اور کام کی تاثیر بہت کم ہوتی ہے اسی طرح عمل کے بغیر علم کا کوئی اثر نہیں ہوا کرتا ،عمل اور کام کی اہمیت اس درجہ زیادہ ہے ۔
جب کام کی اتنی زیادہ اہمیت ہے تو اسی لحاظ سے سرمایہ کاری اور روزگار فراہم کرنے کی بھی بہت زیادہ اہمیت ہے ، اگر کوئی شخص روزگار فراہم کر نے میں کامیاب ہوجائے تو اس کا یہ عمل عبادت کا درجہ رکھتا ہے ۔روزگار کی فراہمی کو محض اس اعتبار سے نہ دیکھا جائے کہ اس کے ذریعہ ایک بے روزگار کی روزی روٹی اور مستقل آمدنی کا انتظام ہو جائے ، اگر چہ یہ چیز بھی اپنی جگہ بہت اچھی اور مطلوب ہے اور بیشک لازم و ضروری ہے ، روزگار اور کام کے مواقع فراہم کرنے سے ملکی سرمایہ اور ثروت میں اضافہ ہوتا ہے ، جس طریقہ سے سرمایہ کار اور صنعت کار روزگار اور کام کے مواقع فراہم کرتا ہے اور ملک کے مالی و علمی سرمایہ میں اضافہ کرتا ہے اسی طریقہ سے ملازم و مزدور بھی کام کے ذریعہ ملکی سرمایہ میں اضافہ کا باعث بنتا ہے ،اگر چہ روزگار کا یہ پہلو ایک بہت اہم پہلو ہے لیکن اس کی افادیت یہیں تک محدود نہیں ہےبلکہ روزگارکی فراہمی کی اہمیت کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس کے ذریعہ آپ ایک خزانہ نکالتے ہیں ، ایک انسان جو مختلف صلاحیتوں سے سرشار تھا اور ملکی سرمایہ میں خاطر خواہ اضافہ کر سکتا تھا لیکن ایک کونے میں یوں ہی پڑا ہوا تھا آپ نے اسے روزگار فراہم کیا، اس کے اندرونی خزانہ کو باہر نکالا ، اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے ۔ ایسا شخص جو بیکار ہو ، جو بر سرِ روزگار نہ ہو ، اس کے اند ر بلا اختیار ایک خدادادصلاحیت مخفی رہتی ہے ، جب آپ اسے روزگار فراہم کرتے ہیں تو وہ سرچشمہ جو اس کے اندر موجزن تھا اور کوئی بھی اس سے استفادہ نہیں کر رہاتھا ، کوئی پیاسا اس سے سیراب نہیں ہو رہا تھا ،آپ روزگار کی فراہمی کے ذریعہ اس چشمہ کو جاری کرتے ہیں ، پس روزگار کی فراہمی کامسئلہ اقتصادی اہمیت کے علاوہ انسانی لحاظ سے بھی بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔
میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کے روزگار کے مواقع محض ان چند شعبوں تک محدود نہیں ہیں جن کا نام ان حضرات نے لیا جنہوں نے یہاں اپنے خیالات کا اظہار کیا ، بلکہ اس ملک کی عظیم اور وسیع صلاحیتوں اور طبیعی اور انسانی توانائیوں کے پیشِ نظر روزگار کے شعبے بہت زیادہ ہیں ، آپ حضرات تو اس عظیم مجموعہ کا فقط ایک گلدستہ ہیں ، آپ اس کا محض ایک نمونہ ہیں ،ملک میں روزگار کے بے شمار مواقع موجود ہیں ، روزگار کی فراہمی ایک عبادت ہے ، اس کی بہت زیادہ اہمیت ہے ، ایک گرانقدر چیز ہے ۔
ہمارا یہ جلسہ ایک علامتی حیثیت کا جلسہ ہے ، یہ صحیح ہے کہ میں بھی آپ کے بیانات سے استفادہ کرتا ہوں اور جب یہ بیانات قومی ٹیلیویژن سے نشر ہوں گے تو پوری قوم اس سے مستفید ہوگی لیکن یہ اجتماع ہمارے عزیز ملک کی توانائیوں کا مظہر ہے ،اگرآپ شعبۂ زراعت ، صنعت ، اقتصاد، رفاہِ عام اور سائنس و ٹیکنالوجی کے دیگر میدانوں میں انجام پانے والے کاموں کو بیان کریں گے تو ناظرین و سامعین اپنی آنکھوں سے ملک کی توانائیوں کا مشاہدہ کریں گے ، جیسا کہ میں نے بارہا کہا ہے کہ ہمارا ملک بے پناہ صلاحیتوں اور توانائیوں کا حامل ہے ، موجودہ دور میں ہمارا ملک ایک وسیع و عریض کارخانہ کی شکل اختیار کر چکا ہے ، ہر طرف کام کی چہل پہل ہے ، ہرطرف جدّت ، نت نئی ایجادات کا دور دورہ ہے ، سائنس اور تجربات سے بھر پور استفادہ کیا جارہا ہے ، میں نے پرسوں ملک کے اساتذہ کے ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے یہی بات کہی تھی اور آج آپ کے سامنے بھی اسی کا اعادہ کر رہا ہوں کہ آپ ہر گز یہ تصوّر نہ کریں کہ ہم موجودہ صورت حال پر قانع ہیں ، یا ہمیں بے روزگاری کے درست اعداد و شمار کی اطلاع نہیں ہے اور اس سے غافل ہیں ، آج تک انجام پانے والے تمام کام اس راستہ کا پہلا قدم ہیں ، ہمیں اسی راستہ کو جاری رکھنا چاہیے ، اس راستہ کا اگلا قدم اٹھانے کے لئے کون سی چیز ضروری ہے ؟ اگلا قدم اٹھانے کے لئے سب سے ضروری چیز یہ ہے کہ ہم یہ جان لیں کہ اس قدم کا اٹھانا امکان پذیر ہے ، اس کے بعد ہمارے اندر یہ احساس بیدار ہونا چاہیے کہ یہ اقدام ایک فریضہ ہے ، ایک عظیم فریضہ ہے ۔
کام اپنے آپ میں بہت اہمیت رکھتا ہے ، لیکن دو بنیادی دلیلوں کی بنا پر عصر حاضر میں کام اور سرمایہ کاری کی اہمیت ماضی کے مقابلہ میں دوچنداں ہے ، یہ جو کہا جاتا ہے کہ اسلام کام کی بہت زیادہ اہمیت کا قائل ہے ، ہمارے آئمۂ معصومین علیہم السّلام سے کام کی فضیلت کے سلسلہ میں بے شمار احادیث وارد ہوئی ہیں ، آپ نے جن کاموں کا تذکرہ کیا وہ ان کاموں کا ہی ایک نمونہ ہیں جن کی فضیلت کو ان روایات نے بیان کیا ہے ، میں نے ایک روایت کو یاد داشت کر رکھا ہے جس میں مولائے کائنات فرماتے ہیں " من یعمل یزدد قوّۃ و من یقصّر یزدد فترۃ"؛ (۲) اگرآپ کام کریں گے تو آپ کی کام کی توانائی میں مزید اضافہ ہوگا ، کام کی خاصیت کمی نہیں ہے بلکہ اضافہ ہے ، کام کرنے سے خود کام کرنے کی قوّت میں اضافہ ہوتا ہے ، کام کے ثمرہ اور نتیجہ کے بارہ میں تو معلوم ہی ہے کہ کام کرنے سے اس میں خاطر خواہ اضافہ ہوتا ہے لیکن اس روایت میں مولائے کائنات علیہ السّلام فرما رہے ہیں کہ جب آپ کام کریں گے توآپ کے اندر کام کرنے کی مزید قوّت و طاقت پیدا ہوجائے گی " ومن یقصّر فی العمل " جو شخص کام میں سستی کرتا ہے " یزدد فَترۃ" یا فِترۃ" اس کی سستی میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے ، اس کا تعلّق کسی مخصوص فرد سے نہیں ہے " مَن یعمل" کے " من " سے مرادمحض کوئی ایک شخص یا فردِخاص نہیں ہے بلکہ ہر سماج ، معاشرہ اور قوم پر یہ بات صادق آتی ہے ، آپ جس قدر کام کریں گے آپ کے کام کرنے کی قوّت میں اضافہ ہوتا جائے گا ، انسان کے تحرّک میں جس قدر اضافہ ہوگا اسی قدر اس کی شادابی ونشاط میں بھی اضافہ ہوگا ، البتّہ یہ کام کے سلسلہ میں اسلام کا نقطۂ نظر ہے جس کے سلسلہ میں، میں نے ایک روایت یہاں پڑھ کر سنائی ، لیکن جیسا کہ ہم نے کہا کہ موجودہ دور میں دو دلیلوں کی بنا پر کام اور سرمایہ کاری کی اہمیت بہت زیادہ ہے ۔
سب سے پہلی دلیل یہ ہے کہ ہم ایک ایسے دور سے گذر رہے ہیں جس میں ہم ترقّی کے لئے چھلانگ لگانے کے لئے مکمّل طور پر آمادہ و تیّار ہیں ، عصرِحاضر میں ہمارا مسئلہ صرف آگے بڑھنے کا نہیں ہے بلکہ آج کے دور میں ہمارے ملک کے شرائط و حالات کچھ ایسی کروٹ لے رہے ہیں جس کے ذریعہ ہماری قوم اپنی ترقّی و پیشرفت کے لئے ایک عظیم اور برق رفتار تحریک کو وجود میں لا سکتی ہے ، اس کی وجہ کیا ہے ؟ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ترقّی و پیشرفت کے بہت سے بنیادی ڈھانچے فراہم ہو چکے ہیں ، ملک کی علمی و سائنسی سطح بھی کافی بلند ہے، ہر شعبہ میں بہترین اور قوی انتظامیہ بر سرِ عمل ہے ، ماضی میں ہماری ایک بہت بڑی مشکل کارآمد اور قوی انتظامیہ کی کمی تھی ، آج ہماری انتظامیہ کو تیس سالہ انقلابی تجربہ حاصل ہے ، یہ بھی ایک ڈھانچہ ہے ، کام کے مواقع فراہم ہیں ، ترقّی اور پیشرفت کی امید میں اضافہ ہوا ہے ، جب ہمارے ملک میں یہ اعلان کیا جاتا ہے کہ ہم نے ایک ایسی دوا تیّار کی ہے جس کی پوری دنیا کو ضرورت ہے ، پوری دنیا اس میں مبتلا ہے ، دنیا کا کوئی بھی طبّی مرکز ابھی تک اس دوا کی تیّاری میں کامیاب نہیں ہو سکا ہے ، لیکن ہم نے اسے تیّار کر لیا ہے ، اس سے ہمارے جوانوں میں امیّد کی کرن پیدا ہوتی ہے، جب ہماری قوم یہ مشاہدہ کرتی ہے کہ ہم دنیا کے کسی بھی ملک کے تعاون کے بغیر جوہری توانائی کی پیداوار و رشد میں کامیاب ہو چکے ہیں تو اس میں امّید کی کرن پیدا ہوتی ہے ۔
دنیا کے جوہری ممالک میں سے کتنے ایسے ہیں جنہوں نے اپنی داخلی توانائی کے بل بوتے پر اس ٹیکنالوجی کو حاصل کیا ہے ؟ بہت ہی کم ممالک ایسے ہیں ، شاذو نادر ہی آپ کو کوئی ایسا ملک ملے گا جس نے یہ کارنامہ انجام دیا ہو ، انہوں نے غالبا اس ٹیکنالوجی کو دوسروں سے حاصل کیا ہے ، مجھے دقیق اطلاع ہے اور اسی کی بنا پر عرض کر رہا ہوں کہ موجودہ دور میں جن ممالک کے پاس یہ ٹیکنالوجی ہے ان کے حامی اور پشت پناہ ممالک نے سیاسی ہم فکری اور دیگر اسباب و وجوہ کی بنا پر یہ ٹیکنالوجی انہیں ہدیہ کی ہے، لیکن ہم نے یہ معرکہ اپنے زورِ بازو سے سر کیا ، جیسا کہ یہاں رپورٹ پیش کی گئی اس سلسلہ میں عظیم کام انجام پایا ہے ، بنیادی خلیوں کے شعبہ میں ہمارے جوانوں نے دن رات کی محنت سے بہت ہی عظیم معرکہ سر کیا ہے ، یہ چیز ہمارے لئے بہت حوصلہ افزا ہے ۔
آج ہمارا تجربہ بہت زیادہ ہے ، ہماری امّید اور حوصلہ بہت بلند ہے ، بنیادی ڈھانچہ بھی فراہم ہے اس لئے برق رفتار ترقّی اور صلاحیتوں کے اظہار کا موسم آن پہنچا ہے ، قوم نے اپنے آپ کو پہچان لیا ہے ، ہمارے جوان نے اپنی صلاحیتوں کو پہچان لیا ہے ، ہماری قوم کا فہم اور اس کی ذہانت بھی جانی پہچانی ہے ، اس لئے ترقّی کے میدان میں لمبی چھلانگ لگانے کا وقت آگیا ہے ، اس صورت میں کام کی اہمیت دوچنداں ہو جاتی ہے ، اسی لحاظ سے سرمایہ کاری کی اہمیت بھی دگنی ہو جاتی ہے ، کام اور سرمایہ کاری کی ایک دلیل یہ ہے۔
عصرِ حاضر میں کام اور سرمایہ کاری کی اہمیت کی ایک دوسری دلیل یہ ہے کہ آج ہم ایک عالمی دباؤ کا سامنا کر رہے ہیں ، دنیا میں ہمارا ایک ایسا دشمن موجود ہے جو اقتصادی پابندیوں اور دیگر ہتھکنڈوں( جن سے آپ بخوبی واقف ہیں ) کے ذریعہ اپنے شیطانی تسلّط کو اس ملک پر دوبارہ قائم کرنا چاہتا ہے، اس کا مقصد یہ ہے ، یہ بہترین ملک ، اقتصادی وقدرتی وسائل سےسرشار ، فوجی اعتبار سے اتنااہم ملک ایک دور میں برطانیہ کے زیرِ تسلّط تھا دوسرے دور میں امریکہ کے زیرِ تسلّط تھا، درحقیقت یہ ملک ہمیشہ ہی دنیا کی بڑی بڑی طاقتوں کے پنجوں میں گرفتا ر رہاہے ، انقلاب نے اس ملک کو ان کے پنجوں سے آزاد کرایا ، یہ تسلّط پسند طاقتیں دوبارہ اس ملک میں لوٹنے کے لئے کوشاں ہیں ، ان کی تمام کوششوں کا ماحصل یہی ہے ، جوہری توانائی کا مسئلہ تو محض ایک بہانہ ہے ، جو لوگ یہ سوچ رہے ہیں کہ اگر ہماراایٹمی انرجی کا مسئلہ حل ہوجائے تو ہماری تمام مشکلات کا ازالہ ہو جائے گا وہ غلطی پر ہیں، اگر یہ مسئلہ حل ہو جائے تو وہ انسانی حقوق اور دیگر مختلف مسائل کو بہانہ بنا کر مشکلات کھڑی کرتے رہیں گے ، یہ سب چیزیں محض ایک بہانہ ہے ، وہ اس کے ذریعہ ہمارے اوپر دباؤ ڈالنا چاہتے ہیں ، وہ ہمیں اپنے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کے خواہاں ہیں ، وہ انقلاب کو مٹانے کے درپے ہیں ،ان کاسب سے بڑا ہتھیار یہی اقتصادی پابندیاں ہیں ، وہ یہ راگ الاپتے ہیں کہ ہمارا مقابلہ ایرانی قوم سے نہیں ہے ! وہ جھوٹ کا سہارا لے رہیں ؛ ان کی دشمنی در حقیقت ایرانی قوم سے ہے ۔ وہ اقتصادی پابندیوں کے ذریعہ ایرانی قوم کے پیمانۂ صبر کو لبریز کرنا چاہتے ہیں تاکہ ایرانی قوم ان پابندیوں سے تنگ آکر یہ کہنے پر مجبور ہوجائے کہ ہم اسلامی جمہوریۂ ایران کی حکومت کی وجہ سے یہ سختیاں برداشت کر رہے ہیں؛قوم اور حکومت کے رشتوں میں دراڑ پر جائے ، ان کا اصلی مقصد یہ ہے لیکن وہ ہماری قوم کو نہیں پہچانتے ، دیگر چیزوں کی طرح وہ یہاں بھی اپنے حساب کتاب میں غلط در غلط ہیں ، تسلّط پسند نظام کی رو سے ایرانی قوم کا سب سے بڑا قصور یہ ہے کہ اس نے اپنے آپ کو اس تسلّط پسند نظام سے آزاد کیا ہے وہ ایرانی قوم کو اس کی سزا دینا چاہتے ہیں کہ اس نےتسلّط پسند نظام سے اپنے آپ کو آزاد کیوں کیا ہے ؟ اس قوم نے اپنا راستہ ڈھونڈ لیا ہے ۔ ان کے اندازے غلط ہیں ، وہ یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ انہیں کیا کرنا چاہیے اور وہ کیا کر رہے ہیں لیکن ہم پر اقتصادی پابندیوں کے ذریعہ دباؤ ڈال رہے ہیں ۔
ہمیں اپنے ملک میں ایک پائدار اقتصاد کی داغ بیل ڈالنا چاہیے ، آج کے دور میں سرمایہ کاری کا مطلب یہ ہے ،دوستوں نے بجاو درست کہا کہ ہم ان اقتصادی پابندیوں کو ناکارہ بنا دیں گے مجھے بھی یقین ہے کہ ایرانی قوم اور ملک کے حکّام ان پابندیوں کو ناکارہ و غیرِ مؤثر بنا دیں گے ، پابندیاں عائد کرنے والے ممالک کو اپنے ناپاک عزائم میں ناکام بنا دیں گے بالکل ویسے جیسے گزشتہ برسوں میں انہوں نے متعدّد مرتبہ بعض سیاسی غلطیوں کا ارتکاب کیا ، اپنے سفراء کو تہران سے واپس بلالیا اور بعد میں خود ہی ایران سے معذرت چاہتے ہوئے واپس آنے پر مجبور ہوئے ، آپ کواچھی طرح یاد ہوگا شاید جوانوں کو اس کا علم نہ ہو ، گذشتہ دس، بیس برس میں انہوں نے اس کام کو کئی مرتبہ دہرایا ، آج بھی یہی کیفیت ہے ، البتّہ پابندیاں ہمارے لئے کوئی نئی چیز نہیں ہیں ہم تیس سال سے یہ پابندیاں جھیل رہے ہیں ایرانی قوم نے پابندیوں کے زیرِ سایہ بے شمار کام انجام دئیے ہیں ، نہ جانے کتنے ہی معرکے سر کئے ہیں ، لہٰذا وہ اب کی بار بھی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ پائیں گے ، یہ پابندیاں ہمارے ملکی حکّام اور دیگر ہمدردوں کے لئے ملک میں روزگار اور کام کے مواقع فراہم کرنے کی ایک بہترین دلیل ہے وہ روزگار سرمایہ کاری اور اقتصادی میدان کی روزافزوں رونق کواپنا فریضہ سمجھیں ، آج یہ ملک حقیقی معنیٰ میں ایک عظیم کارخانہ میں تبدیل ہو چکا ہے ، اس کارخانہ کی روزافزوں رونق کے لئے سبھی کو کوشش کرنا چاہیے ۔ یہاں جن حضرات و خواتین نے اظہارِ خیال کیا ان کی گفتگو اور دیگر رپورٹوں سے بھی ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ حکومتی مشینری سے دو چیزوں کی توقّع ہے پہلی چیز یہ ہے کہ حکومت کو مالی وسائل پر عالمانہ اور دقیق نظارت رکھنا چاہیے اور دوسری ذمّہ داری یہ ہے کہ کام اور روزگار کے لئے مناسب اور سازگار ماحول فراہم کرنا چاہیے ، البتّہ کام اور روزگار کے بارہ میں کچھ گلے شکوے بھی پائے جاتے ہیں ، ہم نے قانون کی دفعہ چوالیس کی پالیسیوں کو اس کا سنگ بنیاد قرار دیا تھا ، ہم نے اس اصل اور اس کی پالیسیوں کی مکمّل وضاحت کی ، اگرقانون کی اس دفعہ پر مکمّل طور پر ہمہ گیر اور پیہم عمل کیا جاتا تو بہت سی مشکلات خود بخود حل ہو جاتیں ۔ حکومت کو مالی وسائل پر عالمانہ اور دقیق نظارت رکھنا چاہیے ،آپ نے یہاں پر جن مطالب کی طرف اشارہ کیا ان کی اصلی وجہ یہ ہے کہ تمام امور میں مالی وسائل پر دقیق نظارت نہیں ہے ،یہ بہت ضروری ہے ،حکومت کے جو اعلیٰ عہدیدار یہاں موجود ہیں میں ان سے گزارش کرتا ہوں کہ وہ اس مسئلہ پر خصوصی توجّہ دیں، بہت سے اعتراضات اور تنقیدیں جن میں سے بعض بجا بھی ہیں ، اسی غفلت کا نتیجہ ہیں ، مالی وسائل کے انتطام و انصرام کا مطلب یہ ہےکہ ہم مالی وسائل کو اس سمت میں لے جائیں جو ملک کے اقتصاد اور ثروت کے حق میں مفید ہو ، جس سے افزودہ ثروت حاصل ہو ، افزودہ ثروت سے میری مراد محض مالی ثروت نہیں ہے بلکہ ہر وہ چیز مراد ہے جس سے ملک کی پیداوار میں اضافہ ہو اور کام اور بازارمیں رونق پیدا ہو ، امّید میں اضافہ ہو ، روزگار کے مواقع میسّر ہوں، پس ایک بنیادی نکتہ مالی وسائل کی دقیق نظارت کا مسئلہ ہے ۔
دوسرا نکتہ ،کام اور سرمایہ کاری کے لئے سازگار ماحول کی فراہمی کا مسئلہ ہے ، ہماری نگاہ میں حکومت کے اصلی فرائض میں سے ایک فریضہ یہی چیز ہے ، محترم وزیر نے کام اور سرمایہ کاری کے لئے سازگار ماحول کی طرف اشارہ کیا ، کام اور سرمایہ کاری کے لئے سازگارماحول کی فراہمی کی ذمّہ داری عام طور سے حکومت پر عائد ہوتی ہے ،اگرقوانین اور مختلف قانونی پیچ وخم کی اصلاح ہوجائے ، سرمایہ کاروں کو بہتر سہولتیں فراہم کی جائیں تو ملک کے اندر کام اور سرمایہ کاری کا سازگار ماحول فراہم ہوسکتا ہے اس صورت میں ہمارے اقتصاد کو پروان چڑھنے کا موقع مل سکتا ہے ۔
یہ کام شعبۂ حکومت سے متعلّق ہے جو در حقیقت ایک اہم شعبہ ہے ، میری نظر میں حکومت کی اصلی ذمّہ داری یہی ہے البتّہ ملک کے حکّام پر اور بھی بے شمار ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں لیکن جیسا کہ رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے ان سب ذمّہ داریوں کا ماحصل اور خلاصہ یہی دو چیزیں ہیں ۔
کام اور سرمایہ کاری کے باب میں ایک بنیادی نکتہ جس پر سرمایہ کاروں کو خصوصی توجّہ دینا چاہیے یہ ہے کہ انہیں ملک کے اندر تیّار ہونے والی مصنوعات کی کوالٹی اور کیفیت پرخصوصی توجّہ مبذول کرنا چاہیے ، یہ بہت اہم مسئلہ ہے البتّہ اس کا کچھ حصّہ مالی امور اور تجارتی قوانین ، حکومت کی حمایت اور ان جیسے امور سے متعلّق ہے ، البتّہ اس کا کچھ حصّہ ملک کے حکّام ، ملازموں اور سرمایہ کاروں کے عزم و ارادہ سے متعلّق ہے، پیغمبرِ اسلام (ص) نے فرمایا " رحم اللہ امرأ عمل عملا فاتقنہ " (۳) خدا رحم نازل کرے اس شخص پر جو جب کسی کام کو انجام دے تو اسے مستحکم طور پر انجام دے ، درست انجام دے ، اسے کہتے ہیں مستقبل کی منصوبہ بندی ، آج آپ کو دنیا میں ایسی بہت سی کمپنیاں دکھائی دے رہی ہیں جو گزشتہ ایک یا ڈیڑھ صدی سے مصروف ِ عمل ہیں ، آج بھی ان کی مصنوعات اسی زورو شور سے فروخت ہو رہی ہیں ، ان کا نام ہی ان کی مصنوعات کی خرید و فروش کی ضمانت ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے صحیح ڈھنگ سے کام کیا ، اسی وجہ سے صارفین کو ان پر پورا بھروسہ ہے ، آپ کہتے ہیں کہ ہم لوگوں کو ملک کی داخلی مصنوعات کے استعمال کی نصیحت کریں ، میں کئی سال سے اس پر زور دے رہا ہوں ، میں نے بارہا اس کا اعادہ کیا ہے ، لیکن فقط نعرہ لگانے سے یہ بات بننے والی نہیں ہے ، ممکن ہے کہ کچھ لوگ ہماری بات پر بھروسہ کریں اور ہمارا کہنا مانتے ہوئے داخلی مصنوعات کو خریدیں لیکن یہ تو اس مسئلہ کا محض ایک رخ ہے اس کا دوسرا اور اہم پہلو ان مصنوعات کی کوالٹی اور کیفیت سے مربوط ہے ، ان کی کیفیت کو بہتر بنائیے ، اس اجتماع میں موجود کچھ افراد نے درآمدات کے مسئلہ کو اٹھایا ، میرا بھی یہی عقیدہ ہے ، ماہِ رمضان کے شروع میں ملک کے اعلیٰ حکّام سے جو نشست ہوئی تھی اس میں بھی میں نے یہی مسئلہ ان کے گوش زد کیا ، میں نے ملکی پارلیمان اور حکومت دونوں پر ہی زور دیا ہے کہ وہ اس مسئلہ پر غور کریں ، اس نشست سے پہلے وزیرِ تجارت سے راستہ میں یہی سوال کیا، موصوف نے جواب دیا کہ اس سلسلہ میں چند اچھے قدم اٹھائے جارہے ہیں ، بہرحال یہ ایک حقیقت ہے ۔
بےمنطق اور بے تحاشا درآمدات بہت بڑا نقصان ہے ، بہت بڑا خطرہ ہے ، ہمارے عوام کو بھی اسے جاننا چاہئے کہ جب ہم بیرونِ ملک تیّار ہونے والی چیز خریدتے ہیں تو اس کے ذریعہ ہم در حقیقت اپنے ملک کے ایک مزدور و ملازم کو روزگار سے محروم کرتے ہیں ،ایک غیر ملکی ملازم اور مزدور کو روزگار فراہم کرتے ہیں،یہ ایک حقیقت ہے لیکن مصنوعات کی کوالٹی اور استحکام بھی بہت اہم ہے اگر ملک کی داخلی مصنوعات میں یہ خصوصیات پائی جاتی ہوں تو خریدار بھی ان کی طرف راغب ہوں گے لیکن افسوس کہ آج بھی ایسے عناصر موجود ہیں جن کی نگاہیں آج بھی شہنشاہیت کے منحوس طاغوتی دور کی غلط ثقافت کے زیرِ اثر بیرونی مصنوعات پر مرکوز ہیں ، ایک دور ایسا بھی تھا جب اس مملکت کے اعلیٰ حکام کھلے عام یہ اعلان کر رہے تھے کہ ایرانی قوم لوٹا تک نہیں بنا سکتی ، انہوں نے عملی طور پر بھی ہر چیز کو بیرونِ ملک سے امپورٹ کیا ، طاغوت کے دورِ حکومت کے ایک بلند پایہ عہدیدار سے ایک محفل میں اچانک میری ملاقات ہو گئی ،ورنہ ان سے ہم نے کبھی بھی کوئی واسطہ نہیں رکھا ، ان سے کسی قسم کی ملاقات بھی نہیں کیا کرتے تھے ، اس نے جب یہ دیکھا کہ میں اس چیز پر سخت معترض ہوں تو مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ آپ کس چیز پر تنقید کر رہے ہیں ؟ ہم آقا کی طرح بیٹھے ہو ئے اور دیگر ممالک ہمارے نوکروں کی طرح ہمارے لئے کام کر رہے ہیں ، ہماری ضرورت کا سامان سپلائی کر رہے ہیں ، اس میں کیا قباحت ہے ؟ آپ ملاحظہ کیجئے کہ اس دور کے حکّام کا نقطۂ نظر یہ تھا! ظاہری طور پر یہ منطق حکم فرما تھی لیکن اس کے پسِ پردہ کچھ دیگر عناصر کار فرما تھے ،اس کے پیچھے بے شمار مالی و اخلاقی بد عنوانیاں کا رفرما تھیں، جی ہاں ، درآمدات اور ان پر نظارت کا مسئلہ بہت اہم ہے ، ہم نے چند دن پہلے ملک کے اعلیٰ حکّا م سے بھی یہی گزارش کی ہے کہ وہ اس پر نظارت رکھیں ، ہم یہ نہیں کہتے کہ ان پر روک لگائیں کیونکہ بعض اشیاء کی درآمد ضروری ہے ، لیکن بعض مصنوعات کو امپورٹ کرنا درست نہیں ہے اس سلسلہ میں ایک درست و کارآمد مدیریت لازم ہے ۔
ایک دوسرا کام جسے میں نے یادداشت کر رکھا ہے اور وہ حکومت کی ذمّہ داری ہے مختلف مہارتوں اور فنون کا فروغ ہے ، ہمیں مہارت و ہنر کے مراکز ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کو مزید فروغ دینا چاہیے ، ہمیں سائنس و ٹیکنالوجی کی ضرورت ہے اسی کے ساتھ ساتھ ہمیں قوی اور مضبوط بازؤوں کی بھی ضرورت ہے ، میری نگاہ میں ایک بنیادی کام یہ ہے کہ ہمیں شعبۂ صنعت اورزراعت میں مزید کام کرنا چاہیے ۔
ایک دوسرا نکتہ ملک کی مصنوعات میں جدّت اور خوبصورتی پیدا کرنے کا مسئلہ ہے ، ہمیں اپنی مصنوعات میں جدّت پیدا کرنے اور ان کی ظاہری شکل و صورت کو مطلوب بنانے پر خصوصی توجّہ دینا چاہیے تاکہ ہم صارفین کی پسند اور مرضی کے مطابق اس جنس فراہم کرسکیں ، یہ ایک قابلِ توجّہ مسئلہ ہے جس کو ہمیں اہمیت دینا چاہیے ، جو حضرات اس سلسلہ میں کوشاں ہیں میں ان کابہت شکر گزار ہوں ۔
میں آخر میں آپ کو ایک نصیحت کرنا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ آپ مخلتف علوم و فنون بالخصوص بنیادی نوعیت کے علوم میں ماہر افراد کی تربیت کیجئے ، اس مسئلہ پر خصوصی توجّہ دیجئے ،زہے مقدّر کہ ان میں سے بعض شعبوں میں کافی کام ہوا ہے ، ہمیں قریبی ذرائع سے رویان ( بنیادی خلیوں اور بانجھ پن کے علاج) کے شعبہ میں ہونے والی ترقّی اور ماہرین کی تربیت کا علم ہے ، دیگر شعبوں میں بھی اس پر خصوصی توجّہ دیجئے ۔
پروردگارِ عالم آپ سبھی کو توفیق عنایت فرمائے ، انشاء اللہ ہمیں اپنے دشمنوں پر فتح نصیب ہو گی ، ہم ان اقتصادی پابندیوں کو ناکام بنا دیں گے ، ہمارے جوان مستقبل میں اچھے دن دیکھیں گے ، یہ ملک استعداد اور صلاحیت سے سرشار ملک ہے ، آج ہمارا ملک اس تیز پرواز عقاب کی مانند ہے جو بہت اونچائی اور بلندی تک پرواز کرسکتا ہے لیکن ابھی تک اس نے گھر کے آنگن سے چھت تک پرواز کی ہو ، یہ ایک گرانقدر تجربہ ہے ، اس کی حدِ پرواز بہت اونچی ہے ، انشاء اللہ وہ دن دور نہیں جب آپ کا ملک سائنس و ٹیکنالوجی کے اعتبار سے دنیا کے دیگر ممالک کے لئے قائد کا کردار ادا کرے گا ، عالمِ اسلام کے لئے فخر کا باعث قرارپائےگا اور دنیا یہ کہنے پر مجبور ہوجائے گی کہ دینِ اسلام نے اسے یہ سرفرازی عطا کی ہے ، ایک دن اس ملک کی مصنوعات پوری دنیا میں مقبول ہوں گی ۔
والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
(۱) بحار الانوار ،جلد ۶۵ ، صفحہ ۳۶۳
(۲) الحیاۃ ، جلد ۱ ، صفحہ ۵۹۱