ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی

رہبرِ معظم کا کا صوبۂ قم کی یونیورسٹیوں کے طلبہ اور جوانوں سے خطاب

بسم اللہ الرّحمٰن الرّحیم

والحمد للہ ربّ العالمین والصّلاۃ والسّلام علیٰ سیّدنا و نبیّنا ابی القاسم المصطفیٰ محمّد و علیٰ آلہ الأطیبین الأطھرین المنتجبین الھداۃ المھدیّین المعصومین  سیّما بقیّۃ اللہ فی الأرضین ۔ السّلام علیک یا فاطمۃ المعصومۃ یا بنت موسی بن جعفر سلام اللہ علیک و علیٰ آبائک الطّیّبین الطاہرین المنتجبین المعصومین ۔

اس طویل سفر کے آخری ایّام میں آپ عزیز جوانوں سے ملاقات گویا ایک نیا آغاز ہے ، ہمارے آرام و آسائش کا باعث ہے ۔ جوانوں کے جذبات اور افکار ان کا جوان عزم وارادہ اور جذبہ  کسی بھی ماحول پر اثر انداز ہو سکتا ہے ۔ پروردگارِ عالم کی توفیق کے طفیل میں آج ہمارے ملک کی فضا عزم و ارادہ ، جوش و ولولہ اور شعور و عقلانیت سے  سرشار ہے اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کی آبادی  کی اکثریت جوانوں پر مشتمل ہے ۔یہ بہترین جلسہ بھی  حقیقی معنیٰ میں جوانوں کا جلسہ ہے ۔

شہرِ قم کے جوانوں کے بارہ میں میرے ذہن میں بہت سی یادیں  ہیں ، ان کے بارہ میں میرے پاس بہت سی معلومات ہیں ۔ اگر چہ آپ کے درمیان کچھ ایسے طلبہ بھی ہیں جن کا تعلّق دیگر شہروں سے ہے لیکن تقریبا آپ سبھی طلبہ یا آپ کی اکثریت کا تعلّق اسی شہر سے ہے ،سنہ ۱۳۴۱ اور ۱۳۴۲ ہجری شمسی (مطابق ۱۹۶۳ اور ۱۹۶۴ عیسوی ) میں  اس انقلابی تحریک کے نقطۂ عروج پر پہنچنے سے بہت پہلے ہم نے قم کے جوانوں کی ذہانت اور ہوشیاری کے مناظر کا مشاہدہ کیا، میں ہر گز نہیں بھول سکتا کہ حرمِ مطہّر کے گرد و نواح کی  سڑکوں ، گلی کوچوں ، کوچۂ ارک کے سامنے اخبار بیچنے کاایک بوتھ تھا جہاں پر مختلف اخباروں کو چسپاں کیا جاتا تھا ، جب ہم  کلاس سے فارغ ہوتے تھے تو لوٹتے وقت ان اخباروں کی شہ سرخیوں پر بھی ایک نظر ڈالا کرتے تھے ۔ جب" ایالتی اور ولایتی " انجمنوں کے سلسلہ میں  طاغوتی حکومت  کومجبورا پسپائی اختیار کرنا پڑی اور اس معاہدہ کو کالعدم قرار دیا گیا تو ہم نے دیکھاکہ وہ جوان جو حرم کے اطراف کی گلیوں اور ارم روڈ پر جمع تھے انہوں نے طاغوتی حکومت کے مقابلہ میں علماء کی اس کامیابی پر ہمیں مبارکباد پیش کی ،حالانکہ اس سے پہلے جب ہم  ان جوانوں کو دیکھا کرتے تھے تو ہمارے وہم و گمان میں بھی یہ بات نہیں سماتی تھی  کہ ان جوانوں میں  سیاسی نظریات اور مسائل کے بارے میں  ذرّہ برابر دلچسپی پائی جاتی ہوگی، قم کے جوان ظاہری طور پر ان مسائل سے لاتعلّق تھے ، ہمارے اور ان کے درمیان کوئی آشنائی بھی نہیں تھی اس کے باوجود وہ ہمیں اس کامیابی پر مبارکباد پیش کر رہے تھے ۔

اسی وقت میرے ذہن میں یہ بات آئی کہ آخر یہ کون سا جذبہ ہے جو قم کے جوانوں میں کارفرما ہے جس کی بنا پر وہ طاغوتی حکومت سے مذہبی علماء کے پیکار کے تئیں اس قدر حسّاس ہیں ، یہ جذبہ قم کے طلبہ تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ پورے ملک کے اسکولوں ، کالجوں اور یونیورسٹیوں کے طلبہ حتّیٰ بے کار اور نکمّے جوانوں میں بھی یہی جذبہ موجزن تھا ۔

اس کے بعد جب سنہ ۱۳۵۶ ھ ۔ ش ( ۱۳۷۷ عیسوی ) کے واقعات رونما ہوئے تووہاں  بھی شہرِ قم نے اپنا قائدانہ رول ادا کیا، ملک کی ظالم و ستمگر مشینری کے آہنی پنجوں کے مقابلہ میں سڑکوں اور  چوراہوں  پر عوامی تحریک اور مزاحمت  کی قیادت  کا کام حقیقی معنیٰ میں شہرِ قم نے شروع کیا،قم کے جوان جان بکف  سڑکوں پر نکل آئے ، ان کا خون بہایا گیا ، انہوں نے بھی اس ظالم حکومت کے کارندوں  اور اہلکاروں کو بہت پریشان کیا ! قم کے جوانوں کی ہوشیاری، ان کی شرارتیں اس ظالم حکومت کے نوکروں کو حد درجہ حیران و پریشان کیا کرتی تھیں۔

اس کے بعد انقلاب کی کامیابی کا مرحلہ آیا ، ہر جگہ شہرِ قم صفِ اوّل میں تھا ، اس صوبہ کا "علی بن ابی طالب " نامی فوجی لشکر  ،مقدّس دفاع کے دوران سب سے زیادہ کامیاب فوجی دستوں میں سے ایک تھا وہ ہمیشہ ہی محاذِ جنگ کی صفِ اوّل میں موجود تھا، تمام بڑے امتحانوں میں اہلِ قم نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا ، اس صوبہ کے جوان ہمیشہ ہی صفِ اوّل میں رہے ہیں ، میں چاہتا ہوں کہ  قم کی سرزمین کے موجودہ جوان جوکہ جوش و جذبہ ، فکر وعمل اور شعور کی دولت سے مالا مال ہیں اپنے ماضی کے چند عشروں کی قابلِ فخر جوان نسل کی شناخت اور پہچان کو اپنی نگاہوں کے سامنے رکھیں ۔

اہلِ قم نے انقلاب کی تحریک میں ناقابلِ تردید کردار ادا کیا ، انہوں نے آٹھ سالہ جنگ میں بھی بہترین کردارپیش کیا ،جنگ  ختم ہونے کے بعد بالخصوص امامِ امّت کے انتقالِ پرملال کے بعد جب ہمارے سروں سے امام (رہ) کا سایہ اٹھ چکا تھا ، اس دور میں قم کے جوانوں کا کردار اور بھی زیادہ برجستہ صورت میں سامنے آیا ہے ، یہ ایک بہت اہم نکتہ ہے ۔

آپ اس بات پر توجّہ دیں کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے پہلے عشرہ کے آخری برسوں  سے انقلاب مخالف محاذ نے ایرانی ماہرین کی مدد سے یہ پالیسی وضع کی کہ وہ سرزمینِ قم کو انقلاب مخالف عناصر کی  سرگرمیوں کا مرکز بنائیں، یہ وہ نکتہ ہے جس تک غیر ایرانی ماہر نہیں پہنچ سکتے تھے لہٰذا انہوں نے اس سلسلہ میں ایرانی ماہرین کی خدمات حاصل کیں ، ان کے مشورہ سے اس سرزمین کو انقلاب مخالف عناصر کی  سرگرمیوں کا مرکز بنانے کی کوشش کی گئی ، وہ چاہتے تھے کہ بالکل ویسے جیسے انقلاب  کی تحریک کا آغاز قم سے ہوا ہے ویسے ہی اس کی مخالف اور دشمنی کا آغاز بھی قم سے ہو ، شہرِ قم ، روحانیت کا مرکزہے ، حوزۂ علمیہ بظاہر قم میں ہے اگر چہ اس کی شاخیں پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہیں ، قم کا طالبِ علم اپنے شہر اپنے دیہات میں اثر و رسوخ رکھتا ہے ، پورے ملک کے طلباء یہاں جمع ہیں ،جب یہ طلباء حوزۂ علمیہ کی تعطیلات یا کسی دوسرے کام سے اپنے وطن واپس جاتے ہیں تو گویا یہ حوزہ پورے ملک میں پھیل جاتا ہے ، پس جو بھی فکر ، جوبھی آئیڈیا، جو بھی عزم و ارادہ ، جو بھی ہدف اور مقصد یہاں پایا جاتا ہے وہ حقیقت میں پورے ملک پر محیط ہے ، اغیار اس حقیقت کو سمجھنے سے قاصر تھے ، امریکی اس حقیقت کے تجزیہ وتحلیل سے عاجز و لاچار تھے   ، اس حقیقت کو کوئی ایرانی ہی درک کر سکتا تھا جو روحانیت کی طاقت سے آگاہ ہو ، انہیں ضمیر  فروش ایرانیوں نے اغیار کو یہ راستہ دکھایا، اغیار نے قم میں فتنہ بپا کرنے کے لئے ماحول فراہم کرنے کی کوشش کی ، چونکہ میں یہاں پر کسی کا نام نہیں لینا چاہتا لہٰذا کسی کا نام لئے بغیر اس مرحلہ سے عبور کرتا ہوں ، سنہ ۱۳۵۸ اور ۱۳۵۹ ، ہجری شمسی کے سالوں میں شہرِ قم اور تبریز کے عوام نے اپنی شجاعت و بہادری کے بہت سے جوہر دکھائے، یہ جوہر صرف میدانِ جنگ وپیکار تک محدود نہیں تھے بلکہ انہوں نے معنوی میدان ،  شعور اور حالات کے صحیح تحلیل وتجزیہ  کے میدان میں بھی اپنے جوہر دکھائے، امامِ امّت  کی رحلت کے بعد شہرِ قم میں  یہی چیز ایک دوسری شکل میں رونما ہوئی ، یہاں بھی ہمارے بیرونی دشمنوں اور مخالفوں نے یہ منصوبہ تیّار کر رکھا تھا کہ وہ اس شہر میں انقلاب مخالف تحریک کا آغاز کریں، اگر اہلِ قم نے غفلت برتی ہوتی، یا حالات کی نزاکت کو نہ سمجھا ہوتا،اور ہوشیاری کا مظاہرہ نہ کیا ہوتا تو ان مشکلات و مسائل میں بہت زیادہ اضافہ ہو سکتا تھا ، یہ ایک حقیقت ہے ، یہ قم کے جوانوں کے بارہ میں ایک مسلّم حقیقت ہے ۔

میرے بہت سی مباحث منجملہ اس بحث کا اصلی مخاطب آپ جوان ہیں جسے میں آج  یہاں  پیش کرنے جا رہا ہوں ، چونکہ اصل کام آ پ کو انجام دینا ہے ، یہ ملک آپ کا ملک ہے ، ہم تو محض چند دن کے میہمان ہیں ، ہماری باری ، ہماراحصّہ اور ہمارا دور اختتام پذیر ہونے والا ہے ، اس کے بعد آپ کا دور ہے ، اس ملک کو چلانے کی ذمّہ داری آپ کی ہے ، موجودہ وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اس ملک کے قومی اقتداراور عزّت کو درجۂ کمال تک پہنچانا آپ کی ذمّہ داری ہے ، یہ وہ تاریخی ذمّہ داری ہے جو آپ پر عائد ہوتی ہے ، لہٰذامیری گفتگو کےاصلی مخاطب آپ ہیں ۔

   اگر آپ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ دشمن محاذنے ہمارے ملک اور انقلاب کے خلاف ایک  طویل المیعاد منصوبہ تیّار کر رکھا ہے تو ہمیں بھی ایک دراز مدّت منصوبہ بنا نا ہوگا ، ہم یہ بات تسلیم نہیں کر سکتے کہ اسلام اور انقلاب کا دشمن محاذ جسے اسلامی بیداری اور آگہی سے شدید خطرہ لاحق ہے اس نے  اس کے مقابلہ کے لئے کوئی طویل المیعاد منصوبہ تیّار نہ کر رکھا ہو، کسی کو بھی اس کا یقین نہیں آسکتا، اگر ہم بہت زیادہ سادہ لوح ہوں یا غافل ہوں تو اسی صورت میں یہ یقین کر سکتے ہیں ۔ ان کے پاس یقینا اسلامی بیداری کا مقابلہ کرنے کا ایک طویل المیعاد منصوبہ  ہے جیسا کے ملک میں وقتا فوقتا رونما ہونے والے واقعات اس کے گواہ ہیں ، جن میں اغیار کا ہاتھ بالکل نمایاں ہے ، یہ وہ چیزیں نہیں ہیں جو  دفعتۃ رونما ہوئی ہوں ، یہ واقعات ان کے وسط اور دراز مدّت منصوبہ کاحصّہ ہیں ، انہوں نے کافی عرصہ پہلے سے اس کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی ، جس کا نتیجہ موجودہ شکل میں سامنے آیا۔ ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے رات میں اس کا فیصلہ کیا ہو  اور دوسرے دن  اسے عملی  جامہ پہنایا ہو  ، ایسا نہیں ہے ، میں نے گزشتہ سال کے  فتنہ کے  بارہ میں اپنے بعض دوستوں کو ایسے  قرائن و شواہد دکھلائے  جو یہ ظاہر کرتے ہیں  کہ ہمارے دشمنوں نے کم از کم دس، پندرہ سال پہلے سے اس کی منصوبہ بندی کر رکھی تھی ، امامِ امّت (رہ)کی رحلت کے بعد سے انہوں نے یہ منصوبہ  بنا رکھا تھا جس کا اثر سنہ ۱۳۷۸ ہجری شمسی میں رونما ہونے والے واقعات کی صورت میں ظاہر ہوا، اس سال تہران یونیورسٹی میں رونما ہونے والے واقعات غالبا ابھی آپ کے صفحۂ ذہن  میں محفوظ ہوں گے  ، شاید بعض افراد کو صحیح سے یاد نہ ہوں، گزشتہ برس صدارتی الیکشن کے بعد رونما ہونے والے واقعات نے ان کے منصوبوں کی یاد تازہ کردی ۔ البتّہ انہوں نے ہمیشہ ہی کوشش کی ہے کہ وہ وقت کی نزاکت اور دیگرتمام پہلوؤں کو مدِّنظر رکھتے ہوئے ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنائیں لیکن الحمد للہ انہیں ہزیمت اٹھانا پڑی ، انہیں یہ شکست ہونا بھی چاہیے تھی ۔ پس ہمارے دشمن محاذ کے پاس ایک طویل المیعاد منصوبہ ہے ، وہ اس شکست سے مایوس ہوکر اپنی سازشوں  سے  ہرگزدستبردار نہیں ہوں گے  ، بلکہ وہ آئندہ دس  ، بیس ، چالیس سال کی منصوبہ بندی میں مشغول ہیں ، آپ کو تیّار رہنا ہوگا ۔

ہمیں بھی طویل المیعاد منصوبہ بندی کرنا چاہیے ، البتہ اس جگہ اس مسئلہ کو اٹھانا صحیح نہیں ہے ، بلکہ یہ فکری ، سیاسی اور ثقافتی مراکز کا کام ہے انہیں یہ کام انجام دینا چاہیے اور وہ اس کام میں جی جان سے لگے ہوئے ہیں ، میں یہاں پر آپ کے درمیان طویل المیعاد منصوبہ بندی کے سلسلہ میں ایک اہم اور بنیادی نکتہ کی جانب اشارہ کرنا چاہتا ہو ں ، اس سے پہلے بھی میں نے بارہا اس کی یاد دہانی کرائی ہے ، میں ضروری سمجھتا ہوں کہ یہاں پر بھی اس پر کچھ روشنی ڈالوں  ، وہ اہم مسئلہ بصیرت اور سیاسی شعور کا مسئلہ ہے ۔

بصیرت اور سیاسی شعور کے باب میں ، میں نے گذشتہ برس اور اس سے پہلے بھی بہت کچھ عرض کیا ہے ، دوسرے افراد نے بھی اس پر کافی روشنی ڈالی ہے ، میں نے دیکھا کہ اس بارہ میں بعض جوانوں نے بھی بہت اچھے کام انجام دئیے ہیں ۔ میں بصیرت کے مسئلہ پر ایک بار پھر زور دینا چاہتا ہوں ، اس مسئلہ پر زور دینے کا بنیادی مقصد یہ ہے  آپ چونکہ اس کے اصلی مخاطب ہیں ، آپ اس میدان کے سپاہی ہیں ، اس کی ذمّہ داری آپ کے شانوں پر ہے لہذا یہ آپ کا فریضہ ہے کہ آپ ایسے کاموں اور منصوبوں کا تعاقب کریں جو بصیرت اور آگہی سے متعلّق ہیں ، آپ اس اہم  ضرورت کو پورا کیجئے، بصیرت نور افروز ہے ، بصیرت ، قبلہ نما اور قطب نما ہے ، اگر کسی صحراء میں کوئی شخص قطب نما کے بغیر کسی منزل کی تلاش میں نکلے تو ممکن ہے کہ اتّفاقا وہ کسی منزل تک پہنچ جائے لیکن اس کا احتمال بہت ہی کم ہے، اس بات کا قوی احتمال ہے کہ وہ صحراء میں حیران و سر گردان  ہو جائے ، بہت زیادہ مشکلات اور مشقتوں کا شکار ہو جائے ،لہٰذا قطب نما ضروری ہے ، بالخصوص جب دشمن آپ کے روبرو ہو ، اگر قطب نما نہ ہو تو آپ دشمن کے محاصرہ میں پھنس سکتے ہیں ، ایسی صورت میں آپ سے کچھ بھی نہیں بن پائے گا ، پس بصیرت کی مثال ،قطب نما اور نور کی ہے ۔ کسی بھی تاریک فضا میں بصیر ت  روشنی کا کردار ادا کرتی ہے ، ہمیں راستہ دکھاتی ہے  ، البتّہ مکمّل کامیابی کے لئے بصیرت ایک ضروری شرط ضرور ہے لیکن کافی نہیں ہے ، ہم طلباء کی تعبیر میں یہ کامیابی کی علّتِ تامّہ نہیں ہے بلکہ کامیابی کے لئے کچھ دیگر شرائط کا ہونا بھی ضروری ہے ، اگر دامنِ وقت میں گنجائش رہی اور مجھے یاد رہا تو اپنی تقریر کے آخر میں  ان شرائط کی طرف بھی اشارہ کروں گا، بصیرت ایک لازمی شرط ہے اگر دیگر تمام چیزیں موجود ہوں لیکن بصیرت نہ ہو تو ہدف و مقصد کا حصول انتہائی دشوار و مشکل ہو گا، ہم دو سطح پر بصیرت کی تعریف کر سکتے ہیں ، ان میں سے ایک سطح ، اصولی اور بصیرت کیا بنیادی ستون ہے ، ہم ایک نظریۂ حیات کے انتخاب کے ذریعہ اس مادی دنیا کے بارہ میں ایک بصیرت پیدا کرتے ہیں ، اس سلسلہ میں مادی اور توحیدی نقطۂ نگاہ میں واضح فرق ہے ، توحیدی نقطۂ نگاہ سے یہ دنیا ایک بامقصد مجموعہ  ہے ، اس پر قانون حاکم  ہے ، یہ طبیعی نظام ایک بامقصد نظام ہے ، اس نظام کا حصّہ ہونے کے اعتبار سے ہمارا وجود ، ہماری پیدائش اور ہماری زندگی  کا بھی کوئی نہ کوئی مقصد ہے ، ہم فضول اور بیہودہ پیدا نہیں ہوئے ہیں ، یہ توحیدی نگاہ کا لازمہ ہے ، یہ عالم اور قادر خداپر اعتقاد کانتیجہ ہے  ، جب ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہماری زندگی کا ایک مقصد ہے تو ہم اس مقصد و ہدف کی جستجو کرتے ہیں  ، یہ تلاش اپنے دامن میں امّید کو سمیٹے ہوئے ہے ، ہم اس ہدف کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں، ہدف کی جستجو کے بعد اس ہدف تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں ، اس صورت میں ہماری ساری زندگی ایک بامقصد  کوشش و سعیٔ پیہم کا مرقّع بن جاتی ہے ، دوسری طرف ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ توحیدی زاویۂ فکر کے اعتبار سے  انسان کی ہر کوشش  اور سعی اسے بلاشبہ  مطلوبہ نتیجہ تک پہنچاتی ہے ، ان نتائج کے بہت سے مراتب ہیں ، یہ کوشش اسے مطلوبہ ہدف تک پہنچاتی ہے ۔ اس نگاہ سے انسان کی زندگی میں مایوسی ، افسردگی اور ناامیدی بالکل بے معنیٰ ہوجاتی ہے ، جب آپ کو معلوم ہو کہ آپ کا وجود ، آپ کی پیدائش ، آپ کی زندگی، آپ کی ہر سانس کا ایک ہدف و مقصد ہے تو آپ اس ہدف کی تلاش میں نکل پڑتے ہیں اور اس ہدف تک پہنچنے کے لئے  ہر ممکن کوشش کرتے ہیں ، پروردگارِ عالم جو اس ہستی کا خالق ہے اس کی نگاہ میں اس کاوش کا بہت زیادہ اجر و ثواب ہے ۔ آپ جس مقام تک پہنچیں گے در حقیقت ایک  مقصد و ہدف تک  پہنچیں  گے ، یہی وجہ ہے  کہ توحیدی نقطۂ نظر سے کسی بھی صورت میں مؤمن کے لئے ضرر و زیاں کا تصوّر بھی نہیں کیا جاسکتا ،ارشادہوتا ہے " مالنا الّا احدی الحسنیین"  دو میں سے ایک نیکی ہمارا مقدّر ہے اگر  ہم اس راستہ میں شہید ہوجائیں گے تو بھی کامیاب ہیں اور اگر دشمن پر فتح حاصل  کر لیں گے تو بھی اپنی منزلِ مقصود تک پہنچ جائیں گے  اور یہ ہمارے حق میں بہترین چیز ہے ، پس یہاں کسی بھی صورت میں نقصان و ضرر  نہیں پایا جاتا ۔

اس کے بالکل بر عکس مادی نقطۂ نگاہ ہے ، اس نقطۂ نگاہ کے اعتبار سے انسان کا وجود ، اس کی پیدائش اس کی زندگی بالکل بے معنیٰ ہے ، اس کا کوئی مقصد نہیں ہے ، وہ نہیں جانتا کہ وہ دنیا میں کس لئے آیا ہے ؟ البتہ ایسا انسان بھی اس مادی دنیا میں کچھ چیزوں کو اپنے ہدف و مقصد کے طور پر بیان کرتا ہے ، وہ پیسہ ، عشق ، مقام و منصب  ، جسمانی اور علمی لذّتوں کو ہدف و مقصد کے طور پر بیان کرتا ہے ، وہ ان چیزوں کو اپنے ہدف کے طور پر بیان کرسکتا ہے لیکن فطری طور پران میں سے کوئی بھی چیز اس کا ہدف نہیں قرار پاسکتی ، ان میں سے کوئی بھی چیز اس کے وجود کے لئے ضروری نہیں ہے ، اگر خدا پر اعتقاد نہ ہو تو اخلاقیات بھی سراسر  بے معنیٰ ہو جائیں گے، عدل و انصاف بھی بے معنیٰ ہوجائے گا، ذاتی لذّت اور مفاد کے سوا دوسری تمام چیزیں بے مقصد ہو جائیں گی، اگر ذاتی مفادات کے حصول میں انسان کو ناکامی ہوجائے تو ایسا انسان خسارہ و نقصان کا متحمّل ہو گا ، اس کے بعد اس پر مایوسی و ناامّیدی  چھا جائے گی ، خود کشی اور دیگر غیر معقول اقدامات کی نوبت آن پہنچے گی ۔ آپ ملاحظہ کیجئے کہ مادی اور توحیدی نقطۂ نگاہ میں کس قدر فرق ہے ،الٰہی اور مادی معرفت میں کتنا واضح فرق ہے ، یہ بصیرت کا سب سے بنیادی ستون ہے ۔

اس نقطۂ نگاہ سے جب انسان پیکار کرتا ہے تو اس کا یہ پیکار ایک مقدّس کاوش قرار پاتا ہے ، اگر مسلّح جنگ بھی کرتا ہے تو اس کا بھی یہی عالم ہے ، اس پیکار کی بنیاد بدبینی اور بدخواہی پر استوار نہیں ہوتی ، اس پیکار کا ہدف ذاتی مفادات کا حصول نہیں ہوا کرتا بلکہ یہ پیکار انسانیت کی فلاح وبہبود ، اس کے کمال اور اعلیٰ مقام تک پہنچانے کی غرض سے انجام پاتا ہے ، اس نقطۂ نظر سے زندگی کا چہرہ اور بھی زیادہ حسین ہوجاتا ہے ، اس وسیع میدان میں قدم رکھنا ایک شیریں عمل بن جاتا ہے ، خدا اور ہدف  کی یاد کی وجہ سے انسان کی تھکاوٹ دور ہو جاتی ہے ، یہ معرفت کا بنیادی ستون ہے ، یہ بصیرت کا بنیادی ستون ہے ، یہ بصیرت بہت زیادہ لازمی چیز ہے ، ہمیں اپنے اندر اس بصیرت کو پیدا کرنا چاہیے ، بصیرت درحقیقت معاشرہ میں تمام انسانی کاوشوں اور مزاحمتوں کا مقدّمہ ہے ۔ بصیرت کی ایک سطح یہ ہے ۔

بصیرت کی اس وسیع اور عمیق سطح کے علاوہ ممکن ہے  مختلف واقعات میں بھی بصیر ت اور عدمِ بصیرت انسان پر عارض ہو جائے ، انسان کو اپنے اندر بصیرت پیدا کرنی چاہیے ۔ اس بصیرت کا مفہوم کیا ہے ؟ بصیرت پیدا کرنے سے مراد کیا ہے ؟ اس بصیرت کو کیوں کر پیدا کیا جاسکتا ہے ؟ وہ بصیرت جو مختلف واقعات میں لازم و ضروری ہے ،جس کے سلسلہ میں روایات اور امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السّلام کے کلمات میں اس قدر تاکید کی گئی ہے  اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسان اپنے ارد گرد رونما ہونے والے واقعات  کے بارہ میں غورو فکر کرے ، اس بات کی کوشش کرے کہ وہ ان واقعات کو عوامانہ اور سطحی انداز سے نہ دیکھے بلکہ امیرالمؤمنین علیہ السّلام کے بقول ان سے عبرت حاصل کرے " رحم اللہ امرأ تفکر فاعتبر" (۱) خدا رحم کرے اس شخص پر جو امور میں غور و فکر کرے اور ان سے عبرت حاصل کرے ، مختلف مسائل کا بغور جائزہ لے " واعتبرفأبصر"  اس جائزہ کے ذریعہ بصیر ت پیدا کرے ،مختلف واقعات میں غور و فکر کرنے ، ان میں تدبّر کرنے سے انسان میں بصیرت پیدا ہوتی ہے ، انسان میں بینائی  پیدا ہوتی ہے اس کی چشمِ بصیر ت  کھلتی ہے جس کے ذریعہ وہ حقائق کو درک کرتا  ہے ۔ امیرالمؤمنین علیہ السّلام ایک دوسرے مقام پر فرماتے ہیں " فأنّما البصیر من سمع فتفکّر و نظر فأبصر " (۲) صاحب ِ بصیرت وہی ہے جو سنے تو غور بھی کرے ، آوازوں پر اپنے کانوں کو بند نہ کرے ، سننے کے بعد ان پر غور و فکر کرے ،کسی  سنی سنائی بات کو نہ تو رد کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اسے قبول کیا جاسکتا ہے ، اس پر غورو فکر کرنا چاہیے ۔ " البصیر من سمع فتفکّر و نظر فأبصر" ۔نظر یعنی نگاہ کرے   ، اپنی آنکھوں کو بند نہ  کرے ، بہت سے ایسے افراد جن کے قدم بے بصیرتی کی لغزش گاہوں میں ڈگمگا گئے اور وہ اس کے گڑھوں میں جا گرے  ، ایسے افراد کا سب سے بڑا گناہ یہ تھا انہوں نے نگاہ نہیں کی اور واضح حقائق کو نظرانداز کیا ، انسان کوچاہیے کہ وہ نگاہ کرے ، جب وہ نگاہ کرے گا تو اسے بہت سی چیزیں نظر آئیں گی ، بسا اوقات ہم بہت سی چیزوں پر نگاہ ڈالنے کو تیار نہیں ہوتے ، ہمارے معاند اور جانی دشمنوں کے علاوہ کچھ ایسے منحرف بھی ہیں جو ان حقائق کو دیکھنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں ، معاندین کے رویّہ پر بعد میں گفتگو کروں گا " و جحدوا بھاواستیقنتھاانفسھم ظلما و علوّا" (۳)(ان لوگوں نے ظلم و غرورکے جذبہ کی بنا پر انکار کردیاتھا  ورنہ ان کے دل کو بالکل یقین تھا)بعض لوگ حقیقی معنیٰ میں ہمارے دشمن ہیں ، ان میں دشمنی و عناد کا جذبہ کارفرما ہے ، دشمن تو دشمن ہے ، ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہے ، بحث کا موضوع ہم اور آپ ہیں جو اس ملک میں سانس لے رہے ہیں ، ہمیں اپنے اندر بصیرت پیدا کرنے کے لئے اپنی آنکھوں کو کھلا رکھنا ہوگا ۔ کچھ ایسی چیزیں ہیں جو مشاہدہ کے لائق ہیں اگر ہم ان پر سطحی نگاہ ڈالتے ہو ئے گزر جائیں اور انہیں نظرانداز کر دیں تو بلا شبہ ہم  اشتباہ کے مرتکب ہوئے ہیں ، اس سلسلہ میں ، میں ایک تاریخی مثال پیش کرنا چاہتا ہوں ، جنگِ صفّین میں معاویہ کا لشکر شکست کے دھانے پر تھا ، اس کے قلع قمع ہونے میں کچھ ہی دیر باقی تھی ، معاویہ کے لشکر نے اپنی نجات کا جو طریقہ تلاش کیا وہ یہ تھا کہ اس  نے قرآن کو نیزوں پر بلند کیااور اسے میدان میں لایا، اس کا مطلب یہ تھا کہ قرآن ہمارے اور آپ کے درمیان حکم قرار پائے ، اس نے کہا کہ آئیے ہم قرآن کے فیصلہ پر عمل کریں ، یہ کام عوام پسند اور بظاہر اچھا کام تھا ، اس سے دھوکہ کھا کر امیرالمؤمنین علیہ السّلام کے لشکر کا ایک گروہ جو بعد میں خوارج کے نام سے مشہور ہوا امیرالمؤمنین علیہ السّلام کے سامنے تلوار کھینچ کر کھڑا ہو گیا ، امیرالمؤمنین علیہ السّلام کے لشکر کے اس گروہ نے اس پر فریب نعرہ کو دیکھا اور کہا کہ یہ کوئی بری چیز نہیں ہے ، معاویہ کا لشکر کوئی بری بات نہیں کہہ رہا ہے ، وہ قرآن کو حکم اور قاضی بنانا چاہتا ہے ، آپ ملاحظہ کیجئے کہ یہ دھوکہ کھانے کا مقام ہے ، یہاں پر اس گروہ کے قدم اس لئے ڈگمگا گئے چونکہ انہوں نے اس لغزش گاہ پر توجہ نہیں کی ، ان کی یہ لغزش ناقابل بخشش ہے، انہوں نے اپنے پیروں کے نیچے خربوزہ کے چھلکوں کو نہیں دیکھا ، اس پر نگاہ نہیں کی ، اگر وہ حقیقت سمجھنا چاہتے تو حقیقت ان کے سامنے بالکل عیاں تھی ۔ وہ شخص جو قرآن کی حکمیت کی دہائی دے رہا ہے وہ ایک واجب الطّاعۃ  امام کے مدِّ مقابل تلوار چلا رہا ہے ! اس کا قرآن پر کیسا اعتقاد ہے ؟ ہمارے عقیدہ کے صرفِ نظر کہ ہم امیرالمؤمنین علیہ السّلام کو پیغمبرِ اسلام (ص)کی  جانب سے منصوب و منصوص خلیفہ جانتے ہیں ، جو لوگ اس عقیدہ کو نہیں مانتے وہ بھی اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ خلیفۂ سوّم کے بعد تمام لوگوں نے امیرالمؤمنین (ع)کی بیعت کی ، آپ کی خلافت کو قبول کیا ، جس کی رو سے امیرالمؤمنین (ع) تمام امّت کے امام تھے ، آپ اسلامی معاشرہ کے واجب الطّاعہ امام تھے ۔ آپ کے مدِّ مقابل جو بھی آتا ، آپ سے جو بھی جنگ کرتا ، تمام مسلمانوں کا یہ فریضہ تھا کہ وہ اس کا مقابلہ کریں ، جوشخص قرآن کو نیزوں پر بلند کر رہا تھا اگر وہ واقعی طور پر قرآن پر عقیدہ رکھتا تھا تو اسے قرآن کی یہ بات سنائی کیوں نہیں دی کہ تم علی سے کیوں لڑ رہے ہو؟ اگر وہ حقیقت میں قرآن کا معتقد تھا تو اسے سرِ تسلیم خم کر لینا چاہیے تھا اور جنگ سے دست بردار ہو جانا چاہیے تھا ، تلوار پھینک دینی چاہیے تھی ، امیرالمؤمنین (ع) کے لشکر کے اس گروہ کو اسے دیکھنا چاہیے تھا ، اسے سمجھنا چاہیے تھا ، کیا یہ کوئی  مشکل بات تھی ؟ کیا یہ کوئی پیچیدہ چیز تھی جسے سمجھا نہ جا سکے ؟ انہوں نے کوتاہی کی ،  بے بصیرتی اسے کہتے ہیں ۔ اگر انہوں نے اس میں تھوڑابہت بھی غور وفکر کیا ہوتاتو حقیقت کو سمجھ جاتے ؛یہ لوگ خود بھی  مدینہ میں امیرالمؤمنین علیہ السّلام کے اصحاب میں  شمار ہوتے تھے یہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے تھے کہ عثمان کے قتل میں معاویہ کے ماننے والے افراد ملوّث تھے ، انہوں نے عثمان کے قتل میں مدد کی اس کے باوجود عثمان کے خون کا بدلہ لینے کے لئے اس  کے کرتے کا سہارا لیا ،انہوں نے خود یہ کام انجام دیا ، سارا قصور ان کا اپنا تھالیکن اس کے باوجود قصوروار کی تلاش میں تھے ، آپ ملاحظہ کیجئے کہ یہ عدمِ بصیرت  ، عدمِ دقّت  کا ثمرہ ہے ، نگاہ نہ کرنے کا نتیجہ ہے ، ایک واضح حقیقت کو نظر انداز کرنے کا نتیجہ ہے ۔

گذشتہ سال کے فتنہ کے واقعات کے دوران کچھ لوگ انحراف کا شکار ہوئے اس کی سب سے بڑی وجہ سیاسی شعور اور بصیرت کا فقدان تھا ، ایک بہت بڑے اور باعظمت الیکشن میں دھاندلی کا الزام لگایا جاتا ہے ، اس مسئلہ کا راہِ حل بالکل واضح ہے ، اگر کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے تو سب سے پہلے  اسے اس کی دلیل پیش کرنا چاہیے ، دھاندلی پر دلیل قائم کرے، اس کے بعد  قانونی چارہ جوئی کرے ، وہ شکایت کرسکتا ہے ۔ تاکہ نتائج کی چھان بین ہو ، الیکشن میں دھاندلی کے الزامات کا جائزہ لینے کے لئے ایک غیر جانبدار گروہ تشکیل پائے  جو اس الزام کی حقانیت کا پتہ لگائے ، اس کاواحد راستہ یہ ہے ، میں نے اس سلسلہ میں بہت زیادہ مدد کی ، اعتراض کی قانونی مدّت کو بار بار بڑھایا، میں نے یہاں تک کہا کہ ٹیلیویژن کے کیمروں کے سامنے ووٹوں کی دوبارہ گنتی  کریں لیکن اگر اس کے باوجود اگر کوئی شخص اس قانونی راستہ کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنے کے لئے تیّار نہ ہو تو اسے ہٹ دھرمی کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے (۴)آپ ملاحظہ کیجئے ۔ اس گفتگو سے ہمارا یہ مقصد نہیں ہے کہ ہم گذشتہ واقعات کے بارہ میں اظہارِ خیال کریں ؛ ہم ایک مثال پیش کرنا چاہتے ہیں ، بصیرت اور سیاسی شعور کو پیدا کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے ، اگر آپ یہ مشاہدہ کریں کہ کسی مسئلہ کے سلسلہ میں ایک قانونی راہِ حل موجود ہولیکن  کوئی شخص اسے قبول کرنے سے انکار کر رہا ہو ، ایسا عمل انجام دے جو ملک و ملّت کے مفاد کے خلاف ہو، منصفانہ اور غیر جانبدارانہ نگاہ سے اس کا یہ عمل  یقیناقابلِ مذمّت ہے ۔ یہ ایک واضح و آشکار چیز ہے ، ایک اٹل اور واضح فیصلہ ہے ، آپ ملاحظہ کیجئے کہ بصیرت کا مطالبہ  کسی ناممکن اور مشکل امر کا مطالبہ نہیں ہے ۔ بصیرت اور سیاسی شعور کو پیدا کرنا کوئی سخت کام نہیں ہے ،بصیرت پیدا کرنے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ انسان ، دوستیوں اور دشمنیوں ، نفسانی خواہشات ، بدگمانی اور طرفداری  کے جال میں اسیر نہ ہو ، اگر انسان اپنے اردگرد رونما ہونے والے واقعات کا بغور جائزہ لے تو حقیقت تک پہنچ سکتا ہے ۔ بصیرت کا تقاضا حقیقت میں یہی غورو فکر اور تدبّر کا  تقاضا ہے ، نگاہ کرنے کا مطالبہ ہے ، اس سے بڑھ کر  کسی چیز کا مطالبہ نہیں ہے ، اس سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ بصیرت اور سیاسی شعور کو پیدا کرنا ہر شخص کا  کام ہے ، سبھی افراد بصیرت کی دولت سے مالا مال ہوسکتے ہیں ۔ البتّہ بعض افراد معاند و بد خواہ نہ ہونے کے باوجود غفلت کی بناپر  بصیرت سے محروم رہتے ہیں ، انسان اگر چہ اپنی جان کو بہت زیادہ عزیز رکھتا ہے لیکن عین ممکن ہے کہ  کبھی کبھی گاڑی چلاتے وقت ایک لمحہ کے لئے اس کا دھیان کہیں اور چلا جائے ،اسے اونگھ آجائے  جس کی بنا پر ایک سانحہ رونما ہوجائے، ان جیسی لغزشوں کو گناہوں میں شمار نہیں کیا جاسکتا لیکن اگر یہ لغزشیں بار بار دہرائی جائیں تو یہ بصیرت  کےفقدان کا ثمرہ ہیں ، انہیں قبول نہیں کیا جاسکتا ہے  ۔

عصرِ حاضر میں سافٹ ویئرجنگ کے میدان میں دشمن کا سب سے اہم کام یہ ہے کہ وہ ہمارے ملک کی سیاسی فضاکو غبارآلود بنانے کے درپے ہے ، ہمیں اس پر توجّہ دینی چاہیے ، موجودہ زمانہ میں دشمن کا سب سے اہم کام یہ ہے ، سیاسی ماہرین اور مبصّرین اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ موجودہ دور میں بڑی طاقتوں کی طاقت نہ تو ان کے ایٹمی ہتھیاروں میں ہے ، نہ مختلف بینکوں میں جمع ان کے سرمایے میں ہے  بلکہ ان کی اصلی طاقت ان کی پروپیگنڈہ مشینری میں ہے ، ان کی اس اونچی آواز میں ہے جو دنیا کے کونے کونے تک پہنچ رہی ہے ، وہ پروپیگنڈہ کے مختلف طریقوں سے بخوبی واقف ہیں ، انصاف سے دیکھا جائے تو انہوں نے اس میدان میں کافی ترقّی بھی کی ہے ، اہلِ مغرب( خواہ وہ یورپی ممالک ہوں یا امریکہ ہو )نے پروپیگنڈہ کے انتہائی ماڈرن اور پیشرفتہ طریقے سیکھ لئے ہیں ہم اس میدان میں بہت پیچھے ہیں ، ان کا ایک بنیادی کام یہ ہے کہ وہ پروپیگنڈہ کرنے میں مہارت رکھتے ہیں ، وہ اس پروپیگنڈہ ، ہلڑ ہنگامہ اور غیر واقعی باتوں کے ذریعہ مختلف اقوام اور معاشروں پر اثرانداز ہورہے ہیں، ہمیں اس نکتہ پر توجّہ دینی چاہیے ، اس سلسلہ میں ہوشیار رہنا چاہیے ، موجودہ زمانہ میں ہمارے جوانوں پر اس سلسلہ میں سنگین ذمّہ داری عائد ہوتی ہے ، آپ کی ذمّہ داری محض اس حد تک محدود نہیں ہے کہ آپ حق  و حقیقت کو پہچانیں بلکہ آپ کی ذمّہ داری یہ ہے کہ اپنے اردگرد کے ماحول کو حقیقت سے روشناس کرائیں ، اسے بصیرت و آگہی فراہم کریں ،  اس کے لئے مختلف حقائق کو واضح کریں۔

ایک  بنیادی نکتہ یہ ہے کہ باطل بالکل واضح و آشکار شکل میں انسان کے سامنے ظاہر نہیں ہوتا وہ غالبا حق کے بھیس میں میدان میں داخل ہوتا ہے ، امیرالمؤمنین علیہ السّلام کا ارشادِ گرامی ہے " انّما بدء  وقوع الفتن اھواء تتّبع واحکام تبتدع یخالف فیھا کتاب اللہ " (فتنوں کی ابتدا ان خواہشات سے ہوتی ہے جن کا اتباع کیا جاتا ہے اور ان جدید ترین احکام سے ہوتی ہے جو گڑھ لئے جاتے ہیں اور سراسر کتابِ خدا کے خلاف ہوتے ہیں ) اس کے بعد امیرالمؤمنین علیہ السّلام فرماتے ہیں " فلو انّ الباطل خلص من مزاج الحقّ لم یخف علی المرتادین ولو انّ الحق خلص من لبس الباطل انقطعت عنہ السن المعاندین"(۵)(اگر باطل حق کی آمیزش سے الگ رہتا تو حق کے طلبگاروں پر مخفی نہ ہو سکتا اور اگر حق باطل کی ملاوٹ سے الگ رہتاتو دشمنوں کی زبانیں نہ کھل سکتیں) اگر حق و باطل بالکل واضح انداز میں میدان میں آئیں تو کوئی اختلاف باقی نہیں رہے گا ، سبھی لوگ حق کو دوست رکھتے ہیں اور باطل سے نفرت کرتے ہیں ، " ولیکن یؤخذ من ھذا ضغث ومن ھٰذا ضغث فیمزجان فحینئذ یشتبہ الحق علیٰ اولیائہ " (لیکن ایک حصہ اس میں سے لیا جاتا ہے اور ایک اس میں سے اور پھر دونوں کو ملا دیا جاتا ہے ) حق اور باطل کو ایک دوسرے سے ملا دیتے ہیں ، دونوں کو واضح و آشکار طور پر سامنے آنے کی اجازت نہیں دیتے ، جس کی وجہ سے مخاطب شک و شبہ میں گرفتار ہو جاتے ہیں ، اس سے ہوشیار رہنا چاہیے ، آج عالمی پروپیگنڈہ کی پوری کوشش ہے کہ وہ اس ملک ، سماج اور اسلامی نظام کے حقائق کو توڑ مروڑ کر بیان کریں ، ان کے پاس پروپیگنڈہ کے بے شمار وسائل بھی ہیں ، وہ مسلسل اس کام میں مشغول ہیں ، البتّہ ملک کے اندر بھی کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جو دانستہ یا نادانستہ طور پر ان کی باتوں کو دہرا رہے ہیں ، ان کی باتوں کی ترجمانی کرتے ہیں ، یہاں ایک دوسرا نکتہ بھی پایا جاتا ہے اور وہ یہ ہے کہ بسا اوقات بصیرت کے باوجود لغزشوں اور غلطیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے ، اسی چیز کے مدِّ نظر ہم نے کہا کہ کامیابی کے لئے بصیرت ایک لازمی شرط ضرور ہے لیکن کافی نہیں ہے ۔ بصیرت کے علاوہ کچھ دیگر عوامل کا ہونا بھی ضروری ہے ، اگر بصیرت کے ساتھ ساتھ عزم و ارادہ نہ ہو تو کامیابی سے ہمکنار ہونا ممکن نہیں ہے ، بعض افراد حقائق سے واقف ہیں لیکن اقدام کے لئے فیصلہ نہیں کرپاتے  ، حق کے دفاع کے لئے کھلم کھلا میدان میں نہیں آتے  ، ان میں قوّت ِ ارادی کا فقدان ہوا کرتا ہے ، قوّت ِ ارادی کے فقدان کے بہت سے علل و اسباب ہیں ، کبھی آسائش وآرام کی چاہت ، کبھی نفسانی خواہشات کی پیروی ، کبھی شہوت ، کبھی ذاتی مفادات اور ہٹ دھرمی اس قوّتِ ارادی کے فقدان کا باعث بنتی ہے ، کبھی کبھی کوئی شخص کسی بات کو زبان پر لاتا ہے اور یہ جانتے ہوئے کہ یہ بات درست نہیں ہے بلاوجہ کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس پر باقی رہتا ہے چونکہ اسے اس بات کا ڈر ہوتا ہے کہ اگر وہ اپنی بات سے پھر جائے گا تو لوگ اس کی سرزنش کریں گے ، ایک روایت میں ہے " لعن اللہ الّلجاج "  ہٹ دھرمی کرنے والے پر خدا کی لعنت ہو ، کچھ لوگ حقائق سے باخبر ہونے کے باوجود دشمن کے راستہ پر چلتے ہیں اور اس کی مدد کرتے ہیں ۔ عصرِ حاضر میں جو لوگ انقلاب سے منحرف ہو چکے ہیں وہ ماضی میں تند رو اور افراطی قسم کے انقلابی تھے ، لیکن آج اس کے بالکل برعکس انقلاب کے مدِّ مقابل کھڑے ہیں اور انقلاب مخالف عناصر کی خدمت کر رہے ہیں ! اس کی سب سے بڑی وجہ وہ عوامل ہیں  جن کا ہم نے تذکرہ کیا ، نفسانی خواہشات کی پیروی ، مادیات کے سیلاب میں غرق ہوناوہ عوامل ہیں جن کی وجہ سے بعض افراد  کا رویّہ ۱۸۰ ڈگری تک تبدیل ہوجاتا ہے ، مذکور عوامل کی پیدائش کا اصلی عامل پروردِ گارِ عالم کی یاد سے غفلت ، ذمّہ داری سے غفلت ، موت اور قیامت سے غفلت ہے ۔

البتہ بعض افراد نادانستہ طور پر غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں ، انہیں قصوروار نہیں ٹہرایا جاسکتا، ہم نے کچھ ایسے بھی لوگ دیکھے جنہیں کچھ لوگوں نے تحفہ ، ہدیہ اور محبّت کے اظہار کے عنوان سے پیسہ دیا، تحفے تحائف دئیے ، انہوں نے اس پیسہ کو قبول کر لیا اور یہ نہیں سمجھ سکے کہ یہ درحقیقت رشوت ہے ، حقیقی دنیا میں بہت سی ایسی چیزیں پائی جاتی ہیں جو ظاہری اعتبار سے ایک دوسرے کے ہوبہو ہوتی  ہیں لیکن حقیقت میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہوتی ہیں ، یہاں سب سے اہم چیز یہ ہے  کہ انہیں یہ سمجھنا چاہیے تھا کہ آیا یہ چیزرشوت کے دائرہ میں تو نہیں آتی ۔اگر آپ کسی منصب پر فائز ہوں اور کسی شخص کے لئے اس کی منشا کے مطابق کوئی  کام انجام دے سکتے ہوں، وہ شخص آپ کی دست بوسی کرے یا پیسہ دے تو آپ کو جان لینا چاہیے کہ اس کا نام رشوت ہے ، حرام رشوت یہی ہے ۔

فتنہ کے دور کے واقعات کی مثال بھی ایسی ہی ہے ، کچھ لوگ سوچے سمجھے بغیر اس فتنہ میں داخل ہوئے ، انہیں معلوم نہیں تھا کہ یہ اسلامی نظام کا تختہ الٹنے کی سازش ہے ، وہ نہیں سمجھ پائے کہ یہ وہی فتنہ ہے جس کے بارہ میں امیرالمؤمنین علیہ السّلام کا ارشادِ گرامی ہے : " فی فتن داستھم بأخفافھا و وطئتھم بأظلافھا و قامت علی سنابکھا" ۔ (۶) جو لوگ فتنہ میں گرفتار ہوتے ہیں فتنہ ان کی عقل و خرد کو نابو د کردیتا ہے ، کچھ لوگ  یہ سمجھ نہ سکے کہ یہ فتنہ ہے ، کسی نے کوئی بات کہی انہوں نے بغیر سوچے سمجھے اس کو دہرایا، لہٰذا سب پر ایک حکم نہیں لگایا جاسکتا، معاند کا حکم غافل سے مختلف ہے ، البتّہ غافل کو خوابِ غفلت سے جگانے کی ضرورت ہے ، میں آپ سے یہ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ اگر آپ ایران کی تعمیر و ترقّی کے خواہاں ہیں ، اگر آپ اپنے ملک و ملّت  اور تاریخ کو سرفراز کرنا چاہتے ہیں تو بیدار رہیے ، ہوشیار رہیے ، میدان میں موجود رہیے ، بصیرت کو اپنے عمل کا محور قرار دیجئیے ، عدمِ بصیرت میں مبتلا ہونے سے خبردار رہیے ، اگر آج کے دور میں کوئی اسلامی جمہوریۂ ایران کی سربلندی کے لئے کوشش کر رہا ہے تووہ در حقیقت  اپنے ملک ، اپنی قوم، اپنی تاریخ اوردینِ اسلام کی خدمت کررہا ہے ، اسلام، بشریت کی نجات کا باعث ہے ۔

دشمن کو پہچانئیے ، دشمن کی دلفریب باتوں کے جھانسے میں نہ آئیے ، مادیات کی طرف میلان ، مادی نظریۂ حیات ، مادی تفکّر ، مادی تہذیب و تمدّن آپ اور تمام عالمِ انسانیت کا دشمن ہے ، مغربی دنیا نے تقریبا دو ، تین صدی پہلے جدید ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل کی  جس کے ذریعہ مال و دولت کے انبار لگائے ، وہاں مختلف اجتماعی مکاتبِ فکر منصّۂ شہود میں آئے ، مختلف فلسفی مکاتب و نظریات کا ظہور ہوا ، انسان محوری پرمبنی لیبرل نظریہ وجود میں آیا ، ڈیموکریسی اور اس جیسے دیگر افکار و نظریات نے جنم لیا ، ان مکاتبِ فکر اور ان کے پیروکاروں کا ہدف یہ تھا کہ ان کے ذریعہ عالمِ انسانیت کو آسائش و آرام فراہم کیا جائے ، اس کی مادی ضروریات کو پورا کیا جائے لیکن حقیقت میں جو چیز رونما ہوئی وہ اس کے بالکل برعکس تھی ، انسان محوری کے نظریہ اور انسان محور حکومتوں کے سایہ میں نہ فقط یہ کہ عالمِ انسانیت کو آسائش و آرام نہیں ملا بلکہ زیادہ ترجنگیں، زیادہ تر قتل و غارت ، بدترین مظالم اور انسانوں کے ایک دوسرے کے ساتھ سب سے برا رویّہ  اسی دور میں  وجود میں آیا ۔                                جن لوگوں نے ٹیکنالوجی کے میدان میں جس قدر زیادہ پیشرفت کر رکھی تھی وہ اتنے ہی برے تھے ، میں نے امریکی ذرائع ابلاغ کے حوالہ سے  کل ہی ایک اخبار میں یہ خبر پڑھی ہے کہ امریکہ نے  چالیس کے عشرہ سے لے کر نوّے کے عشرہ تک ، ان پچاس برسوں میں پوری دنیا میں تقریبا اسّی فوجی انقلاب برپا کئے ہیں !آپ ملاحظہ کیجئے کہ جو لوگ ، ثروت ، ٹیکنالوجی، اسلحہ و فوج  وغیرہ کے اعتبار سے  درجۂ کمال پر فائز ہیں ان کی حیوانیت و درندگی کا کیا عالم ہے ! قتل و غارت ان کا وتیرہ بن چکا ہے ، ان کے الفاظ میں وہ انتہائی سکون و آرام سے قتل و غارت میں مشغول ہیں ،  مغربی دنیا میں یہ تعبیر رائج ہے کہ فلاں شخص نے انتہائی سکون سے کسی انسان کا قتل کیا !یہ انتہائی  سنگدلی کی علامت ہے ، نہ صرف افغانستان اور عراق اور جہاں جہاں ان کا فوجی قبضہ ہے ان ممالک میں بلکہ ان کے اپنے مجموعوں اور ممالک کی اندورنی صورت حال بھی یہی ہے ، انہیں دیکھئے کہ کس زبان میں بات کرتے ہیں یہ زبان انکی  زندگی کے حقائق کی ترجمان ہے ، ان کا ہنر ، ان کی زبان ان کی زندگی کے رازوں کو برملا کر رہی ہے ، انسانوں کا خون بہانا ان کے لئے ایک انتہائی آسان کام ہے ، دوسری طرف ان کے عوامی اجتماعات میں ، ان کے جوانوں میں مایوسی ، افسردگی اور اجتماعی آداب  کی پامالی کو بخوبی دیکھا جاسکتا ہے ، لباس اور زینت کے طور طریقہ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہاں کا جوان اس ماحول سے تنگ آچکا ہے جو وہاں حکمفرما ہے ، یہ مغربی دنیا کے خود ساختہ  مکاتبِ فکر اور فوجی نظاموں کی دین ہے ، ان سب چیزوں کا سب سے بڑا عامل یہ ہے کہ مغربی دنیا دین ، معنویت اور خدا سے دور ہو چکی ہے ، جس کی بنا پر ان کا رویّہ انسانیت دشمن رویّہ میں تبدیل ہو چکا ہے ۔

  عصرِ حاضر میں آپ ان کے رویّہ کے بالکل برعکس رویّہ کا مظاہرہ کر رہے ہیں ، آپ الٰہی تفکّر کے ذریعہ سائنس و ٹیکنالوجی کو مسخر کرنا چاہتے ہیں ، آپ عالم انسانیت ، اقوام ِ عالم اور اپنی ملّت کی مادی و معنوی فلاح و بہبود کے لئے تمام قدرتی و انسانی وسائل کو بروئے کار لانا چاہتے ہیں ، آپ کا راستہ خدائی راستہ ہے ، آپ کو یقینا کامیابی حاصل ہو گی ، آپ ترقّی کریں گے یہ وہی راستہ ہے جو مغربی دنیا کے گذشتہ دو ، تین صدیوں کے منحرف راستہ  کا مقابلہ کر رہا ہے ، یہ ایک  مبارک حرکت ہے جوآئندہ بھی  جاری رہے گی ۔

ایران کا مسلم نوجوان اپنے آپ کو آمادہ کرے  ، اپنے آپ کو لیس کرے  ، ترقّی کے راستہ میں پروردگارِعالم پر بھروسہ کرے  ، خدا سے مدد مانگے ، بصیرت کے ساتھ قدم بڑھائےاس صورت میں وہ دنیا میں رائج غلط طریقہ کا مقابلہ کر نے کا راستہ تلاش کرلے گا ، اور اس انقلاب اور اسلام کی تمام امنگوں اور آرزؤں کو پورا کر سکے گا ۔

والسّلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(۱) نہج البلاغہ ، خطبہ نمبر ۱۰۳

(۲) نہج البلاغہ ، خطبہ نمبر ۱۵۳

(۳) سورۂ نحل ، آیت ۱۴

(۴) حضارِجلسہ کا نعرہ

(۵) نہج البلاغہ ، خطبہ نمبر ۵۰

(۶) نہج البلاغہ ، خطبہ نمبر ۳