ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی
دریافت:

استفتاآت کے جوابات

  • تقلید
  • احکام طهارت
  • احکام نماز
  • احکام روزہ
  • خمس کے احکام
  • جہاد
  • امر بالمعروف و نہی عن المنکر
  • حرام معاملات
  • شطرنج اور آلات قمار
  • موسیقی اور غنا
  • رقص
  • تالی بجانا
  • نامحرم کی تصویر اور فلم
  • ڈش ا نٹینا
  • تھیٹر اور سینما
  • مصوری اور مجسمہ سازی
  • جادو، شعبدہ بازی اور روح و جن کا حاضر کرنا
  • قسمت آزمائی
  • رشوت
  • طبی مسائل
  • تعلیم و تعلم اور ان کے آداب
  • حقِ طباعت ، تالیف اور ہنر
  • غیر مسلموں کے ساتھ تجارت
  • ظالم حکومت میں کام کرنا
  • لباس کے احکام
  • مغربی ثقافت کی پیروی
  • جاسوسی، چغلخوری اور اسرار کا فاش کرنا
  • سگریٹ نوشی اور نشہ آور اشیاء کا استعمال
  • داڑھی مونڈنا
  • محفل گناہ میں شرکت کرنا
  • دعا لکھنا اور استخارہ
  • دینی رسومات کا احیاء
  • ذخیرہ اندوزی اور اسراف
  • تجارت و معاملات
  • سود کے احکام
  • حقِ شفعہ
  • اجارہ
  • ضمانت
  • رہن
  • شراکت
  • ہبہ
    پرنٹ  ;  PDF
     
    ہبہ
     
    سوال 1715:کیا نابالغ یتیم کی طرف سے ہدیہ کردہ مال میں تصرف کرنا شرعا جائز ہے؟
    جواب: اس کے شرعی ولی کی اجازت پر موقوف ہے۔
     
    سوال 1716: دو بھائی زمین کے ایک قطعے میں برابر شریک ہیں اور ان میں سے کسی ایک نے اپنا حصہ بڑے بھائی کے بیٹے کو ہبہ معوضہ کے طور پر بخشا اور تحویل میں دے دیا ؛ کیا ہبہ کرنے والے کے بچے اپنے باپ کی وفات کے بعد زمین کے مذکورہ حصے میں ارث کا دعوی کرسکتے ہیں؟
    جواب: اگر ثابت ہوجائے کہ مرنے والے بھائی نے اپنی حیات میں اس زمین میں سے اپنا حصہ اپنے بھتیجے کو بخشا اور تحویل میں دے کر اس کے اختیار میں دے دیا ہے تو اس کی موت کے بعد اس کے ورثاء اس میں کوئی حق نہیں رکھتے ہیں۔
     
    سوال 1717: اگر کوئی شخص اپنے باپ کی زمین پر اس کے لئے کوئی گھر بنائے اور اس کی حیات میں ہی اس کی اجازت سے اپنے لئے ایک منزل تعمیر کرے؛ اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ باپ کی وفات کے کئی سال بعد وہ شخص بھی مرجائے اور ہبہ یا اس میں تصرف کی کیفیت پر دلیل کے طور کوئی سند یا وصیت نامہ موجود نہ ہو؛ کیا دوسری منزل اس کی ملکیت ہوگی اور مرنے کے بعد اس کے ورثاء کی ملکیت میں منتقل ہوجائے گی؟
    جواب: اگر بیٹے نے اپنے تصرف میں موجود دوسری منزل بنانے کے اخراجات ادا کئے ہوں اور باپ کی حیات میں کسی تنازع کے بغیر اس کے اختیار میں رہی ہو تو شرعی طور پر اس کی ملکیت کے حکم میں ہوگی اور وفات کے بعد بھی اس کا ترکہ شمار کیا جائے گا اور ورثاء کا ہوگا۔
     
    سوال 1718: جب میں گیارہ سال کا تھا تو میرے باپ نے رسمی طور پر ایک گھر کو میرے نام پر کردیا؛ ایک زمین اور ایک مکان کا آدھا حصہ میرے بھائی کے نام اور دوسرا آدھا حصہ میری ماں کے نام کردیا۔ میرے باپ کی وفات کے بعد دوسرے ورثاء نے دعوی کیا کہ جو مکان والد نے میرے نام کردیا ہے وہ شرعا میرا نہیں ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ باپ نے قبضے سے بچانے کے لئے گھر میرے نام پر کردیا ہے حالانکہ جن املاک کو میرے بھائی اور ماں کے نام پر کردیا ہے ان پر ان کی ملکیت کا اعتراف بھی کرتے ہیں۔ اس بات کی طرف توجہ کرتے ہوئے کہ میرے باپ نے کوئی وصیت نہیں کی اور اس بات پر کوئی ثبوت بھی نہیں ہے؛ اس کا کیا حکم ہے؟
    جواب: باپ نے اپنی حیات میں جن املاک کو بعض ورثاء کو ہبہ کرکے تحویل دیا ہو اور اس کے لئے ثبوت کے طور پر رسمی سند بھی اس کے نام پر کردی ہو تو شرعا اس کی ملکیت ہوگی اور دوسرے ورثاء اس کے ساتھ تنازع کا حق نہیں رکھتے، مگر یہ کہ معتبر طریقے سے ثابت کریں کہ ان کے باپ نے املاک کو اسے نہیں بخشا ہے اور رسمی سند (حقیقی نہ ہو بلکہ صرف) دفتری ہو۔
     
    سوال 1719: جب میرا شوہر گھر کی تعمیر میں مصروف تھا تو میں بھی اس کی مدد کرتی تھی اور یہی تعمیراتی اخراجات میں کمی اور گھر کی تکمیل کا باعث بنی۔ اس نے خود کئی مرتبہ کہا کہ میں بھی گھر میں اس کے ساتھ شریک ہوں اور کام مکمل ہونے کے بعد اس کا ایک تہائی حصہ میرے نام پر کردے گا لیکن وہ اس کام کے انجام سے پہلے فوت ہوگیا اور میرا دعوی ثابت کرنے کے لئے اس وقت کوئی سند اور وصیت نامہ میرے پاس نہیں ہے؛ اس مسئلے کا کیا حکم ہے؟
    جواب: گھر میں شریک کرنے کے فقط وعدے پر اس کی تعمیر میں صرف مدد کرنا ملکیت میں شراکت کا باعث نہیں ہےاس بنا پر جب تک معتبر طریقے سے یہ ثابت نہ ہوجائے کہ آپ کے شوہر نے اپنی حیات میں گھر کا ایک حصہ آپ کو بخش دیا ہے ،اپنے ارث کے علاوہ آپ کو کوئی حق حاصل نہیں ہے۔
     
    سوال1720: میرے شوہر نے جب اس کی عقل صحیح و سالم تھی، بینک کے ذمہ دار شخص کو بلایا اور اپنے اکاونٹ میں موجود پیسے مجھے ہبہ کیا اور سند پر دستخط بھی کیا کہ پیسے نکالنے کا حق مجھے ہوگا جس پر ہسپتال کے سربراہ اور بینک کا مسئول گواہ بھی تھے۔ اسی بنیاد پر بینک نے مجھے چیک جاری کیا اور پورے مہینے میں، میں نے کچھ رقم نکال لی۔ ڈیڑھ مہینہ گزرنے کے بعد شوہر کو اس کے بیٹے نے بینک لے گیا جب کہ اس کا دماغ کام نہیں کررہا تھا۔ انہوں نے (شوہر سے) پوچھا کہ کیا یہ مال تیری بیوی کا ہے؟ اس نے سر کے ذریعے ہاں میں جواب دیا۔ دوبارہ سوال کیا کہ کیا یہ تیرے بچوں کا نہیں ہے؟ اسی طرح اثبات میں جواب دیا۔ کیا یہ مال میرا ہے یا میرے شوہر کے بچوں کا ہے؟
    جواب: چونکہ ہبہ میں ملکیت حاصل ہونے کے لئے قبضہ شرط ہے اور فقط سند پر دستخط کرنا اور پیسے نکالنے کے لئے متعلقہ بینک سے چیک ملنا کافی نہیں ہے لہذا صرف دستخط اور چیک دریافت کرنا اس ہبہ کے صحیح ہونے کا باعث نہیں ہے لذا جو رقم شوہر کی ذہنی سلامتی کے دوران اس کی اجازت سے بینک سے نکالی ہے وہ آپ کا مال ہے اور بینک میں آپ کے شوہر کا باقی ماندہ مال اس کی وفات کے بعد ترکہ اور ورثاء کا ہوجائے گا اور اس اقرار کی کوئی حیثیت نہیں ہے جو اس نے بے شعوری کے عالم میں کیا ہے اور اگر اس میں کوئی قانون موجود ہے تو اس کی رعایت کی جائے گی۔
     
    سوال 1721: ماں کی حیات میں بچے اس کے استعمال کے لئے جو اشیاء خریدتے ہیں کیا اس کے ذاتی اموال ہوں گے کہ اس کی وفات کے بعد ترکہ شمار کیا جائے؟
    جواب: اگر بچوں نے مذکورہ اشیاء ماں کو بخش دیا اور اس کے اختیار میں رکھا ہو تو ماں کی ملکیت ہوگی اور اس کی وفات کے بعد ترکہ شمار ہو گا۔
     
    سوال 1722: شوہر اپنی بیوی کے لئے طلائی زیورات خریدے تو کیا شوہر کا مال شمار ہوگا کہ وفات کے بعد اس کا ترکہ سمجھا جائے اس طرح ورثاء کے درمیان تقسیم کیا جائے اور بیوی بھی اس سے اپنا حصہ لے لے یا بیوی کا مال شمار ہوگا؟
    جواب: اگر جواہرات بیوی کے اختیار اور تصرف میں ہوں اس طرح کہ مالک کی حیثیت سے تصرف کا حق رکھتی ہو تو جواہرات کی ملکیت بیوی کو مل جائے گی مگر یہ کہ اس کے برخلاف ثابت ہوجائے۔
     
    سوال1723: ازدواجی زندگی کے دوران میاں بیوی کو ملنے والے تحفے کیا شوہر کے ہوں گے یا بیوی کے یا دونوں کے؟
    جواب: مذکورہ تحفے شوہر کے ہیں یا بیوی کے یا دونوں کے، تحفے مختلف ہوتے ہیں اسی وجہ سے مسئلہ بھی فرق کرتا ہے۔ جو تحفہ دونوں میں سے کسی کے لئے خصوصی طور پر ملا ہو تو اسی شخص کا ہوگا اور جو تحفہ دونوں کے لئے مشترک ملا ہو وہ دونوں میں مشترک ہوگا۔
     
    سوال 1724: اگر مرد بیوی کو طلاق دے تو کیا بیوی شادی کے دوران ماں باپ کے گھر سے ساتھ لایے ہوے اموال (مثلا قالین، بیڈ، لباس وغیرہ) کا شوہر سے مطالبہ کرسکتی ہے؟
    جواب: اگر ایسی چیزیں ہوں جو بیوی نے اپنے گھر والوں سے لی ہوں یا ذاتی ہوں جس کو اپنے لئے خریدا ہو یا ذاتی طور پر اس کے لئے ہبہ کیا گیا ہو تو اس کی ملکیت ہوگی اور اگر موجود ہو تو شوہر سے مطالبہ کرسکتی ہے لیکن ایسی اشیاء جو بیوی کے خاندان یا قبیلے والوں نے داماد کو ہدیہ کردیا ہو تو شوہر سے ان کا مطالبہ نہیں کرسکتی ہے بلکہ ایسے اموال پر ہدیہ کرنے والے کا اختیار ہوگا کہ اگر وہ ہدیہ باقی ہو اور شوہر اس کا رشتہ دار نہ ہوتو ہدیہ کرنے والا ہبہ کو فسخ کرکے واپس لے سکتا ہے۔
     
    سوال 1725: میں نےاپنی بیوی کو طلاق دینے کے بعد سونا،زیورات اور ان چیزوں کو اس سے واپس لے لیا جو میں نے ازدواجی زندگی کے دوران اس کو دی تھیں؛ کیا اب میرے لئے ان میں تصرف کرنا جائز ہے؟
    جواب: اگر ان چیزوں کو عاریہ کے طور پر بیوی کو دیا ہو تاکہ وہ استعمال کرے یا اس کو ہبہ کردیا ہو اور اسی حالت میں اب بھی اس کے پاس موجود ہوں اور وہ عورت اس کی رشتہ دار بھی نہ ہو تو ہبہ کو فسخ کرکے مال واپس لے سکتا ہے اور اس کے نتیجے میں جائز ہے کہ مذکورہ چیزوں میں تصرف کرےجن کو اس سے واپس لیا ہے وگرنہ جائز نہیں ہے۔
     
    سوال 1726: میرے باپ نے زمین کا ایک قطعہ مجھے بخش دیا اور رسمی طور پر اس کی سند بھی میرے نام کردیا لیکن ایک سال کے بعد پشیمان ہوا؛ کیا اس زمین میں تصرف کرنا میرے لئے جائز ہے؟
    جواب: اگر زمین کو آپ نے تحویل میں لے کر قبضہ کرلیا اس کے بعد باپ ہبہ سے پیشمان ہوا اور رجوع کرے تو اس کا رجوع صحیح نہیں ہے اور شرعی طور زمین آپ کی ہے لیکن آپ کی طرف سے زمین کو قبضے میں لینے سے پہلے وہ پشیمان ہوجائے تو ہبہ سے منصرف ہونے کا حق رکھتا ہے اور اس کے بعد آپ زمین پر کوئی حق نہیں رکھتے اور فقط سند کا آپ کے نام پر اندراج ہونا ہبہ میں معتبر قبضہ ثابت ہونے کے لئے کافی نہیں ہے۔
     
    سوال 1727: میں نے کسی شخص کو زمین بخش دی اور اس نے زمین کے ایک گوشے میں رہائشی گھر بنا لیا؛ کیا میرے لئے جائز ہے کہ مذکورہ زمین یا بخشے جانے والے حصے کی قیمت کا مطالبہ کروں؟ اور کیا جائز ہے کہ جس حصے میں عمارت تعمیر نہیں کی ہے اس کو واپس لے لوں؟
    جواب: جب اس شخص نے آپ کی اجازت سے زمین پرقبضہ کیا اور عمارت تعمیر کرکے اس میں تصرف کیا تو اس کے بعد ہبہ کو فسخ کرنےاور زمین یا اس کی قیمت لینے کا آپ کو حق نہیں ہے اور زمین کی مساحت اتنی ہو کہ اس کے ایک حصے میں گھر بنانا محلے والوں کی نظر میں عرفا پوری زمین پر تصرف سمجھا جاتا ہو تو اس کا کچھ بھی حصہ واپس لینے کا آپ کو حق نہیں ہے۔
     
    سوال 1728: کیا جائز ہے کہ کوئی شخص اپنے تمام اموال کو اپنی اولاد میں سے کسی ایک کے لئے ہبہ کرے اور دوسروں کو اس سے محروم کردے؟
    جواب: اگر یہ کام فتنے اور بچوں کے درمیان اختلاف پیدا ہونے کا باعث بنے تو جائز نہیں ہے۔
     
    سوال 1729: کسی شخص نے اپنے گھر کو ہبہ معوضہ کے طور پر رسمی سند کے ساتھ پانچ افراد کو ہبہ کردیا تاکہ اس کی زمین پر حسینیہ (عزاخانہ) تعمیر کریں اس شرط کے ساتھ کہ تعمیر کے بعد دس سال تک حبس رکھیں اور اس کے بعد اگر چاہیں تو وقف کریں اس کے نتیجے میں انہوں نے عوام کی مدد سے حسینیہ کی تعمیر شروع کی اور مذکورہ مدت گزرنے اور متولی اور نگران کی تعییناتی کے بعد انتظامات اور نگرانی اور وقف کی شرائط سے مربوط امور کا اختیار اپنے پاس رکھا اور اس سے متعلق سند کا بھی اہتمام کرلیا؛ کیا اس صورت میں جب محبوس حسینیہ کو وقف کرنے کا قصد رکھتے ہوں، نگران اور متولی کے انتخاب میں ان لوگوں کی رائے کی پیروی واجب ہے؟ اور کیا ان شرائط پر کاربند نہ رہنا شرعامشکل ہے(یعنی ان کی رعایت ضروری ہے)؟ اگر مذکورہ پانچ افراد حسینیہ کو وقف کرنے کی مخالفت کریں تو کیا حکم ہے؟
    جواب: ان پر واجب ہے کہ ہبہ کرنے والے نے عقد ہبہ معوضہ کے ضمن میں جو شرائط رکھی ہیں ان پر عمل کریں اور اگر اس کی حفاظت یا وقف کی کیفیت کے بارے میں عائد شرائط کی مخالفت کریں تو ہبہ کرنے والا یا اس کے ورثاء ہبہ معوضہ کو فسخ کرنے کا حق رکھتے ہیں۔لیکن جو شرائط ان پانچ افراد نے حفاظت اور اس کی نگرانی کے بارے میں رکھی ہیں اور اسی طرح وقف اور متولی و نگران کے بارے میں مقرر کرکے اندراج کی ہیں اگر ہبہ کرنے والے کے ساتھ عقد ہبہ میں ہماہنگی کے ساتھ یہ کام انجام دیا ہو اس طرح کہ اس کے تمام امور کو ان افراد کے حوالے کردیا ہو تو اس صورت میں ان کی پابندی اور عمل کرنا واجب ہے اور ان میں سے بعض حسینیہ کو وقف کرنے سے اجتناب کریں چنانچہ ہبہ کرنے والے کی رائے یہ ہو کہ وقف کے حوالے سے یہ لوگ مل کر وقف کے معاملے میں فیصلہ کریں تو باقی افراد وقف کرنے میں پہل اور اقدام نہیں کرسکتے ہیں۔
     
    سوال 1730:کسی شخص نے اپنے گھر کا ایک تہائی حصہ اپنی بیوی کو بخش دیا ہے اور ایک سال کے بعد پورے گھر کو پندرہ سالوں کے لئے کرائے پر دے دیا اس کے بعد مرگیا؛ اس کی اولاد بھی نہیں ہے۔ کیا یہ ہبہ حالانکہ ہبہ کرنے کے بعد گھر کو کرائے پر دیا ہے، صحیح ہے اور اگر مقروض ہو تو کیا اس کو پورے گھر سے ادا کرنا ضروری ہے یا دو تہائی حصے سےاور اس کے بعد باقی حصے کو ارث کے قانون کے مطابق ورثاء کے درمیان تقسیم کیا جائے گا؟ اور کیا قرض خواہوں پر کرائے کی مدت پوری ہونے تک صبر کرنا واجب ہے؟
    جواب: اگر ہبہ کرنے والے نے جو حصہ اپنی بیوی کو بخش دیا ہے پورا گھر کرائے پر دینے سے پہلے اپنی بیوی کے قبضے میں دیا ہو اگرچہ پورے گھر کو تحویل میں دینے کے ضمن میں ہی کیوں نہ ہو، اور بیوی اس کی رشتہ دار ہو یا ہبہ معوضہ ہو تو اس حصے کا ہبہ صحیح اور نافذ العمل ہے اور اجارہ فقط باقی حصے کی نسبت صحیح ہے اس صورت کے علاوہ چونکہ پورا گھر اس کے بعد کرائے پر دیا گیا ہے لہذا ہبہ باطل ہےالبتہ کرائے پر دینا ہبہ سے پلٹنے کی نیت سے ہو تو فقط وہ اجارہ صحیح ہے کہ جو ہبہ کے بعد وقوع پذیر ہوا ہے۔ میت کا قرض بھی اس مال سے ادا کرنا ضروری ہے جس کا وفات کے وقت تک وہ مالک تھا اور جس چیز کو اس کی حیات میں ایک مدت کے لئے کرائے پر دیا گیا ہو اس مدت کے دوران اس کا فائدہ کرائے دار کو ملے گا اور وہ چیز ترکہ شمار کی جائے گی اور اس کا قرضہ اسی سے منہا کیا جائے گا اور باقی ماندہ حصہ ورثاء کی میراث ہے اور اجارے کی مدت پوری ہونے تک اس سے استفادہ نہیں کرسکتے ہیں۔
     
    سوال 1731۔ کسی شخص نے وصیت نامے میں لکھا ہے کہ اس کے تمام غیر منقولہ اموال اولاد میں سے کسی ایک کے ہیں اس شرط کے ساتھ کہ جب تک زندہ ہو ہر سال ان اموال کے بدلے میں چاول کی ایک خاص مقدار وہ (وصیت کرنے والے) اور اس کے گھر والوں کو دے۔ایک سال کے بعد تمام اموال اس کو بخش دیا؛چونکہ وصیت پہلے ہے لہذا کیا وصیت اب بھی معتبر ہے جس کے نتیجے میں ایک تہائی حصے میں صحیح اور اس کے مرنے کے بعد باقی ماندہ اموال ورثاء کو ارث میں ملیں گے؟ یا ہبہ وقوع پذیر ہونے کے بعد وصیت باطل ہوگی؟ (یاد رہے کہ مذکورہ اموال اس شخص کے قبضے میں ہیں جس کو ہبہ کیا گیا ہے)
    جواب: اگر وصیت کے بعد ہبہ کیا جائے تو چونکہ ہبہ کرنے والے کی حیات میں ہی اس کی اجازت سے اس مال پر قبضہ اور تسلط قطعی اور یقینی ہوگیا تھا لہذا وصیت جوکہ ہبہ سے پہلے کی گئی ہے، باطل ہے کیونکہ ہبہ وصیت سے انحراف شمار ہوتا ہے نتیجے میں ہبہ کیا ہوا مال فرزند کا ہوگا اور دوسرے ورثاء اس میں کوئی حق نہیں رکھتے، اس صورت کے علاوہ جب تک وصیت کرنے والے کی طرف سے وصیت سے انحراف ثابت نہ ہوجائے وصیت کا اعتبار برقرار رہے گا۔
     
    سوال 1732: جس وارث نے باپ سے ملنے والی ارث سے اپنا حصہ اپنے دو بھائیوں کو بخش دیا ہو کئی سال کے بعد کیا اس کو ان سے طلب کرسکتا ہے؟ اور اگر دونوں بھائی اس کے حصے کو واپس کرنے سے گریز کریں تو کیا حکم ہے؟
    جواب: اگر قبضے میں لینے کی وجہ سے ہبہ ثابت ہونے کے بعد اس سے پلٹنا چاہے تو اس کا حق نہیں ہے لیکن اگر قبضہ مکمل ہونے سے پہلے پلٹے تو صحیح ہے اور کوئی اشکال نہیں ہے۔
     
    سوال 1733: میرے ایک بھائی نے رضایت کے ساتھ ارث میں سے اپنا حصہ مجھے بخش دیا لیکن ایک عرصہ گزرنے کے بعد ارث کو ورثاء کے درمیان تقسیم کرنے سے پہلے ہبہ سے پلٹ گیا؛ اس کا کیا حکم ہے؟
    جواب: اگر ارث میں سے اپنا حصہ آپ کے حوالے کرنے سے پہلے ہبہ سے پلٹ جائے تو صحیح ہے اور آپ کو اس حصے میں کوئی حق نہیں ہے لیکن اگر اس حصے کو آپ نے قبضے میں لینے کے بعد ہبہ سے پلٹ جائے تو اس کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور جو حصہ آپ کو بخش دیا ہے اس میں اس کو کوئی حق نہیں ہے۔
     
    سوال 1734: ایک عورت نے اپنی زرعی زمین کسی شخص کو بخش دیا تاکہ اس کے مرنے کے بعد اس کی نیابت میں حج کا فریضہ ادا کرے اس گمان کے ساتھ کہ اس پر حج واجب ہوا ہے لیکن اس کے قبیلے والے اس کے ساتھ متفق نہیں ہیں اس کے بعد دوسری مرتبہ زمین کو اپنے بچوں کی اولاد میں سے کسی کو ہبہ کردیا اور دوسری مرتبہ ہبہ کرنے کے ایک ہفتے کے بعد مرگئی؛ پہلا ہبہ صحیح ہے یا دوسرا؟ پہلی مرتبہ جس کو ہبہ کیا گیا تھا حج کی ادائیگی کے بارے میں اس کا کیا وظیفہ ہے؟
    جواب: اگر پہلا شخص ہبہ کرنے والے کا رشتہ دار ہو اور اس کی اجازت سے مذکورہ مال کو قبضے میں لیا ہو تو پہلا ہبہ صحیح اور نافذ العمل ہے اور اس عورت کی نیابت میں حج کرنا واجب ہے اور دوسرا ہبہ فضولی ہے اور پہلے جس شخص کو ہبہ کیا گیا ہے اس کی اجازت پر موقوف ہے لیکن اگروہ شخص اس عورت کے قبیلے سے تعلق نہیں رکھتا ہو یا مذکورہ مال کو قبضے میں نہیں لیا ہو تو دوسرا ہبہ صحیح ہے اور ایسا سمجھا جائے گا کہ پہلے ہبہ سے پلٹ گئی ہے جس کے نتیجے میں پہلا ہبہ باطل ہوگا لذا پہلے شخص کو زمین میں کوئی حق نہیں اور ہبہ کرنے والی عورت کی طرف سے حج انجام دینا بھی واجب نہیں ہے۔
     
    سوال 1735: کیا حق ثابت ہونے سے پہلے ہبہ کرسکتے ہیں؟ اگرعورت مستقبل میں خود کو ملنے والے مالی حقوق (تنخواہ) کو عقد کے دوران اپنے شوہر کو بخش دے تو صحیح ہے؟
    جواب: اس طرح کا ہبہ صحیح ہونے میں اشکال بلکہ منع ہے اس کے نتیجے میں اگر مستقبل میں عورت کے حقوق (تنخواہ) کا شوہر کو ہبہ کرنا صلح یا ثابت ہونے کے بعد ان کو ساقط کرنے کی طرف پلٹتا ہو تو کوئی اشکال نہیں ہے ورنہ اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔
     
    سوال 1736: کافروں کو تحفہ دینے یا ان سے لینے کا کیا حکم ہے؟
    ج: ذاتا اشکال نہیں رکھتا ہے۔
     
    سوال 1737: کسی شخص نے اپنی حیات میں اپنے تمام اموال اپنے بچوں کی اولاد میں سے کسی کو بخش دیا تو کیا یہ ہبہ اس کے تمام اموال حتی مرنے کے بعد کفن اور دفن وغیرہ کے امور کی نسبت بھی نافذ العمل ہوگا؟
    جواب: اگر ہبہ کرنے والے کی طرف سے ہبہ کرنے کے بعد اس کی حیات میں ہی مذکورہ اموال کو اس کی اجازت سے قبضے میں لیا ہو تو جتنے اموال قبضے میں لیا ہے ان میں ہبہ نافذ العمل ہوگا۔
     
    سوال 1738: جو اموال جنگ میں زخمی ہونے والوں کو دئے جاتے ہیں ان کو تحفہ شمار کیا جائے گا؟
    جواب: ہاں؛ مگر جو کسی کام کے بدلے بعض لوگوں کو ادا کیا جاتا ہے وہ اس کام کی اجرت شمار کی جائے گی۔
     
    سوال 1739: اگر کسی شہید کے گھر والوں کو کوئی تحفہ دیا جائے تو ورثاء کا مال شمار ہوگا یا کفیل یا ان کے ولی کا؟
    جواب: ہبہ کرنے والے کی نیت سے وابستہ ہے۔
     
    سوال 1740: بعض کمپنیوں یا افراد کی طرف سے وکیلوں اور ایجنٹوں کو اشیاء کی خرید و فروخت یا صنعتی معاہدوں کے دوران تحفے دیئے جاتے ہیں اس احتمال کے ساتھ کہ تحفہ لینے والا تحفہ دینے والے کے فائدے میں کام کرے یا اس کے حق میں فیصلے کرے تو کیا ان تحفوں کو اس سے قبول کرنا شرعا جائز ہے؟
    جواب: خرید و فروخت یا معاملے میں بننے والے ایجنٹ یا وکیل کو معاملے کے بدلے طرف مقابل سے کوئی ہدیہ نہیں لینا چاہئے۔
     
    سوال 1741: جو ہدیہ کمپنیوں اور لوگوں کی طرف سے دیا جاتا ہےاس ہدیہ کے مقابلے میں ہو جو بیت المال سے ان کو دیئے جاتے ہیں، ان کا کیا حکم ہے؟
    جواب: اگر بیت المال سے ملنے والے تحفے کے بدلے میں دیا جائے تو بیت المال کو ہی دینا چاہئے۔
     
    سوال 1742: اگر تحفہ وصول کرنے والے پر اس تحفے کا اثر پڑجائے اور غیر مناسب تعلقات یا امن و امان کے لحاظ سے مشکوک روابط کا باعث بنے تو کیا ایسا تحفہ لینا اور اس میں تصرف کرنا جائز ہے؟
    جواب: ایسے تحفے وصول کرنا جائز نہیں بلکہ ان کو قبول کرنے سے اجتناب کرنا واجب ہے۔
     
    سوال 1743: اگر احتمال ہو کہ تحفہ دینے کا مقصد تحفہ وصول کرنے والے کو تحفہ دینے والے کے حق میں تبلیغ کرنے پر تشویق اور ترغیب دینا ہے تو اس کو وصول کرنا جائز ہے؟
    جواب: اگر مذکورہ تبلیغات شرعی اور قانونی اعتبار سے جائز ہوں تو کوئی اشکال نہیں اور ان تبلیغات کے بدلے تحفہ وصول کرنے میں کوئی منع نہیں ہے البتہ دفتری دائرہ کار میں ایسا کام متعلقہ قوانین و ضوابط کا تابع ہے۔
     
    سوال 1744: اگر کسی کام کو انجام دینے کے لئے افسر کو تیار کرنے یا مخالفت سے باز رکھنے یا تغافل اور چشم پوشی کرنے پر آمادہ کرنے کے لئے تحفہ دیا جائے تو تحفہ قبول کرنے کا کیا حکم ہے؟
    جواب: اس طرح کے تحفے قبول کرنے میں اشکال ہے بلکہ ممنوع ہے کلی طور پر اگر شریعت اور قانون کے مخالف ہدف تک رسائی یا قانونی افسر کو ایسے کام سے اتفاق کرنے پر مائل کرنے کے لئے جس سے اتفاق کرنے کا وہ حق نہیں رکھتا ہو، تحفہ پیش کیا جائے تو اس تحفے کو وصول کرنا جائز نہیں بلکہ واجب ہے کہ اس کو قبول کرنے سے اجتناب کرے اور متعلقہ افسران پر واجب ہے ایسے کاموں کی روک تھام کریں۔
     
    سوال 1745: کیا دادا کی طرف سے اپنی حیات میں اپنے تمام یا بعض اموال کو اپنے مرحوم بیٹے کی بیوی اور بچوں کو بخش دینا جائز ہے؟ کیا اس کی اپنی بیٹیاں اس کام میں اعتراض کرنے کا حق رکھتی ہیں؟
    جواب: اس کو حق حاصل ہے کہ اپنی حیات میں جتنا چاہے اپنی اولاد کے بچوں یا بہو کو بخش دے اور اس کی بیٹیوں کو اس کام میں اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
     
    سوال 1746: کسی شخص کی نہ اولاد ہے نہ بھائی نہ بہن اور نہ ماں باپ ہیں اور اپنے اموال کو اپنی بیوی یا اس کے قبیلے والوں کو ہبہ کرنا چاہتا ہے؛ کیا شرعا اس کے لئے یہ کام جائز ہے؟ کیا اس ہبہ کی مقدار مشخص اور معین ہے یا تمام اموال کو ہبہ کرسکتا ہے؟
    جواب: مالک اپنی حیات میں اپنے تمام اموال یا کچھ مقدار کو اپنے ورثاء اور غیر ورثاء میں سے جس کو چاہے بخش سکتا ہے۔
     
    سوال 1747: شہید فاونڈیشن کی طرف سے میرے شہید بیٹے کی برسی اور مجلس ترحیم کے لئے کچھ پیسے اور غذائی اجناس میرے حوالے کیا ہے؛ کیا ان اشیاء کو وصول کرنے کے اخروی اثرات ہیں؟ کیا یہ شہید کے ثواب اور اجر میں کمی کا باعث بنے گا ؟
    جواب: شہداء کے خاندان کی طرف سے اس طرح کے امدادی سامان کو قبول کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے اور شہید اور اس کے خاندان کے اجر و ثواب میں اس کا کوئی اثر نہیں ہوگا۔
     
    سوال 1748: ہوٹل کے ملازمین اور چوکیداروں نے ایک مشترکہ فنڈ قائم کیا تاکہ ان کو انعام کے طور پر ملنے والی چیزوں کو اس میں جمع کریں اور آپس میں مساوی تقسیم کریں لیکن ان میں سے بعض افراد جو صدر یا نائب صدر کا عہدہ رکھتے ہیں، دوسروں سے زیادہ حصہ مانگتے ہیں یہ امر ہمیشہ سے فنڈ کے ممبران کے درمیان اختلافات کا باعث بنا ہوا ہے؛ اس کا کیا حکم ہے؟
    جواب: یہ مسئلہ اس شخص کے قصد سے وابستہ ہے جس نے مال کو انعام کے طور پر انہیں دیا ہے اس کے نتیجے میں جو انعام کسی مخصوص فرد کو دیا گیا ہے اس کا اپنا مال ہے اور جو سب کواجتماعی دیا گیا ہے ان کے درمیان مساوی تقسیم کرنا چاہئے۔
     
    سوال 1749: جو چیز مثلا چھوٹے بچے کو عیدی کے طور پر تحفے میں ملتی ہے کیا بچے کی شمار کی جائے گی یا اس کے ماں باپ کی ہوگی؟
    جواب: اگر باپ چھوٹے بچے کا ولی ہونے کے طور پر اس چیز کو قبضے میں لے تو بچے کی ہوگی۔
     
    سوال 1750: کسی عورت کی دو بیٹیاں ہیں اور اپنی پراپرٹی کو جو کہ زرعی زمین کا ایک قطعہ ہے، بیٹیوں کی اولاد (یعنی بیٹیوں میں سےایک کے بیٹے) کو ہبہ کرنا چاہتی ہے اس کے نتیجے میں دوسری بیٹی ارث سے محروم ہوجائے گی کیا اس کا یہ ہبہ صحیح ہے یا دوسری بیٹی ماں کی وفات کے بعد زمین میں سے اپنے حصے کا مطالبہ کرسکتی ہے؟
    جواب: اگر ماں نے اپنی حیات میں اپنے نواسے کو اپنی پراپرٹی بخشی اور تحویل میں دی ہو تو اس صورت میں اس کا مال شمار ہوگا اور کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہے لیکن اگر وصیت کی ہو کہ اس کے بعد مذکورہ پراپرٹی نواسے کو دی جائے تو ایک تہائی کے برابر اس کی وصیت نافذ العمل ہوگی اور اضافی مقدار میں ورثاء کی اجازت سے وابستہ ہے۔
     
    سوال 1751: کسی شخص نے اپنی زرعی زمین کا کچھ حصہ اپنے بھتیجے کو اس شرط پر ہبہ کردیا کہ اپنی دو ربیبہ ( زیر پرورش لڑکی جو بیوی کے پہلے شوہر سے ہو) کی شادی ہبہ کرنے والے کے دونوں بیٹوں سے کردے۔ لیکن بھتیجے نے ایک ربیبہ کی شادی ایک بیٹے سے کرادی لیکن دوسری ربیبہ کی شادی سے گریز کیا تو کیا مذکورہ شرائط کے ساتھ انجام پانے والا ہبہ صحیح اور نافذ العمل ہے یا نہیں؟
    جواب: یہ ہبہ صحیح اور نافذ العمل ہے لیکن شرط باطل ہے کیونکہ غیر حقیقی باپ ربیبہ پر ولایت نہیں رکھتا بلکہ باپ اور دادا نہ ہونے کی صورت میں ان کی شادی ان کی اپنی مرضی سے وابستہ ہے۔
    ہاں اگر مذکورہ شرط کا مطلب یہ ہو کہ مذاکرات اور بات چیت کے ذریعے بھتیجا اس شخص کے بچوں سے شادی کرنے کے لئے لڑکیوں کی رضایت حاصل کرے تو یہ شرط صحیح اور پورا کرنا لازم ہے اگر اس شرط پر عمل نہ کرے تو ہبہ کرنے والا اس کو فسخ کرنے کا حق رکھتا ہے۔
     
    سوال 1752: میرا ایک رہائشی اپارٹمنٹ ہے جس کو میں نے اپنی چھوٹی بچی کے نام کردیا۔ اس کی ماں کو طلاق دینے کے بعد میں ہبہ سے پلٹ گیا اور اس لڑکی کے اٹھارہ سال پورے ہونے سے پہلےاس کو اپنی دوسری بیوی سے ہونے والے بیٹے کے نام پر کردیا؛ اس مسئلے کا کیا حکم ہے؟
    جواب: اگر پراپرٹی کو حقیقت میں ہی اپنی بیٹی کو ہبہ کردیا ہو اور اس کی ولایت میں اس پر قبضہ کیا ہو تو ہبہ نافذ العمل ہے اور قابل فسخ نہیں ہے لیکن حقیقی معنوں میں ہبہ وقوع پذیر نہ ہوا ہو بلکہ فقط اس کی سند اپنی بیٹی کے نام کردی ہو تو یہ ہبہ ثابت ہونے اور اس بیٹی کو ملکیت ملنے کے لئے کافی نہیں ہے بلکہ وہ اپارٹمنٹ آپ کا ہے اور اس کا اختیار بھی آپ کے پاس ہوگا۔
     
    سوال 1753: میں نے ایک سخت بیماری میں مبتلا ہونے کے بعد اپنی پوری جائیداد اپنے بچوں میں تقسیم کردی اور اس کے متعلق سند بھی ان کے لئے لکھ دی اور ٹھیک ہونے کے بعد ان سے رجوع کیا اور درخواست کی کہ میرے اموال میں سے کچھ حصہ مجھے دیں لیکن انہوں نے اس سے اجتناب کیا اس مسئلے کا کیا حکم ہے؟
    جواب: صرف سند لکھنا بچوں کو ملکیت ملنے کے لئے کافی نہیں ہے نتیجے میں اگر اپنے اموال اور جائیداد ان کو ہبہ کیا ہو اور اس طرح تحویل میں دیا ہو کہ ان کے اختیار اور مالکانہ تصرف میں ہوں تو رجوع کرنے کا آپ کو حق نہیں ہے لیکن اگر بالکل ہبہ واقع نہ ہوا ہو یا ہبہ کرنے کے بعد قبضے میں نہیں دیا گیا ہو یا قبضے میں نہیں لیا گیا ہو تو وہ اموال آپ کی ملکیت اور اختیار میں باقی ہیں ۔
     
    سوال 1754: کسی شخص نے اپنے وصیت نامے میں گھر میں موجود اشیاء اپنی بیوی کو بخش دیا اور گھر میں وصیت کرنے والے کے ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک کتاب ہے کیا اس کی بیوی اس کتاب کی ملکیت کے علاوہ طباعت اور نشر یاتی حقوق وغیرہ کی بھی مالک ہوگی یا باقی ورثاء بھی اس میں حصہ دار ہوں گے؟
    جواب: تالیف شدہ کتاب کی طباعت اور نشر کا حق اس کی ملکیت کا تابع ہے لذامولف نے اپنی حیات میں جس کو کتاب ہبہ کرکے تحویل دی ہے یا جس کے لئے وصیت کی ہے، مولف کی وفات کے بعد کتاب اس شخص کی ہوگی اور تمام حقوق اور امتیازات بھی اسی شخص سے مخصوص ہوں گے۔
     
    سوال 1755: بعض ادارے اور دفاتر مختلف مواقع پر اپنے ملازمین کو تحفے دیتے ہیں جس کی وجہ معلوم نہیں ہوتی ہے؛ کیا ملازمین کے لئے ان کو قبول کرنا اور تصرف کرنا جائز ہے؟
    جواب: اگر تحفہ دینے والا حکومتی قوانین کے مطابق اس کی صلاحیت اور اختیارات کا حامل ہو تو اس صورت میں حکومتی اموال میں سے تحفہ دینے میں کوئی مانع نہیں ہے اور اگر وصول کرنے والے کو احتمال ہو کہ تحفہ دینے والا ان صلاحیتوں اور اختیارات کا حامل ہے یہ احتمال قابل توجہ ہو تو اس سے تحفہ قبول کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔
     
    سوال1756: ہبہ کرنے والے سے قبضے میں لینے میں صرف وصول کرنا کافی ہے یا اس کے علاوہ ہبہ کو خصوصی طور پر بعض موارد میں مثلا گاڑی، گھر اور زمین وغیرہ میں اس شخص کے نام اندراج کرنا بھی ضروری ہے؟
    جواب: ہبہ میں قبضہ، شرط ہونے سے مراد معاہدے کو لکھنا اور دستخط کرنا نہیں ہے بلکہ مطلب یہ ہے کہ مذکورہ مال حقیقت میں ہی اس کے اختیار اور تصرف میں چلا جائے اور ہبہ واقع ہونے اور ملکیت حاصل ہونے کے لئے یہی کافی ہے اور ہبہ کئے جانے والے اموال میں اس حوالے سے کوئی فرق نہیں ہے۔
     
    سوال 1757: ایک شخص نے شادی، ولادت یا دیگر امور کی مناسبت سے کسی کو مال ہبہ کردیا اور تین یا چارسال گزرنے کے بعد اس کو واپس لینا چاہے تو ہبہ وصول کرنے والے پر اس کو واپس کرنا واجب ہے؟ اور اگر کسی نے عزاداری یا میلاد کی محفل کے لئے کوئی مال دیا تو اس کے بعد کیا مذکورہ مال کو واپس لے سکتا ہے؟
    جواب: جب تک وہ ہدیہ اس شخص کے پاس موجود ہے، ہبہ کرنے والا اس کا مطالبہ کرکے واپس لے سکتا ہے البتہ اس شرط کے ساتھ کہ وہ شخص ہبہ کرنے والے کا رشتہ دار نہ ہو اور ہبہ بھی معوضہ نہ ہو لیکن اگر ہدیہ تلف ہوا ہو یا پہلے کی نسبت جس وقت اس کو ہبہ کیا گیا تھا، اس میں تبدیلی رونما ہوچکی ہو تو اس صورت میں ہدیہ یا اس کا متبادل طلب کرنے کا حق نہیں ہے اسی طرح جس پیسے کو انسان نے قصد قربت اور اللہ کی خوشنودی کے لئے دیا ہو، واپس لینے کا حق نہیں رکھتا ہے۔

     

  • دین و قرض
  • صلح
  • وکالت
  • صدقہ
  • عاریہ اور ودیعہ
  • وصیّت
  • غصب کے احکام
  • بالغ ہونے کے علائم اور حَجر
  • مضاربہ کے احکام
  • بینک
  • بیمہ (انشورنس)
  • سرکاری اموال
  • وقف
  • قبرستان کے احکام
700 /