اصلی داستاں یہ ہے کہ دنیا میں یہودیوں کا ایک با اثر گروہ یہودیوں کے لئے ایک مستقل ملک کی داغ بیل اور بنیادڈالنے کی فکر میں تھا ۔ان کی اس فکر سے برطانیہ نے اپنی مشکل حل کرنے کے لئے استفادہ کیا ۔البتہ یہودی پہلے یوگنڈا جانے اور اس کو اپنا ملک بنانےکی فکر میں تھے۔کچھ عرصہ لیبیا کے شہر طرابلس جانے کی فکر میں رہے طرابلس اس دور میں اٹلی کے قبضہ میں تھا اٹلی کی حکومت سے گفتگو کی لیکن اٹلی والوں نے یہودیوں کو منفی جواب دیا۔آخر کار برطانیہ والوں کے ساتھ یہودی مل گئے۔اس دور میں مشرق وسطی میں برطانیہ کے اہم استعماری مقاصد تھے اس نے کہا ٹھیک ہے یہودی اس علاقہ میں آئیں ؛ اور ابتداء میں ایک اقلیت کے عنوان سے وارد ہوں پھر آہستہ آہستہ اپنی تعداد میں اضافہ کریں۔اورمشرق وسطی میں فلسطین کے حساس علاقہ پر اپنا قبضہ جما کرحکومت قائم کرلیں اور برطانیہ کے اتحاد کا حصہ بن جائیں اوراس علاقہ میں عالم اسلام خصوصا عرب ممالک کو متحد نہ ہونے دیں ۔وہ دشمن جس کی باہر سے اس قدر حمایت کی جاتی ہے، وہ مختلف طریقوں اور جاسوسی ہتھکنڈوں کے ذریعہ اختلاف پیدا کرسکتا ہے ؛ اور آخر اس نےیہی کام کیا: ایک ملک کے قریب ہوجاتا ہے دوسرے پر حملہ کرتا ہے ایک کے ساتھ سختی سے پیش آتا ہے دوسرے کے ساتھ نرمی کرتا ہے،اسرائیل کو پہلے برطانیہ اور بعض دوسرے مغربی ممالک کی مدد حاصل رہی ۔ پھر اسرائیل آہستہ آہستہ برطانیہ سے الگ ہوگیا اور امریکہ کے ساتھ مل گیا ؛ امریکہ نے بھی آج تک اسرائیل کواپنے پروں کے سائے میں رکھا ہوا ہے۔یہودیوں نے اس طرح اپنے ملک کو وجود بخشا کہ دوسری جگہوں سے آکر فلسطینیوں کے ملک پر قبضہ کرلیا ۔ انھوں نے اس طرح قبضہ کیا کہ پہلے جنگ نہیں کی بلکہ مکر وفریب اور حیلہ کا راستہ اختیار کیا؛ بڑے بڑے فلسطینیوں کی بڑی بڑی اور سرسبز و شاداب زرعی زمینوں کو دگنی قیمت دیکرخریدا جن پر مسلمان کسان کام کرتے تھے ان زمینوں کے مالک یورپ اور امریکہ میں رہتے تھے۔انھوں نے بھی خدا خدا کرکے زمینوں کو یہودیوں کے حوالے کردیا۔ زمینوں کی فروخت میں بڑے بڑے دلال شامل تھے جن میں سید ضیاء بھی تھا جس کے بارے میں معروف ہے کہ وہ رضا خان کے ساتھ 1299 ھ ش کے کودتا میں شریک تھا ۔یہاں سے فلسطین جاتا اور وہاں دلالی کرتا تھا فلسطینی مسلمانوں سے یہودیوں کے لئے زمینیں خریدتا تھا! انھوں نے زمینیں خریدیں ؛ زمینیں جب ان کی ملکیت بن گئیں، تو انھوں نے پھر بڑی بے دردی ، بے رحمی اور سنگدلی کے ساتھ کسانوں سے وہ زمینیں خالی کرانا شروع کردیں ۔ بعض جگہ فلسطینیوں کو مارتے تھے قتل کرتے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ مکر و فریب اور جھوٹ کے ذریعہ عالمی رائے عامہ کو اپنی طرف مبذول کرتے تھے۔
یہودیوں کے فلسطین پر قبضہ کے تین مرحلے ہیں ؛ پہلا مرحلہ عربوں کے ساتھ قساوت اور سنگدلی پر مبنی ہے ۔ زمینوں کے اصلی مالکوں کے ساتھ ان کی رفتاربہت سخت اور شدید تھی ان کے ساتھ کبھی بھی رحم کو روا نہیں رکھتے تھے۔
دوسرا مرحلہ عالمی رائے عامہ کے ساتھ جھوٹ اور مکر وفریب پر مبنی ہے عالمی رائے عامہ کو فریب دینا ان کی عجیب و غریب باتوں میں شامل ہے انھوں نے صہیونی ذرائع ابلاغ کے ذریعہ فلسطین آنے سے قبل و بعد اس قدر جھوٹ بولاکہ ان کےجھوٹ کی بنیاد پر بعض یہودی سرمایہ داروں کو پکڑ لیا ! اور بہت سے لوگوں نے ان کے جھوٹ پر یقین کرلیا ؛یہاں تک کہ فرانس کے رائٹر وسماجی فلسفی "جان پل سیٹر" کو بھی انھوں نے فریب دیدیا ۔ اسی جان پل سیٹرنےایک کتاب لکھی تھی جس کا میں نے 30 سال پہلے مطالعہ کیاتھا اس نے لکھا تھا " بغیر سرزمین کے لوگ اور بغیر لوگوں کے سرزمین " یعنی یہودی وہ لوگ ہیں جن کے پاس سرزمین نہیں تھی وہ فلسطین آئے جہاں سرزمین تھی لیکن لوگ نہیں تھے! یعنی کیا فلسطین میں لوگ نہیں تھے؟ ایک قوم وہاں آباد تھی کام کاج میں مشغول تھی ؛ بہت سے شواہد موجود ہیں ایک غیر ملکی رائٹر لکھتا ہے کہ فلسطین کی تمام سرزمین پر زراعت ہوتی تھی یہ سرزمین تا حد نظر سرسبز و شاداب تھی بغیر لوگوں کے سرزمین کا مطلب کیا؟! دنیا میں یہودیوں نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ فلسطین ایک خراب ، ویران اور بدبخت جگہ تھی ؛ ہم نے آکر اس کو آباد کیا!رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لئے اتنا بڑا جھوٹ !
وہ ہمیشہ اپنے آپ کو مظلوم ظاہر کرنے کی کوشش کرتے تھے؛ اب بھی ایسا ہی کرتے ہیں! امریکی جرائد مانند "ٹائم " اور " نیوزویک " کا کبھی مطالعہ کرتا ہوں تو دیکھتا ہوں کہ اگر ایک یہودی خاندان کسی معمولی حادثہ کا شکار ہوجائے تو اس کا بڑا فوٹو ،ہلاک ہونے والے کی عمر اس کے بچوں کی مظلومیت کو بہت بڑا بنا کر پیش کرتے ہیں ؛ لیکن یہی جرائد مقبوضہ فلسطین میں اسرائيل کی طرف سے فلسطینی جوانوں ، عورتوں ، بچوں پر ہونے والے سینکڑوں اور ہزاروں مظالم ،قساوت اور سنگدلی کے واقعات کی طرف معمولی سا اشارہ بھی نہیں کرتے ہیں!
تیسرا مرحلہ سازش اور کھوکھلے مذاکرات پر مبنی ہے اور ان کے قول کے مطابق "لابی" ہے، اس حکومت کے ساتھ ، اس شخصیت کے ساتھ ، اس سیاستمدار کے ساتھ ، اس روشن خیال کے ساتھ ، اس رائٹر کے ساتھ ، اس شاعر کے ساتھ بیٹھو گفتگو کرو! ان کے ملک کا کام اب تک مکر وفریب کے ذریعہ ان تین مرحلوں پر چل رہا ہے۔
اس دور میں بیرونی طاقتیں بھی ان کے ساتھ تھیں؛ جن میں سرفہرست برطانیہ تھا ۔ اقوام متحدہ اور اس سے پہلے جامعہ ملل" جو جنگ کے بعد صلح کے معاملات کے لئے تشکیل دیا گیا تھا " بھی ہمیشہ اسرائیل کی حمایت کرتا رہا ؛ اور اسی سال 1948ء میں جامعہ ملل نے ایک قرارداد منظور کی جس میں فلسطین کو بغیر کسی دلیل اور علت کے تقسیم کردیا؛ اس قرارداد میں 57 فیصد اراضی کو یہودیوں کی ملکیت قراردیدیا؛ جبکہ اس سے قبل صرف 5 فیصد فلسطین کی اراضی یہودیوں سے متعلق تھی؛ انھوں نے حکومت تشکیل دی اور اس کے بعد مختلف مسائل رونما ہوئے جن میں فلسطینی دیہاتوں پر حملہ ، شہروں پر حملہ ، فلسطینیوں کے گھروں اور بےگناہ لوگوں پر حملوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ؛ البتہ عرب حکومتوں نے بھی اس سلسلے میں کافی کوتاہیاں کی ہیں۔ کئی جنگیں ہوئیں اور 1967 کی جنگ میں اسرائیل نے امریکہ اور بعض مغربی ممالک کی مدد سے مصر ، اردن اور شام کی کچھ سرزمینوں پر بھی قبضہ کرلیا۔اور 1973ء کی جنگ میں بھی اسرائیلیوں نے مغربی طاقتوں کی مدد سے جنگ کا نتیجہ اپنے حق میں کرلیا اور عربوں کی مزيد سرزمین پر اپنا قبضہ جمالیا ۔
البتہ آج بعض لوگ یوں کہتے ہیں کہ مسئلہ فلسطین پر کیوں بحث کرتے ہیں؛ یہ مسئلہ ختم ہوگیا ہے! میں عرض کرتا ہوں کہ مسئلہ فلسطین کسی صورت میں ختم نہیں ہوا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ آپ یہ تصور کریں کہ " فلسطین کے اصلی مالک " فلسطینی ہمیشہ اپنی اولاد کے ہمراہ اپنی سرزمین سے باہر رہیں گے ؛ یا جو فلسطینی مقبوضہ سرزمین میں ہیں وہ ہمیشہ دبی ہوئی اقلیت کی صورت میں زندگی بسر کریں گے اور غیر ملکی غاصب وہاں ہمیشہ رہیں گے؛ نہیں ، ایسا نہیں ہے۔ وہ ممالک جو سو سال تک دوسرے ملک کے تصرف میں رہے ہیں انھیں دوبارہ استقلال مل گیا " یہی قزاقستان ، جارجیااور مرکزی ایشیائی ممالک " جنھیں آپ دیکھ رہے ہیں ان میں بعض سویت یونین اور بعض سویت یونین سے پہلے روس کے قبضے میں تھے جب سویت یونین کا وجود ہی نہیں تھا لیکن ان کو استقلال مل گیا اور وہ اپنے عوام کو مل گئے لہذا کوئی وجہ نہیں ہے کہ فلسطین فلسطینیوں کو نہ ملے، یہ کام ضرور ہوگا اور انشاء اللہ ضرور ہوکر رہےگا فلسطین فلسطینی عوام کو مل کررہے گا لہذا مسئلہ ختم نہیں ہوا بلکہ اس قسم کی فکرکا تصورغلط ہے۔ آج صہیونیوں اور ان کے حامیوں " امریکہ ان کاسب سے بڑا اور اہم حامی ہے" کا مکر و فریب یہ ہے کہ وہ صلح کے خوبصورت اور حسیں نام سے استفادہ کرتے ہیں: صلح کیجئے؛ یہ کیسی باتیں ہیں ؟ جی ہاں ، صلح ایک اچھی چیز ہے؛ لیکن صلح کہاں اور کس سے؟!کوئی شخص آپ کےگھر میں داخل ہوجائے ، طاقت کے زور پرآپ کا دروازہ توڑدےاور آپ کو مارے پیٹے ،آپ کے بال بچوں کی توہین کرے اور آپ کے گھر کےتین کمروں میں سے ڈھائی کمروں پر وہ اپنا قبضہ کرکے بیٹھ جائے؛ اور پھر یہ کہے کہ کیوں ادھر ادھر اس کی شکایت کرتے ہواور مسلسل لڑائی جھگڑا کرتے ہو؛ آؤ ہم صلح کرلیں ؛ کیا یہ صلح ہوگی؟یہ صلح ہے کہ آپ کو آپ کے گھر سے باہر نکال دیا جائے؛ اوراگر آپ گھر پر قبضہ کرنے والے کے خلاف قیام کریں تو اس وقت دشمن کے حامی آئیں اور صلح کرائیں جبکہ غاصب دشمن آپ کےگھر میں بیٹھا ہواہے ؛ اس نےآپ کے خلاف ہر ظلم کا ارتکاب کیا ہے؛ اب بھی اگر اس کاہاتھ پہنچے تو کمی نہیں چھوڑےگا۔آج بھی اسرائیلی حکومت تقریبا روزانہ جنوبی لبنان پر حملہ کرتی ہے؛ مجاہدوں پر حملہ نہیں؛ بلکہ جنوبی لبنان کے دیہاتوں پر، جنوبی لبنان کے مدرسوں پر؛ ابھی کچھ دن قبل اسرائیل نے جنوبی لبنان کے ایک مدرسے پر حملہ کرکے کچھ بچوں کو قتل کردیا ہے! بچوں نے تو کوئی حملہ نہیں کیا تھا،بچوں نے تو ہاتھوں میں اسلحہ نہیں لےرکھا تھا؛ اسرائیل کی ماہیت میں حملہ اور تشدد کا عنصر ہے؛جب صہیونیوں نے لبنان پر حملہ کیا ، تو ڈیر یاسین اور باقی جگہوں کے لوگوں نے تو ان کےساتھ کچھ نہیں کیا تھا؛ لیکن صہیونیوں نے ان کا بھی قتل عام کیا؛ البتہ عربوں کے کچھ باغیرت جوان ان کے ساتھ اس بات پر لڑ رہے تھے اور یہی کہتے تھےکہ کیوں تم ہمارے گھر میں داخل ہوئے ہواور لوگوں کا قتل کررہے ہو؛وہ لوگ جو صہیونیوں کے ظلم وستم کا نشانہ بنتے تھے وہ دیہاتی لوگ تھے جنھیں اسرائیل قتل عام کرکے ان کے گھروں سے نکال رہا تھادہاتیوں نے تو کوئی کام نہیں کیا تھا؛ لہذا معلوم ہوا کہ اسرائیلی حکومت کی ماہیت اور طبیعت میں حملہ ، خونخواری اور تشدد موجود ہے۔ اسرائیلی حکومت کی بنیاد اور داغ بیل تشدد، قساوت اور طاقت کے زور پر ڈالی گئی ہےاور اسی بنیاد پر وہ آگے بڑھ رہی ہے؛اور اس کے بغیر اس کی پیشرفت ممکن نہیں تھی اور آئندہ بھی مکن نہیں ہوگي۔ کہتے ہیں کہ اس حکومت کے ساتھ صلح کریں؟! کیسی صلح؟!اگر وہ اپنے حق پر قناعت کریں " یعنی وہ گھر جو فلسطین کے نام سے ہے وہ فلسطینی عوام کے حوالے کردیں اور اپنے کام میں مشغول ہوجائیں؛ یا فلسطینی حکومت سے اجازت لیں اور کہیں کہ ہم میں سے بعض کو یا سب کو یہاں رہنے کی اجازت دیدیں" تو کسی کو ان کے ساتھ جنگ کرنے کی ضرورت نہیں ہوگي ؛ جنگ یہ ہے کہ انھوں نے طاقت کے زور پر دوسروں کے گھر پرغاصبانہ قبضہ کیا ہوا ہے ؛ انھوں نے گھر والوں کو گھر سے باہر نکال دیا ہےاور اب بھی ان پر ظلم و تشدد کو روا رکھے ہوئےہیں؛ علاقائی ممالک پر ظلم کرتے ہیں اور سب کے لئے خطرہ بنے ہوئے ہیں؛ لہذا وہ صلح کو بھی بعد والے حملے کا مقدمہ بنانا چاہتے ہیں! ایسی صلح برقرار ہوجائے تاکہ یہ صلح ان کے آئندہ حملے کے لئے مقدمہ قرار پاسکے۔
مسئلہ فلسطین کا راہ حل ، جھوٹے اور بےبنیادطریقوں پر نہیں ہوسکتا بلکہ مسئلہ فلسطین کا راہ حل صرف یہ ہے کہ فلسطین کے حقیقی مالک " نہ باہر سے آنے والےغاصب اور قابض مہاجرین " جو فلسطین کے اندر موجود ہیں اور جو فلسطین کے باہر ہیں وہ اپنے ملک کا حکومتی نظام تشکیل دیں۔ اگر دنیا میں ڈیموکریسی کا دعوی کرنے والوں کی یہ بات درست ہےکہ ہر قوم کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا حق ہے تو فلسطینی قوم بھی ایک قوم ہےاور اس کو بھی فیصلہ کرنا چاہیے۔ مقبوضہ فلسطین پر آج جو غاصب حکومت قائم ہے اس کا فلسطین کی سرزمین پر کوئی حق نہیں ہے؛ وہ ایک جعلی ، جھوٹ پر مبنی اور ظالم طاقتوں کی بنائی ہوئی حکومت ہے؛لہذا فلسطینی عوام سے غاصب حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم کرنے کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے۔اگر عالم اسلام میں کوئی اس غلطی کا ارتکاب کرےگااور اس ظالم حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم کرے گا تو گویا وہ اپنے لئے ذلت و رسوائی کا سامان فراہم کرے گا اور کام بھی بیہودہ اور بے فائدہ کرےگا؛کیونکہ یہ حکومت دائمی نہیں ہے۔ صہیونیوں نے یہ تصور کرلیا ہے کہ وہ فلسطین پر قابض ہوگئے ہیں اور فلسطین ہمیشہ ان کی ملکیت بن گیا ہے ؛ نہیں، ایسا نہیں ہے ۔ فلسطین کا فیصلہ یہ ہے کہ حتمی طور پر ایک دن فلسطینی ملک وجود میں آئے گا۔فلسطینی عوام نے اس سلسلے میں قیام کیا ہے۔ مسلمان حکومتوں اور عوام کا فرض ہے کہ وہ اس فاصلے کو زیادہ سے زیادہ کم کریں اور ایسا کام کریں کہ فلسطینی عوام اس دن تک جلد پہنچ جائیں۔
امام خمینی (رہ)کے حرم میں زائرین کے اجتماع سے خطاب،14/3/1381۔
مسئلہ فلسطین کا منطقی راہ حل
مسئلہ فلسطین کا منطقی راہ حل موجود ہے۔منطقی راہ حل ایک ایسا راہ حل ہے جس کو دنیا کے تمام بیدار ضمیر لوگ قبول کرنے کے لئے مجبور ہیں جو دنیا کے آج کے مفاہیم پر یقین رکھتے ہیں۔اور وہ راہ حل یہ ہے جس کو ڈیڑھ سال پہلے بھی ہم نے پیش کیا تھا۔ اور اسلامی جمہوری حکومت نےبین الاقوامی سطح پر حکومتوں کے ساتھ مذاکرات میں اس حل کو بار بار پیش کیا ہےاور اب بھی ہم اسی کو پیش کریں گے اور اس پر ہم اصرار بھی کریں گے؛یہ راہ حل خود فلسطینی عوام کے ریفرنڈم پر مشتمل ہے؛ وہ فلسطینی جو آوارہ ہوئے ہیں " البتہ وہ لوگ جو اپنے گھراور اپنے وطن فلسطین میں واپس جانا چاہتے ہیں" یہ ایک منطقی امر ہے۔ جو فلسطینی لبنان ، اردن ، مصر ، کویت اور دوسرے عرب ممالک میں سرگرداں ہیں،یہ لوگ اپنے گھر اپنے وطن فلسطین واپس جائیں؛ جو لوگ جانے کے لئے مائل ہیں ؛ ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ کسی کو زور سے لائیں۔اور وہ لوگ جو 1948ء میں " اسرائیل کی جعلی حکومت کی تشکیل سے قبل " فلسطین میں موجود تھے چاہے مسلمان ہوں ، عیسائی ہوں یا یہودی ہوں ان سے ایک عام ریفرنڈم کرایا جائےاور وہ فلسطین کی سرزمین پر عوامی اور جمہوری حکومت کا نظام عمل میں لائیں ؛ یہ جمہوری قدم ہے اگرپوری دنیا کے لئے ڈیموکریسی اچھی ہےتو فلسطینی عوام کے لئے ڈیموکریسی کیوں اچھی نہیں ہے؟! اگردنیا کے تمام لوگوں کو اپنی سرنوشت معین کرنے کا حق حاصل ہے،تو پھرفلسطینی عوام کو یہ حق کیوں حاصل نہیں؟! کسی کو بھی اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ فلسطین کی موجودہ حکومت کو طاقت اور مکر وفریب کے ذریعہ وجود بخشا گیا ہے اور اس میں کسی کو کوئی تردید نہیں ہے کہ صہیونی صلح آمیز طریقےسے نہیں آئے ہیں؛ بلکہ کچھ مکروفریب کے ذریعہ اور کچھ طاقت کے ذریعہ آئے ہیں۔اسرائیلی حکومت کا قیام دباؤ کے تحت ہوا ہے۔ بہت خوب ، فلسطینی عوام جمع ہوں ، ووٹ ڈالیں، فلسطین میں جو حکومت نظام سنبھالے اس کا انتخاب کریں؛ وہ حکومت تشکیل پاجائے ،اور پھر وہ حکومت ان لوگوں کے بارے میں فیصلہ کرے جو 1948ء کے بعد فلسطین میں آئے ہیں۔ فلسطین کی عوامی حکومت ان کے وہاں رہنے کے بارے میں فیصلہ کرے تو وہ وہاں رہیں اور اگر ان کے جانے کے بارے میں فیصلہ کرے تو وہ وہاں سے چلے جائیں ۔ یہ عوامی آراء بھی ہے اور ڈیموکریسی بھی ہے اس میں حقوق انسانی بھی ہے اوردنیا کی موجودہ منطق کے مطابق بھی ہے۔خوب یہ ایک منطقی راہ حل ہے جس کو عملی ہونا چاہیے۔ غاصب اچھی زبان کے ساتھ تو اس منطقی راہ حل کو قبول نہیں کرےگا، اس مقام پر اس معاملے سے منسلک تمام افراد پر لازم ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پورا کریں ، عربی اور اسلامی حکومتوں ، امت اسلامیہ اور بین الاقوامی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس منطقی راہ حل کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں اور اس منطقی حل کو محقق ہونا چاہیےاور ایسا ہوسکتا ہے؛ بعض لوگ نہ کہیں آقا! یہ خیالی تصورات ہیں، ایسا ممکن نہیں؛ نہيں! ایسا ممکن ہے۔ بحیرہ بالٹیک کے ممالک جو سابق سویت یونین کے قبضے میں تھےوہ چالیس سال سے زائد عرصے کے بعد مستقل ہوگئےمرکزی ایشاء کے بعض ممالک سابق سویت یونین کی تشکیل سے پہلے سو سال تک روس کے قبضے میں تھے بعد میں مستقل طور پرآزاد ہوگئے؛ اب قزاقستان ، جارجیا ، آذربائیجان اور دوسرے ممالک مستقل اور آزاد ہیں۔پس یہ امر ممکن ہے اور نہ ہونے کی اس میں کوئی بات نہیں ہے صرف اس میں پختہ اور ٹھوس عزم کی ضرورت ہے، اس میں ہمت اور شجاعت کی ضرورت ہے؛ کمر ہمت کون باندھےگا؟ امت اسلامیہ یا اسلامی حکومتیں؟امت اسلامیہ دلیر ہےاور اس نے اس بات کو واضح کردیا ہے کہ وہ ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے آمادہ ہے۔
رہبر معظم انقلاب اسلامی نے فلسطین اور غزہ میں فلسطینیوں کے قتل اور محاصرے کو امریکہ کی مشرق وسطی کی غلط پالیسی اور آناپولس کی شرمناک کانفرنس کا نتیجہ قراردیتے ہوئے فرمایا: اسلامی حکومتوں کو غزہ کا محاصرہ توڑنا چاہیےاور اس سلسلے میں مصری عوام اور حکومت کی اہم ذمہ داری ہے اور تمام مسلمان قومیں اس فریضہ کو انجام دینے میں مصری حکومت اور عوام کی مدد کریں۔ رہبر معظم نے فرمایا: جب تک فلسطین اور غزہ کے عوام آگ اور خون میں غلطاں ہیں اس وقت تک علاقائی ممالک کے امریکہ اور اسرائیل کے ساتھ مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہے اور غزہ میں موجودہ دردناک شرائط امریکی صدر بش کے علاقہ کے دورے کا نتیجہ ہیں۔ رہبر معظم نے فرمایا: عرب حکومتوں کو ہوشیا رہنا چاہیے تاکہ ان سے یا فلسطین کے دیگر عناصر سے غزہ کے عوام کے خلاف استفادہ نہ کیا جائے اور اگر ایسا ہوا تو یہ بدنما داغ ان کی پیشانی پر ہمیشہ قائم رہےگا۔ رہبر معظم انقلاب اسلامی نے مسئلہ فلسطین کے حل کو صرف مقاومت اور جد و جہد اور پائداری میں قراردیتے ہوئے فرمایا: عظیم اقتصادی دباؤ ، اسرائیلی فوجی حملے اور قتل و غارت کے باوجود فلسطین اور غزہ کے عوام کی استقامت و پائداری قابل تعریف ہےاور فلسطینی عوام کو دشمنوں کی سازشوں کے بارے میں بھی ہوشیار رہنا چاہیے جو فلسطینی عوام اور ان کی منتخب حکومت کے درمیان اختلاف ڈالنے کی کوشش کررہی ہیں ۔