ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی
دریافت:

نداي رهبري

  • قومی اتحاد اور اسلامی انسجام
  • پیغمبر اسلام(ص)
  • عبادی اور سیاسی حج
  • فلسطين
    • فلسطین پر قبضہ کی تاریخ
    • مسئلہ فلسطین کی اہمیت
    • مسئلہ فلسطین کا منطقی راہ حل
      پرنٹ  ;  PDF

      مسئلہ فلسطین کا حل

      مسئلہ فلسطین کا راہ حل ، جھوٹے اور بےبنیادطریقوں پر نہیں ہوسکتا بلکہ مسئلہ فلسطین کا راہ حل صرف یہ ہے کہ فلسطین کے حقیقی مالک " نہ باہر سے آنے والےغاصب اور قابض مہاجرین " جو فلسطین کے اندر موجود ہیں اور جو فلسطین کے باہر ہیں وہ اپنے ملک کا حکومتی نظام تشکیل دیں۔ اگر دنیا میں ڈیموکریسی کا دعوی کرنے والوں کی یہ بات درست ہےکہ ہر قوم کو اپنی قسمت کا فیصلہ کرنے کا حق ہے تو فلسطینی قوم بھی ایک قوم ہےاور اس کو بھی فیصلہ کرنا چاہیے۔ مقبوضہ فلسطین پر آج جو غاصب حکومت قائم ہے اس کا فلسطین کی سرزمین پر کوئی حق نہیں ہے؛ وہ ایک جعلی ، جھوٹ پر مبنی اور ظالم طاقتوں کی بنائی ہوئی حکومت ہے؛لہذا فلسطینی عوام سے غاصب حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم کرنے کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے۔اگر عالم اسلام میں کوئی اس غلطی کا ارتکاب کرےگااور اس ظالم حکومت کو سرکاری طور پر تسلیم کرے گا تو گویا وہ اپنے لئے ذلت و رسوائی کا سامان فراہم کرے گا اور کام بھی بیہودہ اور بے فائدہ کرےگا؛کیونکہ یہ حکومت دائمی نہیں ہے۔ صہیونیوں نے یہ تصور کرلیا ہے کہ وہ فلسطین پر قابض ہوگئے ہیں اور فلسطین ہمیشہ ان کی ملکیت بن گیا ہے ؛ نہیں، ایسا نہیں ہے ۔ فلسطین کا فیصلہ یہ ہے کہ حتمی طور پر ایک دن فلسطینی ملک وجود میں آئے گا۔فلسطینی عوام نے اس سلسلے میں قیام کیا ہے۔ مسلمان حکومتوں اور عوام کا فرض ہے کہ وہ اس فاصلے کو زیادہ سے زیادہ کم کریں اور ایسا کام کریں کہ فلسطینی عوام اس دن تک جلد پہنچ جائیں۔
      امام خمینی (رہ)کے حرم میں زائرین کے اجتماع سے خطاب، 14/3/1381۔



      مسئلہ فلسطین کا منطقی راہ حل
      مسئلہ فلسطین کا منطقی راہ حل موجود ہے۔منطقی راہ حل ایک ایسا راہ حل ہے جس کو دنیا کے تمام بیدار ضمیر لوگ قبول کرنے کے لئے مجبور ہیں جو دنیا کے آج کے مفاہیم پر یقین رکھتے ہیں۔اور وہ راہ حل یہ ہے جس کو ڈیڑھ سال پہلے بھی ہم نے پیش کیا تھا۔ اور اسلامی جمہوری حکومت نےبین الاقوامی سطح پر حکومتوں کے ساتھ مذاکرات میں اس حل کو بار بار پیش کیا ہےاور اب بھی ہم اسی کو پیش کریں گے اور اس پر ہم اصرار بھی کریں گے؛یہ راہ حل خود فلسطینی عوام کے ریفرنڈم پر مشتمل ہے؛ وہ فلسطینی جو آوارہ ہوئے ہیں " البتہ وہ لوگ جو اپنے گھراور اپنے وطن فلسطین میں واپس جانا چاہتے ہیں" یہ ایک منطقی امر ہے۔ جو فلسطینی لبنان ، اردن ، مصر ، کویت اور دوسرے عرب ممالک میں سرگرداں ہیں،یہ لوگ اپنے گھر اپنے وطن فلسطین واپس جائیں؛ جو لوگ جانے کے لئے مائل ہیں ؛ ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ کسی کو زور سے لائیں۔اور وہ لوگ جو 1948ء میں " اسرائیل کی جعلی حکومت کی تشکیل سے قبل " فلسطین میں موجود تھے چاہے مسلمان ہوں ، عیسائی ہوں یا یہودی ہوں ان سے ایک عام ریفرنڈم کرایا جائےاور وہ فلسطین کی سرزمین پر عوامی اور جمہوری حکومت کا نظام عمل میں لائیں ؛ یہ جمہوری قدم ہے اگرپوری دنیا کے لئے ڈیموکریسی اچھی ہےتو فلسطینی عوام کے لئے ڈیموکریسی کیوں اچھی نہیں ہے؟! اگردنیا کے تمام لوگوں کو اپنی سرنوشت معین کرنے کا حق حاصل ہے،تو پھرفلسطینی عوام کو یہ حق کیوں حاصل نہیں؟! کسی کو بھی اس امر میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ فلسطین کی موجودہ حکومت کو طاقت اور مکر وفریب کے ذریعہ وجود بخشا گیا ہے اور اس میں کسی کو کوئی تردید نہیں ہے کہ صہیونی صلح آمیز طریقےسے نہیں آئے ہیں؛ بلکہ کچھ مکروفریب کے ذریعہ اور کچھ طاقت کے ذریعہ آئے ہیں۔اسرائیلی حکومت کا قیام دباؤ کے تحت ہوا ہے۔ بہت خوب ، فلسطینی عوام جمع ہوں ، ووٹ ڈالیں، فلسطین میں جو حکومت نظام سنبھالے اس کا انتخاب کریں؛ وہ حکومت تشکیل پاجائے ،اور پھر وہ حکومت ان لوگوں کے بارے میں فیصلہ کرے جو 1948ء کے بعد فلسطین میں آئے ہیں۔ فلسطین کی عوامی حکومت ان کے وہاں رہنے کے بارے میں فیصلہ کرے تو وہ وہاں رہیں اور اگر ان کے جانے کے بارے میں فیصلہ کرے تو وہ وہاں سے چلے جائیں ۔ یہ عوامی آراء بھی ہے اور ڈیموکریسی بھی ہے اس میں حقوق انسانی بھی ہے اوردنیا کی موجودہ منطق کے مطابق بھی ہے۔خوب یہ ایک منطقی راہ حل ہے جس کو عملی ہونا چاہیے۔ غاصب اچھی زبان کے ساتھ تو اس منطقی راہ حل کو قبول نہیں کرےگا، اس مقام پر اس معاملے سے منسلک تمام افراد پر لازم ہے کہ وہ اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریاں پورا کریں ، عربی اور اسلامی حکومتوں ، امت اسلامیہ اور بین الاقوامی اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس منطقی راہ حل کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کریں اور اس منطقی حل کو محقق ہونا چاہیےاور ایسا ہوسکتا ہے؛ بعض لوگ نہ کہیں آقا! یہ خیالی تصورات ہیں، ایسا ممکن نہیں؛ نہيں! ایسا ممکن ہے۔ بحیرہ بالٹیک کے ممالک جو سابق سویت یونین کے قبضے میں تھےوہ چالیس سال سے زائد عرصے کے بعد مستقل ہوگئےمرکزی ایشاء کے بعض ممالک سابق سویت یونین کی تشکیل سے پہلے سو سال تک روس کے قبضے میں تھے بعد میں مستقل طور پرآزاد ہوگئے؛ اب قزاقستان ، جارجیا ، آذربائیجان اور دوسرے ممالک مستقل اور آزاد ہیں۔پس یہ امر ممکن ہے اور نہ ہونے کی اس میں کوئی بات نہیں ہے صرف اس میں پختہ اور ٹھوس عزم کی ضرورت ہے، اس میں ہمت اور شجاعت کی ضرورت ہے؛ کمر ہمت کون باندھےگا؟ امت اسلامیہ یا اسلامی حکومتیں؟امت اسلامیہ دلیر ہےاور اس نے اس بات کو واضح کردیا ہے کہ وہ ہر قسم کی قربانی دینے کے لئے آمادہ ہے۔
      تہران میں نماز جمعہ کے خطبوں میں، 16/1/1381
    • فلسطینی عوام کی استقامت و پائداری قابل تعریف ہے
  • اسلامى انقلاب
700 /