ویب سائٹ دفتر رہبر معظم انقلاب اسلامی
دریافت:

مناسک حج

  • حج کی فضيلت اور اہمیت
  • حج ترک کرنے کا حکم
  • حج اور عمرہ کے اقسام
  • حج تمتع اور عمرہ تمتع کا اجمالی ڈھانچہ
  • حج اِفراد اورعمرہ مفردہ
  • حج قِران
  • حج تمتع کے کلی احکام
  • پہلا حصه حَجة الاسلام اورنيابتي حج
    • فصل اول : حجة الاسلام
      • حجة الاسلام کے واجب ہونے کے شرائط
        • بلوغ اور عقل
        • استطاعت
          پرنٹ  ;  PDF

          استطاعت

            مسئلہ ۳۴۔ تيسري شرط : استطاعت ہے اور يہ کئی امور پر مشتمل ہے۔
               الف : مالي استطاعت۔
                ب : جسماني اور بدنی استطاعت۔
                ج : راستہ کی استطاعت (راستے کا پر امن ہونا)۔
                د : وقت کی استطاعت۔
           
           ہر ايک کي تفصيل مندرجہ ذیل ہے:


          الف : مالي استطاعت

           مسئلہ ۳۵۔ مالی استطاعت چند امور پر مشتمل ہے۔
          1. زاد راہ اور سواری۔
          2. سفر کي مدت ميں اپنے اہل و عيال کے اخراجات۔
          3. ضروريات زندگي اور جس چیز کی زندگی میں احتیاج رکھتا ہو۔
          4. واپسی پر معمول کی زندگی سے بہرہ مند ہونا۔
           
           مندرجہ بالا امور کی تفصیلات کچھ اس طرح ہیں:


          1۔ زاد راہ اور سواری
            مسئلہ ۳۶۔ زاد  راہ سے مراد ہر وہ شے ہے کہ جسکي سفر ميں ضرورت ہو مثلاً کھانے پينے کي چيزيں اور اس سفر کي ديگر ضروريات اور سواری  سے مراد حمل و نقل کے وسائل ہیں جن کے ذريعے سفر طے کيا جا تا ہے۔
           
           مسئلہ 37۔  جس شخص کے پاس زاد سفر اور سواری نہ ہو اور انہيں حاصل کرنے کيلئے مال بھی نہیں رکھتا ہو تو اس پر حج واجب نہيں ہے اگر چہ وہ کما کر اور تجارت کے ذريعے سے انہيں حاصل کرسکتا ہو۔


            مسئلہ ۳۸۔   حج واجب ہونے کی شرط یہ ہے کہ اپنے وطن لوٹنے یا دوسری جگہ جہاں جانا چاہتا ہو،  جانے کے لئے اخراجات رکھتا ہو۔

            اگر پلٹنے کا ارادہ رکھتا ہو تو شرط ہے کہ اسکے پاس اپنے وطن يا کسي دوسري منزل مقصود تک واپس پلٹنے کے اخراجات ہوں۔لیکن واپسی کے اخراجات اس کے پاس نہ ہوں تب بھی حج واجب نہیں۔
           
           مسئلہ ۳۹۔  اگر اسکے پاس حج پر جانےکے اخراجات نہ ہوں ليکن کسی نے  اس سے کوئی مال قرض لیا ہو کہ اس مال کے واپس ہونے کی صورت میں حج کے اخراجات پورے ہوتے ہوں،  چنانچہ قرض واپس لینے کا وقت پہنچ چکا یا گزرچکا ہو اور قرضدار بھی اسے واپس دینے یک طاقت رکھتا ہو اور اس کا مطالبہ قرضدار کے لئے حرج کا سبب نہ بنے،  تو اس کا مطالبہ کرنا واجب ہے۔

           
          مسئلہ ۴۰۔ اگر عورت کا مہر حج کے اخراجات کيلئے کافي ہواور وہ اپنے شوہر سے اسکی طلبکار ہو تو اگر شوہر تنگدست ہو تو يہ اس سے مہر کا مطالبہ نہيں کر سکتي اور مستطيع بھي نہيں کہلائے گی ليکن اگر شوہر مالدار ہے اور مہر کا مطالبہ کرنے ميں  عورت کے لئے کوئی مفسدہ  بھي نہ ہو تو اس پر مہر کا مطالبہ کرنا اور حج پر جانا واجب ہے ليکن اگر مہر کا مطالبہ کرنے ميں عورت کا کوئي مفسدہ ہو مثلاً يہ لڑائي جھگڑے اور طلاق کا باعث بنے تو عورت پر مطالبہ کرنا واجب نہيں ہے اور عورت مستطيع بھي نہيں کہلائے گي ۔


            مسئلہ 41۔ جس شخص کے پاس حج کے اخراجات نہيں ہيں ليکن قرض لے سکتا ہے اور اپنے قرض کو آسانی کے ساتھ ادا کرسکتا ہو  تب بھی اس پر واجب نہيں ہے کہ وہ قرض ليکر اپنے آپ کو مستطيع بنائے ليکن اگر اس نے قرض لے لیا  تو اس پر حج واجب ہو جائيگا۔

           
           مسئلہ ۴۲۔  جو شخص مقروض  ہو اور حج کے اخراجات کے علاوہ کوئی اور مال نہ رکھتا ہو جس سے وہ اپنا قرض ادا کر سکے چنانچہ قرض ادا کرنے کی مہلت بھی ہو اور اطمینان رکھتا ہو کہ قرض ادا کرنے کے وقت اسے ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہے،  اسی طرح قرض ادا کرنے کا وقت پہنچنے پر قرضدار اسکا مطالبہ کرنے یا تاخیر پر راضی ہو اور مقرض مطمئن ہو کہ مطالبہ کے وقت قرض ادا کرسکے گا،  تو اس کے لئے حج پر جانا واحب ہے،  مذکورہ دو صورتوں کے علاوہ اس پر حج واجب نہیں ہے۔

           
           مسئلہ ۴۳۔ وہ شخص جس کے لئے کو شادي کرنا ضروری ہے اور اگر وہ شادي نہیں  کرے گا تو اسے مشقت ياحرج کا سامنا ہوگا اور اس کيلئے شادي کرنا ممکن بھي ہو تو وہ اس وقت مستطیع ہوگا جب  اس کے پاس حج کے اخراجات کے علاوہ شادي کے اخراجات بھی ہوں۔


            مسئلہ ۴۴۔  اگر استطاعت والے سال گاڑی،  ہوائی جہاز یا حمل و نقل کے دوسرے وسائل کا کرایہ معمول کی حد سے زیادہ بڑھ گیا ہو اور کسی حرج اور مشقت کے بغیر اضافہ کرایہ ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہوتو اس کو ادا کر کے حج پر جانا واجب ہے۔لیکن اگر اضافی رقم کو ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو یا اس کا ادا کرنا اس کے لئے حرج کاسبب بنے،  تو اس پر واجب نہیں ہے کہ اسے ادا کرے اور وہ مستطیع نہیں ہے،  اور سفر حج کي ديگر ضروريات کے خريدنے يا انکے کرائے پر لينے کے لئے بھی يہي حکم ہے۔  اور اسی طرح  اگر  اپنے مال کو معمول سے کم قیمت پر بیچ کر حج پر جانا چاہتا ہو تو،  اس کا بھی یہی حکم ہے۔

           
           مسئلہ۴۵۔  حج کے لئے استطاعت کا معیار،  لوگوں کے درمیان عام حالات میں اس کے انجام دینے کی توانائی ہے اور اگر کوئی یقین رکھتا ہے کہ وہ اس قسم کے استطاعت نہیں رکھتا ہے لیکن احتمال دیتا ہے کہ اگر تحقیق و جستجو کرے تو کوئی ایسی راہ  مل جائے گی جس کے سبب موجودہ مالی حالت میں حج انجام دینے کے لئے مستطیع ہوجائے گا تو اس کے لئے جستجو اور تحقیق کرنا واجب نہیں ہے۔لیکن اگر استطاعت میں شک کرتا ہو اور جاننا چاہے کہ مستطیع ہوا ہے یا نہیں تو  بظاہر واجب ہے کہ وہ اپنی مالی حالت کی تحقیق اور جستجو کرے۔


          2۔ سفر کے دوران گھر والوں کے اخراجات
            مسئلہ۴۶۔ مالي استطاعت کے حاصل ہونے میں شرط ہے کہ حج سے واپس آنے تک اپنے گھر والوں کے اخراجات رکھتا ہو ۔

            مسئلہ ۴۷۔  گھر والوں ( کہ مالي استطاعت ميں جنکے اخراجات کا موجود ہونا شرط ہے) سے مراد وہ لوگ ہيں کہ جنہيں عرف عام ميں  گھر والے شمار کيا جاتا ہے اگر چہ شرعاً اس پر ان کا خرچہ واجب نہ بھي ہو ۔


          3۔  ضروريات زندگي اور معیشت

            مسئلہ۴۸۔  حج واجب ہونے کی شرایط میں سے  ایک  شرط یہ بھی ہے کہ اسکے پاس ضروريات زندگي اور وہ چيزيں ہوں جنکي اسے عرفاً اپني حيثيت کے مطابق زندگي بسر کرنے کيلئے ضروری ہے البتہ يہ شرط نہيں ہے کہ خود  وہ چيزيں اس کے پاس موجود ہوں بلکہ کافي ہے کہ اس کے پاس رقم یا ایسی چیز موجود ہو جسے زندگی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے خرچ کر سکے ۔

            مسئلہ۴۹۔  افراد کی عرفی ( سماجی) حيثيتیں مختلف ہوتي ہیں جس شخص کے لئے رہائشی مکان کا ہونا اس کی ضروریات زندگی شمار ہوتا ہو یا عرف میں اس کی حیثیت کے مناسب ہو،  یا کرایہ یا عاریہ یا اوقاف کے مکان میں رہائش کرنا اس کے لئے حرج و مشقت کا سبب ہو یا اس کی توہین کا باعث بنتا ہو،  تو استطاعت حاصل ہونے کے لئے اس کے پاس رہائشی مکان ہونا شرط ہے۔

           
          مسئلہ ۵۰۔  اگر حج کيلئے کافي مال رکھتا ہوليکن کوئی ایسی ضرورت آجائے کہ جس ميں اسے خرچ کرنا چاہتا ہو جيسے گھر مہيا کرنا يا بيماري کا علاج کرانا يا ضروريات زندگي کو فراہم کرناتو يہ مستطيع نہيں ہے اور اس پر حج واجب نہيں ہے۔

           
           مسئلہ ۵۱۔  مستطیع ہونے کے لئے يہ شرط نہيں ہے کہ مکلف کے پاس خود زاد و راحلہ ہوں بلکہ کافي ہے کہ اس کے پاس اتني رقم و غيرہ ہو کہ جسے زاد و راحلہ ميں خرچ کرنا ممکن ہو  تو وہ مستطیع کہلائے گا۔

           
           مسئلہ۵۲۔ اگر کسي شخص کے پاس ضروريات زندگي،  گھر ،  گھريلو سامان ،  سواري،  آلات صنعت و غيرہ  کي ايسي چيزيں  اسکي حيثيت سے بالاتر ہيں چنانچہ اگر يہ کر سکتا ہو کہ انہيں بيچ کر اپني ضروريات زندگي خريد  کر،  باقی مقدار کو حج کے اخراجات پر خرچ کرے اور یہ کام اسکے لئے حرج ،  کمي يا سبکي بھي نہ ہو اور اضافی رقم حج کے اخراجات يا انکي تکميل کي مقدار کے برابر ہو تو اسے یہ کام انجام دینا چاہیےاور وہ مستطيع ہے ۔

           
          مسئلہ۵۳۔  اگر مکلف اپني زمين يا کوئي اور چيز فروخت کرے تا کہ اس سے حاصل شدہ پیسوں سے گھر خريدے۔ اگر ذاتی گھر کا ہونا اسکي ضرورت ہو يا اسکی مالکیت عرف کے لحاظ سے اسکي حيثيت کے مطابق ہو تو زمين کي قيمت وصول کرنے سے يہ مستطيع نہيں ہو گا اگر چہ وہ حج کے اخراجات يا انکي تکميل کي مقدار کے برابر ہی کیوں نہ ہو۔

           
           مسئلہ۵۴۔ جس شخص کو اپني بعض مملوکہ چيزوں جیسے کتاب وغیرہ  کي ضرورت نہ رہے اور ان کي قيمت سے مالي استطاعت حاصل ہو رہی ہو يا اس کو تکمیل کر لےتو ديگر شرائط کے موجود ہونے کي صورت ميں اس پر حج واجب ہوجائے گا۔


          4۔ واپسی پر  مال کافی  ہو

            مسئلہ ۵۵۔ مالي استطاعت حاصل ہونے کے شرایط میں سے  ایک  شرط یہ ہے کہ واپسی پر کافی مال ہو ( مخفي نہ رہے کہ يہ شرط حج بذلي ميں ضروري نہيں ہے اسکي وضاحت بعد میں  کی جائیگی8) اور اس سے مراد يہ ہے کہ حج سے پلٹنے کے بعد اسکے پاس ايسي تجارت ،  زراعت ،  صنعت،   ملازمت ،  يا ملکیت کی منفعت مثلا باغ  اور دکان و غيرہ کی  آمدني کے ذرائع ہوں کہ جنکي آمدني عرف ميں اسکي حيثيت کے مطابق اسکے اور اسکے اہل و عيال کے گذر بسر کيلئے کافي ہو۔ اور ديني علوم کے طالبعلموں  کيلئے حج سے واپس آنے کے بعد حوزہ علمیہ کی جانب سے دیا جانے والا شہریہ سے  انکی زندگی کا گذر بسر ہوسکے یا تکمیل کر سکے تو کفایت کرتا ہے۔
           
          مسئلہ ۵۶۔ عورت کی استطاعت میں بھی واپسی پر گھر کا خرچہ ہونا شرط ہے بنابراين اگر اس کا شوہر زندہ ہو اور يہ شوہر کی زندگی میں مستطیع ہوجائے تو اس کيلئے  حج سے لوٹنے کے بعد جو نفقہ اسکاشوہر  اسے ادا کرتا ہے وہ  وہی خرچہ حساب ہوگا۔ لیکن جس عورت کا شوہر نہ ہو اس کی استطاعت  تحقق پانے کے لئے شرط ہے کہ حج کے اخراجات کے علاوہ حج سے واپسی پر مالی آمدنی کا ایک ذریعہ رکھتی ہو جو زندگی کا گزارہ چلانے کیلئے اس کی عرفی شان کے مناسب ہو۔ اس صورت کے بغیر وہ حج کے لئے مستطیع نہیں ہے۔

           
           مسئلہ ۵۷۔ جس شخص کے پاس زاد و راحلہ نہ ہو ليکن کوئي اور شخص اسے دے اور اسے مثلا يوں کہے کہ "تم حج بجالاؤ تمہارا خرچہ میرے ذمہ ہے" تو اس پر حج واجب ہے اور اس پر اسے قبول کرنا لازمی ہے اور اس حج کو «حج بذلي» کہتے ہيں اور اس ميں "رجوع بہ کفایت " شرط نہيں ہے نيز خود زاد و راحلہ کا دينا ضروري نہيں ہے بلکہ قيمت کا دينا بھي کافي ہے ۔

            ليکن اگراسے حج کيلئے مال نہ دے بلکہ صرف اسےکچھ مال بخش دے جو حج کے خرچہ کے لئے کافی ہو۔ اگر و ہ اس ہدیہ  کو قبول کرلے تو اس پر حج واجب ہے ليکن اس پر اس مال کو قبول کرنا واجب نہيں ہے پس اس کيلئے جائز ہے کہ اسے قبول نہ کرے اور اپنے آپ کو مستطيع نہ بنائے۔
           
          مسئلہ ۵۸۔  حج بذلي ،  حجة الاسلام کے لئے کافي ہے اور اگر اسکے بعد خود مستطيع ہوجائے تو دوبارہ حج واجب نہيں ہے۔

           
          مسئلہ ۵۹۔ اگر کسی شخص  کو کسی ادارہ يا شخص کي طرف سے حج پر جانے کي دعوت دي گئی ہواور اگر اس دعوت کے بدلے ميں اس پرکسي کام کو انجام دينے کي ذمہ داری لگائي جائے تو اسکے حج پر حج بذلي کا عنوان صادق نہيں آئے گا۔

          مالي استطاعت کے متفرق مسائل

            مسئلہ ۶۰۔ مستطیع شخص،  مال کو حج کے لئے خرچ کرنے کا وقت پہنچنے کے بعد اپنے آپ کو استطاعت سے خارج نہیں کرسکتا ہے،  بلکہ احتیاط واجب یہ  ہے کہ اس وقت سے پہلے بھی اپنے آپکو استطاعت سے خارج نہ کرے۔

           
          مسئلہ ۶۱۔ مالي استطاعت ميں شرط نہيں ہے کہ وہ مکلف کے شہر ميں حاصل ہو بلکہ اس کا ميقات ميں حاصل ہو جانا بھی کافي ہے پس جو شخص ميقات تک پہنچ کر مستطيع ہو جائے اس پرحج واجب ہے اور يہ حجة الاسلام کےلئے کافي ہے۔

           
           مسئلہ ۶۲۔ مالي استطاعت اس شخص کيلئے بھي شرط ہے جو ميقات تک پہنچ کر حج پر قادر ہو جائے پس جو شخص ميقات تک پہنچ کر حج پر قادر ہو جائے جيسے قافلوں ميں کام کرنے والے خادمین و غيرہ ۔ اگر ان ميں استطاعت کي ديگر شرائط بھي پائی جاتی  ہوں جيسے اہل و عيال کا نفقہ ،  ضروريات زندگي اور اسکي حيثيت کے مطابق جن چيزوں کي اسے اپني زندگي ميں ضرورت ہوتي ہے اور "رجوع بہ کفایت"،  تو اس پر حج واجب ہے اور يہ حجة الاسلام سے کافي ہے ورنہ اس کا حج مستحبي ہو گا اور بعد ميں استطاعت حاصل ہوجائے تو اس پر واجب ہے کہ حجۃ الاسلام بجا لائے۔

           
          مسئلہ ۶۳۔ اگرکسي شخص کو حج کے راستے ميں خدمت کيلئے اتني اجرت کے ساتھ اجير بنايا جائے کہ جس سے وہ مستطيع ہو جائے تو اس قیمت کو قبول کرنے کے بعد اس پر حج واجب ہے البتہ يہ اس صورت ميں ہے جب اعمال حج کو بجالانا اس اجیر ہوئے کام میں رکاوٹ نہ بن جائے ورنہ  ایسی اجرت سےمستطيع نہیں ہوگا اسی طرح اجرت کے بدلے میں کام قبول کرنا اس کے لئے واجب نہیں ہے۔

           
           مسئلہ ۶۴۔  جو شخص مالي استطاعت نہ رکھتا ہو اور نيابتي حج کيلئے اجير بنے پھر اس کے بعد اجارہ کے  مال کے علاوہ کسي اور مال سے مستطيع ہو جائے تو اس پر واجب ہے کہ اس سال اپنے لئے حج بجالائے اور اجرت والا حج  اگر اسي سال کيلئے ہو تو باطل ہے ورنہ اجرت والا حج آئندہ سال بجالائے۔


            مسئلہ ۶۵۔  اگر مستطيع شخص غفلت کي وجہ سے يا جان بوجھ کر مستحب حج کي نيت کرلے گر چہ اس کا مقصد دوسرے سال بہتر صورت میں حج بجا لانے کے لئے پریکٹس کی غرض سے کیوں نہ ہو یا اس اعتقاد سے کہ مستطیع نہیں ہے مستحب حج کی نیت کرے اور بعد میں معلوم ہوجائے کہ وہ مستطیع تھا تو اسکے اس حج کا حجة الاسلام کے لئے کافی ہونے میں اشکال ہے پس احتیاط کي بنا پر اس پر آئندہ سال حج کو بجالانا واجب ہے۔ مگر  اس خیال سے کہ اس کا وظیفہ  مستحب امر کو بجالانا ہےاور وہ شارع مقدس کے حکم کی تعمیل کرنے کی نیت رکھتا ہو تو پھر اس کا یہ حج حجۃ الاسلام سے کافی ہوگا۔


          ب: جسماني استطاعت

            مسئلہ ۶۶۔ جسمانی استطاعت سے مراد يہ ہے کہ جسماني لحاظ سے حج کو انجام دينے کي قدرت رکھتا ہو پس مريض اور بوڑھے جو حج پر نہیں جاسکتے ہیں يا جن کيلئے سفر کرنے میں حرج اورمشقت ہے  ان پر حج واجب نہیں ہے۔

          مسئلہ ۶۷۔  حج کے وجوب میں جسماني استطاعت کا باقي رہنا شرط ہے پس اگر کوئی شخص حج کے قصد سے سفر پر روانہ ہوجائے لیکن احرام باندھنے سےپہلے بيماری اسے سفر جاری رکھنے سے روک دے تو معلوم ہوگا کہ اس کے لئے جسمانی استطاعت حاصل نہیں ہوئی ہے۔ اور ايسے شخص پر حج کيلئے کسي کو نائب بنانا بھی واجب نہيں ہے۔ ليکن اگر يہ حج اس کے اوپر پہلے سے مستقر ہو اور بيماري کي وجہ سے وہ سفر کو جاري رکھنے سے عاجز ہو جائے اور آئندہ سالوں ميں بھي بیماری سے صحت یابی اور توانائی حاصل کرکے بغير مشقت کے حج انجام دینے کي اميد نہ ہو تو اس پر واجب ہے کہ کسي اور کو نائب بنائے لیکن اگر اسے صحبت یاب ہونے اور اگلے برسوں میں حج بجالانے کی امید رکھتا ہو تو اس شخص کو  ذاتی طور پر  حج  بجالانے کا وجوب ساقط نہيں ہوگا۔ لیکن اگر احرام باندھنے کے بعد بيمار ہو تو اسکے اپنے خاص احکام ہيں۔


          ج: راستہ کی  استطاعت

            مسئلہ ۶۸۔ راستے کی استطاعت سے مراد يہ ہے کہ حج پر جانے کا راستہ کھلا اور پر امن ہو پس اس شخص پر حج واجب نہيں ہے کہ جس کيلئے راستہ  اس طرح سے بند ہو  کہ ميقات تک نہیں پہنچ سکتا ہو يا  حج کے اعمال کوتکميل تک  نہیں پہنچا سکتا ہو۔ اسي طرح اس شخص پر بھي حج واجب نہيں ہے کہ جس کيلئے راستہ تو کھلا ہو ليکن نا امن ہو۔ اور راستے ميں اسے اپني جان ،  بدن ،  عزت يا مال کا خطرہ ہو ۔
            مسئلہ ۶۹۔ جس شخص کے پاس حج کے اخراجات ہوں اور تاخیر کے بغیر حج پرجانے کے لئے اپنا نام لکھوا دے ليکن اگر قرعہ اندازی میں اس کا نام نہیں نکلا اور وہ اس سال حج پر نہ جا سکا تو ایسا شخص مستطيع نہيں ہے اور اس پر حج واجب نہيں  ہوا ہے ليکن اگر آئندہ سالوں ميں حج انجام دینا اس سال اپنا نام لکھوانے اور رقم کی ادائیگی پر موقوف ہو تو احتیاط واجب يہ ہے کہ اس کام کے لئے اقدام کرنا چاہیے ۔

          د : وقت کی استطاعت

          مسئلہ ۷۰۔ وقت کی استطاعت  سے مراد يہ ہے کہ ايسے وقت ميں استطاعت حاصل ہو جس ميں  حج کے مخصوص ایام میں حج کو پہنچنے کے لئے  وقت کافی ہو  پس اگر کسی کو استطاعت ایسے وقت میں حاصل ہوجائے کہ وقت کی کمی کی وجہ سے حج کو درک نہیں کرسکتا ہے یا اس کے لئے شدید مشقت اور حرج کا سبب ہو تو اس سال اس پر حج واجب نہیں ہے ۔

    • دوسري فصل :نيابتي حج
  • دوسرا حصه عمرہ کے اعمال
  • تیسرا حصہ حج کے اعمال
  • حج اور عمرہ کے استفتائات
700 /