دریافت:
مناسک حج
- مقدمه: حج کی فضیلت اور اہمیت
مقدمه: حج کی فضیلت اور اہمیت
شریعتِ اسلام میں حج مخصوص عبادتوں کا ایک مجموعہ ہے، جو اسلام کے بنیادی ستونوں میں سے ایک ہے۔ جیسا کہ امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے: «بُنِیَ اَلْإِسْلاَمُ عَلَی خَمْسٍ عَلَی اَلصَّلاَةِ وَ اَلزَّکَاةِ وَ اَلصَّوْمِ وَ اَلْحَجِّ وَ اَلْوَلاَیَة»[1]
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے: نماز، زکات، روزہ، حج اور ولایت۔
حج خواہ واجب ہو یا مستحب، بڑی فضیلت اور بےشمار اجر و ثواب کا حامل ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے پاک اہل بیت علیہم السلام سے حج کی فضیلت میں بہت سی روایات منقول ہیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: «الْحَاجُّ وَ الْمُعْتَمِرُ وَفْدُ اللَّهِ إِنْ سَأَلُوهُ أَعْطَاهُمْ وَ إِنْ دَعَوْهُ أَجَابَهُمْ وَ إِنْ شَفَعُوا شَفَّعَهُمْ وَ إِنْ سَکَتُوا ابْتَدَأَهُمْ وَ یُعَوَّضُونَ بِالدِّرْهَمِ أَلْفَ أَلْفِ دِرْهَمٍ.»[2]
حج اور عمرہ ادا کرنے والے اللہ کے مہمان ہوتے ہیں۔ اگر کچھ مانگیں تو اللہ عطا کرتا ہے؛ دعا کریں تو مستجاب ہوتی ہے؛ کسی کے حق میں شفاعت کریں تو اللہ قبول کرتاہے اور اگر کچھ نہ کہیں تو بھی اللہ خود ان پر کرم فرماتا ہے اور (حج پر خرچ ہونے والے ) ایک درہم کے بدلے اللہ اسے دس لاکھ درہم عطا کرتا ہے۔
حج دین اسلام کے اہم ترین واجبات اور شریعت کے ارکان میں سے ہے اور ایک ایسا فریضہ ہے جس کی کوئی مثال نہیں۔ گویا دین کے تمام فردی، اجتماعی، زمینی، آسمانی، تاریخی اور عالمی پہلوؤں کو حج میں سمیٹنا مقصود ہے۔ حج میں ایسی معنویت ہے جو تنہائی یا گوشہ نشینی سے دور ہے؛ ایسا اجتماع ہے جس میں لڑائی جھگڑا، بدگوئی اور بدخواہی کا شائبہ نہیں۔ ایک طرف انسان کا دل اللہ سے راز و نیاز، دعا اور ذکر سے لبریز ہوتا ہے، تو دوسری طرف لوگوں سے محبت اور تعلق بھی برقرار رہتا ہے۔
حاجی ایک آنکھ سے ماضی میں جھانکتا ہے اور حضرت ابراہیم، حضرت اسماعیل اورحضرت ہاجرہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعات اور رسول خدا کا فاتحانہ انداز میں ا بتدائے اسلام کے مومنین کے جھرمٹ میں مسجد الحرام میں داخل ہونےکے مناظر کو خیال میں لاتا ہے اور دوسری آنکھ سے اپنے آس پاس مؤمنوں کا جم غفیر دیکھتا ہے، جو سب ایک دوسرے کے مددگار اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے متمسک ہیں۔
حج پر غور و فکر کرنے سے انسان اس یقین پر پہنچتا ہے کہ دین کے بہت سے اہداف اوربشریت کے لئے اس کی آرزوئیں اس وقت پوری ہو سکتی ہیں جب اہل ایمان آپس میں تعاون، یکجہتی اور ہم آہنگی کا جذبہ پیدا کریں۔اگر باہمی تعاون اور ہمدلی کا یہ جذبہ قائم ہو جائے، تو دشمنوں کی سازشیں کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔
- پہلی فصل:کلیات
- فصل دوم: واجب حج (حجّة الاسلام)
- حج واجب ہونے کے شرائط:
- عقل اور بلوغ
عقل اور بلوغ
28۔ پہلی شرط عقل ہے۔ لہذا دیوانے پر حج واجب نہیں۔
29۔ دوسری شرط بلوغ ہے۔ پس نابالغ پر حج واجب نہیں، اگرچہ بالغ ہونے کے قریب ہو۔ اگر نابالغ حج کرے تو حج صحیح ہے لیکن وہ حجّة الاسلام کے لئے کافی نہیں ہوگا۔اگر نابالغ احرام باندھے اورمشعر میں وقوف سے پہلے بالغ ہو جائے تو اس کا حج، حجّة الاسلام کے لئے کافی ہوگا۔
30۔ اگر نابالغ احرام کی حالت میں کوئی حرام کام کرے چنانچہ شکار ہو تو اس کا کفارہ ولی پر واجب ہے۔ لیکن دیگر محرمات کا کفارہ ادا کرنا واجب نہیں ، نہ نابالغ پر اور نہ ہی اس کے ولی پر۔
31۔ نابالغ شخص کے حج کی قربانی کا خرچ اس کے ولی کے ذمہ ہے۔
32۔ واجب حج کے لیے عورت کو شوہر کی اجازت یا بچے کو والدین کی اجازت ہونا شرط نہیں بنابراین شوہر یا والدین راضی نہ ہونے کی صورت میں بھی حج پر جانا واجب ہے۔
- استطاعت
- الف: مالی استطاعت
الف: مالی استطاعت
34۔ مالی استطاعت حاصل ہونے کے لیے درج ذیل اخراجات پورا ہونا ضروری ہے:
1۔ رفت و آمد اور توشہ سفر کے اخراجات
2۔ دورانِ سفر اپنے اہل و عیال کے اخراجات
3۔ روزمرہ زندگی کی بنیادی ضروریات
4۔ حج سے واپسی کے بعد معمول کے مطابق عزت کی زندگی گزارنے کا امکان (یعنی انسان محتاج نہ ہو)
1- رفت و آمد اور توشہ سفر کے اخراجات
35۔ توشۂ سفر سے مراد وہ تمام چیزیں ہیں جن کی دورانِ سفر ضرورت ہوتی ہے، جیسے کھانا، پینا اور سفر کے دیگر لوازمات۔
36۔ جس شخص کے پاس حج پر جانے اور واپس آنے کا خرچ اورتوشہ موجود نہ ہو، اور نہ ہی ایسا مال ہو جس سے وہ یہ خرچ پورا کر سکے تو اس پر حج واجب نہیں اگرچہ وہ محنت مزدوری کرکے یہ رقم کما سکتا ہو۔
37۔ سفر کے لوازمات کا عیناًموجود ہونا شرط نہیں ہےبلکہ اگر مکلف کے پاس اتنا مال یا رقم ہو جس سے وہ یہ سامان خرید سکتا ہو تو کافی ہے اور وہ مستطیع شمار ہوگا۔
38۔ اگر کسی کا دوسرے پر اتنی رقم قرضہ ہو جو استطاعت حاصل ہونے کے لئے کافی ہوچنانچہ رقم طلب کرنا ممکن ہو اس طرح کہ قرض ادا کرنے کا وقت پہنچ گیا ہو یا مقروض وقت سے پہلے ادا کرنا چاہتا ہو تو اس کو وصول کرکے حج پر جانا چاہئے۔
39۔ اگر عورت کا مہر اتنا ہو کہ حج کے اخراجات کے لیے کافی ہو اور وہ شوہر کے ذمے ہو، اگر شوہر اس وقت اسے ادا کرنے کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو عورت اس کا مطالبہ نہیں کرسکتی اور مستطیع نہیں ہےالبتہ اگر شوہر ادا کرنے کی قدرت رکھتا ہے اور مہر مانگناعورت کے لئے کسی نقصان کا باعث نہ ہو توواجب ہے کہ مہر طلب کرے اور حج پر جائے اوراگر مہر مانگے تو نقصان ہو مثلا جھگڑے یا طلاق کا اندیشہ ہو تو مہر طلب کرنا واجب نہیں اور وہ مستطیع نہیں ہے۔
40۔ جس شخص کے پاس حج کے اخراجات نہیں ہیں لیکن کسی اور سے آسانی سے قرض لے کر بعد میں ادا کرسکتا ہے تو اس پر واجب نہیں ہے کہ قرض لیکر اپنے آپ کو مستطیع بنائے لیکن اگر اس نے قرض لے لیا تو حج واجب ہو جائے گا۔
41۔ اگر کوئی شخص مقروض ہے اور اس کے پاس حج کے ضروری اخراجات کے علاوہ قرض کی ادائیگی کے لئے کوئی مال موجود نہیں تو چنانچہ قرض ادا کرنے کی مہلت بھی ہو اور اطمینان رکھتا ہو کہ قرض ادا کرنے کے وقت اسے ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہے، اسی طرح قرض ادا کرنے کا وقت پہنچا ہو لیکن قرض خواہ تاخیر سے ادا کرنے پر راضی ہواور مقروض مطمئن ہو کہ مطالبہ کے وقت قرض ادا کرسکے گا، تو اس کے لئے حج پر جانا واحب ہے، مذکورہ دو صورتوں کے علاوہ اس پر حج واجب نہیں ہے۔
42۔ اگر کسی شخص کو نکاح کی ضرورت ہو اور نکاح نہ کرنے کی صورت میں وہ مشکلات اور پریشانی میں مبتلا ہو جائے اور اس کے لیے نکاح کرنا ممکن ہو، تو اُس پراس صورت میں حج واجب ہو گا جب اس کے پاس حج کے اخراجات کے ساتھ نکاح کا خرچ بھی موجود ہو۔
43۔ اگر استطاعت والے سال حمل و نقل کے وسائل کا کرایہ معمول کی حد سے زیادہ بڑھ گیا ہوتو چنانچہ کسی حرج اور مشقت کے بغیر اضافی کرایہ ادا کرنے کی طاقت رکھتا ہوتو اس کو ادا کر کے حج پر جانا واجب ہے اور فقط مہنگائی حج کے لئے مانع نہیں بنے گی۔لیکن اگر اضافی رقم کو ادا کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو یا اس کا ادا کرنا اس کے لئے حرج کاسبب بنے، تو اس پر واجب نہیں ہے کہ اسے ادا کرے اور وہ مستطیع نہیں ہے، اور سفر حج کی دیگر ضروریات خریدنے یا ان کو کرائے پر لینے کا بھی یہی حکم ہے۔ اسی طرح اگر اپنے مال کو معمول سے اتنی کم قیمت پر بیچنا پڑے جو زیادہ مشقت کا باعث بنے تو ا س کو فروخت کرنا واجب نہیں۔
44۔ حج میں مالی استطاعت کا معیار یہ ہے کہ عام لوگوں کے درمیان متعارف طریقے سے حج کرنے کی طاقت ہو۔اگر کوئی سمجھتا ہے کہ وہ اس متعارف طریقے سے مستطیع نہیں ہے لیکن احتمال دیتا ہے کہ اگر تحقیق و جستجو کرے تو کوئی ایسی راہ مل جائے گی جس کے سبب موجودہ مالی حالت میں حج انجام دینے کے لئے مستطیع ہوجائے گا تو اس کے لئے جستجو اور تحقیق کرنا واجب نہیں ہے۔ اگر مالی استطاعت میں شک ہو تو اپنے مالی حالات کا جائزہ لینا واجب ہے۔
۲- سفر کے زمانے میں زیر کفالت افراد کے اخراجات
45۔ مالی استطاعت ثابت ہونے میں شرط ہے کہ حج سے واپسی تک اپنے زیر کفالت افراد کے اخراجات موجود ہوں۔
46۔ زیر کفالت افراد سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں عرفاً اس کا عیال کہا جاتا ہو، اگرچہ ان کا نفقہ دینا واجب نہ بھی ہو۔
۳- ضروریاتِ زندگی
47 ۔ مکلف پر حج کے واجب ہونے کے لیے شرط ہے کہ اس کے پاس زندگی کی بنیادی ضروریات اور عرفاً اس کے مقام و حیثیت کے مطابق ضرورت کی چیزیں موجود ہوں البتہ ضروری نہیں کہ یہ اجناس خود موجود ہوں، بلکہ اگر ان کو خریدنے کے لیے پیسہ یا متبادل مال موجود ہو تو بھی وہ مستطیع شمار ہوگا۔
48۔ افراد کی عرفی حیثیتیں مختلف ہوتی ہیں مثلاً اگر کسی کے لیے ذاتی مکان رکھنا ضروریا ت زندگی شمار ہوتا ہو یا اس کا عرفی مقام تقاضا کرتا ہو کہ اس کے پاس گھر ہو یا کرایہ یا وقف کے مکان میں رہائش اس کے لیے مشقت اور مشکل ہویا خفت کا سبب ہو تو اس کے مستطیع ہونے کے لیے ذاتی مکان یا اس کے برابر قیمت کا ہونا شرط ہے۔
49۔ اگر کسی کے پاس اتنا مال ہو جو حج کے لیے کافی ہے، لیکن وہ کسی اہم ضرورت جیسے مکان، بیماری کا علاج یا گھریلو سامان کے لئے اس کی طرف محتاج ہوتو وہ مستطیع نہیں ہے، اور اس پر حج واجب نہیں۔
50۔ جس شخص کے پاس زندگی کی ضروری اشیاء جیسے مکان، گھریلو سامان، گاڑی یا کام کے آلات اس کی حیثیت سے زیادہ ہوں، اور اضافی سامان کو فروخت کرنا اس کے لیے مشقت یا خفت کا باعث نہ ہواور اس کو فروخت کرکے ملنے والی قیمت حج کے اخراجات کے لئے کافی ہو یا اخراجات کو پورا کرتا ہو تو ضروری ہے کہ زائد مقدار کو فروخت کرے اور حج پرجائے۔
51۔ اگر مکلف رہائش کا مکان خریدنے کے لئے زمین بیچ دے تو چنانچہ حقیقتا یا عرفا اس کو گھر کی ضرورت ہے تو زمین کی قیمت ملنے سے مستطیع نہیں ہوگا اگرچہ حج کے اخراجات کے برابر ہو یا اس کو پورا کرتی ہو۔
52۔ اگر کسی شخص کے کچھ اموال اب اس کی ضرورت کے نہیں مثلا نئی گاڑی خریدنے کی وجہ سے پرانی گاڑی کی ضرورت نہ ہواور ان اموال کی فروخت سے ملنے والی قیمت حج کی استطاعت یا رقم کو پورا کرنے کے لئے کافی ہو تو دیگر شرائط موجود ہونے کی صورت میں اس پر حج واجب ہے۔
۴- حج کے بعد کی متعارف زندگی سے بہرہ مند ہونا
53۔ مالی استطاعت ثابت ہونے کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ حج سے واپسی کے بعد اس کے پاس ایسا مال یا ذریعہ آمدن مثلا کاروبار، زراعت، صنعت اور دکان کا کرایہ وغیرہ ہو جو اس کی اور اس کے خاندان کی عرفی حیثیت کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے کافی ہو۔
54 ۔جس شخص کے پاس حج کے بعدکوئی ذریعہ آمدن نہ ہو، لیکن وہ شرعی اموال جیسے خمس، زکات وغیرہ سے اپنی زندگی چلا سکتا ہو، تو اس پر حج واجب ہے۔
55۔ عورت کے لیے بھی رجوع بہ کفایت (متعارف زندگی سے بہرہ مند ہونا) شرط ہے پس اگر شادی شدہ عورت شوہر کی حیات میں مستطیع ہوجائے تو شوہر کی طرف سے ملنے والا نفقہ استطاعت ثابت کرنے کے لئے کافی ہے۔ لیکن اگر کسی عورت کا شوہر نہ ہو تو حج سے واپسی کے بعد اپنی عرفی حیثیت کے مطابق زندگی گزارنے کے لئے مال یا ذریعہ آمدن ہونا چاہئےاس صورت کے علاوہ مستطیع نہیں ہے۔
56۔ اگر کسی شخص کے پاس سفر کے لوازمات نہ ہوں لیکن اگر کوئی اس کو حج کے تمام اخراجات دینے کی پیشکش کرے مثلا کہے: “تم حج پر جاؤ، خرچ میری طرف سے”تو اس صورت میں اس پر حج واجب ہو جاتا ہے اور اسے قبول کرنا لازم ہے۔ اسے “حج بذلی” کہتے ہیں۔ حج بذلی میں رجوع بہ کفایت شرط نہیں ہے اور اسی طرح خود سامان اور ضروری لوازمات ہونا بھی ضروری نہیں ہے بلکہ نقد رقم دینا کافی ہے۔البتہ اگر حج انجام دینے کے عنوان سے مال نہ بخشے بلکہ فقط اتنا مال دے جو حج کے لئے کافی ہو تو اس کو قبول کرنا واجب نہیں ہے لیکن اگر ہدیہ قبول کرے تو رجوع بہ کفایت کی شرط بھی ہونے کی صورت میں حج واجب ہو جائے گا۔
57۔ حج بذلی، حجة الاسلام (عمر بھر میں واجب حج) کے بدلے کافی ہے اور اگر بعد میں مستطیع ہو جائے، تو دوبارہ حج واجب نہیں۔
58۔ اگر کسی شخص کو کسی ادارے یا فرد کی طرف سے کسی کام کو انجام دینے کے لئے حج کی دعوت ملے اور حج سے مشرف ہوجائے تو چنانچہ حج کی دعوت کے عوض کوئی کام انجام دینے کی ذمہ داری لے تو اس کا حج، حج بذلی نہیں ہے۔
استطاعتِ مالی سے متعلق متفرق مسائل
59۔ جو شخص مستطیع ہوچکا ہے، حج کے لئے مال خرچ کرنے کا وقت پہنچنے کے بعد اپنے آپ کو استطاعت سے خارج نہیں کرسکتا ہے، بلکہ احتیاط واجب کی بناپر اس وقت سے پہلے بھی اپنے آپ کو استطاعت سے خارج نہیں کرنا چاہئے۔
60۔ مالی استطاعت میں شرط نہیں ہے کہ وہ مکلف کے شہر میں حاصل ہو بلکہ اگر میقات پر استطاعت حاصل ہو جائے تو بھی کافی ہےبنابراین اگر میقات میں استطاعت حاصل ہو تواس شخص پر حج واجب ہے اور یہی حج ، حجۃ الاسلام کے لئے کافی ہوگا۔
61۔ جو شخص میقات پر پہنچ کر حج ادا کرنے کے قابل ہوجائے، اُس صورت میں مستطیع اور اس پر حج اس وقت واجب ہوگا جب وہ مالی استطاعت کی دیگر تمام شرائط بھی رکھتا ہو۔ لہٰذا اگر کاروان کے خادمین وغیرہ، اپنے اہل و عیال کے اخراجات، اپنی ضروریاتِ زندگی اور آئندہ کے لیے مناسب زندگی کا خرچ رکھتے ہوں، تو ان پر حج واجب ہے اور یہی حج، حجۃ الاسلام کے بدلے کافی ہے۔ اس صورت کے علاوہ ان کا حج مستحب شمار ہوگا اور جب وہ بعد میں مستطیع ہوجائیں تو اُن پر حجۃ الاسلام ادا کرنا واجب ہوگا۔
62۔ اگرکوئی شخص حج کے راستے میں خدمت کیلئے اتنی اجرت کے ساتھ اجیر بن جائے جس سے وہ مستطیع ہو جائے تو اگرچہ استطاعت حاصل کرنے کے لئے اجیر بننا واجب نہیں تاہم قبول کرنے کے بعد اس پر حج واجب ہے بشرطیکہ اعمال حج کی ادائیگی ان خدمات کی انجام دہی میں رکاوٹ نہ بنے جن کے لئے وہ اجیر بنا ہے ورنہ اس اجرت سے اس سال مستطیع نہیں ہوگا ۔
63۔ جو شخص مالی استطاعت نہ رکھتا ہو چنانچہ کسی اور کی طرف سے حج کے لیے اجیر ہو اور عقد اجارہ کے بعداس کی اجرت کے علاوہ کسی اور مال سے مستطیع ہو جائے، تو اس سال اپنا حج ادا کرناچاہئے اور نیابتی حج اگلے سال کرے۔ لیکن اگر اجارہ اسی سال کے لیے ہوتو اجارہ باطل ہو جائے گا۔
64۔ اگر مستطیع شخص غفلت کی وجہ سے عمدا مستحب حج کی نیت کرے اگرچہ اگلے سال بہتر انداز میں حج کے اعمال انجام دینے یا مستطیع نہ ہونے کے خیال سے کیوں نہ ہواور بعد میں معلوم ہو کہ وہ اس وقت مستطیع تھا، تو اس حج کاحجۃ الاسلام کےبدلے کافی ہونا محل اشکال ہے اور احتیاط واجب کی بنا پر اگلے سال حج انجام دے۔ ہاں، اگر اس نے یہ نیت کی ہو کہ فی الحال جوواجب ہے وہی حج کر رہا ہوں اور یہ سمجھا ہو کہ اس وقت کا وظیفہ مستحب حج ہے، تو ایسی صورت میں وہ حج، حجۃ الاسلام کے بدلے کافی ہے۔
- ب ـ استطاعت بدنی
ب ـ استطاعت بدنی
65۔ استطاعت بدنی سے مراد یہ ہے کہ انسان کے پاس حج کے لئے جانے کی توانائی ہو۔ بنابراین بیمار یا ضعیف العمر شخص جو حج پر جانے کی طاقت نہیں رکھتا ہے یا حج کے لئے جانا اس کے لئے مشقت کا باعث ہے تو حج واجب نہیں ہے ۔
66۔ شرط ہے کہ احرام باندھنے کے وقت تک استطاعت بدنی برقرار ہوبنابر این اگر کوئی شخص حج کی نیت سے سفر کرے لیکن احرام سے پہلے ہی بیمار ہو جائے اور آگے نہ جا سکے، تو ثابت ہوگا کہ استطاعت بدنی نہیں رکھتا تھا اور اس پر حج واجب نہیں اور حج کے لئے نائب بنانا واجب نہیں ہے لیکن اگر حج اس پر پہلے سے فرض ہو چکا ہو چنانچہ آئندہ سالوں میں بھی بیماری سے صحت یابی اور توانائی حاصل کرکے بغیر مشقت کے حج انجام دینے کی امید نہ ہو تو نائب بنانا چاہئے۔ لیکن اگر صحت یابی اور حج انجام دینے کی امید ہو اگرچہ آئندہ سالوں میں کیوں نہ ہو، تو اولین ممکنہ سال میں خود حج کے لئے جانا چاہئے لیکن اگر احرام باندھنے کے بعد بیمار ہوجائے تو اس کے مخصوص احکام ہیں۔
- ج ـ راستے کی استطاعت
ج ـ راستے کی استطاعت
67۔ راستے کی استطاعت کا مطلب یہ ہے کہ حج کا راستہ کھلا اور محفوظ ہو۔ لہٰذا اگر راستہ بند ہواس طرح کہ انسان میقات یا حج کے اعمال مکمل نہ کرسکے اور اسی طرح کسی کے لئے راستہ کھلا ہے لیکن محفوظ نہیں مثلا راستے میں جان، جسم، مال یا عزت کا خطرہ ہو تو اس پر حج واجب نہیں ہے۔
68۔ اگر کوئی مالی استطاعت رکھتا ہو اور حج پر جانے کے لئے قرعہ اندازی کےلئے رجسٹریشن ضروری ہو چنانچہ احتمال ہو کہ اسی سال قرعہ اندازی میں ا س کا نام نکلے گا تو احتیاط واجب کی بناپر رجسٹریشن کروانی چاہئے۔ اگر قرعہ نہ نکلے، تو وہ مستطیع نہیں ہے اور اس پر حج واجب نہیں۔ اگر مستقبل میں حج کے لئے جانا انتظار کی صف میں رہنے سے مشروط ہو تو احتیاط واجب کی بنا پر استطاعت برقرار رکھنا چاہئے اور انتظار کی صف میں رہنا چاہئے تاکہ حج سے مشرف ہوجائے۔
69۔ اگر کسی نے حج کے لیے رجسٹریشن کروائی اور اس کی باری آئندہ سالوں میں ہوچنانچہ کسی کی حق تلفی اور حکومت اسلامی کے قوانین کی خلاف ورزی کے بغیر اپنی باری آگے لاسکتا ہو، تو ایسا کرنا واجب ہے۔
70۔ واجب حج کی ادائیگی کے لئے عورت کا سفر شوہر کی اجازت پر موقوف نہیں ہے اور شوہر اسے حج پر جانے سے نہیں روک سکتا۔
- د ـ استطاعت زمانی
د ـ استطاعت زمانی
71۔ استطاعتِ زمانی اس وقت حاصل ہوگی جب انسان کے پاس اتنا وقت ہو کہ وہ حج کے مخصوص دنوں میں وہاں پہنچ سکے۔ لہٰذا اگر کوئی اتنی دیر سے استطاعت حاصل کرے کہ وقت کی کمی کی وجہ سے حج کے لئے نہ پہنچ سکے یا اس کے لیے جانا بہت مشکل اور تکلیف دہ ہو، تو اس سال اس پر حج واجب نہیں ہے۔
- استطاعت کے بارے میں استفتاءات
استطاعت کے بارے میں استفتاءات
72۔ اگر کوئی شخص خمس یا زکات جیسے شرعی اموال سے گزر بسر کرتا ہے، اور اس کے پاس خمس اور زکات سے اتنی بچت ہو جائے جو حج کے اخراجات کے لیے کافی ہو تو باقی شرائط کی موجودگی میں وہ مستطیع ہے یا نہیں ؟
جواب: اگر شرعی طور پر دریافت کرنے کا حقدار ہے تو مستطیع ہوگا۔
73۔ چونکہ حج پر جانے سے پہلے میڈیکل چیک اپ ہوتا ہے اور جو لوگ جسمانی تونائی نہیں رکھتے ہیں ان کو اجازت نہیں ملتی، تو میڈیکل میں فیل ہونے والےافراد کی استطاعت ثابت نہیں ہوگی جن کے لئے ابھی تک راستہ نہیں کھلا ہے ؟
جواب: ایسے افراد مستطیع نہیں ہیں البتہ اگر انہیں صحت یاب ہونے کی امید ہو تو احتیاط واجب کی بناپر اپنی استطاعت مالی ختم نہ کریں ۔
74۔ اگر بیوی کا مہر مدت دار ہو جو ممکن ہونے کی صورت میں شوہر پر ادا کرنا لازم ہے پس اگر بیوی مطالبہ نہ کرے تو شوہر مستطیع ہوگا یا مہر ادا کرنا مقدم ہے؟
جواب: جب تک بیوی مطالبہ نہ کرے، شوہر پر مہر ادا کرنا واجب نہیں۔ اور اگر بیوی کی طرف سے مطالبہ کی صورت میں اسی وقت مہر آسانی سے ادا کر سکتا ہو تو حج انجام دینا مقدم ہے۔
75۔ کیا کوئی شخص کئی مہینوں کی بچت سے مستطیع بن سکتا ہے؟ خاص طور پر جب وہ جانتا ہو کہ اس کے پاس اور کوئی راستہ نہیں۔
جواب: اس طرح سے استطاعت حاصل کرنا واجب نہیں ہے لیکن اگر وہ حج کے اخراجات کے برابر رقم بچت کر لے اور باقی شرائط بھی پوری ہوں تو مستطیع شمار ہوگا۔
76۔ کیا والدین سے ملنا ایک شرعی، سماجی یا ذاتی ذمہ داری شمار ہوتی ہے؟ اور اگر ایسا ہے تو کیا ایک مستطیع شخص حج کو مؤخر کر سکتا ہے تاکہ مال والدین سے ملنے پر خرچ کرے، خاص طور پر جب اس کے لیے سفر وغیرہ کرنا پڑے؟
جواب: اگر انسان مستطیع ہو چکا ہے تو اس پر حج کرنا واجب ہے اور جائز نہیں ہے کہ حتی کہ صلہ رحم کی خاطر اپنی استطاعت کو ختم کرے۔صلہ رحم بالمشافہ ملاقات میں منحصر نہیں ہے بلکہ خط یا ٹیلی فون کے ذریعے بھی رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ البتہ اگر والدین دوسرےشہر میں ہوں اور ان کی یا انسان کی اپنی حالت کی وجہ سے والدین سے ملاقات ضروری ہو اور عرفاً بھی یہ اس کی ذمہ داری سمجھی جائے، اور اس کے پاس دونوں (ملاقات اور حج) کے لیے کافی پیسہ نہ ہو، تو وہ مستطیع شمار نہیں ہوگا۔
77۔ اگربچے کو دودھ پلانے والی عورت مستطیع ہو جائےچنانچہ حج پر جانا اس کے شیرخوار بچے کے لیے نقصان دہ ہو تو کیا وہ حج پر نہ جانے کے مجاز ہے؟
جواب: اگر ایسا نقصان ہو کہ ماں کا بچےکے ساتھ رہنا ضروری ہو، یا حج پر جانا دودھ پلانے والی عورت خود کے لئے مشقت اور سختی کا باعث ہوتواس پر حج واجب نہیں ہے۔
78۔ اگر عورت کے زیور ات کی قیمت حج کی استطاعت کے لیے کافی ہو تو کیازیورات بیچ کر حج پر جانا ہوگا؟
جواب: اگر زیور ات کی ضرورت ہو اور اس کی حیثیت سے بڑھ کر نہ ہوں تووہ مستطیع نہیں ہے اور حج کے لیے زیورات کو بیچنا واجب نہیں ہے۔
79۔ اگر عورت حج پر جانے کی قابل ہو جائے لیکن اس کا شوہر اجازت نہ دے، تو عورت کا کیا حکم ہے؟
جواب: عورت پر واجب حج ادا کرنے کے لیے شوہر کی اجازت شرط نہیں ہے۔ البتہ اگر شوہر کی اجازت کے بغیر حج پر جانا اس کے لیےسختی اور مشقت کا باعث بنےتو وہ مستطیع نہیں ہوگی اور اس پر حج واجب نہیں ہے۔
80۔ میرے شوہر نے نکاح کے وقت وعدہ کیا تھا کہ مجھے حج پر لے جائے گا۔ کیا میرےاوپرحج واجب ہو گیا ہے؟
جواب: وعدے سے حج واجب نہیں ہوتا۔
81۔ کیا انسان کے لئے جائز ہے کہ اپنے ضروری اخراجات میں سختی برداشت کر ے تاکہ حج کے لیے استطاعت حاصل کرے؟
جواب: ایسا کرنا جائز ہے، لیکن شرعاً واجب نہیں۔ البتہ یہ سختی صرف اپنی ذات تک محدود ہےاور بال بچوں جن کا نان و نفقہ اس پر واجب ہے، ان پر معمول سے زیادہ سختی کرنا جائز نہیں ہے۔
82۔ میں ماضی میں دینی مسائل کا پابند نہیں تھا اور میرے پاس اتنا مال تھا جو حج کے سفر کے لئے کافی تھا (یعنی مستطیع تھا)، مگر اس وقت کے حالات کی وجہ سے حج پر نہیں گیا۔ اب میرا وظیفہ کیا ہے؟ یاد رہے کہ اس وقت میرے پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ حج پر جا سکوں، دوسری طرف اس کام کے لئے دو راستے ہیں: حج کے سرکاری ادارے میں رجسٹریشن کراؤں یا زیادہ اخراجات ادا کر کے ذاتی طور پر جاؤ ں؛ پس کیا سرکاری رجسٹریشن کافی ہے؟
جواب: اگر ماضی میں آپ تمام شرائط کے ساتھ مستطیع تھے تو آپ کے ذمے حج واجب ہوچکا ہے اور آپ کو ہر ممکن اور شرعی طریقے سے حج ادا کرنا ہوگا بشرطیکہ سختی اور مشقت سے دوچار نہ ہو۔ لیکن اگر ماضی میں آپ مکمل مستطیع نہیں ہوئے تھے، تو مذکورہ فرض میں آپ پر حج واجب نہیں ہے۔
سوال 83: کیا جان کا خطرہ استطاعت حاصل ہونے میں مانع ہے؟
جواب: اگر جان کا خطرہ عقلایی نہ ہوتو استطاعت میں مانع نہیں ہے۔
84۔ اگرورثاء کی اجازت سے میّت کے کوٹے سے حج پر جانا ممکن ہو توکیاواجب کے مقدمات مثلا رجسٹریشن کے عنوان سے اجازہ لینا واجب ہے؟ اگر اجازت کے بغیر اسی کوٹے سے حج پر چلا جائےتو اس فرض کے ساتھ کہ استطاعت کی دیگر شرائط موجود ہیں، کیا یہ حج صحیح ہے اور حجۃ الاسلام کے لئے کافی ہوگا؟
جواب: اجازت لینا واجب نہیں ہے، مگرمیت کے کوٹے سے استفادہ کرنے کے لیے اجازت ضروری ہے۔چنانچہ کسی نے بغیر اجازت اس سے استفادہ کیا تو میقات کے بعد بھی اس کی استطاعت اس کوٹے کی بنیاد پر ہو تو اس کا حج حجہ الاسلام شمار نہیں ہوگا لیکن اگر میقات کے بعد کوٹے سے قطع نظر استطاعت کی شرائط موجود ہوں تو ا س کا حج حجہ الاسلام کے بدلے کافی ہوگا۔
-
-
-
- تیسر ی فصل: حج نیابتی (کسی کی طرف سے حج کرنا)